Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 65

سورة العنكبوت

فَاِذَا رَکِبُوۡا فِی الۡفُلۡکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ ۚ فَلَمَّا نَجّٰہُمۡ اِلَی الۡبَرِّ اِذَا ہُمۡ یُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۶۵﴾

And when they board a ship, they supplicate Allah , sincere to Him in religion. But when He delivers them to the land, at once they associate others with Him

پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالٰی ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کرکے پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ... And when they embark on a ship, they invoke Allah, making their faith pure for Him only, This is like the Ayah, وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِى الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَ إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّـكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ And when harm touches you upon the sea, those that you call upon vanish from you except Him (Allah Alone). But when He brings you safely to land, you turn away. (17:67) Allah says here: ... فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ but when He brings them safely to land, behold, they give a share of their worship to others. Muhammad bin Ishaq reported from Ikrimah bin Abi Jahl that when the Messenger of Allah conquered Makkah, he (Ikrimah) ran away, fleeing from him. When he was on the sea, headed for Ethiopia, the ship started to rock and the crew said: "O people, pray sincerely to your Lord alone, for no one can save us from this except Him." Ikrimah said: "By Allah, if there is none who can save us on the sea except Him, then there is none who can save us on land except Him either, O Allah, I vow to You that if I come out of this, I will go and put my hand in the hand of Muhammad and I will find him kind and merciful." And this is what indeed did happen. Allah says: لِيَكْفُرُوا بِمَا اتَيْنَاهُمْ وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

651مشرکین کے اس تناقض کو بھی قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ اس منافقت کو حضرت عکرمہ سمجھ گئے تھے جس کی وجہ سے انھیں قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوگئی۔ ان کے متعلق آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ مکہ سے فرار ہوگئے تاکہ نبی کی گرفت سے بچ جائیں۔ یہ حبشہ جانے کے لئے ایک کشتی میں بیٹھے، کشتی گرداب میں پھنس گئی، تو کشتی میں سوار لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ پورے خلوص کے ساتھ رب سے دعائیں کرو، اس لئے کہ یہاں اس کے علاوہ کوئی نجات دینے والا نہیں۔ حضرت عکرمہ نے یہ سن کر کہا کہ اگر سمندر میں اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا۔ اسی وقت اللہ سے عہد کرلیا کہ اگر میں یہاں سے بخیریت ساحل پر پہنچ گیا تو میں محمد کے ہاتھ پر بیعت کر لونگا۔ یعنی مسلمان ہوجاؤ گا چناچہ یہاں سے نجات پا کر انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ ۔۔ : اس سے پہلی آیات میں مشرکین مکہ پر ان کے اعتراف کے ساتھ حجت قائم کی تھی کہ آسمان و زمین کا خالق، سورج و چاند کو مسخر کرنے والا اور آسمان سے پانی برساکر مردہ زمین کو زندہ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، یعنی یہ مان کر پھر اس کے ساتھ شریک بنانے کا کیا جواز ہے ؟ اس آیت میں ان پر اس بات کے ساتھ حجت قائم کی ہے کہ سمندری سفر میں جب ان کے بحری جہاز طوفان کی لپیٹ میں آتے ہیں تو وہ اپنی فطرت میں چھپی ہوئی توحید کے ہاتھوں مجبور ہو کر اللہ تعالیٰ کے لیے اپنی بندگی خالص کرتے ہوئے اس اکیلے ہی کو پکارتے ہیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ انھیں طوفان سے بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو اپنی ہی بات کے خلاف شرک کرنے لگتے ہیں۔ بتائیے اس سے زیادہ ناشکری کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کی ضروریات زندگی تو سب اللہ مہیا کرے اور جب جان پر بن جائے تو اس مصیبت سے نجات بھی اللہ دے، لیکن جب آسودہ حالی کا وقت آئے تو انسان نہ صرف اللہ کو بھول جائے بلکہ اس کے اختیارات میں دوسروں کو شریک بنانے لگے ؟ یہ نبوی دور کے مشرکوں کا حال تھا، آج کل کے مسلمان مشرک ان سے بھی بدتر ہیں کہ یہ مصیبت کے وقت بھی غیر اللہ کو پکارتے اور ان کے نعرے لگاتے ہیں۔ یہ صرف مذہبی مشرکوں کا حال نہیں بلکہ بڑے بڑے دہریے جب کسی مشکل میں ہر طرف سے مایوس ہوجاتے ہیں تو اس ذات واحد کو پکارتے ہیں اور جب بچ نکلتے ہیں تو پھر مالک کا انکار کرنے لگتے ہیں، آخر اتنا بڑا تضاد کیوں ہے ؟ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انعام (٦٣، ٦٤) ، یونس (٢٢، ٢٣) ، بنی اسرائیل ( ٦٧) اور لقمان (٣٢) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝ ٠ۥۚ فَلَمَّا نَجّٰىہُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا ہُمْ يُشْرِكُوْنَ۝ ٦٥ۙ ركب الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ ) رک ب ) الرکوب کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت/ 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ فلك الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر . قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع . ( ف ل ک ) الفلک کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ خلص الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه، وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] ( خ ل ص ) الخالص ( خالص ) خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة/ 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف/ 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ سبرَّ البَرُّ خلاف البحر، وتصوّر منه التوسع فاشتق منه البِرُّ ، أي : التوسع في فعل الخیر، وينسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ تارة نحو : إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] ، وإلى العبد تارة، فيقال : بَرَّ العبد ربه، أي : توسّع في طاعته، فمن اللہ تعالیٰ الثواب، ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان : ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] ، ويستعمل البِرُّ في الصدق لکونه بعض الخیر المتوسع فيه، يقال : بَرَّ في قوله، وبرّ في يمينه، وقول الشاعر : أكون مکان البرّ منه«2» قيل : أراد به الفؤاد، ولیس کذلک، بل أراد ما تقدّم، أي : يحبّني محبة البر . ويقال : بَرَّ أباه فهو بَارٌّ وبَرٌّ مثل : صائف وصیف، وطائف وطیف، وعلی ذلک قوله تعالی: وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] . وبَرَّ في يمنيه فهو بَارٌّ ، وأَبْرَرْتُهُ ، وبَرَّتْ يميني، وحجّ مَبْرُور أي : مقبول، وجمع البارّ : أَبْرَار وبَرَرَة، قال تعالی: إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] ، وقال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] ، وقال في صفة الملائكة : كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] فَبَرَرَةٌ خصّ بها الملائكة في القرآن من حيث إنه أبلغ من أبرار «1» ، فإنه جمع برّ ، وأبرار جمع بار، وبَرٌّ أبلغ من بَارٍّ ، كما أنّ عدلا أبلغ من عادل . والبُرُّ معروف، وتسمیته بذلک لکونه أوسع ما يحتاج إليه في الغذاء، والبَرِيرُ خصّ بثمر الأراک ونحوه، وقولهم : لا يعرف الهرّ من البرّ «2» ، من هذا . وقیل : هما حكايتا الصوت . والصحیح أنّ معناه لا يعرف من يبرّه ومن يسيء إليه . والبَرْبَرَةُ : كثرة الکلام، وذلک حكاية صوته . ( ب رر) البر یہ بحر کی ضد ہے ( اور اس کے معنی خشکی کے ہیں ) پھر معنی دسعت کے اعتبار سے اس سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ہے جس کے معنی وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا کے ہیں اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے ۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بدالعبدربہ ( یعنی بندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی ) چناچہ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ طرف ہو تو اس کے معنی ثواب عطاکرنا ہوتے ہیں اور جب بندہ کی طرف منسوب ہو تو اطاعت اور فرمانبرداری کے البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت سے بد کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآں میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی ۔۔۔ کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ اور بد کے معنی سچائی بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی خیر ہے جس میں وسعت کے معنی پائے جانے ہیں چناچہ محاورہ ہے ؛۔ برفی یمینہ اس نے اپنی قسم پوری کردکھائی اور شاعر کے قول (43) اکون مکان البر منہ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ بد بمعنی فؤاد یعنی دل ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی بد بمعنی نیکی ہے یعنی میرا مقام اس کے ہاں بمنزلہ بر کے ہوگا ۔ بر اباہ فھو بار و بر صیغہ صفت جو کہ صائف وصیف وطائف وطیف کی مثل دونوں طرح آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے ۔ اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ( بنا) بر فی یمینہ فھوباز ابررتہ قسم پوری کرنا ۔ برت یمینی میری قسم پوری ہوگئی ۔ حج مبرور حج جس میں رفت وفسق اور جدال نہ ہو ۔ البار کی جمع ابرار وبررۃ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] بیشک نیکو کار نعمتوں ( کی بہشت ) میں ہوں گے ۔ كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] اور یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے اعمال علیین میں ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] . جو سردار اور نیکو کار ہیں ۔ میں خاص کر فرشتوں کو بررۃ کہا ہے کیونکہ ابرار ( جمع ) زیادہ بلیغ ہے ۔ اس لئے کہ بررۃ ، بر کی بنسبت عدل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اسی طرح بد میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے البر یر خاص کر پیلو کے درخت کے پھل کو کہتے ہیں عام محاورہ ہے : فلان لایعرف البر من الھر ( وہ چوہے اور بلی میں تمیز نہیں کرسکتا ) بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں لفظ حکایت کی صورت کے طور پر بولے جاتے ہیں مگر اس محاورہ کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ۔ البربرۃ بڑبڑ کرنا یہ بھی حکایت صورت کے قبیل سے ہے ۔. شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جب کفار مکہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالص اعتقاد کر کے نجات کی اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کرنے لگتے ہیں پھر جب ان کو سمندر سے نجات دے کر اللہ تعالیٰ خشی کی طرف لے آتے ہیں تو فورا بتوں کو اس کے ساتھ شریک کرنے لگتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ (فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ج) ” یہ مضمون قرآن میں کئی بار آچکا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

36: مشرکین عرب کا یہ عجیب طریقہ تھا کہ جب سمندر کی موجوں میں گھر کر موت نظر آنے لگتی تو اس وقت انہیں نہ کوئی بت یاد آتا تھا، نہ کوئی دیوی یا دیوتا۔ اس وقت وہ مدد کے لیے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے۔ لیکن جب ڈوبنے سے بچ کر کنارے پہنچ جاتے تو اللہ تعالیٰ کے بجائے پھر انہی بتوں کی عبادت شروع کردیتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:65) رکبوا۔ ماضی بمعنی حال جمع مذکر غائب۔ وہ سوار ہوتے ہیں۔ دعوا ماضی بمعنی حال جمع مذکر غائب۔ دعوا اصل میں دعو وا تھا۔ واؤ متحرک ماقبل مفتوح اس لئے واؤ کو الف سے بدلا۔ الف اور واؤ دو ساکن جمع ہوگئے الف کو حذف کرلیا گیا دعوا رہ گیا۔ وہ پکارتے ہیں وہ دعا کرتے ہیں۔ دعا یدعوا دعاء (باب نصر) د ع و مادہ۔ مخلصین لہ الدین۔ یہ جملہ حال ہے۔ مضاف مضاف الیہ۔ دین کو خالص کرنے والے ۔ الدین بمعنی اطاعت۔ شریعت۔ ملت۔ وان یدین (ضرب) کا مصدر۔ مخلصین اسم فاعل جمع مذکر۔ مخلص واحد۔ اخلاص کے لغوی معنی کسی چیز کو ہر ممکن ملاوٹ سے پاک و صاف کرنا۔ یہ خلوص کا متعدی ہے جس کے معنی آمیزش سے صاف و خالی ہونا کے ہیں۔ اور اصطلاح شرع میں اخلاص کے معنی یہ ہیں کہ یہ عمل محض رضائے الٰہی کے لئے کرے۔ اور اس میں کسی اور جذبہ کی آمیزش نہ ہو اخلاص دین سے مراد یہ ہے کہ لہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب اللہ کی طرف راجع ہے۔ مخلصین لہ الدین کا مطلب ہو کہ خالصۃ اللہ ہی کی اطاعت کرتے ہوئے (دعا مانگتے ہیں) ۔ نجہم۔ نجی ینجی تنجیۃ (تفعیل) سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب اس کے ان کو نجات دی۔ اس نے ان کو سلامتی سے خشکی تک یعنی کنارے تک پہنچایا۔ اذا مفاجاتیہ ہے۔ تو جھت وہ شرک کرنے لگتے ہیں۔ اسی وقت۔ اذا بمعنی جب، ناگہاں۔ ظرف زمان ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ وہاں سب بتوں کو بھول جاتے ہیں کیونکہ دل میں سمجھتے ہیں کہ اس آفت سے بچانے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (65 تا 69) ۔ رکبوا (وہ سوار ہوئے) ۔ الفلک (کشتی۔ جہاز) ۔ مخلصین (خالص کرنے والے) ۔ البر (خشکی) ۔ حرم (حرم۔ قابل احترام) ۔ یتخطف (وہ اچک لے گا) ۔ نھدین (ہم ضرور ہدایت دیں گے) ۔ المحسنین (نیک کام کرنے والے۔ نیکو کار) ۔ تشریح : آیت نمبر (65 تا 69 ) ۔ ” اللہ نے کفر و شرک کرنے والوں سے سوال کیا ہے کہ جب تم کسی جہاز یا کشتی پر سوار ہوتے ہو اور تمہاری کشتی کسی طوفان میں پھنس جاتی ہے جہاں سے زندہ نکلنا دشوار اور مشکل نظر آتا ہے تو اس وقت تم کس سے گڑگڑا کر اپنی زندگی کی بھیک مانگتے ہو ؟ فرمایا اس وقت صرف ایک اللہ کی ذات کو پکارا جاتا ہے لیکن جب تم اس طوفان سے نجات پا لیتے ہو اور خشکی پر آجاتے ہو تو فوراً ہی اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کو پکارنے لگتے ہو اور شرک میں مبتلا ہوجاتے ہو۔ اور اس طرح احسان ماننے کے بجائے ناشکری کا راستہ اختیار کرتے ہو۔ فرمایا کہ وہ جن بد مستیوں میں لگے ہوئے ہیں ان کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ شرک کر کے کتنا بڑا ظلم اور زیادتی کی ہے۔ فرمایا کہ یہ لوگ اس بات پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے کہ اس اللہ نے اپنے گھر کی بدولت تمام مکہ کے لوگوں کو امن وامان اور سلامتی کے ساتھ یہ عزت عطا فرمائی ہے کہ وہ اللہ کے گھر والے کہلائے جاتے ہیں کہ مکہ والے اللہ کے گھر کے محافظ و نگران ہیں تو ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا حالانکہ آس پاس کی بستیوں کے لوگ محفوظ نہیں ہیں ان پر آئے دن چڑھائی ہوتی رہتی ہے۔ اس اتنی بڑی نعمت پر تو انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس گھر کو اور اس کے نگرانوں کو اللہ ہی نے عزت عطا فرمائی ہے۔ یہ بڑی زیادتی کی بات ہے کہ وہ سامنے کی ایک حقیقت کو اس طرح جھٹلا رہے ہیں۔ جب ان کے پاس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق اور سچائی کا پیغام لے کر آگئے ہیں تو انہیں اس پیغام حق کو قبول کر کے سب سے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ اگر وہ اللہ کا دین قبول کر کے اس کے لئے جدوجہد کریں گے اور ہر طرح کی مشقتیں اٹھائیں گے تو اللہ ان کا ساتھ دے گا اور وہ ان کو سر بلندی عطافرمادے گا۔ جدوجہد وہ کریں گے اور ہر خیرو بھلائی کا راستہ ان کو ہم دکھائیں گے کیونکہ اللہ ان کے ساتھ ہے جو اس کے دین کی سر بلندی کی ہر ممکن جدوجہد کرتے ہیں۔ یہی اس کی نعمت کا سب سے بڑھ کر شکر ادا کرتے ہیں اور اللہ کے ہاں اس کی قدر کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کی سر بلندی کے لئے ہر طرح کا مجاہدہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین الحمدللہ ان آیات پر سورة العنکبوت کی آیات کا ترجمہ و تشریح تکمیل تک پہنچی۔ واخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکوں کا مشکل وقت پر ” اللہ “ کی ذات کا اقرار کرنا، اور صرف اسے پکارنا۔ موحّد اور مشرک کے عقیدہ کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ موحّد ہر حال میں ایک ” اللہ “ کو پکارتا ہے اور مشرک صرف مصیبت کے وقت ایک ” اللہ “ کو پکارتا ہے یہی حال مشرکین مکہ کا تھا وہ عام حالات میں صرف ایک ” اللہ “ کو پکارنے کی بجائے دوسروں کو بھی شامل کرتے اور انہیں پکارتے تھے، حالانکہ قرآن مجید نے بار بار اس بات سے منع کیا ہے کہ نہ ” اللہ “ کے سوا کسی کو پکارا جائے اور نہ اس کے ساتھ کسی کو پکارا جائے، لیکن نہ مکہ کے مشرک اس بات سے رکتے تھے اور نہ آج کے مشرک اس سے باز آتے ہیں، حالانکہ ہر دور میں مشرک کی یہ حالت رہی ہے اور رہے گی کہ بڑی مصیبت کے وقت سب کو بھول کر صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں۔ یہی مکہ والے کرتے تھے۔ جب کشتی بھنور میں پھنس جاتی تو صرف ایک ” اللہ “ کو پکارتے جب کشتی بھنور سے نکل جاتی تو کہتے کشتی فلاں بزرگ یا بت کی مدد سے بھنور سے نکلی ہے۔ یہاں شرک کو کفر قرار دیا اور فرمایا کہ اللہ چاہے تو کشتی کو غرقاب کر دے لیکن وہ مشرک کو اس لیے مہلت دیتا ہے تاکہ اپنے رب کی نعمتوں سے مزید فائدہ اٹھالے۔ مفسرین نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے عکرمہ بن ابوجہل کا واقعہ نقل کیا ہے۔ جب مکہ فتح ہوا تو عکرمہ یہ سوچ کر بھاگ نکلا کہ مجھے کسی صورت بھی معافی نہیں مل سکتی۔ جدہ کی بندرگاہ پر پہنچا اور بیڑے میں سوار ہوا۔ لیکن اللہ کی قدرت کہ جوں ہی بیڑے نے ساحل چھوڑا تو اتنے شدید بھنور میں پھنسا کہ ملّاح اور مسافروں کو یقین ہوگیا کہ اب نجات کی کوئی صورت باقی نہیں ہے۔ ملاّح نے مسافروں سے کہا کہ جب بیڑے کو ایسے طوفان کا واسطہ پڑتا ہے تو کسی اور کی بجائے صرف ایک اللہ کو پکارا جاتا ہے۔ اس لیے صرف ایک اللہ کے حضور فریادیں کرو۔ اس کے سوا کوئی بیڑا پار لگانے والا نہیں۔ یہ بات عکرمہ کے دل پر اثر کرگئی اور اس نے سوچا کہ یہی تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دیتا ہے اگر یہاں سے بچ نکلا تو میں حلقہ اسلام میں داخل ہوجاؤں گا چناچہ عکرمہ (رض) حلقہ اسلام میں داخل ہوئے اور باقی زندگی اسلام اور رسول محترم کے ساتھ اخلاص کے ساتھ گزاری اور جنت کے وارث بنے۔ تفصیل کے لیے کسی مستند سیرت کی کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔ یہاں ” اَلدِّیْنَ “ کا معنٰی تابعداری ہے۔ یعنی پوری تابع داری کے ساتھ صرف ایک ” اللہ “ کو پکارو جس طرح تمہارے رب نے تمہیں حکم دیا ہے۔ لیکن افسوس اس تاریخی حقیقت اور قرآن مجید کے منع کرنے کے باوجود آج کا مشرک کشتی ڈوبنے کے وقت بھی صرف ایک ” اللہ “ کو پکارنے کے لیے تیار نہیں ہوتا وہ بےجھجک کہتا ہے۔ یا بہاء الحق بیڑا دھک یا پیر عبدالقادر شیأ اللہ مسائل ١۔ مشرک صرف سخت مصیبت کے وقت ایک ” اللہ “ کو پکارتا ہے موحد ہر حال میں ایک ” اللہ “ کو پکارتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر حال میں صرف ایک اللہ کو پکارنا چاہیے : ١۔ مشرک جب کسی مشکل میں گھر جاتے ہیں تو خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ ( یونس : ٢٢) ٢۔ لوگو ! اللہ کی خالص عبادت کرو۔ (الزمر : ٣) ٣۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی خالص عبادت کروں۔ (الزمر : ١١) ٤۔ جب مشرکین کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو ” اللہ “ کو خالصتاً پکارتے ہیں۔ (العنکبوت : ٦٥) ٥۔ مومنو ! اللہ تعالیٰ کو اخلاص کے ساتھ پکارو اگرچہ کفار کے لیے یہ ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔ (المومن : ١٤) ٦۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں صرف اسی کو پکارو (المومن : ٦٥) ٧۔ ہر کسی کو یہی حکم دیا گیا کہ خالصتاً اللہ کو پکارا جائے۔ ( البینۃ : ٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاذا رکبوا فی ۔۔۔۔ اذاھم یشرکون (29: 66) . یہ بھی ان کے عقائد کا بہت بڑا تضاد ہے۔ ان کے عقائد اس قدر ڈانواں ڈول ہوتے ہیں کہ جب کشتی پر وہ گہرے سمندر میں ہوتے ہیں اور یہ جہاز بحری امواج کے تلاطم میں ایک کھلونا بن جاتا ہے اور ان پر خوف طاری ہوتا ہے تو وہ اللہ کے سوا کسی کو نہیں پکارتے۔ اس وقت ان کو یہ ادراک ہوتا ہے کہ اصل قوت تو صرف اللہ ہی کی قوت ہے۔ پھر ان کی سوچ میں بھی اللہ وحدہ ہوتا ہے اور اس کی زبان پر بھی اللہ وحدہ کا نام ہوتا ہے۔ اب وہ اپنی اس فطرت کے تابع ہوتے ہیں جو وحدانیت کا شعور رکھتی ہے ۔ لیکن جب اللہ ان کو بچا کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو یہ لوگ اچانک پھر شرک کرنے لگتے ہیں اور وہ فطری شعور پھر دب جاتا ہے۔ اب اچانک وہ اس حالت کو بھول جاتے ہیں جس میں وہ اللہ وحدہ کو پکارتے تھے اور اقرار اور تسلیم کے بعد دوبارہ یہ لوگ شرک کی راہ پر پڑجاتے ہیں۔ اس بےراہ روی اور گمراہی کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ یہ کہ یہ لوگ ان انعامات کی ناشکری اور کفر کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو دئیے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس فطری راہ سے منحرف ہوجاتے ہیں جو اللہ نے ان کی شخصیت کے اندر ودیعت کردی ہوئی ہے۔ ان فطری براہین کو نظر انداز کردیتے ہیں جن کو وہ مھسوس کرتے ہیں اور وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ حیات دنیا تو ایک محدود وقت تک کے لیے ایک سازو سامان ہے لیکن ان کو بہت جلد اپنے حقیقی انجام کا پتہ چل جائے گا۔ وہ بہت ہی برا انجام ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کی ناشکری اور ناسپاسی جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ آڑے وقت میں تمام باطل معبودوں کی طرف سے ذہن ہٹا لیتے ہیں اور خالص اعتقاد کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مصیبت دفع کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ یہاں بطور مثال ان کی حالت بیان فرمائی ہے اور وہ یہ کہ جب کشتی میں سوار ہوں اور تیز ہوا چلنے لگے جس سے کشتی ڈگمگانے لگے اور ڈوبنے کا خطرہ لاحق ہوجائے تو صرف اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ : (لَءِنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ ھٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ ) (اگر آپ نے ہمیں اس سے نجات دے دی تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے) جب مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو بڑے سچے وعدے کرتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ مصیبت سے نجات دے دیتا ہے تو پھر وہی ناشکری اور کفر و شرک اختیار کرلیتے ہیں۔ اسی کو فرمایا (فَلَمَّا نَجّٰھُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ھُمْ یُشْرِکُوْنَ ) (سو جب اللہ انہیں نجات دے کر خشکی میں لے آتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں) (لِیَکْفُرُوْا بِمَآ اٰتَیْنٰھُمْ ) (تاکہ وہ ان نعمتوں کی ناشکری کریں جو ہم نے انہیں دی ہیں) (وَ لِیَتَمَتَّعُوْا) (اور تاکہ مزے اڑاتے رہیں) دنیا کے اشغال اور لذات اور مزوں کے کاموں میں لگے رہیں، مصیبت ٹل جانے پر سارے وعدہ بھول جاتے ہیں، (فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ) (سو عنقریب جان لیں گے کہ کفر و شرک اختیار کرنے اور اپنے وعدہ کو بھول بھلیاں کرنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے) یہ نتیجہ عذاب کی صورت میں سامنے آجائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

54:۔ یہ زجر ہے۔ مشرکین جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں اس وقت اگر ان کی کشتیاں گرداب میں پھنس جائیں یا طوفانِ باد میں گھر جائیں تو وہ ہر طرف سے مایوس ہو کر خالص اللہ تعالیٰ ہی کو مدد کے لیے پکارتے ہیں اور اپنے مزعومہ مددگاروں اور خود ساختہ کارسازوں کو بھول جاتے ہیں۔ مشرکینحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کرتے تھے کہ اگر شرک چھوڑ کر توحید پر ایمان نہ لاؤ گے تو اللہ کا عذاب آئے گا۔ اس لیے جب وہ کشتیوں کو خطرے میں دیکھتے تو خیال کرتے شاید وہ عذاب آگیا ہے جس سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں ڈراتا تھا۔ اس لیے خالص اللہ کو پکارنے لگتے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ ان کی کشتیوں کو صحیح سلامت کنارے لگا دیتا ہے تو خشکی پر اتر کر وہ پھر شرک کرنے لگتے ہیں اور پہلے کی طرح حاجات میں وہ غیر اللہ کو پکارتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

65۔ آگے پھر توحید کا اثبات ہے ، ارشاد ہوتا ہے پھر جب یہ لوگ کسی کشتی میں سوار ہوجاتے ہیں تو خالص اللہ تعالیٰ پر ہی اعتقاد رکھ کر اس کو پکارتے ہیں اور اسی پر خالص نیت رکھ کر اس کو پکارنے لگتے ہیں ، پھر جب اللہ تعالیٰ ان کو نجات دیکر خشکی پر لے آتا ہے اور دریا سے جنگل میں پہنچا دیتا ہے تب ہی وہ شرک کرنے لگتے ہیں۔