Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 63

سورة العنكبوت

وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِہَا لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ؕ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۳﴾٪  2

And if you asked them, "Who sends down rain from the sky and gives life thereby to the earth after its lifelessness?" they would surely say " Allah ." Say, "Praise to Allah "; but most of them do not reason.

اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کس نے کیا؟ تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا اللہ تعالٰی نے ۔ آپ کہہ د یں کہ ہر تعریف اللہ ہی کے لئے سزاوار ہے بلکہ ان میں سےاکثر بے عقل ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And if you were to ask them: "Who has created the heavens and the earth and subjected the sun and the moon!" They will surely reply: "Allah." How then are they deviating! Allah expands the provision for whom He wills of His servants, and straitens it for whom (He wills). Verily, Allah is the All-Knower of everything. And if you were to ask them: "Who sends down water from the sky, and gives life therewith to the earth after its death!" They will surely reply: "Allah." Say: "All the praises and thanks be to Allah!" Nay, most of them have no sense. Allah states that there is no God but He. The idolators who worshipped others besides Him recognized that He was the sole creator of the heavens and earth, the sun and the moon, alternating the night and day. They acknowledged that He was the Creator Who provided for His servants and decreed how long they should live. He made them and their provision different, so that some were rich and some were poor, and He knew best what was suitable for each of them, who deserved to be rich and who deserved to be poor. So, Allah stated that He has alone created everything, and that He alone is controlling them -- if this is how it is, then why worship anyone else? Why put one's trust in anyone else? Since dominion is His Alone, then let worship be for Him Alone. Allah often establishes His divinity by referring to their acknowledgement of His Unique Lordship, because the idolators used to acknowledge His Lordship, as they said in their Talbiyah (during Hajj and `Umrah): "At Your service, You have no partner, except the partner that You have, and You possess him and whatever he has."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

631کیونکہ عقل ہوتی تو اپنے رب کے ساتھ پتھروں کو اور مردوں کو رب نہ بناتے۔ نہ ان کے اندریہ تمیز ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت و ربوبیت کے اعتراف کے باوجود، بتوں کو حاجت روا اور لائق عبادت سمجھ رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٦] زمین پر آسمان سے بارش برسنے، پھر زمین سے نباتات برآمد ہونے میں اللہ نے اپنی جس قدر مخلوق کو لگا رکھا ہے۔ پھر اس بارش سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ان پر غور کرنے سے بےاختیار انسان کی زبان سے اللہ کی تعریف جاری ہوجاتی ہے۔ اور الحمد للہ کا عربی زبان میں دوسرا استعمال یہ ہے کہ جب فریق مخالف پر کوئی ایسی دلیل پیش کی جاوے جو اس کے ہاں مسلم ہو اور وہ اس کے برعکس کام کر رہا ہو تو اس وقت اتمام حجت کے طور پر الحمدللہ کہا جاتا ہے۔ اس آیت میں الحمدللہ کا لفظ اپنے دونوں مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۔۔ : پچھلی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی صفت ” خلق “ اور ” رزق “ کا ذکر تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت ”إِحْیَاءٌ بَعْدَ الْمَوْتِ “ (موت کے بعد زندہ کرنے) کا ذکر ہے۔ فرمایا، اگر تو ان سے پوچھے کہ کون ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کردیا ؟ تو یقیناً وہ کہیں گے کہ وہ ” اللہ “ ہے۔ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ : کفار کے اعتراف کو توحید کی دلیل کے طور پر بیان کرنے کے بعد فرمایا ” الحمد اللہ “ کہو، کیوں کہ جب مخاطب پر کوئی ایسی دلیل پیش کی جائے جو اس کے ہاں مسلّم ہو اور وہ اس کا جواب نہ دے سکے تو حجت تمام ہونے پر ” الحمد اللہ “ کہا جاتا ہے۔ ” الحمد اللہ “ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس اعتراف نعمت کے بعد تم جس شرک میں گرفتار ہو، ہم اس سے محفوظ ہیں اور یہ بھی کہ جب یہ سب نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور تم اس کا اعتراف بھی کرتے ہو تو لازم ہے کہ شکر بھی اسی کا ادا کرو۔ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ : کیوں کہ اگر وہ سمجھتے ہوتے تو اتنے اعتراف کے بعد شرک کی لعنت میں گرفتار نہ ہوتے۔ 3 ان کے اکثر کو ” لَا يَعْقِلُوْنَ :“ فرمایا، سب کو نہیں، کیونکہ ان میں سے کچھ بات سمجھتے بھی تھے، جن میں سے کچھ تو ایمان لے آئے اور کچھ سمجھنے کے باوجود عناد کی وجہ سے کفر پر اڑے رہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِہَا لَيَقُوْلُنَّ اللہُ۝ ٠ۭ قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ۝ ٠ۭ بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ۝ ٦٣ۧ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اگر آپ ان کفار مکہ سے دریافت کریں کہ وہ کون ہے کہ جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس نے پانی سے زمین کو بعد اس کے کہ وہ خشک اور بنجر پڑی ہوتی تھی تروتازہ کردیا تو کفار مکہ جواب میں یہی کہیں گے کہ ایسا کرنے والا بھی اللہ ہے۔ آپ کہیے الحمدللہ علی ذلک مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ نہ اس چیز کو سمجھتے ہیں اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِط بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ ) ” اب اگلی آیت میں اہل ایمان کے لیے ایک اور ہدایت آرہی ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

101 Here the word al-hamdu-lillah (Praise be to Allah) gives two meanings: (1) "When all this is done by Allah, then He alone is worthy of all praise, and none else", and (2) "Thank God that you yourselves also admit this."

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 101 اس مقام پر اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کا لفظ دو معنی دے رہا ہے ۔ ایک یہ کہ جب یہ سارے کام اللہ کے ہیں تو پھر حمد کا مستحق بھی صرف وہی ہے ۔ دوسروں کو حمد کا استحقاق کہاں سے پہنچ گیا ؟ دوسرے یہ کہ خدا کا شکر ہے ، اس بات کا اعتراف تم خود بھی کرتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

34: یعنی الحمدللہ ! کہ انہوں نے کود اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کے خالقِ کائنات ہونے کا عتراف کرلیا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان کے مشرکانہ عقائد بے بنیاد اور سراسر باطل ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:63) لیقولن۔ مضارع بلام تاکید ونون ثقیلہ جمع مذکر غائب۔ وہ ضرور کہیں گے۔ قل الحمد اللہ ! تو کہہ الحمد للہ۔ یعنی شکر الحمد اللہ کی اس بات کا اعتراف تو تم کرتے ہو۔ (جب وہ یہ مانتے ہیں کہ اللہ ہی بارش لاتا ہے جس سے کھیتیاں اگتی ہیں اور نشو و نما پاتی ہیں اور بار آور ہوتی ہیں اور وہی بنجر زمین کو زرخیز بناتا ہے تو اس حد تک تو ان کے اپنے اعتراف کے مطابق اللہ کا کوئی شریک نہ ہونا چاہیے لیکن ان کی بدقسمتی کہ اکثرہم لا یعقلون ان کی عقل ہی کام نہیں کرتی) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ یا ” شکر ہے اللہ کا کہ اس اعتراف نعمت کے باوجود تم جس شرک میں گرفتار ہو، ہم اس سے محفوظ ہیں۔ یا مطلب یہ ہے کہ جب یہ سب نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور تم اس کا اعتراف کرتے ہو تو ضروری ہے کہ شکر بھی اسی کا کرو۔ 8 ۔ اگر عقل رکھتے ہوتے تو اس اعتراف نعمت کے باوجود شرک جیسی لعنت میں گرفتار نہ ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ جب کائنات کا خالق اور مدبر صرف اللہ ہے تو عبادت بھی اسی کی کرنی چاہیے۔ وکثیرا مایقدر تعالیٰ مقام الالوھیۃ بالاعتراف بتوحید الربوبیۃ۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ نہ اس وجہ سے کہ عقل نہیں، بلکہ عقل سے کام نہیں لیتے اور غور نہیں کرتے، اس لئے بدیہی بھی خفی رہتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین سے ایک اور سوال اور دنیا کی حیثیت۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے سوال کریں کہ آسمان سے کون بارش برساتا ہے اور اس بارش کے ساتھ مردہ زمین کو کون زندگی عطا کرتا ہے ؟ لا محالہ ان کا جواب ہوگا کہ بارش برسانے والا اور اس کے ساتھ نباتات اگانے والا صرف ایک ” اللہ “ ہے۔ انہیں فرمائیں کہ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں لیکن لوگوں کی اکثریت ماننے کے لیے تیار نہیں جس دنیا کی خاطر یہ لوگ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہیں یہ دنیا کھیل تماشا کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی یقیناً آخرت کا گھر ہمیشہ کے لیے ہے۔ کاش لوگ یہ حقیقت پاجائیں۔ کفار کے اعتراف کے جواب میں اس لیے اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کہ توحید کا عقیدہ ٹھوس دلائل اور حقائق پر مبنی ہے جس کا انکار کرنا پرلے درجے کے مشرک کے لیے بھی ممکن نہیں لیکن اس کے لیے عقل سے کام لینا ضروری ہے جو شخص اپنے ضمیر سے کام لے اور تعصب سے بچے وہ توحید کا اقرار اور شرک سے اجتناب کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جہاں تک شرک کا تعلق ہے اس کی بنیاد کے بارے میں غور کیا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس کے پیچھے جلد بازی دنیوی مفاد اور بےعقلی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے ارشاد ہوا ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کھیل تماشا کے سوا کچھ نہیں۔ جس طرح کھیل تماشا سے وقتی اور عارضی طور پر لطف اٹھایا جاتا ہے اسی طرح ہی دنیا کا معاملہ ہے جس کی نعمتیں ناپائیدار اور ان کا لطف عارضی ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ نَامَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی حَصِیرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِی جَنْبِہِ فَقُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ لَوِ اتَّخَذْنَا لَکَ وِطَاءً فَقَالَ مَا لِی وَمَا للدُّنْیَا مَا أَنَا فِی الدُّنْیَا إِلاَّ کَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا)[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی أَخْذِ الْمَال ]ِ ” حضرت عبد اللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چٹائی پر سوئے تو آپ کے پہلو پر نشان پڑگئے۔ ہم نے عرض کی اللہ کے رسول ! آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لیے اچھا سا بستر تیار کردیں ؟ آپ نے فرمایا : میرا دنیا کے ساتھ ایک مسافر جیسا تعلق ہے جو کسی درخت کے نیچے تھوڑا سا آرام کرتا ہے پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دیتا ہے۔ “ (وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِبَعْضِ جَسَدِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَھْلِ القُبُوْرِ ) [ رواہ البخاری : باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُنْ فِی الدُّنْیَا۔۔] حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے کندھے کو پکڑکر فرمایا۔ دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو اہل قبور میں شمار کرو۔ مسائل ١۔ اللہ ہی آسمان سے بارش برساتا اور اس کے ساتھ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ ٢۔ مشرک توحید کے دلائل کا اقرار کرنے کے باوجود عقل سے کام نہیں لیتا۔ ٣۔ موحد کو عقیدہ توحید سمجھنے اور اپنانے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ٤۔ آخرت کے مقابلہ میں پوری کی پوری دنیا عارضی اور تھوڑی ہے۔ تفسیر بالقرآن لوگوں کی اکثریت کا حال : ١۔ اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت شکر گزار نہیں ہوتی۔ (البقرۃ : ٢٤٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو نہیں مانتی۔ (الاعراف : ١٨٧) ٣۔ قرآن آپ کے رب کی طرف سے حق ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت نہیں مانتی۔ (ھود : ١٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (سبا : ١٣) ٥۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثریت کے پیچھے چلیں گے تو یہ آپ کو گمراہ کردیں گے۔ ( البقرۃ : ١٤٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

52:۔ یہ چوتھی عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ مشرکین مانتے ہیں کہ آسمان سے بارانِ رحمت نازل فرما کر زمین سے انواع و اقسام کے غلے اور بھل وہی پیدا کرتا ہے تو پھر ان پر حیف ہے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو برکات دہندہ اور کارساز سمجھ کر پکارتے ہیں۔ قل الحمد للہ الخ۔ یہ دلائل یہ دلائل عقلیہ مذکورہ کا ثمرہ ہے۔ جب مشرکین کے اپنے اقرار و اعتراف ہی سے ثابت ہوگیا کہ ساری کائنات کا خالق اور اس میں متصرف و مختار اللہ تعالیٰ ہی ہے تو آپ اعلان فرما دیجئے کہ اس سے معلوم ہوا کہ تمام صفات کارسازی ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں اور ان صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ لیکن دلائل کے اس قدر وضوح و ظہور کے باوجود اکثر لوگ ان میں غور و تدبر نہیں کرتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

63۔ اور اگر آپ ان منکرین توحید سے دریافت کریں کہ وہ کون ہے جس نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا پھر اس پانی سے زمین کو اس کے خشک ہوئے پیچھے اور مرے پیچھے زندہ اور ترو تازہ کردیا تو وہ لوگ یہی جواب دیں گے کہ وہ اللہ ہی ہے آپ کہہ دیجئے سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں مگر یہ لوگ مانتے نہیں بلکہ ان میں کے اکثر لوگ سمجھتے بھی نہیں اور سمجھ سے کام نہیں لیتے۔ یعنی آپ ان کا جواب سن کر الحمد اللہ کہئے جب ہر چیز کا خالق بھی وہی اور رازق بھی وہی پھر اب اس کی الوہیت کا اعتراف کرنے میں کیوں جھجکتے ہو لیکن یہ مانتے نہیں مانیں تو کیا یہ تو عقل سے کام ہی نہیں لیتے۔ حضر ت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی مینہ بھی ہر کسی پر برابر نہیں برستا اور اسی طرح حال بدلتے دیر نہیں لگتی مفلس سے دولت مند کردے۔ 12 شاہ صاحب (رح) نے تمام آیات کا تعلق ہجرت ہی کے مضمون سے رکھا یہ حضرت شاہ صاحب (رح) کی علمی بصیرت کا کمال ہے۔