Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 1

سورة آل عمران

الٓمَّٓ ۙ﴿۱﴾

Alif, Lam, Meem.

الم

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, الم Alif-Lam-Mim, in the beginning of Surah Al-Baqarah, we discussed the meaning of the separate letters that appear in the beginnings of some Surahs. اللّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة بقرہ اور سورة آل عمران کو الزَّھْرَاوَیْنَ یعنی دو جگمگانے والی سورتیں، فرمایا اور امت کو ان کے پڑھتے رہنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ انہیں پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں، اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کے لیے جھگڑا کریں گی۔ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ، باب فضل، قراءۃ القرآن و سورة البقرۃ) قرآن کریم کے علوم میں سے ایک علم مخاصمہ ہے۔ یعنی وہ علم جس کے ذریعہ باطل فرقوں کے عقائد و نظریات کی تردید کی گئی ہے۔ نزول قرآن کے وقت اکثر تین فرقے قرآن پاک کے مخاطب رہے جو مسلمانوں کے حریف تھے : مشرکین، یہود اور نصاریٰ ، سورة بقرہ میں مشرکین کے علاوہ یہود پر اللہ کے انعامات، ان کی عہد شکنیوں اور ان کے عقائد باطلہ کا تفصیلی طور پر ذکر ہوا تھا جب کہ اس سورة آل عمران میں مشرکوں کے علاوہ نصاریٰ کے عقائد باطلہ کا تفصیلی طور پر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الۗـۗم۔ حروف مقطعات کی تشریح سورة بقرہ کی ابتدا میں گزر چکی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

This is the first section of Surah &A1-` Imran, the third Surah of the Holy Qur&an. It will be recalled that at the end of the Surah Al-Fatihah a prayer for guidance to the straight path was made. After that, by be-ginning the Surah Al-Baqarah with الم ﴿١﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَ‌يْبَ فِيهِ (This Book which has no doubt in it), it was pointed out that the prayer made in Su-rah Al-Fatihah for guidance to the straight path has been accepted and Al¬lah Almighty has sent down this Qur&an which provides guidance to the straight path. Then came many injunctions of the Islamic law tak¬en up briefly or in details. As a corollary to this, frequent mention was made of the hostility of the disbelievers and the need to confront them. Towards the end, this sequence was concluded with (Help us, then, against disbelieving people) - in the mode of prayer. Since the prayer was made in order that Muslims could confront and prevail over the disbelievers, it was in consonance with that prayer that, in the following Surah &Al-` Imran, the text deals with the modal¬ities of dealing with disbelievers, as well as, with the need to carry out Jihad against them, verbally and physically. This is, so to speak, an elaboration and extension of فَانصُرْ‌نَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِ‌ينَ (Help us, then, against disbelieving people). A Summary of Meanings These first five verses of Surah &Al-` Imran explain the doctrine of توحید tauhid, the Oneness of Allah, which is the basic point of difference between Islam and other religions and between a disbeliever and a true Muslim. Those who believe in the Oneness of Allah (and in all His prophets (علیہم السلام) are Muslims and those who do not so believe are known as disbelievers or non-Muslims. Tauhid توحید a consistent belief preached by all prophets (علیہم السلام) Verse 2 gives a reported proof in some detail. The agreement of a large number of people on a certain principle from the very beginning of humanity may be taken as a natural proof of its reality, if they belong to different times and places, having no means of communicating with each other. Keeping this in view, we see that Sayyidna Adam (علیہ السلام) was the first prophet who presented the message of توحید tauhid before human be¬ings. That the message would remain effective after him through his progeny is not difficult to conceive. But, after a passage of time when the ways of the progeny of Sayyidna Adam (علیہ السلام) shifted away from the original message, there comes Sayyidna Nuh (Noah) (علیہ السلام) who calls people towards the same principle. After a long passage of time, Sayyidna Ibrahim, Ismail, Ishaq and Yaqub (علیہم السلام) born in Iraq and Syria rise with the same call. Then follow Sayyidna Musa, Harun and other prophets (علیہم السلام) in that order who all subscribe to the same principle of توحید tauhid and invite people to the same. Then, after another long passage of time, Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) rises with the same call. In the end, it is Sayyidna Muhammad al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who graces the world with the common call of all prophets. This is the golden chain of prophets from Sayyidna Adam (علیہ السلام) to the Last of the Prophets (علیہم السلام) upto whose time some one hundred and twenty four thousand blessed prophets were born in different peri¬ods, speaking different languages, living in different countries. A11 of them told and taught the same truth. Most of them did not even have the chance to meet each other. They were in an age when, communica¬tion through writing was not in vogue, which could make it possible for one prophet to have access to the books and writings of another and might help him to pick up the call of the earlier prophets as his own. Instead, what happened is that everyone from among them ap¬peared centuries apart from each other, and had no source of informa¬tion about other prophets, except the revelation received by him from Allah Almighty. The consensus of such a large group of persons con¬sisting of not less than one hundred and twenty four thousand men of different times and places may be enough for establishing the princi¬ple, even regardless of their intrinsic trustworthiness. But when one looks at the personal qualities of the noble prophets, and at the high¬est possible standards of truth and justice set by them, one has to be¬lieve that their message is true and their call authentic. It is narrated in some ahadith that some Christians came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and engaged him in a conversation about religion. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، by the will of Allah, present¬ed these two verses as arguments confirming the Oneness of Allah. The Christians had no answer to refute them. Lastly, while referring to the absolute power and wisdom of Allah Almighty, verse 6 invites one&s attention to the fact that Allah shapes all men and women in the wombs of their mothers according to His su¬preme wisdom which has created billions of men and women with clear distinguishable features establishing the identity of each individ¬ual distinct from all others. He is, therefore, the only One who should be worshipped.

ربط آیات یہ قرآن کریم کی تیسری سورت (آل عمران) کا پہلا رکوع ہے پہلی سورت یعنی فاتحہ جو پورے قرآن کا خلاصہ ہے اس کے آخر میں صراط مستقیم کی ہدایت طلب کی گئی تھی اس کے بعد سورة بقرہ الم ذلک الکتاب سے شروع کر کے گویا اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ سورة فاتحہ میں جو سیدھے راستے کی دعا کی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ نے قبول کر کے یہ قرآن بھیج دیا، جو صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے پھر سورة بقرہ میں اکثر احکامات شرعیہ کا جمالی اور تفصیلی بیان آیا ہے، جس کے ضمن میں جابجا کفار کی مخالفت اور ان سے مقابلہ کا بھی ذکر آیا آخر میں اس کو (فانصرنا علی القوم الکافرین) کے جملہ دعائیہ پر ختم کیا گیا تھا، جس کا حاصل تھا کفار پر غلبہ پانے کی دعا، اس کی مناسبت سے سورة آل عمران میں عام طور پر کفار کے ساتھ معاملات اور ہاتھ اور زبان سے ان کے مقابلہ میں جہاد کا بیان ہے، جو گویا ( فانصرنا علی القوم الکافرین) کی تشریح و تفصیل ہے۔ خلاصہ تفسیر سورة آل عمران کی ابتدائی پانچ آیتوں میں اس مقصد عظیم کا ذکر ہے جس کی وجہ سے کفر و اسلام اور کافر و مومن کی تقسیم اور باہمی مقابلہ شروع ہوتا ہے، اور وہ اللہ جل شانہ کی توحید ہے، اس کے ماننے والے مومن اور نہ ماننے والے کافر وغیر مسلم کہلاتے ہیں، اس رکوع کی پہلی آیت میں توحید کی عقلی دلیل مذکور ہے، اور دوسری آیت میں نفلی دلیل بیان فرمائی گئی ہے اس کے بعد کی آیت میں کفار کے کچھ شبہات کا جواب ہے۔ معارف و مسائل توحید کی طرف دعوت تمام انبیاء کا وظیفہ رہا ہے دوسری آیت میں جو نقلی دلیل توحید کی پیش کی گئی ہے، تشریح اس کی یہ ہے کہ جس بات پر بہت سے انسان متفق ہوں، خصوصاً جبکہ وہ مختلف ملکوں کے باشندے اور مختلف زمانوں میں پیدا ہوئے ہوں، اور درمیان میں سینکڑوں ہزاروں برس کا فاصلہ، اور ایک کی بات دوسرے تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں، اس کے باوجود جو اٹھتا ہے وہی ایک بات کہتا ہے جو پہلے لوگوں نے کہی تھی، اور سب کے سب ایک ہی بات اور ایک ہی عقیدہ کے پابند ہوتے ہیں تو فطرت اس کے قبول کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کی توحید کا مضمون انسانوں میں سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) لے کر آئے اور ان کے بعد ان کی اولاد میں تو مسلسل اس بات کا چلنا کچھ بعید نہ تھا، لیکن زمانہ دراز گزر جانے اور اولاد آدم کے وہ تمام طریقے بدل جانے کے بعد پھر حضرت نوح (علیہ السلام) آتے ہیں، اس چیز کی دعوت دیتے ہیں جس کی طرف آدم (علیہ السلام) نے لوگوں کو بلایا تھا ان کے زمانہ دراز گزرنے کے بعد ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) ملک عراق و شام میں پیدا ہوتے ہیں، اور ٹھیک وہی دعوت لے کر اٹھتے ہیں، پھر موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اور ان کے سلسلہ کے انبیاء آتے ہیں، اور سب کے سب وہی ایک کلمہ توحید بولتے ہیں اور وہی دعوت دیتے ہیں، ان پر زمانہ دراز گزر جانے کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) وہی دعوت لے کر اٹھتے ہیں، اور آخر میں سید الانبیاء سیدنا محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی دعوت لے کر تشریف لاتے ہیں۔ اب اگر ایک خالی الذہن انسان جس کو اسلام اور توحید کی دعوت سے کوئی بغض اور بیر نہ ہو سادگی کے ساتھ ذرا اس سلسلہ پر نظر ڈالے کہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء (علیہم السلام) مختلف زمانوں میں مختلف زبانوں میں، مختلف ملکوں میں پیدا ہوئے، اور سب کے سب یہی کہتے اور بتلاتے چلے آئے، اکثر ایک کو دوسرے کے ساتھ ملنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا، زمانہ تصنیف و تالیف اور کتابت کا بھی نہ تھا، کہ ایک پیغمبر کو دوسرے پیغمبر کی کتابیں اور تحریریں مل جاتی ہوں، ان کو دیکھ کر وہ اس دعوت کو اپنا لیتے ہوں، بلکہ انہی میں ہر ایک دوسرے سے بہت قرنوں کے بعد پیدا ہوتا ہے، اس کو اسباب دنیا کے تحت پچھلے انبیاء کی کوئی خبر نہیں ہوتی، البتہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی پاکر ان سب کے حالات و کیفیات سے مطلع ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اس کو اس دعوت کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے۔ اب کوئی آدمی ذرا سا انصاف کے ساتھ غور کرے کہ اگر ایک لاکھ چوبیس ہزار انسان مختلف زمانوں میں اور مختلف ملکوں میں ایک ہی بات کو بیان کریں تو قطع نظر اس سے کہ بیان کرنے والے ثقہ اور معتبر لوگ ہیں یا نہیں، اتنی عظیم الشان جماعت کا ایک ہی بات پر متفق ہونا ایک انسان کے لئے اس بات کی تصدیق کے واسطے کافی ہوجاتا ہے اور جب انبیاء (علیہم السلام) کی ذاتی خصوصیات اور ان کے صدق و عدل کے انتہائی بلند معیار پر نظر ڈالی جائے تو ایک انسان یہ یقین کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان کا کلمہ صحیح اور ان کی دعوت حق اور فلاح دنیا و آخرت ہے۔ شروع کی دو آیتوں میں جو مضمون توحید کا ارشاد فرمایا گیا ہے اس کے متعلق حدیث کی روایات میں ہے کہ بعض نصاری آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے ان سے مذہبی گفتگو جاری ہوئی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ جل شانہ کی توحید کے ثبوت میں یہی دو دلیلیں باذن خدا وندی پیش فرمائی جن سے نصاری لاجواب ہوئے۔ اس کے بعد تیسری اور چوتھی آیت میں بھی اسی مضمون توحید کی تکمیل ہے تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم محیط کا بیان ہے جس سے کسی جہان کا کوئی ذرہ چھپا ہوا نہیں۔ اور چوتھی آیت میں اس کی قدرت کاملہ اور قادر مطلق ہونے کا بیان ہے کہ اس نے انسان کو بطن مادر کے تین اندھیریوں میں کیسی حکمت بالغہ کے ساتھ بنایا، اور ان کی صورتوں اور رنگوں میں وہ صنعتکاری فرمائی کہ اربوں انسانوں میں ایک کی صورت دوسرے سے ایسی نہیں ملتی کہ امتیاز نہ رہے، اس علم محیط اور قدرت کاملہ کا عقلی تقاضا یہ ہے کہ عبادت صرف اسی کی کی جائے اس کے سوا سب کے سب علم وقدرت میں یہ مقام نہیں رکھتے اس لئے وہ لائق عبادت نہیں۔ اس طرح توحید کے اثبات کے لئے حق تعالیٰ شانہ کی چار اہم صفات ان چار آیتوں میں آگئیں پہلی اور دوسری آیت میں صفات حیات ازلی و ابدی اور قیامیت کا بیان ہوا تیسری سے چھٹی آیت تک علم محیط اور قدرت کاملہ مطلقہ کا اس سے ثابت ہوا کہ جو ذات ان چار صفات کی جامع ہو وہی عبادت کے لائق ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الۗمَّۗ۝ ١ ۙ اللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝ ٠ ۙالْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ۝ ٢ ۭ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ قَيُّومُ وقوله : اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ [ البقرة/ 255] أي : القائم الحافظ لكلّ شيء، والمعطی له ما به قِوَامُهُور آیت : اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ [ البقرة/ 255] خدا وہ معبود برحق ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا ۔ میں قیوم ( اسمائے حسٰنی سے ہے یعنی ذات الہٰی ہر چیز کی نگران اور محافظ ہے اور ہر چیز کو اس کی ضرورت زندگی بہم پہنچاتی ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١) اللہ تعالیٰ ہی وفد بنی نجران (یعنی نجران کے عیسائیوں) کی حالت کو زیادہ جاننے والا ہے اور الم کے یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے، اولاد اور اس کے علائق سے پاک و برتر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

یہ حروف مقطعات ہیں جن کے بارے میں اجمالی گفتگو ہم سورة البقرۃ کے آغاز میں کرچکے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(1 ۔ 4) سورة آل عمران کی فضیلت میں بہت سی صحیح حدیثیں آئی ہیں یہ سورت مدنی ہے اس سورت کی دو سو آیتیں ہیں اس تفسیر کے مقدمہ میں اس کا ذکر ہے کہ تفسیر ابن ابی حاتم بڑی صحیح تفسیر ہے اس میں اور صحیح تفسیروں میں جو روایتیں ہیں ١ ان کا حاصل یہ ہے کہ ٩؁ ہجری میں کچھ عیسائی لوگ شام اور یمن کے ما بین میں ایک بخران بستی ہے وہاں سے اپنی قوم کی طرف سے ایلچی بن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تھے اور ان عیسائی لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کا بیٹا ہونے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑا مباحثہ کیا اس پر اس سورة کی اکثر آیتیں نازل ہوئیں جن میں مباہلہ کی آیت بھی ہے۔ مباہلہ کی پوری تفصیل تو اسی آیت کی تفسیر میں آئے گی لیکن اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جب دو فریق میں کسی دینی امر کا جھگڑا ہو اور وہ جھگڑا زبانی مباحثہ سے طے نہ ہو تو دونوں فریق و مع قریب کے رشتہ داروں کے جنگل میں جانے اور فریق ہٹ دہرم پر عذاب الٰہی نازل ہونے کی بد دعا کرنے کا حکم ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جب وہ عیسائی لوگ مباہلہ کی آیت سے پہلے کی آیتوں میں طرح طرح کی جو نصیحتیں تھیں ان کو خیال میں نہ لائے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہنے کی ہٹ دہرمی پر اڑے رہے تو آخر مباہلہ کی یہ آیت اتری اور اس آیت کے اترتے ہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت علی (رض) و فاطمہ (رض) و حسن (رض) و حسین (رض) کو ساتھ لے کر جنگل میں تشریف لے گئے اور ان عیسائی لوگوں کو آدمی بھیج کر بلایا مگر ان عیسائیوں میں کئی شخص بڑے پادری تھے انہوں نے مباہلہ منظور نہیں کیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ نبی سے مباہلہ کرنا بڑی خرابی کی بات ہے غرض ان لوگوں نے مباہلہ قبول نہیں کیا اور سالانہ خراج دینا قبول کرلیا اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھا کر یہ فرمایا کہ اگر یہ لوگ مباہلہ کرتے تو ضرور آسمان سے آگ برستی ١۔ اور یہ لوگ وہیں جنگل میں جل کر بھسم ہوجاتے۔ الم ان حروف مقطعات کی بحث سورة بقر میں گذرچ کی ہے اور یہ حدیث بھی گذرچ کی ہے کہ اسم اعظم ان دونوں میں آیتوں ہے اللہ لا اللہ الا ھو الحی القیوم و الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ٢۔ صحیح حدیثوں میں ہے کہ اسم اعظم کے پڑھنے کے بعد آدمی جو دعا مانگے وہ ضرور قبول ہوتی ہے ٢۔ حیی ٌ کے معنی ہمیشہ باقی رہنے والا قیوم کے معنی اپنی ذات سے قائم رہ کر تمام مخلوقات کا ہر طرح کا بندوبست کرنے والا ان دونوں لفظوں کے ذکر فرمانے میں یہ نصیحت ہے کہ جب ان عیسائی لوگوں کا یہ اعتقاد ہے کہ یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) میں کوئی صفت ان دونوں صفتوں میں کی نہ پائی گئی کیونکہ جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہو اس کو سولی پر چڑھانا اور جس کے ہاتھ میں تمام عالم کا انتظام ہو یہودیوں کا اس کے انتظام سے باہر ہو کر اتنی بڑی بےانتظامی کا پھیلانا کس طرح ہوسکتا ہے پھر باپ بیٹے میں مناسبت کیونکر ہوئی اور ان لوگوں کے اعتقاد کے موافق عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کس مناسبت سے کہا جاسکتا ہے۔ اب آگے یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح موسیٰ پر تورات اور عیسیٰ پر انجیل نازل فرمائی اسی طرح نبی آخر الزمان پر قرآن نازل فرمایا جس طرح قرآن میں ان کتابوں کی صداقت موجو ہے اسی طرح ان کتابوں میں قرآن کی صداقت موجود ہے۔ ایک کو بھی ان میں سے جھٹلایا جائے تو دوسرے کی صداقت کو بٹا لگتا ہے۔ پھر یہ لوگ قرآن کے کیوں منکر ہیں جس سے سخت عذاب ان کو بھگتنا پڑے گا۔ پھر یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ ایسا زبر دست ہے کہ وقت مقرر پر کتاب آسمانی کے منکروں سے جب وہ بدلہ لینا چاہے گا تو اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اللہ سچا ہے۔ اللہ کا کلام ہے۔ دنیا میں تو ان لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے یہ بدلہ لیا کہ ان آیتوں کے نزول سے پانچ برس کے بعد ان لوگوں کی بستی پر اہل اسلام کا قبضہ کرا دیا۔ اور عقبیٰ کا بلا عقبیٰ کے ساتھ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

الۗـۗمَّ

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة آل عمران آیات 1 9 اسرارومعارف الم اللہ لا الہ الا ھو……………لا الہ الا ھوالعزیز الحکیم جب بات کفار پر نصرت اور غلبہ کی طلب پر پہنچی جو کہ سورة بقرۃ کے آخر میں بطور دعا ہے تو اس سورة میں کفار کے ساتھ معاملات اور تعلقات کو بیان فرمادیا۔ گویا وہی بات آگے چل رہی ہے۔ سب سے پہلے مومن اور کافر میں فرق ارشاد ہوا کہ تو حید باری اور ذات وصفات الٰہیہ میں یہ بات واضح ہے ، کہ ماننے والے مسلم اور نہ ماننے والے کافر۔ گویا دنیا میں انسان کی تقسیم دو طرح پرہ ہے جسے دو قومی نظریہ بھی کہا جاتا ہے ، ایک مومن دوسرے کافر۔ مومنین باہم ایک شے ہیں اور کفر کے اندر پھر قسمیں ہیں مگر بنیادی طور پر سب کافر ایک ہی ملت ہیں۔ یہاں توحید باری بطور دعویٰ کے ارشاد ہوئی کہ اللہ کے سوا کوئی بھی حق نہیں رکھتا کہ اس کی عبادت کی جائے الٓم حروف مقطعات میں سے ہے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیا راز ہیں یا کسی کو اس قدر قوی نسبت باطنی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہو کہ علم لدنی سے حصہ پائے اور بات سمجھ سکے۔ مگر یہ بھی صرف اس کے اپنے لئے ہوگا۔ دوسرے یہی ایمان رکھیں گے کہ اللہ ورسولہ ، اعلم۔ اس کے بعد الوہیت باری و توحید باری کا دعویٰ ہے جس کی دلیل عقلی ارشاد فرمائی کہ وہ ہمیشہ زندہ ہے اور سب کائنات کو زندہ رکھنے والا۔ کوئی بھی شے اس کی قدرت کے علاوہ اپنا وجود تک قائم نہیں رکھ سکتی اور عبادت نام انتہائی تذلل کا ہے ، غایت عاجزی کا ہے اور یہ اسی کے لئے سزاوار ہے۔ جو انتہائی عظمت کا مالک اور ہر اعتبار سے کامل ہو۔ احتیاج سے پاک ہو۔ جو ہستی خود اپنا وجود قائم نہ رکھ سکے اور اس کی بقاء کے لئے دوسرے کی محتاج ہو۔ خواہ بت ہو یا فرشتہ ، بہت بڑا پہاڑ ہو یا دریا ، ولی ہو یا پیغمبر ، ہرگز عبادت کے لائق نہیں ہسکتا۔ عبادت صرف اس ذات کی ہوگی جو ہمیشہ سے ہے ، ہمیشہ کے لئے ہے اور وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔ اس کے بعد دلیل نقلی ارشاد فرمائی کہ نقلاً بھی یہ بات صرف قرآن کریم میں نہیں یا صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہی ارشاد نہیں فرمائی بلکہ اس سے پہلے نازل ہونے والی تمام آسمانی کتابوں میں ہے اور تمام انبیاء ورسل (علیہ السلام) نے اس کی طرف دعوت دی ہے۔ اب اس بات کو اگر اس طرح بھی دیکھا جائے کہ دنیا میں آنے والے سب سے پہلے انسان اور اللہ کے نبی نے جو دعوت دی وہ یہی تھی لا الہ الا اللہ۔ پھر صدیوں بعد نوح (علیہ السلام) نے اسی جملے کو دہرایا اور مدت مدیدہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہوں یا سیدنا اسماعیل علیہ السلام۔ یہی دعوت لے کر اٹھے تھے۔ اسی دعوت کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) نے بلایا اور یہی دعوت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دی اور آخر میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسی بات کی طرف دعوت دے رہے ہیں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں بلکہ کم وبیش سوا لاکھ آدمیوں کا ایک طویل مدت میں مختلف زبانوں اور مختلف زمانوں میں کھڑے ہو کر اسی حقیقت کو بیان کرنا خود اس کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے خصوصاً اس وقت اس میں اور بھی بہت قوت آجاتی ہے جب ان حضرات کے کردار کو دیکھا جائے کہ سب کے سب انسانی اخلاق کے صرف نمونہ ہی نہ تھے بلکہ انسانوں کو اخلاق سکھانے والے تھے۔ سب صالح ، صادق ، پاکباز اور امانت دار تھے۔ ان تمام حضرات کی زندگیاں ہر برائی سے ہر طرح پاک تھیں اور ان میں سے قدر بعدزمانی تھا کہ کسی دنیوی سبب سے ایک کی بات دوسرے تک پہنچ سکنا ممکن نہ تھا۔ لامحالہ یہ وحی الٰہی تھی اور یہ سب اللہ کے رسول تھے اور پھر بعثت محمد علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام نے اس حقیقت کو چار دانگ عالم میں منور کردیا۔ اب جو شخص بھی اس قدر دلائل عقلیہ اور تقلیہ کے ہوتے ہوئے اللہ کی توحید یا کسی وصف کا انکار کرے گا یا اس کے سوا کسی کی عبادت کرے۔ وہی کافر ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ ان دلائل کو جھٹلاکر کافر ایک بہت شدید عذاب کو دعوت دے رہا ہے کیونکہ اللہ ہر شے پر غالب ہے اور وہ بدلہ لینے والا ہے۔ نیز اس کے اوصاف کمال میں یہ بات بھی ہے کہ ارض وسما میں کوئی چیز اس سے چھپ نہیں سکتی اور نہ اس کی گرفت سے باہر رہ سکتی ہے ۔ وہ تو ایسا قادر ہے جو شکم مادر میں جیسی چاہتا ہے ویسی صورت بنادیتا ہے بچہ بنائے یا بچی ، گورا بنائے یا کالا ، خوش شکل یا قبیح صورت ، جس کے پیٹ میں بن رہا ہے وہ آگاہ نہیں۔ لیکن اللہ اس سے پوری طرح آگاہ ہے خود بنارہا ہے اس کی قدرت سے بن رہا ہے۔ سو یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی اس سے چھپ سکے۔ یا اس کے دائرہ اختیار سے باہر چلا جائے۔ غرضیکہ کافر کسی طرح نہیں بچ سکتا اور ایسی کامل ہستی جو تمہاری خالق بھی ہے ، رزاق بھی ہے اور تمہیں اسی کے سہارے یہاں وہاں رہنا بھی ہے۔ وہی اکیلا عبادات کا استحقاق رکھتا ہے۔ پھر سن لو ! اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ہر شے پہ غالب ہے اور حکیم ودانا بھی ہے۔ ھوالذی انزل علیک الکتاب…………اولوالالباب۔ وہی ذات ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب یعنی قرآن اتارا جس کی کچھ آیات محکم ہیں ، مضبوط ہیں ، یعنی اشتباہ مراد سے محفوظ ہیں کہ زبان جاننے والے شخص کے لئے نہ تو ظاہر الفاظ شبہ آفرین ہوتے ہیں اور نہ مفہوم کلام جیسے قل تعالوا اتل ماحرم ربکم علیکم یا اس طرح کی اور آیات۔ یعنی غور کرنے سے مفہوم اور مقتضا سمجھ میں آجاتا ہے یہاں صاحب تفسیر مظہری نے بطور مثال یہ آیت لکھی ہے کہ ارشاد ہے۔ پائوں دھونے کی حد : وارجلکم الی الکعبین۔ کہ ٹخنوں تک اپنے پائوں دھوئو کہ دھونے کی آخری حد مذکور ہے اس لئے اس کا عطف وجوھکم اور ایدیکم پر ہوگا ورنہ اگر بروسکم پر پڑھا گیا تو گویا مسح کرو ٹخنوں تک۔ تو یہ از خود غلط ہوجائے گا۔ علماء شیعہ نے کہا کہ کعب سے مراد پائوں کا ابھار ہے۔ سو دونوں پائوں کے ابھار تک مسح کیا جائے گا۔ لیکن کعب کے یہ معنی خلاف ظاہر ہیں۔ بالا جماع کعب کا معنی ٹخنہ ہے اور ایک پائوں میں دو ٹخنے ہوتے ہیں۔ سو کبعین دھونے کی حد ہوگی نہ مسح کی۔ غرض محکم آیات وہ ہیں جن کا معنی معروف اور دلیل واضح ہو ، اور یہی آیات ساری تعلیمات کی اصل اصول ہوں گی اور کھچ دوسری وہ ہیں جو متشابہات ہیں کہ جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے محکم عبارت میں ان کا مفہوم بیان نہ ہو ، کوئی زبان دان بھی غوروخوض سے ان کی مراد کو نہیں پاسکتا۔ جن آیات کا مفہوم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بیان ہوجائے ان کو اصطلاح میں مجمل کہا گیا ہے جیسے صلوٰۃ ، زکوٰۃ ، حج یا ربوٰ وغیرہ۔ اور اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تعلیم نہ ہو تو متشابہ کہا جاتا ہے اور یہ ان ہی امور میں ہوتا ہے جن کا تعلق عمل سے نہ ہو ، جیسے حروف مقطعات یا الرحمن علی العرش استویٰ ۔ تو ان پر ایمان لانا ضروری ہے کہ یہ حق ہے ۔ کیفیات میں پڑنے کی ضرورت ہرگز نہیں۔ اور ایسے متشابہات کا علم اہل عرفان کو الہام یا تعلیم الٰہی سے ہوجاتا ہے ، جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے تمام اسماء کا علم عطا فرمایا۔ مگر یاد رہے کہ مشکوٰۃ نبوت سے خوشہ چینی بجز شرح صدر کے ممکن نہیں اور یہ کبھی کبھی ہوتی ہے اور تب ہوتی ہے جب زبان ولغت عاجز آجائیں۔ اس لئے عوام کا علم اس کو پانے سے عاجز ہے ان میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ محکمات کی طرف لوٹا کر دیکھی جائیں گی اور جو معنی اس کے خلاف ہوں گے ان کی قطعی نفی کی جائے گی اور کوئی ایسی تاویل قابل قبول نہ ہوگی جو آیات محکمات کے خلاف ہوگی مثلاً عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد ہے۔ ان ھوالا عید انعمنا علیہ ۔ یا دوسری جگہ ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم خلقہ من تراب۔ اب اگر کوئی قرآن پاک کے ان الفاظ سے کہ ارشاد ہے کلمۃ اللہ یا دوسری جگہ روح ھنہ یہ ثابت کرنا چاہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) الوہیت میں شریک ہیں یا اللہ کے بیٹے ہیں تو درست نہ ہوگا۔ ان آیات کا نزول ہی اس وقت ہوا جب نجران کے عیسائیوں کا وفد خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عقیدہ تثلیث کو باطل ثابت فرمایا تو کج بحثی کرکے کہنے لگے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں کلمۃ اللہ نہیں کہتے۔ فرمایا ، بیشک ! تو کہنے لگے بس ! الوہیت ثابت ہے۔ ارشاد ہوا جن کے دلوں میں کجی ہے اور فطرت سلیمہ سے محروم ہیں وہ متشابہات کے پیچھے پڑجاتے ہیں ، اور اپنی خواہشات نفسانی کے مطابق معنی گھڑ لیتے ہیں۔ حروف واعداد : یہاں مفسرین نے ایک اور واقعہ بھی نقل فرمایا ہے کہ یہود نے ابجد کے حساب سے اس امت کی بقاء کی مدت معلوم کرنا چاہی اور حی ابن اخطب اور کعب بن اشرف وغیرہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الٓمٓ نازل ہوئی ہے ۔ فرمایا ہاں ! تو کہنے لگے ” ہم اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کی مدت زندگی خیال کرتے ہیں اور یہ کل 71 بنتے ہیں۔ پھر پوچھا کہ اس کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟ ارشاد ہوا ہاں ! المص تو حی بولا ” یہ تو 161 سال ہوگئے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟ “ فرمایا الرٰ تو کہنے لگا۔ یہ تو 231 ہوگئے کیا کچھ اور بھی ہے ؟ فرمایا المرٰ تو کہنے لگا یہ تو 371 ہوگئے پھر کہنے لگا یہ بہت گڑ بڑ ہوگئی ہے ہم ایسی باتوں کو نہیں مانتے۔ آج کل بھی شیعہ کو اکثر ابجد کا سہارا لیتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور بعض اہل بدعت ان کی اقتداء کرتے ہیں۔ جو سراسر جہالت اور یہود کی نقل ہے اور ایسا وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں کجی ہے اور لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، اور اپنی پسند کی تاویلوں سے لوگوں کی طرح طرح کے فتنوں سے دوچار کردیتے ہیں۔ یہ سب سے پہلے یہودیوں نے شروع کیا کہ شوکت اسلام کو زک پہنچائیں۔ چناچہ مروریہ ، معتزلہ اور رافضی وغیرہ وجود میں آئے۔ اور کبھی جہلا اس مرض میں مبتلا ہو کر ہلاکت میں پڑتے ہیں جیسے متاخرین اہل بدعت کا وطیرہ ہے حالانکہ ان کی اصلی مراد سے اللہ ہی آگا ہ ہے یعنی جب تک کسی کو اللہ اطلاع نہ دے کوئی نہیں جان سکتا۔ یہاں حصر اضافی ہے ورنہ یہ معنی نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ بھی آگاہ نہیں کہ ارشاد ہے ثم ان علینا بیانہ۔ اس اعتبار سے قرآن کا کوئی حصہ بھی رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بغیر بیان کے نہ رہنا چاہیے۔ مقصد یہ کہ بغیر اللہ کے بتائے کوئی بھی محض لغت دانی یا زبان دانی سے نہیں جان سکتا۔ لہٰذا یہ پتہ چل رہا ہے کہ نہ صرف حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلکہ آپ کے کامل امتی بھی فیضان نبوت سے ضرور اپنا حصہ پاتے ہیں اور اخص الخواص علم لدنی کے ذریعہ سے اس سے واقف ہوتے ہیں جس کا حصول بےکیف ذاتی یا صفاتی معیت کے سبب ہوتا ہے ۔ تحصیل اور کسب کو یہاں دخل نہیں یا پھر راسخون فی العلم۔ جو کہتے ہیں کہ پورا قرآن اللہ کا بھیجا ہوا ہے اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ مفسرین کے نزدیک اس سے اہل السنۃ والجماعت ہیں جو قرآن کی وہی تعبیر وتشریح صحیح مانتے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، سلف صالحین اور اجماع امت سے منقول ہے اور محکمات کو ساری تعلیمات کا محور جان کر متشابہات میں اپنی کوتاہ نظری کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں بلکہ نصیحت حاصل ہی وہ کرتے ہیں جو سالم عقل اور فطرت سلیم رکھتے ہیں اور نہ جاننے کے باوجودک بھی جاننے کے مدعی نہ بنتے ہوں کہ یہ جہل مرکب ہے۔ ربنا لاتزغ قلوبنا…………لا یخلف المعیاد۔ اور ہدایت کو اللہ کی عطا جان کر ، اللہ ہی سے سلامی کے طلب گار رہتے ہیں کہ اے اللہ ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر ! یعنی حق کی طرف سے نہ پھیر دے۔ اس کے بعد کہ تو نے ہمیں ہدایت فرمائی ، کتاب عطا کی اور محکم و متشابہ پر ایمان لانے کی توفیق ارزاں فرمائی۔ غرض ہدایت کا مدار دل کی سلامتی پر ہے اور انہی اعمال کی قیمت بھی ہے خلوص دل سے کئے جائیں۔ انسان کو اصلاح قلب کی طرف متوجہ ہونا دین کی سلامتی کے لئے اشد ضروری ہے جسے آج بھلایا جارہا ہے ، نہ کوئی صاحب دل نظر آتا ہے نہ کوئی اس دولت کا طالب ۔ یوں نظر آتا ہے جیسے یہ بازار اجڑ گیا۔ اس کے طالب جاچکے اب یہ دنیا بھیڑیوں اور درندوں کا مسکن ہے جو انسانی کھالوں میں نظر آتے ہیں۔ لیکن یاد رہے منور القلوب لوگوں سے جہان خالی نہیں ہوتا۔ جب ایسا ہوگا تو پھر یہ جہان ہی نہ ہوگا کہ ارشاد ہے قیامت تب قائم ہوگی حتیٰ لا یقال اللہ اللہ کہ کوئی اللہ ! اللہ ! کہنے والا نہ ہوگا۔ یعنی کوئی ایسانہ ہوگا جس کا دل ذاکر ہو۔ اگر دل ساتھ نہ دے تو زبانی کہنے کا اعتبار نہیں اور نہ یہ اللہ کے عذاب کو روکتا ہے۔ ہر حال میں ایسے لوگوں کی تلاش ضروری ہے اور ان کی صحبت زندگی بخش۔ دعا کرتے ہیں اے اللہ ! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا کر ۔ اور یہ رحمت محض مال ومنال نہیں بلکہ وہ مجلس ہے جہاں رحمت باری بٹتی ہے وہ استقامت مراد ہے جو دین پر نصیب ہو اور اہل اللہ کی مجالس ہی رحمت باری کا مہبط ہوا کرتی ہیں کہ ارشاد ہے ، اے اللہ ! تو ہی عطا کرنے والا ہے اور تو ضرور ہر ایک کو میدان حشر میں جمع فرمائے گا جس کے وقوع یا جزا وسزا میں کسی ادنیٰ شبہ کی بھی کوئی گنجائش نہیں ، اور یہ بات یقینی ہے کہ اللہ کبھی اپنے وعدہ کے خلاف نہ کرے گا۔ بھلائی کا وعدہ پورا نہ کرنا تو شان الوہیت سے تو بعید ہے معتزلہ کے نزدیک عہد عذاب کی خلاف ورزی بھی جائز نہیں ، مگر سوائے کفر اور شرک کے جن پر اللہ نے فرمایا کہ نہ بخشوں گا ، کیسے بھی ہوں ، عفو و درگزر سے متجاوز نہیں۔ اور جس طرح عذاب عدم توبہ سے مشروط ہے اسی طرح عد عفو و درگزر سے بھی مشروط ہے اگر اللہ رحم کرکے بخش دے تو یہ وعدہ خلافی ہرگز نہ ہوگی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 6 نزل (اس نے نازل کیا) عزیز (زبردست) ذوانتقام (انتقام لینے والا) یصور (تصویر بناتا ہے، شکلیں بنایا ہے) الارحام (رحم ) پیٹ) کیف یشاء (جیسے وہ چاہتا ہے) ۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 6 نخران یمن کے ایک علاقہ کا نام ہے۔ فتح مکہ کے بعد نخران کے عیسائیوں کا ایک وفد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذہبی بحث ومناظرہ کے لیے مدینہ منورہ آیا۔ اس وفد میں چودہ پندرہ آدمی خاص طور پر بڑے معزز اور سردار تھے۔ اس وفد نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق بحث شروع کی تو سورة آل عمران میں تقریباً 83 آیتیں نازل ہوئیں۔ ان آیات کی روشنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وفد کو جوابات دیئے۔ اس وفد نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا ثابت کرنے کے لئے کہا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) : 1 ۔ مردوں کو زندہ اور بیماروں کو اچھا کردیا کرتے تھے۔ 2 ۔ وہ لوگوں کو غیب کی باتیں بتاتے تھے۔ 3 ۔ مٹی کی مورتیں بناکر پھونک مارتے تو وہ زندہ ہو کر پرندہ بن جایا کرتی تھیں۔ 4 ۔ انہوں نے کہا کہ وہ بغیرباپ کے پیدا ہوئے انہوں نے گہوارہ میں لوگوں سے باتیں کیں۔ ان باتوں سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ (نعوذ باللہ) اللہ کے بیٹے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وفد کے ان تمام اعتراضات کو سن کر فرمایا کہ : 1 ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ بیٹا باپ جیسا ہوتا ہے۔ وفد نے کہا کیوں نہیں۔ 2 ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ وہ ہے جس کو موت نہیں آتی وہ زندہ رہے گا جبکہ حضرت عیسیٰ کو ضرور موت اور فنا سے واسطہ پڑے گا ۔ اس وفد نے اس کا بھی اقرار کیا۔ 3 ۔ تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے وجود کو تھامنے والا اس کا محافظ ، نگراں اور رزق پہنچانے والا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ کیا ان سے کوئی بات بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں تھی۔ انہوں نے کہا جی نہیں۔ 4 ۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ وہ ہے جس سے زمین وآسمان کی کوئی چیز پوشیدہ یا چھپی ہوئی نہیں ہے جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے جتنا علم دیا تھا وہ اس سے زیادہ کچھ نہ جانتے تھے۔ انہوں نے اس کا بھی اقرار کیا۔ 5 ۔ آپ نے فرمایا پروردگار نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی شکل و صورت اپنی مرضی کے مطابق ان کی ماں کے پیٹ میں بنائی۔ انہوں نے کہا جی ہاں۔ 6 ۔ ارشاد فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کھانے پینے اور دوسری حاجات کا محتاج نہیں ہے ان کا جواب اقرار میں تھا۔ 7 ۔ ارشاد فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ حضرت مریم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اسی طرح نو ماہ تک اپنے شکم میں رکھا جس طرح عام بچے رہتے ہیں۔ پیدا ہونے کے بعد ان کو غذا دی گئی ، وہ کھاتے اور پیتے بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ بیشک یہی بات ہے۔ 8 ۔ آپ نے آخری بات یہ پوچھی کہ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں یہ تمام باتیں تھیں تو پھر وہ اللہ کے بندے تھے یا خود ہی اللہ تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ تمام سوالات اس قدر بھرپور تھے کہ وہ لاجواب ہوگئے۔ انہوں نے حق اور سچائی کو اچھی طرح پہچان لیا تھا مگر وہ اس بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے رہے۔ آپ نے فرمایا اگر اب بھی تمہیں میرے دعوائے رسالت میں شک ہے تو اس کا فیصلہ اس طرح کرلیتے ہیں کہ تم بھی اپنی اولاد اور گھر والوں کو لے آؤ اور ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں باہر میدان میں نکلتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو بھی جھوٹا ہو اس پر لعنت ہو۔ عیسائیوں کا یہ وفد لاجواب ہوچکا تھا یہ کہہ کر اٹھ گیا کہ ہم آپس میں مشورہ کرلیتے ہیں۔ اور کل صبح مباہلہ (یعنی قسمیں کھانے کا معاملہ کرلیتے ہیں) چناچہ انہوں نے باہمی مشورہ کے بعد یہ طے کیا کہ قسمیں نہ کھائی جائیں۔ طے کرلینے کے بعد راتوں رات یہ وفد چپکے سے مدینہ سے یمن واپس چلا گیا۔ اس طرح مضبوط دلیلوں کے سامنے عیسائیوں نے چپکے سے بھاگ جانے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس ٢٣ ایک نظر میں اگر ہم ان روایات کو لے لیں ‘ جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اس سورت کی ابتدائی ٨٠ سے کچھ اوپر آیات اس موقع پر نازل ہوئیں جب وفد نجران رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مناظرے کے لئے آیا تھا ‘ یہ وفد عیسائیوں پر مشتمل تھا ‘ اور یہ لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے تھے ۔ تو پھر اس سبق کی تمام آیات گویا اس موقع پر نازل شدہ تصور ہوں گی ‘ لیکن یہ روایات خود اس حقیقت کو بیان کردیتی ہیں کہ یہ وفد عام الوفود ٩ ھ میں آیا تھا ‘ اس وقت غلبہ اسلام کا شہرہ جزیرۃ العرب اور اس کے اردگرد علاقوں میں پھیل گیا تھا اور جزیرۃ العرب کے مختلف علاقوں سے وفود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ملاقات کے لئے دھڑا دھڑ حاضر ہورہے تھے ‘ ان وفود میں سے بعض تو معلومات حاصل کرنے آئے تھے اور بعض ایسے تھے جو جدید حالات میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ معاہدات کی پیشکش بھی کرتے تھے ۔ جیسا کہ میں اس سے پہلے کہہ چکا ہوں ‘ کہ ان آیات میں جن موضوعات پر بحث کی گئی ہے اور جس انداز سے بحث کی گئی ہے ۔ یہ دونوں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ آیات ہجرت کے بعد قریبی زمانہ میں نازل ہوئیں ۔ اس سورت میں زیادہ تر اہل کتاب کے ساتھ نظریاتی مباحثہ ہے ۔ ان کے غلط عقائد کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر جو شبہات پیدا ہوتے تھے ۔ ان کے جوابات ہیں ‘ یا ان اعتراضات کے جوابات ہیں جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی صحت کے بارے میں کیا کرتے تھے ‘ یا وہ ہدایات ہیں جو اہل کتاب کے حوالے سے حقیقت توحید اور شرک کے بارے میں نازل ہوئیں ‘ یا وہ خبرداری ہے جو اللہ نے یہاں اہل کتاب کی سازشوں کے مقابلے میں دی اور کہا کہ تم ان کے دھوکے میں نہ آؤ ‘ اپنے موقف پر ثابت قدم رہو ‘ ان موضوعات و مباحث کی وجہ سے میرا میلان اس طرف ہے کہ یہ آیات وفد نجران کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں ۔ کیونکہ یہ وفد ٩ ھ میں آیا تھا ‘ اس لئے کہ ان آیات کے نزول کے لئے ٩ ھ سے پہلے بھی مدینہ طیبہ میں ایسے حالات تھے کہ ان کا نزول ان میں ہوایا یہ پوری سورت ان میں نازل ہوگئی ہو۔ اس لئے ان آیات کی تشریح کے وقت ہم واقعہ نجران ہی کو پیش نظر نہ رکھیں گے بلکہ اس سورت کا خطاب عام اہل کتاب کو سمجھاجائے گا ۔ کیونکہ تاریخی شواہد کے مطابق یہ واقعہ بہت متاخر ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر تمہید میں کہا ‘ ان آیات میں ‘ اس اصلی کشمکش کا ذکر ہے ‘ جو اس وقت تحریک اسلامی اور اس کے عقائد و نظریات اور اہل کتاب اور مشرکین اور ان کے عقائد ونظریات کے درمیان برپاتھی ‘ یہ جنگ ظہور اسلام کے ساتھ ہی شروع تھی ‘ اس میں کوئی وقفہ نہ تھا ‘ خصوصاً اس وقت اس کشمکش میں بڑی تیزی آگئی تھی جب تحریک اسلامی کا ہیڈ کو راٹر مدینہ منتقل ہوا اور وہاں ایک اسلامی حکومت قائم ہوگئی ۔ اس نظریاتی جنگ میں مشرکین اور یہودی شانہ بشانہ لڑ رہے تھے ۔ اور ان کی اس مشترکہ مہم کو قرآن کریم تفصیل سے ریکارڈ کرتا ہے۔ یہ بات بعید از امکان نہیں ہے کہ جزیرۃ العرب کے اطراف واکناف میں جو عیسائی آباد تھے ‘ ان میں مذہبی پیشوا بھی اس نظریاتی جنگ میں کسی نہ کسی صورت میں شریک ہوں ‘ نیز یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو صحیح عقائد ونظریات پیش کئے تھے ان کا علم ان عیسائیوں کو ہوگیا ہو ‘ اور وہ اس موضوع پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بحث و مباحثہ کے لئے آئے ہوں ‘ کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں عیسائی اپنی اصل راہ سے ہٹ گئے تھے ۔ اور اس موضوع پر قرآن کریم تنقید کرچکا تھا ‘ اور عقیدہ توحید کے حوالے سے عیسائیوں پر رد آگیا تھا۔ اس سبق میں ابتداء ہی اسلام کے عقیدہ توحید کو اہل شرک کے انحرافات اور شبہات سے پاک وصاف کرکے بیان کیا گیا ہے ‘ اور یہ قرار دیا گیا کہ قرآن کریم حق و باطل کے درمیان فرقان ہے ‘ اور جو شخص بھی آیات الٰہی کا انکار کرے گا وہ کافر تصور ہوگا۔ چاہے وہ اہل کتاب میں سے ‘ ان آیات میں قرآن کے حوالے سے بتایا گیا مسلمانوں اور اہل ایمان کا رویہ ان آیات کے ساتھ کیا ہے ‘ اپنے رب کے ساتھ ان کا کیا رویہ ہونا چاہئے ‘ واضح طو رپر بیان کیا جاتا ہے کہ ایمان کی کیا علامات ہوتی ہیں ‘ وہ اس قدر واضح ہوتی ہیں کہ اہل ایمان کی پہچان میں کوئی غلطی نہیں ہوتی ۔ اور کفر کی بھی کچھ علامات ہوتی ہیں اور اہل کفر کی پہچان میں بھی غلطی نہیں ہوسکتی ۔ فرماتے ہیں : ” اللہ وہ ‘ زندہ جاوید ہستی ‘ جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے ‘ حقیقت میں اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ‘ اس نے تم پر کتاب نازل کی ‘ جو حق لے کر آئی ہے ‘ اور ان کتابوں کی تصدیق کررہی ہے جو پہلے آئی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لئے تورات و انجیل نازل کرچکا ہے ‘ اور اس نے وہ کسوٹی اتاری ہے ۔ اب جو لوگ اللہ کے فرامین قبول کرنے سے انکار کریں۔ ان کو یقیناً سخت سزا ملے گی ۔ “ اللہ بےپناہ طاقت کا مالک ہے اور برائی کا بدلہ دینے والا ہے ‘ زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ‘ تمہاری صورتیں ، جیسی چاہتا ہے بناتا ہے ‘ اس زبردست حکمت والے کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔ وہی اللہ ہے ‘ جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی۔ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں ۔ ایک محکمات جو کتاب کی اصل بنیادیں ہیں ۔ اور دوسری متشابہات ‘ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں ‘ حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ بخلاف اس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ۔” ہمارا ان پر ایمان ہے ‘ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں ‘ اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔ “ (١ : ٣ تا ٨) ” اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ‘ اور فرشتوں اور سب اہل علم نے بھی شہادت دی ہے ‘ وہ انصاف پر قائم ہے ‘ اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی اللہ نہیں ‘ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ‘ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کئے جنہیں کتاب دی گئی تھی ۔ ان کے اس طرزعمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آجانے کے بعد ‘ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لئے ایسا کیا ‘ اور جو کوئی اللہ کے احکام وہدایات کی اطاعت سے انکار کردے ‘ اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ۔ اور اس سبق میں ایک تہدید تو ایسی آئی ہے جس میں روئے سخن یہود کی طرف ہے ‘ مثلاً فرمایا ” جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ‘ جو نبیوں کو ناحق قتل کرتے ہیں ‘ اور ان لوگوں کو بھی قتل کرتے ہیں جو عدل و انصاف کا حکم دیتے ہیں تو انہیں درناک عذاب کی خوشخبری دیجئے ۔ “ قتل انبیاء کا ذکر آتے ہی ذہن یہودیوں کی طرف چلا جاتا ہے ‘ اس لئے کہ یہ کارنامہ وہی سرانجام دیتے رہے ہیں ۔ ایک دوسری آیت میں آیا ہے ۔” اہل ایمان اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں ۔ “ اس آیت میں اگرچہ لفظ کافر واقع ہے تاہم اس سے مراد غالباً یہودی ہیں ‘ اگرچہ اس میں مشرکین بھی شامل ہوسکتے ہیں ۔ اس لئے تحریک اسلامی کے اس دور تک بعض مسلمان ‘ اپنے کافر مشرکین اقارب اور یہودیوں میں سے اپنے دوستوں کے ساتھ تعلقات قائم کئے ہوتے تھے ۔ اس لئے یہاں انہیں اب ایسے تعلقات جاری رکھنے سے منع کردیا گیا اور اس قدر سخت الفاظ میں ان تعلقات کے انجام بد سے ڈرایا گیا ‘ چاہے یہ دوست یہودی ہوں یا مشرکین ہوں ۔ کیونکہ سب کے الکافرین کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اسی طرح ایک دوسری آیت ” ان لوگوں کو کہہ دو جنہوں نے کفر اختیار کیا ‘ تم عنقریب مغلوب ہوگے اور تمہیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا ‘ جو بہت ہی برا ٹھکانہ ہے ‘ تمہارے لیے ان دوگروہوں میں سامان عبرت ہے جو ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے ‘ ایک اللہ کی راہ میں لڑرہا تھا اور دوسرا کافر تھا ‘ دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دوچند تھا۔ “ اس آیت میں غزوہ بدر کے واقعات کی طرف اشارہ ہے ‘ لیکن خطاب یہودیوں سے ہے ‘ اس سلسلے میں حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت منقول ہے ‘ فرماتے ہیں کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن قریش کو شکست دی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ طیبہ لوٹے تو یہودیوں کو جمع کیا تو انہیں یہ نصیحت کی کہ اس سے قبل کے تمہارا وہ حال ہوجائے جو قریش کا ہو ‘ تم مسلمان ہوجاؤ۔ انہوں نے کہا : محمد ! بیشک تم نے قریش کے چند آدمیوں کو قتل کردیا ہے مگر اس سے کہیں غرور میں مبتلا نہ ہوجاؤ کیونکہ وہ ناتجربہ کار تھے اور جنگ کے بارے میں زیادہ جانتے نہ تھے ۔ اگر تم نے ہمارے ساتھ جنگ کی تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم کچھ لوگ ہیں شائد آپ کو ہم جیسے لوگوں کبھی واسطہ نہ پڑے ۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت فرمائی کہ ” ان لوگوں سے کہہ دو کہ جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ‘ بہت جلدی تم مغلوب ہوجاؤگے اور پھر جہنم کی طرف تمہیں اٹھایاجائے گا “………ان الفاظ تک ” ایک گروہ اللہ کے راستے میں لڑتا ہے ۔ “ یعنی بدر میں اور ” دوسرا کافر ہے۔ “ (ابوداؤد) اس طرح اس سبق کی آیت ” اب اگر یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں ‘ کیا تم نے بھی اس کی اطاعت اور بندگی قبول کی ؟ “ اگر کی ‘ تو راہ راست پاگئے اور اگر اس سے منہ موڑا تو تم پر صرف پیغام پہنچانا ہے ۔ آگے اللہ خود اپنے بندوں کے معاملات دیکھنے والا ہے ۔ “ (٦٠ : ٣ میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے ‘ اور یہ خطاب اگرچہ اہل کتاب کے ساتھ نظریاتی مباحثہ کے اس سبق کے آغاز میں ہے ‘ تاہم یہ عام ہے اور مخالف خواہ اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب ہوں ‘ اس آیت کا آخری حصہ ” اگر انہوں نے منہ موڑا تو تم پر صرف پیغام پہنچانے کی ذمہ داری ہے ۔ “ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اہل کتاب کے خلاف جہاد فرض نہ ہوا تھا۔ اور آپ ان سے جزیہ بھی وصول نہ کرتے تھے ۔ جس سے ہمارا یہ نظریہ درست معلوم ہوتا ہے کہ اس سبق میں جو زیر بحث آیات ہیں وہ ہجرت کے بعد ابتدائی دور میں نازل ہوئیں۔ غرض ان تمام آیات پر اچھی طرح غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تعلق کسی ایک واقعہ مثلاً قدوم نجران سے نہیں ہے ‘ ان میں دی گئی ہدایات عام ہیں اور ان کا انطباق تمام مخالفین اسلام پر ہوتا ہے ‘ ہاں جن واقعات کی نسبت سے ان آیات کا نزول ہوا ہے۔ ایسے واقعات میں ایک واقعہ وفد نجران کا بھی ہوسکتا ہے ‘ کیونکہ ان ابتدائی دنوں میں ایسے مواقع بار بار وقوع پذیر ہوا کرتے تھے ۔ کیونکہ اس دور میں جزیرۃ العرب میں مسلمانوں اور ان کے مخالفین کے درمیان ایک ہمہ گیر نظریاتی جنگ جاری تھی ۔ خصوصاً یہود مدینہ کے ساتھ۔ اس پہلے سبق میں اسلامی تصور حیات کے بارے میں نہایت ہی اہم بنیادی تصورات کو پیش کیا گیا ہے ۔ اس نظریہ حیات کی نوعیت اور اس کے مزاج کے بارے میں بھی اہم وضاحتیں دی گئی ہیں۔ نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس نظریہ حیات کے عملی اثرات ‘ انسانی زندگی پر کیا مرتب ہوتے ہیں ‘ وہ آثار جو لازمہ ایمان ہیں ‘ مثلاً اللہ تعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک سمجھنا ‘ اور اس کا لازمی نتیجہ یہ بتا گیا ہے کہ ایک مؤحد اللہ کا مسلم بھی ہوجائے ‘ یہی دین ہے اور اس کے سوا کوئی دین نہیں ہے۔ اور مسلم ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کردے اور اس کی اطاعت کرے ۔ اس کے اوامر کو مانے ‘ اس کی شریعت کو مانے ‘ اس کے رسول اور رسول کے طریقہ زندگی کا اتباع کرے۔ پس اس نظریہ حیات کی رو سے اگر کوئی سر تسلیم خم نہیں کرتا ‘ کوئی اطاعت نہیں کرتا ‘ کوئی رسول کا اتباع نہیں کرتا تو وہ مسلم نہیں ہے۔ لہٰذا وہ ایسا دیندار نہیں ہے جس کے دین کو اللہ نے پسند کیا ہو۔ اور اللہ نے صرف اسلام کو پسند کیا ہے ۔ اور اسلام جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا مکمل طور پر سر تسلیم خم کردینے ‘ اطاعت کرنے اور اتباع کرنے کا نام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم بڑے تعجب کے ساتھ اہل کتاب پر یہ تبصرہ کرتا ہے جب انہیں اس طرف بلایا جاتا ہے کہ آؤ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں یَتَوَلّٰی فَرِیقٌ مِّنھُم وَھُم مُّعرِضُونَ وہ منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی اصلاح میں یہ اعراض کفر کے ہم معنی ہے ‘ اور اس اعراض سے ان کے دعوائے ایمان کی قلعی کھل جاتی ہے اور اس سے ایمان کی نفی ہوتی ہے۔ اس حقیقت کی مزید وضاحت اس سورت کے حصہ دوئم میں کی گئی ہے ………اس قدر اجمالی تعارف کے بعد اب مناسب ہے کہ اس درس کی آیات کی مفصل تشریح و تفسیر پیش کی جائے۔ یہ حروف مقطعات ہیں ‘ ان کی کوئی توضیح وتشریح تو ممکن نہیں ہے ‘ البتہ ترجیحی بنیاد پر ‘ میں اس کا وہی مفہوم بیان کرتا ہوں ‘ جو میں نے سورة بقرہ کے ابتداء میں بیان کیا تھا ‘ یعنی یہ اس چیلنج کی طرف اشارہ ہے کہ یہ کتاب انہی حروف سے بنی ہے ‘ جو مخالفین اسلام کے دسترس میں ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود یہ کتاب معجزہ ہے ‘ اور مخالفین اس جیسی کتاب لانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان حروف کی جس تفسیر کو ہم نے ترجیح دی ہے ‘ متعددسورتوں میں اس چیلنج کی تشریح یا اشارہ خود اس سورت میں بھی پایا جاتا ہے جس کی ابتداء میں یہ حروف وارد ہوئے ہیں ۔ مثلاً سورة بقرہ میں یہ اشارہ بطور صریح چیلنج موجود ہے وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (٢٣) ” اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے ‘ یہ ہماری ہے یا نہیں تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنالاؤ ‘ اپنے سارے ہم نواؤں کو بلالو ‘ ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو ‘ مدد لے لو ‘ اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر دکھاؤ۔ “ (٢٣ : ٢) زیربحث سورة آل عمران میں ‘ تحدی اور چیلنج کا اشارہ ایک دوسری نوعیت سے کیا گیا ہے ‘ یہ کہ یہ کتاب اس اللہ کی جانب سے نازل کی گئی ہے ۔ جس کے سوا کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے ۔ اور یہ انہی حروف وکلمات سے مولف ہے جن حروف وکلمات میں تمام دوسری کتب سماوی نازل ہوئی تھیں ۔ اور جن پر خود اہل کتاب ایمان لاچکے ہیں ‘ جن سے اس سورت کا زیادہ تر خطاب متعلق ہے ۔ اس لئے یہ بات کوئی قابل تعجب یا قابل انکار نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان ہی حروف سے مولف ایک نئی کتاب اپنے رسول پر نازل کرے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

الم : یہ حروف مقطعات میں سے ہیں متشابہات میں شمار کیے جاتے ہیں ان کا معنی اللہ ہی کو معلوم ہے۔ جیسا کہ سورة بقرہ کے شروع میں بیان کیا گیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2 ۔ پہلا حصہ۔ توحید ذکرِ مضمون توحید بار اول :۔ اس پر کلام سورة بقرہ میں گذر چکا ہے۔ اللہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۔ یہ دعویٰ توحید ہے۔ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ مبتدا محذوف کی خبر ہے (مدارک ج 1 ص 113) یہاں سے لے کر اَلْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ تک دعوی توحید کی پہلی دلیل ہے۔ جو تین ضمنی دلیلوں پر مشتمل ہے۔ (1 1) دلیل وحی۔ (2) دلیل نقلی اور (3) دلیل عقلی۔ پہیل دونوں دلیلوں کا ذکر اشارۃً ہے اور تیسری کا صراحۃً ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 الم ( تیسیر) سورۂ بقرہ کی ابتداء میں عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ حروف مقطعات ہیں اور ان کی مراد اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جو حضرات ا س کے معنی بیان کرتے ہیں وہ حقیقی معنی کے مدعی نہیں اور جو اس کے معنی بیان کرنے سے انکار کرتے ہیں وہ حقیقی معنی کا انکار کرتے ہیں ۔ اس لئے دونوں فریق میں محض لفظی نزاع کے علاوہ کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اس کے حقیقی معنی سے آگاہ کردیا ہو۔ (تسہیل)