Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 137

سورة آل عمران

قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ سُنَنٌ ۙ فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ ﴿۱۳۷﴾

Similar situations [as yours] have passed on before you, so proceed throughout the earth and observe how was the end of those who denied.

تم سے پہلے بھی ایسے واقعات گُزر چکے ہیں ، سُو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ ( آسمانی تعلیم کے ) جُھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Wisdom Behind the Losses Muslims Suffered During Uhud Allah states to His believing servants who suffered losses in the battle of Uhud, including seventy dead, قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ ... Many similar ways (and mishaps of life) were faced before you, for the previous nations who followed their Prophets before you, they too suffered losses. However, the good end was theirs, and the ultimate defeat was for the disbelievers. This is why Allah said, ... فَسِيرُواْ فِي الاَرْضِ فَانْظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذَّبِينَ so travel through the earth, and see what was the end of those who denied. Allah said next,

شہادت اور بشارت چونکہ احد والے دن ستر مسلمان صحابی شہید ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ڈھارس دیتا ہے کہ اس سے پہلے بھی دیندار لوگ مال و جان کا نقصان اٹھاتے رہے لیکن بالآخر غلبہ انہی کا ہوا تم اگلے واقعات پر ایک نگاہ ڈال لو تو یہ راز تم پر کھل جائے گا ۔ اس قرآن میں لوگوں کیلئے اگلی امتوں کا بیان بھی ہے اور یہ ہدایت و وعظ بھی ہے ۔ یعنی تمہارے دلوں کی ہدایت اور تمہیں برائی بھلائی سے آگاہ کرنے والا یہی قرآن ہے ، مسلمانوں کو یہ واقعات یاد دلا کر پھر مزید تسلی کے طور پر فرمایا کہ تم اس جنگ کے نتائج دیکھ کر بد دل نہ ہو جانا نہ مغموم بن کر بیٹھ رہنا فتح و نصرت غلبہ اور بلند و بالا مقام بالآخر مومنو تمہارے لئے ہی ہے ۔ اگر تمہیں زخم لگے ہیں تمہارے آدمی شہید ہوئے تو اس سے پہلے تمہارے دشمن بھی تو قتل ہو چکے ہیں وہ بھی تو زخم خوردہ ہیں یہ تو چڑھتی ڈھلتی چھاؤں ہے ہاں بھلا وہ ہے جو انجام کار غالب رہے اور یہ ہم نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے ۔ یہ بعض مرتبہ شکست بالخصوص اس جنگ احد کی اس لئے تھی کہ ہم صابروں کا اور غیر صابروں کا امتحان کرلیں اور جو مدت سے شہادت کی آرزو رکھتے تھے انہیں کامیاب بنائیں کہ وہ اپنا جان و مال ہماری راہ میں خرچ کریں ، اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔ یہ جملہ معترضہ بیان کر کے فرمایا یہ اس لئے بھی کہ ایمان والوں کے گناہ اگر ہوں تو دور ہو جائیں اور ان کے درجات بڑھیں اور اس میں کافروں کا مٹانا بھی ہے کیونکہ وہ غالب ہو کر اتر آئیں گے سرکشی اور تکبر میں اور بڑھیں گے اور یہی ان کی ہلاکت اور بربادی کا سبب بنے گا اور پھر مر کھپ جائیں گے ان سختیوں اور زلزلوں اور ان آزمائشوں کے بغیر کوئی جنت میں نہیں جا سکتا جیسے سورۃ بقرہ میں ہے کہ کیا تم جانتے ہو کہ تم سے پہلے لوگوں کی جیسی آزمائش ہوئی ایسی تمہاری نہ ہو اور تم جنت میں چلے جاؤ یہ نہیں ہو گا اور جگہ ہے آیت ( اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت:2 ) کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم صرف ان کے اس قول پر کہ ہم ایمان لائے انہیں چھوڑ دیں گے اور انکی آزمائش نہ کی جائے گی؟ یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ جب تک صبر کرنے والے معلوم نہ ہو جائیں یعنی دنیا میں ہی ظہور میں نہ آجائیں تب تک جنت نہیں مل سکتی پھر فرمایا کہ تم اس سے پہلے تو ایسے موقعہ کی آرزو میں تھے کہ تم اپنا صبر اپنی بہادری اور مضبوطی اور استقامت اللہ تعالیٰ کو دکھاؤ اللہ کی راہ میں شہادت پاؤ ، لو اب ہم نے تمہیں یہ موقعہ دیا تم بھی اپنی ثابت قدمی اور اولوالعزمی دکھاؤ ، حدیث شریف میں ہے دشمن کی ملاقات کی آرزو نہ کرو اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو اور جب میدان پڑ جائے پھر لو ہے کی لاٹ کی طرح جم جاؤ اور صبر کے ساتھ ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے پھر فرمایا کہ تم نے اپنی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھ لیا کہ نیزے تنے ہوئے ہیں تلواریں کھچ رہی ہیں بھالے اچھل رہے ہیں تیر برس رہے ہیں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے اور ادھر ادھر لاشیں گر رہی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

137۔ 1 جنگ احد میں مسلمانوں کا لشکر سات سو افراد پر مشتمل تھا جس میں 50 تیر اندازوں کا ایک دستہ آپ نے عبد اللہ بن جبیر (رض) کی قیادت میں ایک پہاڑی پر مقرر فرما دیا اور انہیں تاکید کردی کہ چاہے ہمیں فتح ہو یا شکست تم یہاں سے نہ ہلنا اور تمہارا کام یہ ہے کہ جو گھڑ سوار تمہاری طرف آئے تیروں سے اسے پیچھے دھکیل دینا لیکن مسلمان فتح یاب ہوگئے اور مال اسباب سمیٹنے لگے تو اس دستے میں اختلاف ہوگیا کچھ کہنے لگے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کا مقصد تو یہ تھا جب تک جنگ جاری رہے یہیں جمے رہنا لیکن جب یہ جنگ ختم ہوگئی ہے اور کفار بھاگ رہے ہیں تو یہاں رہنا ضروری نہیں۔ چناچہ انہوں نے بھی وہاں سے ہٹ کر مال و اسباب جمع کرنا شروع کردیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق وہاں صرف دس آدمی رہ گئے جس سے کافروں نے فائدہ اٹھایا ان کے گھڑ سوار پلٹ کر وہیں سے مسلمانوں کے عقب میں جا پہنچے اور اچانک حملہ کردیا جس میں مسلمانوں میں افراتفری مچ گئی۔ جس سے مسلمانوں کو قدرتی طور پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تسلی دے رہا ہے کہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ تاہم بالآخر تباہی و بربادی اللہ و رسول کی تکذیب کرنے والوں کا ہی مقدر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٣] یہ مضمون قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر آیا ہے اور ایسی آیات میں لوگوں کو عام دعوت دی گئی ہے کہ ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جن لوگوں نے انبیاء کو اور اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا تھا۔ ان کا کیا انجام ہوا تھا اور اس انجام کی تفصیل بھی قرآن میں متعدد مقامات پر دی گئی ہے۔ مثلاً قوم عاد کا کیا حشر ہوا۔ قوم ثمود کا کیا، اور قوم نوح، اصحاب مدین، اصحاب الحجر، قوم سبا وغیرہ وغیرہ کا کیا حشر ہوا۔ اسی طرح بعض اشخاص کا بھی ذکر آتا ہے۔ مثلاً فرعون اور آل فرعون، کا کیا حشر ہوا۔ اس مضمون کو شرعی اصطلاح میں && تذکیر بایام اللہ && کہتے ہیں۔ یعنی && جن لوگوں یا قوموں پر انبیاء اور آیات الٰہی کو جھٹلانے کی وجہ سے عذاب آیا تھا۔ اس سے عبرت حاصل کرنا && ایسے سب واقعات سے اللہ تعالیٰ کی جو عادت جاریہ معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کی نافرمانی میں انتہاء کو پہنچ جاتی ہے اور گناہوں میں ڈوب جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایسا عذاب نازل کرتا ہے جو اسے تباہ و برباد کردیتا ہے اور اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے اور یہ اللہ کی ایسی سنت ہے جو پوری ہو کے رہتی ہے۔ یقین نہ آئے تو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو۔ لہذا تمہیں بھی اس معاملہ میں محتاط رہنا چاہئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ ۔۔ : اوپر کی آیات میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر اور ان کی نافرمانی سے توبہ پر بخشش اور جنت کا وعدہ فرمایا، اب یہاں اطاعت اور توبہ کی ترغیب کے لیے پہلی امتوں کی تاریخ پر غور و فکر کا حکم دیا ہے، تاکہ ان میں سے مطیع اور نافرمان کے احوال پر غور کر کے انسان اپنے لیے سامان عبرت حاصل کرے۔ سُنَنٌ کا مفرد ” سُنَّۃٌ“ ہے اس کے معنی طریق مستقیم اور اس نمونے کے ہیں جس کی اتباع کی جاتی ہے۔ یہ ” فُعْلَۃٌ“ بمعنی ” مَفْعُوْلَۃٌ“ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل چونکہ مسلمان کے لیے نمونہ اور طریق مستقیم ہوتا ہے، اس لیے اسے سنت کہتے ہیں۔ جنگ احد میں جب ستر مسلمان شہید اور کچھ زخمی ہوئے تو اس شکست سے مسلمانوں کو قدرتی طور پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کہ اس شکست سے افسردہ خاطر نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بات تو پہلی امتوں اور انبیاء کے متبعین میں بھی ہوتی چلی آئی ہے کہ ابتدا میں ان کو تکا لیف سے دو چار ہونا پڑا اور بالآخر جھٹلانے والے ذلیل و خوار ہوئے۔ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ۝ ٠ ۙ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُكَذِّبِيْنَ۝ ١٣٧ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ سنن وتنحّ عن سَنَنِ الطّريق، وسُنَنِهِ وسِنَنِهِ ، فالسُّنَنُ : جمع سُنَّةٍ ، وسُنَّةُ الوجه : طریقته، وسُنَّةُ النّبيّ : طریقته التي کان يتحرّاها، وسُنَّةُ اللہ تعالی: قد تقال لطریقة حکمته، وطریقة طاعته، نحو : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23] ، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] ، فتنبيه أنّ فروع الشّرائع۔ وإن اختلفت صورها۔ فالغرض المقصود منها لا يختلف ولا يتبدّل، وهو تطهير النّفس، وترشیحها للوصول إلى ثواب اللہ تعالیٰ وجواره، وقوله : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] ، قيل : متغيّر، وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ [ البقرة/ 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة «1» . سنن تنح عن سنن الطریق ( بسین مثلثہ ) راستہ کے کھلے حصہ سے مٹ ج اور ۔ پس سنن کا لفظ سنۃ کی جمع ہے اور سنۃ الوجہ کے معنی دائرہ رد کے ہیں اور سنۃ النبی سے مراد آنحضرت کا وہ طریقہ ہے جسے آپ اختیار فرماتے تھے ۔ اور سنۃ اللہ سے مراد حق تعالیٰ کی حکمت اور اطاعت کا طریقہ مراد ہوتا ہے جیسے فرمایا : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23]( یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے ۔ تو آیت میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ کہ شرائع کے فروغی احکام کی گو مختلف صورتیں چلی آئی ہیں ۔ لیکن ان سب سے مقصد ایک ہی ہے ۔ یعنی نفس کو پاکر کرنا اور اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب اور اس کا جوار حاصل کرنے کے لئے تیار کرنا اور یہ مقصد ایسا ہے کہ اس میں اختلاف یا تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ اور آیت : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔ سار السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير، فمن الأوّل قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج/ 46] ، قُلْ سِيرُوا[ الأنعام/ 11] ، سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ/ 18] ، ومن الثاني قوله : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص/ 29] ، ولم يجئ في القرآن القسم الثالث، وهو سِرْتُهُ. والرابع قوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] ، هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس/ 22] ، وأمّا قوله : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 69] فقد قيل : حثّ علی السّياحة في الأرض بالجسم، وقیل : حثّ علی إجالة الفکر، ومراعاة أحواله كما روي في الخبر أنه قيل في وصف الأولیاء : (أبدانهم في الأرض سَائِرَةٌ وقلوبهم في الملکوت جائلة) «1» ، ومنهم من حمل ذلک علی الجدّ في العبادة المتوصّل بها إلى الثواب، وعلی ذلک حمل قوله عليه السلام : «سافروا تغنموا» «2» ، والتَّسْيِيرُ ضربان : أحدهما : بالأمر، والاختیار، والإرادة من السائر نحو : هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس/ 22] . والثاني : بالقهر والتّسخیر کتسخیر الجبال وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير/ 3] ، وقوله : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] ، والسِّيرَةُ : الحالة التي يكون عليها الإنسان وغیره، غریزيّا کان أو مکتسبا، يقال : فلان له سيرة حسنة، وسیرة قبیحة، وقوله : سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه/ 21] ، أي : الحالة التي کانت عليها من کو نها عودا . ( س ی ر ) السیر ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ سرت ( ض ) کے معنی چلنے کے ہیں اور سرت بفلان نیز سرتہ کے معنی چلانا بھی آتے ہیں اور معنی تلثیر کے لئے سیرتہ کہا جاتا ہے ۔ ( الغرض سیر کا لفظ چار طرح استعمال ہوتا ہے ) چناچہ پہلے معنی کے متعلق فرمایا : أَفَلَمْ يَسِيرُوا[ الحج/ 46] ، کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر ( و سیاحت ) نہیں کی ۔ قُلْ سِيرُوا[ الأنعام/ 11] کہو کہ ( اے منکرین رسالت ) ملک میں چلو پھرو ۔ سِيرُوا فِيها لَيالِيَ [ سبأ/ 18] کہ رات ۔۔۔۔۔ چلتے رہو اور دوسرے معنی یعنی سرت بفلان کے متعلق فرمایا : سارَ بِأَهْلِهِ [ القصص/ 29] اور اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر چلے ۔ اور تیسری قسم ( یعنی سرتہ بدوں صلہ ) کا استعمال قرآن میں نہیں پایا جاتا اور چوتھی قسم ( یعنی معنی تکثیر ) کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] اور پہاڑ چلائی جائینگے ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [يونس/ 22] وہی تو ہے جو تم کو جنگل اور دریا میں چلنے پھر نے اور سیر کرانے کی توفیق دیتا ہے ۔ اور آیت : سِيرُوا فِي الْأَرْضِ [ النمل/ 69] کہ ملک میں چلو پھرو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سیاست جسمانی یعنی ملک میں سیر ( سیاحت ) کرنا مراد ہے اور بعض نے سیاحت فکری یعنی عجائبات قدرت میں غور فکر کرنا اور حالات سے باخبر رہنا مراد لیا ہے جیسا کہ اولیاء کرام کے متعلق مروی ہے ۔ ( کہ ان کے اجسام تو زمین پر چلتے پھرتے نظر اتے ہیں لیکن ان کی روحیں عالم ملکوت میں جو لانی کرتی رہتی ہیں ) بعض نے کہا ہے اس کے معنی ہیں عبادت میں اسی طرح کوشش کرنا کہ اس کے ذریعہ ثواب الٰہی تک رسائی ہوسکے اور آنحضرت (علیہ السلام) کا فرمان سافروا تغنموا سفر کرتے رہو غنیمت حاصل کر وگے بھی اس معنی پر محمول ہے ۔ پھر تسیر دوقسم پر ہے ایک وہ جو چلنے والے کے اختیار واردہ سے ہو جیسے فرمایا ۔ هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ [يونس/ 22] وہی تو ہے جو تم کو ۔۔۔۔ چلنے کی توفیق دیتا ہے ۔ دوم جو ذریعہ کے ہو اور سائر یعنی چلنے والے کے ارادہ واختیار کو اس میں کسی قسم کا دخل نہ ہو جیسے حال کے متعلق فرمایا : وَسُيِّرَتِ الْجِبالُ [ النبأ/ 20] اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ ریت ہوکر رہ جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجِبالُ سُيِّرَتْ [ التکوير/ 3] اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ۔ السیرۃ اس حالت کو کہتے ہیں جس پر انسان زندگی بسر کرتا ہے عام اس سے کہ اس کی وہ حالت طبعی ہو یا اکتسابی ۔ کہا جاتا ہے : ۔ فلان حسن السیرۃ فلاں کی سیرت اچھی ہے ۔ فلاں قبیح السیرۃ اس کی سیرت بری ہے اور آیت سَنُعِيدُها سِيرَتَهَا الْأُولی [ طه/ 21] ہم اس کو ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے ۔ میں سیرۃ اولٰی سے اس عصا کا دوبارہ لکڑی بن جانا ہے ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٧) پہلی امتوں سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ توبہ کرنے والے کے لیے مغفرت وثواب ہے اور جو توبہ نہ کرے اس کے لیے ہلاکت و بربادی ہے، غور کرو جن لوگوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور اپنی اس تکذیب سے توبہ نہیں کی، ان کا آخری انجام کیا ہوا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٧ (قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ لا) (فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ) (فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ ) قریش کے تجارتی قافلے شام کی طرف جاتے تھے تو راستے میں قوم ثمود کا مسکن بھی آتا تھا اور وہ بستیاں بھی آتی تھیں جن میں کبھی حضرت لوط (علیہ السلام) نے تبلیغ کی تھی۔ ان کے کھنڈرات سے عبرت حاصل کرو کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہوا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(137 ۔ 142) ۔ احد کی لڑائی میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو مسلمانوں کو یہ خیال گذرا کہ ہم اسلام کی تائید میں لڑتے ہیں اور حق پر ہیں اور ہمارے دشمن اور مخالف لوگ ناحق پر ہیں اور دین الٰہی کو مٹانا چاہتے ہیں پھر ہماری شکست اور ان کی فتح کیوں اور کس مصلحت الٰہی سے ہوئی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تسلی اور کافروں کی تنبیہ میں یہ آیت نازل فرمائی۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ کی درگاہ میں ہر وقت کام کا وقت مقرر ہے ابھی ان دین الٰہی کے دشمنوں کی تباہی کا وقت نہیں آیا ہے جب وقت مقرر آجائے تو کچھ ان میں سے اپنے حال کی اصلاح کر کے مسلمان ہوجائیں گے اور جو اپنے کفر پر اڑے رہیں گے فورا جس طرح اگلے لوگ رسولوں کی مخالفت کے سبب سے ہلاک ہوچکے ہیں یہ بھی ہلاک ہوجائیں گے۔ اور تم مسلمان لوگ ہی آخر کو غالب رہو گے۔ چناچہ اس آیت کے نزول کی تاریخ سے دس ١٠ برس کے اندر فتح مکہ ہو کر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا ویسا ہی ہوگیا۔ اور مسلمانوں کی یہ تھی تسکین فرما دی۔ کہ اگر تمہارے کچھ لوگ اس لڑائی میں زخمی ہوگئے ہیں تو اس سے پہلے کی لڑائی میں ان کے لوگ بھی زخمی ہوچکے ہیں کچھ گھبرانے کی بات نہیں ہے اگر ہمیشہ تمہاری فتح ہوتی تو نہ تمہاری ثابت قدمی کمزوری کے وقت کی جانچی جاسکتی اور نہ اس ثابت قدمی کا اجر تم پاسکتے اور نہ شہادت کا درجہ مل سکتا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:137) سنن۔ سنۃ کی جمع۔ طریقے۔ راہیں۔ مثالیں۔ سنت۔ قانون شرعی۔ طورو اطوار۔ عادت۔ دستور۔ طریقہ جاریہ۔ یہاں مراد مختلف قوموں کے عروج و زوال۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اوپر کی آیات میں طاعت اور معصیت سے توبہ پر غفران اور جنت کا وعدہ فرمایا۔ اب یہاں طاعت اور توبہ کی ترغیب کے لیے پہلی امتوں کی تاریخ پر غور فکر کا حکم دیا ہے تاکہ ان مطیع اور عاصی کے احوال پر غور کر کے انسان اپنے لیے سامان عبرت حاصل کرے۔ (کبیر۔ ابن کثیر) سنت کے معنی طریق مستقیم اور اس نمونے کے ہیں جس کی اتباع کے لیے نمونہ اور طریق مستقیم ہوتا ہے اس لیے اسے سنت کہا جاتا ہے۔ ّ (کبیر) جنگ احد میں جب ستر مسلمان شہید ہوگئے اور کچھ زخمی ہوئے تو اس شکست سے مسلمانوں کو قدرتی طو پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تسلی کہ اس شکست اسے افسردہ خاطر نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بات تو امم سابقہ اور اور نبیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبعین میں ہوتی چلی آئی ہے کہ ابتدا میں ان کو تکالیف سے دوچار ہوتا ہے اور بآلا خر جھٹلانے والے ذلیل و خوار ہوئے۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اگر لوگ گناہوں سے بچنے ‘ جنت میں داخل ہونے ‘ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس سے معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں تو ظالم کو اپنی عارضی کامیابی پر اترانا نہیں چاہیے کیونکہ اس کا انجام برا ہی ہوا کرتا ہے۔ اُحد کی عارضی فتح پر کفار نے بڑے گھمنڈ اور غرور کا مظاہرہ کیا۔ ابو سفیان نے نعرہ لگاتے ہوئے کہا ’ ہبل زندہ باد ‘ پھر اس نے احد کے معرکہ کو بدر کا بدلہ قرار دیا جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قریبی ساتھیوں کو حکم دیا کہ اس کا فوری جواب دیا جائے۔ چناچہ صحابہ نے جواباً نعرہ لگایا : ( اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ ) ” اللہ بلند وبالا اور عظمت والا ہے “ حضرت عمر (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ احد بدر کا بدلہ نہیں ہوسکتا کیونکہ تمہارے مرنے والے جہنم کا ایندھن بنے اور ہمارے شہید جنت کے مہمان قرار پائے ہیں۔ [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ أحد ] اس پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن مجید ظالموں کو حکم دیتا ہے کہ اگر تم تاریخ کے اوراق سے بےبہرہ ہو تو ذرا ان جگہوں اور مقامات کو نگاہ عبرت سے دیکھوجہاں ظالموں کو تباہ و برباد کیا ہے کہ پیغمبروں کو جھٹلانے ‘ شریعت کو ٹھکرانے اور اللہ سے ٹکرانے والوں کا کیا انجام ہوا ؟ اے اہل کفر ! تمہارا انجام بھی ایسا ہی ہونے والا ہے۔ چناچہ ٹھیک اگلے سال غزوۂ احزاب میں کافر ذلیل ہوئے۔ ٨ ہجری میں اہل مکہ اس طرح سرنگوں ہوئے کہ بیت اللہ میں سب کے سامنے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معافی کے خواستگار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کے تخت الٹ گئے یہاں تک کہ ہندوستان کی سرزمین پر راجہ داہر جیسا ظالم محمد بن قاسم (رح) کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا۔ اس طرح کفار اور کذاب لوگوں کا عبرت انگیز انجام ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ رہنمائی حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے تاریخ کے اوراق ہمیشہ کے لیے رقم ہوچکے ہیں جن سے عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ جھوٹے لوگوں کا انجام دیکھنے کے لیے ان کی اجڑی ہوئی بستیوں کو دیکھنا چاہیے۔ ٢۔ یہ تاریخی واقعات گناہوں سے بچنے والوں کے لیے عبرت اور نصیحت ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس غزوہ میں مسلمانوں نے سخت چوٹ کھائی تھی ۔ وہ ایک بڑی تعداد میں قتل ہوئے تھے اور انہیں ہزیمت اٹھانی پڑی تھی ۔ انہیں عظیم روحانی اور جسمانی اذیت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ ان میں سے ستر صحابی قتل ہوگئے تھے ‘ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دانت مبارک شہید ہوگئے تھے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ مبارک زخمی ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین نے گھیرے میں لے کر تنگ کیا اور صحابہ کرام کو گہرے زخم آئے ۔ اس شکت کی وجہ سے اہل اسلام سخت جھنجھوڑ دیئے گئے ۔ اس لئے یہ ایک ایسا صدمہ تھا جو جنگ بدر کی عجیب فتح کے بعد شاید بالکل ہی غیر متوقع تھا ۔ یہاں تک کہ جب اہل اسلام کو یہ حادثہ پیش آیا تو وہ بےساختہ کہنے لگے ‘ یہ سب کچھ کیسے ہوا ‘ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی ایسے حالات سے دوچار ہوسکتے ہیں ؟ یہاں قرآن کریم اہل ایمان کو اس کرہ ارض پر سنت الٰہی کی طرف متوجہ کرتا ہے ‘ یہاں انہیں وہ اصول یاد دلایا جاتا ہے جس کے مطابق اس کرہ ارض پر واقعات کے فیصلے ہوتے ہیں ۔ یہ واقعات بالکل انوکھے نہیں ہیں ۔ اس لئے کہ اس کائنات میں انسانی زندگی کے لئے جو نوامیس فطرت وضع کئے گئے ہیں ‘ یہاں زندگی ان کے مطابق چل رہی ہے ۔ ان سے تخلف بالکل ممکن نہیں ہے اور نہ یہاں واقعات اتفاقیہ بغیر کسی اصول کے وقوع پذیر ہوتے ہیں جبکہ یہ واقعات نوامیس فطرت کے عین مطابق ہوتے ہیں ‘ اگر وہ ان نوامیس فطرت کو پڑھیں ‘ ان کے مغز تک پہنچیں تو انہیں بآسانی وہ حکمت معلوم ہوجائے گی جو ان واقعات کی پش پر تھی ‘ اور پھر انہیں وہ مقاصد بھی واشگاف طور پر نظر آجائیں جو ان واقعات کی تہہ میں پنہاں تھے ۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ وہ نظام کس قدر پختہ ہے جس کے مطابق یہ واقعات واحداث ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ نیز ان کی تہہ میں جو حکمت پوشیدہ تھی اس کے بارے میں بھی انہیں اچھی طرح اطمینان ہوجائے اور وہ اچھی طرح معلوم کرلیں کہ گزشتہ واقعات کی روشنی میں ان کے لئے آئندہ لائن کیا ہے ۔ اب اس روشنی کے آجانے کے بعد وہ یہ توقع کریں گے کہ چونکہ وہ مسلمان ہیں اس لئے ایسے واقعات ہونے چاہئیں اور انہیں فتح اور نصرت حاصل ہونی چاہئے ۔ بغیر اس کے کہ وہ فتح ونصرت کا سامان مہیا کریں ‘ جن میں سے پہلا سبب اللہ اور رسول اللہ اطاعت امر ہے۔ وہ سنت الٰہیہ کیا ہے جس کی طرف سیاق کلام انہیں یہاں متوجہ کررہا ہے ؟ وہ ان لوگوں کا انجام ہے جنہوں نے پوری انسانی تاریخ میں حق کو جھٹلایا ہے اور یہ کہ دنیا میں لوگوں کے شب وروز بدلتے رہتے ہیں ۔ لوگوں کو آزمائش میں ڈالا جاتا ہے تاکہ ان کی روح خالص ہوجائے ۔ ان کی قوت صبر کو آزمایا جاتا ہے اور یہ آزمائش مصائب وشدائد کے پہاڑ توڑ کر کی جاتی ہے ۔ اور یہ کہ جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں آخر کار انہیں فتح نصیب ہوتی ہے اور جو لوگ کفر کا رویہ اختیار کرتے ہیں انہیں صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا ہے۔ ان آیات میں سنن الٰہیہ کے بیان کے درمیان اہل ایمان کو آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ مشکلات کو انگیز کریں ‘ شدید حالات میں ایک دوسرے کے غم خوار ہوں اور انہیں جو چوٹ لگی ہے ‘ اس پر صبر کریں ‘ اس لئے کہ چوٹ صرف انہیں نہیں آئی بلکہ ان کے دشمنوں نے بھی تو ان کے برابر چوٹ کھائی حالانکہ مومنین ان کے مقابلے میں بلند نظریات کے حاملین ہیں ۔ وہ ان کے مقابلے میں راہ ہدایت پر ہیں اور ان کے مقابلے میں ان کا نظام زندگی زیادہ بہتر ہے ۔ اور ان مشکلات کے بعد انجام کار فتح و کامرانی بھی اہل ایمان کو نصیب ہونے والی ہے ۔ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الأرْضِ فَانْظُروا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (١٣٧) هَذَا بَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ ” تم سے پہلے بہت سے دور گزرچکے ہیں ‘ زمین میں چل پھر کر دیکھ لو ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہوں نے (اللہ کے احکام وہدایات کو) جھٹلایا ۔ یہ لوگوں کے لئے ایک صاف اور صریح تنبیہ ہے اور جو اللہ سے ڈرتے ہوں ان کے لئے ہدایت ونصیحت ۔ “ قرآن کریم کا انداز یہ ہے کہ وہ انسانیت کے حاضر کو اس کے ماضی کے ساتھ جو ڑدیتا ہے ۔ اور ماضی اور حال کو باہم مربوط کرکے انسانیت کے مستقبل کی فکر کرتا ہے ۔ عرب معاشرہ جو قرآن کے مخاطبین اول تھے ان کی زندگی کوئی زندگی نہ تھی ‘ ان کے ہاں کوئی علمی ذخیرہ نہ تھا اور اسلام سے پہلے ان کے ہاں سرمایہ تجربات بھی نہ تھا ‘ تاکہ تحریک اسلامی ان کے سامنے خود ان کے ذخیرہ ثقافت سے کوئی مکمل نمونہ پیش کرتا ۔ یہ تو اسلام اور اسلام کی کتاب قرآن تھی جس نے یہ کارنامہ انجام دیا کہ اس نے عربوں کو حیات جدید سے نوازا اور ان کو ایک ایسی امت کی شکل دی جس نے ادوار مابعد میں پوری دنیا کی قیادت کی۔ وہ قبائلی نظام معاشرت جس کے سایہ میں عرب زندگی گزار رہے تھے ‘ یہ اس قابل ہی نہ تھا کہ وہ ان کی فکر کو اس قدر وسعت دے دیتا کہ وہ جزیرۃ العرب کی زندگی کے واقعات کو کوئی منطقی ربط دے دیتے چہ جائیکہ وہ اس کرہ ارض میں بسنے والی تمام انسانیت اور اس کے حادثات اور واقعات کے درمیان کوئی منطقی ربط تلاش کرتے اور پورے کرہ ارض کے اندر پیش آنے والے عالمی واقعات اور اس کائنات کے اندر جاری نوامیس فطرت اور ان کے مطابق جاری وساری انسانی زندگی کے اندر ربط کی تلاش کی بارے میں تو وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے ۔ قرآن کریم اور اسلام کے نتیجے میں عربوں کے اندر جو علمی اور ثقافتی انقلاب رونماہوا ‘ وہ ایک دور رس انقلاب ہے ‘ یہ کوئی ایسا انقلاب نہ تھا کہ کسی معاشرے کے اندر تدریج کے ساتھ علمی وثقافتی ترقی کی وجہ سے رونما ہوا اور نہ یہ انقلاب اس وقت کی رائج اور چلتی ہوئی زندگی کے تقاضوں اور صلاحیتوں کی وجہ سے رونما ہوا۔ بلکہ یہ عظیم انقلاب خالص اسلامی نظریہ حیات کے نتیجے میں رونماہوا بلکہ یہ عقیدہ ان کے لئے یہ تحفہ لایا اور انہیں اٹھاکر اسلامی نظریہ حیات کی سطح تک بلند کیا ۔ اور یہ سب کام اس نظریہ حیات نے صرف ربع صدی کے قلیل عرصہ میں سر انجام دیا ۔ جبکہ عربوں کے ارد گرد بسنے والی ترقی یافتہ اور علمی سرمایہ سے مسلح اقوام افکار عالیہ کے اس مقام تک صدیوں بعد پہنچ پائیں اور کئی نسلیں گزرنے کے بعد ان اقوام نے معلوم کیا کہ اس کائنات کے اندر کچھ قوانین فطرت عمل پیرا ہیں اور یہ ان اٹل فطری نوامیس کے تحت چل رہی ہیں اور جب انہوں نے ان قوانین قدرت اور نوامیس فطرت کو دریافت کرلیا تو وہ اس حقیقت تک پھر بھی نہ پہنچ سکیں کہ ان اٹل قوانین کے اوپر ایک اٹل مشیئت الٰہیہ بھی ہے جو ان قوانین فطرت کی قید میں بھی مقید نہیں ہے ۔ اور قوانین فطرت کے بعد بھی تمام امور کے اندر اختیار اللہ تعالیٰ کا ہے ۔ رہی امت مسلمہ تو اس نے روز اول سے اس کا یقین حاصل کرلیا تھا۔ اس کائنات کے بارے میں اس کا تصور بہت وسیع ہوگیا تھا ‘ اور اس کے احساس اور شعور کے اندر قوانین فطرت کے ثبات اور اللہ تعالیٰ کی بےقید مشیئت کے اندر ایک توازن قائم ہوچکا تھا۔ اس لئے کہ اس کی عملی زندگی تو قوانین فطرت کے اٹل اصولوں پر قائم تھی لیکن اس کے بعد اسے یہ اطمینان بھی حاصل تھا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت بھی بےقید ہے ۔ فرماتے ہیں : قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ……………” تم سے پہلے بہت سے دور گزرچکے ہیں “ ان ادوار میں نوامیس فطرت کے مطابق رونما ہوئے تو تمہارے دور میں بھی ایسے ہی واقعات رونما ہوں گے ۔ اس لئے امم سابقہ کی تاریخ میں تمہاری جیسی صورتحال سے جو اقوام دوچار تھیں اور ان کے سامنے کچھ حقائق رونما ہوئے تو ایسے ہی نتائج کے لئے تم بھی تیار رہو۔ فَسِيرُوا فِي الأرْضِ……………” زمین میں چل پھر کر دیکھ لو “ اس لئے کہ پورا کرہ ارض ایک سیارہ ہے ۔ اس سیارے میں انسانی زندگی رواں دواں ہے ۔ یہ کرہ ارض اور اس کے اندر زندگی ایک کھلی کتاب ہے ۔ بصارت اور بصیرت دونوں کے لئے اس میں وافر سامان موجود ہے ۔ فَانْظُروا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ……………” دیکھ لو کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جنہوں نے (اللہ کے احکام وہدایات کو ) جھٹلایا۔ “ یہ وہ انجام ہے جس کے آثار کرہ ارض پر ہر جگہ قابل مشاہد ہیں ۔ نیز ان کی تاریخ میں وہ آثار و شواہد بعد میں آنے والوں نے ریکارڈ کردیئے ہیں ۔ قرآن کریم نے ان سنن وسیر کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ہاں نقل کیا ہے ۔ قرآن کریم کے متعدد مقامات پر ان کا ذکر ہے اور بعض جگہ واقعات کی جگہ ‘ ان کا زمانہ اور واقعات کے اشخاص اور کرداروں کا تذکرہ بھی تفصیل سے کیا ہے ۔ جبکہ بعض جگہ صرف اشارات سے کام لیا گیا ہے اور زمان ومکان کو چھوڑ دیا گیا ہے ۔ مجملاً واقعہ بیان ہوا ہے ۔ یہاں بھی ایک اجمالی اشارہ اس انسانی تاریخ کی طرف کیا گیا ہے اور اس سے ایک مجمل اور مجرد طریقہ نکالا گیا ہے ‘ وہ یہ کہ پیغمبروں کی تکذیب کرنے والوں کا جو انجام کل ہوا تھا وہی انجام آج بھی مکذبین کے لئے طے ہوچکا ہے ۔ اور کل بھی ان کا یہی انجام ہوگا۔ یہ اشارہ اس لئے کیا گیا ہے کہ جماعت مسلمہ اپنے انجام کے بارے میں مطمئن اور یکسو ہوجائے اور اس بات سے متنبہ ہوجائے کہ وہ مکذبین کے ساتھ پھسل نہ جائے ۔ اس لئے کہ اس وقت ایسے حالات موجود تھے جن میں اس یقین دہانی کی ضرورت تھی نیز ایسے حالات بھی موجود تھے جن میں مسلمانوں کو لغزش کھانے سے ہوشیار کرنے کی ضرورت تھی ۔ اور آنے والے سیاق کلام میں ان حالات پر تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

امم سابقہ سے عبرت : پھر فرمایا (قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ) (یعنی تم سے پہلے بہت سے طریقے گزر چکے ہیں۔ لہٰذا تم چلو زمین میں پھر دیکھو کیا انجام ہے جھٹلانے والوں کا) مطلب یہ ہے کہ تم سے پہلی امتوں کے واقعات گزر چکے ہیں جنہوں نے اللہ کے نبیوں کو جھٹلایا اور جھٹلانے والے انجام کے اعتبار سے مغلوب اور معذوب اور ہلاک ہوئے دنیا میں چل پھر کر ان کا انجام اپنی نظروں سے دیکھ لو۔ کتنی قومیں تھیں کہاں کہاں آباد تھیں ان کی بربادی کے نشانات ابھی تک دنیا میں موجود ہیں جو آنکھوں والوں کو عبرت کے لیے کافی ہیں۔ (قال صاحب الروح صفحہ ٢٥: ج ٤ ای وقائع فی الامم الملکذبۃ اجراھا اللّٰہ تعالیٰ حسب عادتہ) اگر وقتی طور پر تمہارے دشمنوں کو کسی طرح کی ظاہری فتح حاصل ہوگئی تو اس سے گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ تمہیں پھر فتح یابی سے سرفراز فرمائے گا۔ (قال معالم التنزیل صفحہ ٣٥٤: ج ١) ای یقول اللّٰہ عزوجل وانا امھلھم و استدر جھم حتی یبلغ اجلی الذی اجلت فی نصرۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و اولیاۂ و اھلاک اعداۂ ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

205 یہ تخویف دنیوی ہے اور سُنَنٌ کے سے مراد گذشتہ مکذبین کے واقعات ہیں ای وقائع فی الامم المکذبۃ (روح ص 64 ج 4) یعنی اللہ کی توحید اور خدا کے پیغمبروں کو جھٹلانے والوں کی تباہی و بربادی کے کئی واقعات تم سے پہلے وقوع پذیر ہوچکے ہیں ان سے اندازہ لگا لو کہ مکذبین کا کیا حشر ہوا۔ اس سے مسلمانوں کو گناہوں (مثلا ً سود خوری، میدان جنگ میں بزدلی دکھانے اور میر کی اطاعت سے سرتابی کرنے وغیرہ سے بچنے اور طاعات (مثلاً جہاد، انفاق، اطاعت امیر وغیرہ) بجالانے کی ترغیب دینا مقصود ہے (روح )

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 یقینا تم سے پہلے بھی بہت سے واقعات ہوچکے ہیں اور مختلف دور گزر چکے ہیں اور مختلف طریقوں کے لوگ ہوچکے ہیں اگر تم ان کے حالات کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہو تو زمین میں چلو پھر و اور چل پھر کر دیکھ لو کہ میری اور میرے رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا یعنی کفار کس طرح ہلاک وہ برباد ہوئے۔ سنن سنتہ کی جمع ہے جس کے معنی طریقہ ہے۔ یہاں مراد ہے۔ اہل طریقہ، یا دور یا حالات و وقائع ہم نے تیسیر میں سب کا لحاظ ہے چناچہ مطلب یہ ہے کہ پہلے زمانے میں بھی اچھے برے لوگ گزر چکے ہیں اور تم سے پہلے دور میں بھی مختلف الخیال لوگ ہوئے ہیں اور ان میں قتل و قتال بھی ہوتے رہے ہیں لیکن نتیجے اور انجام کے اعتبار سے تکذیب کرنے والے ہی ہلاک ہوئے ہیں اگر ت م ان کی اجڑی ہوئی بستیوں کو اور ان کے برباد شدہ مکانات کو بچشم خود دیکھنا چاہتے ہو تو گھروں سے نکل کر ان بستیوں تک جائو اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لو کہ وہ مکذبین کس حالت میں ہیں اور ان کا انجام کیسا ہوا اور یہ جو ہم نے سیروافی الارض کو مشروط کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سیروافی الارض کوئی خاص سفر کا حکم نہیں ہے بلکہ مشروط ہے ایک شرط محذوف کے ساتھ اگر ت م کو گذشتہ لوگوں کے حالات معلوم کرنے ہیں تو جائو جا کر دیکھ لو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی کافروں کا مقابلہ نبیوں سے قدیم دستور ہے ۔ ہر ملک کی خبر تحقیق کرو تو جانو کہ اول نبیوں پر بھی تکلیفات گزری ہیں لیکن آخر جھٹلانے والے خراب ہی ہوتے ہیں۔ جنگ احد میں ستر مسلمان کامل شہید ہوئے اور لڑائی بگڑی اس واسطے حق تعالیٰ تقویت فرماتا ہے۔ (موضح القرآن) بہرحال جیسا کہ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ ان آیات میں مسلمانوں کو تسلی اور تقویت مطلوب ہے اور مختلف عنوان سے اس مطلوب کا اظہار دور تک چلا گیا ہے چناچہ ارشاد ہتا ہے۔ (تسہیل)