Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 50

سورة العنكبوت

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ قُلۡ اِنَّمَا الۡاٰیٰتُ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۵۰﴾

But they say, "Why are not signs sent down to him from his Lord?" Say, "The signs are only with Allah , and I am only a clear warner."

انہوں نے کہا کہ اس پر کچھ نشانیاں ( معجزات ) اس کے رب کی طرف سے کیوں نہیں اتارے گئے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں تو سب اللہ تعالٰی کے پاس ہیں میں تو صرف کھلم کھلا آگاہ کر دینے والا ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idolators' demand for Signs, and the Response Allah says: وَقَالُوا لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْهِ ايَاتٌ مِّن رَّبِّهِ ... And they say: "Why are not signs sent down to him from his Lord!" Allah tells us how the idolators stubbornly demanded signs, meaning that they wanted signs to show them that Muhammad was indeed the Messenger of Allah, just as Salih was given the sign of the she-camel. Allah says: ... قُلْ ... Say -- `O Muhammad' -- ... إِنَّمَا الاْيَاتُ عِندَ اللَّهِ ... The signs are only with Allah, meaning, `the matter rests with Allah, and if He knew that you would be guided, He would respond to your request, because it is very easy for Him to do that. Yet He knows that you are merely being stubborn and putting me to the test, so He will not respond to you.' This is like the Ayah, وَمَا مَنَعَنَأ أَن نُّرْسِلَ بِالاٌّيَـتِ إِلاَّ أَن كَذَّبَ بِهَا الاٌّوَّلُونَ وَءَاتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُواْ بِهَا And nothing stops Us from sending the Ayat but that the people of old denied them. And We sent the she-camel to Thamud as a clear sign, but they did her wrong. (17:59) ... وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ and I am only a plain warner. means, `I have been sent to you only as a warner to bring a clear warning; all I have to do is convey the Message of Allah to you.' مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا He whom Allah guides, he is the rightly-guided; but he whom He sends astray, for him you will find no guide to lead him. (18:17) لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَأءُ Not upon you is their guidance, but Allah guides whom He wills. (2:272) Then Allah shows us how ignorant and foolish they were when they demanded a sign to prove to them that what Muhammad had brought to them was true. He brought them a great Book which falsehood cannot reach, neither from before it or behind it, it was greater than all other miracles, for the most eloquent of men could not match it or produce ten Surahs, or even one Surah like it.

محاسن کلام کا بےمثال جمال قرآن حکیم کافروں کی ضد ، تکبر اور ہٹ دھرمی بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی نشانی طلب کی جیسی کہ حضرت صالح سے ان کی قوم نے مانگی تھی ۔ پھر اپنے نبی کو حکم دیتا ہے انہیں جواب دیجئے کہ آیتیں معجزے اور نشانات دکھانا میرے بس کی بات نہیں ۔ یہ اللہ کے ہاتھ ہے ۔ اگر اس نے تمہاری نیک نیتیں معلوم کرلیں تو وہ معجزہ دکھائے گا اور اگر تم اپنی ضد اور انکار سے بڑھ بڑھ کر باتیں ہی بنا رہے ہو تو وہ اللہ تم سے دبا ہوا نہیں کہ اس کی چاہت تمہاری چاہت کے تابع ہوجائے تم جو مانگو وہ کرہی دکھائے گا ۔ جیسے ایک اور روایت میں ہے کہ آیتیں بھیجنے سے ہمیں کوئی مانع نہیں سوائے اس کے کہ گذشتہ لوگ بھی برابر انکار ہی کرتے رہے ۔ قوم ثمود کو دیکھو ہماری نشانی اونٹنی جو ان کے پاس آئی انہوں نے اس پر ظلم کیا ۔ کہدو کہ میں تو صرف ایک مبلغ ہوں پیغمبر ہوں قاصد ہوں میراکام تمہارے کانوں تک آواز اللہ کو پہنچا دینا ہے میں نے تو تمہیں تمہارا برا بھلا سمجھا دیا نیک بد سمجھا دیا اب تم جانو تمہارا کام جانے ۔ ہدایت ضلالت اللہ کی طرف سے ہے وہ اگر کسی کو گمراہ کردے تو اس کی رہبری کوئی نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ ایک اور جگہ ہے تجھ پر ان کی ہدایت کا ذمہ نہیں یہ اللہ کا کام ہے اور اس کی چاہت پر موقوف ہے ۔ بھلا اس فضول گوئی کو تو دیکھو کہ کتاب عزیز ان کے پاس آچکی جس کے پاس کسی طرف سے باطل پھٹک نہیں سکتا اور انہیں اب تک نشانی کی طلب ہے ۔ حالانکہ یہ تو تمام معجزات سے بڑھ کرمعجزہ ہے ۔ تمام دنیاکے فصیح وبلیغ اس کے معارضہ سے اور اس جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز آگئے ۔ پورے قرآن کا تو معارضہ کیا کرتے؟ دس سورتوں کا بلکہ ایک سورت کامعارضہ بھی چیلنج کے باوجود نہ کرسکے ۔ تو کیا اتنا بڑا اور اتنا بھاری معجزہ انہیں کافی نہیں؟ جو اور معجزے طلب کرنے بیٹھے ہیں ۔ یہ تو وہ پاک کتاب ہے جس میں گذشتہ باتوں کی خبر ہے اور ہونے والی باتوں کی پیش گوئی ہے اور جھگڑوں کا فیصلہ ہے اور یہ اس کی زبان سے پڑھی جاتی ہے جو محض امی ہے جس نے کسی سے الف با بھی نہیں پڑھا جو ایک حرف لکھنا نہیں جانتا بلکہ اہل علم کی صحبت میں بھی کبھی نہیں بیٹھا ۔ اور وہ کتاب پڑھتا ہے جس سے گزشتہ کتابوں کی بھی صحت وعدم صحت معلوم ہوتی ہے جس کے الفاظ میں حلاوت جس کی نظم میں ملاحت جس کے انداز میں فصاحت جس کے بیان میں بلاغت جس کا طرز دلربا جس کا سیاق دلچسپ جس میں دنیا بھر کی خوبیاں موجود ۔ خود بنی اسرائیل کے علماء بھی اس کی تصدیق پر مجبور ۔ اگلی کتابیں جس پر شاہد ۔ بھلے لوگ جس کے مداح اور قائل وعامل ۔ اس اتنے بڑے معجزے کی موجودگی میں کسی اور معجزہ کی طلب محض بدنیتی اور گریز ہے ۔ پھر فرماتا ہے اس میں ایمان والوں کے لئے رحمت ونصیحت ہے ۔ یہ قرآن حق کا ظاہر کرنے والا باطل کو برباد کرنے والا ہے ۔ گزشتہ لوگوں کے واقعات تمہارے سامنے رکھ کر تمہیں نصیحت وعبرت کا موقعہ دیتا ہے گنہگاروں کا انجام دکھاکر تمہیں گناہوں سے روکتا ہے ۔ کہدو کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور اس کی گواہی کافی ہے ۔ وہ تمہاری تکذیب وسرکشی کو اور میری سچائی وخیر خواہی کو بخوبی جانتا ہے ۔ اگر میں اس پر جھوٹ باندھتا تو وہ ضرور مجھ سے انتقام لیتا وہ ایسے لوگوں کو بغیر انتقام نہیں چھوڑتا ۔ جیسے خود اس کا فرمان ہے کہ اگر یہ رسول مجھ پر ایک بات بھی گھڑ لیتا تو میں اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ جاں کاٹ دیتا اور کوئی نہ ہوتاجو اسے میرے ہاتھ سے چھڑاسکے ۔ چونکہ اس پر میری سچائی روشن ہے اور میں اسی کا بھیجا ہوا ہوں اور اس کا نام لے کر اس کی کہی ہوئی تم سے کہتا ہوں اس لئے وہ میری تائید کرتا ہے اور مجھے روز بروز غلبہ دیتاجاتا ہے اور مجھ سے معجزات پر معجزات ظاہر کراتا ہے ۔ وہ زمین وآسمان کے غیب کا جاننے والاہے اس پر ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں باطل کا ماننے والے اور اللہ کو نہ ماننے والے ہی نقصان یافتہ اور ذلیل ہیں قیامت کے دن انہیں ان کی بد اعمالی کا نتیجہ بھگتنا پڑھے گا اور جو سرکشیاں دنیا میں کی ہیں سب کا مزہ چکھنا پڑے گا ۔ بھلا اللہ کو نہ ماننا اور بتوں کو ماننا اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہوگا ؟ وہ علیم وحکیم اللہ اس کا بدلہ دیئے بغیر ہرگز نہیں رہے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

501یعنی یہ نشانیاں اس کی حکمت و مشیت، جن بندوں پر اتارنے کی ہوتی ہے، وہاں وہ اتارتا ہے، اس میں اللہ کے سوا کسی کا اختیار نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٢] معجزات کا اتارنا اللہ کا کام ہے اور میرا الوہیت کا کوئی دعویٰ نہیں کہ تمہارے معجزہ کے مطالبہ تمہیں تمہارے حسب پسند معجزہ دکھلا سکوں۔ میرا کام صرف تمہیں اللہ کا پیغام پہنچانا اور تمہیں برے انجام سے بچانا ہے۔ اس میں اگر میں کوئی کوتاہی کر رہا ہوں تو وہ مجھے بتلا دو ۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖ : قرآن اور پیغمبر کے حق ہونے کے دلائل کے سامنے جب مشرکین لاجواب ہوجاتے تو عجیب و غریب قسم کے اعتراض اور مطالبے پیش کرتے، جو عناد، تکبر اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ایسے چند اعتراض اور ان کے جواب ذکر فرمائے۔ ان میں سے پہلا اعتراض یہ تھا کہ اس پیغمبر پر کوئی نشانیاں کیوں نازل نہیں کی گئیں ؟ اس سے ان کی مراد صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی اور موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا جیسے معجزات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہہ دیں نشانیاں اور معجزات تو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس اور اسی کے اختیار میں ہیں، نہ یہ میرے قبضے میں ہے کہ جو معجزہ تم طلب کرو وہی دکھلادیا کروں اور نہ یہ میری ذمہ داری ہے۔ میری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے انجام سے آگاہ کرتا رہوں اور ڈراتا رہوں۔ 3 حفاظ کرام یاد رکھیں پورے قرآن میں ” لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖ “ صرف اسی مقام پر ہے۔ دوسرے تمام مقامات پر ” وَقَالُوْا لَوْلَآ نٗزِّلَ عَلَيْهِ ایة مِّنْ رَّبِّهٖ “ یا ” اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰیة مِّنْ رَّبِّهٖ “ واحد کے لفظ کے ساتھ ہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۝ ٠ۭ قُلْ اِنَّمَا الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللہِ۝ ٠ۭ وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ٥٠ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کے پروردگار کی طرف سے ایسی نشانیاں کیوں نازل نہیں ہوئیں جیسا موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) پر نازل کی گئی تھیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ (وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ط) ” مشرکین مکہ آئے دن یہ مطالبہ دہراتے رہتے تھے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معجزات کیوں نہیں دیے گئے ؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں بھی ان کا یہ مطالبہ تکرار کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

90 That is, miracles by seeing which one may be convinced that Muhammad (upon whom be Allah's peace) is really a Prophet of Allah.

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 90 یعنی معجزات جنہیں دیکھ کر یقین آئے کہ واقعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

29: یعنی وہ معجزات کیوں نہیں دئیے گئے جن کی ہم فرمائش کرتے ہیں۔ اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت سے معجزات عطا فرمائے گئے تھے، لیکن کفار مکہ نت نئے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے، جیسے سورۃ بنی اسرائیل : 93 میں تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے۔ جواب یہ دیا گیا ہے کہ معجزات دکھانا اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے، میں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دار کرنے کے لیے آیا ہوں۔ نیز اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم بذات خود ایک بڑا معجزہ ہے جو ایک طالبِ حق کے لیے بالکل کافی ہونا چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٠ تا ٥٩۔ مشرکین مکہ کہتے ہیں کہ اگر یہ سچے رسول ہیں تو کچھ نشانیاں کیوں نہیں دکھاتے اللہ فرماتا ہے تو کہہ دے نشانیاں اللہ کے اختیار میں ہیں اگر اللہ جانتا نشانیاں دیکھ کر تم راہ پر آجاؤ گے تو وہ تم کو نشانیاں بھی دکھا دیتا اس پر کچھ مشکل نہ تھا مگر وہ جانتا ہے کہ تمہارا ارادہ مسخرا پن کا ہے اس لیے وہ تم کو نہیں دکھاتا اور میں تو فقط ڈرانے والا ہوں پھر اللہ تعالیٰ مشرکوں کی وہ جہالت بیان کرتا ہے جس کے سبب سے وہ جو پیغمبر صلعم کی سچائی پر نشانیاں مانگتے تھے حالانکہ قرآن شریف ایسا بڑا معجزہ ہے کہ جس کے مقابلہ سے بڑے بڑے فصیح بلیغ عاجز آگئے اس کا مانند دس سورت کیا بلکہ ایک سورت بھی نہ بناسکے پھر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت میں کبا ایسی کتاب کافی اور بس نہیں ہے اس قرآن میں ایمان والوں کے لیے قرآن کی نصیحت پر عمل کرنے کا نتیجہ اللہ کی رحمت سے جنت ہے اور اس قرآن میں یہ بھی ہے جو اس کی نافرمانی کرے گا اس پر عذاب ہوگا تو کہہ دے میرے تمہارے درمیان خدا گواہ ہے جو سب جانتا ہے اگر میں جھوٹ کہتا ہونگا تو وہ مجھ سے بدلہ لے گا لیکن وہ تو دن بدن اسلام کو ترقی دے رہا ہے جس سے اسلام کا حق ہونا صاف ظاہر ہے اب اللہ تعالیٰ مشرکوں کی دوسری جہالت بیان کرتا ہے کہ وہ خدا کا عذاب جلد طلب کرتے ہیں ان سے کہہ دیا جائے کہ اگر عذاب کے لیے قیامت کا دن مقرر نہ ہوتا تو بہت جلدان کو عذاب پہنچتا اور البتہ آوے گا ان کو عذاب یکایک بیخبر ی میں اور دوزخ ان کی تاک میں ہے قیامت کے دن جب ان کو دوزخ کی آگ میں جھونک دیا جاوے گا تو اس وقت اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ ثواب عذاب کی جلدی کرنے کا اور انپی اور بد اعمالی کا مزہ چکھواب آگے اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ہجرت کا حکم فرماتا ہے کہ جس شہر میں آدمی دین پر پورا نہ چل سکے وہاں سے ہجرت کر کے دوسرے شہر میں چلا جاوے جہاں دین پر پورا چل سکے معتبر سند سے امام احمد نے زبیربن عوام (رض) سے روایت ١ ؎ کی ہے کہ پیغمبر صلعم نے فرمایا سب شہر اللہ کے شہر ہیں اور سب بندے اللہ کے بندے ہیں جہاں تو نیکی کرسکے وہاں قیام کر پہلے پہل بےوطن ہونے میں تنگی معاش کے اندیشہ سے لوگوں کو مکہ کے چھوڑنے میں پس وپیش تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ اللہ کی زمین فراخ اور اللہ ہر جگہ رزاق ہے۔ اور کمزور ایمان والوں کو مکہ میں ٹھہر نا مشکل ہوا تو انہوں نے حبشہ کو ہجرت کی تاکہ وہاں بےخوف اپنے دین پر چلیں وہاں کے بادشاہ بخاشی نے ان کو جگہ دی اور بڑی مدد کی معتبر سند سے مسند امام احمد میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو بہت تکلیف دینی شروع کی تو یہ حبشہ کی ہجرت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ہوئی بعد اس کے پیغمبر صلعم اور سب اصحاب نے مدینہ منورہ کو ہجرت کی مدینہ کی ہجرت کا قصہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے ٣ ؎ مفصل ہے پھر فرمایا ہر جی کے لیے موت ضرور ہے پھر تم ہمارے پاس آؤ گے اس واسطے تم کو چاہیے کہ اللہ کی بندگی میں رہو جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کی جگہ بہشت میں اونچے محل اور نیچے ان کے نہریں ہیں ہمیشہ رہیں گی ان میں یہ اچھا بدلہ ان نیک عمل کرنے والوں کا ہے جنہوں نے دین کے کاموں کی تکلیف اور مخالفوں کی ایذا پر صبر کیا اور دین پر جمے رہے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث گزر چکی ہے کہ دنیا کہ پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ (رض) اشعری کی یہ حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) یہ حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اور معجزوں کے علاوہ مجھ کو قرآن کا معجزہ ایسا دیا گیا ہے جس کے سبب سے قیامت کے دن میری امت کے نیک لوگوں کی تعداد اور سب امتوں کے نیک لوگوں سے بڑھ کر ہوگی ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اہل مکہ میں جو لوگ علم الٰہی کے موافق دوزخ میں جھو کے جانے کے قابل ٹھہر چکے تھے ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی رائیگاں گئی جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائگاں جاتا ہے اور یہی لوگ مسخرا پن کے طور پر قرآن کے سوا اور معجزوں کی خواہش اور عذاب کی جلدی کرتے کرتے اسی گمراہی کی حالت میں دنیا سے اٹھ گئے اور قرآن شریف کی نصیحت کے سبب سے جو لوگ راہ راست پر آئے ان کی تعداد قیامت کے دن سب کی آنکھوں کے سامنے آجاوے گی۔ صبر یا تو مناہی کی باتوں سے بچنے پر ہوتا ہے یا جن باتوں کے بجالانے کا شرع میں حکم ہے اس کے بجا لانے میں آدمی کو جو تکلیف ہو اس پر صبر ضروری ہے مثلا جیسے جاڑے کے وضو یا گرمی کے روزہ کی تکلیف یا صبر مصیبت کے وقت ہوتا ہے مثلا جیسے کمزور مسلمانوں کو مکہ میں مشرکوں کے ستانے کی مصیبت درپیش تھی ان آیتوں میں ہر طرح کے صبر کے اجر کا ذکر ہے صبر کے اجر کا پورا بھروسہ جب تک آدمی اللہ تعالیٰ پر نہ رکھے تو اس سے صبر نہیں ہوسکتا اسی واسطے صبر کے ساتھ تو کل کا ذکر فرمایا تو کل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے ہر کام کو تقدیر الٰہی اور مرضی الٰہی پر اسی طرح چھوڑ دیوے کہ اسباب دنیاوی کو کام میں لاوے مگر انجام ہر ایک کا اللہ تعالیٰ کی مرضی پر رکھ کر تکلیف کے وقت صبر اور راحت کے وقت شکر کرے صحیح مسلم میں صہیب (رض) رومی سے روایت ١ ؎ ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تقدیر الٰہی پر شاکر رہنے والے ایماندار شخص کی ہر طرح بہتری ہے تکلیف کے وقت صبر کا اجر ہے اور راحت کے وقت شکر گزاری کا بدلہ طبرانی کبیر میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ١ ؎ ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن جب صابر لوگوں کو بےحساب اجر دیا جائے گا تو بےصبر لوگ آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں ان کے جسم کی بوٹیاں کوئی قینچی سے کاٹتا اور وہ اس تکلیف پر صبر کرتے۔ یہ حدیث صبر کے اچھے اجر اور صبر کی ترغیب کی گویا تفسیر ہے اس حدیث کی سند میں ایک راوی مجاعتہ بن الزبیر ہے جب کو بعضے علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن امام احمد نے اس کو معتبر کہا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسی اشعری (رض) کی حدیث جو ابھی گزری جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کے اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے اس حدیثوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں یہ دخل ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں اچھے ٹھہر چکے ہیں ان کو قرآن کی نصیحت نے ایسا ہی فائدہ دیا جیسے اچھی زمین میں مینہ کے پانی سے فائدہ ہوتا ہے اور اسی فائدہ کے سب سے قیامت کے دن وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قابل قرار پائے اس لیے فرمایا قرآن کے ماننے والوں کے حق میں یہ قرآن ایک رحمت ہے اسی طرح علم الٰہی میں جو لوگ بد قرار پاچکے تھے ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی رائیگاں گئی جس طرح بوری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے اسی واسطے وہ لوگ شق القمر جیسا معجزہ دیکھنے کے بعد بھی مسخرا پن کے طور پر اور معجزوں کی فرمائش اور عذاب الٰہی کی جلدی کرتے کرتے بدر کی لڑائی میں ان میں کے بڑے بڑے سرکش دنیا سے اٹھ گئے اور مرتے ہی وہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آگیا جس کی جیتے جی یہ لوگ جلدی کرتے تھے چناچہ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث گزر چکی ہے کہ دنیا میں بڑی ذلت سے یہ لوگ مارے گئے اور پھر ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے عذاب الٰہی کا وعدہ سچا پا لیا ابن ماجہ کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے لیے ایک ٹھکانہ جنت میں اور ایک دوزخ میں پیدا کیا ہے یہ منکر حشر مشرک لوگ جب ہمیشہ کو دوزخ میں جا پڑیں گے تو ان کی جگہ جو جنت میں خالی رہ جائے گی وہ بھی جنتیوں کو مل جائے گی یہ حدیث اولائک ھم الخسرون کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنا جنت کا ٹھکانہہ اپنے ہاتھ سے کھودیا اس واسطے یہ لوگ بڑے ٹوٹے میں ہیں۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤١٩ ج ٣ الدر المنثور ص ١٤٩ ج ٥ ) (٢ ؎ فتح الباری ص ٤٤٦ ج ٣ باب ہجرۃ الجشتہ۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری ص ٥٥٢ ج ١ باب ہجرۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و اصحابہ الی المدنیۃ) (١ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٥٢ باب التوکل والصبر فصل اول) (١ ؎ الترغیب والتر ہیب ص ٢٨٢ ج ٤ عنوان الترغیب فی الصبر الخ۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

10 ۔ یعنی دوسرے انبیا ( علیہ السلام) کی طرح ایسے معجزے جنہیں دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واقعی نبی ہونے سے انکار نہ کیا جاسکتا۔ (قرطبی) فوائد صفحہ ہذا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید عظیم ترین کتاب ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں کے لیے شفا اور ایمان لانے والوں کے لیے اس کو ہدایت کا ذریعہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو درجنوں معجزات عنایت فرمائے۔ لیکن ظالم لوگ تمام معجزات دیکھنے کے باوجود یہی کہتے اور مطالبہ کرتے رہے کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں کی جاتی۔ اس کا اس موقع پر صرف یہ جواب دیا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بےانصاف لوگوں کو یہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس تو لا تعداد نشانیاں اور معجزات موجود ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر سوال کے جواب میں نشانی پیش کرنے کے لیے نہیں بھیجا اور نہ ہی میرے پاس یہ اختیار ہے کہ جب چاہوں تمہارے سامنے کوئی معجزہ پیش کر دوں۔ نشانی اور معجزہ دینے اور دکھلانے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ جب چاہتا ہے مجھے عطا فرماتا ہے۔ مجھے مبعوث فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کو واضح انداز اور کھلے الفاظ میں ان کی برائیوں کے انجام سے آگاہ کروں۔ حق کے مخالف لوگ آئے روز نئے سے نئے معجزے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیا ان کو قرآن مجید کی صورت میں معجزہ کافی نہیں ہے جس کی آیات ان کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ان میں جو حقائق بیان اور پیشین گوئیاں کی جاتی ہیں۔ ان میں کچھ پوری ہوچکی ہیں باقی ان کی زندگی اور آخرت میں پوری ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید ایسا معجزہ ہے جس کی کوئی نظیر پیش نہیں کرسکتا۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور نصیحت ہے۔ مگر ان لوگوں کے لیے جو اس کی نصیحت پر ایمان لاتے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے جو کوئی غم وحزن میں مبتلا ہو وہ کہے ( اللَّہُمَّ إِنِّی عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ نَاصِیَتِی بِیَدِکَ مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُکَ أَسْأَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ہُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہِ نَفْسَکَ أَوْ عَلَّمْتَہُ أَحَداً مِنْ خَلْقِکَ أَوْ أَنْزَلْتَہُ فِی کِتَابِکَ أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہِ فِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیعَ قَلْبِی وَنُورَ صَدْرِی وَجَلاَءَ حُزْنِی وَذَہَابَ ہَمِّی) اے اللہ ! میں تیرا بندہ ہوں تیرے بندے کا بیٹا ہوں تیری بندی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے تیرا حکم مجھ پر نافذ ہوتا ہے تیرے فیصلوں میں عدل و انصاف ہے میں سوال کرتا ہوں تیرے ہر اس نام کے ساتھ جو تو نے اپنے لیے خاص کیے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھلائے یا اپنی کتاب میں نازل فرمائے یا علم غیب کے مطابق ان کا انتخاب فرمایا اے اللہ ! قرآن کو میرے دل کی بہار اور سینے کی روشنی اور غموں اور پریشانیوں کو دور کرنے کا سبب بنا دے، اللہ اس کے غم اور پریشانیاں ختم فرما دیتا ہے۔ اور انہیں ان سے نجات عطا کرتا ہے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم اسے سیکھ نہ لیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیوں نہیں ہر سننے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے یاد کرے۔ “ [ رواہ احمد : مسند عبداللہ بن مسعود ] مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برے لوگوں کو ان کی برائی کے انجام سے ڈرانے والے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید عظیم اور بےنظیر معجزہ ہے۔ ٣۔ ایمان لانے والوں کے لیے قرآن مجیداللہ تعالیٰ کی رحمت اور نصیحت ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجیدلاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ : ٢) ٢۔ قرآن مجید کی آیات محکم ہیں۔ (ھود : ١) ٣۔ قرآن مجید برہان اور نور مّبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٤۔ قرآن کریم لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ : ١٨٥) ٥۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٦۔ قرآن مجید کی آیات واضح ہیں۔ (یوسف : ١) ٧۔ جن وانس مل کر قرآن کی ایک سورة بھی نہیں بنا سکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٨۔ قرآن مجیددلوں کے لیے شفا ہے۔ (یونس : ٥٧) ٩۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ١٠۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقالوا لو لا ۔۔۔۔۔ انا نذیر مبین (50) ” یہ لوگ کہتے ہیں کہ ” کیوں نہ اتاری گئیں اس شخص پر نشانیاں اس کے رب کی طرف سے ؟ “ کہو ” نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور میں صرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کھول کر “۔ ان معجزات اور نشانیوں سے ان کو مراد وہ معجزات اور نشانیاں ہیں جو آغاز انسانیت بھی انسانیت کے دور طفولیت میں ان کے سامنے پیغمبروں نے پیش کیں ، یعنی مادی معجزات۔ اور یہ معجزات صرف ان لوگوں کے لیے حجت ہوتے تھے جو ان کو دیکھتے تھے۔ جبکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت وہ آخری اور دائمی رسالت ہے جو ان تمام لوگوں کے لیے حجت ہے جن تک اس کی دعوت پہنچ جائے اور یہ رسالت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک انسانیت موجود ہے اور یہ دنیا قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس رسالت کو ایک ایسی معجز کتاب دی ہے جو ہمیشہ پڑھی جاتی ہے اور جس کا اعجاز ختم نہیں ہوتا۔ اور جس کے کمالات و عجائبات ختم نہیں ہوتے۔ اللہ کے لیے قرآن کے خزانوں کا علیحدہ ذخیرہ ظاہر ہوتا رہتا ہے اور اس کے یہ معجزات اور دلائل ہر دور کے اہل علم کے سینوں میں موجود رہتے ہیں۔ جب بھی اہل علم اس پر غور کرتے ہیں وہ اس کتاب کے اعجاز اور معجزات کو پاتے ہیں اور وہ اچھی طرح محسوس کرلیتے ہیں کہ قرآن کریم کو یہ عظمت اور شوکت کس سرچشمے سے ملی ہے۔ قل انما الایت عنداللہ (29: 50) ” کہو ، نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں “۔ اور اللہ اپنی نشانیاں اس وقت ظاہر کرتا ہے جب ان کی حاجت اور ضرورت ہو۔ اور یہ سب کام ، اللہ کے نظام تدبیر اور تقدیر کے مطابق ہوتا ہے اس لیے میں اس سلسلے میں نہ کوئی تجویز دے سکتا ہوں اور نہ مطالبہ کرسکتا ہوں ۔ یہ میرے لائق نہیں ہے اور نہ ہی یہ میری عادت ہے۔ وانما انا نذیر مبین (29: 50) ” میں صرف خبردار کرنے والا ہوں ، کھول کھول کر “۔ میں ڈراتا ہوں اور خبردار کرتا ہوں اور لوگوں کے سامنے حقائق کھول کھول کر بیان کرتا ہوں اور یہی میرا فریضہ ہے جس میں ادا کرتا ہوں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوگا وہ اللہ کی تقدیر و تدبیر کے مطابق ہوگا۔ اس طرح اللہ اسلامی نظریہ حیات کو ہر شک اور شبہ سے پاک کرتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب اور مقام کی حدود کا تعین کردیا جاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور الٰہ واحد وقہار کی صفات کے درمیان امتیاز کردیا جاتا ہے۔ اس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت کے ارد گرد سے شبہات کے وہ بادل چھٹ جاتے ہیں جو ان رسولوں کی شخصیات کے ساتھ وابستہ ہوگئے تھے جن کو مادی معجزات دئیے گئے کیونکہ سابقہ رسولوں کی صفات کو خدائی صفات کے ساتھ ملا دیا گیا تھا اور لوگوں نے ان رسولوں کی شخصیات کو اوہام و خرافات سے گھیر لیا تھا جس کی وجہ سے ان کے عقائد کے اندر بہت بڑا انحراف واقعہ ہوگیا۔ یہ لوگ جو مادی معجزات طلب کر رہے ہیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکے اور نہ اس کی اہمیت کو سمجھ سکے ہیں کہ اللہ نے تو قرآن نازل کرکے ان پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا : (وَ قَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ ) (اور انہوں نے کہا کہ ان پر نشانیاں کیوں نازل نہیں ہوئیں) ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ ہم جن معجزات کی فرمائش کرتے ہیں انہیں کیوں ظاہر نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرما دیا (قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ ) (آپ فرما دیجیے کہ نشانیاں اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں) میرے اختیار کی چیزیں نہیں ہیں، (وَ اِنَّمَآ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ) (اور میں تو صرف واضح طریقہ پر ڈرانے والا ہوں) تمہارے فرمائشی معجزات لانا میرے اختیار میں نہیں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ یہ شکوی ہے مشرکین اہل کتاب کے اکسانے پرحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے تھے کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے ید بیضا اور عصا کے معجزے دکھائے تھے آپ بھی ایسے معجزے دکھائیں۔ قل انما الایت الخ یہ جواب شکوی ہے۔ یعنی معجزے لانا میرے اختیار میں نہیں بلکہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ جب چاہتا ہے کوئی معجزہ اپنے پیغمبر کے ہاتھ پر ظاہر فرما دیتا ہے میں تو اس کے حکم سے اس کا پیغام پہنچاتا اور نہ ماننے والوں کو اسکے عذاب سے ڈراتا ہے۔ (انما الایت عند اللہ) ینزل ایتھا شاء و لست املک شیئا منہا (مدارک ج 3 ص 200) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

50۔ اور یہ کفار مکہ یوں کہتے ہیں کہ اس پیغمبر پر اس کے رب کی جانب سے ہمارے حسب منشاء اور ہماری منہ مانگی اور ہماری فرمائش کے مطابق نشانیاں کیوں نازل نہیں ہوئیں ۔ آپ فرما دیجئے نشانیاں تو سب صرف اللہ کے قبضے میں ہیں میرے اختیار کی چیز نہیں ہے اور میں تو صرف ڈر سنانے والا ہوں کھول کر اور صاف طور پر نافرمانوں کو ڈرانے والا ہوں ۔ یعنی میں تو ایک رسول ہوں اور اپنی نبوت کی صداقت کے دلائل پیش کرتا ہوں ان دلائل میں سے ایک یہ کتاب بھی ہے جو خود ہزاروں دلائل واضحہ کا مجموعہ ہے کیونکہ اس کی ہر آیت اعجاز ہے اس کے علاوہ اور کیا نشانیاں مانگتے ہو۔ نشانیاں میرے اختیار میں نہیں ہر قسم کی نشانی اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اسی کو آگے فرمایا۔