Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 51

سورة العنكبوت

اَوَ لَمۡ یَکۡفِہِمۡ اَنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ یُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَرَحۡمَۃً وَّ ذِکۡرٰی لِقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۵۱﴾٪  1

And is it not sufficient for them that We revealed to you the Book which is recited to them? Indeed in that is a mercy and reminder for a people who believe.

کیا انہیں یہ کافی نہیں؟ کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمادی جو ان پر پڑھی جا رہی ہے ، اس میں رحمت ( بھی ) ہے اور نصیحت ( بھی ) ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ ... Is it not sufficient for them that We have sent down to you the Book which is recited to them! means, `is it not sufficient as a sign for them that We have sent down to you this great Book which tells them about what happened before their time, what will happen after they are gone, and passes judgement between them. Even though you are an unlettered man who can neither read nor write, and you have not mixed with any of the People of the Book. Yet you brought them news of what was said in the first Scriptures showing what is right in the matters that they dispute over, and bringing clear and obvious truth.' As Allah says: أَوَلَمْيَكُن لَّهُمْ ءَايَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِى إِسْرَءِيلَ Is it not a sign to them that the learned scholars of the Children of Israel knew it (to be true). (26:197) وَقَالُواْ لَوْلاَ يَأْتِينَا بِـَايَةٍ مِّن رَّبِّهِ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ مَا فِى الصُّحُفِ الاٍّولَى They say: "Why does he not bring us a sign from his Lord!" Has there not come to them the proof of that which is in the former Scriptures. (20:133) Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said, "The Messenger of Allah said: مَا مِنَ الاْاَنْبِيَاءِ مِنْ نَبِيَ إِلاَّ قَدْ أُعْطِيَ مِنَ الاْايَاتِ مَا مِثْلُهُ امَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُهُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللهُ إِلَيَّ فَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَة There is no Prophet who was not given some miracles that would make the people believe in him. What I have been given is revelation which Allah reveals to me, and I hope that I will have the greatest number of followers on the Day of Resurrection." It was also recorded by Al-Bukhari and Muslim. Indeed Allah has said: ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُوْمِنُونَ Verily, herein is mercy and a reminder for a people who believe. In this Qur'an there is mercy, that is, explanation of the truth and removal of falsehood, and a reminder to the believers of the punishment that is to come to the disbelievers and sinners. Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

511یعنی وہ نشانیاں طلب کرتے ہیں۔ کیا ان کے لیے بطور نشانی قرآن کافی نہیں ہے جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جس کی بابت انھیں چیلنج دیا گیا ہے کہ اس جیسا قرآن لا کردکھائیں یا کوئی ایک سورت ہی بنا کر پیش کردیں۔ جب قرآن کی اس معجزہ نمائی کے باوجود یہ قرآن پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کی طرح انھیں معجزے دکھا بھی دیے جائیں تو اس پر یہ کون سا ایمان لے آئیں گے۔ 512یعنی ان لوگوں کے لیے جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہے، کیونکہ وہی اس سے متمتع اور فیض یاب ہوتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٣] یعنی پہلے انبیاء کو جتنے معجزات عطا کئے جاتے رہے وہ سب وقتی اور عارضی تھے جو کسی نے دیکھے کسی نے نہ دیکھے اور آج وہ سب ختم ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ قرآن ایسا زندہ جاوید معجزہ ہے جس کی اعجازی کی تم خود بھی تسلیم کرتے ہو۔ پھر اور کون سا معجزہ چاہتے ہو ؟ پھر یہ کتاب اس لحاظ سے سب کے لئے اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ وہ تمہاری زندگی کے ہر پہلو میں تمہاری ٹھیک ٹھیک راہنمائی بھی کرتی ہے۔ ربط مضمون کے لحاظ سے اس آیت کے مخاطب کفار ہیں اور اس کا وہی مطلب ہے جو اوپر بیان ہوا تاہم اس کے مخاطب مسلمان بھی ہیں۔ انھیں بھی اس کتاب کی موجودگی میں کسی اور کتاب ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ خواہ وہ کوئی سابقہ آسمانی کتاب ہی کیوں نہ ہو۔ چناچہ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمر (رض) رسول اللہ کے پاس تورات کے کچھ اوراق لائے اور انھیں پڑھنا شروع کیا۔ آپ کا چہرہ متغیر ہو رہا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ تم رسول اللہ کے چہرہ کی طرف نہیں دیکھتے ؟۔ حضرت عمر (رض) نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے پناہ مانگتا ہوں، ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور آپ کے نبی ہونے پر راضی ہوگئے۔ اس پر آپ کا غصہ فرو ہوگیا اور آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے کہ اگر آج موسیٰ ظاہر ہوجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر اس کی پیروی کرو تو تم گمراہ ہوجاؤ گے۔ اور آج اگر موسیٰ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو میری اتباع کے سوا انھیں کوئی چارہ نہ ہوتا && (مشکوۃ۔ کتاب الایمان۔ باب الاعتصام بالکتاب والسنہ۔ الفصیل الثالث)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ ۔۔ : فرمایا، یہ لوگ نشانی طلب کرتے ہیں، کیا نشانی کے لیے انھیں یہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر یہ عظیم کتاب نازل کی ہے، جب کہ آپ اُمّی (اَن پڑھ) تھے ؟ ایک اَن پڑھ شخص پر اتنی عظیم کتاب کا نازل ہونا کیا کم معجزہ ہے، جس کی ایک سورت کی مثال لانے سے کل عالم عاجز ہے ؟ مطلب یہ کہ اگر تم ہدایت قبول کرنا چاہو تو قرآن کریم ہی اس مقصد کے لیے کافی معجزہ ہے، اس کے ہوتے ہوئے مزید نشانیاں طلب کرنا محض ہٹ دھرمی ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ نَبِيٌّ إِلاَّ أُعْطِيَ مِنَ الْآیَاتِ مَا مِثْلُہُ أُوْمِنَ ، أَوْ آمَنَ عَلَیْہِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا کَانَ الَّذِيْ أُوْتِیْتُہُ وَحْیًا أَوْحَاہ اللّٰہُ إِلَيَّ فَأَرْجُوْ أَنِّيْ أَکْثَرُہُمْ تَابِعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [ بخاري، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعثت بحوامع الکلم : ٧٢٧٤ ] ” انبیاء میں سے جو بھی نبی تھا، اسے نشانیوں میں سے ایسی نشانیاں دی گئیں جن نشانیوں (کو دیکھ کر ان ) پر آدمی ایمان لائے اور مجھے جو نشانی دی گئی وہ صرف وحی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی۔ اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن میری پیروی کرنے والے ان سب سے زیادہ ہوں گے۔ “ يُتْلٰى عَلَيْهِمْ : یہ کتاب ہر جگہ اور ہر وقت ان کے سامنے پڑھی جا رہی ہے، یعنی ایسا نہیں کہ یہ معجزہ ان سے مخفی یا ان کی نگاہوں سے کسی وقت اوجھل ہو۔ جب کہ اس سے پہلے انبیاء کے معجزے ہر وقت سامنے نہیں ہوتے تھے۔ عصائے موسیٰ سانپ بنا مگر چند بار، ہر وقت نہیں۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّذِكْرٰي لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کردہ معجزہ (قرآن کریم) کی دوخصوصیات بیان فرمائیں، جو پہلے کسی پیغمبر کے معجزے میں نہیں تھیں۔ پہلی یہ کہ پہلے پیغمبروں کے معجزے ان کی اقوام کے لیے عذاب کا باعث ہوتے، کیونکہ ان میں حقیقت سے اس طرح پردہ اٹھا دیا گیا تھا کہ جب آنکھوں سے دیکھ کر وہ ایمان نہ لائے تو اللہ کے عذاب نے ان کا نام ونشان مٹا دیا۔ اس کے برعکس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کردہ معجزہ (قرآن کریم) بنی نوع انسان کے لیے سراسر رحمت ہے، کیونکہ اسے نہ ماننے والوں کے لیے بھی مہلت ہے کہ ان پر فوراً عذاب نہیں آتا۔ یہ ”ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً “ کا مطلب ہے۔ دوسری خصوصیت یہ کہ پہلے پیغمبروں کے معجزے ان کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے، جب کہ قرآن کریم قیامت تک اہل ایمان کی نصیحت اور یاد دہانی کے لیے باقی رہے گا۔ یہ ” ذکریٰ “ کا مفہوم ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَكْفِہِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْہِمْ۝ ٠ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَرَحْمَۃً وَّذِكْرٰي لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝ ٥١ۧ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) ذكر ( نصیحت) وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته . الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ وہ نشانیاں تو اللہ تعالیٰ کے قبضۃ قدرت میں ہیں۔ اسی کی طرف سے آئیں گی تو ایک ایسی زبان میں جس کو تم بھی سمجھتے ہو ڈرانے والا رسول ہوں۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ان مکہ والوں کے لیے آپ کی نبوت پر دلالت کے لیے یہ بات کافی نہیں ہوئی کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے اوامرو نواہی اور گزشتہ قوموں کے واقعات ان کے سامنے پڑھ کر سنائے جاتے ہیں بیشک اس قرآن حکیم میں اہل ایمان کے لیے عذاب سے بڑی رحمت اور نصیحت ہے۔ شان نزول : اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ (الخ) ابن جریر اور ابن ابی حاتم اور دارمی نے اپنی مسند میں عمرو بن دینار کے طریقے سے یحییٰ بن جعدہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ آئے ان کے پاس کچھ لکھی ہوئی باتیں تھیں جو انہوں نے یہودیوں سے سن کر لکھ رکھی تھیں اس پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ایک قوم کی گمراہی کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ان کے پاس جو ان کا نبی لے کر آیا ہے وہ اس سے اپنے غیروں کی طرف جن کے پاس ان کا غیر لے کر آیا ہے منہ موڑیں اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کیا ان لوگوں کو یہ بات کافی نہیں ہوئی کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (اَوَلَمْ یَکْفِہِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْہِمْ ط) ” اگر یہ معجزہ کے منتظر ہیں تو انہیں قرآن جیسا عظیم الشان معجزہ کیوں نظر نہیں آتا ؟ کیا ہم نے انہیں بار بار چیلنج نہیں کیا کہ اس جیسا کلام تم لوگ بھی بنا کر دکھاؤ ؟ اور کیا یہ لوگ اس چیلنج کا جواب دینے سے عاجز نہیں ہیں ؟ اگر کوئی شخص واقعی حق اور ہدایت کا طالب ہو تو اس کے لیے یہی ایک معجزہ کافی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

91 That is, "A Book like the Qur'an has been sent down to you in spite of your being unlettered. Is it not by itself a great miracle which should convince the people of your Prophethood? Do they yet need another miracle after this? The other miracles were the miracles for those who witnessed them. But this miracle is ever present in front of them. It is being recited before them almost daily; they can witness it as and when they like. Even after such an assertion and argument by the Qur'an the audacity of those who try to prove that the Holy Prophet was literate is astonishing. The fact, however, is that the Qur'an here has presented in clear terms the Holy Prophet's being illiterate as a strong proof of his Prophet hood. The traditions which lend support to the claim that the Holy Prophet could read and write, or had learnt reading and writing later in life, stand rejected at first glance, for no tradition opposed to the Qur'an can be acceptable. Then these traditions in themselves are too weak to become the basis for an argument. One of these is a tradition from Bukhari that when the peace treaty of Hudaibiya was being written down, the representative of the disbelievers of Makkah objected to the word Rasul Allah being added to the name of the Holy Prophet. At this the Holy Prophet ordered the writer (Hadrat `Ali) to cross out the word Rasul-Allah and write Muhammad bin 'Abdullah instead. Hadrat `Ali refused to cross out Rasul-Allah. Then the Holy Prophet took it in his own hand, struck out the word himself and wrote Muhammad bin `Abdullah. But this tradition from Bara' bin `Azib appears at four places in Bukhari and at two places in Muslim and everywhere in different words: (1)At one place in Bukhari (Kitab-us-S, ulh) the words of this tradition are to the effect: "The Holy Prophet told Hadrat `Ali to strike out the words. He submitted that he could not do that. At last, the Holy Prophet crossed them out with his own hand." (2) In the same book the second tradition is to the effect: "Then he (the Holy Prophet) said to `Ali: Cross out Rasul-Allah. He said: By God, I shall never cross out your name. At last, the Holy Prophet took the document and wrote: This is the treaty concluded by Muhammad bin `Abdullah." (3) The third tradition, again from Bara' bin `Azib is found in Kitab-ul-Jizia in Bukhari to the effect: "The Holy Prophet himself could not write. He said to `Ali: Cross out Rasul-Allah. He submitted: By God, I shall never cross out these words. At this, the Holy Prophet said: Show me the place where these words arc written. He showed him the place, and the Holy Prophet crossed out the words with his own hand." (4) The fourth tradition is in Bukhari's Kitab-ul-Maghazi to the effect: "So the Holy Prophet took the document although he did not know writing, and he wrote: This is the treaty concluded by Muhammad bin `Abdullah." (5) Again from Bara' bin `Azib there is a tradition in Muslim (Kitab-ul-Jihad) saying that on Hadrat `Alt's refusal the Holy Prophet himself wiped off the words Rasul-Allah. " (6) The second tradition from him in the same book says, "The Holy Prophet said to `Ali: Show me where the word Rasul Allah is written. Hadrat `Ali showed him the place, and he wiped it off and wrote Ibn `Abdullah. The disparity in the traditions clearly indicates that the intermediary reporters have not reported the words of Hadrat Bara' bin `Azib (may Allah be pleased with him) accurately. Therefore, none of these reports can be held as r perfectly reliable so that it could be said with certainty that the Holy Prophet had written the words "Muhammad bin `Abdullah° with his own hand. Probably when Hadrat 'Ali, refused to wipe off the word Rasul-Allah, the Holy Prophet might have himself wiped it off after finding, out the place where it was written, and then might have got the word Ibn `Abdullah substituted by him or by some other writer. Other traditions show that there were two writers who were writing down the peace treaty; Hadrat `Ali and Muhammad bin Maslamah (Fath al-Sari, Vol. V, p. 217). Therefore, it is not impossible that what one writer did not do was got done by the other writer. However, if the Holy Prophet actually wrote his name with his own hand, there are plenty instances of this in the world. The illiterate people learn to write their own name although they cannot read or write anything else. The other tradition on whose basis it has been claimed that the Holy Prophet was literate, has been reported by Ibn Abi Shaibah and `Umar bin Shabbah from Mujahid. It says: "The Holy Prophet had learnt reading and writing before his death." But in the first place, it is a weak tradition on account of its links as said by Hafiz Ibn Kathir: "It is weak: it has no basis." Secondly, it is weak otherwise also, for if the Holy Prophet had really learnt reading and writing later in life, it would have become a well known fact. Many of the Companions would have reported it, and it would also have been known from which person (or persons) he had learnt this. But no one except one man, 'Aun bin 'Abdullah, from whom Mujahid heard this, has reported it. And this 'Aun was not even a Companion,, but a follower of the Companions, who dces not at aII tell from which Companion (or Companions) he got this information. Evidently, on the basis of such weak traditions nothing which contradicts well known facts can become acceptable. 92 That is, "The revelation of this Book is, without any doubt, a great bounty of AIIah, and it contains great admonitions for the people. But only those people can benefit by it, who believe in it."

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 91 یعنی امی ہونے کے باوجود تم پر قرآن جیسی کتاب کا نازل ہونا کیا یہ بجائے خود اتنا بڑا معجزہ نہیں ہے کہ تمہاری رسالت پر یقین لانے کے لیے یہ کافی ہو؟ اس کے بعد بھی کسی اور معجزے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ دوسرے معجزے تو جنہوں نے دیکھے ان کے لیے وہ معجزے تھے ۔ مگر یہ معجزہ تو ہر وقت تمہارے سامنے ہے تمہیں آئے دن پڑھ کر سنایا جاتا ہے ، تم ہر وقت اسے دیکھ سکتے ہو ۔ قرآن مجید کے اس بیان و استدلال کے بعد ان لوگوں کی جسارت حیرت انگیز ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہاں قرآن صاف الفاظ میں حضور کے ناخواندہ ہونے کو آپ کی نبوت کے حق میں ایک طاقت ور ثبوت کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔ جن روایات کا سہارا لے کر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ حضور لکھے پڑھے تھے ، یا بعد میں آپ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا وہا ول تو پہلی ہی نظر میں رد کردینے کے لائق ہیں کیونکہ قرآن کے خلاف کوئی روایت بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔ پھر وہ بجائے خود بھی اتنی کمزور ہیں کہ ان پر کسی استدلال کی بنیاد قائم نہیں ہوسکتی ۔ ان میں سے ایک بخاری کی روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ جب لکھا جارہا تھا تو کفار مکہ کے نمائندے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ رسول اللہ لکھے جانے پر اعتراض کیا ۔ اس پر حضور نے کاتب ( یعنی حضرت علی ) کو حکم دیا کہ اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر محمد بن عبداللہ لکھ دو ۔ حضرت علی نے لفظ رسول اللہ کاٹنے سے انکار کردیا ۔ اس پر حضور نے ان کے ہاتھ سے قلم لے کر وہ الفاظ خود کاٹ دیے اور محمد بن عبداللہ لکھ دیا ۔ لیکن یہ روایت براء بن عازب سے بخاری میں چار جگہ اور مسلم میں دو جگہ وارد ہوئی ہے اور ہر جگہ الفاظ مختلف ہیں: ( ۱ ) بخاری کتاب الصلح میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: قال لعلی امحہ فقال علی ما انا بالذی امحاہ فمحاہ رسول اللہ بیدہ ۔ حضور نے حضرت علی سے فرمایا یہ الفاظ کاٹ دو ، انہوں نے عرض کیا میں تو نہیں کاٹ سکتا ۔ آخر کار حضور نے اپنے ہاتھ سے انہیں کاٹ دیا ۔ ( ۲ ) اسی کتاب میں دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: ثم قال لعلی امح رسول اللہ قال لا واللہ لا امحوک ابدا فاخذ رسول اللہ الکتاب فکتب ھذا ما قاضی علیہ محمد بن عبداللہ ۔ پھر علی سے کہا رسول اللہ کاٹ دو ۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم میں آپ کا نام کبھی نہ کاٹوں گا ۔ آخر حضور نے تحریر لے کر لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبداللہ نے طے کیا ۔ ( ۳ ) تیسری روایت انہی براء بن عازب سے بخاری کتاب الجزیہ میں یہ ہے : وکان لا یکتب فقال لعلی امح رسول اللہ فقال علی واللہ لا امحاہ ابدا قال فارنیہ قال فاراہ ایاہ فمحاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدہ ۔ حضور خود نہ لکھ سکتے تھے ۔ آپ نے حضرت علی سے کہا رسول اللہ کاٹ دو ۔ انہوں نے عرض کیا خدا کی قسم میں یہ الفاظ ہرگز نہ کاٹوں گا ۔ اس پر حضور نے فرمایا مجھے وہ جگہ بتاؤ جہاں یہ الفاظ لکھے ہیں ۔ انہوں نے آپ کو جگہ بتائی اور آپ نے اپنے ہاتھ سے وہ الفاظ کاٹ دیے ۔ ( ٤ ) چوتھی روایت بخاری کتاب المغازی میں یہ ہے: فاخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الکتاب و لیس یحسن یکتب فکتب ھذا ما قاضی محمد بن عبداللہ ۔ پس حضور نے وہ تحریر لے لی درآنحالیکہ آپ لکھنا نہ جانتے تھے اور آپ نے لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبداللہ نے طے کیا ۔ ( ۵ ) انہی براء بن عازب سے مسلم کتاب الجہاد میں ایک روایت یہ ہے کہ حضرت علی کے انکار کرنے پر حضور نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کے الفاظ مٹا دیے ۔ ( ٦ ) دوسری روایت اسی کتاب میں ان سے یہ منقول ہے کہ حضور نے حضرت علی سے فرمایا مجھے بتاؤ رسول اللہ کا لفظ کہاں لکھا ہے ، حضرت علی نے آپ جو جگہ بتائی اور آپ نے اسے مٹا کر ابن عبداللہ لکھ دیا ۔ روایات کا یہ اضطراب صاف بتا رہا ہے کہ بیچ کے راویوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے الفاظ جوں کے توں نقل نہیں کیے ہیں ، اسی لیے ان میں سے کسی ایک کی نقل پر بھی ایسا مکمل اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ یقینی طور پر یہ کہا جاسکے کہ حضور نے محمد بن عبداللہ کے الفاظ اپنے دست مبارک ہی سے لکھے تھے ، ہوسکتا ہے کہ صحیح صورت واقعہ یہ ہو کہ جب حضرت علی نے رسول اللہ کا لفظ مٹانے سے انکار کردیا تو آپ نے اس کی جگہ ان سے پوچھ کر یہ لفظ اپنے ہاتھ سے مٹا دیا ہو اور پھر ان سے یا کسی دوسرے کاتب سے ابن عبداللہ کے الفاظ لکھوا دیے ہوں ۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر صلح نامہ دو کاتب لکھ رہے تھے ۔ ایک حضرت علی ، دوسرے محمد بن مسلمہ ( فتح الباری ، جلد 5 ، ص 217 ) اس لیے یہ امر بعید نہیں ہے کہ جو کام ایک کاتب نے نہ کیا تھا وہ دوسرے کاتب سے لے لیا گیا ہو ۔ تاہم اگر واقعہ یہی ہو کہ حضور نے اپنا نام اپنے ہی دست مبارک سے لکھا ہو ، تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں باقی کوئی چیز نہ پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں ۔ دوسری روایت جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواندہ ہونے کا دعوی کیا گیا ہے مجاہد سے ابن ابی شیبہ اور عمر بن شبہ نے نقل کی ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ : ما مات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی کتب وقرا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات سے پہلے لکھنا پڑحنا سیکھ چکے تھے ۔ لیکن اول تو یہ سندا بہت ضعیف روایت ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں فضعیف لا اصل لہ ۔ دوسرے اس کی کمزوری یوں بھی واضح ہے کہ اگر حضور نے فی الواقع بعد میں لکھنا پڑھنا سیکھا ہوتا تو یہ بات مشہور ہوجاتی ، بہت سے صحابہ اس کو روایت کرتے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ حضور نے کس شخص یا کن اشخاص سے یہ تعلیم حاصل کی تھی ۔ لیکن سوائے ایک عون بن عبداللہ کے جن سے مجاہد نے یہ بات سنی اور کوئی شخص اسے روایت نہیں کرتا ۔ اور یہ عون بھی صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں جنہوں نے قطعا یہ نہیں بتایا کہ انہیں کس صحابی یا کن صحابیوں سے اس واقعہ کا علم حاصل ہوا ۔ ظاہر ہے کہ ایسی کمزور روایتوں کی بنیاد پر کوئی ایسی بات قابل تسلیم نہیں ہوسکتی جو مشہور و معروف واقعات کی تردید کرتی ہو ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 92 یعنی بلا شبہ اس کتاب کا نزول اللہ تعالی کی بہت بڑی مہربانی ہے اور یہ بندوں کے لیے بڑی پندو نصیحت پر مشتمل ہے ، مگر اس کا فائدہ صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اس پر ایمان لائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:51) اولم یکفہم۔ نیا کلام شروع ہوتا ہے۔ آیت 50 (قل انما ۔۔ مبین) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ارشاد الٰہی تھا۔ اب خدا تعالیٰ کی طرف سے کلام ہے۔ ہمزہ استفہام انکاری کے لئے ہے واؤ مقدرہ پر عطف کے لئے ہے ای أقصر ولم یکفہم کیا یہ کم ہے اور کافی نہیں ہے ان کے لئے۔ لم یکفہم۔ مضارع نفی جحد بلم صیغہ واحد مذکر غائب کفی یکفی (ضرب) کفایۃ مصدر۔ لم کی وجہ سے یکفی سے آخر کا حرف علت گرگیا۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب جو قالوا (آیتہ 50) کے فاعل کی طرف راجع ہے یہ اہل کتاب کے لئے بھی ہوسکتی ہے اور کفار قریش کے لئے بھی۔ یتلی علیہم : یتلی مضارع مجہول واحد مذکر غائب ۔ تلاوۃ مصدر۔ الکتاب مفعول مالم یسم فاعلہ۔ جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی رہتی ہیں۔ مضارع کا صیغہ استمرار اور دوام کو چاہتا ہے۔ پس یتلی علیہم کے معنی ہوں گے یتلی علیہم فی کل زمان ومکان یعنی یہ ان پر ہر زمان و ہر مکان میں پڑھی جائیں گی۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب اہل کتاب یا کفار قریب کے لئے ہے۔ ان فی ذلک : ای فی ذلک الکتب ۔ یعنی قرآن۔ لرحمۃ میں لام تاکید کا ہے رحمۃ منصوب بوجہ عمل ان یعنی یہ اسم ان ہے۔ جیسے ان فی ذلک لعبرۃ لاولی الابصار (3: 13) بیشک اس میں ایک بصیرت کے لئے بڑی عبرت ہے۔ ذکری۔ موعظت، پند، یاد ۔ ذکر کرنا۔ نصیحت کرنا۔ ذکر یذکر کا مصدر ہے ۔ کثرت ذکر کے لئے ذکری بولا جاتا ہے یہ ذکر کی نسبت زیادہ بلیغ ہے۔ اولم یکفھم انا انزلنا علیک الکتاب یتلی علیہم میں جملہ انا انزلنا علیک الکتب فاعل ہے۔ لم یکفہم کا الکتب مفعول ہے انزلنا کا۔ یتلی علیہم صفت ہے الکتب کی۔ انا۔ ان حرف مشبہ بالفعل اور نا ضمیر جمع متکلم سے مرکب ہے۔ تحقیق ہمارا تجھ پر (ایسی) کتاب کا نازل کرنا جو ان پر دائما پڑھی جائے گی ان کے لئے (بطور معجزہ) کافی نہیں ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی امی ہونے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن جیسی کتاب کا اترنا، کیا یہ بجائے خود اتنا بڑا معجزہ نہیں ہے ج آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر یقین کرنے کے لئے کافی ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اولم یکفھم ۔۔۔۔۔ لقوم یؤمنون (51) یہ ان کی جانب سے اللہ کی نعمتوں اور مہربانیوں کی ناشکری ہے ، حالانکہ اللہ کے انعامات شکر اور قدردانی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ یہ لوگ اس قرآن کے ساتھ آسمانوں میں پہنچ جائیں اور دیکھیں کہ یہ آسمانوں سے نازل ہو رہا ہے اور آسمانوں سے آکر وہ ان کے دلوں کے تاروں کو چھیڑ رہا ہے۔ ان کے دلوں کی بات کرتا ہے۔ ان کے ماحول کی باتیں کرتا ہے۔ ان کو یہ شعور دلاتا ہے کہ اللہ کی ان پر ہر وقت نظر ہے۔ اللہ کے ہاں تمہاری بہت اہمیت ہے کہ وہ تمہارے امور سے بحث کرتا ہے۔ تمہیں قصص سناتا ہے جبکہ اے انسان تو تو اللہ کی اس وسیع کائنات میں ایک مچھر سے بھی زیادہ کمزور اور چھوٹا ہے۔ بلکہ اے انسان تو ، تمہاری یہ زمین اور تمہارا یہ شمس و قمر تو اللہ کی اس کائنات میں اس طرح ہیں جس طرح پرکاہ اس زمین کے مقابلے میں اور یہ پرکاہ بھی اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے ، لیکن اس کے باوجود اللہ نے تمہیں مکرم بنایا ہے اور وہ رم پر بلندیوں سے یہ قرآن نازل کرتا ہے لیکن تم پھر بھی اس کی قدر نہیں کرتے ہو ؟ ان فی ذلک ۔۔۔۔۔ یومنون (29: 51) ” بیشک اس میں رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں “۔ اس لیے کہ جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہی لوگ اس رحمت و شفقت کا احساس کرسکتے ہیں۔ اور وہی لوگ اس بات کا شعور حاصل کرسکتے ہیں کہ قرآن کو نازل کرکے اللہ نے اپنے بندوں پر کس قدر رحمت و شفقت فرمائی۔ یہی لوگ اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ جو بہت ہی بلند مرتبہ ہے ، جو بہت ہی عظمتوں والا ہے وہ اس ناچیز انسان کو اپنے اس دستر خوان پر بلاتا ہے۔ ایسے ہی لوگ اس قرآن سے نفع حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ یہ تو مطالعہ کرنے والے کے لیے آب حیات ہے اور اس کے ذریعہ مومن اور متدبر پر بےپناہ خزانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں ، اور ان کی روحوں کے اندر یہ قرآن ایک روشنی اور اشتراق پیدا کردیتا ہے۔ جن لوگوں کو ان امور کا شعور نہیں دیا گیا ، وہ حقیر مادی معجزات طلب کرتے ہیں اور حقیر معجزات کے ذریعے وہ اس عظیم اور ابدی معجزے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کی شخصیت مسخ ہوچکی ہے اس لیے ان کے دل اس نور کے لئے نہیں کھلتے لہٰذا ایسے لوگوں پر اپنا وقت نہ ضائع کرو۔ ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو ۔ ان کا فیصلہ وہی کرے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اَوَ لَمْ یَکْفِھِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْھِمْ ) (کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی ہے جس کی ان لوگوں پر تلاوت کی جاتی ہے) یہ کتاب سراپا معجزہ ہے اس کا اعجاز سب کے سامنے ہے، اگر کوئی منصف قبول حق کا ارادہ کرے تو اس کے لیے یہی قرآن بطور نشانی اور معجزہ کافی ہے (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً وَّ ذِکْرٰی لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ) (بلاشبہ اس قرآن میں بڑی رحمت ہے اور نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں) جن کو ایمان لانے سے گریز ہے وہ اس سے دور رہتے ہیں اور نصیحت حاصل کرنے سے کتراتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ یہ بھی جواب شکوی میں داخل ہے۔ مشرکین اگر واقعی حق کے جو یا ہیں اور اطمینان کے لیے معجزہ طلب کر رہے ہیں تو کیا ان کے اطمینان اور رفع شکوک و شہبات کے لیے یہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر قرآن نازل کردیا ہے جو ہر وقت انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔ اس کی آیات بینات اور حجج واضحہ آپ کی صداقت کو روز روشن کی طرح واضح کر رہی ہیں اور ہر قسم کے شکوک و شبہات کو زائل کر رہی ہیں۔ اگ روہ واقعی ایمان لانا چاہتے ہیں اور ضد و تعنت مقصود نہیں تو یہ قرآن سراپا رحمت و عبرت ہے وہ اس میں غور و فکر کریں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ ای اولم یکفہم ایۃ مغنیۃ عن سائر الایات ان کانوا طالبین للحق غیر متعنتین ھذا القران الذی تدوم تلاوتہ علیھم فی کل مکان و زمان فلا تزال معہم ایۃ ثابتۃ لا تزول ول اتضمحل الخ (بحر ج 7 ص 156) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

51۔ کیا ان لوگوں کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر ایک کتاب نازل کی ہے جو ان پر پڑھی جاتی ہے اور ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے بلا شبہ اس کتاب میں ان لوگوں کے لئے جو اہل ایمان ہیں بڑی رحمت اور نصیحت ہے۔ رحمت تو ظاہرہی ہے کہ ہزاروں احکام اور مسائل کی تعلیم ہے حرام و حلال واقفیت اس کتاب سے حاصل ہوتی ہے اور نصیحت یہ کہ ترغیب اور ترہیب ہے یہ اور نشانیوں میں بات کہاں ہوتی ہے۔