Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 134

سورة آل عمران

الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۳۴﴾ۚ

Who spend [in the cause of Allah ] during ease and hardship and who restrain anger and who pardon the people - and Allah loves the doers of good;

جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ، غصّہ پینے والے اور لوگوں سے درگُزر کرنے والے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاء وَالضَّرَّاء ... Those who spend (in Allah's cause) in prosperity and in adversity, in hard times and easy times, while active (or enthusiastic) and otherwise, healthy or ill, and in all conditions, just as Allah said in another Ayah, الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَلَهُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَنِيَةً Those who spend their weal... th (in Allah's cause) by night and day, in secret and in public. (2:274) These believers are never distracted from obeying Allah, spending on what pleases Him, being kind to His servants and their relatives, and other acts of righteousness. Allah said, ... وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ... who repress anger, and who pardon men; for when they are angry, they control their anger and do act upon it. Rather, they even forgive those who hurt them. Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah said that the Prophet said, لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ وَلكِنَّ الشَّدِيدَ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَب The strong person is not he who is able to physically overcome people. The strong person is he who overcomes his rage when he is angry. This Hadith is also recorded in the Two Sahihs. Imam Ahmad recorded that Ibn Abbas said that the Messenger of Allah said, مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ لَهُ وَقَاهُ اللهُ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ He who gives time to a debtor or forgives him, then Allah will save him from the heat of Jahannam (Hell-fire). أَلاَ إِنَّ عَمَلَ الْجَنَّـةِ حَزْنٌ بِرَبْوَةٍ ثَلَثًا أَلاَ إِنَّ عَمَلَ النَّارِ سَهْلٌ بِسَهْوَةٍ وَالسَّعِيدُ مَنْ وُقِيَ الْفِتَنَ Behold! The deeds of Paradise are difficult to reach, for they are on top of a hill, while the deeds of the Fire are easy to find in the lowlands. The happy person is he who is saved from the tests. وَمَا مِنْ جَرْعَةٍ أَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنْ جَرْعَةِ غَيْظٍ يَكْظِمُهَا عَبْدٌ مَا كَظَمَهَا عَبْدٌ للهِ إِلاَّ مَلََ جَوْفَهُ إِيمَانًا Verily, there is no dose of anything better to Allah than a dose of rage that the servant controls, and whenever the servant of Allah controls it, he will be internally filled with faith. This Hadith was recorded by Imam Ahmad, its chain of narration is good, it does not contain any disparaged narrators, and the meaning is good. Imam Ahmad recorded that Sahl bin Mu`adh bin Anas said that his father said that the Messenger of Allah said, مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ قَادِرٌ عَلى أَنْ يُنْفِذَهُ دَعَاهُ اللهُ عَلى رُوُوسِ الْخَلَيِقِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ مِنْ أَيِّ الْحُورِ شَاء Whoever controlled rage while able to act upon it, then Allah will call him while all creation is a witness, until He gives him the choice of any of the Huris (fair females with wide, lovely eyes - as mates for the pious) he wishes. Abu Dawud, At-Tirmidhi and Ibn Majah collected this Hadith, which At-Tirmidhi said was "Hasan Gharib". Ibn Marduwyah recorded that Ibn Umar said that the Messenger of Allah said, مَا تَجَرَّعَ عَبْدٌ مِنْ جَرْعَةٍ أَفْضَلَ أَجْرًا مِنْ جَرْعَةِ غَيْظٍ كَظَمَهَا ابْتِغَاءَ وَجْهِ الله There is not a dose of anything that the servant takes which is better than a dose of control of rage that he feels, when he does it seeking Allah's Face. Ibn Jarir and Ibn Majah also collected this Hadith. Allah said, ... وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ ... who repress anger, meaning, they do not satisfy their rage upon people. Rather, they refrain from harming them and await their rewards with Allah, the Exalted and Most Honored. Allah then said, ... وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ... and who pardon men; They forgive those who treat them with injustice. Therefore, they do not hold any ill feelings about anyone in their hearts, and this is the most excellent conduct in this regard. This is why Allah said, ... وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ verily, Allah loves the Muhsinin (the good-doers). This good conduct is a type of Ihsan (excellence in the religion). There is a Hadith that reads, ثَلَثٌ أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ مَا نَقَصَ مَالٌ مِنْ صَدَقَةٍ وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلاَّ عِزًّا وَمَنْ تَوَاضَعَ للهِ رَفَعَهُ الله I swear regarding three matters: no charity shall ever decrease the wealth; whenever one forgives people, then Allah will magnify his honor; and he who is humble for Allah, then Allah will raise his rank. Allah said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

134۔ 1 محض خوش حالی میں ہی نہیں، تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہی کہ ہر حال اور ہر موقع پر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ 134۔ 2 یعنی جب غصہ انہیں بھڑکاتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں یعنی اس پر عمل نہیں کرتے اور ان کو معاف کردیتے ہیں جو ان کے ساتھ برائی کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٩] اگر قرآنی آیات کی ترتیب پر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر کہیں دوزخ کا ذکر فرمایا تو اس کے ساتھ ہی جنت کا ذکر فرمایا اور اس کے برعکس بھی اسی طرح اگر کہیں اسباب دخول دوزخ کا ذکر فرمایا تو اسی مناسبت سے اسباب دخول جنت کا ذکر فرما دیا اور اس کے برعکس بھی۔ یہاں بھی یہی صو... رت حال ہے۔ سود خواری، جو دوزخ میں دخول کا سبب ہے، کے بعد جنت اور اس میں داخل ہونے والے پرہیزگاروں کی چند صفات کا ذکر فرمایا۔ ان میں سب سے پہلی صفت انفاق فی سبیل اللہ ہے جو سود خوری کی عین ضد اور معاشرہ پر اس کے اثرات سود کے اثرات کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ مثلاً سود خوری سے سود خوار میں حرص و طمع، بخل اور زر پرستی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں اور سود دینے والے میں سود خور کے خلاف نفرت بغض اور حسد پیدا ہوتا ہے اور یہ صورت حال معاشرہ میں طبقاتی تقسیم پیدا کرکے کسی بڑے فتنہ کا پیش خیمہ بن جاتی ہے جبکہ صدقہ و خیرات دینے سے دینے والے کے دل میں بخل کے بجائے سماحت اور خوشی پیدا ہوتی ہے تو لینے والے کے دل میں احسان مندی اور شکرگزاری کے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ جس سے پورے معاشرے میں ایک دوسرے سے ہمدردی، مروت اور اخوت، اتفاق اتحاد اور محبت جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں اور یہی چیز ایک اسلامی معاشرہ کی روح رواں ہے اور اسی لیے کتاب و سنت میں انفاق فی سبیل اللہ پر بہت زور دیا گیا ہے اور زکوٰۃ فرض کی گئی ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ متقین کی پہلی صفت یہ ہے کہ خواہ خوشحالی کا دور ہو یا تنگدستی کا وہ ہر حال میں اپنی حیثیت اور وقت کے تقاضا کے مطابق اللہ کی راہ میں ضرور خرچ کرتے ہیں۔ چناچہ آپ نے کئی مواقع پر غریب مسلمانوں کو صدقہ کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ (اتقوا النار ولو بشق تمرۃ) (بخاری، کتاب الادب، باب طیب الکلام۔۔ ) یعنی دوزخ کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ دے کر بچو اور اس ترغیب سے مقصود بخل اور حرص جیسی مہلک بیماریوں کا علاج ہے۔ [١٢٠] متقین کی دوسری صفت یہاں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ غصہ کو پی جاتے اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں، غصہ ہمیشہ ایسے شخص پر آتا ہے جو اپنے سے کمزور ہو اور انسان اس سے انتقام لینے کی قدرت رکھتا ہو۔ ایسے وقت میں غصہ کو برداشت کر جانا فی الواقعہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ بہادر وہ نہیں جو کسی دوسرے کو لڑائی سے پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کو برداشت کر جائے۔ نیز ایک دفعہ ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! && مجھے کچھ وصیت فرمائیے && آپ نے فرمایا : && غصہ نہ کیا کرو && اس نے بار بار وصیت کی درخواست کی اور آپ ہر بار یہی جواب دیتے رہے کہ غصہ نہ کیا کرو && (بخاری۔ کتاب الادب، باب الحذر من الغضب) غصہ پی جانا اور معاف کردینا دو الگ الگ کام ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص وقتی طور پر غصہ پی جائے اور بات دل میں رکھے اور پھر کسی وقت اس سے انتقام لے لے۔ گویا غصہ پی جانے کے بعد قصور وار کو معاف کردینا ایک الگ اعلیٰ صفت ہے اور اللہ ایسے ہی نیکو کار لوگوں سے محبت رکھتا ہے جس میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہوں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ ۔۔ : ان آیات میں اہل جنت کی صفات کا ذکر ہے، چناچہ ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ خوش حالی اور تنگ دستی ہر حالت میں وہ اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں اور نیک کاموں اور رضائے الٰہی کے لیے مال صرف کرنے سے انھیں کوئی چیز غافل نہیں کرتی۔ (ابن کثیر) وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظ۔۔ : ... ان کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ غصہ سے مغلوب ہونے کے بجائے اس پر قابو پالیتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پہلوان وہ نہیں جو پچھاڑ دینے والا ہو، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔ “ [ بخاری، الأدب، باب الحذر من الغضب : ٦١١٤، عن أبی ہریرۃ (رض) ] ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی : ” مجھے وصیت فرمائیے۔ “ آپ نے فرمایا : ( لاَ تَغْضَبْ ) ” غصہ مت کر۔ “ اس نے کئی دفعہ درخواست دہرائی، آپ نے یہی فرمایا : ( لاَ تَغْضَبْ ) ” غصہ مت کر۔ “ [ بخاری، الأدب، باب الحذر من الغضب : ٦١١٦۔ ترمذی : ٠٢٠ ] ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ اجر والا گھونٹ، غصے کا گھونٹ ہے، جو آدمی اللہ کے چہرے کی طلب میں پی لیتا ہے۔ “ [ احمد : ٢؍١٢٨، ح : ٦١١٩۔ ابن ماجہ، الزھد، باب الزھد : ٤١٨٩ ] 3 َ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۭ : یہ دراصل غصہ پی جانے کا لازمی تقاضا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تین چیزوں پر میں قسم کھاتا ہوں، صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ معاف کردینے سے بندے کی عزت میں اضافہ ہی کرتا ہے اور جو اللہ کے لیے نیچا ہوتا ہے اللہ اسے اونچا کردیتا ہے۔ “ [ مسلم، البر والصلۃ، باب استحباب العفو : ٢٥٨٨۔ عن أبی ہریرۃ (رض) ] اور یہ احسان کا مقام ہے اور اللہ محسنین سے محبت رکھتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary God-fearing Muslims can be identified by the traits of their character and the marks of their manner. So many benefits lie hidden behind their example and practice. This is the subject of the present verses. Allah Almighty has made God-fearing Muslims to live as models for others. For instance, the Holy Qur&an has, at so many places, emphasised the need to seek guidance and benefit...  from the company of the men of Allah. The verse: صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (the path of those whom You have blessed - 1:6) from Surah al-Fatihah clearly indicates that the straight and correct path of Faith has to be learnt from these very favoured servants of Allah. Then, there is the exhortation: كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (be with the truthful - 9:119) which shows how useful the company of such people really is. But there are all sorts of people in the world, including the clever ones who would pose as good and try to impersonate the genuine ones. For this reason, it was necessary to draw a fine line of distinction between the true and the false and to show how the favoured men of Allah can be identified by their special traits of character. Once this is known, people would abstain from wrong leaders and guides and would use the God-given guidance to first become sure of the true ones and then follow them. By having identified the traits and marks of God-fearing Muslims, and having stated that they are the ones deserving of ultimate success and of elevated stations in Paradise, the righteous have been given a good news (of receiving the same reward, if they follow them) and the evil-doers are exhorted and persuaded to mend themselves and follow the God-fearing. This is exactly what has been hinted at in هَـٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ﴿١٣٨﴾ (This is a declaration for mankind, and a guidance, and a lesson for the God-fearing - 3:138), appearing towards the end of these verses. While describing the traits and marks of the God-fearing, the qualities relating to human rights and social behaviour have been mentioned first, and the qualities relating to the rights of Allah after them. This is to indicate that the rights of Allah, despite their supreme status above all rights, are not meant to benefit Allah in any way. Allah does not need any of them, nor does He stand to suffer in any way what¬soever, if they are not fulfilled. His Being is absolutely free of all these concerns. The one who worships Him is the one who gains. Moreover He is Very-Merciful, therefore, whenever a person falls short in the fulfillment of His rights, he may regret any time for what he did, turn to Him and repent genuinely and sincerely, whereby all his sins can be instantly forgiven from that eternal fountain of Mercy and Nobility. Contrary to this, there is the case of the rights of the servants of Allah - man has to fulfill these. In addition to that, if A has rights against B and B does not fulfill those rights, naturally A runs into loss. It is not that easy to forgive and forget loss suffered by one human being at the hands of the other. Therefore, Huququl-ibad حُقُوقُ العِبَاد or the rights of the servants of Allah have particular importance of their own. Moreover, the correct balance in our universal order and the reformed pattern of our human society hinges on the fulfillment of mutual rights. A slight shortfall in this direction can trigger disorders, fights and wars. Conversely, should high morals be inculcated and practiced, even enemies would turn into friends. Feuds raging through centuries can subside into peace and bliss. This is one more reason why traits and marks relating to human rights have been taken up first. Verse 134 announces the first of these traits as follows: The habit of spending in the way of Allah in prosperity and adversity: The verse reads: الَّذِينَ فِي السَّرَّ‌اءِ وَالضَّرَّ‌اءِ ; (Those who spend in the way of Allah in prosperity and adversity). It mean, that they are so used to spending for the good pleasure of Allah that they do spend whatever they can under all conditions, be it prosperity or adversity - more from more and less from less. Three points of guidance emerge from this statement: 1. That those poor should not consider themselves to be totally free from the obligation of spending in the way of Allah. By doing so, they may be depriving themselves of the open opportunity to spend in His way, for the status of spending one dollar out of a thousand dollars is the same with Allah Almighty as is the status of spending one penny out of a thousand pennies. For all practical purposes, the way the owner of a thousand dollars does not find it all that difficult to spend one dollar in the way of Allah, very similarly, the owner of a thousand pennies should not really be hurt by spending one penny. 2. On the other hand, the point made here is that those who keep on spending within the limitations of their capacity to spend, especially when their circumstances are straightened, would discover to their delight that, by doing so, the blessed style of giving and the wonderful habit of sharing with others less fortunate has come to stay and that it will not go extinct. May be, the very benedictory quality of such conduct draws mercy from Allah Almighty and He, in His infinite grace, bestows on such a person new openings and new increases in his means of sustenance. 3. Yet another beneficial aspect of this guidance is worthy of serious notice. Think of one who is in the habit of spending what he has on other human beings, making it possible for them to benefit through his efforts, helping the poor, the needy and the deprived. It is obvious that such a person would never even think of usurping the rights of others against their wishes. So, the core of this quality of character is that true Muslims, the God-fearing and the favoured servants of Allah, are always on the lookout for opportunities to pass on benefits to other human beings irre¬spective of their being rich or poor. There was an occasion when Sayyidah ` A&ishah (رض) ، may Allah be pleased with her, gave away one, just one piece of grape in charity because she had absolutely nothing with her at that time. According to another early report, there was a time when she gave one onion in charity. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: إتَّقُوا النار ولو بشق تمرۃ وردوا السایٔل ولو بظلف شاۃ Guard yourself against the Fire even if it be by giving a piece of date in charity and do not turn back one who begs empty-handed even if it be by giving a cloven hoof from a goat. In a hadith reported by Imam al-Razi (رح) in his al-Tafsir al-Kabir it is said that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، on a certain day, exhorted people to spend in charity. In response, those who had gold and silver with them lost no time in giving these out in charity. Somebody brought date-flakes because he had nothing else to give away. The date-flakes were accepted and given in charity. Then came another person who said: &0 Messenger of Allah, I have nothing to spend in charity, however, I am known as a man of honour among my people, so I give my sense of honour in charity, after which I shall never be angry with a person in future, no matter how much he insults me&. The teachings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the way they were understood and practiced by the noble Companion, may Allah be pleased with them all, make it obvious that spending in the way of Allah is not limited to the well-to-do and the wealthy. This quality of character can also be possessed by the poor and the less fortunate. They too can have that great attribute by spending in the way of Allah a little of whatever they can in proportion to their respective capaci-ties. Not By Wealth Alone: Other Options of Spending in the Way of Allah: It is important to note at this point that the Holy Qur&an uses the word يُنفِقُونَ which means that they spend in the way of Allah under all conditions, of prosperity and of adversity. However, it does not determine the &what& of spending. The generality of the statement here seems to suggest that it includes not only money, but everything else that can be &spent&. For example, one who &spends& his time and labour in the way of Allah, he too shall be credited with the quality of انفاق فی سبیل اللہ infaq fi sabilillah or spending in the way of Allah. The hadith quoted above supports this view. The Wisdom behind the mention of prosperity and adversity: May be, these are the two conditions of life in which man habitually tends to forget Allah. He will do that when very rich and upto the neck in luxury. He could also do that, fairly often, when worrying about his adversity. So, the verse clearly settles that the favoured servants of Allah are unique in their character who never forget Allah, neither in luxury nor in distress. How aptly the last Moghul Emperor of Dehli, Bahadur Shah Zafar made this Qur&anic idea the subject of his poetry when he said: ظفر آدمی اس کو نہ جانٔیے گا خواہ کتنا ہی صاحب فہم و ذکا جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا &0 Zafar, not much of a man is he, no matter how wise he be, He who does not remember Allah when wealthy, he who does not fear Allah when angry. From Rage and Revenge to Forgiveness and Favour: This leads us to the next hallmark of a true Muslim. It has been said that they, if hurt by someone, do not flare up in anger and do not lose their self-control. Going a step further, they do not submit to the dictates of their anger and do not go for revenge. Not only that, they simply surrender their option of taking revenge and actually forgive the wrongdoer from the depths of their heart. Not stopping at this high enough moral achievement, they rise still higher by doing good to the person who had caused pain to them. This one quality of character seems to be a combination of almost three qualities to subdue anger, to forgive the offender, and then, being good to him. All these three things have been so eloquently identified in the present verse (134): وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ and those who subdue anger and forgive people. And Allah loves those who do good... While explaining this verse, Imam al-Baihaqi (رح) has narrated an amazing episode from the life of Hadrat Zainul` abidin) ibn Sayyidna Husain (رض) . The report says that his maid was helping him in his wudu (ablution) when, all of a sudden, the water-pitcher slipped out of her hands spilling water all over Hadhrat ` Ali (Zainul` abidin) ibn Sayyidna Husain (رض) ۔ His clothes got wet. It was natural that he would be angry.. The maid sensed the impending danger and lost no time in reciting the following verse of the Qur&an: وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ (...and those who suppress anger and forgive people). Hearing this, the venerated scion of the Prophet&s household lost whatever rash of anger he may have felt. He became totally silent. The maid then recited the second sentence of the verse: اللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ And Allah loves those who do good). Since this sentence implicitly instructs people to be good to others and thus be loved by Allah, so Hadrat ` Ali (Zainul` abidin) ibn Sayyidna Husain (رض) once he heard it, said: &All right, go. I give you your freedom.& (Ruh al-Ma` ni with reference to Baihaqi) Forgiving people their mistakes and shortcomings is a quality that ranks very high in human morals. Besides, its merit in the life-to-come is much, higher. In hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has &been reported to have said: |"On the Day of Resurrection, a proclamation will go forth from Allah Almighty asking if anyone had any rights due to Him. If so, let him stand. Those who shall rise on that occasion will be the ones who would have forgiven the injustices done to them by people in their life on earth.|" In yet another hadith, it has been said: من سرہ ان یشرف لہ البنیان و ترفع لہ الدرجات فلیعف عن من ظلمہ و یعط من حرمہ ویصل من قطعۃ |"Anyone who likes to have lofty palaces in Paradise and wishes to have his ranks elevated, should forgive the one who has done injustice to him and present gifts to the one who has never given him anything and join up with the one who has severed relations with him.|" At another place in the Holy Qur&an, the text is far clearer when it teaches the great moral of doing good to those who do evil and establishes how enemies turn into friends through this noble method. There it was said: ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ Repel evil with what is best, then the one, between whom and you there is enmity, shall become as if he was a fast friend. (41:34) This was the supreme measure of the moral training given to His noble Messenger by Allah Almighty. The guideline given to him was: صَل من قطعک واعف عمَّن ظلمک واحسن الی من اساء الیک Join with him who severs relations with you and forgive him who does injustice to you and do good to him who is bad to you. The moral grandeur of the Holy Prophet, may the peace and blessings of Allah be upon him, is unique and eminent. We can only think of the blessing of his teachings which so successfully ingrained even in his servants morals and traits of character similar to his own. Being the distinctive feature of a true Islamic society, there are hundreds and thousands of models visible in the lives of the Companions, their successors and among the venerated elders of the Muslim community. There is an apt incident in the life of the great Imam Abu Hanifah (رح) . Someone accosted him in a busy market place and heaped all sorts of insults and invectives on him. The great Imam controlled his anger and said nothing to him. He went home, took out a considerable quan¬tity of gold and silver coins, put them in a gift-wrapped tray and went out to the home of his confronter. He knocked at his door. When this person came out, he presented this tray full of coins before him saying: &Today, you did something very good to me. You gave me (something) of your good deeds (that you had done). It is in gratitude of this great favour of yours that I am presenting this gift to you.& The Imam&s unusual conduct naturally affected the man. He repented and got rid of his bad habit forever. After asking for Imam&s forgiveness, he entered into his circle as a disciple and finally became a great scholar.  Show more

خلاصہ تفسیر : ایسے لوگ (ہیں) جو کہ ( نیک کاموں میں) خرچ کرتے ہیں (ہر حال میں) فراغت میں (بھی) اور تنگی میں (بھی) اور غصہ کے ضبط کرنے والے اور لوگوں (کی تقصیرات) سے درگزر کرنے والے اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کو (جن میں یہ خصال ہوں بوجہ اکمل) محبوب رکھتا ہے اور (ایک ان مذکورین کے اعتبار سے دوسرے ... درجہ کے مسلمان) ایسے لوگ (ہیں) کہ جب کوئی ایسا کام کر گزرتے ہیں جس میں (دوسروں پر) زیادتی ہو یا (کوئی گناہ کر کے خاص) اپنی ذات کا نقصان کرتے ہیں تو (فورا) اللہ تعالیٰ (کی عظمت اور عذاب) کو یاد کرلیتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں، (یعنی اس طریقہ سے جو معافی کے لئے مقرر ہے کہ دوسروں پر زیادتی کرنے میں ان اہل حقوق سے بھی معاف کرائے اور خاص اپنی ذات کے متعلق گناہ میں اس کی حاجت نہیں، اور اللہ تعالیٰ سے معاف کرانا دونوں میں مشترک ہے) اور (واقعی) اللہ تعالیٰ کے سوا اور ہے کون جو گناہوں کو بخشتا ہو (رہا اہل حقوق کا معاف کرنا سو وہ لوگ اس کا اختیار تو نہیں رکھتے کہ عذاب سے بھی بچالیں اور حقیقی بخشش اسی کا نام ہے) اور وہ لوگ اپنے فعل (بد) پر اصرار (اور ہٹ) نہیں کرتے اور وہ (ان باتوں کو) جانتے بھی ہیں (فلاں کام ہم نے گناہ کا کیا اور یہ کہ توبہ ضرور ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ غفار ہے، مطلب یہ کہ اعمال کی بھی درستی کرلیتے ہیں، اور عقائد بھی درست رکھتے ہیں) ان لوگوں کی جزاء بخشش ہے ان کے رب کی طرف سے اور (بہشت کے) ایسے باغ ہیں کہ ان کے (درختوں اور مکانوں کے) نیچے سے نہریں چلتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے (اور اسی مغفرت اور جنت کی تحصیل کا شروع آیتوں میں حکم تھا، بیچ میں اس کا طریقہ بتلایا، ختم پر اس کا وعدہ فرمایا) اور (یہ) اچھا حق الخدمت ہے ان کام کرنے والوں کا (وہ کام استغفار اور حسن اعتقاد ہے اور استغفار کا نتیجہ آئندہ اطاعت کی پابندی ہے جس پر عدم اصرار دلالت کرتا ہے) بالتحقیق تم سے قبل (زبانوں میں) مختلف طرق (کے لوگ) گزر چکے ہیں (ان میں مسلمان بھی تھے اور کفار بھی اور ان میں اختلاف و مقابلہ و مقاتلہ بھی ہوا، لیکن انجام کار کفار ہی ہلاک ہوئے، چناچہ اگر تم آثار کا مشاہدہ کرنا چاہو) تو تم روئے زمین پر چلو پھرو، اور دیکھ لو کہ اخیر انجام تکذیب کرنے والوں کا (یعنی کفار کا) کیسا ہوا، (یعنی ہلاک و برباد ہوئے، چناچہ ان کی ہلاکت کے آثار اس وقت تک بھی باقی تھے، جس کو دوسری آیت میں فرمایا ہے فتلک بیوتھم خاویۃ (٢٧: ٥٢) فتلک مساکنھم لم تسکن (٢٨: ٥٨) وانھما لبامام مبین (١٥: ٧٩) یہ (مضمون مذکور) بیان کافی ہے تمام لوگوں کے لئے (کہ اگر اس میں غور کریں تو عبرت حاصل کرسکتے ہیں) اور ہدایت اور نصیحت ہے خاص خدا سے ڈرنے والوں کے لئے (یعنی ہدایت اور نصیحت بھی یہی لوگ حاصل کرتے ہیں، ہدایت یہ کہ اس کے موافق عمل کریں) ۔ معارف و مسائل : ان آیات میں حق تعالیٰ نے مومنین متقین کی خاص صفات اور علامات بتلائی ہیں، جن سے بہت سے فوائد متعلق ہیں، مثلا یہ کہ قرآن حکیم نے جگہ جگہ نیک بندوں کی صحبت اور ان کی تعلیم سے فائدہ اٹھانے کی تاکید فرمائی ہے، کہیں صراط الذین انعمت علیھم فرما کر دین کی سیدھی اور صحیح راہ انہی مقبول بندوں سے سیکھنے کی طرف اشارہ فرمایا، کہیں کونوا مع الصادقین فرماکر ان کی صحبت اور معیت کی خاص افادیت کی تلقین فرمائی، اور دنیا میں ہر گروہ کے اندر اچھے برے لوگ ہوا کرتے ہیں، اچھوں کے لباس میں برے بھی ان کی جگہ لے لیتے ہیں، اس لئے ضرورت تھی کہ مقبول بندوں کی خاص علامات وصفات بتلا کر یہ سمجھا دیا جائے کہ یہ لوگ غلط رہنماؤں اور مقتداؤں سے پرہیز کریں اور صادقین کی علامتیں پہچان کر ان کا اتباع کریں، مومنین متقین کی صفات و علامات بیان فرمانے کے بعد ان کی دائمی کامیابی اور جنت کے اعلی مقامات بتلا کر نیک بندوں کو خوشخبری اور بری راہوں پر چلنے والوں کے لئے نصیحت و ترغیب کا راستہ کھولا گیا ہے، ان آیات کے اخیر میں ھذا بیان للناس وھدی و موعظۃ للمتقین میں اسی کی طرف اشارہ ہے، مقبولین کی جو صفات و علامات یہاں ذکر کی گئی ہیں، اس میں ابتدائی آیات میں ان صفات کا بیان ہے جن کا تعلق انسانی حقوق اور باہمی معاشرت سے ہے، اور بعد کی آیات میں وہ صفات ہیں جن کا تعلق حق تعالیٰ کی عبادت و اطاعت سے ہے، جن کو دوسرے لفظوں میں حقوق العباد اور حقوق اللہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ متذکرہ بالا آیات میں حقوق انسانی سے متعلقہ صفات کو پہلے اور حقوق اللہ سے متعلقہ صفات کو بعد میں فرماکر اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگرچہ اصل کے اعتبار سے حقوق اللہ سارے حقوق پر مقدم ہیں، لیکن دونوں میں ایک خاص فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے حقوق بندوں پر لازم کیے ہیں ان سے نہ اللہ تعالیٰ کا اپنا کو فائدہ متعلق ہے نہ خدائے تعالیٰ کو ان کی حاجت ہے، اور نہ ان کے ادا نہ کرنے سے اللہ کا کوئی نقصان ہے، اس کی ذات سب سے بےنیاز ہے، اس کی عبادت سے فائدہ خود عبادت کرنے والے کا ہے، پھر وہ رحیم الرحماء اور کریم الکرماء بھی ہے، اس کے حقوق میں بڑی سے بڑی کوتاہی اور غلطی کرنے والا انسان جس وقت بھی اپنے کئے ہوئے پر نادم ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوجائے اور توبہ کرلے تو بارگاہ رحم و کرم سے اس کے سارے گناہ ایک دم میں معاف ہوسکتے ہیں، بخلاف حقوق العباد کے کہ انسان ان کا محتاج ہے، اور جس شخص کے حقوق کسی کے ذمہ لازم ہیں، اگر وہ ادا نہ کرے تو اس کا نقصان بھی ہے اور اپنے نقصان کو معاف کرنا بھی انسان کے لئے آسان نہیں، اس لئے حقوق العباد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ نظام عالم کی درستی اور انسانی معاشرے کی اصلاح کا سب سے بڑا دار و مدار باہمی حقوق کی ادائیگی پر ہے، اس میں ذرا سی کوتاہی جنگ وجدال اور فساد کی راہیں کھول دیتی ہے، اور اخلاق فاضلہ اگر پید اکرلئے جائیں تو دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں، صدیوں کی لڑائیاں صلح و آشتی میں تبدیل ہوجاتی ہیں، اس لئے بھی ان صفات و علامات کو مقدم کیا گیا جن کا تعلق انسانی حقوق سے ہے، ان صفات میں سب سے پہلی صفت یہ بتلائی گئی ہے : (الذین ینفقون فی السراء والضراء، یعنی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کے ایسے عادی اور خوگر ہیں کہ ان پر فراخی ہو یا تنگی ہر حال میں مقدور بھر خرچ کرتے رہتے ہیں، زیادہ میں سے زیادہ اور کم میں سے کم، اس میں ایک طرف تو یہ ہدایت ہے کہ غریب فقیر آدمی بھی اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بالکل فارغ نہ سمجھیں، اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کی سعادت سے محروم نہ ہوں، کیونہ ہزار روپے میں سے ایک روپیہ خرچ کرنے کا جو درجہ ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی ہزار پیسے میں سے ایک پیسہ خرچ کرنے کا بھی ہے، اور عملی طور پر جس طرح ہزار روپے کے مالک کو ایک روپیہ اللہ کی راہ میں خرچ کردینا کچھ مشکل نہیں اسی طرح ہزار پیسوں کے مالک کو ایک پیسہ خرچ کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوسکتی۔ دوسری طرف یہ ہدایت بھی ہے کہ تنگی کی حالت میں بھی بقدر حیثیت خرچ کرتے رہنے سے خرچ کرنے کی مبارک خصلت و عادت فنا نہیں ہوگی، اور شاید اللہ تعالیٰ اسی کی برکت سے فراغت اور فراخی بھی عطا فرمادیں۔ تیسری اہم چیز اس میں یہ ہے کہ جو شخص اس کا خوگر ہو کہ دوسرے انسانوں پر اپنا مال خرچ کر کے ان کو فائدہ پہنچا سکے، غریبوں، فقیروں کی امداد کرے، ظاہر ہے کہ وہ کبھی دوسروں کے حقوق غصب کرنے اور ان کی مرضی کے خلاف ہضم کرنے کے پاس بھی نہ جائے گا، اس لئے اس پہلی صفت کا حاصل یہ ہوا کہ مومنین متقین اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے دوسرے انسانوں کو نفع پہنچانے کی فکر میں رہا کرتے ہیں، خواہ ان پر فراخی ہو یا تنگی۔ حضرت عائشہ (رض) نے ایک وقت صرف ایک انگور کا دانہ خیرات میں دیا، کیونکہ اس وقت ان کے پاس اس کے سوا کچھ نہ تھا، بعض سلف سے منقول ہے کہ کسی وقت انہوں نے صرف ایک پیاز کا صدقہ کیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : (اتقوا النار ولو بشق تمرۃ و ردوا السائل ولو بظلف شاۃ) |" یعنی تم جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ اگرچہ ایک کھجور کا ٹکڑا صدقہ میں دے کر ہی ہو، اور سائل کو خالی واپس نہ کرو اور کچھ نہ ہو تو بکری کے پاؤں کی کھری ہی دیدو |"۔ تفسیر کبیر میں امام رازی نے یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دی تو جن کے پاس سونا چاندی تھا انہوں نے وہ صدقہ میں دیدیا، ایک شخص کھجور کے چھلکے لایا، کہ میرے پاس اور کچھ نہیں، وہ ہی صدقہ کردیئے گئے، ایک اور شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس کوئی چیز صدقہ کرنے کے لئے نہیں ہے، البتہ میں اپنی قوم میں عزت دار سمجھا جاتا ہوں میں اپنی عزت کی خیرات کرتا ہوں کہ آئندہ کوئی آدمی مجھے کتنا ہی برا بھلا کہے میں اس سے ناراض نہیں ہونگا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات اور صحابہ کرام کے تعامل سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ انفاق فی سبیل اللہ صرف مالداروں اور اغنیاء ہی کا حصہ نہیں ہے، غریب، فقیر بھی اس صفت کے حامل ہوسکتے ہیں کہ اپنی اپنی مقدرت کے موافق اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کر کے اس عظیم صفت کو حاصل کرلیں۔ انفاق فی سبیل اللہ کے لئے ضروری نہیں کہ مال ہی خرچ کیا جائے : یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ ینفقون کا تو ذکر فرمایا کہ وہ لوگ تنگی اور فراخی ہر حال میں فی سبیل اللہ خرچ کرتے ہیں، یہ متعین نہیں فرمایا کہ کیا خرچ کرتے ہیں، اس کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں صرف مال و دولت ہی نہیں بلکہ ہر خرچ کرنے کی چیز داخل ہے، مثلا جو شخص اپنا وقت، اپنی محنت اللہ کی راہ میں خرچ کرے وہ بھی اس انفاق کی صفت سے موصوف کیا جائے گا، جو حدیث بحوالہ تفسیر کبیر اوپر گزری ہے وہ اس پر شاہد ہے۔ تنگی اور فراخی کے ذکر میں ایک اور حکمت : یہ بھی ہے کہ یہی وہ حالتیں ہیں جن میں عادۃ انسان خدا کو بھولتا ہے جب مال و دولت کی فراوانی ہو تو عیش میں خدا کو بھول جاتا ہے اور جب تنگی اور مصیبت ہو تو بسا اوقات اسی کی فکر میں راہ کر خدا سے غافل ہوجاتا ہے اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو نہ عیش میں خدا کو بھولتے ہیں نہ مصیبت و تکلیف میں، ظفر شاہ دہلوی کا کلام اس معنی میں خوب ہے ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا خواہ ہو کتنا ہی صاحب فہم و ذکا جسے عیش میں خدا نہ رہے جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا اس کے بعد ان کی ایک خاص صفت اور علامت یہ بتلائی گئی کہ اگر ان کو کسی ایسے شخص سے سابقہ پڑے جو ان کو اذیت اور تکلیف پہنچائے تو وہ غصہ میں مشتعل اور مغلوب نہیں ہوجاتے، اور غصہ کے مقتضی پر عمل کر کے انتقام نہیں لیتے، پھر صرف یہی نہیں کہ انتقام نہ لیں بلکہ دل سے بھی معاف کردیتے ہیں، اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ تکلیف دینے والے کے ساتھ احسان کا معاملہ فرماتے ہیں، اسی ایک صفت میں گویا تین صفتیں شامل ہیں، اپنے غصہ پر قابو پانا، تکلیف دینے والے کو معاف کرنا، پھر اس کے ساتھ احسان کا سلوک کرنا، ان تینوں چیزوں کو اس آیت میں بیان فرمایا۔ (والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین) یعنی وہ لوگ جو اپنے غصہ کو دبا لیتے ہیں اور لوگوں کا قصور معاف کردیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ امام بیہقی نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت سیدنا علی بن حسین (رض) کا ایک عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے کہ آپ کی ایک کنیز آپ کو وضو کرا رہی تھی کہ اچانک پانی کا برتن اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر حضرت علی ابن حسین (رض) کے اوپر گرا، تمام کپڑے بھیگ گئے، غصہ آنا طبعی امر تھا، کنیز کو خطرہ ہوا، تو اس نے فورا یہ آیت پڑھی والکاظمین الغیظ، یہ سنتے ہی خاندان نبوت کے اس بزرگ کا سارا غصہ ٹھنڈا ہوگیا، بالکل خاموش ہوگئے، اس کے بعد کنیز نے آیت کا دوسرا جملہ والعافین عن الناس پڑھ دیا، تو فرمایا کہ میں نے تجھے دل سے بھی معاف کردیا، کنیز بھی ہوشیار تھی اس کے بعد اس نے تیسرا جملہ بھی سنا دیا، واللہ یحب المحسنین جس میں احسان اور حسن سلوک کی ہدایت ہے، حضرت علی بن حسین نے یہ سن کر فرمایا کہ جا میں نے تجھے آزاد کردیا۔ (روح المعانی بحوالہ بیہقی) لوگوں کی خطاؤں اور غلطیوں کو معاف کردینا انسانی اخلاق میں ایک بڑا درجہ رکھتا ہے اور اس کا ثواب آخرت نہایت اعلی ہے، حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے |" قیامت کے روز حق تعالیٰ کی طرف سے منادی ہوگی کہ جس شخص کا اللہ تعالیٰ پر کوئی حق ہے وہ کھڑا ہوجائے، تو اس وقت وہ لوگ کھڑے ہوں گے جنہوں نے لوگوں کے ظلم و جور کو دنیا میں معاف کیا ہوگ |"۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے : (من سرہ ان یشرف لہ البنیان وترفع لہ الدرجت فلیعف عن من ظلمہ ویعط من حرمہ ویصل من قطعہ) |" جو شخص یہ چاہے کہ اس کے محلات جنت میں اونچے ہوں اور اس کے درجات بلند ہوں اس کو چاہئے کہ جس نے اس پر ظلم کیا ہو اس کو معاف کردے اور جس نے اس کو کبھی کچھ نہ دیا ہو، اس کو بخشش و ہدیہ دیا کرے، اور جس نے اس سے ترک تعلقات کیا ہو یہ اس سے ملنے میں پرہیز نہ کرے |"۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس سے زیادہ وضاحت سے برائی کرنے والوں کے ساتھ احسان کرنے کا خلق عظیم سکھلایا، اور یہ بتلایا ہے کہ اس کے ذریعہ دشمن بھی دوست ہوجاتے ہیں، ارشاد فرمایا : (ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم۔ (٤١: ٣٤) |" یعنی برائی کی مدافعت بھلائی اور احسان کے ساتھ کرو، تو جس کے ساتھ دشمنی ہے وہ تمہارا گہرا دوست بن جائے گا |"۔ حق تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اخلاقی تربیت بھی اسی اعلی پیمانہ پر فرمائی ہے کہ آپ نے اپنی امت کو بھی یہ ہدایت دی کہ : (صل من قطعک واعف عمن ظلمک واحسن الی من اساء الیک) |" یعنی جو شخص آپ سے قطع تعلق کرے آپ ان سے ملیں، اور جو آپ پر ظلم کرے آپ اس کو معاف کریں، اور جو آپ کے ساتھ برائی کرے آپ اس پر احسان کریں |"۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تو بڑی شان ہے آپ کی تعلیمات کی برکت سے یہی اخلاق و اوصاف آپ کے خدام میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمادیے تھے جو اسلامی معاشرے کا طرہ امتیاز ہے، صحابہ وتابعین (رض) اور اسلاف امت کی تاریخ اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے۔ امام ابوحنیفہ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک شخص نے بھرے بازار میں امام اعظم کی شان میں گستاخی کی اور گالیاں دیں، حضرت امام اعظم نے غصہ کو ضبط فرمایا، اور اس کو کچھ نہیں کہا، اور گھر پر واپس آنے کے بعد ایک خوان میں کافی درہم و دینار رکھ کر اس شخص کے گھر تشریف لے گئے، دروازے پر دستک دی، یہ شخص باہر آیا تو اشرفیوں کا یہ خوان اس کے سامنے یہ کہتے ہوئے پیش فرمایا کہ آج تم نے مجھ پر بڑا احسان کیا، اپنی نیکیاں مجھے دیدیں، میں اس احسان کا بدلہ کرنے کے لئے یہ تحفہ پیش کر رہا ہوں، امام کے اس معاملہ کا اس کے قلب پر اثر ہونا ہی تھا، آئندہ کو اس بری خصلت سے ہمیشہ کے لئے تائب ہوگیا، حضرت امام سے معافی مانگی اور آپ کی خدمت اور صحبت میں علم حاصل کرنے لگا یہاں تک کہ آپ کے شاگردوں میں ایک بڑے عالم کی حیثیت اختیار کرلی۔ یہاں تک ان اوصاف کا بیان تھا جو انسانی حقوق سے متعلق ہیں، اس کے بعد حقوق اللہ سے متعلقہ صفات کا بیان اس طرح فرمایا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے، اور کبھی بمقتضائے بشریت ان سے گناہ ہوجاتا ہے تو فورا اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر استغفار کرتے ہیں، اور آئندہ اس گناہ سے باز آنے کا ارادہ پختہ کرلیتے ہیں،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ فِي السَّرَّاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ١٣٤ ۚ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذ... ا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ سراء، ضراء والنعماء والضراء قيل انها مصادر بمعنی المسرة والنعمة والمضرة والصواب انها أسماء للمصادر ولیست أنفسها فالسراء الرخاء والنعماء النعمة والضراء الشدة فهي أسماء لهذه المعاني فإذا قلنا إنها مصادر کانت عبارة عن نفس الفعل الذي هو المعنی وإذا کانت أسماء لها کانت عبارة عن المحصّل لهذه المعاني . كظم الْكَظْمُ : مخرج النّفس، يقال : أخذ بِكَظَمِهِ ، والْكُظُومُ : احتباس النّفس، ويعبّر به عن السّكوت کقولهم : فلان لا يتنفّس : إذا وصف بالمبالغة في السّكوت، وكُظِمَ فلان : حبس نفسه . قال تعالی: إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم/ 48] ، وكَظْمُ الغَيْظِ : حبسه، قال : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] ( ک ظ م ) الکظم اصل میں مخروج النفس یعنی سانس کی نالي کو کہتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ احذ بکظمہ اس کی سانس کی نالي کو پکڑ لیا یعنی غم میں مبتلا کردیا ۔ الکظوم کے معنی سانس رکنے کے ہیں اور خاموش ہوجانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ انتہائی خا موشی کے معیس کو ظاہر کرنے کے لئے فلان لا یتنفس کہا جاتا ہے ۔ فلاں سانس نہین لیتا یعنی خا موش ہے ۔ کظم فلان اس کا سانس بند کردیا گیا ( مراد نہایت غمگین ہونا ) چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِذْ نادی وَهُوَ مَكْظُومٌ [ القلم/ 48] کہ انہوں نے خدا کو پکارا اور وہ غم) غصہ میں بھرے تھے ۔ اور کظلم الغیظ کے معنی غصہ روکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] اور غصے کو در کتے ۔ غيظ الغَيْظُ : أشدّ غضب، وهو الحرارة التي يجدها الإنسان من فوران دم قلبه، قال : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران/ 119] ، لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح/ 29] ، وقد دعا اللہ الناس إلى إمساک النّفس عند اعتراء الغیظ . قال : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] . قال : وإذا وصف اللہ سبحانه به فإنه يراد به الانتقام . قال : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء/ 55] ، أي : داعون بفعلهم إلى الانتقام منهم، والتَّغَيُّظُ : هو إظهار الغیظ، وقد يكون ذلک مع صوت مسموع کما قال : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان/ 12] . ( غ ی ظ ) الغیظ کے معنی سخت غصہ کے ہیں ۔ یعنی وہ حرارت جو انسان اپنے دل کے دوران خون کے تیز ہونے پر محسوس کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران/ 119] کہدو کہ ( بدبختو) غصے میں مرجاؤ ۔ غاظہ ( کسی کو غصہ دلانا ) لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح/ 29] تاکہ کافروں کی جی جلائے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے سخت غصہ کے وقت نفس کو روکنے کا حکم دیا ہے اور جو لوگ اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں انکی تحسین فرمائی ہے چناچہ فرمایا : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] اور غصے کو روکتے ۔ اور اگر غیظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو تو اس سے انتقام لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء/ 55] اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں ۔ یعنی وہ اپنی مخالفانہ حرکتوں سے ہمیں انتقام پر آمادہ کر رہے ہیں اور تغیظ کے معنی اظہار غیظ کے ہیں جو کبھی ایسی آواز کے ساتھ ہوتا ہے جو سنائی دے جیسے فرمایا : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان/ 12] تو اس کے جو ش غضب اور چیخنے چلانے کو سنیں گے ۔ عفو فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

غصہ پی جانا اور لوگوں سے درگزرکرنا پسند یدہ اعمال ہیں قول باری ہے (الذین ینفقون فی السّراء والضرّاء والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس، جو ہر حال میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں خواہ بدحال ہوں یا خوش حال جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصورمعاف کردیتے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) نے (فی السرّاء والضّراء) ک... ی تفسیر میں فرمایا تنگ دستی اور فراخی میں یعنی مال کی قلت اور کثرت دونوں حالتوں میں، ایک قول ہے کہ خوشی اور غم دونوں حالتوں میں وہ اپنامال نیکی کی راہوں میں خرچ کرتے ہیں کوئی حالت انھیں انفاق سے باز نہیں رکھ سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے تنگدستی اور فراخی دونوں حالتوں میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والوں کی تعریف کرنے کے بعد اس پر (والکاظمین الغیظ والعافین عن النّاس) کو عطف کیا اور پھر ان لوگوں کی تعریف فرمائی جو اپنے غصّے کو پی جاتے اور زیادتی کرنے والے کو معاف کردیتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) کا قول ہے : جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہ کبھی اپنا غصہ نہیں نکالتا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے وہ کبھی اپنا غصہ نہیں نکالتا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتا ہے وہ کبھی اپنی من مانی نہیں کرسکتا۔ اگر قیامت کا دن نہ ہوتا تو تم دنیا کی کیفیت اس سے مختلف پاتے جو آج دیکھ رہے ہو۔ غصّہ پی جانا اور لوگوں کے قصورمعاف کردینا پسند یدہ افعال ہیں، جن کی ترغیب دی گئی ہے اور جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٤) اب اللہ تعالیٰ ایسے حضرات کی صفات بیان فرماتے ہیں کہ جو حضرات تنگی اور خوشحالی میں اپنے اموال کو راہ اللہ میں خرچ کرتے ہیں، اور غصہ کے جوش وہیجان کو ضبط کرتے ہیں اور غلاموں کی خطاؤں سے درگزر کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٤ (الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ ) یہاں بھی تقابل ملاحظہ کیجیے کہ سود کے مقابلے میں انفاق کا ذکر ہوا ہے۔ (وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط) (وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) یہ درجۂ احسان ہے ‘ جو اسلام اور ایمان کے بعد کا درجہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

99. The existence of interest in a society generates two kinds of moral disease. It breeds greed and avarice, meanness and selfishness among those who receive interest. At the same time, those who have to pay interest develop strong feelings of hatred, resentment, spite and jealousy. God intimates to the believers that the attributes bred by the spread of interest are the exact opposite of those w... hich develop as a result of spending in the way of God, and that it is through the latter rather than the former that man can achieve God's forgiveness and Paradise. (For further explanation see Surah 2, n. 320 above.)  Show more

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :99 سود خواری جس سوسائٹی میں موجود ہوتی ہے اس کے اندر سود خواری کی وجہ سے دو قسم کے اخلاقی امراض پیدا ہوتے ہیں ۔ سود لینے والوں میں حرص و طمع ، بخل اور خود غرضی ۔ اور سود دینے والوں میں نفرت ، غصہ اور بغض و حسد ۔ احد کی شکست میں ان دونوں قسم کی بیماریوں کا کچھ نہ...  کچھ حصہ شامل تھا ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بتاتا ہے کہ سود خواری سے فریقین میں جو اخلاقی اوصاف پیدا ہوتے ہیں ان کے بالکل برعکس انفاق فی سبیل اللہ سے یہ دوسری قسم کے اوصاف پیدا ہوا کرتے ہیں ، اور اللہ کی بخشش اور اس کی جنت اسی دوسری قسم کے اوصاف سے حاصل ہو سکتی ہے نہ کہ پہلی قسم کے اوصاف سے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۳۲۰ )   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:134) السرائ۔ خوشی ۔ خوشحالی۔ الضراء کا متضاد۔ الضرائ۔ تکلیف۔ سختی۔ تنگی۔ مرض۔ بیماری۔ مصیبت۔ کا ظمین۔ کا ظم کی جمع ہے کظم۔ کظوم۔ مصدر۔ (ضرب) غصہ روکنے والے غصہ پی جانے والے۔ کظوم۔ وہ اونٹ جس نے جگالی کرنی چھوڑ دی ہو کظم السقاء اس نے پانی بھر کر مشک کا منہ باندھ دیا۔ کظم الباب اس نے دروازہ میں قف... ل لگا دیا۔ العافین۔ عفاعن۔ معاف کرنا۔ عفو سے۔ معاف کرنے والے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اب ان آیات میں اہل کتاب میں اہل جنت کی صفات کا ذکر ہے چناچہ ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ خوشحالی اور تنگدستی ہر حالت میں وہ اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں اور نیک کا موں اور رضائے الہٰی کے لیے مال صرف کرنے سے انہیں کوئی چیز غافل نہیں کرتے3 اب ان آیات میں اہل جنت کی صفات کا ذر کر ہے چناچہ ان ... کی پہلی صفات یہ ہے کہ خوشحالی اور تنگدستی ہر حالت میں وہ اپنی استعاعت کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں اور نیک کاموں اور رضائے الہٰی کے لیے مال صرف کرنے سے انہیں کوئی چیز غافل نہیں کرتی۔ (ابن کثیر ) 4 ان کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ غصہ سے مغلوب ہونے کی بجائے اس پر قابو پالیتے ہیں کہ۔۔ ایک روایت میں ہے پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو پر قابو رکھے۔ (بخاری۔ مسلم) حضرت ابن عباس (رض) سے راویت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسند یدہ گھونٹ غصہ کا گھونٹ ہے جسے بندہ پہ لیتا ہے۔ جو شخص اپنا غصہ پی لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے پیٹ کو ایمان بھردیتا ہے۔ مسند احمد)5 یہ دراصل غصہ پی جانے کا لازمی تقاضا ہے۔ ایک حد یث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھاکر فرمایا جو کوئی عفودودر گزر کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت افزائی فرماتے ہیں اس باب متعدد احادیث وارد ہیں۔ (ملا حظہ ہو ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سود اور جہنم سے بچنے کا حکم، جنت اور صدقہ کی ترغیب دینے کے بعد جنّتیوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں جنتیوں کے چھ اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1 یہ لوگ عسر ویسر میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔ 2 طیش اور غضب کی حالت میں اپنے آپ پر ضبط رکھتے ہیں۔ 3 ساتھیوں اور بھائیوں کے س... اتھ معافی کا وطیرہ اختیار کرتے ہیں۔ 4 جب ان سے بری حرکت یا گناہ کی صورت میں اپنے آپ پر زیادتی ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا احساس، اس کے عذاب کا خوف اور اس کی ذات کبریا کا تصور کرتے ہوئے اس کے حضور اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی مانگتے ہیں۔ 5 اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں 6 وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے گناہوں پر اترانے اور اصرار کرنے پر تیار نہیں ہوتے کیونکہ گناہوں کے نتائج اور نقصانات کو وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ نیک لوگ منصوبہ بندی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے اور نہ ہی وہ شیطان کی طرح اپنی غلطی پر اصرار کرتے ہیں۔ وہ تو اپنی غلطی کا اعتراف اور اس پر استغفار کرتے ہیں۔ ان کا صلہ ان کے رب کے ہاں بخشش اور جنت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ لوگ بہترین اجر پائیں گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ : لَیْسَ الشَّدِیْدُ بالصُّرْعَۃِ إِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی کو پچھاڑنے والا طاقتور نہیں ہے طاقتور تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔ “ ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو آدمیوں کا جھگڑا ہوا۔ ایک آدمی ان میں اتنا غضبناک ہوا کہ اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ آپ نے فرمایا میں ایک کلمہ جانتا ہوں اگر وہ پڑھ لے تو اس کا ساراغصہ ختم ہوجائے۔ ایک آدمی نے اسے جاکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات بتائی اور کہا کہ شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ اس نے جوابًا کہا کیا مجھ میں کوئی بیماری نظر آرہی ہے یا میں مجنون ہوں ؟ چل تو چلاجا۔ “ ( اس کا مقصد یہ تھا کہ آپ کا فرمان سن کر میں اپنے غصہ پر ضبط کرتا ہوں) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب ] مسائل ١۔ مسلمانوں کو اپنے رب کی بخشش اور جنت کے حصول کی کوشش کرنا چاہیے۔ ٢۔ جنت کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے جو گناہوں سے بچنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ ٣۔ ایمان دار لوگ آسانی اور تنگی میں خرچ کرنے والے، غصہ پر ضبط کرنے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہوتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نیکو کار لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ ٥۔ ایمان والے اپنے آپ پر ظلم یا بےحیائی کا ارتکاب کر بیٹھیں تو اللہ کو یاد کرتے اور اس سے معافی مانگتے ہیں۔ ٦۔ صاحب ایمان لوگ اپنی غلطی پر اصرار نہیں کرتے۔ ٧۔ اللہ کے بغیر کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں۔ ٨۔ معافی مانگنے والوں کے لیے ان کے رب کی طرف سے بخشش اور جنت ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے : ١۔ اللہ کی مغفرت اور جنت کی کوشش کرو۔ (الحدید : ٢١) ٢۔ نیکی کے حصول میں جلدی کرو۔ (البقرۃ : ١٤٨) ٣۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے اعلیٰ ہوں گے۔ (فاطر : ٣٢) ٤۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعہ : ١٠، ١١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

معرکہ حق و باطل کی اس فضا میں اس صفت کی طرف یہاں اشارہ ایک خاص مناسبت سے کیا گیا ہے ۔ اس معرکے کے دوران بار بار انفاق فی سبیل اللہ کی تاکید کی جاتی ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ان سرمایہ داروں پر بھی تنقید کی جاتی ہے جو انفاق فی سبیل اللہ سے کنی کتراتے ہیں ۔ اس نکتہ کی تفصیلات نصوص کی تفسیر کے دوران بیا... ن ہوں گی۔ معرکہ حق و باطل کی اس فضا میں انفاق کی ایک خاص اہمیت ہے ۔ اور یہاں اس کا بار بار ذکر اس لئے ہوا کہ انفاق فی سبیل اللہ کے سلسلے میں دعوت اسلامی کے بعض کارکنوں کا موقف اس کا متقاضی تھا۔ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ……………” جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔ “ غرض اللہ خوفی اس میدان میں بھی اپنے ثرات دکھاتی ہے۔ بعینہ وہی اسباب اور وہی اثرات جو انفاق کے لئے تھے ‘ غصہ ایک ایسا بطعی انفعال ہے جس کے انسانی خون میں گرمی پیدا ہوجاتی ہے ۔ گویا وہ انسان کے عام فطری رد عمل کی ایک قسم ہے بلکہ وہ انسان کی ایک طبعی ضرورت ہے ۔ اور اس فطری ردعمل کو انسان صرف اس روحانی قوت کے ذریعہ ہی قابو میں لاسکتا ہے جو نور تقویٰ کے نتیجے میں انسان کو حاصل ہوتی ہے ۔ یہ قوت غضبی اس وقت رام ہوتی ہے جب انسان روحانی قوت سے مسلح ہو اور اس کی نظریں ذاتی ضروریات اور ذاتی دفاع سے بلند ہوکر ایک اعلیٰ انسانی افق پر مرکوز ہوں۔ ہاں غصہ پی جانا تو پہلا مرحلہ ہے اور یہ کافی نہیں ہے ۔ بلکہ بعض اوقات انسان غصہ تو پی جاتا ہے لیکن اس کے بعد اس کے دل میں کینہ پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے دل میں جوش انتقام ولولہ پیدا کرتا ہے ۔ ظاہری غصہ ٹھنڈ اہو کر خفیہ حسد کو جنم لیتا ہے ۔ اور گہری دشمنی پیدا ہوجاتی ہے اور اس صورت میں یہ غیض وغضب جو ظاہری ردعمل ہوتے ہیں ‘ بمقابلہ کینہ اور بغض نسبتاً زیادہ اچھے ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعد میں فرماتے ہیں کہ غیظ وغضب کے نتیجے میں حس اور بغض پیدا نہ ہونا چاہئے بلکہ اس کے بعد عفو و درگزر سے کام لینا چاہئے اور غلطیوں کو معاف کردینا چاہئے ۔ غصہ کو اگر دل میں چھپالیا جائے تو اس سے دلوں میں پردے پڑجاتے ہیں بلکہ دلوں کے اندرکینہ کی آگ سلگنے لگتی ہے ۔ انسانی ضمیر دخان آلود ہوجاتا ہے ۔ جب انسان دل وجان سے معاف کردیتا ہے اور درگزر کردیتا ہے تو یہ پردہ دلوں سے ہٹ جاتا ہے اور انسان کی روح نور کی فضاؤں میں پرواز کرتی ہے ۔ دل ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں اور انسانی ضمیر کو امن و سکون نصیب ہوتا ہے ۔ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ……………” ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں ۔ “ کیسے نیک لوگ ‘ وہ جو بدحالی اور خوشحالی میں اپنی دولت اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ‘ وہ نیک ہیں ۔ جو لوگ غصہ پی جانے کے بعد لوگوں کو معف کردیتے اور درگزر کرتے ہیں وہ نیک لوگ ہیں ۔ ایسے لوگوں کو اللہ محبوب رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لئے لفظ محبت کا استعمال نہایت ہی خوبصورت ‘ دل لگتا اور ضوپاش ہے ۔ اور اس شریفانہ اور منور ماحول کے ساتھ خوب ہم آہنگ ہے ۔ نیکی اور نیکوکاروں کے ساتھ اس اعلان محبت سے ‘ اہل ایمان کے دلوں میں نیکی سے سرچشمے پھوٹتے ہیں ‘ اور یہ سوتے مومن سے مومن تک منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان دلوں میں نیکی کے لئے جوش و خروش پیدا ہوجاتا ہے ۔ غرض یہ صرف پرتاثیر ادا ہی نہیں ہے بلکہ یہ زور دار انداز تعبیر اپنے پیچھے ایک عظیم حقیقت بھی رکھتی ہے ۔ وہ جماعت جسے اللہ محبوب رکھتا ہے اور وہ اللہ کو محبوب رکھتی ہے جس کے اندر عفو و درگزر عام ہے۔ جس کے اندر کینہ اور حسد نہیں ہے ۔ یہ ایک ایسی جماعت ہے جو دوسرے سے پیوستہ اور وابستہ ہے۔ اس کے افراد بھائی بھائی ہیں ۔ یہ قوی اور متین جماعت ہے ۔ اس لئے وہ اپنی اندرونی زندگی میں بھی متحد اور یکجا ہے اور میدان کارزار میں بھی بنیان مرصوص ہے ۔ اس لئے عفو و درگزر کا یہ مضمون بعنوان کارزار سے بھی ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنا : اول اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کا تذکرہ فرمایا کہ (الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ ) (یہ حضرات خرچ کرتے ہیں تکلیف میں بھی اور خوشی میں بھی) اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنا بہت بڑی سعادت ہے۔ ہر حال میں خرچ کرتے رہنا چاہیے ایک ہزار روپے میں جو ... ایک روپے کی حیثیت مالدار کے لیے ہے وہی حیثیت ایک روپے میں سے ایک پیسے کی غریب آدمی کے لیے ہے۔ جن کو اللہ کے لیے خرچ کرنے کا ذوق ہے وہ تنگدستی میں بھی خرچ کرتے ہیں جس کی تعریف فرماتے ہوئے سورة حشر میں فرمایا ہے (وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ) (کہ وہ اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان کو خود حاجت ہو) فی سبیل اللہ خرچ کرنا مالداروں ہی کا حصہ نہیں غربیوں کا بھی حصہ ہے۔ سخاوت ایک مزاج ہے جس کا تعلق مالداری سے نہیں جسے سخاوت کا مزاج نصیب ہوجائے وہ ہر حال میں خرچ کرتا ہے۔ غصہ پینے کی فضیلت : دوم یہ فرمایا (وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ) کہ یہ حضرات اپنے غصے کو ضبط کرنے والے ہیں یعنی جب غصہ آتا ہے تو اس کو پی جاتے ہیں اور غصہ کے مقتضیٰ پر عمل نہیں کرتے، فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ پہلوان وہ نہیں ہے جو دوسرے کو پچھاڑ دے (بلکہ) پہلوان وہی ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو پالے۔ (رواہ البخاری صفحہ ٩٠٣: ج ٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کسی بندہ نے اللہ کے نزدیک کوئی گھونٹ اس گھونٹ سے زیادہ فضیلت والا نہیں پیا جو غصہ والا گھونٹ ہو جسے وہ اللہ کی رضا مندی کے لیے ضبط کر جائے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٣٤ از مسند احمد) سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ غصہ شیطان سے ہے اور بیشک شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی ہی بجھاتا ہے سو تم میں سے کسی شخص کو غصہ آئے تو وضو کرے اور حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اس طرح غصہ چلا جائے تو بہتر ہے ورنہ لیٹ جائے۔ (رواہ الترمذی المشکوٰۃ صفحہ ٣٤٣) حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے اور جس نے اپنے غصے کو روک لیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے اپنے عذاب کو روک لیں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٣٤) معاف کرنے کی فضیلت : سوم یہ فرمایا وَ الْعَافِیْنَ کہ یہ لوگ لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں۔ معاف کرنا بہت فضیلت والی صفت ہے اور یہ فضیلت ہر قسم کے مظالم کے معاف کرنے کو شامل ہے کسی آدمی نے مال مار لیا ہو حق روک لیا ہو، مار پیٹ کی ہو، غیبت کی ہو، بہتان لگایا ہو ان سب کے معاف کرنے میں اجر وثواب ہے اور معاف کرنے کا بلند مرتبہ یہ ہے کہ قدرت ہوتے ہوئے معاف کر دے۔ حضرت ابو ہریرۃ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے رب ! آپ کے نزدیک آپ کے بندوں میں سب سے زیادہ باعزت کون ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو قدرت ہوتے ہوئے معاف کر دے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٣٤ ازبیہقی فی شعب الایمان) محسنین اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں : چہارم یوں فرمایا : (وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) (اللہ اچھے کام کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے) المحسنین محسن کی جمع ہے جس کا مصدر احسان ہے اور احسان ہر کام کو خوبی کے ساتھ انجام دینے کو کہا جاتا ہے۔ عبادات کا احسان تو حدیث جبرئیل میں بیان فرما دیا کہ : اَنْ تَعْبُدَاللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (کہ تو اللہ کی اس طرح عبادت کرے جیسے تو اس کو دیکھ رہا ہے سو اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا ہے تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے) اور بندوں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں احسان یہ ہے کہ ان کے ساتھ جو معاملات پیش آئیں ان میں خوبی اور عمدگی اختیار کرے۔ مثلاً قرضوں کے تقاضوں میں نرمی اختیار کرے۔ بڑوں کی عزت کرے چھوٹوں پر رحم کرے یتیموں، مسکینوں اور ضعیفوں کی خدمت کرے ضرورت مندوں کو کھلائے پلائے پہنائے اور دوسروں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔ حضرت زین العابدین کا ایک واقعہ : صاحب روح المعانی نے یہاں ایک واقعہ لکھا ہے اور وہ یہ کہ حضرت امام زین العابدین (رض) کو ان کی ایک باندی وضو کرا رہی تھی اس کے ہاتھ سے لوٹا گرگیا جس سے ان کا چہرہ زخمی ہوگیا انہوں نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو اس نے (وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ ) پڑھ دیا اس پر انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا غصہ ضبط کرلیا پھر اس نے و العافین عن الناس پڑھا آپ نے اس کو معاف کردیا۔ پھر اس نے (وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) پڑھا اس پر انہوں نے فرمایا اچھا جا تو اللہ کے لیے آزاد ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

201 یہ اَلْمُتَّقِیْنَ کی نعت ہے اور فریق اعلیٰ کی پہلی صفت ہے اس میں ترغیب الی الانفاق کا پہلی بار اعادہ کیا گیا ہے۔ ظرف یُنْفِقُوْنَ کی ضمیر سے حال ہے اور سَرَّاء سے فراخی اور ضَرَّاء سے تنگدستی مراد ہے۔ عن ابن عباس فی العسر والیسر (ابن جریر ص 57 ج 4) یعنی وہ ہر حال میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہی... ں خواہ دولت مند ہوں یا مفلوک الحال ہوں۔ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ یہ فریق اعلیٰ کی دوسری صفت ہے۔ کظم الغیظ کے معنی غصہ پی جانے اور ضطب کرنے کے ہیں یعنی وہ لوگ غصے کی حالت میں مغلوب الغضب نہیں ہوجاتے بلکہ غصے کو پی جاتے ہیں اور اس پر قابو پالیتے ہیں اور اس کو عملی جامہ نہیں پہناتے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اَلْکَظِمِیْنَ الْغَیظَ فرمایا ہے الفاقدین الغیظ نہیں فرمایا کیونکہ غصہ غیرت وحمیت اور حرارت طبیعیہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے اس لیے غصہ کا بالکل پیدا ہی نہ ہونا یہ کوئی خوبی نہیں بلکہ عیب ہے خوبی تو یہ ہے کہ غصہ آئے لیکن اسے ضبط کرلیا جائے وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ یہ فریق اعلیٰ کی تیسری صفت ہے یعنی وہ قصور وار لوگوں کے قصور معاف کردیتے ہیں اور دل میں کسی قسم کی ناراضگی نہیں رکھتے یہ درجہ اَلْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ سے بلند تر ہے یعنی وہ نہ صرف یہ کہ غصہ پی جاتے ہیں اور انتقام نہیں لیتے بلکہ سرے سے قصور اور خطا ہی کو معاف کردیتے ہیں اور خطا کار کے متعلق دل میں کوئی کدورت نہیں رکھتے۔ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ یہ ماقبل کا تکملہ اور احسان سے یہاں انعام مراد ہے اور یہ درجہ پہلے دونوں درجوں سے بلند تر ہے یعنی وہ عفو و درگذر سے آگے بڑھ کر انعام واکرام اور حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جلدی جلدی چلو اور دوڑو جس کی وسعت اور پھیلائو ایسا ہے جیسے سب آسمان و زمین کا پھیلائو وہ جنت اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے یہ خدا سے ڈرنے والے وہ لوگ ہیں جو خوشحالی اور تنگ دستی دونوں حالتوں میں خرچ کرتے رہتے ہیں اور خیرات کیا کرتے ہ... یں خواہ عیش اور فارغ البالی کی حالت میں ہوں یا تنگ دستی اور پریشانی میں مبتلا ہوں اور وہ غصہ کے ضبط کرنے والے اور لوگوں کی تقصیرات سے درگذر کرنے والے ہیں اور اللہ ایسے نیک کرداروں اور نیک روش اختیار کرنے والوں کو بہت پسند فرماتاے۔ اوپر کی آیتوں میں سود کھانے کی ممانعت فرمائی تھی پھر منہیات سے عموماً اور سود سے خصوصاً بچنے پر فلاح و کامیابی کی توقع دلائی۔ اس کے بعد آگ سے بچنے کی تاکید فرمائی جو کافروں کا مسکن ہے اور انہی کے لئے تیار کی گئی ہے اور یہ بتایا کہ اگر سود کو حلال کہہ کر گھائو گیتو تم بھی کافروں کی طرح آگ میں ڈال دیئے جائو گے اور اگر حلال کہہ کر نہ کھائو گے تب بھی یہ خطرہ ہے کہ عذاب کئے جائو اگرچہ وہ عذاب دائمی نہ ہو۔ اس کے بعد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا جو تمام آفات سے بچائو کا موجب ہے خواہ وہ اس عالم کی آفات ہوں یا عالم آخرت کی آفات ہوں اس کے بعد جنت اور مغفرت کی طرف دوڑنے اور تیز چلنے کا حکم دیا۔ یعنی ان اعمال کے بجا لانے میں جلدی کرو اور سبقت سے کام لو جو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور جنت میں لے جانے کا ظاہری سبب ہیں اور جبکہ ہر شخص زمین و آسمان کی وسعت اور پھیلائو کو سمجھتا ہے اس لئے جنت کی چوڑائی کو سمجھانے کے لئے آسمان و زمین کے پھیلائو کا ذکر فرمایا اور جب چوڑائی اس قدر ہے تو اس کے طول کا کیا کہنا ہے کیونکہ طول عرض سے زیادہ ہوتا ہے۔ پھر عرض کا بھی یہاں یہ مطلب نہیں کہ سب آسمان و زمین کے پھیلائو سے زیادہ نہ ہوگا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کی چوڑائی اتنی تو ہے ہی باقی اس سے زیادہ کی نفی نہیں۔ پھر اس جنت کو اہل تقویٰ کا مسکن فرمایا اور یہ بتایا کہ یہ جنت اہل تقویٰ کے لئے تیار کی گئی ہے اور متقین کی تفسیر میں ہم بتا چکے ہیں کہ تقویٰ کے مختلف درجات ہیں کم سے کم تقویٰ کا درجہ یہ ہے کہ انسان شرک اور بدعت سے بچتا ہو اور تقویٰ کا اعلیٰ متربہ یہ ہے کہ ہر گناہ سے بچتا ہو اور نیکی بجا لاتا ہو۔ غرض تقوے کا اطلاق ایک گناہ گار مسلمان پر بھی ہوسکتا ہے جو شرک و بدعت سے احتراز کرتا ہو اور ایک نبی اور ولی پر بھی ہوسکتا ہے یہاں متقی کی دونوں قسموں کا ذکر ہے پہلے اعلیٰ مرتبہ کے اہل تقویٰ کا ذکر ہے کہ متقی وہ لوگ ہیں جن کی سخاوت کا یہ حال ہے کہ خوش حال ہوں جب بھی ان کا انفاق جاری رہتا ہے اور کبھی تنگدست ہوں تب بھی ان کی خیرات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سراء اور ضراء کا مفہوم بہت وسیع ہے کیونکہ انسانی زندگی دو حال سے خالی نہیں یا راحت و عیش ہے یا مصیبت و فقر ہے اہل تقویٰ وہ لوگ ہیں کہ خواہ وہ کسی حالت میں ہوں ان کا ہاتھ برابر چلتا رہتا ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق مخلوق کی نفع رسانی میں مشغول رہتے ہیں آیت کے دوسرے حصہ میں ان کی تعریف ان الفاظ میں ہے کہ وہ غصہ کو پی جاتے ہیں اور غصہ کو ضبط کرلیتے ہیں اور لوگوں کی خطائوں کو معاف کردیا کرتے ہیں اور چونکہ یہ مرتبہ بہت بلند ہے کہ کسی شخص سے مخلوق کو نفع پہونچے اور مخلوق اس کے ضرر سے محفوظ رہے ۔ اس لئے ایسے احسان کرنے والوں سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا۔ احسان کی دو صورتیں ہیں ایک جلب منفعت اور دوسری دفع مضرت تو یہ اہل تقویٰ اس مرتبہ کے لوگ ہیں کہ ان سے کسی کو نقصان کا خطرہ نہیں اور ہر حال میں مخلوق کو ان سے فائدہ ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ اور یہ لوگ چونکہ احسان میں کامل ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کو ان سے محبت بھی کامل ہے اور وہ ان محسنین سے بہت محبت کرتا ہے۔ بہت محبت ہم نے اسی غرض سے کہا تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ جن متقیوں کی تعریف کی گئی ہے وہ کمال تقویٰ پر فائز ہیں۔ اہل تقویٰ کی دوسری قسم کا ذکر آگے آتا ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ جنت متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ کیونکہ اہل تقویٰ کے جو معنی ہم نے رض کئے ہیں اس سے ہر مسلمان کا متقی ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ کوئی کم درجہ کا متقی ہے اور کوئی بڑے درجہ کا متقی ہے اسی طرح انفاق میں بھی عموم ہے مال سے نفع پنچانا یا علم سے نفع پہنچانا غرض خدا کی مخلوق کو نفع پہنچاتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے سخی اللہ تعالیٰ سے قریب ہے جنت سے قریب ہے لوگوں سے قریب ہے اور دوزخ سے دور ہے اور بخیل اللہ سے دور ہے جنت سے دور ہے۔ لوگوں سے دور ہے اور آگ سے قریب ہے۔ حدیث میں ہے جس شخص نے باوجود اس کے کہ وہ بدلہ لے سکتا تھا اپنے غصہ کو پی لیا اور غضہ ضبط کرلیا تو اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو امن اور ایمان سے بھر دے گا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت میں ایک پکارنے والا آواز دے گا وہ لوگ کہاں ہیں جن کے ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہیں یہ آواز سن کر صرف وہ لوگ کھڑے ہوں گے جنہوں نے لوگوں کی تقصیرات کو معاف کیا ہوگا۔ حضرت فضیل بن عیاض (رح) کا قول ہے احسان کے بعد احسان کرنا مکافات ہے اور برائی کے بعد برائی کرنا مجازات ہے اور برائی کے جواب میں بھلائی کرنا کرم اور جو د ہے اور بھلائی کے جواب میں برائی کرنا کمینگی اور بدبختی ہے اور یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہرقل کے جواب میں لکھا تھا جب اس نے دریافت کیا تھا کہ جنت کا پھیلائو آسمان اور زمین کے برابر ہے تو دوزخ کہاں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لکھا تھا کہ بھلا تم دیکھتے ہو کہ جب دن آتا ہے تو رات کہاں ہوتی ہے اور جب رات آتی ہے تو دن کہاں ہوتا ہے اس پر یہود نے کہا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ جواب ایسا ہی دیا جیسے تورات میں ہے۔ حضرت ابن عباس اور بعض دیگر صحابہ سے بھی ایسا ہی جواب منقول ہے۔ اس جواب کا یہ مطلب ہے کہ دن کی موجودگی میں رات کا نظر نہ آنا اس کو مستلزم نہیں کہ رات کہیں نہ ہو اسی طرح رات کی موجودگی میں دن کا نہ ہونا اس کو مستلزم نہیں کہ دن کہیں بھی نہ ہو بلکہ جہاں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہاں رات اور دن موجود ہوتے ہیں اسیطرح دوزخ بھی جہاں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہاں ہوتی ہے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جب دن اس عالم کے ایک رخ کو ڈھانک لیتا ہے تو دوسرے رخ پر اس کے رات ہوتی ہے اور جب رات اس عالم کے ایک رخ پر چھا جاتی ہے تو دوسرے رخ پر دن ہوتا ہے یہی حالت جنت و دوزخ کی ہے کہ جنت اعلیٰ علیین میں ہے اور جہنم اسفل سافلین میں ہے۔ بعض آثار الٰہیہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم ! جب تجھ کو غصہ آئے تو مجھ کو یاد کر جس وقت مجھ کو غصہ آئے گا میں بھی تجھ کو یاد رکھوں گا اور تجھ کو ان لوگوں کے ہمراہ ہلاک نہ کروں گا جو ہلاک ہونے والے ہیں۔ ابن ابنی حاتم نے حضرت انس بن مالک سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ جس نے اپنے غضب کو روکا اللہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو روکے گا اور جس نے اپنی زبان کو روکا اللہ تعالیٰ اس کے عیب کو چھپائے گا اور جس شخص نے معذرت کی تو اللہ اس کی معذرت کو قبول کرلے گا۔ (ابویعلی) ابن کثیر نے کہا یہ حدیث غریب ہے ۔ ابوہریرہ کی روایت ہے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلوان وہ نہیں ہے جو دوسروں کو پچھاڑتا پھرتا ہے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے کو قابو میں رکھتا ہے یہ مضمون بہت سی احادیث میں آیا ہے۔ حارثہ بن قدامہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کوئی نفع کی بات بتا دیجئے تاکہ میں اس کو یاد رکھوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا غصہ نہ کیا کر حارثہ نے بار بار دریافت کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہی فرماتے رہے غصہ نہ کیا کر۔ (احمد) حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے غصہ کا گھونٹ پی لینے سے بہتر کوئی گھونٹ نہیں ہے (ابن مردویہ مرفوعاً ) غصے کے ضبط کرنے اور لوگوں کی تقصیرات معاف کرنے کے باب میں بکثرت احادیث مروی ہیں اب آگے متقیوں کی دوسری قسم کا بیان ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more