یہ سورت مدنی ہے اس کے شروع کی تراسی آیتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سن 9 ہجری کو حاضر ہونے والے نجران کے عیسائیوں کے ایلچی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جس کا مفصل بیان مباہلہ کی آیت قل تعالوا الخ ، کی تفسیر میں عنقریب آئے گا ۔ انشاء اللہ ، اس کی فضیلت میں جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں وہ سورۃ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں بیان کر دی گئی ہیں ۔
[١] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة بقرہ اور سورة آل عمران کو الزَّھْرَاوَیْنَ یعنی دو جگمگانے والی سورتیں، فرمایا اور امت کو ان کے پڑھتے رہنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ انہیں پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں، اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کے لیے جھگڑا کریں گی۔ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ، باب فضل، قراءۃ القرآن و سورة البقرۃ) قرآن کریم کے علوم میں سے ایک علم مخاصمہ ہے۔ یعنی وہ علم جس کے ذریعہ باطل فرقوں کے عقائد و نظریات کی تردید کی گئی ہے۔ نزول قرآن کے وقت اکثر تین فرقے قرآن پاک کے مخاطب رہے جو مسلمانوں کے حریف تھے : مشرکین، یہود اور نصاریٰ ، سورة بقرہ میں مشرکین کے علاوہ یہود پر اللہ کے انعامات، ان کی عہد شکنیوں اور ان کے عقائد باطلہ کا تفصیلی طور پر ذکر ہوا تھا جب کہ اس سورة آل عمران میں مشرکوں کے علاوہ نصاریٰ کے عقائد باطلہ کا تفصیلی طور پر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
الۗـۗم۔ حروف مقطعات کی تشریح سورة بقرہ کی ابتدا میں گزر چکی ہے۔
This is the first section of Surah A1-` Imran, the third Surah of the Holy Qur an. It will be recalled that at the end of the Surah Al-Fatihah a prayer for guidance to the straight path was made. After that, by be-ginning the Surah Al-Baqarah with الم ﴿١﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ (This Book which has no doubt in it), it was pointed out that the prayer made in Su ah Al-Fatihah for guidance to the straight path has been accepted and Al¬lah Almighty has sent down this Qur an which provides guidance to the straight path. Then came many injunctions of the Islamic law tak¬en up briefly or in details. As a corollary to this, frequent mention was made of the hostility of the disbelievers and the need to confront them. Towards the end, this sequence was concluded with (Help us, then, against disbelieving people) - in the mode of prayer. Since the prayer was made in order that Muslims could confront and prevail over the disbelievers, it was in consonance with that prayer that, in the following Surah Al-` Imran, the text deals with the modal¬ities of dealing with disbelievers, as well as, with the need to carry out Jihad against them, verbally and physically. This is, so to speak, an elaboration and extension of فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (Help us, then, against disbelieving people). A Summary of Meanings These first five verses of Surah Al-` Imran explain the doctrine of توحید tauhid, the Oneness of Allah, which is the basic point of difference between Islam and other religions and between a disbeliever and a true Muslim. Those who believe in the Oneness of Allah (and in all His prophets (علیہم السلام) are Muslims and those who do not so believe are known as disbelievers or non-Muslims. Tauhid توحید a consistent belief preached by all prophets (علیہم السلام) Verse 2 gives a reported proof in some detail. The agreement of a large number of people on a certain principle from the very beginning of humanity may be taken as a natural proof of its reality, if they belong to different times and places, having no means of communicating with each other. Keeping this in view, we see that Sayyidna Adam (علیہ السلام) was the first prophet who presented the message of توحید tauhid before human be¬ings. That the message would remain effective after him through his progeny is not difficult to conceive. But, after a passage of time when the ways of the progeny of Sayyidna Adam (علیہ السلام) shifted away from the original message, there comes Sayyidna Nuh (Noah) (علیہ السلام) who calls people towards the same principle. After a long passage of time, Sayyidna Ibrahim, Ismail, Ishaq and Yaqub (علیہم السلام) born in Iraq and Syria rise with the same call. Then follow Sayyidna Musa, Harun and other prophets (علیہم السلام) in that order who all subscribe to the same principle of توحید tauhid and invite people to the same. Then, after another long passage of time, Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) rises with the same call. In the end, it is Sayyidna Muhammad al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who graces the world with the common call of all prophets. This is the golden chain of prophets from Sayyidna Adam (علیہ السلام) to the Last of the Prophets (علیہم السلام) upto whose time some one hundred and twenty four thousand blessed prophets were born in different peri¬ods, speaking different languages, living in different countries. A11 of them told and taught the same truth. Most of them did not even have the chance to meet each other. They were in an age when, communica¬tion through writing was not in vogue, which could make it possible for one prophet to have access to the books and writings of another and might help him to pick up the call of the earlier prophets as his own. Instead, what happened is that everyone from among them ap¬peared centuries apart from each other, and had no source of informa¬tion about other prophets, except the revelation received by him from Allah Almighty. The consensus of such a large group of persons con¬sisting of not less than one hundred and twenty four thousand men of different times and places may be enough for establishing the princi¬ple, even regardless of their intrinsic trustworthiness. But when one looks at the personal qualities of the noble prophets, and at the high¬est possible standards of truth and justice set by them, one has to be¬lieve that their message is true and their call authentic. It is narrated in some ahadith that some Christians came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and engaged him in a conversation about religion. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، by the will of Allah, present¬ed these two verses as arguments confirming the Oneness of Allah. The Christians had no answer to refute them. Lastly, while referring to the absolute power and wisdom of Allah Almighty, verse 6 invites one s attention to the fact that Allah shapes all men and women in the wombs of their mothers according to His su¬preme wisdom which has created billions of men and women with clear distinguishable features establishing the identity of each individ¬ual distinct from all others. He is, therefore, the only One who should be worshipped.
ربط آیات یہ قرآن کریم کی تیسری سورت (آل عمران) کا پہلا رکوع ہے پہلی سورت یعنی فاتحہ جو پورے قرآن کا خلاصہ ہے اس کے آخر میں صراط مستقیم کی ہدایت طلب کی گئی تھی اس کے بعد سورة بقرہ الم ذلک الکتاب سے شروع کر کے گویا اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ سورة فاتحہ میں جو سیدھے راستے کی دعا کی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ نے قبول کر کے یہ قرآن بھیج دیا، جو صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے پھر سورة بقرہ میں اکثر احکامات شرعیہ کا جمالی اور تفصیلی بیان آیا ہے، جس کے ضمن میں جابجا کفار کی مخالفت اور ان سے مقابلہ کا بھی ذکر آیا آخر میں اس کو (فانصرنا علی القوم الکافرین) کے جملہ دعائیہ پر ختم کیا گیا تھا، جس کا حاصل تھا کفار پر غلبہ پانے کی دعا، اس کی مناسبت سے سورة آل عمران میں عام طور پر کفار کے ساتھ معاملات اور ہاتھ اور زبان سے ان کے مقابلہ میں جہاد کا بیان ہے، جو گویا ( فانصرنا علی القوم الکافرین) کی تشریح و تفصیل ہے۔ خلاصہ تفسیر سورة آل عمران کی ابتدائی پانچ آیتوں میں اس مقصد عظیم کا ذکر ہے جس کی وجہ سے کفر و اسلام اور کافر و مومن کی تقسیم اور باہمی مقابلہ شروع ہوتا ہے، اور وہ اللہ جل شانہ کی توحید ہے، اس کے ماننے والے مومن اور نہ ماننے والے کافر وغیر مسلم کہلاتے ہیں، اس رکوع کی پہلی آیت میں توحید کی عقلی دلیل مذکور ہے، اور دوسری آیت میں نفلی دلیل بیان فرمائی گئی ہے اس کے بعد کی آیت میں کفار کے کچھ شبہات کا جواب ہے۔ معارف و مسائل توحید کی طرف دعوت تمام انبیاء کا وظیفہ رہا ہے دوسری آیت میں جو نقلی دلیل توحید کی پیش کی گئی ہے، تشریح اس کی یہ ہے کہ جس بات پر بہت سے انسان متفق ہوں، خصوصاً جبکہ وہ مختلف ملکوں کے باشندے اور مختلف زمانوں میں پیدا ہوئے ہوں، اور درمیان میں سینکڑوں ہزاروں برس کا فاصلہ، اور ایک کی بات دوسرے تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں، اس کے باوجود جو اٹھتا ہے وہی ایک بات کہتا ہے جو پہلے لوگوں نے کہی تھی، اور سب کے سب ایک ہی بات اور ایک ہی عقیدہ کے پابند ہوتے ہیں تو فطرت اس کے قبول کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کی توحید کا مضمون انسانوں میں سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) لے کر آئے اور ان کے بعد ان کی اولاد میں تو مسلسل اس بات کا چلنا کچھ بعید نہ تھا، لیکن زمانہ دراز گزر جانے اور اولاد آدم کے وہ تمام طریقے بدل جانے کے بعد پھر حضرت نوح (علیہ السلام) آتے ہیں، اس چیز کی دعوت دیتے ہیں جس کی طرف آدم (علیہ السلام) نے لوگوں کو بلایا تھا ان کے زمانہ دراز گزرنے کے بعد ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) ملک عراق و شام میں پیدا ہوتے ہیں، اور ٹھیک وہی دعوت لے کر اٹھتے ہیں، پھر موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اور ان کے سلسلہ کے انبیاء آتے ہیں، اور سب کے سب وہی ایک کلمہ توحید بولتے ہیں اور وہی دعوت دیتے ہیں، ان پر زمانہ دراز گزر جانے کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) وہی دعوت لے کر اٹھتے ہیں، اور آخر میں سید الانبیاء سیدنا محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی دعوت لے کر تشریف لاتے ہیں۔ اب اگر ایک خالی الذہن انسان جس کو اسلام اور توحید کی دعوت سے کوئی بغض اور بیر نہ ہو سادگی کے ساتھ ذرا اس سلسلہ پر نظر ڈالے کہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء (علیہم السلام) مختلف زمانوں میں مختلف زبانوں میں، مختلف ملکوں میں پیدا ہوئے، اور سب کے سب یہی کہتے اور بتلاتے چلے آئے، اکثر ایک کو دوسرے کے ساتھ ملنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا، زمانہ تصنیف و تالیف اور کتابت کا بھی نہ تھا، کہ ایک پیغمبر کو دوسرے پیغمبر کی کتابیں اور تحریریں مل جاتی ہوں، ان کو دیکھ کر وہ اس دعوت کو اپنا لیتے ہوں، بلکہ انہی میں ہر ایک دوسرے سے بہت قرنوں کے بعد پیدا ہوتا ہے، اس کو اسباب دنیا کے تحت پچھلے انبیاء کی کوئی خبر نہیں ہوتی، البتہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی پاکر ان سب کے حالات و کیفیات سے مطلع ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اس کو اس دعوت کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے۔ اب کوئی آدمی ذرا سا انصاف کے ساتھ غور کرے کہ اگر ایک لاکھ چوبیس ہزار انسان مختلف زمانوں میں اور مختلف ملکوں میں ایک ہی بات کو بیان کریں تو قطع نظر اس سے کہ بیان کرنے والے ثقہ اور معتبر لوگ ہیں یا نہیں، اتنی عظیم الشان جماعت کا ایک ہی بات پر متفق ہونا ایک انسان کے لئے اس بات کی تصدیق کے واسطے کافی ہوجاتا ہے اور جب انبیاء (علیہم السلام) کی ذاتی خصوصیات اور ان کے صدق و عدل کے انتہائی بلند معیار پر نظر ڈالی جائے تو ایک انسان یہ یقین کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان کا کلمہ صحیح اور ان کی دعوت حق اور فلاح دنیا و آخرت ہے۔ شروع کی دو آیتوں میں جو مضمون توحید کا ارشاد فرمایا گیا ہے اس کے متعلق حدیث کی روایات میں ہے کہ بعض نصاری آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے ان سے مذہبی گفتگو جاری ہوئی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ جل شانہ کی توحید کے ثبوت میں یہی دو دلیلیں باذن خدا وندی پیش فرمائی جن سے نصاری لاجواب ہوئے۔ اس کے بعد تیسری اور چوتھی آیت میں بھی اسی مضمون توحید کی تکمیل ہے تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم محیط کا بیان ہے جس سے کسی جہان کا کوئی ذرہ چھپا ہوا نہیں۔ اور چوتھی آیت میں اس کی قدرت کاملہ اور قادر مطلق ہونے کا بیان ہے کہ اس نے انسان کو بطن مادر کے تین اندھیریوں میں کیسی حکمت بالغہ کے ساتھ بنایا، اور ان کی صورتوں اور رنگوں میں وہ صنعتکاری فرمائی کہ اربوں انسانوں میں ایک کی صورت دوسرے سے ایسی نہیں ملتی کہ امتیاز نہ رہے، اس علم محیط اور قدرت کاملہ کا عقلی تقاضا یہ ہے کہ عبادت صرف اسی کی کی جائے اس کے سوا سب کے سب علم وقدرت میں یہ مقام نہیں رکھتے اس لئے وہ لائق عبادت نہیں۔ اس طرح توحید کے اثبات کے لئے حق تعالیٰ شانہ کی چار اہم صفات ان چار آیتوں میں آگئیں پہلی اور دوسری آیت میں صفات حیات ازلی و ابدی اور قیامیت کا بیان ہوا تیسری سے چھٹی آیت تک علم محیط اور قدرت کاملہ مطلقہ کا اس سے ثابت ہوا کہ جو ذات ان چار صفات کی جامع ہو وہی عبادت کے لائق ہے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن نام : اس سورت میں ایک مقام”آلِ عمران“ کا ذکر آیا ہے ۔ اسی کو علامت کے طور پر اس کا نام قرار دے دیا گیا ہے ۔ زمانہ نزول اور اجزائے مضمون : اس میں چار تقریریں شامل ہیں : پہلی تقریر آغاز سورت سے چوتھے رکوع کی ابتدائی دو آیتوں تک ہے اور وہ غالباً جنگ بدر کے بعد قریبی زمانے ہی میں نازل ہوئی ہے ۔ دوسری تقریر آیت اِنَّ اللہَ اصْطَفیٰٓ اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰھَیْمَ وَ اٰلَ عِمْرَانَ عَلَے العٰلَمِیْنَ ( اللہ نے آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر اپنی رسالت کے کام کے لیے منتخب کیا تھا ) سے شروع ہوتی ہے اور چھٹے رکوع کے اختتام پر ختم ہوتی ہے ۔ یہ سن ۹ ہجری میں وفد نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی ۔ تیسری تقریر ساتویں رکوع کے آغاز سے لے کر بارھویں رکوع کے اختتام تک چلتی ہے اور اس کا زمانہ پہلی تقریر سے متصل ہی معلوم ہوتا ہے ۔ چوتھی تقریر تیرھویں رکوع سے ختم سورت تک جنگ احد کے بعد نازل ہوئی ہے ۔ خطاب اور مباحث : ان مختلف تقریروں کو ملا کر جو چیز ایک مسلسل مضمون بناتی ہے ، وہ مقصد و مدعا اور مرکزی مضمون کی یکسانیت ہے ۔ سورت کا خطاب خصوصیت کے ساتھ دو گروہوں کی طرف ہے: ایک اہل کتاب ( یہود و نصاریٰ ) ۔ دوسرے وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ۔ پہلے گروہ کو اسی طرز پر مزید تبلیغ کی گئی ہے ۔ جس کا سلسلہ سورہ بقرہ میں شروع کیا گیا تھا ۔ ان کی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں پر تنبیہ کرتے ہوئے انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ رسول اور یہ قرآن اسی دین کی طرف بلا رہا ہے ، جس کی دعوت شروع سے تمام انبیا دیتے چلے آئے ہیں اور جو فطرت اللہ کے مطابق ایک ہی دین حق ہے ۔ اس دین کے سیدھے رستہ سے ہٹ کر جو راہیں تم نے اختیار کی ہیں ، وہ خود ان کتابوں کی رو سے بھی صحیح نہیں ہیں ، جن کو تم کتب آسمانی تسلیم کرتے ہو ۔ لہٰذا اس صداقت کو قبول کرو جس کے صداقت ہونے سے تم خود بھی انکار نہیں کر سکتے ۔ دوسرے گروہ کو ، جواب بہترین امت ہونے کی حیثیت سے حق کا علمبردار اور دنیا کی اصلاح کا ذمہ دار بنایا جا چکا ہے ، اسی سلسلے میں مزید ہدایات دی گئی ہیں ، جو سورہ بقرہ میں شروع ہوا تھا ۔ انہیں پچھلی امتوں کے مذہبی و اخلاقی زوال کا عبرتناک نقشہ دکھا کر متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کے نقش قدم پر چلنے سے بچیں ۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ ایک مصلح جماعت ہونے کی حیثیت سے وہ کس طرح کام کریں اور ان اہل کتاب اور منافق مسلمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں ، جو خدا کے راستے میں طرح طرح سے رکاوٹیں ڈال رہے ہیں ۔ انہیں اپنی ان کمزوریوں کی اصلاح پر بھی متوجہ کیا گیا ہے ، جن کا ظہور جنگ احد کے سلسلہ میں ہو ا تھا ۔ اس طرح یہ سورت نہ صرف آپ اپنے مختلف اجزا میں مسلسل و مربوط ہے ، بلکہ سورہ بقرہ کے ساتھ بھی اس کا ایسا قریبی تعلق نظر آتا ہے کہ یہ بالکل اس کا تتمہ معلوم ہوتی ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا فطری مقام بقرہ سے متصل ہی ہے ۔ شان نزول : سورت کا تاریخی پس منظر یہ ہے : ( ١ ) سورہ بقرہ میں اس دین حق پر ایمان لانے والوں کو جن آزمائشوں اور مصائب و مشکلات سے قبل از وقت متنبہ کر دیا گیا تھا ، وہ پوری شدت کے ساتھ پیش آچکی تھیں ۔ جنگ بدر میں اگر اہل ایمان کو فتح حاصل ہوئی تھی ، لیکن یہ جنگ گویا بھڑوں کے چھتے میں پتھر مارنے کی ہم معنی تھی ۔ اس اولین مسلح مقابلے نے عرب کی ان سب طاقتوں کو چونکا دیا تھا ، جو اس نئی تحریک سے عداوت رکھتی تھیں ۔ ہر طرف طوفان کے آثار نمایاں ہو رہے تھے ، مسلمانوں پر ایک دائمی خوف اور بے اطمینانی کی حالت طاری تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مدینے کی یہ چھوٹی سی بستی ، جس نے گرد و پیش کی ساری دنیا سے لڑائی مول لے لی ہے ، صفحہ ہستی سے مٹا ڈالی جائے گی ۔ ان حالات کا مدینے کی معاشی حالت پر بھی نہایت برا اثر پڑ رہا تھا ۔ اول تو ایک چھوٹے سے قصبے میں جس کی آبادی چند سو گھروں سے زیادہ نہ تھی ، یکایک مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کے آجانے ہی سے معاشی توازن بگڑ چکا تھا ۔ اس پر مزید مصیبت اس حالت جنگ کی وجہ سے نازل ہو گئی ۔ ( ۲ ) ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف مدینہ کے یہودی قبائل کے ساتھ جو معاہدے کیے تھے ، ان لوگوں نے ان معاہدات کا ذرہ برابر پاس نہ کیا ۔ جنگ بدر کے موقع پر ان اہل کتاب کی ہمدردیاں توحید و نبوت اور کتاب و آخرت کے ماننے والے مسلمانوں کے بجائے بت پوجنے والے مشرکین کے ساتھ تھیں ۔ بدر کے بعد یہ لوگ کھلم کھلا قریش اور دوسرے قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف جوش دلا دلا کر بدلہ لینے پر اکسانے لگے ۔ خصوصاً بنی نَضِیر کے سردار کَعب بن اشرف نے تو اس سلسلے میں اپنی مخالفانہ کوششوں کو اندھی عداوت ، بلکہ کمینہ پن کی حد تک پہنچا دیا ۔ اہل مدینہ کے ساتھ ان یہودیوں کے ہمسایگی اور دوستی کے جو تعلقات صدیوں سے چلے آرہے تھے ، ان کا پاس و لحاظ بھی انہوں نے اٹھا دیا ۔ آخر کار جب ان کی شرارتیں اور عہد شکنیاں حد برداشت سے گزر گئیں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے چند مہینے بعد بنی قَینُقاع پر ، جو ان یہودیوں میں سب سے زیادہ شریر لوگ تھے ، حملہ کر دیا اور انہیں اطراف مدینہ سے نکال باہر کیا ۔ لیکن اس سے دوسرے یہودی قبائل کی آتش عناد اور زیادہ بھڑک اٹھی ۔ انہوں نے مدینے کے منافق مسلمانوں اور حجاز کے مشرک قبیلوں کے ساتھ ساز باز کر کے اسلام اور مسلمانوں کے لیے ہر طرف خطرات ہی خطرات پیدا کر دیے ، حتٰی کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے متعلق ہر وقت یہ اندیشہ رہنے لگا کہ نہ معلوم کب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملہ ہوجائے ۔ صحابہ کرام اس زمانے میں بالعموم ہتھیار بند سوتے تھے ۔ شبخون کے ڈر سے راتوں کو پہرے دیے جاتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی کہیں نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے تو صحابہ کرام گھبرا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے تھے ۔ ( ۳ ) بدر کی شکست کے بعد قریش کے دلوں میں آپ ہی انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی کہ اس پر مزید تیل یہودیوں نے چھڑکا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہی سال بعد مکے سے تین ہزار کا لشکر جرار مدینے پر حملہ آور ہو گیا اور احد کے دامن میں وہ لڑائی پیش آئی ، جو جنگ احد کے نام سے مشہور ہے ۔ اس جنگ کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہزار آدمی مدینے سے نکلے تھے ۔ مگر راستے میں سے تین سو منافق یکایک الگ ہو کر مدینے کی طرف پلٹ گئے ۔ اور جو سات سو آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ گئے تھے ، ان میں بھی منافقین کی ایک چھوٹی سی پارٹی شامل رہی ، جس نے دوران جنگ میں مسلمانوں کے درمیان فتنہ برپا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ یہ پہلا موقع تھا جب معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے اپنے گھر میں اتنے کثیر التعداد مار آستین موجود ہیں اور وہ اس طرح باہر کے دشمنوں کے ساتھ مل کر خود اپنے بھائی بندوں کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ ( ٤ ) جنگ احد میں مسلمانوں کو جو شکست ہوئی ، اس میں اگرچہ منافقین کی تدبیروں کا ایک بڑا حصہ تھا ، لیکن اس کے ساتھ مسلمانوں کی اپنی کمزوریوں کا حصہ بھی کچھ کم نہ تھا اور یہ ایک قدرتی بات تھی کہ ایک خاص طرز فکر اور نظام اخلاق پر جو جماعت ابھی تازہ تازہ ہی بنی تھی ، جس کی اخلاقی تربیت ابھی مکمل نہ ہو سکی تھی ، اور جسے اپنے عقیدہ و مسلک کی حمایت میں لڑنے کا یہ دوسرا ہی موقع پیش آیا تھا ، اس کے کام میں بعض کمزوریوں کا ظہور بھی ہوتا ۔ اس لیے یہ ضرورت پیش آئی کہ جنگ کے بعد اس جنگ کی پوری سرگزشت پر ایک مفصل تبصرہ کیا جائے اور اس میں اسلامی نقطہ نظر سے جو کمزوریاں مسلمانوں کے اندر پائی گئی تھیں ، ان میں سے ایک ایک کی نشان دہی کر کے اس کی اصلاح کے متعلق ہدایات دی جائیں ۔ اس سلسلے میں یہ بات نظر میں رکھنے کے لائق ہے کہ اس جنگ پر قرآن کا تبصرہ ان تبصروں سے کتنا مختلف ہے ، جو دنیوی جنرل اپنی لڑائیوں کے بعد کیا کرتے ہیں ۔
سورۃ آل عمران تعارف عمران حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا نام ہے اور‘‘ آل عمران ’’ کا مطلب ہے‘‘ عمران کا خاندان ’’ اس سورت کی آیات ٣٣ تا ٣٧ میں اس خاندان کا ذکر آیا ہے، اس لیے اس سورت کا نام‘‘ سورۃ آل عمران ’’ ہے۔ اس سورت کے بیشتر حصے اس دور میں نازل ہوئے ہیں جب مسلمان مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئے تھے، مگر یہاں بھی کفار کے ہاتھوں انہیں بہت سی مشکلات درپیش تھیں۔ سب سے پہلے غزوہ بدر پیش آیا جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غیر معمولی فتح عطا فرمائی، اور کفار قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔ اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے اگلے سال انہوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا، اور غزوہ احد پیش آیا، جس میں مسلمانوں کو عارضی پسپائی بھی اختیار کرنی پڑی۔ ان دونوں غزوات کا ذکر اس سورت میں آیا ہے، اور ان سے متعلق مسائل پر قیمتی ہدایات عطا فرمائی گئی ہیں۔ مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے، سورۃ بقرہ میں ان کے عقائد و اعمال کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر ہوچکا ہے، اور ضمنا عیسائیوں کا بھی تذکرہ آیا تھا۔ سورۃ آل عمران میں اصل روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہے، اور ضمنا یہودیوں کا بھی تذکرہ آیا ہے۔ عرب کے علاقے نجران میں عیسائی بڑی تعداد میں آباد تھے، ان کا ایک وفد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تھا۔ سورۃ آل عمران کا ابتدائی تقریبا آدھا حصہ انہی کے دلائل کے جواب اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی صحیح حیثیت بتانے میں صرف ہوا ہے۔ نیز اس سورت میں زکوٰۃ سود اور جہاد سے متعلق احکام بھی عطا فرمائے گئے ہیں، اور سورت کے آخرت میں دعوت دی گئی ہے کہ اس کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں پر انسان کو غور کر کے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانا چاہیے، اور ہر حاجت کے لیے اسی کو پکارنا چاہئے۔ سورۃ آل عمران مدنی ہے اور اس میں ٢٠٠ آیتیں اور ٢٠ رکوع ہیں۔
سورة نمبر ٣۔ رکوع ٢٠ ، آیات ٢٠٠، الفاظ وکلمات ٣٥٤٢۔ حروف ١٥٣٣٦۔ مقام نزول مدینہ منورہ۔ نبی کریم نے سورة بقرہ اور سورة آل عمران کو سورج اور چاند کے ساتھ تشبیہ دی ہے، فرمایا یہ دونوں سورتیں قیامت کے دن دو بادلوں کی شکل میں ظاہر ہوں گی۔ ایک جگہ آپ نے ان دونوں سورتوں کو کھلے ہوئے پھولوں سے تشبیہ دی ۔ اس سے معلو م ہوا کہ یہ دونوں سورتیں ایک دوسرے سے بہت مناسبت رکھتی ہیں۔ تعارف سورة آل عمران فتح مکہ کے بعد جب پورے جزیرۃ العرب پر اہل ایمان کی حکومت وسلطنت قائم ہوچکی تھی 9 میں نجران کے بڑے بڑے عیسائی پادریوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے کی درخواست کی تاکہ وہ اپنے عقائد کے مطابق عیسائی مذہب کی تشریح کرسکیں۔ نبی کریم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نصاریٰ یعنی عیسائی پادریوں کو آنے کی اجازت مرحمت فرمادی ۔ نجران عرب کے جنوبی علاقے یمن کی ایک بستی کا نام ہے نجران اسی طرح عیسائیوں کا مرکز تھا جس طرح موجودہ دور میں ویٹی کن یورپ میں عیسائیت کی تبلغ کا مرکز ہے ان لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بحث و مباحثہ کے لیے ساٹھ جید اور ماہر مبلغین (پادریوں) کا وفد بھیجا جو عیسائی دنیا ہی میں نہیں بلکہ بادشاہوں کے دربار میں بھی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اس وفد میں بعض ایسے زبردست اور چرب زبان مقرر بھی جن کی دھاک پوری عیسائی دنیا پہر بیٹھی ہوئی تھی۔ خاص طور پر عبدالمسیح عاقب بڑا دولت مند اور اپنی قوم کا سردار مانا جاتا تھا۔ اسی طرح ایھم السید جو رائے، تدبیر جوڑ توڑ اور ذہانت میں ایک خاص مقام اور درجہ رکھتا تھا۔ ابو حارثہ ابن علقمہ بھی عیسائیوں کا شعلہ بیان مقرر اور مشہور پادری تھا۔ غرضیکہ ساٹھ آدمیوں کا یہ وفد ایک سے ایک مقرر اور اپنی قوم کے قابل احترام لوگوں پر مشتمل تھا۔ جب یہ وفد مدینہ منورہ پہنچا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ اسلامی اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ان مہمانوں کے ساتھ اسلامی اخلاق اور اسلامی تعلیمات کے مطابق عزت واحترام کا معاملہ کیا جائے۔ چناچہ اس پورے وفد کو صحابہ کرام (رض) نے پورے آرام سے ایک جگہ ٹھہرایا۔ یہ بات ذہن میں رکھ لیجئے کہ جب یہ غیر مسلموں کا وفد آیا تھا اس وقت تک مدینہ منورہ کو حرام کا درجہ نہیں دیا گیا تھا، اس کے بعد مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ منورہ کو بھی حرم کا درجہ دے دیا گیا تو اب قیامت تک مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور پورے حرم کی حدود میں کسی بھی غیر مسلم کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جب اس وفد نے رات بھی اچھی طرح آرام کرلیا تو آپ نے اس وفد کے لوگوں کو اپنے پاس آنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ اس وفد کے لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور عیسائیت کو سچا بتانے کے لیے محتلف باتیں کیں اور بتایا کہ ہم اگر حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا ثابت کرنے کی باتیں کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ (1) حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ (2) وہ مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے (3) وہ مٹی سے پرندے بناکر جب ان کو پھونک مارتے تو وہ زندہ ہوکر اڑ جاتے تھے (4) جب وہ پیدائشی اندھوں کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ آنکھوں والے ہوجاتے تھے (5) وہ کوڑھیوں کو صحیت مند بنادیتے تھے (6) وہ لوگوں کو غیب کی خبریں بتا دیا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ (7) اس وفد نے قرآن کریم کی چند باتوں کا حوالہ دے کر کہا کہ قرآن نے بھی حضرت عیسیٰ کا کلمۃ اللہ اور روح اللہ کہا ہے (8) انہوں نے یہ بھی کہا کہ اللہ نے بھی قرآن میں جگہ جگہ یہ کہا ہے کہ ہم نے پیدا کیا۔ ہم نے یہ کام کیا، ہم نے قرآن کو نازل کیا وغیرہ ان کا کہنا تھا کہ قرآن سے بھی ثابت ہے کہ (نعوذباللہ) اللہ تنہا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ دوسرے بھی شریک ہیں۔ اس وفد کے یہ سوالات تھے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران کو نازل کیا اور عیسائی وفد کی ایک بات کا واضح دلیلوں کے ساتھ جواب دیا۔ جب اس وفد نے پانے سوالات کرلیے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جواب دیتے ہوئے پوچھا کہ 1 ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ بیٹا باپ جیسا ہوتا ہے ؟ وفد نے کہا کیوں نہیں 2 ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم جانتے ہو اللہ وہ ہے جس کو موت نہیں آتی وہ زندہ رہے گا جب کہ حضرت عیسیٰ کو موت سے ضرور واسطہ پڑے گا ؟ وفد کے لوگوں نے کہا جی ہاں ایسا ہی ہے۔ 3 ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ نے ہر چیز کو وجود دے کر اس کو اپنے دست قدرت سے تھام رکھا ہے وہ اس کا محافظ اور نگران اور رزق پہنچانے والا ہے ؟ آپ نے پوچھا ان میں سے کوئی بات بھی حضرت عیسیٰ میں تھی ؟ وفد نے کہا جی نہیں۔ 4 ۔ آپ نے فرمایا اللہ وہ ہے جس سے زمین وآسمان کی کوئی چیز پوشیدہ یا چھپی ہوئی نہیں ہے جبکہ عیسیٰ کو اللہ نے جتنا علم دیا تھا وہ اس سے زیادہ نہ جانتے تھے ؟ وفد نے اس کا بھی اقرار کیا۔ 5 ۔ آپ نے فرمایا پروردگار نے حضرت عیسیٰ کی شکل و صورت اپنی مرضی سے ماں کے پیٹ میں بنائی ؟ کہا جی ہاں 6 ۔ آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ کھانے پینے اور دوسری حاجات کا محتاج نہیں ہے ؟ وفد کے لوگوں نے کہا جی ہاں اللہ ان میں سے کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ 7 ۔ آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ حضرت مریم (رض) نے حضرت عیسیٰ کو اسی طرح نومہینے تک اپنے شکم میں رکھا جس طرح عام بچے شکم مادر میں رہتے ہیں۔ پیدا ہونے کے بعد کیا ان کو غذا نہیں دی گئی ؟ وفد نے کہا بےشک۔ 8 ۔ آپ نے آخری بات پوچھی کہ اگر حضرت عیسیٰ میں یہ باتیں تھیں جن کا تم بھی انکار نہیں کرسکتے تو یہ بتاؤ وہ اللہ تھے یا اللہ کے بندے تھے ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوالات اس قدر بھرپور تھے کہ سب کے سب لاجواب ہوکر شرمندہ سے ہوگئے تھے لیکن سچائی کو جان لینے کے باوجود انہوں نے اپنی انا کا مسئلہ بنائے رکھا اور کہا کہ ہم ان تمام باتوں پر غور کریں گے۔ سورة آل عمران میں ان کے تمام سوالات کے جوابات دیئے ہیں اور بتایا ہے کہ اگر عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا تو بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے تھے کیا نعوذ باللہ وہ بھی معبود تھے۔ مرودں کو زندہ کرنا، مٹی سے پرندے بناکر پھونک مارنے سے ان کا زندہ ہونا ، پیدائشی نابینا کو آنکھوں والا بنانا یہ سب کچھ حضرت عیسیٰ نے کرکے یہ نہیں فرمایا کہ یہ میرا کارنامہ ہے۔ بلکہ وہ فرماتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔ اس نے میری زبان میں یہ تاثیر عطا فرمائی ہے کہ جب میں پھونک مارتا ہوں یا نابینا کی آنکھوں پر کوڑھیوں کے جسم پر ہاتھ پھیرتا ہوں اور مردوں سے کہتا ہوں کہ اللہ کے حکم سے اٹھ جاؤ تو وہ زندہ اور صحت مند ہوجاتے ہیں سورة آل عمران میں اللہ نے اس کا جواب بھی دیا ہے کہ جب اللہ جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں یا حضرت عیسیٰ کو کلمتہ اللہ یا روح کہتے ہیں تو یہ سب ” آیات متشابھات “ ہیں۔ قرآن کریم کی ان ہی آیات اور الفاظ کو پکڑ کر بیٹھ جانا غلط ہے کیونکہ قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اللہ تعالیٰ کی توحید بیان فرمائی گئی ہے خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کہتے ہیں کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اسی لیے علماء نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات بعض آیات کی تشریح ہیں۔ جب عیسائی وفد کے سامنے ساری حقیقتیں کھول کر بیان کردی گئیں تب اللہ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر یہ لوگ اب بھی دین اسلام کی سچائی کو نہیں مانتے تو ان سے کہیے کہ وہ خود اور اپنے بال بچوں کو لے کر صبح کھلے میدان میں آجائیں ہم بھی اپنے آپ کو اور گھروالوں کو لے کر آجاتے ہیں پھر اللہ کی قسم کھا کر کہیں گے کہ اے اللہ ہم میں سے جو بھی جھوٹا ہے اس پر آپ کا غضب نازل ہوجائے۔ جب عیسائی وفد کو اس مباہلہ یعنی قسم کھانے کی دعوت دی گئی تو وہ بوکھلاگئے اور کہنے لگے ہم اس مسئلے پر رات کو غور کرکے جواب دیں گے لیکن وہ اس بات سے اس قدر ڈرگئے کہ بغیر بتائے راتوں رات مدینہ سے بخران کی طرف چپکے سے بھاگ گئے اور انہوں نے ” مباہلہ “ کے چیلنج کو قبول نہیں کیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس پورے وفد کو ذلت سے دوچار کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین اسلام اور صحابہ کرام (رض) کو سرخ رو فرمادیا۔ اب آپ پوری سورة آل عمران کی آیات کی تفصیل ملاحظہ کریں گے جس میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والوں کو دین اسلام کی سچائی اور عسائیت کے غلط عقیدوں کی اصلاح فرمادی ہے۔ اس سورت کے آخر میں دو غزوات (اسلامی جنگوں) کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ غزوہ بدر اور غزوہ احد یہ دونوں جنگیں وہ تھیں جن کے نتائج یعنی کفار کی بدترین شکست سے جزیرۃ العرب اور بڑی طاقتیں چونک اٹھیں اور وہ اسلام کی اس چھوٹی سی سلطنت کو جڑوبنیاد سے اکھاڑنے کی تدبیروں میں لگ گئیں اس لیے اہل ایمان کو یہودیوں، نصاریٰ ، کفار ومشرکین اور منافقین سے ہوشیار رہنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ مدینہ منورہ کے یہودیوں ، عرب کے نصاریٰ ، کفار ومشرکین کے تمام قبیلے اور آستین میں چھپے سانپ منافقین اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلام کے اس پودے کو اکھاڑنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور اللہ نے شدید مخالفتوں کے باوجود اس چھوٹے سے پودے کو ایک تناور درخت بنادیا اور آہستہ آہستہ ساری دنیا پر اسلام کی حقانیت ثابت ہوکر رہی اور انشاء اللہ اب قیامت تک اس تنا ور درخت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ ہوسکتا ہے کہ مخالفت کی تیز آندھیوں میں اس درخت کے کچھ پتے گرجائیں ۔ شاخیں ٹوٹ جائیں کھبی خزاں کا موسم آجائے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ درخت اپنی بنیادوں سے اکھڑجائے۔ کیونکہ اب ساری انسانیت کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اس دین کو اپنا لیں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں ان کے دامن اطاعت و محبت سے وابستہ ہوجائیں ۔ ذٰلک الفوذ العظیم (یہی سب سے بڑی کامیابی ہے) ۔
سورة آل عمران اس سورة مبارکہ کا نام آل عمران ہے یہ آیت 33 سے لیا گیا ہے۔ حضرت عمران حضرت مریم [ کے والد گرامی اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے نانا محترم ہیں۔ یہ سورة مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی اس کے 20 رکوع اور 200 آیات ہیں۔ سورۂ آل عمران میں توحید کے دو ایسے پہلو نمایاں کیے گئے ہیں جن میں جلالت وجبروت اور اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ زندہ اور قائم رہنابیان ہوا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ جب کچھ نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ کی ذات اس وقت بھی موجود اور قائم تھی اور جب ہر چیز فنا کے گھاٹ اتر جائے گی تو اس وقت بھی ذات کبریا قائم و دائم رہے گی۔ اس سورة کے نازل ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ نجران کا علاقہ جو شام اور مدینہ منورہ کے درمیان واقع ہے۔ وہاں سے عیسائیوں کا ایک نمائندہ وفد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام اور عیسائیت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور ساتھ ہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شامل ہیں۔ ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں اجمالی اشارے دیے گئے ہیں کہ یہ صفات عیسیٰ (علیہ السلام) اور کائنات کی کسی چیز میں نہیں پائی جاتیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ہی واحد اور معبود برحق ہے۔ وہ اپنی قدرت کاملہ سے ماں کے رحم کے اندر جس طرح اور جیسے چاہے بچہ پیدا کرتا ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اس کی خالقیت کا ایک نمونہ ہیں۔ اس کے بعد قرآن مجید کا تعارف کروایا گیا کہ یہ تورات ‘ انجیل اور ان سے پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ ربط سورة : ” الفاتحہ “ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی توحید سے اور ” البقرۃ “ کا آغاز قرآن مجید کے تعارف سے ہوا تھا۔ سورة آل عمران کی ابتداء ان دونوں مضامین سے ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اسی ذات لم یزل نے یہ کتاب حق اور سچ کے ساتھ نازل فرمائی۔ جس نے تورات اور انجیل کو نازل فرمایا۔ یہ قرآن ان کی تائید و تصدیق کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید ہدایت کا سر چشمہ ہے لیکن اس سے ہدایت پانے کے لیے چار بنیادی اصول ہیں : ١۔ قرآن مجید کو ہدایت حاصل کرنے کے لیے پڑھا جائے۔ ٢۔ قرآن مجید میں غور وخوض کیا جائے۔ ٣۔ قرآن مجید کی تشریح و توضیح کے لیے بنیادی اور مرکزی آیات کو رہنما اصول بنایا جائے۔ ٤۔ قرآن مجید پر عمل کیا جائے۔ جو شخص ان اصولوں کو چھوڑ کر قرآن مجید کی تشریح و تفسیر کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے بھٹکنے کا اندیشہ ہے۔ جس کے بارے میں اس سورة کی ابتدا میں وضاحت کردی گئی ہے کہ جن کے دلوں میں ٹیڑھ اور سوچ میں کجی ہے۔ وہ فرقہ واریت اور فتنہ پروری کے لیے بنیادی آیات کو چھوڑ کر متشابہات کو اپنے فکر کی بنیادبناتے ہیں حالانکہ متشابہات کا مفہوم اللہ تعالیٰ اور اہل علم کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ” سورة البقرۃ “ میں زیادہ تر یہودیوں کے کردار اور اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جس میں ضمنًا عیسائیوں کا ذکر ہوا تھا لیکن اس سورة مبارکہ میں خطاب کا اکثر رخ عیسائیوں کی طرف ہے جس میں ان کے عقائد ونظریات اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ان کے شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں تحویل قبلہ کے احکام کے بعد واضح کیا گیا تھا کہ مسلمانو ! تم محض پراپیگنڈہ سے خوفزدہ ہوئے جارہے ہو جب کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دشمن کے خوف، اعزہ و اقرباء کی شہادت، مال وجان کے نقصان ‘ بھوک و پیاس اور غربت و افلاس کے ساتھ بہر حال آزمانے والا ہے۔ چناچہ احد میں مسلمانوں کو ان آزمائشوں سے حقیقتاً واسطہ پڑا۔ پھر احد کے نتائج اور عارضی شکست پر تفصیلی تبصرہ کرتے ہوئے آخری اصول واضح کیا کہ دنیا میں حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہا کرتے۔ اگر تم سر بلند رہنا چاہتے ہو تو تمہیں مسلمان بن کر رہنا ہوگا۔ ” سورة البقرۃ “ کی ابتدا اور اس کے آخر میں ایمان کے بنیادی ارکان کا ذکر ہوا تھا جس بنا پر اسلام کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ سورة آل عمران میں یہ ارشاد ہوا کہ ایمان کی مبادیات کی طرح اسلام کی عمارت کے بنیادی ستون بھی ہمیشہ سے ایک رہے ہیں اور اسلام ہی اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔ یہی تمہارے لیے ضابطۂ حیات اور دستور زندگی ہے۔ جو فرد یا قوم اس کے علاوہ دوسرا راستہ تلاش کرے گی۔ اللہ تعالیٰ اس کے نظریۂ حیات اور کردار کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ اس کے بعد اہل کتاب کو مشترکہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا جس دین اور نظریات پر تم فخر اور ناز کررہے ہو۔ اس کا دور ختم ہوچکا ہے اب اسلام کا سکہ چلے گا اور تمہاری مخالفت کچھ کام نہیں آسکتی۔ کیوں کہ عزت، ذلّت، اقتدار اور اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ جسے چاہے جب چاہے عنایت فرمائے اور جب چاہے محروم کر دے۔ اس کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ اگر تم عظمت رفتہ کے خواہاں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے طلب گار ہو تو تمہیں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی قربت و محبت کا کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاندان کی بزرگی اور عظمت کا ذکر مرحلہ وار کرتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش، معجزات اور ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کی وضاحت کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں یہودیوں کے دعو ٰی کی تردید کی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نہ قتل ہوئے اور نہ ہی انہیں تختہء دار پر لٹکایا گیا انہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں آسمانوں پر صحیح سالم اٹھا لیا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں وضاحتی اور دعوتی خطاب 31 آیات تقریبًا 3 رکوع پر مشتمل ہے۔ اس تفصیلی خطاب کے بعد ایک دفعہ پھر یہود ونصارٰی کو اہل کتاب کے باعزت لقب سے مخاطب کرتے ہوئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے دعوت دی گئی ہے کہ آؤ اس کلمہ پر متفق ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان بنیاد اور قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی دعوت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تورات وانجیل کے نزول سے پہلے دیا کرتے تھے۔ یقین جانو کہ ابراہیم (علیہ السلام) یہودی، عیسائی اور مشرک نہیں تھے وہ تو ادھر ادھر اور دائیں بائیں کی نسبتوں کے بجائے صاف، سیدھے، مواحد اور کامل مسلمان تھے۔ اس کے بعد اہل کتاب کی سازشوں اور شرارتوں کا ذکر کیا اور فرمایا عیسیٰ (علیہ السلام) تو اللہ کے جلیل القدر نبی اور رسول تھے۔ اللہ تعالیٰ جس شخص کو کتاب، نبوت اور حکومت عطا کرے تو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی توحید سمجھانے اور اس کا بندہ بنانے کے بجائے اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرے۔ تم انبیاء اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذمہ شرک لگاتے ہو۔ کیا وہ اللہ تعالیٰ کو ایک ماننے کے باوجود کفر و شرک کا حکم دے سکتے تھے ؟ انبیاء کا حال تو یہ تھا کہ انہوں نے ابتدائے آفرینش اپنے رب کے حضور یہ عہد کیا تھا کہ ہم تیری توحید کا اقرار اور اس کا پرچار کرنے کے ساتھ نبی آخر الزماں، خاتم المرسلین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر اس کی تائید کریں گے۔ انبیاء کے عہد کے بعد بیت اللہ کا تذکرہ اور اسے مرکزامن و ہدایت قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ اگر اہل کتاب اور بنی نوع انسان امن وامان، رشدو ہدایت چاہتے ہیں تو انہیں توحید کا اقرار اور رسول کی اتباع کرتے ہوئے ایک ہی مرکز کو اپنا نا ہوگا۔ جس طرح سورة البقرۃ کا اختتام قرآن کے الفاظ میں مومنوں کی دعاؤں کے ساتھ ہوا ہے اسی طرح آل عمران کا اختتام مومنوں کی دعاؤں سے ہوتا ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة البقرۃ اور آل عمران کو دو نور اور الزھراوین قرار دیا ہے : (اِقْرَءُ وا الْقُرْاٰنَ فَإِنَّہٗ یَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَفِیْعًا لِاَّصْحَابِہٖ اِقْرَءُ وا الزَّھْرَاوَیْنِ الْبَقَرََۃَ وَسُوْرَۃَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّھُمَا تَأْتِیَانِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَنَّھُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ کَاَ نَّہُمَا غَیَابَتَانِ کَأَنَّھُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَیْرٍ صَوَآفَّ تُحَآجَّانِ عَنْ أَصْحَابِھِمَا اِقْرَءُ و سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ فَإِنَّ أَخْذَھَا بَرْکَۃٌ وَتَرْکَھَا حَسْرَۃٌ وَلَا یَسْتَطِیْعُھَا الْبَطَلَۃُ ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ ] ” قرآن کی تلاوت کیا کرو کیونکہ یہ روز قیامت اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی ہوگا دو روشن سورتیں البقرۃ اور آل عمران پڑھو یہ قیامت کے دن دو بدلیاں یا پرندوں کی طرح صفیں باندھے جھرمٹ کی طرح ہوں گی جو اپنے پڑھنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے تکرار کریں گی۔ سورة البقرۃ کی تلاوت کیا کرو اس کا پڑھناباعث برکت اور چھوڑنا حسرت کا سبب ہے اور جہاں یہ پڑھی جائے وہاں جادو اور جنات اثر انداز ہونے کی جرأت نہیں کرتے۔ “
سورة آل عمران ، ایک نظر میں قرآن حکیم ہی دعوت اسلامی کی کتاب ہے ، وہی اس کا باعث اور روح رواں ہے ۔ دعوت اسلامی کی شخصیت اور اس کا وجود یہی کتاب ہے ۔ اور یہی کتاب اس کی پاسبان اور ساربان ہے ۔ یہی اس کا بیان اور ترجمان ہے ۔ یہی اس کا نظام اور دستور ہے ، اس کی دعوت کا مرجع اور ماخذ یہی کتاب ، اس کے داعیوں کے لئے یہی گائیڈ ہے ۔ اسی سے دعوت اسلامی منہج حرکت وعمل اخذ کرتی ہے اور اسی سے وہ زاد راہ اور نشان منزل پاتی ہے ۔ لیکن جب تک ہم اس بات کو اچھی طرح نہ سمجھ لیں گے اس کتاب کا پہلا خطاب ایک زندہ اور متحرک امت سے تھا ۔ اس وقت تک ہمارے اور اس کتاب کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل رہے گی ۔ ہمارے ذہن میں یہ حقیقت اچھی طرح جاگزین ہونی چاہئے کہ قرآن کی مخاطب امت کا ایک حقیقی وجود تھا ۔ پھر اس خطاب کی وجہ سے اس امت نے عالم واقعہ میں بعض عملی اقدامات کئے اور ان واقعات اور اقدامات کے ذریعہ اس امت نے اس کرہ ارض پر اس وقت کی پوری انسانی زندگی کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا ۔ اس خطاب کی وجہ سے اس وقت پوری انسانیت کی نفسیاتی دنیا میں زبردست معرکہ برپا ہوا۔ اس نظریاتی جنگ کے علاوہ اس کرہ ارض کے بعض حصوں میں عملاً معرکے بھی ہوئے ۔ یہ ایسے معرکے تھے کہ جن کے عمل اور رد عمل کی وجہ سے دنیا متاثر ہوئی ۔ اثرات ڈالے اور ایک طوفان برپا ہوا۔ جب تک اس کتاب کے ساتھ ہمارا رویہ یہ ہوگا کہ ہم صرف خوش الحانی کے ساتھ اس کی تلاوت کریں ۔ اسے سنیں ، اس پر جھومیں اور اسے صرف برائے حصول ثواب اس کے ختم کرائیں ۔ لیکن اس کے علاوہ انسان کی عملی زندگی کے ساتھ اس کا کوئی عمل دخل نہ ہو ، تو حقیقت یہی رہے گی کہ ہمارے اور اس قرآن کے درمیان ایک دبیز پردہ حائل رہے گا ۔ اور اس وقت صورت حالات یہی ہے کہ اس مخلوق یعنی حضرت انسان کی عملی زندگی سے اس کتاب کو نکالا گیا ہے ۔ بلکہ امت مسلمہ کی عملی زندگی بھی قرآن کے تابع نہیں ہے ۔ حالانکہ اس کتاب کا نزول تو ان حالات میں ہوا تھا کہ زندہ انسانوں کو ہدایت دے رہی تھی ۔ وہ عملی واقعات کا رخ پھیر رہی تھی ۔ وہ زندہ حادثات میں ہدایت تھی ، ان واقعات کا ایک مستقل تاریخی وجود تھا اور وہ زندہ تھے ۔ اس نے انسانوں کی کا یا پلٹ دی ۔ ان واقعات کا رخ پھیر دیا ۔ اس کے نتیجے میں وہ ایک زندہ موجودہ معاشرہ وجود میں آیا۔ عام انسانی زندگی میں وہ ممتاز خصوصیات کا حامل تھا ۔ لیکن امت مسلمہ کے حوالے سے تو اس وقت کی واقعاتی دنیا خصوصی اہمیت رکھتی تھی۔ اس کتاب کا تو اعجاز ہی یہ ہے کہ اس کا نزول ، اس کی ہر آیت کا نزول ہی ، ایک متعین واقعہ اور ایک متعین صورت حالات میں ہوا ‘ ایک متعین اور زندہ سوسائٹی میں وہ نازل ہوا اور انسانی تاریخ کے ایک متعین پیریڈ میں وہ نازل ہوا۔ لیکن اس تاریخی رول کے ساتھ ساتھ اس کا یہ اعجاز اب بھی قائم ہے کہ وہ اب بھی ایک زندہ کتاب ہے ۔ اس میں اب بھی یہ صلاحیت ہے ۔ جو انسان کی موجودہ زندگی کا سامنا کرلے ۔ بلکہ اس پر غور کیا جائے تو وہ یوں نظر آتی ہے کہ گویا اب بھی وہ امت مسلمہ کو اس کی جاری وساری زندگی میں ہدایات دے رہی ہے ۔ اس وقت امت مسلمہ کو اس کے اردگرد پھیلی ہوئی جاہلیت کے ساتھ ساتھ جو معرکہ درپیش ہے ۔ اس میں وہ مسلسل اسے ہدایات دے رہی ہے ۔ خود امت مسلمہ کی ذہنیت اور اس کے ضمیر کے اندر جو داخلی کشمکش برپا ہے ۔ اس میں بھی وہ ہادی ورہبر ہے ۔ اور یہ راہنمائی اس طرح ایک زندہ راہنمائی ہے جس طرح دور اول میں تھی ‘ اسی طرح واقعاتی راہنمائی جس طرح ہوا کرتی تھی ۔ ہم کیونکر اس قرآن کی عملیت اور فعالیت کو دریافت کرسکتے ہیں ؟ اس کی پوشیدہ زندگی کا راز ہم کس طرح معلوم کرسکتے ہیں تاکہ اسے ہم دور حاضر میں اپنی زندگی کا راہنما بنالیں اور وہ جماعت مسلمہ کا گائیڈ اور راہنمابن جائے ۔ اس مقصد کے لئے ہمیں اس جماعت کی زندگی کی تشکیل کا تفصیلی مطالعہ کرنا ہوگا۔ جس کو اس قرآن سے سب سے پہلے خطاب کیا ۔ ایسا مطالعہ کہ ہماری نظروں میں گویا اسکرین پر وہ جماعت تشکیل پارہی ہے ‘ وہ درپیش واقعات وحادثات میں زندہ اور متحرک ہے ۔ وہ مدینہ اور پورے جزیرۃ العرب میں واقعات و حوادث کا مقابلہ کررہی ہے ۔ وہ دشمنوں کے ساتھ بھی برت رہی ہے اور دوستوں کے ساتھ بھی رواں دواں ہے ۔ وہ اپنی خواہشات نفس کے ساتھ بھی برسرپیکار ہے اور اپنے اردگرد پھیلی ہوئی جاہلی سوسائٹی کے ساتھ بھی برسر جنگ ہے اور اس پورے عرصے میں قرآن مسلسل نازل ہورہا ہے ۔ اور ان سب واقعات کے بالمقابل جن میں وہ اس جماعت کی راہنمائی اس کشمکش کے حوالے سے بھی کررہا ہے ‘ جو خود اس کے پہلو میں اپنے نفس کے ساتھ جاری ہے اور اس معرکے میں بھی کررہا ہے جو اس جماعت کو اپنے ظاہری دشمنوں کے ساتھ ‘ مکہ ان کے ارد گرد ‘ مدینہ کے ماحول میں اور پورے جزیرۃ العرب میں درپیش ہے ۔ ہاں ! ہمارے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ ہم کچھ عرصہ اس پہلی جماعت اسلامی کے ساتھ زندہ رہیں ۔ اپنے ذہن کی اسکرین پر اسے اس کے حقیقی انسانی روپ میں دیکھیں۔ اس کی زندگی کے واقعات کو چلتا پھرتا دیکھیں بحیثیت انسانی اس کی مشکلات پر غور کریں ‘ اور پھر دیکھیں کہ یہ قرآن اس کی راہنمائی کس طرح براہ راست کررہا ہے ۔ اس کی روز مرہ زندگی میں بھی وہ اس کے لئے گائیڈ ہے۔ اس کے اصولی معاملات میں بھی وہ راہنما ہے ۔ ہمیں اس اسکرین پر نظر آئے گا کہ قرآن مجید نے اس جماعت کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے ۔ قدم قدم پر اس کے ساتھ ہے ۔ وہ کبھی گرتی ہے اور پھر اٹھتی ہے ۔ کبھی راستہ کھودیتی ہے تو فوراً پھر جادہ مستقیم پر آجاتی ہے ۔ کبھی کمزور پڑجاتی ہے تو فوراً کھڑی ہوجاتی ہے ۔ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں تو صابر وشاکر ہے ۔ وہ مشکلات سے پر دشوار گزار گھاٹیوں کو بڑی مشقت سے عبور کرتی چلی جاتی ہے ۔ وہ بڑے نظم وضبط ‘ صبر ومشقت کے ساتھ اور جدوجہد کے ساتھ مشکلات پر قابو پاتی ہے ۔ اس اسکرین پر صاف نظر آتا ہے کہ اس جماعت میں تمام انسانی خصوصیات موجود ہیں ۔ اس میں انسانی ضعف درماندگی بھی ہے اور اس میں ہمت و مردانگی بھی ہے ۔ اس پہلی جماعت اسلامی کے ساتھ قدرے زندگی بسر کرنے کے بعد ہی ہم یہ شعور پیدا کرسکتے ہیں کہ یہ کتاب تو ہمیں بھی بعینہٖ اس طرح خطاب کررہی ہے جس طرح اس نے پہلی جماعت مسلمہ کو خطاب کیا تھا۔ اور یہ کہ آج کی انسانیت جسے ہم دیکھتے ہیں ۔ جسے ہم اچھی طرح جانتے ہیں ۔ جسے ہم اس کی پوری خصوصیات کے ساتھ محسوس کررہے ہیں ۔ یہ دعوت قرآن پر لبیک کہنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ یہ بعینہٖ پہلی جماعت کی طرح قرآنی قیادت اور قرآنی راہنمائی سے مستفید ہوسکتی ہے۔ اس جماعت مسلمہ کی زندگی پڑھ کر محسوس کریں گے یہ قرآن تو آج بھی ایک زندہ کتاب ہے ۔ وہ ہمیں اس جماعت کی زندگی میں فعال نظر آئے گی ۔ اور آج کے دور میں وہ ہماری زندگی میں فعال ہوسکتی ہے ۔ یوں ہم محسوس کریں گے کہ یہ کتاب آج بھی ہمارے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور کل بھی ہمارے ساتھ ہوگی اور یہ کہ یہ محض برائے ثواب تلاوت ہی کے لئے نہیں ہے ۔ صرف جھومنے کے لئے نہیں ہے ۔ اسے ہماری عملی زندگی سے دور نہیں رکھاجاسکتا ‘ نہ یہ ہماری کوئی ایسی تاریخ ہے ‘ جو گزر گئی اور اس کے صفحات الٹ کر رکھ دئیے گئے ۔ اب عملی میدان کے ساتھ اس کو کوئی سروکار نہیں ۔ اب جدید تاریخ میں اس کا کیا کام ۔ قرآن کریم ایک ایسی حقیقت ہے ‘ ایک ایسا وجود ہے جس طرح یہ کائنات ایک مستقل وجود رکھتی ہے ‘ یہ کائنات اللہ کی وہ کتاب ہے جسے ہم دیکھتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں اور قرآن اللہ کی وہ کتاب ہے جسے ہم پڑھتے ہیں اور اس پر تدبیر کرتے ہیں ۔ جس طرح کتاب کائنات وجود باری پر شاہد ہے ‘ اسی طرح قرآن کریم بھی اپنی شان اعجاز کے ساتھ ذات باری پر شہادت ہے ۔ اور یہ دونوں وجود یہاں جاری وساری ہیں ۔ یہ کائنات اپنے تمام قوانین قدرت اور نوامیس فطرت کے ساتھ متحرک ہے ۔ اس کے خالق نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے وہ اسے پورا کررہی ہے ۔ سورج اپنے مدار میں متحرک ہے اور اپنا فریضہ سر انجام دے رہا ہے ۔ چاند ‘ زمین اور تمام دوسرے ستارے اور سیارے اپنااپنا فرض منصبی ادا کررہے ہیں ۔ زمانے کی دوری اور طوالت کا ان فرائض منصبی پر کوئی اثر نہیں ہے۔ نہ زمانے کی جدت نے اس کی کسی حرکت کو جدت دی ہے ............. بعینہٖ اسی طرح قران کریم نے بھی ایک دفعہ انسانیت کی راہنمائی میں ایک بہترین کردار ادا کیا۔ وہ آج بھی اسی طرح موجود ہے ‘ جس طرح تھا۔ انسانیت آج بھی اسی طرح ہے جس طرح تھی ۔ اور یہ انسان اسی طرح اپنی حقیقت اور فطرت پر قائم رہے گا ۔ اور یہ قرآن مجید اسی انسان کو اللہ کی جانب سے پکار ہے ۔ جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو پکارا ‘ اس پکار میں کوئی تغیر نہیں ہے ۔ اس لئے کہ خود ذات انسانی اور فطرت انسانی میں کوئی تغیر نہیں ہوا ہے ۔ اگرچہ اس کے ماحول اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی دنیا میں تغیر اور تبدیلی واقعہ ہوگئی ہے۔ اور وہ خود بھی ان جدید حالات اور واقعات سے متاثر ہوا ہے ۔ جبکہ قرآن مجید اسے اس کی اصل فطرت اور اس کی اصل حقیقت کو سامنے رکھ کر خطاب کرتا ہے ۔ جس میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے ۔ نہ کوئی تغیر ہوا ہے ۔ قرآن مجید آج بھی انسان کی زندگی کا رخ پھیر سکتا ہے اور کل بھی پھیر سکتا ہے ‘ اس لئے کہ وہ اس راہنمائی کے لئے ہر وقت تیار ہے ۔ اس لئے کہ وہ انسانیت کے خداوند قدوس کا آخری خطاب اور آخری پیغام ہے ۔ اس کا مزاج اس طرح فطری ہے جس طرح اس کائنات کا مزاج ایک فطرت پر ہے ۔ جس میں کوئی تغیر اور کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ ذراسوچئے یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہوگی کہ کوئی سورج کے بارے میں یہ کہے کہ یہ تو ایک قدیم ستارہ ہے ۔ یہ ” قدامت پرست “ ہے ۔ مناسب ہے کہ اسی سورج کی جگہ ایک جدید ترقی پذیر سورج ہو یا یہ کہ یہ انسان تو ایک قدیم مخلوق ہے ۔ یہ قدیم اور رجعت پسند ہے۔ مناسب ہے کہ اسی انسان کی جگہ ایک نیا انسان ہو ‘ جو اس نئی دنیا کی تعمیر و ترقی میں کام کرے .......... اگر اس قسم کی بات اور اس قسم کے منصوبے مضحکہ خیز ہوسکتے ہیں ۔ تو یہی بات قرآن کریم کے بارے میں کہی جاسکتی ہے ۔ جو اپنی حیثیت پر اسی طرح قائم ہے ۔ اور اس کا مقام یہ ہے کہ وہ انسان کے لئے رب کا آخری پیغام ہے ۔ مدینہ طیبہ میں اسلامی جماعت کے حالات میں اس سورت میں ‘ ایک زندہ تابندہ حصہ پیش کیا گیا ہے ۔ یعنی ٢ ھ میں غزوہ بدر کے متصلاً بعد اور ٣ ھ میں غزوہ احد کے بعد تک اس دور میں امت مسلمہ جن حالات سے دوچار ہوئی ۔ ان حالات میں قرآن کریم نے کیا کیا ہدایات دیں۔ کیا کیا تصرفات کئے اور جماعتی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں جو کام اس میں ذکر ہے۔ ان کا بیان ایسے شوکت اور قوت سے بھرپورالفاظ میں کیا گیا ہے کہ اسی دور کے پورے حالات جن سے تحریک اسلامی گزر رہی تھی ‘ ان کی ایک مکمل تصویر کھچ گئی ہے ۔ ان حالات میں جو جھڑپیں ہوئیں ۔ جیسے حالات میں ہوئیں ‘ ان کا نقشہ سامنے آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا سورت کا قاری زندہ طور پر ان حالات میں چل پھر رہا ہے ‘ وہ اس تحریک میں ہے جو ان معرکوں میں حصہ لے رہی تھی ۔ اور جوان کا مقابلہ کررہی تھی ۔ انداز بیان ایسا ہے کہ لوگوں کے دلی راز دلی پوشیدہ جذبات ‘ دلی وساوس اور تفکرات اور ایسے حالات میں انسانی جذبات اور میلانات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے ۔ اگر انسان تھوڑی دیر کے لئے آنکھیں بند کرلے تو جس طرح میں دیکھ رہا ہوں ‘ اس طرح اسے بھی اپنے پردہ خیال پر یہ جماعت مسلمہ یوں چلتی پھرتی نظر آئے جس طرح گویا وہ زندہ نظر آرہی ہو ‘ تمام چہرے اپنے خدوخال کے ساتھ صاف نظر آئیں ‘ ان کے چہروں پر ان کے قلبی میلانات بھی صاف نظر آئیں ۔ اس جماعت کے اردگرد دشمن بھی صاف نظر آئیں ۔ جو ان کے خلاف گھات میں بیٹھے ہیں ‘ ان کے خلاف حملے کی تیاریاں کررہے ہیں ۔ اس جماعت کے اندر وہ شبہات اور غلط فہمیاں پیدا کررہے ہیں ‘ اس کو حقارت اور دشمنی کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اب اس کے خلاف جمع ہورہے ہیں اور اب میدان میں آپہنچے ‘ وہ غرض اس معرکہ کی تمام حرکات و سکنات ‘ اس کے تمام باطنی اثرات اور ظاہری اثرات اور ظاہری تاثر صاف صاف پردہ خیال پر نظر آتے ہیں ۔ اس منظر میں قرآن کریم کا نزول ہورہا ہے ‘ تاکہ کفار کے مکروفریب کا حال پاش پاش کردے ۔ ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کو زائل کردے ‘ مسلمانوں کے دلوں کو جمع اور ان کے قدموں کو پختگی عطاکرے ۔ ان کی روح کو پاک اور ان کے افکار کو صاف کردے ۔ حالات پر تبصرہ کرے اور غلطیوں سے عبرت سکھائے ۔ ان کے افکار کی تعمیر کرے اور ان میں سے آمیزش کو پاک کرے ‘ ان کو آگاہ کرے کہ ان کا دشمن غدار اور امور جنگ میں سخت مکار ہے اور تاکہ وہ اس وادی پرخار میں ‘ تحریک اسلامی کو تمام پھندوں اور کیموفلاج سے بچاتے ہوئے آگے بڑھائے ‘ یوں جس طرح ایک ماہر تجربہ کار جرنیل اور اپنی فوج کو ظاہری اور چھپی ہوئی کمزوریوں سے باخبر جرنیل قیادت کرتا ہے۔ اس تاریخی پس منظر میں کے باوجود ‘ اس سورت میں قرآن مجید جو ہدایات اور احکامات دیتا ہے ‘ وہ بالکل عام ‘ دائمی اور زمان ومکان کے قیود وحدود سے پاک ہیں ۔ نہ ان میں اس دور کا کوئی رنگ نظر آتا ہے اور نہ اس ماحول کی کوئی جھلک نظر آتی ہے ‘ ان ہدایات کا رخ پوری انسانیت اور ہر دور کی جماعت مسلمہ کی طرف ہے ۔ آج کی جماعت ہو یا مستقبل کی جماعت ہو ‘ بلکہ ان ہدایات کا مخاطب پوری انسانیت ہے ۔ یوں نظر آتا ہے کہ شاید یہ آیت آج نازل ہورہی ہیں اور آج کی جماعت مسلمہ کو آج کے مسائل میں ہدایات دی جارہی ہیں ۔ اور موجودہ صورتحال پر تبصرہ کررہی ہیں ۔ یہ اس لئے کہ ان آیات میں ایسے امور پر بحث کی گئی اور ایسے واقعات اور ایسے جذبات کا ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق وجدان کے ساتھ ہے ‘ جس کا تعلق انسان کی نفسیات سے ہے ‘ گویا اس وقت ایسے ہی حالات پیش نظر تھے اور اس سورت میں ان کا ذکر ہے ........ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صورتحال کچھ ایسی ہی تھی اور اللہ تعالیٰ جو علیم وخبیر ہے ‘ نفس انسانی ‘ اور انسانی اور تمام اشیاء کی حقیقت کا علم رکھتا ہے وہ ہمیشہ کے واقعات اور حالات کے بارے میں خوب جانتا ہے۔ اس لئے صاف نظر آتا ہے کہ یہ قرآن دعوت اسلامی کا قرآن ‘ چاہے یہ دعوت جس دور میں ہو ‘ اور جس جگہ بھی ہو ‘ وہ اپنے ایک مستقل وطن میں جم گئی تھی ۔ مسلمان مدینۃ الرسول میں حکومت قائم کرچکے تھے ۔ اور جس طرح ہم نے سورة البقرہ کی ابتداء میں تفصیل سے بتایا ‘ مسلمانوں نے مدینہ میں اپنے پروگرام کے مطابق اقدامات شروع کردئیے تھے ۔ یہ سورت اس دور میں نازل ہوئی جس میں مدینہ کے اندر تحریک اسلامی کو کسی قدر قرار و سکون مل گیا تھا ‘ وہ اپنے ایک مستقل وطن میں جم گئی تھی ۔ مسلمان مدینہ الرسول میں حکومت قائم کرچکے تھے ۔ اور جس طرح ہم نے سورة البقرہ کی ابتداء میں تفصیل سے بتایا ‘ مسلمانوں نے مدینہ میں اپنے پروگرام کے مطابق اقدامات شروع کردئیے تھے ۔ اس دور میں بدر کی عظیم جنگ وقوع پذیر ہوگئی تھی ۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے قریش پر مسلمانوں کو فتح دی تھی ۔ جن حالات میں یہ ٹکر ہوئی تھی اور جس ماحول میں مسلمانوں کو یہ غلبہ نصیب ہوا تھا ‘ ان میں یہ عظیم کامیابی ایک معجزے سے کم نہ تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ خزرج قبیلے کے رئیس وقت عبداللہ بن ابی ابن السلول کے دانت بھی کھٹے ہوگئے ۔ اس کا غرور ٹوٹا اور وہ دین اسلام سے جس قدر نفرت کرتا تھا ‘ اس نفرت میں قدرے کمی آئی ‘ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ جو بغض رکھتا تھا ‘ اس میں قدرے کمی ہوئی ‘ چناچہ اس نے اب اپنی ظاہری نفرتوں کو دل میں چھپالیا۔ اور ایک منافق کی حیثیت سے اسلام میں داخل ہوگیا ۔ وہ کہتا تھا :” یہ ایک ایسی تحریک ہے جو مقبول ہورہی ہے ۔ “ اور وہ ایک پڑگئی ‘ اب اس تحریک کی راہ کوئی نہیں روک سکتا ۔ بدرالکبریٰ کے بعد مدینہ طیبہ میں نفاق کی بنیاد پڑگئی ۔ یا منافقت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ۔ اس لئے کہ بدر سے پہلے بھی بعض ایسے لوگ تھے ‘ جو منافق تھے اور وہ اسلام میں محض اس لئے داخل ہوگئے تھے کہ ان کے اہالی وموالی سب اسلام میں داخل ہوگئے تھے ۔ بہرحال اس وقت ایک گروہ ایسا پیدا ہوگیا تھا ‘ جن میں بعض بااثر لوگ بھی شامل تھے ۔ جو بظاہر اسلام میں داخل ہونے پر مجبور ہوگیا تھا ‘ یہ ان کی مجبوری تھی کہ وہ مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوجائیں۔ حالانکہ ان کے دل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض وعداوت سے بھرے ہوئے تھے ‘ وہ اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہو ۔ وہ ہر وقت اس تلاش میں رہتے تھے کہ اہل اسلام کے اندر انہیں کوئی سوراخ ملے ‘ وہ ایسے واقعات کے انتظار میں تھے ۔ جس سے اہل اسلام کی قوت منتشر ہو اور ان کے صفوں میں انتشار پیدا ہو تاکہ انہیں اپنے دلی بغض اور حسد کے اظہار کا موقع ملے اور وہ اس نئی تحریک پر فیصلہ کن وار کرسکیں اگر ممکن ہوسکے ان منافقین کو ایک قدرتی عنصر ایسا مل گیا تھا ‘ جو اس کام میں ان کا قدرتی حلیف تھا ‘ یعنی اہل یہود ‘ جن کے دل بھی تحریک اسلامی اور مسلمانوں کے خلاف جل بھن گئے تھے ۔ ان کو ان منافقین سے بھی ‘ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ زیادہ نفرت تھی ۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ عرب کی جاہل اقوام میں ان کی جو قدرومنزلت ‘ اہل کتاب ہونے کے ناطے تھی ‘ اس میں تحریک اسلامی کی وجہ سے کمی آنے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا تھا ۔ نیز وہ اوس و خزرج کا باہم لڑا کر مدینہ میں اپنی برتری قائم کئے ہوئے تھے ‘ وہ اس سے قبل اسلام نے ختم کردی تھی ‘ جبکہ اوس اور خزرج اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن چکے تھے اور اسلام کے سایہ میں وہ ایک ہی صف میں بنیان مرصوص کی شکل میں کھڑے تھے ۔ جب بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی ‘ یہ یہودی جل بھن گئے ‘ ان کے دلوں کے بغض وعناد میں ابال آگیا۔ اس لئے اس سے جس قدر ممکن تھا ‘ اسلام کے خلاف انہوں نے خفیہ سازشیں ‘ مکاری اور فریب کاری شروع کردی ۔ وہ ہر وقت اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہو ‘ مسلمانوں کے اندر حیرانی و پریشانی پیداہو ‘ ان کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوں ‘ ان کے عقائد میں شبہات پیدا ہوں اور خود ان کے نفوس میں شک کا بیج بودیا جائے ۔ ان ہی دنوں غزوہ بنی قینقاع واقعہ ہوا ‘ جس میں یہودیوں کی اسلام دشمنی کھل کر سامنے آگئی ۔ حالانکہ یہودی قبائل اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان معاہدے پختہ ہوچکے تھے ۔ مدینہ تشریف لاتے ہی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ یہ معاہدے کئے تھے ۔ ادہر مشرکین کی حالت یہ تھی کہ وہ بدر الکبریٰ کی کامیابی سے سخت خوفزدہ تھے ۔ وہ رات دن حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدنی محاذ کی کامیابی پر سوچتے رہتے تھے ۔ اس کامیابی سے ان کی تجارت ‘ ان کے وقار اور حتیٰ کہ ان کے لیے وجود کے خطرات پیدا ہوگئے تھے اس سے وہ بےفکر نہ تھے ۔ اس لئے وہ بھی اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاریاں کررہے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ قبل اس کے کہ یہ خطرہ ناقابل علاج ہوجائے اس کا تدارک ضروری ہے ۔ ان حالات میں صورتحال یہ تھی کہ مسلمانوں کے دشمنوں کے جذبات دشمنی جوبن پر تھے ۔ ان کی قوت میں بھی جوش و خروش تھا ‘ ان کے جذبات بغض وعناد اپنے شباب میں تھے ۔ لیکن مسلمانوں کی تنظیم بہرحال اپنے ابتدائی مراحل میں تھی ۔ اس کی تربیت اور ان کا نظم ونسق ابھی تک مکمل نہ تھا ۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو مہاجرین وانصار میں ممتاز اور تجربہ کار لوگ تھے ۔ جو اسلام میں بہت ہی آگے تھے ۔ لیکن ایسے بھی تھے ‘ جو ان سابقین مہاجرین وانصار کی طرح پختہ کار اور اسلام میں زیادہ پختگی نہ رکھتے تھے ۔ نیز اسلامی جماعت ابھی تک بہت زیادہ تجربات سے دوچار نہیں ہوئی تھی ۔ جس سے اس کی ناہمواریاں دور ہوجاتیں ۔ ان پر دعوت اسلامی کی حقیقت اچھی طرح طاہر ہوجاتی ۔ زمانے کے نشیب و فراز سے وہ واقف ہوجاتے اور تحریک اسلامی کی حکمت علمی اور نظام کار سے اچھی طرح واقف ہوتے۔ اس وقت منافقین کو مدینہ میں اہم مقام حاصل تھا ۔ ان کا سربراہ عبداللہ بن ابی تھا۔ ان منافقین کے خاندان اور قبائلی رابطے ابھی تک قائم تھے ‘ مسلمانوں پر ابھی تک یہ حقیقت نہ کھلی تھی کہ صرف اسلامی نظریہ حیات ہی ان کا خاندان ہے ۔ یہی ان کا قبیلہ ہے ‘ یہی ان کا مددگار ہے اور اس کے سوا کوئی قوت ان کی قوت نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان منافقین کے نفوذ کی وجہ سے اسلامی صفوں میں جابجا کمزوریاں تھیں ‘ اس لئے منافقین اہل اسلام میں ابھی تک اثر ورسوخ بھی رکھتے تھے اور ان میں اچھی طرح گھل مل گئے تھے ۔ (غزوہ احد کے بارے میں آیات کی تشریح کے وقت انشاء اللہ اس نکتے کی وضاحت ہوگی) اسی طرح اہل یہود کا بھی مدینہ کی سوسائٹی میں اہم مقام تھا ۔ اہل مدینہ کے ساتھ ان کے صدیوں پرانے تجارتی اور حلیفانہ تعلقات تھے ۔ اور ابھی تک ان کی دشمنی بھی کھل کر سامنے نہ آئی تھی ۔ اور اہل اسلام کے دلوں کے اندر بھی تک یہ بات پختہ طور پر نہ بیٹھی تھی کہ ان کے لئے صرف ان کا نظریہ حیات ہی عہد ومیثاق ہے ۔ نظریہ ہی ان کا وطن ہے ۔ نظریہ ہی ان کے معاملات اور معاہدوں کی اصلی اساس ہے ۔ اس لئے جب مسئلہ نظریات کا آجائے ‘ تو اس وقت کوئی معاہدہ یا کوئی پختہ رابطہ بھی کام نہیں دیتا ۔ ان حالات میں یہودیوں کے لئے یہ اچھا موقع تھا کہ وہ مسلمانوں کے اندر شکوک و شبہات پھیلائیں ۔ انہیں بدراہ کریں اور ان کے اندر افوائیں پھیلائیں ۔ بعض اہل اسلام ان کی باتوں پر کان بھی دھرتے تھے اور ان سے متاثر ہوتے تھے ۔ بعض اہل اسلام ایسے بھی تھے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی سازشوں کے دفیعہ کے لئے کوئی پیش بندی فرماتے تو ان یہودیوں کی مدافعت کرتے (مثلاً جب بنی قینقاع کے بارے میں عبداللہ بن ابی نے سفارش کی اور اس معاملے میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں سختی کی) دوسری جانب مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ انہیں بدر میں فتح ہوئی تھی ۔ یہ ایک مکمل فتح تھی اور واضح فتح تھی ۔ اس میں اہل اسلام نے بہت کم تیاری کی تھی اور یہ فتح معمولی جدوجہد کے بعد نصیب ہوئی تھی ۔ مسلمانوں کی مٹھی بھر تعداد ‘ بغیر سازوسامان اور بغیر کسی بڑی تیاری کے نکلی۔ اس کا مقابلہ کفار کے ایک عظیم اور سازوسامان سے لیس لشکر کے ساتھ ہوا ۔ اور تھوڑی ہی دیر میں مڈبھیڑ ہوئی تو اہل کفر کے مقابلے میں اہل اسلام کے حصہ میں ایک واضح فتح آئی ۔ یہ فتح اہل اسلام اور اہل کفر کے درمیان ان کی پہلی مدبھیڑ میں ہوئی تھی ۔ اور یہ درحقیقت اللہ کے معجزات میں سے ایک معجزہ تھی ۔ آج ہمیں اس کی حکمت عملی کا ایک پہلو سمجھ میں آتا ہے ‘ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس نئی اٹھنے والی تحریک کو قدرے ثبات و استحکام بخشنا چاہتے تھے ۔ مقصد یہ تھا کہ تحریک دشمن کے ساتھ جنگ کے عملی تجربے سے کامیابی کے ساتھ گزر جائے تاکہ وہ آئندہ اپنے لئے راہ عمل طے کرے اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھے ۔ یہ تو حکمت ایزدی لیکن غالباً مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ شاید ان کی کامیابی گویا ایک قدرتی امر ہے اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ کسی معرکے میں کو دیں اور انہیں فتح نہ ہو ‘ وہ جس طرف بڑھیں گے فتح ان کے قدم چومے گی ۔ ہر حال اور ہر مرحلے میں کامیابی ان کے لئے مقدر ہے ‘ اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں اور اس لئے کہ ان کے دشمن اہل کفر ہیں اور ظاہر ہے کہ اہل کفر اور ایمان کے مقابلے میں فتح اہل ایمان کی ہی ہوگی۔ لیکن فی الحقیقت بات اس قدر سادہ نہ تھی ۔ میدان جنگ میں فتح وشکست کا اصول اس قدر سادہ نہ تھا کہ بس صرف اسلام سبب فتح ہے اور محض کفر سبب شکست ہے ۔ بلکہ ان اسباب کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ نفس انسانی کو اچھی طرح تربیت دی جائے ۔ اپنی صفوں کو اچھی طرح درست اور مرتب کیا جائے ۔ جنگ کے لئے ضروری سازوسامان تیار کیا جائے ۔ افواج کے اندر نظم و اطاعت بکمال ہو اور جنگی اصول وقواعد کی پوری طرح پابندی کی جائے ۔ انسانی نفسیات کا اچھی طرح خیال رکھا جائے اور میدان جنگ میں حرکات و سکنات کنٹرول میں ہوں۔ غرض یہ سب امور تھے جو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو میدان جنگ میں عملاً سمجھانا چاہتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اہل ایمان کو ہزیمت سے دوچار کیا اور اس کے بعد پھر سورت آل عمران میں اس پر زندہ جاوید تبصرہ فرمایا۔ جس نے اہل ایمان کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کئے ۔ اس تبصرے میں انہیں شکست کے اسباب بتائے گئے کہ یہ شکست بعض مسلمانوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہوئی ۔ ان تبصروں کے اندر ان کے اصلاح نفوس کے لئے تعمیری نصیحتیں بھی کی گئیں اور مسلمانوں کے اندر پختگی پیدا کی گئی ۔ جب ہم غزوہ احد کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ‘ اس تجربے کے لئے مسلمانوں کو بہت ہی قیمت ادا کرنی پڑی ۔ وہ بہت بڑے خوف سے دوچار ہوئے ‘ ایک بڑی تعداد زخمی ہوئی ۔ معزز ترین لوگ شہید ‘ ان میں سرفہرست سیدا لشہداء حضرت حمزہ (رض) تھے ۔ اس سے بڑی قیمت وہ تھی جو ان کے لئے ناقابل برداشت تھی ‘ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذات خود زخمی ہوں ‘ ان کے چہرے پر زخم آئیں اور دانت مبارک شہید اور آپ گڑھے میں گرجائیں اور آپ کے رخساروں میں ذرہ کے حلقے چبھ جائیں ‘ یہ ایک ایسا صدمہ تھا جو مسلمانوں کے ناقابل برداشت تھا ۔ اور وہ اس کو امر عظیم سمجھتے تھے ۔ اس سورت میں ‘ غزوہ احد کے واقعات اور ان پر تبصرہ کو پیش کرنے سے بھی پہلے ‘ سورت کا ایک بڑا حصہ ان متنوع ہدایات پر مشتمل ہے ۔ جس میں اسلامی تصور حیات کے مختلف پہلوؤں کو صاف کرنے کی سعی کی گئی ہے ۔ تاکہ اس میں شرک اور جاہلیت کا کوئی شائبہ نہ رہے ۔ ان ہدایات میں عقیدہ توحید کو صاف ستھرا اور نکھار کر رکھدیا گیا ہے ‘ اس میں اہل کتاب نے جو شرکیہ عناصر داخل کردئیے تھے ان کی سخت تردید کی گئی ۔ چناچہ اہل کتاب کے معتقدات پر تفصیلی بحث کی گئی ہے ۔ اسی طرح اہل کتاب اسلامی عقائد ونظریات کے سلسلے میں اعتراضات کرکے اہل ایمان کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی جو سعی کررہے تھے اس پر بھی بھرپور وار کیا گیا ۔ بعض روایات میں یہ بات آئی ہے کہ اس سورت کی آیات ١ تا ٨٣ کا نزول اس وقت ہوا جب یمن کے عیسائیوں کا مشہور وفد نجران رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کے لئے مدینہ آیا۔ یہ وفد ٩ ھ میں آیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ٩ ھ کے ان آیات کا نزول بعید از قیاس ہے ‘ ان آیات کے مضمون ان کی فضا سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ آیت ہجرت کے متصلاً بعد کے ادوار میں نازل ہوئیں ‘ جب کہ اسلامی جماعت نوخیز تھی اور اس کی صحیح تشکیل اور اس کے طرز عمل پر یہودی سازشوں کے اثرات بڑھ رہے تھے ۔ وفد نجران کے سلسلہ میں وارد ہونے والی روایات درست ہوں یا نہ ہوں لیکن ان آیات کا موضوع یہ بتارہا ہے کہ ان میں ان شبہات کی تردید کی گئی ہے جو نصاریٰ کی طرف سے وارد کئے جارہے تھے ۔ خصوصاً جن کا تعلق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تھا یا جن کا تعلق عقیدہ توحید کی اس تعبیر سے تھا جسے اسلام نے پیش کیا اور ان آیات میں عیسائیوں کے عقائد غلطیہائے مضامین کو درست کیا گیا تھا ۔ اور ان کے تمام ان خرافات تلبیسات کو دور کرکے بتایا گیا کہ وہ اس سچائی کی طرف آئیں جو خود انجیل میں بھی موجود ہے اور جس کی طرف قرآن مجید انہیں دعوت دے رہا ہے ۔ لیکن اس حصے میں یہودیوں اور اہل ایمان دونوں کے لئے اشارات وتنبیہات موجود ہیں ۔ خصوصاً اہل ایمان کو سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ یہودیوں اور اہل کتاب کی سازشوں سے چوکنے رہیں ۔ اور مدینہ کے ماحول میں جو خطرناک اہل کتاب موجود تھے وہ یہودی ہی تھے ۔ غرض یہ حصہ جو اس سورت کا تقریباً نصف حصے پر مشتمل ہے ‘ اس میں اسلامی نظریہ حیات اور اس وقت جزیرۃ العرب میں موجودمنحرف اور باطل نظریات کے درمیان طویل کشمکش کا ذکر ہے اور یہ بحث صرف نظریاتی بحث ہی نہیں ہے جس کا عملی دنیا سے کوئی تعلق نہ ہو۔ بلکہ وہ مدینہ طیبہ کے اندر اٹھنے والی نوخیز تحریک اسلامی اور اس کے ان تمام دشمنوں کے درمیان برپا ہونے والی جنگ کا نظریاتی پہلو تھا۔ یہ جنگ عملاً برپا تھی پورے جزیرۃ العرب میں پھیلی ہوئی تھی اور اس میں تحریک اسلامی کے دشمن ہر وقت چوکنے تھے ‘ وہ تاک میں بیٹھے رہتے تھے ۔ تحریک کے لئے ہر وقت کنویں کھودتے رہتے تھے ۔ اور اس ہمہ گیر جنگ میں وہ تحریک کے خلاف ہر حربہ استعمال کررہے تھے ۔ اس میں ان کا پہلا ہتھیار یہ تھا کہ مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل کردیں ۔ اور یہ نظریاتی جنگ بس جنگ تھی جو آج تک امت مسلمہ اور اس کے دشمنوں کے درمیان جاری وساری ہے ۔ یہ دشمن وہی ہیں جو تھے ۔ وہی ملحد ‘ وہی منکرین حق ‘ وہی عالمی صہیونی اور وہی عالمی صلیبیت ! ! ! اس سورت کے مضامین پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے ‘ اس وقت یہ لوگ جو وسائل اور جو دلائل کام میں لارہے تھے آج بھی وہی دلائل اور یہی ذرائع استعمال کررہے ہیں ۔ اس وقت ان کے جو مقاصد تھے ‘ آج بھی وہی مقاصد ہیں ‘ اور اس وقت بھی قرآن ان کو جواب دے رہا تھا اور آج بھی وہ مدافعت کررہا ہے ۔ آج بھی قرآن ہمارے لئے مرجع ہے اور آئندہ بھی یہی ہوگا۔ جس طرح اس سے قبل تھا اور آج جو مسلمان قرآن مجید کی اس حیثیت سے انکار واعراض کرتا ہے ‘ اور اس ناصح مشفق سے نصیحت نہیں لیتا ‘ یا اس مشیر ماہر سے مشورہ نہیں لیتا ‘ اس جنگ میں جو اہل ایمان اور اعدائے ایمان کے درمیان جاری ہے ‘ تویقیناً ایسا شخص دشمنان اسلام کا جاسوس اور ایجنٹ ہے ‘ اور وہ اس اسلحہ کو نظر انداز کررہا ہے ‘ جو اس معرکہ میں موجب ظفر ہے ‘ وہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے ‘ وہ اس امت کو دھوکہ دیتا ہے ‘ اور وہ جو کچھ بھی کررہا ہے وہ اسلام کے قدیم دشمنوں کے مفاد کے لئے کام کررہا ہے ‘ وہ اسلام کے جدید دشمنوں کا ایجنٹ ہے ‘ یا تو وہ بہت بڑا احمق ہے اگر وہ خود نادانی کررہا ہے اور یا وہ بہت بڑا جبت النفس ہے اگر وہ جان بوجھ کر کررہا ہے ۔ سورت کے اس حصے میں جو انتقادیات ‘ جو مناظرہ اور جو تنقید اہل کتاب کے حوالے سے آئی ہے اس سے یہ اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اس وقت اہل کتاب کا خود اپنی کتاب کے بارے میں کیا موقف تھا ‘ تحریک اسلامی کے بارے میں ان کا کیا موقف تھا اور اسلامی نظریہ حیات کے بارے میں ان کا موقف کیا تھا ۔ اہل کتاب کا نقطہ نظر درج ذیل آیات سے اچھی طرح ظاہر ہوتا ہے۔ ٭ ” وہی اللہ ہے ‘ جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے ‘ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں : ایک محکمات ‘ جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات ‘ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ‘ وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں ۔ “ (٧ : ٣) ٭ ” تم نے دیکھا نہیں انہیں کہ جن لوگوں کو کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ ملا ‘ ان کا حال کیا ہے ؟ انہیں جب کتاب الٰہی کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے ‘ تو ان میں سے ایک فریق پہلو تہی کرتا ہے اور اس فیصلے کی طرف آنے سے منہ پھیر کاتا ہے۔ “ (٢٣ : ٣) ٭ ” اے اہل کتاب تم ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں ہم سے کیوں جھگڑا کرتے ہو ‘ تورات اور انجیل تو ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئیں ہیں ۔ “ (٦٥ : ٣) ٭ ” ایمان لانے والو ! اہل کتاب میں سے ایک گروہ چاہتا ہے کہ کسی طرح تمہیں راہ راست سے ہٹادے ۔ “ (٧٠ : ٣) ٭ اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھاکر مشتبہ بناتے ہو ؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو۔ “ (٧١ : ٣) ٭ ” اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے کہ اس نبی کے ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو انکار کردو ‘ شاید اس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھرجائیں ‘ نیز یہ لوگ آپس میں کہتے ہیں کہ اپنے مذہب والے کے سوا کسی کی بات نہ مانو۔ “ (٧٣ : ٣) ٭ ” اہل کتاب میں سے کوئی ایسا تو ہے کہ اگر تم اس کے اعتماد پر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی دیدو تو وہ تمہارا مال تمہیں ادا کردے گا۔ اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینار کے معاملہ میں بھی اس پر بھروسہ کرو تو وہ ادا نہ کرے گا۔ الا یہ کہ تم اس کے سر پر سوار ہوجاؤ۔ ان کی اخلاقی حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ۔” امیوں (غیر یہودیوں) کے معاملے میں ہم سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی۔ “ (٧٥ : ٣) ٭ ” ان میں سے کچھ ایسے ہیں ‘ جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو جو کچھ وہ پڑھ رہے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہے ‘ حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی ‘ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں ‘ یہ اللہ کی طرف سے ہے ‘ حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا ‘ وہ جان بوجھ کر بات اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ “ (٧٨ : ٣) ٭ ” کہو ‘ اہل کتاب یہ تمہاری کیا روش ہے کہ جو اللہ کی بات مانتا ہے اسے بھی تم اللہ کے راستے سے روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے حالانکہ تم گواہ ہو۔ “ (٩٩ : ٣) ٭ ” کہو اے اہل کتاب ‘ تم کیوں اللہ کی باتیں ماننے سے انکار کرتے ہو ‘ جو حرکتیں تم کررہے ہو ‘ اللہ سب دیکھ رہا ہے ۔ “ (٩٨ : ٣) ٭ ” تم ان سے محبت رکھتے ہو ‘ مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے ‘ حالانکہ تم تمام کتب آسمانی کو مانتے ہو ‘ جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے بھی مان لیا ہے ‘ مگر جب جدا ہوتے تو تمہارے خلاف ان کے غیظ وغضب کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں ۔ “ (١١٩ : ٣) ٭ ” تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے ‘ اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں۔ “ (١٢ : ١٣) یوں اس پوری سورت میں نظر آتا ہے کہ اسلامی جماعت کے دشمن ‘ اس کے خلاف صرف روایتی ہتھیاروں ہی سے کام نہ لیتے تھے ‘ وہ صرف میدان جنگ میں ‘ تیر وتفنگ ہی سے نہ لڑتے تھے ‘ محض یہ نہ کرتے تھے کہ تمام دشمنوں کو جماعت اسلامی کے خلاف جمع کریں اور ان کے خلاف میدان کارزار گرم کریں ۔ جبکہ وہ تحریک اسلامی کے برخلاف نظریاتی جنگ میں رات ودن مصروف تھے ۔ وہ تحریک کے خلاف شکوک و شبہات پھیلاتے تھے ۔ خفیہ سازشیں کرتے تھے ۔ دشمنوں کو بھڑکاتے ‘ اس نظریاتی جنگ میں وہ سب سے پہلے اسلامی عقائد پر تنقید کرتے ‘ اس لئے کہ امت مسلمہ کی تشکیل اور اس کی شخصیت کی اساس ہی عقائد پر تھی ۔ اس لئے وہ ہر وقت اس کام میں لگے رہتے تھے کہ ان عقائد وایمانیات کو کمزور کریں اور جس طرح ہوسکے ان کی بیخ کنی کریں ۔ اس لئے کہ انہیں اچھی طرح یقین ہوگیا تھا ۔ جس طرح آج امت کے دشمنوں کو یقین ہوگیا ہے کہ اس امت پر صرف اس صورت پر حملہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کے عقائد کو کمزور کیا جائے ‘ یہ صرف اس وقت کمزور ہوگی جب اس کے نظریات کمزور پڑجائیں ‘ اسے جسمانی شکست تب ہی دی جاسکتی ہے جب اسے روحانی شکست دی جائے ۔ جب تک اس امت نے ایمان کی مضبوط رسی کا سہارا لیا ہوا ہے اس وقت تک وہ اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ۔ جب تک یہ امت اپنے اس مضبوط سہارے کو تھامے ہوئے ہے ۔ اپنے نظریات کی روہ پر رواں دواں ہے ‘ جب تک اس نے نظریاتی جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں ‘ جب تک یہ جماعت ایک نظریاتی جماعت ہے ‘ جب تک ان نظریات سے اس کی پہچان ہے اور جب تک اسے اپنے ان نظریات پر فخر ہے اس وقت تک وہ اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا سخت ترین دشمن وہ ہے ‘ جو اسے اس کے نظریات سے بدراہ کررہا ہو ‘ اور اللہ کے منہاج اور اللہ کے طریقوں سے بدراہ کررہا ہو ‘ لیکن یہ دشمن اپنی حقیقت کو ظاہر نہیں کرتا اور نہ اس کے دورس اہداف ومقاصد کا مسلمانوں کو پتہ ہوتا ہے۔ خوب سمجھ لو ‘ کہ امت مسلمہ اور اس کے دشمنوں کے درمیان ‘ ہر بات سے پہلے ‘ نظریاتی دشمنی ہے ‘ امت مسلمہ کے دشمن جب بھی چاہتے ہیں کہ وہ ارض اسلام پر قابض ہوں ‘ اہل اسلام کے محاصل ان کے قبضے میں ہوں ‘ ان کے خام مال ان کے تصرف میں ہوں ‘ ان کی اقتصادیات پر ان کا کنٹرول ہو ‘ تو وہ سب سے پہلے اہل اسلام کو نظریاتی شکست دیتے ہیں اس لئے کہ امت مسلمہ کے بالمقابل تمام تاریخی تجربات سے انہوں نے اس بات کو اچھی طرح پالیا ہے کہ وہ اپنے ان مقاصد میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک وہ اپنے نظریات پر استحکام کے ساتھ کھڑی ہے ‘ جب تک وہ اسلامی منہاج پر قائم ہے ۔ جب تک وہ جانتی ہو کہ اس کے دشمن کیا کیا سازشیں کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کے دشمن اور ان کے ایجنٹ اپنی پوری قوت اس بات پر خرچ کرتے ہیں کہ وہ اس امت کو پوری طرح دھوکے میں رکھیں ‘ انہیں اس نظریاتی جنگ کا کہیں علم نہ ہوجائے ۔ اور جب وہ اس جنگ کو خفیہ رکھنے میں کامیاب ہوں گے تو پھر ان کے لئے تمام مقاصد کا حصول بہت ہی آسان ہوجائے گا۔ جو وہ چاہتے ہیں ‘ پھر وہ آزادانہ استعماری مقاصد کو پورے کرسکتے ہیں ۔ امت کا اچھی طرح استحصال کرسکتے ہیں ۔ بشرطیکہ وہ اس امت کے دل سے اس کے عقائد ونظریات کی عظمت کو نکال دیں۔ جب بھی اس مکروفریب اور نظریاتی جنگ کے وسائل ترقی کرتے ہیں یہ دشمن ان ترقی یافتہ ذرائع کو کام میں لاتے ہیں ‘ اور اسلامی نظریات میں شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں ‘ ان کی اہمیت کو کم کرتے رہتے ہیں ۔ وہ اس میدان میں جدید سے جدید ہتھیار لے کر آتے ہیں ۔ لیکن ان کے مقاصد وہی ہوتے ہیں جو روزاول سے ان کے پیش نظر تھے ۔” اہل کتاب میں سے ایک گروہ چاہتا ہے کہ کسی طرح تمہیں راہ راست سے ہٹادے ۔ “ یہی ان کی مستقل اور خفیہ پالیسی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے سب سے پہلے ان کے نظریاتی ہتھیاروں کو کند کیا ۔ اس نے جماعت مسلمہ کو سخت ترین ہدایات دیں کہ وہ اس سچائی پر سختی سے جم جائیں جس پر وہ قائم ہیں ۔ اہل کتاب نے اس سلسلے میں جو جو شبہات پھیلائے قرآن کریم نے بڑی سختی اور قوت سے ان کی تردید کی ۔ اور اس حقیقت کبریٰ کو نکھار کر رکھ دیا جس کا حامل یہ دین جدید تھا ۔ جماعت مسلمہ کو مطمئن کیا ‘ اس کو اس کے اصل مقام سے آگاہ کیا کہ اس کرہ ارض پر اس کی کیا اہمیت ہے ۔ یہاں اس کا مشن کیا ہے ؟ اور یہاں ان نظریات کی اہمیت کیا ہے ‘ جن کی وہ حامل ہے ۔ چناچہ اس سورت میں قرآن کریم امت مسلمہ کو ان سازشیوں کی سازش کے مقابلے میں اچھی طرح چوکنا کردیا۔ اپنے خفیہ مقاصد کے لئے جو اوچھے ہتھیار استعمال کررہے تھے ‘ انہیں طشت ازبام کیا ‘ ان کے کے خطرناک عزائم سے پردہ اٹھایا ‘ جماعت مسلمہ اور اسلام کے خلاف ان کے دل میں جو نفرت و حقارت تھی اس سے انہیں آگاہ کیا اور بتایا کہ یہ سب دشمنیاں اس لئے ہیں اللہ نے ان پر اپنا فضل عظیم کیا ہے۔ قرآن کریم نے اس نوخیز جماعت کو بتایا کہ اس کائنات میں جو قوتیں کارفرما ہیں ان کی حقیقت کیا ہے ۔ یہاں ان کا توازن کیا ہے ‘ چناچہ بتایا گیا کہ دشمنان اسلام کی کوئی حیثیت نہیں ‘ اللہ کے مقابلے میں وہ پرکاہ کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ انہوں نے خود اپنے دین کے مقابلے میں کفر اور بےراہ روی کا رویہ اختیار کیا ‘ اپنی کتابوں کا انکار کیا اور اپنے انبیاء تک کو قتل کیا ‘ یہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ۔ جب تک اللہ کی مدد تمہیں حاصل ہو۔ وہ مالک الملک ہے ‘ عزت وذلت صرف اس کے ہاتھ میں ہے ‘ وہ اس معاملے میں وحدہ لاشریک ہے ‘ وہ عنقریب ان سازشی کفار پر اپنا عذاب نازل کردے گا ‘ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ میدان بدر میں اس کا عذاب کفار مکہ پر کیونکر نازل ہوا۔ اس پر کچھ زیادہ وقت تو نہیں گزرا۔ امت مسلمہ کو اس وقت ان الفاظ میں یہ ہدایات دی گئیں۔ ٭ ” اللہ ‘ وہ زندہ جاوید ہستی ‘ جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے ‘ حقیقت میں اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ۔ اس نے تم پر یہ کتاب نازل کی ‘ جو سچائی لے کر آئی ہے اور ان کتابوں کی تصدیق کررہی ہے جو پہلے سے آئی ہوئی تھیں ۔ اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لئے تورات اور انجیل نازل کرچکا ہے ۔ اور اس نے وہ کسوٹی اتاری ہے ۔ (جو حق و باطل کا فرق کرنے والی ہے) اب جو لوگ اللہ کے فرامین کو قبول کرنے سے انکار کریں ۔ ان کو یقیناً سخت سزاملے گی ۔ اللہ بےپناہ طاقت کا مالک ہے اور برائی کا بدلہ دینے والا ہے ۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ “ (١ : ٣ تا ٥) ٭ ” جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے ‘ انہیں اللہ کے مقابلے میں نہ ان کا مال کچھ کام دے گا ۔ نہ اولا ‘ وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے ۔ ان کا انجام ویسا ہی ہوگا ‘ جیسا فرعون کے ساتھیوں اور ان سے پہلے نافرمانوں کا ہوچکا ہے کہ انہوں نے آیات الٰہی کو جھٹلایا ‘ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑلیا ‘ اور حق یہ ہے کہ اللہ ب