Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 39

سورة العنكبوت

وَ قَارُوۡنَ وَ فِرۡعَوۡنَ وَ ہَامٰنَ ۟ وَ لَقَدۡ جَآءَہُمۡ مُّوۡسٰی بِالۡبَیِّنٰتِ فَاسۡتَکۡبَرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا کَانُوۡا سٰبِقِیۡنَ ﴿۳۹﴾ۚ ۖ

And [We destroyed] Qarun and Pharaoh and Haman. And Moses had already come to them with clear evidences, and they were arrogant in the land, but they were not outrunners [of Our punishment].

اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی ، ان کے پاس حضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) کھلے کھلے معجزے لے کر آئے تھے پھر بھی انہوں نے زمین میں تکبر کیا لیکن ہم سے آگے بڑھنے والے نہ ہو سکے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And `Ad and Thamud! And indeed (their destruction) is clearly apparent to you from their (ruined) dwellings. Shaytan made their deeds fair seeming to them, and turned them away from the path, though they were intelligent. And Qarun, Fir`awn, and Haman. And indeed Musa came to them with clear Ayat, but they were arrogant in the land, yet they could not outstrip Us. Allah tells us about these nations who disbelieved in their Messengers, and how He destroyed them and sent various kinds of punishments and vengeance upon them. `Ad, the people of Hud, peace be upon him, used to live in the Ahqaf (curved sand-hills), near Hadramawt, in the Yemen. Thamud, the people of Salih, lived in Al-Hijr, near Wadi Al-Qura. The Arabs used to know their dwelling place very well, and they often used to pass by it. Qarun was the owner of great wealth and had the keys to immense treasures. Fir`awn, the king of Egypt at the time of Musa, and his minister Haman were two Coptics who disbelieved in Allah and His Messenger, peace be upon him. Allah tells:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

391یعنی دلائل و معجزات کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا اور بدستور متکبر بنے رہے، یعنی ایمان وتقویٰ اختیار کرنے سے گریز کیا۔ 392یعنی ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جاسکے اور ہمارے عذاب کے شکنجے میں آکر رہے۔ ایک دوسرا ترجمہ ہے کہ ' یہ کفر میں سبقت کرنے والے نہیں تھے ' بلکہ ان سے پہلے بھی بہت سی امتیں گزر چکی ہیں جنہوں نے اس طرح کفر وعناد کا راستہ اختیار کئے رکھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] یعنی نہ تو یہ لوگ اپنی تدبیروں سے اللہ کی تدبیر کو ناکام بناسکتے تھے اور نہ ہی اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں جاسکتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ ۔۔ : پچھلی آیات میں کافر اور متکبر اقوام کا ذکر تھا، اس آیت میں ابوجہل، امیہ ابن خلف، عتبہ، شیبہ، ابولہب اور قریش کے دوسرے بڑے بڑے کافر اور متکبر سرداروں کے لیے بطور مثال گزشتہ چند کافر اور متکبر افراد کا ذکر فرمایا جو اپنے کفر و تکبر کی وجہ سے اپنی اور اپنی قوم کی بربادی کا باعث بنے۔ ان میں قارون دولت کی کثرت کی وجہ سے کفر و تکبر کی مثال ہے، فرعون حکومت کی وجہ سے اور ہامان وزارت کی وجہ سے۔ ان تینوں کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) واضح معجزات لے کر آئے، مگر وہ سرزمین مصر میں بڑے بن بیٹھے اور ایمان لانے سے انکار کردیا، پھر جب اللہ کا عذاب آیا تو ایک بھی ایسا نہ تھا کہ اس کی گرفت سے بچ نکلتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ۝ ٠ۣ وَلَقَدْ جَاۗءَہُمْ مُّوْسٰي بِالْبَيِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ وَمَا كَانُوْا سٰبِقِيْنَ۝ ٣٩ۚۖ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس ہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استفعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11][ أَنْ يَسْبِقُونَا } يَفُوتُونَا فَلَا نَنْتَقِم مِنْهُمْ ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے یعنی چھوٹ جائیں گے ، تو ہم ان سے انتقام نہ لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٩) اور ہم نے قارون اور فرعون اور اس کے وزیر ہامان کو بھی ہلاک کیا اس صورت میں کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس اوامرو نواہی اور حق کی کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے تو انہوں نے ایمان لانے سے انکار کیا اور ان واضح دلیلوں اور نشانیوں پر ایمان نہ لائے مگر وہ ہمارے عذاب سے بھاگ نہ سکے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

67 That is, "They could not have got away and escaped Allah's grasp: they had no power to frustrate and defeat Allah's plans and schemes."

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 67 یعنی بھاگ کر اللہ کی گرفت سے بچ نکلنے والے نہ تھے ۔ اللہ کی تدبیروں کو ناکام کر دینے کی طاقت نہ رکھتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

19: دیکھئے سورۂ قصص : 37، 75

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:39) وقارون و فرعون وھامان معطوف علی عادا وثمودا۔ ای واھلکنا قارون و فرعون وھامان۔ قارون کو فرعون اور ہامان سے قبل لانے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں :۔ (1) وہ ان سے قبل ہلاک ہوا۔ (2) وہ بظاہر حضرت موسیٰ پر ایمان لایا تھا اور تورات کا علم ان سے زیادہ رکھتا تھا۔ (3) وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا رشتہ دار ہونے کی وجہ سے زیادہ نزدیک تھا۔ جاء ہم میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب قارون و فرعون و ہامان کی طرف راجع ہے ۔ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس واضح دلائل لائے۔ البینت : روشن دلائل۔ کھلی نشانیاں۔ فاستکبروا۔ ف تعقیب کا ہے استکبروا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے استکبار (استفعال) مصدر انہوں نے گھمنڈ کیا۔ انہوں نے غرور کیا۔ الکبر و التکبر والاستکبار قریب قریب ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔ کبر وہ حالت ہے جس کے سبب انسان اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے۔ اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبادت سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے حدیث شریف میں ہے کہ الکبران تسفہ الحق وتغمص الناس۔ تکبر یہ ہے کہ تو حق کو جہالت تصور کرے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے۔ فی الارض۔ زمین میں یا زمین پر۔ حالانکہ زمین پر رہنے والوں کو زیب نہیں دیتا یا ان کو سزاوار نہیں کہ حقیر شے سے پیدا ہونے والی حقیر شے حق سے اور عبادت خالق سماوات والارض سے انکار کرے۔ انہی معنوں میں اور جگہ بھی فی الارض مستعمل ہے۔ مثلاً تستکبرون فی الارض بغیر الحق (46:120) کہ تم زمین میں ناحق غرور کیا کرتے تھے۔ وما کانوا سابقین : ما کانوا فعل ناقص۔ سابقین خبر۔ سابقین : سابق کی جمع۔ سبق سے اسم فاعل جمع مذکر۔ آگے بڑھنے والے۔ سبقت لیجانے والے۔ یہاں وما کانوا سابقین کا مطلب ہے کہ وہ ہم سے بھاگ کر نہ نکل سکے۔ ہماری سزا سے بچ نہ سکے۔ یہاں ضمیر جمع مذکر غائب فرعون و ہامان و قارون کی طرف راجع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم نوح، قوم ابراہیم، قوم لوط، قوم عاد، قوم ثمود کی طرح آل فرعون نے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت اور حق کے خلاف تکبر اختیار کیا۔ پہلی اقوام کے کردار اور ان کی تباہی کا ذکر کرنے کے بعد نہایت مختصر الفاظ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے تین افراد کا نام لیا ہے جو پوری قوم کی تباہی کا باعث بنے ان میں قارون نے اپنی دولت کی بنیاد پر فرعون اپنے اقتدار کی خاطر اور ہامان نے اپنی سیاست کی بناء پر حقائق کو جھٹلایا اور تکبر کرنے کی انتہاء کردی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اِ ن پر گرفت کی۔ تو قارون کی دولت، فرعون کا اقتدار اور ہامان کی سیاست اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہ بچا سکی۔ (اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان ] ” تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ “ مسائل ١۔ قارون، فرعون اور ہامان نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کی اور اپنی قوم کو گمراہ کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے تکبر کی وجہ سے نیست و نابود کردیا۔ تفسیر بالقرآن متکبرّین کا انجام : ١۔ سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا۔ (ص : ٧٤) ٢۔ تکبر کرنا فرعون اور اللہ کے باغیوں کا طریقہ ہے۔ (القصص : ٣٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المؤمن : ٣٥) ٤۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٥۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المؤمن : ٧٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقارون وفرعون ۔۔۔۔۔ وما کانوا سبقین (39) ” اور قارون و فرعون و ہامان کو ہم نے ہلاک کیا اور موسیٰ ان کے پاس بینات لے کر آیا ، مگر انہوں نے زمین میں اپنی بڑائی کا زعم کیا ، حالانکہ وہ سبقت لے جانے والے نہ تھے “۔ قارون قوم موسیٰ کا فرد تھا مگر اس نے اپنی دولت مندی کی وجہ سے ان سے بغاوت کی۔ اور اس نے نصیحت کرنے والوں کی یہ نصیحت نہ سنی کہ اعتدال اور تواضع کا راستہ اختیار کرو ، لوگوں پر احسان کرو اور سرکشی اور بغاوت نہ کرو۔ اور فرعون ایک جبار اور سرکش حکمران تھا۔ اور قوم کے خلاف گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرتا تھا۔ اس نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا اور پوری طرح کنڑول میں لے رکھا تھا۔ وہ بنی اسرائیل کے مردوں کو قتل کرتا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھتا تھا۔ اور یہ محض ظلم کی وجہ سے ۔ ہامان فرعون کا وزیر تھا اور اس کی ان قاہرانہ اور ظالمانہ ریاستی پالیسیوں کی تنفیذ وہ کرتا تھا۔ فرعون کے تمام جرائم میں یہ اس کیلئے معین و مددگار تھا۔ یہ لوگ جو قوت ، مال اور اسباب حیات کے مالک تھے اور زمین پر پوری طرح غالب تھے ان سب کو اللہ نے پکڑا ، کیونکہ انہوں نے لوگوں کو فتنے میں ڈال دیا تھا اور ان کو اذیت دیتے تھے۔ اور وہ طویل عرصہ تک ایسا کرتے رہے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32:۔ یہ ساتواں قصہ ہے اور دوسرے دعوے سے متعلق ہے۔ ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) دلائل و بینات لے کر آئے یہ لوگ دولت و حکومت کے نشے میں چور ان کی بات کب سننے والے تھے۔ انہوں نے قبول حق سے استکبار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ خدا کی گفرت سے نکل جائیں گے اور اس کے ہاتھ نہیں آئیں گے لیکن ان میں سے کوئی بھی بچ نہ سکا۔ فکلا اخذنا بذنبہ، ہم نے سب کو پکڑ لیا اور ان کے گناہوں کی دنیا میں بھی انہیں عبرتناک سزا دی۔ ان چاروں قوموں کے ذکر کے بعد فرمایا، وما کانوا سبقین، اس سے معلوم ہوگیا کہ یہ چار قصے، ام حسب الذین یعملون السیات ان یسبقونا، سے متعلق ہیں۔ کسی قوم کو حاصب یعنی طوفان باد سے ہلاک کیا، مراد قوم لوط ہے۔ کسی کو صیحۃ (چنگھاڑ) سے، اس سے مدین اور ثمود مراد ہیں۔ کسی کو زمین میں دھنسا دیا یعنی قارون کو اور کسی کو پانی میں غرق کردیا اور اس سے فرعون اور اس کی قوم مراد ہے۔ وما کان اللہ لیظلمہم الخ، ان قوموں کو گوناگوں عذابوں سے ہلاک کر کے اللہ تعالیٰ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود کفر و شرک اور معاصی کو اختیار کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے تو پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر ان پر حق کو واضح فرمایا مگر انہوں نے اسے قبول نہ کیا۔ یہ اسی استکبار اور انکار حق کی سزا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

39۔ اور ہم نے قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی ہلاک کیا اور بلا شبہ ان لوگوں کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) صاف صاف دلائل و احکام لیکر آیا تھا مگر انہوں نے ملک میں سرکشی اور تکبر کیا اور وہ ہم سے جیت نہ سکے اور بچ کر کہیں بھاگ نہ سکے۔ یعنی باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں کے پاس واضح دلائل اور صاف احکام لیکر آئے لیکن ان کی نخوت تکبر اور غرور اور سرکشی میں کمی نہ آئی اور برابر اونچے ہوتے چلے گئے بالآخر ان کے افعال ناشائستہ ان کو بچا نہ سکے اور وہ باوجود اپنی حکومت و دولت کے ہم کو ہرا نہ سکے اور ہم سے بھاگ کر کہیں جا نہ سکے۔