Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 25

سورة العنكبوت

وَ قَالَ اِنَّمَا اتَّخَذۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡثَانًا ۙ مَّوَدَّۃَ بَیۡنِکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ ثُمَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکۡفُرُ بَعۡضُکُمۡ بِبَعۡضٍ وَّ یَلۡعَنُ بَعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ۫ وَّ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ ﴿٭ۙ۲۵﴾

And [Abraham] said, "You have only taken, other than Allah , idols as [a bond of] affection among you in worldly life. Then on the Day of Resurrection you will deny one another and curse one another, and your refuge will be the Fire, and you will not have any helpers."

۔ ( حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ) کہا کہ تم نے جن بتوں کی پرستش اللہ کے سوا کی ہے انہیں تم نے اپنی آپس کی دنیاوی دوستی کی بنا ٹھہرالی ہے تم سب قیامت کے دن ایک دوسرے سے کفر کرنے لگو گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگو گے اور تمہارا سب کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ... And (Ibrahim) said: "You have taken idols instead of Allah. The love between you is only in the life of this world, Here Ibrahim was rebuking his people for their evil deed of worshipping idols, and telling them: `You have taken these as gods and you come together to worship them so that there is friendship and love among you in this world,' ... ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ... but on the Day of Resurrection, the situation will be the opposite, and this love and friendship will turn into hatred and enmity. Then ... يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ ... you shall deny each other, meaning, `you will denounce one another and deny whatever was between you,' ... وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا ... and curse each other, means, the followers will curse their leaders and the leaders will curse their followers. كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا Every time a new nation enters (the Fire), it curses its sister nation (that went before). (7:37) الاٌّخِلَءُ يَوْمَيِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلاَّ الْمُتَّقِينَ Friends on that Day will be foes one to another except those who have Taqwa. (43:67) And Allah says here: ... ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ ... but on the Day of Resurrection, you shall deny each other, and curse each other, and your abode will be the Fire, meaning, `your ultimate destiny after all accounts have been settled, will be the fire of Hell, ... وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ and you shall have no helper." and you will have no one to help you or save you from the punishment of Allah.' This will be the state of the disbelievers. As for the believers, it will be an entirely different matter.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

251یعنی یہ تمہارے قوی بت ہیں جو تمہاری اجتماعت اور آپس کی دوستی کی بنیاد ہیں۔ اگر تم ان کی عبادت چھوڑ دو تو تمہاری قومیت اور دوستی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ 252یعنی قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار اور دوستی کی بجائے ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور تابع، متبوع کو ملامت اور متبوع، تابع سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٨] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ حضرت ابراہیم نے آگ سے صحیح سلامت نکل آنے کے بعد کہا تھا۔ یعنی تم لوگوں نے آپس میں باہمی محبت، بھائی چارہ اور قومی شیرازہ بندی کی بنیاد ان مشرکانہ رسوم کو بنا لیا ہے تاکہ ایسے مذہب کے نام پر ساری قوم متحد اور متفق رہے۔ قومی یگانگت کے لئے کوئی بھی بنیاد بنائی جاسکتی ہے خواہ یہ بنیاد بجائے خود کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو جیسے کہ آج کل وطن پرستی، قوم پرستی، نسل پرستی، ایسی ہی غلط بنیادوں پر لوگ متحد و متفق ہوجاتے ہیں الا یہ بنیادیں فساد کا باعث بن رہی ہیں۔ تاہم ان غلط قسم کی بنیادوں پر بھی لوگوں کو اکٹھا کیا جاسکتا ہے، اکٹھا رکھا جاسکتا ہے اور ان میں باہمی محبت ہوسکتی ہے۔ بالکل اسی طرح محبت پرستی اور شرکیہ عقائد پر بھی ایسا اتحاد و اتفاق ممکن ہے۔ اور بت پرستوں کی یہی آپس کی باہمی محبت ہی حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈال کر ان سے انتقام لینے کا باعث بنی تھی۔ مفسرین نے اس کی دوسری توجیہ یہ بیان کی ہے جو قوم نوح کے بتوں سے متعلق صحیح احادیث میں مذکور ہے کہ اس قوم میں پانچ ایسے بزرگ تھے جو بڑے نیک بڑے عبادت گزار تھے اور انھیں دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا۔ جب یہ بزرگ فوت ہوگئے تو پچھلوں کو اپنی عبادت میں وہ مزا نہ آتا تھا جو ان کی موجودگی میں آتا تھا۔ اب شیطان نے انھیں یہ پٹی پڑھائی کہ اگر وہ موجود نہیں رہے تو کوئی بات نہیں ان کے مجسمے بنا کر اپنے سامنے رکھ لو گے تو تمہیں عبادت میں وہی لطف آیا کرے گا۔ جو ان کی موجودگی میں آتا تھا۔ چناچہ انہوں نے ان پانچ بزرگوں کے مجسمے اپنی عبادت گاہ میں رکھ لئے مگر وہ عبادت اللہ ہی کی کرتے تھے۔ پھر بعد کی نسلوں نے ان مجسموں کو ہی پوجنا شروع کردیا۔ اس طرح اس قوم میں بت پرستی کا رواج ہوگیا۔ اور اس کی بنیاد ہی بزرگوں سے ان کی باہمی محبت تھی۔ اور اس کی تیسری توجیہ یہ ہے کہ سب مشرکوں کو بتوں یا اپنے معبودوں سے محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ کیونکہ وہ ان کے عقیدہ کے مطابق ان کے حاجت روا اور مشکل کشا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ١٦٥۔ ) 2 ۔ البقرة :165) پھر اسی بنیاد پر ان مشرکوں کی آپس میں بھی محبت ہوجاتی ہے جیسے اللہ کے پرستاروں کی اصل محبت تو اللہ سے ہوتی ہے۔ لیکن اللہ والوں کی آپس میں باہمی محبت بھی ان کے ایمان کا جز بن جاتا ہے۔ [ ٣٩] یعنی قیامت کے دن معبود حضرات خود اپے پرستاروں کی عبادت کی انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ کم بختو ! ہم نے تمہیں کب کہا تھا کہ ہمارے بعد ہماری پوجا شروع کردینا اور اس بات کا بھی اقرار کریں گے کہ ہمیں کچھ خبر نہیں کہ ان لوگوں نے ہمیں اپنا معبود بنا لیا تھا۔ جب معبودوں کا یہ حال ہوگا تو عبادت گزاروں پر، جنہوں نے ان سے کئی طرح کی توقعات وابستہ کر رکھیں ہوں گی، جو گزرے گی اس کا بہ آسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا عابد، معبود دونوں ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجنے لگیں گے اور آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ جتنی آج یہ اپنے معبودوں اور اپنے ساتھیوں سے دوستی جتلا رہے ہیں۔ اتنے ہی زیادہ اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) نے آگ سے نکلنے کے بعد بھی قوم کو نصیحت ترک نہیں کی، بلکہ سمجھایا کہ تمہارے ان بتوں کو شریک بنانے کی بنیاد کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں، محض ایک دوسرے کی دوستی کی وجہ سے تم نے انھیں شریک بنا رکھا ہے۔ یہ صرف اندھی تقلید، قومی مروّت و لحاظ اور باہمی تعلقات کا دباؤ ہے جس کی وجہ سے تم ان کی پرستش پر اڑے ہوئے ہو، مگر تمہاری یہ دوستی اور شرک و کفر پر اجماع و اتحاد صرف دنیا کی زندگی تک ہے۔ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ ۔۔ : یعنی پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کرو گے، تمہاری یہ دوستی شدید دشمنی میں بدل جائے گی اور تم سب ایک دوسرے کو لعنت کرو گے اور تمہارا ٹھکانا آگ ہی ہے۔ (” النار “ خبر پر الف لام کی وجہ سے حصر کا مفہوم پیدا ہو رہا ہے) اور کوئی تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (اَلْاَخِلَّاۗءُ يَوْمَىِٕذٍۢ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ ) [ الزخرف : ٦٧ ] ” سب دلی دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے مگر متقی لوگ۔ “ اور فرمایا : (كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا ۭ حَتّٰى اِذَا ادَّارَكُوْا فِيْهَا جَمِيْعًا ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ڛ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ ) [ الأعراف : ٣٨ ] ” جب بھی کوئی جماعت (آگ میں) داخل ہوگی اپنے ساتھ والی کو لعنت کرے گی، یہاں تک کہ جس وقت سب ایک دوسرے سے آملیں گے تو ان کی پچھلی جماعت اپنے سے پہلی جماعت کے متعلق کہے گی اے ہمارے رب ! ان لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا، تو انھیں آگ کا دگنا عذاب دے۔ فرمائے گا سبھی کے لیے دگنا ہے اور لیکن تم نہیں جانتے۔ “ اور فرمایا : (وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا) [ الأحزاب : ٦٧ ] ” اور کہیں گے اے ہمارے رب ! بیشک ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہنامانا تو انھوں نے ہمیں اصل راہ سے گمراہ کردیا۔ “ اور دیکھیے سورة بقرہ (١٦٦، ١٦٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اَوْثَانًا۝ ٠ ۙ مَّوَدَّۃَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝ ٠ ۚ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا۝ ٠ ۡوَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ۝ ٢٥ ۤۙ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ وثن الوَثَن : واحد الأوثان، وهو حجارة کانت تعبد . قال تعالی: إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثاناً [ العنکبوت/ 25] وقیل : أَوْثَنْتُ فلانا : أجزلت عطيّته، وأَوْثَنْتُ من کذا : أکثرت منه . ( و ث ن ) الوثن ( بت ) اس کی جمع اوثان ہے اور اوثان ان پتھروں کو کہا گیا ہے جن کی جاہلیت میں پرستش کی جاتی تھی ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثاناً [ العنکبوت/ 25] کہ تم جو خدا کو چھوڑ کر بتوں لے بیٹھے ہو ۔ اوثنت فلان ۔ کسی کو بڑا عطیہ دینا ۔ اوثنت من کذا کسی کام کو کثرت سے کرنا ۔ ودد الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] ( و د د ) الود ۔ کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً [ الكهف/ 32] يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نبات کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ لعن اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] ( ل ع ن ) اللعن ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ أوى المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی ۔ إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے یہ بھی فرمایا کہ یہ جو تم نے بتوں کو معبود بنارکھا ہے یہ تو تمہارے آپسی تعلقات کی بنا پر ہے جو باقی نہیں رہیں گے۔ اور پھر قیامت میں تم سب ایک دوسرے سے بیزار ہوجاؤ گے اور تم سب بچاریوں اور معبودوں کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور عذاب خداوندی کے مقابلہ میں تمہارا کوئی حمایتی نہ ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًالا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج) ” یہ بہت اہم بات ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہی تھی کہ میں تمہیں متنبہّ کرچکا ہوں کہ تم لوگ جن بتوں کو پوجتے ہو ان کی حقیقت کچھ نہیں ہے اور ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ میرے سمجھانے پر تم لوگ یہ بات سمجھ بھی چکے ہو ‘ اس سلسلے میں حق تم لوگوں پر پوری طرح منکشف بھی ہوچکا ہے اور تمہارے دل اس بارے میں حق کی گواہی بھی دے چکے ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی تم لوگ اگر بتوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہو اور گمراہی کا راستہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو ‘ تو اس کی اصل وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ تم لوگ آپس کے تعلقات ‘ آپس کی دوستیاں اور رشتہ داریاں نبھا رہے ہو۔ دراصل یہ وہ بنیادی عامل (factor) ہے جو ہر سطح پر لوگوں کے لیے حق کو قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ ایک معقول اور با شعور شخص کی تان بھی اکثر یہیں پر آکر ٹوٹتی ہے کہ جی ہاں بات تو درست ہے ‘ دل کو بھی لگتی ہے مگر کیا کریں مجبوری ہے ! دوسری طرف برادری ہے ‘ رشتہ داریاں ہیں ‘ دوستیاں ہیں اور کاروبار کی شراکت داریاں ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے چھوڑ دیں ؟ سب سے ناتا کیسے توڑ لیں ؟ زندہ رہنے کے لیے یہ سب کچھ ضروری ہے۔ انسان بھلا اکیلا کیسے زندگی گزار سکتا ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ عصبیت ہر جگہ اور ہر دور میں اپنا رنگ دکھاتی ہے ‘ حتیٰ کہ خالص دینی بنیادوں پر اٹھنے والی تحریکیں بھی اس کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ایسی صورت میں یہ سب کچھ یکدم نہیں ہوجاتا بلکہ منفی عصبیت کے خطرناک جراثیم آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے کسی تحریک کی صفوں میں داخل ہوتے ہیں۔ فرض کریں کہ آغاز میں ایک تحریک کا نظریہ بالکل خلوص پر مبنی تھا۔ اس کے کارکنوں کی وابستگی بھی خالصتاً حق شناسی کی بنیاد پر تھی اور ان میں جدو جہد کا جذبہ بھی قابل رشک تھا ‘ مگر پھر کسی موڑ پر کہیں کوئی غلطی ہوئی اور تحریک کسی غلط رخ پر مڑ گئی۔ عموماً ایسی غلطیوں کے نتائج فوری طور پر سامنے نہیں آتے ‘ بلکہ کچھ عرصے تک تو کارکنوں کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ان کی تحریک غلط موڑ مڑ چکی ہے۔ لیکن جب اس غلطی کے نتائج واضح طور پر سامنے آنے لگتے ہیں اور کارکنوں کو معلوم بھی ہوجاتا ہے کہ وہ غلط راستے پر جا رہے ہیں تو اس کے باوجود بھی ان کی اکثریت اس تحریک کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ ایسی صورت حال میں وہ لوگ محض ” عصبیت “ کی وجہ سے اس تحریک کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔ غور سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ کسی بھی جماعت یا تنظیم کے اندر ‘ خواہ وہ خالص دینی بنیادوں پر ہی کیوں نہ اٹھی ہو ‘ کچھ دیر کے بعد شخصی تعلقات ‘ باہمی رشتہ داریاں اور مشترکہ مادی مفادات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گویا ” جماعتی عصبیت “ کے علاوہ چھوٹی چھوٹی دوسری عصبیتیں بھی اس کے حلقے کے اندر فعال ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے کے بعد ہر ایسی جماعت ایک فرقہ بن جاتی ہے۔ اس نکتے کو اس پہلو سے بھی سمجھنا چاہیے کہ اب نبوت ختم ہوگئی ہے اور قیامت تک دنیا میں کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے زمانے تک اس خلا کو پر کرنے کے لیے مندرجہ ذیل تین چیزوں کا اہتمام فرمایا ہے : (١) قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری کا اہتمام۔ جبکہ اس سے پہلے کسی کتاب کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی گئی۔ (٢) ہر صدی میں ایک مجدد اٹھا نے کا اہتمام۔ یہ مجدد دین کے بنیادی حقائق کو تازہ کیا کرے گا اور لوگوں کو دین کی ان حقیقی تعلیمات کی طرف متوجہ کیا کرے گا جنہیں وہ بھول چکے ہوں گے۔ (٣) اس چیز کا اہتمام کہ ہر دور میں ایک جماعت ضرور حق پر قائم رہے گی۔ اس ضمن میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (لَا تَزَالُ طَاءِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ قَاءِمَۃً بِاَمْرِ اللّٰہِ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ اَوْ خَالَفَھُمْ ۔۔ ) (١) ” میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی۔ جو لوگ ان کو چھوڑ جائیں گے یا ان کی مخالفت کریں گے وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔۔ “ اب عملی طور پر کیا ہوتا ہے ؟ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے فرض کریں کہ ایک مجدد پیدا ہوا ‘ اس نے مختلف پہلوؤں سے جدوجہد کی ‘ دینی تعلیمات کی تطہیر کر کے اصل حقائق لوگوں پر واضح کردیے۔ حالات اور زمانے کی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق دین کے مطالبات کی تشریح کر کے لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی بھر پور کوشش کی۔ کچھ لوگ اس کی شخصیت سے متاثر ہو کر اس کے گرد جمع ہوئے۔ اعوان و انصار نے اپنا اپنا کردار ادا کیا اور ایک مضبوط جماعت قائم ہوگئی۔ ایسی کسی بھی جماعت کے ہراول دستے کے کارکن چونکہ علیٰ وجہ البصیرت اس میں شامل ہوتے ہیں اس لیے ان کی نظریاتی وابستگی خالص اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ البتہ وقت گزرنے کے کے ساتھ ساتھ اس جماعت میں عصبیت کا عنصر داخل ہونا شروع ہوجاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب اس کے بہت سے کارکنوں کی نظریاتی وابستگی کمزور ہوتے ہوتے برائے نام رہ جاتی ہے ‘ لیکن وہ لوگ صرف اس لیے اس کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں کہ ان کے بزرگوں کا تعلق اس جماعت سے تھا۔ پھر تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے اس عصبیت کا دائرہ اور وسیع ہوجاتا ہے۔ اتنے عرصے میں جماعت کے اندر مضبوط شخصی تعلقات پروان چڑھ چکے ہوتے ہیں ‘ رشتہ داریاں بن چکی ہوتی ہیں ‘ کاروباری شراکت داریاں اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہوتی ہیں اور یوں یہ جماعت ایک معاشرتی حلقے یا فرقے کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ اب اس کے کارکن اپنی اپنی ترجیحات اور اپنے اپنے مفادات کے تحت اس جماعت یا فرقے کے ساتھ خود کو وابستہ کیے رکھتے ہیں۔ تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے ہر جماعت میں اس خرابی کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی حقیقت اور دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان ہے : (خَیْرُ اُمَّتِیْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ) (١) ” میری امت میں سب سے بہتر میرا دور ہے ‘ پھر اس کے بعد والوں کا ‘ پھر اس کے بعد والوں کا “۔ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیر کے حوالے سے درجہ بدرجہ تین نسلوں کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان اتنی بڑی حقیقت ہے کہ تین نسلوں کے بعد خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قائم کردہ جماعت کو بھی زوال آگیا۔ اور جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قائم کردہ جماعت بھی اس فطری عمل کے مطابق زوال کا شکار ہوگئی تو کوئی دوسری جماعت کیونکر اس کمزوری سے مبراّ ہوسکتی ہے ؟ چناچہ تیسری نسل (ایک صدی) کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھر کسی مجدد کو اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور وہ از سر نو انہی بنیادوں پر جدوجہد کا آغاز کرتا ہے۔ اسی طرح یہ عمل قیامت تک کے زمانے تک تسلسل کے ساتھ چلتا رہے گا۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے ہر دور کے مخلص مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حق شناسی کے سلسلے میں خود کو ہر قسم کی عصبیت سے بالاتر رکھ کر پوری دیانت داری سے جائزہ لیتا رہے کہ اس کے دور میں اللہ نے دین کی سربلندی کا کام کس کے حوالے کیا ہے اور وہ کون سی جماعت یا شخصیت ہے جو درست انداز میں اس راہ میں جدوجہد کر رہی ہے۔ پھر جب وہ اس سلسلے میں کسی واضح اور ٹھوس نتیجے پر پہنچ جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے تعلقات و مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اس شخصیت یا اس جماعت کا ساتھ دے جس کی جد وجہد کا رخ اس کی سمجھ اور معلومات کے مطابق درست ہو۔ (وَّمَاْوٰٹکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ ) ” تمہاری یہ دوستیاں بس دنیا تک ہی محدود ہیں اور تمہارے یہ گٹھ جوڑ صرف یہیں پر تمہارے لیے مفید ہوسکتے ہیں۔ کل قیامت کے دن تمہارے یہ دوست اور رشتہ دار تمہیں پہچاننے سے بھی انکار کردیں گے۔ اپنے انجام کو دیکھتے ہوئے تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہراؤ گے اور باہم ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجو گے۔ اس مشکل گھڑی میں تمہارا کوئیُ پرسان حال نہ ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

41 The Prophet Abraham must have said this after his safe deliverance tram the fire. 42 That is, "You have built up your collective life on the foundation of idol-worship instead of. God-worship, which can keep you bound together as a nation only to the extent of mudane life. For here in this world people can be got together around any creed, true or false, and any kind of agreement and concord on any belief, however wrong and ill-conceived, can become a means of the establishment of mutual friendships, kinships, brotherhoods, and all other religious, social, cultural, economic and political relationships." 43 That is, "The collective life that you have built on the false creed in the world cannot endure in the Hereafter. Only those relationships of love and friendship and cooperation and kinship and mutual regard and esteem will endure there, which have been based on the worship of One God and virtue and piety in the world. AlI relationships founded on disbelief and shirk and deviation will be severed, and aII kinds of love will change into enmity and hatred. The son and the father, the husband and the wife, the saint and the disciple, all will curse each other, and each will blame his deviation on the other, and will say, "This wicked person led the astray: he should be given a double punishment." This thing has been stated at several places in the Qur'an. For example, in Surah Zukhruf, it has been said: "Friends on that Day shall become enemies of one another, except the righteous." (v. 67) In Surah AI-A`raf: "As each generation will be entering Hell, it will curse Its preceding generation till all generations shall be gathered together there: then each succeeding generation will say regarding the preceding one, "O Lord, these were the people who led us astray; therefore, give them a double chastisement of the Fire." (v. 38) And in Surah AI-Ahzab: "And they will say; 'Our Lord, we obeyed our chiefs and our great men, and they led us astray front the right path. Lord, give them a doable chatisement and curse them severely." (vv. 67-68).

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 41 سلسلہ کلام سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بات آگ سے بسلامت نکل آنے کے بعد حضرت ابراہیم نے لوگوں سے فرمائی ہوگی ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 42 یعنی تم نے خدا پرستی کے بجائے بت پرستی کی بناید پر اپنی اجتماعی زندگی کی تعمیر کرلی ہے جو دنیوی زندگی کی حد تک تمہارا قومی شیرازہ باندھ سکتی ہے ۔ اس لیے کہ یہاں کسی عقیدے پر بھی لوگ جمع ہوسکتے ہیں خواہ حق ہو یا باطل ۔ اور ہر اتفاق و اجتماع چاہے وہ کیسے ہی غلط عقیدے پر ہو ، باہم دوستیوں ، رشتہ داریوں ، برادریوں اور دوسرے تمام مذہبی ، معاشرتی و تمدنی اور معاشی و سیاسی تعلقات کے قیام کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 43 یعنی عقیدہ باطلہ پر تمہاری یہ ہیئت اجتماعی آخرت میں بنی نہیں رہ سکتی ۔ وہاں آپس کی محبت ، دوستی ، تعاون ، رشتہ داری اور عقیدت و ارادت کے صرف وہی تعلقات برقرار رہ سکتے ہیں جو دنیا میں خدائے واحد کی بندگی اور نیکی و تقوی پر قائم ہوئے ہوں ۔ کفر و شرک اور گمراہی و بدراہی پر جڑے ہوئے سارے رشتے وہاں کٹ جائیں گے ۔ ساری محبتیں دشمنی میں تبدیل ہوجائیں گی ، ساری عقیدتیں نفرت میں بدل جائیں گی ، بیٹے اور باپ ، شوہر اور بیوی ، پیر اور مرید تک ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور ہر ایک اپنی گمراہی کی ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر پکارے گا کہ اس ظالم نے مجھے خراب کیا اس لیے اسے دوہرا عذاب دیا جائے ۔ یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمائی گئی ہے ۔ مثلا سورہ زخرف میں فرمایا: اَلْاَخِلَّاۗءُ يَوْمَىِٕذٍۢ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ ، ( آیت 67 ) دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے ، سوائے متقین کے ۔ سورہ اعراف میں فرمایا: ۭكُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا ۭ حَتّٰى اِذَا ادَّارَكُوْا فِيْهَا جَمِيْعًا ۙ قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ، ( آیت 38 ) ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے پاس والے گروہ پر لعنت کرتا ہوا داخل ہوگا حتی کہ جب سب وہاں جمع ہوجائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے ہمارے رب یہ لوگ تھے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا ، لہذا انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے ۔ اور سورہ احزاب میں فرمایا: وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا ۔ رَبَّنَآ اٰتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا ( آیات 67 ۔ 68 ) اور وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہم کو راہ سے بے راہ کردیا ، اے ہمارے رب تو انہیں دوہری سزا دے اور ان پر سخت لعنت فرما

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جو لوگ بتوں کی عبادت کرتے ہیں، انہوں نے اسی بت پرستی کی بنیاد پر دوستیاں قائم کر رکھی ہیں، اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم لوگوں نے بت پرستی سوچ سمجھ کر اختیار نہیں کی، بلکہ اپنے دوستوں کو دیکھا کہ وہ بت پرستی کررہے ہیں تو انہی کے طریقے پر چل پڑے، اور صرف دوستی قائم رکھنے کے لئے اس مذہب کو اپنالیا، سبق یہ دیا گیا ہے کہ حق وباطل کے معاملے میں دوستوں اور رشتہ داروں کی مروت میں کوئی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے، بلکہ بصیرت کے ساتھ وہی راستہ اختیار کرنا چاہئے جو حق ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٥ تا ٣٦۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے یہ کہا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو مار ڈالو یا آگ میں جلادو تو سب نے مل کر بہت ساری لکڑیاں ایک جگہ اکٹھی کیں اور ان لکڑیوں کے گرد میں ایک احاطہ کھینچا پھر ایسی آگ جلائی کہ جس کے شعلے آسمان تک پہنچے ایسی بڑی آگ کبھی نہیں جلی پھر انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ننگا کیا اور ڈھنیکلی میں بٹھا کر اس آگ میں پھینک دیا خدا تعالیٰ نے اس آگ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے سرد کردیا ایسی ہی جان نثاری کے سبب خدا تعالیٰ نے ان کو لوگوں کا امام بنا دیا کس واسطے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی جان کو خدا کی رضامندی میں جان نہیں گنا اور اپنے جسم کو آگ میں ڈال دیا اسی سبب سے سب دینوں کے لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی محبت کا دم بھرتے ہیں غرض حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں کو بطور جھڑ کی کے ارشاد کیا کہ تم نے بتوں کو فقط اس لیے معبو دبنا رکھا ہے کہ دنیا میں ان کے پوجنے پر محبت سے اکھٹے ہوا کرو لیکن قیامت کے دن یہ محبت عداوت ہوجاوے گی ایک ایک پر لعنت کرے گا یہ آپس کی عداوت اور لعنت کا حال سورة بقرہ اور اعراف میں گزر چکا ہے اب آگے اللہ تعالیٰ ارشاد کرتا ہے کہ آگ کا سرد ہوجانا اور ابراہیم (علیہ السلام) کا سلامت رہنا دیکھ کر کسی نے سوائے حضرت لوط (علیہ السلام) کے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو اللہ کا رسول نہ مانا حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھیجتے تھے قتادہ کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط (علیہ السلام) نے مقام کوئی جو کوفہ کے نواح میں ہے ملک شام کی طرف ہجرت کی اور قتادہ نے یہ بھی کہا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہجرت ہوتی رہے گی یہاں تک کہ سب زمین والے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت کی جگہ ہجرت کریں گے مسند امام احمد اور ابوداؤد میں عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) کی روایت سے ایک حدیث ١ ؎ اسی مضمون کی ہے جس سے قتادہ کے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے اس حدیث کی سند میں ایک راوی شہربن جو شب کو اگرچہ بعضے علمانے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ابوزرعہ اور امام احمد نے شہر بن حوشب کی معتبر کہا ہے پھر فرمایا جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا تو ہم نے اس کو اسحاق اور یعقوب دیا اور ہر ایک کو نبی کیا حضرت اسحاق (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے تھے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) پوتے تھے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ اہم نے ابراہیم کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی یہ ایک اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے بنی اسرائیل کے کل انبیاء حضرت یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان میں سے ہی ہوئے ہیں سب سے آخر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں انہوں نے سب لوگوں میں کھڑے ہو کر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہونے کی بشارت دی ہے جو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کوئی اور نبی نہیں ہوا حضرت اسماعیل بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں پھر فرمایا ہم نے ابراہیم کو اس کا بدلہ دنیا میں دیا کہ سب دین مذہب والے ان کی تعریف کرتے ہیں اور ان کو دوست جانتے ہیں اب آگے حضرت لوط (علیہ السلام) کا حال بیان فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایسے ب برے کام کرتے ہو جو تمام جہان میں کسی نے نہیں کئے مردوں پر دوڑتے ہو اور راہ مگر تے ہو جو راہ سے گزرتا ہے اس کو قتل کر ڈالتے ہو اور اس کا مال واسباب لوٹ لیتے ہو اور مجلس میں جمع ہو کر برے فعل کرتے ہو اور کوئی کسی کو برا نہیں کہتا مجاہد نے جہا مجلس میں سب کے روبر ایک دوسرے سے بدکاری کرتے تھے اور حضرت بوط (علیہ السلام) کے وعظ ونصیحت کا کچھ جواب نہ دیتے تھے یہی کہتے اگر تو سچا ہے تو خدا کا عذاب ہم پر لے آ فرمایا حضرت لوط (علیہ السلام) نے اے رب میری اس فسادی قوم کے مقابلہ میں میری مدد کر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور فرشتے ان کی مدد کو بھیجے وہ پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس مہمانوں کی شکل میں آگے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے آگے کھانا رکھا جب دیکھا کہ وہ نہیں کھاتے تو ان کو اوپرے جان کر ڈرے تو فرشتے ان کو خوشخبری سنانے لگے کہ تمہاری بی بی سارہ کے پیٹ سے بیٹا نیک پیدا ہوگا بی بی نے سن کر تعجب کیا یہ قصہ سورة ہود میں اور حجر میں پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوش خبری مل چکی اور ان کو یہ معلوم ہوا کہ یہ فرشتے ہیں اور لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کرنے کو بھیجے گئے ہیں تو عذاب کے دور کرنے کے باب میں فرشتوں سے بات چیت کرنے لگے کہ اس بستی میں تو لوط بھی ہے فرشتوں نے کہا کہ ہم سب کو جانتے ہیں لوط اور اس کے لوگوں کو ہم نجات دیں گے مگر اس کی بیوی نافرمان لوگوں کے ساتھ ہلاک ہوگی غرض کہ وہ فرشتے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) سے رخصت ہو کر حضرت لوط ( علیہ السلام) کے پاس خوبصورت لڑکوں کی شکل میں جب پہنچے تو حضرت لوط ( علیہ السلام) ان کو دیکھ کر دل میں تنگ ہوئے کیونکہ قوم کی بدفعلی سے اندیشہ ناک تھے حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو پہچانا نہ تھا یہ کہ فرشتے ہیں اس لیے فرشتوں نے ان سے کہا کہ تم نہ ڈرو اور غم نہ کھاؤ ہم تم کو اور تمہارے اہل کو عذاب سے بچا لیں گے مگر تمہاری بیوی انہیں کے ساتھ ہلاک ہوگی پھر حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے ان کی بستیوں کو زمین کی جڑ سے اکھاڑ اکھاڑ کر الٹ دیا اور ان کے اوپر پتھروں کا مینہ برسایا اور ان کو قیامت کے روز تک اوروں کے لیے عبرت کا نمونہ قرار دیا اسی واسطے فرمایا ہم نے چھوڑ رکھا نشان کھلا ہوا عقل والوں کو کیونکہ صبح وشام تم وہاں سے آتے جاتے ہو اور ان کے مکانوں کے نشان دیکھتے ہو مجاہد کا قول ہے کہ نشان نظر آنے سے یہ مراد ہے کہ ان لوگوں کی زمین میں سیاہ پانی باقی ہے اب آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول حضرت شعیب (علیہ السلام) کا حال بیان فرمایا۔ کہ انہوں نے اپنی قوم مدین کے باشندوں کو یہ حکم دیا کہ تم اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ کی عبادت کرو اور آخرت کے دن کی جزا کی توقع رکھو اور دین بین میں لوگوں کے ساتھ دغازبازی نہ کرو یہ لوگ تولنے میں دغابازی کرتے تھے اور راستہ بھی لوٹتے تھے اور اللہ اور رسول کو جھٹلاتے تھے اس لیے ان کو ایک بھونچال نے پکڑا اور پھر ایک سخت آواز نے جس سے وہ اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل اوندھے مردہ پڑے ہوئے تھے۔ پورا قصہ ان کا سورة اعراف میں اور سورة ہود میں اور سورة شعراء میں بیان ہوچکا ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) نے ایک بڑی سخت آواز کی اسی کے سبب سے بھونچال آیا جس سے ان لوگوں کے دل دھل گئے اور ان کے سب مکان گر پڑے تفسیر عبدالرزاق تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن ابی حاتم میں زیدبن اسلم سے روایت ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو نمرود اور اس کی قوم کی ہدایت کے لیے بھیجا اس ہدایت پر جب یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو ان پر مچھروں کا عذاب نازل ہوا یہ مچھر اور لوگوں کا تو سب خون پی گئے گوشت اور چربی سب کھاگئے خالی ہڈایاں زمین پر گر پڑیں مگر نمرود کے دماغ میں ایک مچھر چڑھ گیا جس کے سبب سے اس کے سر پر ایک مدت تک طرح طرح کی مار پڑتی رہی اس ذلت کے بعد پھر وہ بھی ہلاک ہوگیا۔ اس تفسیر میں ایک جگہ گزر چکا ہے کہ امام بخاری نے عبدالرزاق کی تصنیفات کو صحیح ٹھہرا کر یہ کہا ہے کہ عبدالرزاق کے نابینا ہوجانے کے بعد جن لوگوں نے ان سے زبانی روایتیں لی ہیں وہ البتہ ضعیف ہیں اسی طرح تفسیر ابن ابی حاتم کی صحت روایت کا تذکرہ بھی گزر چکا ہے اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ تفسیر عبدالرزاق اور تفسیر ابن ابی حاتم کی روایتوں میں نمرود اور اس کی قوم کی ہلاکت کا جو قصہ ہے ‘ وہ صحیح ہے اس واسطے بعض معتبر تفسیروں میں اس قصہ کو آیت وارادوا بہ کید افجعلنا ھم الاخسرین کی تفسیر قرار دیا ہے سورة انبیآء میں ابراہیم (علیہ السلام) کا جو قصہ ہے مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ قوم ابراہیم نے اگرچہ ابراہیم (علیہ السلام) کی جان کا نقصان چاہا تھا لیکن آخر کار انہی لوگوں کو نقصان پہنچا یہ زیدبن اسلم ثقہ تابعی اور مشہور مفسروں میں ہیں ان کے بیٹے عبدالرحمن بن زید بھی قدیم مفسروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ تفسیر کے باب میں یہ عبدالرحمن اپنے باپ زیدبن اسلم سے روایت کیا کرتے ہیں۔ امام مالک (رح) نے ان زید سے اکثر روایتیں لی ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تک چاہتا ہے فسادی قوموں کو مہلت دیتا ہے اور پھر جب پکڑ لیتا ہے تو بالکل تباہ کردیتا ہے قوم ابراہیم قوم لوط اور قوم شعیب کی مہلت اور تباہی کی حدیث گویا تفسیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:25) مودۃ۔ محبت۔ دوستی۔ مصدر ہے ۔ اور مصادر بھی اسی مادہ (ودد) سے آئے ہیں۔ ود، ود، ود وداد، ودادۃ، مودۃ، موددۃ، مودودۃ۔ محبت کرنا۔ ودود بہت محبت کرنے والا۔ دوست۔ تواد (تفاعل) باہم دوستی رکھنا۔ انما اتخذتم من دون اللہ اوثانا مودۃ بینکم فی الحیوۃ الدنیا۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1) مودۃ : اتخذتم کا مفعول لہ ہے ۔ اور ترجمہ ہوگا ! تم اللہ کے سوا بتوں کو معبود اپنی آپس کی دنیوی دوستی کے لئے ٹھہرا لیا ہے۔ (یعنی اس ہم اعتقادی سے تمہاری باہمی محبت بڑھے) (2) یا ان کی آپس کی محبت ان کے بت پرستی کا سبب ٹھہری۔ ترجمہ ہوگا :۔ تم نے آپس کی دنیوی محبت کی خاطر اللہ کے سوا بتوں کو معبود ٹھہرالیا۔ (تم نے اپنے باپ دادا کو بر پرستی پر پایا اور ان کی محبت کی وجہ سے ان کے غلط طریقہ پر چلتے رہے۔ برادری کی محبت کی خاطر غلط بات کو ترک نہ کیا۔ یکفر۔ مضارع واحد مذکر غائب وہ انکار کریگا۔ (یہاں جمع کے معنی میں آیا ہے۔ وہ انکار کریں گے) کفرمصدر سے (باب نصر) بعضکم من بعض۔ تم میں بعض بعض سے (انکار کریں گے) یعنی تم آپس میں ایک دوسرے کی پہچان سے ایک دوسرے کی بات سے منکر ہوجاؤ گے۔ ماوکم۔ مضاف مضاف الیہ۔ تمہارا ٹھکانہ۔ ماوی۔ اسم ظرف ہے قیام کی جگہ، ٹھیرنے کا مقام قرآن مجید میں جہاں بھی ماوی بصورت اضافت استعمال ہوا ہے وہاں ظرفی معنی میں استعمال ہوا ہے اور جہاں بغیر اضافت کے مستعمل ہے وہاں مصدری معنی میں آیا ہے۔ اوی یاوی ماوی (باب ضرب)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ یعنی اس لئے کہ تمہاری اجتماعیت کی عمارت استوار رہے اور گرنے نہ پائے۔ یعنی تم ڈرتے ہو کہ اگر تم نے ان معبودوں کی پرستش چھوڑ دی تو معاشرے کے لوگ ایک دوسرے سے پھٹ جائیں گے اور باہمی دوستی اور محبت کے علاقے کٹ جائیں گے۔ (شوکانی) 9 ۔ یعنی جب قیامت کے روز عذاب دیکھیں گے تو تمہاری دوستی و محبت کے تمام رشتے کٹ جائیں گے اور تم ایک دوسرے کو ملامت کرو گے، چیلے گروئوں پر لعنت بھیجیں گے۔ اور گرو چیلوں سے لاتعلقی کا اظہار کریں گے۔ تابع اور متبوع ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے۔ (دیکھئے بقرہ :166)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ چناچہ مشاہدہ ہے کہ اکثر آدمی اپنے علاقہ اور دوستی اور رشتہ والوں کے طریق پر رہتا ہے، یا تو اس وجہ سے حق میں غور ہی نہیں کرتا، اور یا سمجھ کر بھی ڈرتا ہے کہ یہ سب چھٹ جاویں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آگ سے بسلامت نکلنے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو آخری خطاب۔ قوم اور حکومت نے اپنی طرف سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو زندہ جلا ڈالا تھا۔ لیکن رب جلیل نے اپنے خلیل (علیہ السلام) کو اتنے دن آگ میں پڑے رہنے کے باوجود آنچ نہ آنے دی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بسلامت آگ سے نکل کر قوم کے سامنے آئے تو لوگ اللہ کی قدرت کا معجزہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ قرآن مجید کے خطاب اور الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آگ سے نکلنے کے بعد حضرت کا قوم سے یہ پہلا خطاب تھا۔ اس لیے انھوں نے بتوں کی تردید کرنے کے ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دنیا کی زندگی یعنی اس کے مفاد اور میری مخالفت کے لیے تم آپس میں اکٹھے ہوچکے ہو۔ لیکن یاد رکھو قیامت کے دن نہ صرف تم ایک دوسرے سے لا تعلق اور بتوں کی عبادت کا انکار کرو گے بلکہ ایک دوسرے پر لعنت بھی کرو گے۔ اب تو کفر و شرک پر ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہو لیکن قیا مت کے دن تم ایک دوسرے کی قطعاً مدد نہیں کرسکو گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنَ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّتِسْعِیْنَ جُزْءً ا کُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں یقیناً اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ عرض کیا گیا اللہ کے رسول ! یہی آگ جلانے کے لیے کافی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس آگ سے وہ ننانوے حصے زیادہ ہے ان میں سے ہر حصے کی گرمی دنیا کی آگجیسی ہے۔ “ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِيْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِيْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم میں ڈالا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کے پیپ پلائی جائے گی۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن مشرک ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن عابد اور معبود ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن عابد اور معبود ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کریں گے : ١۔ عابد و معبود ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے۔ (یونس : ٢٨ تا ٣٠) ٢۔ جب مشرک اپنے معبودوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے یہی ہیں وہ جن کی ہم اللہ کے سو اپکارتے تھے۔ معبود کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو۔ (النحل : ٨٦) ٣۔ اگر تم انہیں پکارو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے۔ اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔ قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے۔ (فاطر : ١٤) ٤۔ جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو معبود ان کے دشمن ہوں گے اور اپنی پرستش سے انکار کریں گے۔ (الاحقاف : ٦) ٥۔ ان کے شریکوں میں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہوگا اور وہ اپنے شریکوں کے انکاری ہوجائیں گے۔ (الروم : ١٣) ٦۔ جن کو وہ پکارا کرتے تھے۔ وہ سب ان سے غائب ہوں گے۔ (حٰم السجدہ : ٤٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نجات کے بعد بھی یہ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ حضرت ابراہیم اب اس قوم کی ہدایت سے مایوس ہوگئے ہیں جو اس قدر واضح اور بین معجزے کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتی تو قبل اس کے کہ حضرت ان کو الوداع کہیں ان کو آخری حجت کے طور پر ایک حقیقت کے سامنے کھڑا کرتے ہیں : وقال انما اتخذتم ۔۔۔۔۔۔ من نصرین (25) ” اور اس نے کہا ، تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور آگ تمہارا ٹھکانا ہوگی اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہوگا “۔ ہم نے بتوں کی بندگی اس لیے اختیار نہیں کی کہ تم عقیدتاً ان کو الٰہ سمجھتے ہو اور تم ان کی بندگی پر مطمئن ہو بلکہ تم اس برائی پر ایک دوسرے کا لحاظ ملاحظہ کرتے ہوئے متفق ہوگئے ہو۔ محض ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے ، یہ بندگی کرتے ہو۔ تم میں سے ایک دوست یہ نہیں چاہتا کہ دوسروں کے الہوں کو چھوڑ دے۔ اگرچہ حق واضح ہوگیا ہو۔ اگر کوئی نئی سچائی کو قبول کرلے تو اس صورت میں دو ستیاں ختم ہونے کا خطرہ ہے۔ یہ دوستیاں تم سچائی کی حق تلفی کرکے قائم رکھتے ہو۔ تم سچائی کو نظر انداز کرتے ہو اور اس کے مقابلے میں دوستیوں کو زیادہ قائم رکھتے ہو۔ تم سچائی کو نظر انداز کرتے ہو اور اس کے مقابلے میں دوستیوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہو ، حالانکہ دعوت اسلامی ایک سنجیدہ امر ہے۔ یہ کوئی نری ، کوئی ڈھیل اور کوئی دوستی قبول نہیں کرتی۔ اس کے بعد ان کے اخروی انجام کے صفحات کھولے جاتے ہیں۔ جن دوستوں کا لحاظ کرتے ہوئے وہ حق کو نظر انداز کر رہے ہیں اور بتوں کی بندگی پر قائم ہیں۔ قیامت کے دن یہ لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔ ایک دوسرے پر لعن طعن کریں گے اور ایک دوسرے کو ملامت کریں گے اور یہ دو ستیاں ٹوٹ جائیں گی۔ ثم یوم القیمۃ یکفر۔۔۔۔۔ بعضکم بعضا (29: 25) ” مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کروگے “۔ لیکن یہ لعن و طعن کوئی فائدہ نہ دے گا۔ اس سے تمہارے عذاب میں کوئی کمی نہ آئے گی۔ وماوکم النار وما لکم من نصرین (29: 25) ” آگ تمہارا ٹھکانا ہوگی اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہوگا “۔ اسی آگ میں یہ لوگ رہیں گے جس کے ساتھ وہ حضرت ابراہیم کو جلانا چاہتے تھے لیکن اللہ نے ان کی مدد کی اور ان کو نجات دے دی رہے وہ تو ان کیلئے نہ نصرت ہے اور نہ نجات۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دعوت دینا چھوڑ دیا۔ یہ معجزہ جو ناقابل شک تھا ، وہ بھی ان کے سامنے آگیا ۔ اس دعوت اور اس ناقابل تردید معجزے کے نتیجے میں صرف ایک شخص مسلمان ہوئے ، حضرت لوط ، ان کی بیوی نے بھی اسلام قبول نہ کیا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت لوط آپ کے بھتیجے تھے۔ یہی ایک مسلمان حضرت ابراہیم کے ساتھ ایرانیوں کے شہر ار سے ہجرت کرکے اردن سے آگے کے علاقے میں جاکر آباد ہوئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ مودۃ، مفعول لہ ہے اور مابعد کی طرف مضاف ہے، بین اسم ہے بمعنی وصلۃ (پیوستگی) یعنی تم نے غیر اللہ کو معبود اس لیے بنا رکھا ہے تاکہ اس بنا پر تمہاری دنیا میں باہمی محبت و پیوستگی اور اتحاد باقی رہے اور مخالفت پیدا نہ ہو ای لیتوادوا ویتواصلوا و یجتمعوا علی عبادتہا کما یجتمع ناس علی مذھب فیقع التحاب بینہم (بحر ج 7 ص 148) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ تم نے اپنے اسلام کے ساتھ محبت و عقیدت کی وجہ سے ان کے ٹھاکر بنا رکھ لیے اور ان کی عبادت کرتے ہو۔ ان الاوثان اول ما تخذت بسبب المودۃ وذلک انہ کان اناس صالحون فماتوا واسف علیہم اھل زمانہم فصوروا احجار ابصورھم حبالھم فکانوا یعظمونہا فی الجملۃ ولم یزل تعظیمہا یزداد جیلا فجیلا حتی عبدت فا الایۃ اشارۃ الی ذلک فالمعنی انما اتخذتم اسلافکم من دون اللہ اوثانا الخ۔ (روح ج 20 ص 150) ۔ 21:۔ دنیا میں تو تم مودت و الفت کے لیے معبودان باطلہ کی عبادت کرتے ہو لیکن قیامت کے دن تم ایک دوسرے سے بیزار ہوگے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے۔ یعنی معبود اپنے پجاریوں سے اور گمراہ پیشوا اپنے پیروکاروں سے بیزار ہوں گے اور عوام اپنے گمراہ پیروں اور شرک سکھانے والے پیشوؤں پر لعنت بھیجیں گے۔ تتبرا الاوثان من عبادیہا وتتبرا القادۃ من الاتباع و یلعن الاتباع القادۃ (خازن و معالم ج 5 ص 158) اور تم سب جہنم میں جاؤ گے اور جہنم کی آگ سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکے گا (وما لکم من نصرین) یخلصونکم منہا کما خلصنی ربی من النار التی القتیمونی فیہا (ابو السعود ج 6 ص 690) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

25۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ تم نے جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا رکھا ہے تو بس محض دنیوی زندگی کے باہمی مروت و محبت کے تعلقات کی بنا پر بنا رکھا ہے پھر قیامت کے دن تم میں سے ایک دوسرے کی مخالفت کرے گا اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گا اور تمہارا ٹھکانہ اس وقت دوزخ کی آگ ہوگا اور تمہاری کوئی مدد کرنیوالا نہ ہوگا ۔ یعنی تم جو بت پرستی میں مبتلا ہو اور تم نے جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اصنام کو اپنا معبود بنا رکھا ہے یہ محض آپس کی دیکھا دیکھی اور آپس کے تعلقات اور باہمی رشتہ دراریوں اور برادری کی مروت کی وجہ سے ہے کہ کوئی رشتہ داری اور باہمی تعلقات کی وجہ سے نکو بننا نہیں چاہتا کہ جو توحید کو قبو ل کرے گا اس پر سب انگلیاں اٹھائیں گے لیکن قیامت میں ایک دوسرے کا مخالف ہوگا اور ایک دوسرے پر لعنت ملامت کرے گا کہ تیری وجہ سے میں بھی کفر میں رہ گیا وہ کہے گا تیری وجہ سے میں توحید کا قائل نہ ہوا باہمی مروت و محبت کی بنا پر کفر اور شرک اختیار کرنا اور خلاف شریعت مراسم کی پابندی کرنا ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے لیکن قیامت کے دن یہ مروتیں دشمنوں سے بدل جائیں گی اور ایک دوسرے کو ہدف ملامت بنا رہا ہوگا اس دن ان سب کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہوگا اور ان بد قسمتوں کا کوئی مدد گار نہ ہوگا ۔ العیاذ باللہ ! اورحضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی وہ شیطان جن کے نام کے تھان ہیں اللہ کے روبرو منکر ہوں گے کہ ہم نے نہیں کہا کہ ہم کو پوجو تب یہ پوجنے والے ان کو پھٹکار دیں گے کہ ہماری نذر و نیازلے کر وقت پر پھرگئے۔