Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 138

سورة آل عمران

ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃٌ لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۳۸﴾

This [Qur'an] is a clear statement to [all] the people and a guidance and instruction for those conscious of Allah .

عام لوگوں کے لئے تو یہ ( قرآن ) بیان ہے اور پرہیزگاروں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هَـذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ ... This is a plain statement for mankind, meaning, the Qur'an explains the true reality of things and narrates how the previous nations suffered by the hands of their enemies. ... وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ ... And a guidance and instruction, for the Qur'an contains the news of the past, and, هُدًى (guidance) for your hearts. ... وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ and instruction for the Muttaqin. to discourage committing the prohibited and forbidden matters. Allah comforts the believers by saying,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٤] یعنی ایسے واقعات عام لوگوں کے لیے محض ایک تاریخی بیان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کا ڈر نہیں ہوتا وہ یہی کہنے پر اکتفا کرلیتے ہیں کہ مختلف تہذیبیں بنتی اور مٹتی آئی ہیں۔ ایک یونانی تہذیب تھی، ایک رومی تہذیب تھی، ایک ہندی تہذیب تھی، ایک مصری تہذیب تھی، ایک بابلی تھی اور ہر تہذیب کی عمر طبعی تقریباً ایک ہزار سال ہوتی ہے۔ جب عمر پوری ہوجاتی ہے تو وہ تہذیب مٹ جاتی ہے تو اس کی جگہ کوئی نئی تہذیب لے لیتی ہے جس کا دنیا بھر میں بول بالا ہوجاتا ہے۔ اس تاریخی بیان میں ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہر تہذیب کی عمر ہزار سال یا تقریباً ہزار سال نہیں ہوتی۔ بلکہ اس سے بہت کم بھی ہوسکتی ہے اور اس سے بہت زیادہ بھی۔ پھر وہ یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کرتے کہ یہ تھذیبیں بن کیسے جاتی ہیں اور بگڑتی کیونکر ہیں ؟ قرآن نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ کوئی قوم اس دنیا میں ایسی نہیں جہاں اللہ کا پیغمبر مبعوث نہ ہوا ہو۔ (٣٥: ٢٤) پھر جب تک کوئی قوم اپنے پیغمبر کی تعلیمات پر عمل پیرا رہتی ہے تو یہ اس کے عروج کا زمانہ ہوتا ہے اور جب یہی قوم عیش و عشرت اور فحاشی و بےحیائی اور معصیت کے کاموں میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ جس کا نام ان کی زبان میں تہذیب ہوتا ہے تو اس پر بتدریج زوال آنا شروع ہوجاتا ہے یا وہ گناہوں میں بہت زیادہ ڈوب جائے تو ناگہانی قسم کا عذاب انہیں تباہ و برباد کردیتا ہے اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ جب بھی کسی قوم کے عروج وزوال پر نظر ڈالتے ہیں تو اسی نظریہ کے مطابق ڈالتے ہیں اور ایسے واقعات سے عبرت بھی حاصل کرتے ہیں اور ہدایت بھی۔ اس مقام پر یہ مضمون اس مناسبت سے آیا ہے کہ جو مشرکین مکہ اور یہود اور ان کے حلیف اور منافقین جو بھی اللہ کی آیات کو جھٹلا رہے ہیں اور مسلمانوں سے محاذ آرائی کر رکھی ہے ان سب کا یہی انجام ہونے والا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ ۔۔ : یعنی قرآن میں اس کا واضح ثبوت موجود ہے کہ پہلی امتوں کا ان کے دشمنوں کے ساتھ مقابلے میں کیا حال ہوا۔ چناچہ قرآن نے جا بجا متقین کے نیک انجام اور جھٹلانے والوں کی ہلاکت کا تذکرہ فرمایا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًى وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۝ ١٣٨ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ البیان البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ، وسمّي الکلام بيانا لکشفه عن المعنی المقصود إظهاره نحو : هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] . ( ب ی ن ) البین البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر ( بھیجا تھا ۔ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادات ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ اور کلام کو بیان کہا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ هذا بَيانٌ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 138] ( قرآن لوگوں کے لئے بیان صریح ہو ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ وعظ الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] ( و ع ظ ) الوعظ کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٨) یہ قرآن کریم ان حضرات کے لیے جو کفر وشرک سے بچنے والے ہیں، حلال و حرام کو بیان کرنے والا اور نصیحت والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی قرآن میں اس کا واضح ثبوت موجود ہے کہ پہلی امتوں کا ان کے دشمنوں کے ساتھ مقابلہ میں کیا حال ہوا۔ چناچہ قرآن جابجا متقین کے نیک انجام اور مکذبین کی ہلاتک کا تذکرہ فرمایا ہے۔ (کبیر، ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

نوامیس فطرت اور انسانی تاریخ میں سنت الٰہیہ کی طرف اشارے کے بعد لوگوں کو پکارا جاتا ہے کہ وہ انسانی تاریخ کے ان واقعات سے عبرت اور نصیحت حاصل کریں۔ هَذَا بَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ……………” یہ لوگوں کے لئے ایک صرف اور صریح تنبیہ ہے ۔ جو اللہ سے ڈرتے ہوں ان کے لئے ہدایت ونصیحت ۔ “ یہ تمام انسانوں کے لئے ایک بیان ہے ۔ پس یہ انسانیت کے لئے ایک دور رس انقلاب ہے اور لوگ اس انقلاب سے اس وقت تک بہرہ ور نہیں ہوسکتے جب تک یہ بیان نہ کیا جائے ۔ لیکن اس بیان سے استفادہ صرف ایک خاص گروہ ہی کرسکے گا ۔ صرف یہی لوگ عبرت ونصیحت حاصل کرسکیں گے ۔ صرف یہی لوگ بہرہ ور ہوں گے ۔ کون المتقون۔ یہ حقیقت ہے کہ کلمہ ہدایت کو شرف قبولیت صرف دل مومن بخشتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ ہدایت کے لئے ہر وقت کھلا ہوتا ہے اور فصیح وبلیغ نصیحت سے استفادہ متقی دل ہی کرسکتا ہے ‘ جو ہر وقت کلمہ ہدایت سنتے ہی دھڑکنے لگتا ہے اور قبولیت کے لئے آمادہ ہوتا ہے ۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ صرف حق و باطل کا علم کسی کو فائدہ دے یا ہدایت وضلالت کا صرف علم مفید ہو۔ سچائی اپنی فطرت کے اعتبار سے اس قدر واضح ہوتی ہے کہ اس کے لئے وہ کسی طویل کلام وبیان کی محتاج ہی نہیں ہوتی ۔ دراصل جس چیز کی کمی ہوتی ہے وہ قبول حق کا داعیہ ہوتا ہے اور لوگوں کو حق کے قبول کرنے کا راستہ معلوم نہیں ہوتا۔ سچائی کی رغبت اور اس کے قبول کرنے کے راستے صرف اس صورت میں مل سکتے ہیں جب کوئی دل ایمان ویقین سے بھرجائے اور ایمان اس وقت محفوظ رہتا ہے جب اس کی پشت پر تقویٰ اور اللہ خوفی موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس قسم کی تاکیدیں کی گئی ہیں کہ اس کتاب میں جو سچائی ‘ جو ہدایت ‘ جو روشنی ‘ جو وعظ اور جو عبرت آموز باتیں بیان کی گئی ہیں وہ مومنین اور متقین ہی کے مفید مطلب ہیں ۔ اس لئے کہ ایمان اور تقویٰ دل کے دریچے ہدایت ‘ روشنی اور عبرت ونصیحت کے لئے کھول دیتے ہیں ۔ صرف ایمان وتقویٰ کے بل بوتے پر ہی ایک انسان راہ حق کی تکالیف برداشت کرسکتا ہے ۔ یہ اصلی بات ہے اور اس مسئلے کی یہی حقیقت ہے ۔ صرف علم اور معلومات کے ساتھ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ کئی ایسے لوگ دیکھے جاسکتے ہیں کہ وہ حق کے علم ومعرفت کی ایک بڑی تعداد رکھتے ہوئے بھی باطل کے پرستار ہوتے ہیں اور اس میں گم گشتہ ہوتے ہیں ۔ محض اس لئے کہ ان کی نفسانی خواہشات ان پر قابو پائے ہوئے ہوتی ہیں جن کے مقابلے میں علم ومعرفت بےبس ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ وہ ان مشکلات کو دیکھ کر گھبراجاتے ہیں جو حاملین حق اور داعیان حق کا ہمیشہ استقبال کرتی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ ) (الآیۃ) کہ یہ لوگوں کے لیے بیان ہے اور ہدایت ہے اور نصیحت ہے تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے) یعنی جو کچھ اوپر بیان ہوا۔ یہ واضح بیان ہے لوگوں کے لیے لوگوں کے عموم میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو جنگ کرنے کے لیے آئے تھے اور عام مکذبین بھی۔ آخر میں (وَ ھُدًی وَّ مَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ ) فرما کر یہ بتادیا کہ اہل تقویٰ ہی واقعی طور پر ہدایت اور عبرت اور نصیحت حاصل کرتے ہیں (قال صاحب روح المعانی صفحہ ٦٦: ج ٤ والمراد بیان لجمیع الناس لکن المنتفع بہ المتقون لانھم یھتدون بہ و ینتفعون بوعظہ)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

206 ھٰذَا کا اشارہ قرآن کی طرف ہے۔ قال الحسن وقتادۃ وابن جریج والربیع الاشارۃ الی القرآن (بحر ص 61 ج 3) قرآن کی صفت بیان کو تمام لوگوں کے لیے عام کیا۔ اور ہدایت وموعظت کو متقین سے مخصوص کردیا کیونکہ یہ قرآن اعلان و اظہار اور بلاغ وبیان تو تمام دنیا کے لیے ہے لیکن اس کی ہدایت اور پندونصیحت سے نفع صرف وہی لوگ اٹھاتے ہیں۔ جن کے دلوں میں خدا کا خوف ہو اور وہ اللہ کی طرف انابت کریں اور ضد وعناد سے بچیں یا ھذا سے پہلے تمام مذکورہ واقعات کی طرف اشارہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi