Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 14

سورة العنكبوت

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَلَبِثَ فِیۡہِمۡ اَلۡفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمۡسِیۡنَ عَامًا ؕ فَاَخَذَہُمُ الطُّوۡفَانُ وَ ہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ ﴿۱۴﴾

And We certainly sent Noah to his people, and he remained among them a thousand years minus fifty years, and the flood seized them while they were wrongdoers.

اور ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان میں ساڑھے نو سو سال تک رہے پھر تو انہیں طوفان نے دھر پکڑا اور وہ تھے ظالم ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nuh and His People Allah tells: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ ... And indeed We sent Nuh to his people, Here Allah consoles His servant and Messenger Muhammad by telling him that Nuh, peace be upon him, stayed among his people for this long period of time, calling them night and day, in secret and openly, but in spite of all that they still persisted in their aversion to the truth, turning away from it and disbelieving in him. Only a few of them believed with him. Allah says: ... فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلاَّ خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ and he stayed among them a thousand years less fifty years; and the Deluge overtook them while they were wrongdoers. meaning, `after this long period of time, when the Message and the warning had been of no avail, so, O Muhammad, do not feel sorry because of those among your people who disbelieve in you, and do not grieve for them, for Allah guides whomsoever He wills and leaves astray whomsoever He wills. The matter rests with Him and all things will return to Him.' إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُوْمِنُونَ وَلَوْ جَأءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ Truly, those, against whom the Word of your Lord has been justified, will not believe, even if every sign should come to them. (10:96-97) Know that Allah will help you and support you and cause you to prevail, and He will defeat and humiliate your enemies, and make them the lowest of the low. It was recorded that Ibn Abbas said: "Nuh received his mission when he was forty years old, and he stayed among his people for a thousand years less fifty; after the Flood he lived for sixty years until people had increased and spread."

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی ہے ۔ آپ کو خبر دی جاتی ہے کہ نوح علیہ السلام اتنی لمبی مدت تک اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلاتے رہے ۔ دن رات پوشیدہ اور ظاہر ہر طرح آپ نے انہیں اللہ کی دین کی طرف دعوت دی ۔ لیکن وہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں بڑھتے گئے ۔ بہت ہی کم لوگ آپ پر ایمان لائے آخرکار اللہ کا غضب ان پر بصورت طوفان آیا اور انہیں تہس نہس کردیا تو اے پیغمبر آخرالزمان آپ اپنی قوم کی اس تکذیب کو نیا خیال نہ کریں ۔ آپ اپنے دل کو رنجیدہ نہ کریں ہدایت وضلالت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ جن لوگوں کا جہنم میں جانا طے ہوچکا ہے انہیں تو کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ تمام نشانیاں گو دیکھ لیں لیکن انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا بالآخر جیسے نوح علیہ السلام کو نجات ملی اور قوم ڈوب گئی اسی طرح آخر میں غلبہ آپ کا ہے اور آپ کے مخالفین پست ہوں گے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ چالیس سال کی عمر میں نوح علیہ السلام کو نبوت ملی اور نبوت کے بعد ساڑھے نو سو سال تک آپ نے اپنی قوم کو تبلیغ کی ۔ طوفان کی عالمگیر ہلاکت کے بعد بھی نوح علیہ السلام ساٹھ سال تک زندہ رہے یہاں تک کہ بنو آدم کی نسل پھیل گئی اور دنیا میں یہ بہ بکثرت نظر آنے لگے ۔ قتادہ فرماتے ہیں نوح علیہ السلام کی عمر کل ساڑھے نو سو سال کی تھی تین سو سال تو آپ کے بےدعوت ان میں گذرے تین سو سال تک اللہ کی طرف اپنی قوم کو بلایا اور ساڑے تین سو سال بعد طوفان کے زندہ رہے لیکن یہ قول غریب ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلاتے رہے ۔ عون بن ابی شداد کہتے ہیں کہ جب آپ کی عمر ساڑھے تین سو سال کی تھی اس وقت اللہ کی وحی آپ کو آئی اس کے بعد ساڑھے نو سو سال تک آپ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے رہے اس کے بعد پھر ساڑھے تین سو سال کی عمر اور پائی ۔ لیکن یہ بھی غریب قول ہے ۔ زیادہ درست قول ابن عباس کا قول نظر آتا ہے واللہ اعلم ۔ ابن عمر نے مجاہد سے پوچھا کہ نوح علیہ السلام اپنی قوم میں کتنی مدت تک رہے؟ انہوں نے کہا ساڑھے نو سو سال ۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے بعد سے لوگوں کے اخلاق ان کی عمریں اور عقلیں آج تک گھٹتی ہی چلی آئیں ۔ جب قوم نوح پر اللہ کا غضب نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اپنے نبی کو اور ایمان والوں کو جو آپ کے حکم سے طوفان سے پہلے کشتی میں سوار ہوچکے تھے بچالیا ۔ سورۃ ہود میں اس کی تفصیل گزرچکی ہے اس لئے یہاں دوبارہ وارد نہیں کرتے ۔ ہم نے اس کشتی کو دنیا کے لئے نشان بنادیا یا تو خود اس کشتی کو جیسے حضرت قتادۃ کا قول ہے کہ اول اسلام تک وہ جودی پہاڑ پر تھی ۔ یا یہ کہ کشتی کو دیکھ کر پھر پانی کے سفر کے لئے جو کشتیاں لوگوں نے بنائیں ان کو انہیں دیکھ کر اللہ کا وہ بچانا یاد آجاتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ 41؀ۙ ) 36-يس:41 ) ہماری قدرت کی نشانی ان کے لئے یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں بٹھا دیا ۔ اور ہم نے ان کے لئے اور اسی جیسی سواریاں بنادیں ۔ سورۃ الحاقہ میں فرمایا جب پانی کا طوفان آیا تو ہم نے تمہیں کشتی میں بٹھالیا ۔ اور ان کا ذکر تمہارے لئے یادگار بنادیا تاکہ جن کانوں کو اللہ نے یاد کی طاقت دی ہے وہ یاد رکھ لیں ۔ یہاں شخص سے جنس کی طرف چڑھاؤ کیا ہے ۔ جیسے آیت ( وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـيٰطِيْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيْرِ Ĉ۝ ) 67- الملك:5 ) والی آیت میں ہے کہ آسمان دنیا کے ستاروں دنیا کے ستاروں کا باعث زینت آسمان ہونا بیان فرما کر ان کی وضاحت میں شہاب کا شیطانوں کے لئے رجم ہونا بیان فرمایا ہے ۔ اور آیت میں انسان کے مٹی سے پیدا ہونے کا ذکر کرکے فرمایا ہے پھر ہم نے اسے نطفے کی شکل میں قرار گاہ میں کردیا ۔ ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں ھا کی ضمیر کا مرجع عقوبت اور سزا کو کیا جائے واللہ اعلم ( یہاں یہ خیال رہے کہ تفسیر ابن کثیر کے بعض نسخوں میں شروع تفسیر میں کچھ عبارت زیادہ ہے جو بعض نسخوں میں نہیں ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کا ساڑھے نو سو سال تک آزمایا جانا بیان کیا اور ان کے قول کو ان کی اطاعت کے ساتھ آزمانا بتلایا کہ ان کی تکذیب کی وجہ سے اللہ نے انہیں غرق کردیا ۔ پھر اس کے بعد جلادیا ۔ پھر قوم ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کا ذکر کیا کہ انہوں نے بھی اطاعت ومتابعت نہ کی پھر لوط علیہ السلام کی آزمائش کا ذکر کیا اور ان کی قوم کا حشر بیان فرمایا ۔ پھر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے واقعات سامنے رکھے پھر عادیوں ، ثمودیوں ، قارونیوں ، فرعونیوں ، ہامانیوں وغیرہ کا ذکر کیا کہ اللہ پر ایمان لانے اور اس کی توحید کو نہ ماننے کی وجہ سے انہیں بھی طرح طرح کی سزائیں دی گئیں ۔ پھر اپنے پیغمبر اعظم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین اور منافقین سے تکالیف سہنے کا ذکر کیا اور آپ کو حکم دیا کہ اہل کتاب سے بہترین طریق پر مناظرہ کریں )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کی دعوت و تبلیغ کی عمر ان کی پوری عمر کتنی تھی ؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی۔ بعض کہتے ہیں چالیس سال نبوت سے قبل اور ساٹھ سال طوفان کے بعد، اس میں شامل کر لئے جائیں۔ اور بھی کئی اقوال ہیں۔ واللہ اعلم۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٤] پچھلی آیات میں ان کفار کا ذکر ہو رہا تھا جو دور نبوی میں رسول اللہ کے مخاطب اور مخالف تھے۔ آگے بعض دوسرے انبیاء اور ان کے مخالفین کا ذکر آرہا ہے اور ایسے واقعات کا آغاز حضرت نوح سے کیا جارہا ہے۔ حضرت نوح کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ نو سو پچاس برس آپ نے اپنی قوم کو تبلیغ کی پھر طوفان نوح کے بعد آپ ساٹھ برس زندہ رہے۔ اس لحاظ سے آپ کی کل عمر ایک ہزار پچاس برس بنتی ہے اور اپنی عمر کا بیشتر حصہ آپ نے اپنی قوم کو سمجھانے اور ان سے بحث وجدال میں گزارا۔ وہ لوگ گویا ان کفار مکہ سے بھی زیادہ بدبخت تھے۔ انہوں نے حضرت نوح کو اس قدر پریشان کیا اور ناک میں دم کردیا تھا کہ نوح نے ان سے تنگ آکر اور ان سے سخت مایوس ہو کر اللہ سے بددعا کی تھی کہ یا اللہ ان پر ایسی تباہی نازل فرما کہ ان میں سے ایک گھرانہ بھی زندہ نہ بچے۔ چناچہ اللہ نے طوفان کے ذریعہ اس قوم کو تباہ کر ڈالا۔ اور یہ واقعہ پہلے کئی مقامات پر تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ : سورت کے آغاز میں جو فرمایا تھا کہ ہم نے پہلے لوگوں کی بھی آزمائش کی، اس کی کچھ تفصیل کے لیے ان پیغمبروں کا ذکر فرمایا جنھوں نے لمبے عرصے تک آزمائش پر صبر کیا اور قوم کی طرف سے بیشمار اذیتوں کے باوجود ان کی خیر خواہی میں اور انھیں دعوت دینے میں کمی نہیں کی۔ مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے نقش قدم پر چلنے والوں کو تسلی دینا ہے۔ ان واقعات کا آغاز نوح (علیہ السلام) سے فرمایا، کیونکہ وہ پہلے رسول ہیں جو زمین والوں کی طرف بھیجے گئے۔ نوح (علیہ السلام) کا ذکر قرآن مجید میں تینتالیس (٤٣) جگہ آیا، ان واقعات میں انبیاء اور اہل ایمان کی آزمائش کا ذکر بھی ہے اور اس بات کا بھی کہ کافر اس گمان میں نہ رہیں کہ وہ ہماری گرفت سے بچ نکلیں گے۔ نوح (علیہ السلام) کے متعلق مزید دیکھیے سورة آل عمران (٣٣) ، نساء (١٦٣) ، انعام (٨٤) ، اعراف (٥٩ تا ٦٤) ، یونس (٧١ تا ٧٣) ، انبیاء (٧٦، ٧٧) ، مومنون (٢٣ تا ٣٠) ، فرقان (٣٧) ، شعراء (١٠٥ تا ١٢٢) ، صافات (٧٥ تا ٨٢) ، قمر (٩ تا ١٥) ، حاقہ (١١، ١٢) اور سورة نوح مکمل۔ فَلَبِثَ فِيْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا : نوح (علیہ السلام) کی اپنی قوم کو سمجھانے کی مدت ساڑھے نو سو (٩٥٠) سال تھی۔ ظاہر ہے کہ منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے بھی انھوں نے عمر کا ایک حصہ گزارا ہوگا اور طوفان کے بعد بھی زندہ رہے ہوں گے۔ مفسرین کے ان کی کل عمر کے متعلق مختلف اقوال ہیں، مگر صحت سند کے ساتھ کوئی بات ثابت نہیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ نوح (علیہ السلام) کے اپنی قوم میں رہنے کی مدت بیان کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب یہ ہے کہ اس میں دو فائدے ہیں، ایک یہ کہ کفار کے اسلام قبول نہ کرنے اور کفر پر اڑے رہنے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل تنگ ہوتا تھا، آپ کی تسلی کے لیے فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) تقریباً ہزار برس دعوت دیتے رہے، جس کے نتیجے میں ان کی قوم میں بہت تھوڑے لوگ ہی ایمان لائے، اس کے باوجود وہ نہ اکتائے، نہ انھوں نے دعوت دینا ترک کیا، تو آپ کا زیادہ حق بنتا ہے کہ صبر کریں، کیونکہ آپ ان کے مقابلے میں بہت تھوڑا عرصہ ان میں رہے ہیں اور آپ پر ایمان لانے والے کہیں زیادہ ہیں۔ دوسرا فائدہ کفار کو تنبیہ ہے کہ انھیں عذاب میں تاخیر سے کسی دھوکے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہزار برس کی مہلت بھی دے دیا کرتا ہے، مگر کفر پر اصرار کرنے والی قوم پر آخر کار اس کا عذاب آجاتا ہے، جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم جب ظلم وتعدی سے باز نہ آئی تو طوفان نے انھیں آلیا۔ ” فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ “ سے ظاہر ہے کہ طوفان کا باعث ان کا ظلم پر اصرار تھا، اگر وہ توبہ کرلیتے تو ان پر عذاب نہ آتا۔ 3 بعض لوگوں کو نوح (علیہ السلام) کی اتنی عمر پر تعجب ہوتا ہے، مگر اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح قرآن مجید میں نوح (علیہ السلام) کی طویل عمر کا ذکر ہے، صحیح حدیث کے مطابق انسان کی پیدائش کی ابتدا میں اس کا قد بھی آج کے قد سے کہیں لمبا تھا۔ مدت ہائے دراز گزرنے کے ساتھ دونوں میں کمی آتی گئی۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہِ ، طُوْلُہُ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا۔۔ فَکُلُّ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ آدَمَ ، فَلَمْ یَزَلِ الْخَلْقُ یَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّی الْآنَ ) [ بخاري، الاستئذان، باب بدء السلام : ٦٢٢٧ ] ” اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس کی صورت پر پیدا کیا، اس کا طول (قد) ساٹھ ہاتھ تھا۔۔ تو جو شخص بھی جنت میں جائے گا آدم کی صورت پر ہوگا۔ پھر بعد میں اب تک خلقت (کا قد) کم ہوتا چلا گیا ۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It was described in the previous verses that infidels keep on their opposition and afflictions on Muslims as a routine. In the above verses the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was consoled by relating some incidents of earlier people that this practice of harassment of believers by the infidels is going on for long. But they never lost hope due to such harassments. Therefore, you too should not care about the troubles afflicted by the infidels, and should keep on performing firmly your prophetic obligations. Among the earlier prophets, the story of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) was related first. It was so because he was the very first prophet who had to confront with the infidelity and association of others with Allah Ta’ ala. Secondly, any other prophet did not experience the extent of harassment he had to put up with from his own people. It was because he had the exclusive honour from Allah Ta’ ala of having very long life. His life span of nine hundred and fifty years (950) years as quoted by the Holy Qur&an is true without any element of doubt. However, in certain narrations it is mentioned that this relates to the period of his preaching and teaching, and there are additional periods of his life before this and after the deluge. وَاللہُ أعلَم Living such an unusually long life continuously in preaching and teaching, and enduring all sorts of afflictions, including drubbing and strangling throughout this period, from the infidels was a special distinction of Sayyidna Nuh (علیہ السلام) . Despite all these difficulties and tribulations he did not lose heart ever. The second story is that of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) who too passed through many testing trials. First the fire of Namrud, then migration from Syria to a howling deserted place, then slaughtering of the son. All these tribulations tell about the hardships he had gone through. Within the story of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) a brief mention is also made of Lut (علیہ السلام) and his people. Then upto the end of the Surah mention is made of some other prophets and their antagonistic people. All these stories were related to keep the spirit of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) high, and to make Muslims steadfast to the religion.

خلاصہ تفسیر اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف (پیغمبر بنا کر) بھیجا سو وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار برس رہے (اور قوم کو سمجھاتے رہے) پھر (جب اس پر بھی وہ لوگ ایمان نہ لائے تو) ان کو طوفان نے آ دبایا اور وہ بڑے ظالم لوگ تھے (کہ اتنی مدت دراز کی فرمائش سے بھی متاثر نہ ہوئے) پھر (اس طوفان آنے کے بعد) ہم نے ان کو اور کشتی والوں کو (جو ان کے ساتھ سوار تھے اس طوفان سے) بچا لیا اور ہم نے اس واقعہ کو تمام جہان والوں کے لئے (جن کو تواتر کے ساتھ خبر پہنچی) موجب عبرت بنایا (کہ غور کر کے سمجھ سکتے ہیں کہ مخالفت حق کا کیا انجام ہے) اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے (جو کہ بت پرست تھے) فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو (اور ڈر کر شرک چھوڑ دو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم کچھ سمجھ رکھتے ہو (بخلاف طریقہ شرک کے کہ محض بےوقوفی ہے کیونکہ) تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر محض بتوں کو (جو بالکل عاجز اور ناکارہ ہیں) پوج رہے ہو اور (اس کے متعلق) جھوٹی باتیں تراشتے ہو، (کہ ان سے ہماری روزی روزگار کی کار برآری ہوتی ہے اور یہ محض جھوٹ ہے کیونکہ) تم خدا کو چھوڑ کر جن کو پوج رہے ہو وہ تم کو کچھ بھی رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے، سو تم لوگ رزق خدا کے پاس سے تلاش کرو، (یعنی اس سے مانگو، مالک رزق وہی ہے) اور (جب مالک رزق وہی ہے تو) اسی کی عبادت کرو اور (چونکہ پچھلا رزق بھی اسی کا دیا ہوا ہے تو) اسی کا شکر کرو (ایک تو سبب وجوب عبادت کا یہ ہے کہ وہ مالک نفع کا ہے) اور (دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ مالک ضرر کا بھی ہے چنانچہ) تم سب کو اسی کی طرف لوٹ جانا ہے (اس وقت کفر پر تم کو سزا دے گا) اور اگر تم (ان باتوں میں) مجھ کو جھوٹا سمجھو تو (یاد رکھو کہ میرا کوئی ضرر نہیں) تم سے پہلے بھی بہت سی امتیں (اپنے پیغمبروں کو) جھوٹا سمجھ چکی ہیں (مگر ان پیغمبروں کا کوئی ضرر نہیں ہوا) اور (وجہ اس کی یہ ہے کہ) پیغمبر کے ذمہ تو صرف (بات کا) صاف طور پر پہنچا دینا ہے (منوانا اس کا کام نہیں پس سب انبیاء تبلیغ کے بعد سبکدوش ہوگئے، اسی طرح میں بھی، پس ہم کو کوئی ضرر نہیں پہنچا۔ البتہ ماننا تمہارے ذمہ واجب تھا اس کے ترک سے تمہارا ضرر ضرور ہوا۔ معارف و مسائل سابقہ آیات میں کفار کی مخالفت اور ان کی ایذاؤں کا بیان تھا جو مسلمانوں کو پہنچتی رہتی ہیں۔ آیات صدر میں اس طرح کے واقعات پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے انبیاء سابقین اور ان کی امتوں کے چھ حالات کا بیان ہے، کہ قدیم سے یہ سلسلہ اہل ہدایت کو کفار کی طرف سے ایذاؤں کا جاری ہے۔ مگر ان تکلیفوں کی وجہ سے انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری، اس لئے آپ بھی ایذاء کفار کی پرواہ نہ کریں، اپنے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں مضبوطی سے کام کرتے رہیں۔ انبیاء سابقین میں سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ ذکر فرمایا، اول تو اس وجہ سے کہ وہ ہی سب سے پہلے پیغمبر ہیں جن کو کفر و شرک کا مقابلہ کرنا پڑا۔ دوسرے اس لئے بھی کہ جتنی ایذائیں اپنی قوم سے ان کو پہنچیں وہ کسی دوسرے پیغمبر کو نہیں پہنچیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عمر طویل دینے کا خصوصی امتیاز عطا فرمایا، اور ساری عمر کفار کی ایذاؤں میں بسر ہوئی، ان کی عمر قرآن کریم میں جو نو سو پچاس سال مذکور ہے وہ تو قطعی اور یقینی ہے ہی، بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ یہ عمر زمانہ تبلیغ و دعوت کی ہے اور اس سے پہلے اور طوفان کے بعد مزید عمر کا ذکر ہے۔ واللہ اعلم بہرحال اتنی غیر معمولی طویل عمر مسلسل دعوت و تبلیغ میں صرف کرنا اور ہر تبلیغ و دعوت کے وقت کفار کی طرف سے طرح طرح کی ایذائیں مار پیٹ اور گلا گھونٹنے کی سہتے رہنا اور ان سب کے باوجود کسی وقت ہمت نہ ہارنا یہ سب خصوصیات حضرت نوح (علیہ السلام) کی ہیں۔ دوسرا قصہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا جو بڑے بڑے سخت امتحانات سے گذرے ہیں۔ آتش نمرود، پھر ملک شام سے ہجرت کر کے ایک لق و دق جنگل بےآب وگیاہ کا قیام، پھر صاحبزداے کے ذبح کرنے کا واقعہ وغیرہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے قصہ کے ضمن میں حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی امت کے واقعات اور آخر سورة تک دوسرے بعض انبیاء اور ان کی سرکش امتوں کے حالات کا سلسلہ یہ سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت محمدیہ کی تسلی کے لئے اور ان کو دین کے کام پر ثابت قدم رکھنے کے لئے بیان ہوا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِيْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا۝ ٠ ۭ فَاَخَذَہُمُ الطُّوْفَانُ وَہُمْ ظٰلِمُوْنَ۝ ١٤ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ عام العَامُ کالسّنة، لکن كثيرا ما تستعمل السّنة في الحول الذي يكون فيه الشّدّة أو الجدب . ولهذا يعبّر عن الجدب بالسّنة، والْعَامُ بما فيه الرّخاء والخصب، قال : عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] ، وقوله : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت/ 14] ، ففي كون المستثنی منه بالسّنة والمستثنی بِالْعَامِ لطیفة موضعها فيما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، ( ع و م ) العام ( سال ) اور السنۃ کے ایک ہی معنی ہیں ۔ لیکن السنۃ کا لفظ عموما اس سال پر بولا جاتا ہے جس میں تکلیف یا خشک سالی ہو اس بنا پر قحط سالی کو سنۃ سے تعبیر کرلیتے ہیں اور عامہ اس سال کو کہا جاتا ہے جس میں وسعت اور فروانی ہو قرآن پاک میں ہے : ۔ عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] اس کے بعد ایک ایسا سال آئیگا جس میں خوب بارش ہوگی اور لوگ اس میں نچوڑیں گے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے ۔ میں لفظ سنۃ کو مستثنی منہ اور لفظ عام کو مستثنی لانے میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد کسی دوسرے موقع پر بیان کریں گے انشا اللہ ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ طُّوفَانُ والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب نے آپکڑا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) ہم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف رسول بناکر بھیجا سو وہ اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تک توحید کی طرف بلاتے رہے مگر اس کے باوجود بھی وہ لوگ ایمان نہیں لائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو طوفان کے ذریعے سے ہلاک کردیا وہ بڑے کافر تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

یہاں سے سورت کے دوسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ حصہ تین رکوعوں پر مشتمل ہے اور اس میں بنیادی طور پر انباء الرسل کا مضمون ہے ‘ لیکن وقفے وقفے سے بین السطور میں مکہ کے ماحول میں جاری کش مکش کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔ اس کے بعد آخری تین رکوعوں پر مشتمل اس سورت کے آخری حصے میں مشرکین اور اہل ایمان سے خطاب ہے۔ یہ دو نوں موضوعات سورت کے آخری حصے میں یوں متوازی چلتے نظر آتے ہیں جیسے ایک رسی کی دو ڈوریاں آپس میں گندھی ہوئی ہوں۔ ان میں سے کبھی ایک ڈوری نمایاں ہوتی نظر آتی ہے تو کبھی دوسری۔ سورت کے اس حصے میں اہل ایمان سے خطاب کے دوران انہیں دس اہم ہدایات بھی دی گئی ہیں جو غلبۂ دین کی جدوجہد کرنے اور اس راستے میں مصائب و مشکلات برداشت کرنے والے مجاہدین کے لیے رہتی دنیا تک گویا مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ آیت ١٤ (وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا ط) ” یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کے درمیان ساڑھے نو سو سال تک رہے۔ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر قرآن مجید میں متعدد بار آچکا ہے لیکن یہ بات اور کہیں نہیں کہی گئی کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال کا طویل عرصہ اپنی قوم کے ساتھ گزارا۔ اگر ہم مکہ کے ان حالات کا نقشہ ذہن میں رکھیں جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی تھی اور پہلے رکوع کا مضمون بھی مد نظرّ رکھیں تو حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت اور جدوجہد کے ساڑھے نو سو سال کے ذکر کی وجہ صاف نظر آجاتی ہے اور بین السطور میں یہاں جو پیغام دیا جا رہا ہے وہ اقبال کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے : ؂ یہ موج پریشاں خاطر کو پیغام لب ساحل نے دیا ہے دور وصال بحر ابھی ‘ تو دریا میں گھبرا بھی گئی ! کہ اے مسلمانو ! تم لوگ چند برس میں ہی گھبرا گئے ہو۔ ذرا ہمارے بندے نوح (علیہ السلام) کی صدیوں پر محیط جاں گسل جدوجہد کا تصور کرو اور پھر ان کے صبر و استقامت کا اندازہ کرو ! چناچہ تم لوگوں کو اس راستے میں مزید امتحانات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے : ؂ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ! (اقبال) سورۃ الانعام میں اسی حوالے سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے یوں فرمایا گیا ہے : (وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰیٓ اَتٰٹہُمْ نَصْرُنَاج ولاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِج وَلَقدْ جَآءَ کَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ ) ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بھی رسولوں ( علیہ السلام) کو جھٹلایا گیا ‘ تو انہوں نے اس تکذیب پر صبر کیا ‘ اور انہیں ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ان تک ہماری مدد پہنچ گئی۔ اور (دیکھئے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) اللہ کے ان کلمات کو بدلنے والا کوئی نہیں ‘ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رسولوں ( علیہ السلام) کی خبریں تو آ ہی چکی ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21 For comparison, see AI-i-`Imran: 33-34, An-Nisa': 163, AI-An`am: 84, AI-A'raf: 59-64, Yuuns: 71-73, Hud: 25-48, AI-Anbiyaa: 76-77, AlMu'minun: 23-30, AI-Furqan: 37, Ash-Shu araa: 105-123, As-Saffat: 75-82, AIQamar: .9-15, AI-Haaqqah: 11-12, Nuh (the whole of it). One should keep the initial verses of the Surah in view in order to understand the relevancy of these stories in this context. There, on the one hand, it has been said to the believers, "We have put to the test all those believers who have passed before you", and, on the other, the wicked disbelievers have been warned to the effect: "You should not have the misunderstanding that you will outstrip Us and escape Our grasp." It is to impress these two things that these historical events are being related here . 22 This does not mean that the Prophet Noah lived for 950 years, but it means that after his appointment to Prophethood till the coming of the Flood, he went on making efforts for 950 years for the reformation of his wicked people, and he did not lose heart even though he suffered persecutions for such a long time. The same is the aim of the discourse here. The believers are being told: "You have been suffering persecutions and experiencing stubbornness of your wicked opponents hardly for six years or so. Just imagine the patience and resolution and firmness of Our servant who braved such afflictions and hardships continuously for nine and a half centuries." The Qur'an and the Bible differ about the age of the Prophet Noah. The Bible says that he lived for 950 years. He was 600 years old when the Flood came, and lived for another 350 years after the Flood. (Gen. 7: 6 and 9: 28-29). But according to the Qur'an, he must have lived for at least a thousand years, because 950 years is the time that he spent in preaching his mission after his appointment to Prophethood till the coming of the Flood. Evidently, he must have been appointed to Prophethood after he had attained his maturity, and must have lived some life after the Flood also. For some people such a long life is inconceivable. But in this world of God strange happenings are not rare. Wherever one may look one will see extraordinary manifestations of His power. The occurrence of certain events and things in a usual form and manner is no proof that the event or thing cannot happen in an unusual and extraordinary way. To break these assumptions there exists a long list of unusual events and things that have taken place in every kind of creation in every part of the universe. In particular, the person who has a clear concept of God's being AII-Powerful, cannot be involved in the misunderstanding that it is not possible for God, Who is the Creator of life and death, to grant a life of a thousand years or so to any man. The fact is that man of his own will and wish cannot live even for a moment, but if Allah wills, He can make him live for as long as He pleases. 23 That is, the Flood came when they still persisted in their wickedness. Had they desisted from it before the coming of the Flood Allah would not have sent this torment on them.

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 21 تقابل کے لیے ملاحظۃ ہو آل عمران آیات 33 ۔ 34 ۔ النساء ، 163 ۔ الانعام 84 ۔ الاعراف 59 تا 64 ۔ یونس 71 ۔ 73 ۔ ہود 25 ۔ 48 ۔ الانبیاء 76 ۔ 77 ۔ المومنون 23 ۔ 30 ۔ الفرقان 37 ۔ الشعرا 105 تا 123 ۔ الصافات 75 ۔ 82 ۔ القمر 9 ۔ 15 ۔ الحاقہ 11 ۔ 12 ۔ نوح مکمل ۔ یہ قصے یہاں جس مناسبت سے بیان کیے جارہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے سورہ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے وہاں ایک طرف اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ان سب اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالا ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ۔ دوسری طرف ظالم کافروں سے فرمایا گیا ہے کہ تم اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ تم ہم سے بازی لے جاؤ گے اور ہماری گرفت سے بچ نکلو گے ۔ انہی دو باتوں کو ذہن نشین کرنے کے لیے یہ تاریخی واقعات بیان کیے جارہے ہیں ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 22 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضرت نوح کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے کے بعد سے طوفان تک پورے ساڑھے نو سو برس حضرت نوح اس ظالم و گمراہ قوم کی اصلاح کے لیے سعی فرماتے رہے ، اور اتنی طویل مدت تک ان کی زیادتیاں برداشت کرنے پر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری ، یہی چیز یہاں بیان کرنی مقصود ہے ۔ اہل ایمان کو بتایا جارہا ہے کہ تم کو تو ابھی پانچ سات برس ہی ظلم و ستم سہتے اور ایک گمراہ قوم کی ہٹ دھرمیاں برداشت کرتے گزرے ہیں ۔ ذرا ہمارے اس بندے کے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کو دیکھو جس نے مسلسل ساڑھے نو صدیوں تک ان شدائد کا مقابلہ کیا ۔ حضرت نوح کی عمر کے بارے میں قرآن مجید اور بائیبل کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ بائیبل کا بیان یہ ہے کہ ان کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی ۔ وہ چھ سو برس کے تھے جب طوفان آیا ۔ اور اس کے بعد ساڑھے تین سو برس اور زندہ رہے ( پیدائش ، باب7 ۔ آیت 6 ۔ باب 9 ۔ آیت 28 ۔ 29 ) لیکن قرآن کے بیان کی رو سے ان کی عمر کم از کم ایک ہزار سال ہونی چاہیے کیونکہ ساڑھے نو سو سال تو صرف وہ مدت ہے جو نبوت پر مامور ہونے کے بعد سے طوفان برپا ہونے تک انہوں نے دعوت و تبلیغ میں صرف کی ۔ ظاہر ہے کہ نبوت انہیں پختہ عمر کو پہنچنے کے بعد ہی ملی ہوگی ۔ اور طوفان کے بعد بھی وہ کچھ مدت زندہ رہے ہوں گی ۔ یہ طویل عمر بعض لوگوں کے لیے ناقابل یقین ہے ۔ لیکن خدا کی اس خدائی میں عجائب کی کمی نہیں ہے ، جس طرف بھی آدمی نگاہ ڈالے اس کی قدرت کے کرشمے غیر معمولی واقعات کی شکل میں نظر آجاتے ہیں ۔ کچھ واقعات و حالات کا اولاد ایک خاص صورت میں رونما ہوتے رہنا اس بات کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس معمول سے ہٹ کر کسی دوسری غیر معمولی صورت میں کوئی واقعہ رونما نہیں ہوسکتا ۔ اس طرح کے مفروضات کو توڑنے کے لیے کائنات کے ہر گوشے میں اور مخلوقات کی ہر صنف میں خلاف معمول حالات و واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے ۔ خصوصیت کے ساتھ جو شخص خدا کے قادر مطلق ہونے کا واضح تصور اپنے ذہن میں رکھتا ہو وہ تو کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ کسی انسان کو ایک ہزار برس یا اس سے کم و بیش عمر عطا کردینا اس خدا کے لیے بھی ممکن نہیں ہے جو موت و حیات کا خالق ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر خود چاہے تو ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رہ سکتا ۔ لیکن اگر خدا چاہے تو جب تک وہ چاہے اسے زندہ رکھ سکتا ہے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 23 یعنی طوفان ان پر اس حالت میں آیا کہ وہ اپنے ظلم پر قائم تھے ۔ دوسرے الفاظ میں اگر وہ طوفان آنے سے پہلے اپنے ظلم سے باز آجاتے تو اللہ تعالی ان پر یہ عذاب نہ بھیجتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:14) وھم ظلمون۔ جملہ حالیہ ہے۔ درآں حالیکہ وہ ظالم تھے۔ یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی نصیحت اور وعظ کا کوئی اثر قبول نہ کیا اور اپنے کفر اور معاصی کی حالت پر وہ اڑے رہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ سورة کے آغاز میں جو یہ فرمایا گیا تھا کہ ہم نے پہلے لوگوں کی بھی آزمائش کی ہے اسی کی تصدیق اور تفصیل کے لئے یہاں سے حضرت نوح ( علیہ السلام) اور دوسرے انبیا ( علیہ السلام) کے واقعات نقل کئے جا رہے ہیں اور اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا بھی مقصود ہے۔ (قرطبی۔ شوکانی) 4 ۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) کے اپنی قوم کو سمجھانے کی مدت ساڑھے نو سو سال تھی۔ ظاہر ہے کہ منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے بھی انہوں نے عمر ایک حصہ گزارا ہوگا اور طوفان کے بعد بھی زندہ رہے ہوں گے۔ اس لئے مفسرین میں سے بعض ان کی کل عمر 1400 اور بعض 1700 سال بتاتے ہیں۔ بہرحال ان کی عمر کم سے کم ایک ہزار سال تو ہونی ہی چاہیے۔ (شوکانی) بائیبل نے ان کی کل عمر 950 سال بتائی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 14 تا 22 اسرارو معارف یہ کوئی نئی بات نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر کفار مسلمانوں کا راستہ روکنے کے حربے استعمال کرنے لگے یا انہیں ایذا دینے کے درپے ہیں یا آج کے زمانے میں ایسا ہورہا ہے بلکہ یہ سب کچھ زمانہ قدیم سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے لیکن کفار کی سب تدبیروں کے باوجود فتح ہمیشہ دین دار لوگوں کو نصیب ہوئی جیسے نوح (علیہ السلام) کا واقعہ کہ ہم نے انہیں ان کی قوم میں مبعوث فرمایا کہ ان کی قوم ان کے حسب نسب اور عالی کردار سے خوب واقف تھی۔ انہوں نے نو سو پچاس برس مسلسل تبلیغ کی اور نیکی کی دعوت دی اور اتنا طویل عرصی کفار کے ایذا اور ان کے طعنے برداشت کیے مگر انہوں نے مان کر جواب نہ دیا تو اللہ کا عذاب آیا اور تمام کفار کو طوفان نے گھیر کر غرق کردیا کہ وہ بہت بڑے ظالم تھے اپنی ساری طاقت دولت اور تدبیریں لے کر غرق ہوگئے ان کے کام نہ آسکیں اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان سے بھی اور طوفان سے بھی محفوظ کردیا بلکہ جتنے لوگ بھی ایمان لاکر ان کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے سب سلامت رہے اور سب عالم کے لیے ایک معجزہ قرار پائے۔ ایسے ہی ابراہیم (علیہ السلام) کو دیکھ لیجیے کہ جب وہ مبعوث ہوئے اور قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور کاروبار حیات میں اللہ کی اطاعت اختیار کرو تمہاری دنیا کی اور آخرت کی بہتری اسی میں ہے خوب سمجھ لو۔ بھلا تم اللہ کی عبادت سے محروم ہو کر بت خانے سجائے بیٹھے ہو اور بتوں کے بارے جھوٹے قصے اور باطل عقیدے تراش رکھے ہیں۔ ان بتوں کو دیکھو جن کی تم عبادت کرتے ہو یہ تو تمہیں ایک دانہ گندم بھی نہیں دے سکتے۔ تمہیں دنیا ہی کی بھلائی مطلوب ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے پاس نصیب ہوسکتی ہے۔ تم اس کی عبادت کرو اور اس کا شکر ادا کرنے کا راستہ اپناؤ تاکہ دنیا میں بھی فائدہ حاصل کرو اور پھر آخرت میں تو اسی کی بارگاہ میں جانا ہی ہے۔ دنیا کا فائدہ بھی دین میں ہے کفر میں ہرگز نہیں : یہاں ثابت ہے کہ اگر کسی کو دنیا کا فائدہ ہی مطلوب ہو تو وہ بھی دین پر عمل کر کے ہی حاصل کرسکتا ہے اس لیے ہر کام کو صحیح طریقے سے کر کے فائدہ حاصل ہوسکتا ہے اور صحیح طریقہ دین ہے کاش عقل کے اندھوں کو یہ نظر آجاتا کہ کفار کا معاشرہ جن امور میں کامیابی حاصل کرتا عملا وہ اسلامی قواعد کے مطابق کرتا ہے آخرت کا اجر تو عقیدہ نہ ہونے کے باعث نہ پاسکیں گے مگر دنیا میں فائدہ حاصل کرلیتے ہیں۔ ان سب دلائل کے باوجود اگر یہ آپ کی دعوت قبول نہیں کرتے تو آپ رنجیدہ نہ ہوں پہلے انبیاء کے ساتھ پہلی امتوں نے بھی ایسا سلوک کیا ہے۔ اور اللہ کے رسول کا کام کسی سے منوانا نہیں بلکہ اللہ کا پیغام پہنچانا ہے۔ یہ انکار تو کرتے ہیں مگر کی ایہ نہیں جانتے کہ اللہ نے کس طرح مخلوق کو پیدا فرمایا اور یہ تخلیق باری کا عمل ہر آن کس تسلسل سے جاری ہے بھلا اسے کیا مشکل وہی دوبارہ سب کچھ پھر پیدا کردے گا۔ ان سے کہیے ذرا زمین پر پھر کر یعنی تحقیق کر کے دیکھو اس کی صنعت کے عجائبات اور چیزوں کی تخلیق کا عمل دیکھ کر اس کی قدرت کاملہ کی عظمت کا اعتراف کرو کہ تم جان سکو وہ قادر ہے آخرت میں پھر پیدا کردے گا وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ سائنس کی تحقیق اور کتاب اللہ : یہ عجیب بات یہاں ثابت ہے کہ قرآن نے ڈیڑھ ہزار برس پہلے کفار کو دعوت دی تھی کہ تخلیق کے عمل کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کرو اور جب اس کی سمجھ آئے تو اندازہ کرو کہ یہ سب باریک ترین نظام بنانے والا کتنا عظیم اور لاشریک خالق ہے مگر یہ بدبخت صدیوں بعد اس تحقیق کی ابتدا کرسکے اور اس سے بھی ابھی تک ماسوائے چند خوش نصیبوں کے کافر معاشرہ عظمت باری کا قائل نہ ہوسکا بلکہ بکار اور کمزور ایمان والے مسلمان مرعوب ہو کر اللہ کی عظمت کی بجائے کفار کی عظمت سے مرعوب ہونے لگے۔ حلان کہ یہ تحقیقات کر کے کفار کو دکھانا مسلمان کا کام تھا ورنہ تو یہ کام کافر بھی کرسکتا ہے اللہ قادو ہے جسے چاہے عذاب دے یعنی یہ حق اللہ کا ہے کہ کسی کام کو جرم قرار دے اور اس کے کرنے والے کو عذاب دے یا جس پر چاہے رحم فرمائے کہ سب کو اسی کی باراہ میں لوٹ کر جانا ہے۔ اے کفار تم سارا زورلگا لو تم اللہ کے نظام اور اس کی قدرت کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتے ہ زمین پر اور نہ آسمانوں میں نہ ایٹم کی دریافت سے اور نہ فضا میں راکٹ چلا کر بلکہ اس کی گرفت سے بچانے والا تمہیں کوئی نہ مل سکے گا نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں جسکا اظہار بڑی بڑی کافرطاقتوں کو زلزلوں بفانی اور بارش کے طوفانوں میں مبتلا ہو کر ہوتا رہتا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 14 تا 18 : لبث (وہ ٹھہرارہا) الف سنۃ ( ایک ہزار سال) خمسین (پچاس) ‘ عام (سال) السفینۃ ( جہاز۔ کشتی) اوثان (بت) ‘ افک (جھوٹ۔ باطل) ‘ ابتغوا (تلاش کرو) امم ( امتیں۔ قومیں) ‘ البلغ (پہنچادینا) ۔ تشریح : آیت نمبر 14 تا 18 : اس سے پہلی آیات میں فرمایا گیا تھا کہ اللہ نے اہل ایمان کو ہر طرح کے حالات سے آزمایا جس میں انہوں نے صبر و تحمل ‘ عزم و ہمت اور استقلال کے ساتھ مشکل حالات کا مقابلہ کیا۔ اللہ نے ان کو نہ صرف دنیا میں امن و سکون اور سلامتی عطا فرمائی بلکہ آخرت میں ھبی ان کو نجات کا وعدہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ ان کا یہ ظلم و ستم اسی طرح جاری رہے گا اور وہ قدرت کی گرفت میں نہ آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کرام ؐ اور انکی امتوں کو ثبوت کے طور پر پیش کرکے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ان کی نافرمانیوں کی سزادیتا ہے تو پھر ان ظالموں کو بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات زندگی کو بیان کیا کہ انہوں نے اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے کس طرح اپنی امتوں کو سمجھانے کے لئے ایک لمبی عمر تک دن رات جدوجہد کی۔ وہ لوگ جنہوں نے ان انبیاء کرام (علیہ السلام) کے دامن سے وابستگی اختیار کی وہی دنیا اور آخرت میں کامیاب و بامراد رہے اور جنہوں نے ان کی نافرمانی کی ان کی دنیا بھی برباد ہوئی اور وہ آخرت میں بھی نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جنہوں نے ساڑھے نو سو سال تک نافرمانوں کو ہر طرح سمجھایا۔ دن رات جدوجہد کی اور ہر طرح کی تکلیفیں برداشت کیں مگر ان کی قوم نے ان کا مذاق اڑایا۔ طرح طرح سے آیتیں اور تکلیفیں پہنچائیں اور اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر جمے رہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ قوم ان کی اطاعت و فرماں برداری کرے ‘ غرور وتکبر اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر اللہ کے بندے بن کر رہیں ‘ غریبوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا چھوڑدیں ‘ اور جو بھی طاقت ور ہے وہ اپنے کمزوروں پر ظلم و ستم چھوڑ کر ان کو ستانے سے باز رہے۔ اور وہ بت جن کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنا کر ان کو اپنا معبود بنارکھا ہے ان کی عبادت و بندگی نہ کریں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی صدیوں کی اس تبلیغ سے بہت تھوڑے سے لوگوں نے ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کی اور باقی ساری قوم اپنی جہالت و نادانی پر قائم رہی۔ ایک دن بار گاہ الٰہی میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے عرض کردیا۔ الہی میں نے ان کو ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ میری بات سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں اب آپ فیصلہ فرمادیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پوری قوم کو اور اس کے تمام مال و اسباب کو پانی میں اس طرح غرق کردیا کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھنے والے بھی اس عذاب سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرمائی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی وہ بڑی کشتی جس میں اہل ایمان سوار تھے وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی کہ وہ اللہ نے کس طرح اس زبردست طوفان میں اس کشتی اور اس میں بیٹھنے والوں کو نجات عطا فرمائی اور خود حضرت نوح (علیہ السلام) کی زندگی بھی ایک نشانی ہے کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال تک مسلسل اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے جدوجہد کی مگر وہ اس سے اکتائے نہیں بلکہ پوری قوم کو سمجھاتے رہے۔ سوائے کچھ سعادت مندوں کے پوری قوم نے آپ کے لائے ہوئے پیغام کو اہمیت نہیں دی جس سے آخر کار وپری قوم کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا اور وہ پانی سے طوفان میں غرق کردی گئی۔ اسی طرح حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے ایک طویل عمر تک اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھائیں۔ انہوں نے بھی اپنی قوم کو یہی سمجھایا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کریں کیونکہ وہی سب کا مشکل کشا ہے۔ ہر ایک کی بگڑی بنانے والا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بت جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو یہ اللہ پر ایک بہت بڑا جھوٹ ہے یہ بت ذرہ برابر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں۔ یہ اپنے نفع نقصان کے بھی مالک نہیں ہیں یہ تمہارے رازق نہیں ہیں بلکہ ہر طرح کا رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے وہی سب کا رازق ہے اور سب کی مشکلات کو دور کرنے والا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے جو بھی تمہیں رزق دیا ہے اس پر اس اللہ کا شکر ادا کرو اور اس کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کرو۔ فرمیا تم سب کو ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ان تمام باتوں پر بہت کم لوگوں نے توجہ کی لیکن جن لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا ان کو ہی نجات عطا کی گئی۔ ان آیات میں فرمایا گیا ہے کہ اسی طرح سارے نبیوں کو جھٹلایا گیا ہے اور ان کی نافرمانی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ سے فرمایا ہے کہ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی اور رسول بنا کر بھیج دیا ہے اب اگر ان کو بھی گذشتہ انبیاء کی طرح جھٹلایا گیا تو پھر قیامت تک کوئی دوسرا ان کی اصلاح کے لئے نہیں آئے گا۔ نجات ان ہی لوگوں کے لئے ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن اطاعت و محبت سے وابستگی اختیار کریں گے۔ نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے پیغام کو کھول کر واضح انداز سے پہنچادیتا ہے نجات صرف ان ہی لوگوں کی ہوتی ہے جو ان کی مکمل اطاعت و محبت سے کام لیتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ روح المعانی میں بروایت ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وا بن المنذر و ابن ابی حاتم و ابن مردویہ و حاکم و بتصحیح حاکم حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کو چالیس برس میں نبوت ملی، اور ساڑھے نو سو برس وعظ فرمایا، پھر طوفان کے بعد ساتح برس زندہ رہے۔ سو اس حساب سے ان کی عمر ایک ہزار پچاس سال کی ہوئی۔ واللہ اعلم 6۔ کہ اتنی مدت دراز کی فہمائش سے بھی متاثر نہ ہوئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی اللہ کی پکڑ سے کوئی کسی کو نہیں بچا سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کے لیے مبعوث کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) انھیں ساڑھے نو سو سال سمجھاتے رہے، قوم نے سمجھنے کی بجائے نوح (علیہ السلام) کو بار بار یہ کہا کہ ہم تیرے کہنے پر ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ (نوح : ٢٤) یاد رہے یہ اس قوم کے سب سے بڑے بت تھے۔ یہ قوم نوح کے فوت شدہ بزرگوں کے تخیلاتی مجسمے تھے جو انہوں نے اپنے فوت شدہ بزرگوں کی یاد میں بنائے ہوئے تھے۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کو یہ بھی دھمکی دی کہ اگر تو باز نہ آیا تو ہم پتھر مار مار کر تجھے مار ڈالیں گے۔ (الشعراء : ١١٦) اس کے ساتھ ہی یہ کہنے لگے کہ اے نوح (علیہ السلام) ! تیرے اور ہمارے درمیان یہ جھگڑا طول پکڑ گیا ہے اس لیے جس عذاب کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اسے لے آؤ اگر تو واقعی ہی سچا ہے۔ (ہود : ٣٢) تب جا کر اللہ تعالیٰ نے ظالموں پر گرفت فرمائی اور انھیں ڈبکیاں دے دے کر غرق کیا۔ البتہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو ایک کشتی کے ذریعے بچا لیا گیا۔ کشتی اور ڈوبنے والوں کو لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کو مختصر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اے کفار اور منافقو ! غور کرو ! کہ جب نوح (علیہ السلام) کے دور میں طوفان آیا تو کوئی کافر ایک دوسرے کو نہیں بچا سکا تھا۔ یہاں تک کہ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنے کافر بیٹے اور بیوی کو نہ بچا سکے۔ (ہود : ٤٦) تمہاری کیا حیثیت اور طاقت ہے کہ تم قیامت کے دن ایک دوسروں کا بوجھ اٹھا سکو ؟ (التحریم : ١٥) یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کی طرف اس لیے بھی اشارہ کیا گیا ہے تاکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے رفقاء کو تسلّی دی جائے کہ آپ لوگوں کو مظالم سہتے ہوئے ابھی بہت تھوڑا عرصہ گزار ہے۔ غور فرماؤ کہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے کس قدر دین حق کے راستے میں محنت کی اور کتنی طویل مدت تک ظالموں کے ظلم برداشت کرتے رہے۔ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو سمجھایا۔ ٢۔ جب قوم نے سمجھنے سے انکار کیا تو انھیں غرق کردیا گیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے بچا لیا۔ ٤۔ کشتی اور قوم کو آئندہ نسلوں کے لیے نشان عبرت بنایا۔ تفسیر بالقرآن قوم نوح پر آنے والے عذاب کی چند جھلکیاں : ١۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (ہود : ٤٣) ٣۔ قوم نوح کو تباہ کرنے کے لیے آسمان سے موسلاد ھار بارش کے دھانے کھول دئیے گئے۔ ( القمر : ١١) ٤۔ قوم نوح پر عذاب کے وقت تندور نے ابلنا شروع کردیا۔ ( ہود : ٤٠) ٥۔ قوم نوح پر عذاب کی صورت میں آسمان سے پانی برسا اور زمین سے جگہ جگہ چشمے ابل پڑے۔ (ہود : ٤٤) ٦۔ اللہ نے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کرنے والوں کو تباہ و برباد کردیا۔ (الشعراء : ١٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 181 ایک نظر میں سابقہ راؤنڈ میں یہ بتایا گیا تھا کہ جو لوگ کلمہ ایمان کا اقرار کرتے ہیں ، اللہ کی سنت جاریہ کے مطابق ان کو ضرور آزمایا جائے گا اور مشکلات سے دوچار کیا جائے گا تاکہ سچوں اور جھوٹوں کے درمیان امتیاز ہوجائے۔ آزمائشوں میں اذیت کی آزمائش ، رشتہ داروں کی آزمائش اور سازشوں اور لالچوں کی آزمائش شامل ہے۔ اس سبق میں ان آزمائشوں کا ذکر ہے جو نوح (علیہ السلام) سے ادھر ہر اسلامی دعوت کے قائدین کو پیش آتی رہی چاہے وہ نبی ہیں یا ان کے متبعین اور ساتھی ہیں۔ دعوت و عزیمت کی اس تاریخ میں حضرت ابراہیم اور حضرت لوط (علیہما السلام) کے حالات کو ذرا تفصیل سے لیا گیا ہے اور دوسرے انبیاء کے حالات مجملا بیان ہوئے ہیں۔ ان قصص میں بتایا گیا ہے کہ دعوت اسلامی کی راہ میں قسما قسم کی مشکلات اور رکاوٹیں آتی رہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے طویل جدوجہد کی اور حاصل نہایت معمولی رہا۔ نو سو پچاس سال کی جدوجہد کے نتیجے میں بہت کم لوگ مسلمان ہوئے۔ فاخذھم الطوفان وھم ظلمون (29: 14) ” آخر کار ان لوگوں کو طوفان نے آگھیرا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کے مقابلے میں سرکش حکمران نے یہ صلہ دیا کہ وہ تشدد پر اتر آیا ، حالانکہ آپ نے حتی المقدور ان کی ہدایت کے لیے سعی کی۔ معقول دلائل سے بات کی تو اس قوم کا ردعمل بھی یہ تھا : فما کان جواب ۔۔۔۔۔ حرقوہ (29: 24) ” پھر ابراہیم کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا ” قتل کر دو اسے یا چلا ڈالو اس کو “۔ حضرت لوط کے قصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رذیل لوگ کس قدر خود سر ہوگئے ہیں اور کس قدر بےحیا اور طوطا چشم بن گئے تھے۔ نبی کا بھی کوئی لحاظ اور احترام نہیں کرتے تھے اور انہوں نے انسانیت کو حیوانات کے درجے سے بھی گرا دیا تھا اور وہ گندگی اور رذائل میں مبتلا ہوگئے تھے اور وہ اپنے ڈرانے والے ہمدرد کے مقابلے میں یہ جرات کرتے ہیں۔ فما کان جواب ۔۔۔۔۔ من الصدقین (29: 29) ” اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو اللہ کا عذاب ہم پر لے آؤ “۔ حضرت شعیب کے قصے میں بھی اہل مدین کی طرف سے فساد و سرکشی سامنے آتی ہے ، اور وہ سچائی اور حق سے منہ موڑتے ہیں اور تکذیب کرتے ہیں۔ فاخذتھم الرجفۃ ۔۔۔۔۔ جثمین (29: 37) ” آخر کار ایک سخت زلزلے نے انہیں آلیا اور وہ اپنے گھروں میں پڑے کے پڑے رہ گئے “۔ قوم عاد اور قوم ثمود کی طرف غرور ، قوت اور سرکشی کے مظاہرے کا اشارہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح فرعون ، قارون اور ہامان کی طرف یہ اشارہ کیا گیا کہ انہوں نے حق کے مقابلے میں مال و دولت ، حکومت ، سازش اور سرکشی کو سرچشمہ قوت سمجھا ان تمام تاریخی قوتوں پر قرآن یہ تبصرہ کرتا ہے کہ یہ قوتیں ، چاہے وہ جس قدر زور دار کیوں نہ ہوں جب سچائی کے مقابلے میں آتی ہیں تو ان کی حیثیت مکڑی کے جالے کے برابر ہوجاتی ہے۔ کمثل العنکبوت ۔۔۔۔۔ لا کانوا یعلمون (29: 41) ” ان کی مثال مکڑی جیسی ہے ، جو اپنا گھر بناتی ہے ، اور سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے۔ کاش یہ لوگ علم رکھتے “۔ درس نمبر 181 تشریح آیات 14 ۔۔۔ تا۔۔۔ 44 ولقد ارسلنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وجعلنٰھا ایۃ للعٰلمین (24 – 25) حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک دعوت دی۔ نبوت عطا ہونے سے پہلے بھی ان کی کچھ زندگی گزری ہوگی جس کا تعین یہاں نہیں ہے اور طوفان کے بعد بھی وہ زندہ رہے تھے ، وہ عرصہ بھی متعین نہیں ہے۔ اس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر بظاہر موجودہ عمر طبیعی سے بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے لیکن یہ عمر قرآن نے بتائی ہے جو اس کائنات میں سب سے سچا ذریعہ علم ہے اور اس کی صداقت کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ قرآن کی تصریح ہے۔ اس کی توضیح اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس وقت دست قدرت نے طویل عمریں اس لیے رکھیں کہ زمین آباد ہو اور نسل پھیلے۔ جب لوگوں کی کثرت ہوئی تو پھر لمبی عمر کی ضرورت نہ رہی۔ کئی زندہ چیزوں میں یہ اصول مروج نظر آتا ہے ، اگر کسی زندہ کی تعداد کم ہو تو عمر زیادہ ہوتی ہے۔ مثلاً شکاری پرندے شاہین وغیرہ اور کچھوے جن کی عمریں اب بھی سینکڑوں سال ہوتی ہیں جبکہ مکھی زیادہ سے زیادہ دو ہفتے زندہ رہتی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ بعاث الطیر اکثرھا فراخا وام الصقر مقلاۃ نزور ” کمزور پرندوں کے بچے زیادہ ہوتے ہیں لیکن شاہین کی ماں بہت ہی کم بچے دینے والی ہوتی ہے “۔ یہی وجہ ہے کہ شاہین کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور چھوٹے اور زیادہ بچے دینے والے پرندے کم عمر ہوتے ہیں۔ اللہ کے کام حکمت پر مبنی ہوتے ہیں اور اس کے ہاں ہر چیز مقدار کے مطابق ہے۔ بہرحال حضرت نوح کے ساڑھے نو سو سالہ تبلیغ کے نتیجے میں ایک قلیل مقدار ہی اسلام میں آئی اور اکثریت کو ان کے ظلم کی وجہ سے طوفان بہا کرلے گیا۔ چونکہ انہوں نے اس قدر طویل ہٹ دھرمی اور سرکشی کی اس لئے اللہ نے ان کو تباہ کیا اور عدو قلیل کو نجات دی جو مومن تھے۔ یہ اصحاب سفینہ تھے۔ انہی سے بعد میں انسانی نسل چلی۔ اور طوفان تمام جہاں والوں کے لیے معجزہ بن گیا اور ایک عرصہ تک ظلم ، شرک اور کفر کا انجام قصہ نوح کے حوالے سے یاد ہوتا رہا۔ نوح (علیہ السلام) کے بعد صدیوں کی تاریخ کو لپیٹ کر قرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات کو لیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت نوح (علیہ السلام) کی تبلیغ اور ان کی قوم کی بغاوت و ہلاکت کا تذکرہ ان دونوں آیتوں میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی رسالت اور بعثت اور مدت اقامت اور قوم کی عداوت و بغاوت اور ہلاکت کا واقعہ اجمالی طور پر بیان فرمایا ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال رہے، ان لوگوں کو توحید کی دعوت دی اور تبلیغ کی اور بت پرستی چھوڑنے کی تبلیغ فرمائی مگر ان لوگوں نے بہت بڑی سرکشی کی اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو الٹے الٹے جواب دیتے رہے اور کفر و شرک پر جمے رہے، حد یہ ہے کہ انہوں نے یوں کہہ دیا کہ تم جس عذاب سے ہمیں ڈراتے ہو وہ لے آؤ، اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی بنانے کا حکم دیا، جب کشتی بنالی تو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ اپنے باایمان گھر والوں کو اور دوسرے اہل ایمان کو کشتی میں اپنے ساتھ سوار کرلیں، جب یہ حضرات کشتی میں سوار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے عذاب بھیج دیا زمین نے پانی اگلا اور آسمان نے بھی پانی برسایا، کافر قوم میں سے کوئی بھی نہ بچا سب غرق ہوگئے سورة اعراف میں فرمایا (فَکَذَّبُوْہُ فَاَنْجَیْنٰہُ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ فِی الْفَلْکِ وَ اَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا عَمِیْنَ ) (سو ان لوگوں نے نوح کو جھٹلایا سو ہم نے انہیں اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے نجات دے دی اور ہم نے ان لوگوں کو غرق کردیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا بلاشبہ وہ لوگ اندھے تھے۔ ) حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی بغاوت اور غرقابی کا مفصل قصہ سورة اعراف (ع ٧) اور سو رۂ ہود (ع ٤) کی تفسیر میں لکھا جاچکا ہے اور سورة شعراء (ع ٥) میں بھی گزر چکا ہے اور سورة نوح میں بھی آئے گا۔ انشاء اللہ العزیز۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ یہ پہلا قصہ ہے اور پہلے دعوے سے متعلق ہے یعنی دیکھو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی توحید کا پیغام دیا اور وہ توحید کی خاطر ساڑھے نو سو سال تکلیفیں اٹھاتے اور مشرکین کی ایذائیں برداشت کرتے رہے۔ اے ایمان والو ! تم پر بھی مصائب آئیں گے ان سے گھبرانا نہیں بلکہ ان پر صبر کرنا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے قوم میں ساڑھے نو سو برس رہنے کا ذکر صرف اس جگہ آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ انہوں نے عرصہ دراز تک توحید کی خاطر مشرکین کے ہاتھوں مصائب برداشت کیے۔ واخذھم الطوفان الخ یہ ضمنا دوسرے دعوے سے متعلق ہے۔ مشرکین ہمارے پیغمبر کو ساڑھے نو سو سال ستاتے اور شرک میں لگے رہے ان کا خیال تھا کہ اللہ ان کو پکڑ نہیں سکے گا لیکن اللہ نے ان کو طوفان میں غرق کردیا اور ان میں سے ایک بھی عذاب خداوندی سے بچ نہ سکا۔ فانجینہ الخ نوح کو اور اس پر ایمان لانے والوں کو جو کشتی نوح میں سوار تھے ہم نے طوفان سے تو بچا لیا لیکن وہ ساڑھے نو سو سال مشرکین کے ہاتھوں تکلیفیں اٹھاتے رہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14۔ اب منکرین کی ایذا رسانی کے سلسلہ میں چند انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا ذکر کیا جاتا ہے کہ پہلے منکرین کے مظالم اور ان کی مسلمان امتوں کو جن فتنوں سے دو چار ہونا پڑا ان کے واقعات سامنے آجائیں اور مسلمانوں کو تسلی ہو، چناچہ ارشاد ہوتا ہے اور بلا شبہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا پھر وہ ان لوگوں میں پچاس برس کم ایک ہزار سال رہا پھر جب وہ لوگ ایمان نہ لائے تو ان کو طوفان نے آپکڑا اور وہ بڑے ہی نافرمان تھے۔ یعنی اس سے بڑھ کر ظلم اور شرارت کیا ہوگی کہ ساڑھے نو سو برس میں بھی مان کر نہ دیا اور ایمان کی نعمت سے محروم رہے۔