Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 42

سورة العنكبوت

اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۴۲﴾

Indeed, Allah knows whatever thing they call upon other than Him. And He is the Exalted in Might, the Wise.

اللہ تعالٰی ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جنہیں وہ اس کے سوا پکار رہے ہیں ، وہ زبردست اور ذی حکمت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The parable of those who seek protectors from other than Allah is that of a spider who builds a house; but indeed, the weakest of houses is the spider's house -- if they but knew. Verily, Allah knows what things they invoke instead of Him. He is the All-Mighty, the All-Wise. This is how Allah described the idolators in their reverence of gods besides Him, hoping that they would help them and provide for them, and turning to them in times of difficulties. In this regard, they were like the house of a spider, which is so weak and frail, because by clinging to these gods they were like a person who holds on to a spider's web, who does not gain any benefit from that. If they knew this, they would not take any protectors besides Allah. This is unlike the Muslim believer, whose heart is devoted to Allah, yet he still does righteous deeds and follows the Laws of Allah, for he has grasped the most trustworthy handle that will never break because it is so strong and firm. Then Allah warns those who worship others besides Him and associate others with Him that He knows what they do and the rivals they associate with Him. He will punish them for their attribution, for He is All-Wise and All-Knowing. Then He says: وَتِلْكَ الاَْمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلاَّ الْعَالِمُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٧] اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک تو ترجمہ سے ہی واضح ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ جن جن چیزوں کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں اور محض لاشی ہیں [٦٨] یعنی اللہ کو نہ تو ان معبودوان باطل کی رفاقت مطلوب ہے۔ کیونکہ خود ہی سب سے زبردست اور سب پر غالب ہے۔ اور نہ ہی ان سے کسی قسم کے مشورہ کی ضرورت ہے کیونکہ حکیم مطلق ہے۔ اپنے ہر کام کی حکمت اور مصلحت سے خوب واقف ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُوْنَ ۔۔ : ممکن تھا عنکبوت کی مثال سن کر کوئی شخص تعجب کرتا کہ اللہ تعالیٰ نے سب کو مکڑی جیسا بےبس اور بےاختیار بنادیا، کسی کو مستثنیٰ نہ کیا، بعض لوگ بتوں کو پوجتے ہیں، بعض آگ کو، بعض پانی کو جب کہ وہ لوگ بھی ہیں جو فرشتوں اور انبیاء و اولیاء کو پوجتے اور پکارتے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ لوگ اللہ کے سوا جس کسی کو بھی پکارتے ہیں اسے سب معلوم ہیں، اگر ان میں سے کسی کے پاس بھی کچھ قدرت یا اختیار ہوتا تو اللہ تعالیٰ سب کی سرے سے نفی نہ کرتا۔ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ : یعنی اللہ خود سب پر غالب ہے، اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں اور وہ کمال حکمت والا ہے، اسے کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں۔ 3 اس آیت کا ایک اور ترجمہ بھی ہوسکتا ہے ” یقیناً اللہ جانتا ہے کہ یہ لوگ اس کے سوا کسی بھی چیز کو نہیں پکارتے۔ “ یعنی اسے چھوڑ کر جنھیں پکارتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں اور عزیز و حکیم بس وہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَيْءٍ۝ ٠ ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ ٤٢ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٢) اللہ تعالیٰ ان تمام جھوٹے معبودوں کو جانتا ہے جن کی یہ اللہ کے علاوہ پرستش کر رہے ہیں کہ یہ معبود دنیا و آخرت میں ان کے کچھ کام نہیں آسکتے اور وہ غیر اللہ کی پرستش کرنے والوں کو سزا دینے میں غالب اور حکمت والا ہے کہ اس بات کا حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی پرستش نہ کی جائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

74 That is, "Allah knows full well the reality of those beings and things which they have taken as their deities and which they invoke for help. They are absolutely powerless. The Owner of power is only Allah, Who is controlling the system of this universe according to His own wisdom and design." Another translation of this verse can be: "Allah knows full well that those whom they invoke, apart from Him, are nonentities, and He alone is the AllMighty, the All-Wise."

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 74 یعنی اللہ کو ان سب چیزوں کی حقیقت خوب معلوم ہے جنہیں یہ لوگ معبود بنائے بیٹھے ہیں اور مدد کے لیے پکارتے ہیں ۔ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ طاقت کا مالک صرف اللہ ہی ہے اور اسی کی تدبیر و حکمت اس کائنات کا نظام چلا رہی ہے ۔ ایک دوسرا ترجمہ اس آیت کا یہ بھی ہوسکتا ہے: اللہ خوب جانتا ہے کہ اسے چھوڑ کر جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں ہیں ( یعنی بے حقیقت ہیں ) اور عزیز و حکیم بس وہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب ” ما یدعون “ کے ” ما “ کو استفہامیہ قرار دیا جائے اور اگر اسے نافیہ قرار دیا جائے تو ترجمہ یوں ہوگا۔ ” اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ لوگ اس لے سوا کسی چیز کو نہیں پکارتے یعنی وہ کوئی چیز نہیں ہے کہ اسے پکارنا ان کے کسی کام آسکے اور یہاں ایک تیسرا احتمال بھی ہے کہ ” ما “ مصدر بیان لیا جائے۔ (شوکانی) 6 ۔ اسی کو پکارنا، اسی کے سامنے التجائیں کرنا اور اسی سے مرادیں مانگنا کام آسکتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کو ان کے شرک کے بارے میں سمجھایا جائے تو وہ شرک کا انکار کرتے ہیں اس لیے ارشاد ہوا ہے کہ اللہ جانتا ہے کہ اس کے سوا وہ جس جس کو پکارتے ہیں۔ مشرک اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مشرک قوم دوچار خداؤں پر مطمئن نہیں ہوتی۔ اہل مکہ نے بیت اللہ میں تین سو ساٹھ جھوٹے خدا سجا رکھے تھے۔ ہندوستان کی مذہبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس قوم کے خداؤں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے کچھ تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ ان کے خداؤں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ عیسائیوں نے مستقل طور پر تین خدا بنائے ہوئے ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عزیز کو ” اللہ “ کا بیٹا ٹھہرایا ہوا ہے اور ایرانیوں نے یزداں اور ابرہمن کو خدا بنایا ہوا تھا یہی حال دوسری اقوام کا ہے کہ ان کے خداؤں کو شمار کرنا مشکل ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ ” اللہ “ جانتا ہے کہ مشرک اس کے سوا کس کس کو پکارتے اور کس کس کی عبادت کرتے ہیں۔ حالانکہ مشرکانہ عقیدہ مکڑی کے تانے بانے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو اِ ن لوگوں کو شرک سے زبردستی روک دے کیونکہ وہ ہر بات پر غالب ہے۔ لیکن اس کی حکمت یہ ہے کہ لوگ عقل وفکر سے کام لے کر شرک سے اجتناب کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں مختلف امثال کے ساتھ عقیدہ توحید سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے لیکن اہل دانش اور حقیقی علم رکھنے والوں کے سوا دوسرے لوگ شرک کی بےثباتی کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے زمینوں اور آسمانوں کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ان کی تخلیق اور وجود میں اس کی قدرت کی بیشمار نشانیاں ہیں لیکن علم رکھنے والے لوگ ہی ان سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ علم سے مراد حقیقی علم ہے۔ عقیدہ توحید اختیار کرنا اور اس کے تقاضے پورا کرنا علم اور عقل مندی کی دلیل ہے۔ اس کے مقابلے میں شرک پرلے درجے کی بیوقوفی اور جہالت ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کے دلائل اور امثال سے صاحب دانش اور علم والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن عقیدہ توحید سمجھانے کے لیے قرآن مجید کی امثال : ١۔ ایک غلام کے دو مالک ہوں تو ؟۔ (الزمر : ٢٩) ٢۔ ناکارہ اور باصلاحیت غلام میں فرق۔ (النحل : ٧٦) ٣۔ مشرک کی تباہی کی مثال۔ (الحج : ٣١) ٤۔ باطل معبودوں اور مکھی کی مثال۔ (الحج : ٧٣) ٥۔ دھوپ اور سایہ کی مثال۔ (فاطر : ٢١) ٦۔ اندھیرے اور روشنی کی مثال۔ (فاطر : ٢٠) ٧۔ اندھے بہرے، دیدے اور سننے والے کی مثال۔ (ھود : ٢٤) ٨۔ علم اور بےعلم کی مثال۔ ( الزمر : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْءٍ ) (یہ لوگ اللہ کے سوا جس جس کی بھی عبادت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کو ان سب کا علم ہے) یہ چیزیں نہایت ضعیف ہیں۔ (وَ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) (اور وہ غلبہ والا حکمت والا ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

34:۔ یعنی سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہے اور جن کو مشرکین پکارتے ہیں وہ تو ان پکارنے والوں کے احوال سے بھی باخبر نہیں ہیں پھر انہیں کیوں پکارتے ہیں۔ پھر وہ غالب اور حکیم بھی ہے اس لیے علیم وخبیر اور عزیز و قدیر کو چھوڑ کر عاجز مخلوق کو کارساز سمجھ کر حاجات میں پکارنا کونسی عقلمندی ہے۔ وتلک الامثال الخ ہم مثالیں دے کر لوگوں کو مسئلہ توحید سمجھاتے ہیں لیکن ان میں غور و فکر صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو راسخ فی العلم ہوں اور عقل و بصیرت رکھتے ہوں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

42۔ اللہ تعالیٰ ان سب چیزوں کی حقیقت کو جانتا ہے جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پوجتے ہیں اور جن کی پرستش کرتے ہیں اور وہی کمال علم اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کبھی سننے والا تعجب کرے کہ سب کو ایک لکڑی ہانک دیا بعض خلق بت پوجتے ہیں بعض آگ پانی کو بعض اولیاء انبیاء کو یا فرشتوں کو سو اللہ نے فرمایا کہ اللہ کو سب معلوم ہیں اگر کوئی کرسکتا تو اللہ سب کو ایک قلم موقوف نہ کرتا اور اللہ کو کسی کی رفاقت نہیں چاہئے زبردست سے اور مشورت نہیں چاہئے حکمتیں اسی کو ہیں ۔ 12 مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سواخواہ بت ہو ، تھان ہو ، فرشتہ ہو، نبی ہو ، ولی ہو ، چھڑی ہو ، جھنڈاہو، غرض ، کوئی جاندار ہو یا بےجان ہر ایک کی پرستش کا ایک ہی حکم ہے۔