Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 150

سورة آل عمران

بَلِ اللّٰہُ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ النّٰصِرِیۡنَ ﴿۱۵۰﴾

But Allah is your protector, and He is the best of helpers.

بلکہ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہ ہی بہترین مددگار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nay, Allah is your protector, and He is the best of helpers. Allah next conveys the good news that He will put fear of the Muslims, and feelings of subordination to the Muslims in the hearts of their disbelieving enemies, because of their Kufr and Shirk. And Allah has prepared torment and punishment for them in the Hereafter. Allah said, سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُواْ الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ وَبِيْسَ مَثْوَى الظَّالِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

150۔ 1 یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے، یہاں پھر دہرایا جا رہا ہے کیونکہ احد کی شکست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض کفار یا منافقین مسلمانوں کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ تم اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ۔ ایسے میں مسلمانوں کو کہا گیا کہ کافروں کی اطاعت ہلاکت و خسران کا باعث ہے۔ کامیابی اللہ کی اطاعت میں ہی ہے اور اس سے بہتر کوئی مددگار نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بَلِ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ ۚ : مولیٰ کا معنی مالک، مدد گار اور دوست وغیرہ ہے۔ یعنی تم کفار کی اطاعت تو اس لیے کرو گے کہ وہ تمہاری کچھ مدد کریں، مگر یہ سراسر جہالت ہے۔ تمہارا مالک، حامی و ناصر تو اللہ تعالیٰ ہے، اس پر بھروسا رکھو گے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہارا بال بیکا نہیں کرسکتی۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ” خَيْرُ النّٰصِرِيْنَ “ محاورۂ کلام کے اعتبار سے ہے، ورنہ یہ معنی نہیں ہیں کہ کچھ اور ناصرین بھی ہیں جن میں سے اللہ تعالیٰ سب سے بہتر ہے۔ (کبیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلِ اللہُ مَوْلٰىكُمْ۝ ٠ ۚ وَھُوَخَيْرُ النّٰصِرِيْنَ۝ ١٥٠ ولي والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٠۔ ١٥١) وہ ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد فرمائے گا اور وہ بہت زیادہ مدد فرمانے والے ہیں، غزوہ احد کے انجام میں کفار کو پھر واپسی کے ارادہ پر جو راستہ میں شکست ہوئی اللہ تعالیٰ اس کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ ہم نے کفار مکہ کے دلوں میں تمہارا ڈر بٹھا دیا یہاں تک کہ وہ شکست کھاگئے باوجودیکہ اس شرک پر بطور دلیل ان کے لیے نہ کوئی کتاب ہے اور نہ کوئی رسول اور ان کا اصلی ٹھکانا جہنم ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٠ (بَلِ اللّٰہُ مَوْلٰٹکُمْ ج) ۔ تمہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ تمہارا مولیٰ ‘ مددگار ‘ پشت پناہ ‘ ساتھی اور حمایتی اللہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:150) بل اللہ مولکم۔ اضراب عن مفہوم الجملۃ الادنی (شوکانی) یہ پہلے جملہ کے مفہوم کا دوسرا پہلو ہے۔ یعنی ادھر اگر تم کفار کی پیروی کروگے تو وہ تمہیں کفر و شرک اور خسارے کی طرف لے جاویں گے۔ اور ادھر یہ حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ بہترین دوست اور بہترین مددگار ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی تم کفار کی اطاعت تو اس لیے کرو گے کہ وہ تمہاری کچھ مدد کریں مگر یہ سراسرجہالت ہے۔ دراصل تمہارا حامی وناصر اللہ تعالیٰ ہے اس پر بھروسہ رکھو گے تو دنیا کی کوئی طاقت تمہار بال بیکا نہیں کرسکتی یادر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خیر الناصرین محاورہ کلام کے اعتبار سے فرمایا ہے ورنہ یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بھی ان ناصرین کی جنس سے ہے۔ ( ) کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ پس اسی کی دوستی پر اکتفاء کرو اور اسی کا مددگار سمجھو دوسرا مخالف اگر نصرت کی بھی تدبیر بتلائے خلاف حکم خداوندی تو عمل مت کرو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

221 یہ مشرکین اور منافقین تمہارے خیر خواہ نہیں ہیں یہ کبھی آڑے وقت میں تمہارے کام نہیں آئیں گے اس لیے اللہ تعالیٰ جو تمہارا دوست اور بہترین ناصر و مددگار ہے جو کسی سے مغلوب نہیں ہوتا اور جو زندہ جاوید ہے اور کبھی نہیں مرے گا اس کے ہوتے ہوئے تم کیوں کمزوری دکھاتے اور نصرت ویاری اور پناہ جوئی کے لیے غیروں کی طرف جھکتے ہو ان آیتوں کا شان نزول اگرچہ خاص ہے لیکن ان کا حکم قیامت تک کے لیے عام ہے اگر مسلمان کسی بھی زمانے میں کفار ومشرکین کی اطاعت کریں گے اور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہبی معاملات، ملکی اور سیاسی مسائل، معاشی اور معاشرتی امور میں غیر مسلموں کی تقلید کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ غیر شعوری طور پر اسلام سے بالکل بیگانہ ہوجائیں گے۔ نام اسلام کا ہوگا مگر کام سارے کافرانہ ہوں گے جیسا کہ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اے ایمان والو ! اگر تم نے کافروں کی اطاعت کی اور ان لوگوں کا کہنا مانا جنہوں نے کفر کی روش اختیار کر رکھی ہے تو وہ تم کو کفر کی طرف الٹا پھیر دیں گے اور کفر میں واپس کردیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم سخت نقصان میں پڑ جائو گے اور بالکل ناکام ہو جائو گے وہ تمہارے دوست اور خیر خواہ نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ تمہارا حمایتی اور مددگار ہے اور وہ سب سے بہتر مدد کرنے والا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے احد میں مسلمانوں کے پائوں اکھڑے تو منافقوں اور کافروں نے عجیب عجیب مشورے دیئے۔ کسی نے کہا ابوسفیان کی امان میں آ جائو کسی نے کہا اب تم لوگ اپنے پہلے ہی دین کو اختیار کرلو۔ اس آیت میں ان کے مشوروں کی خرابی بیان فرمائی ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ تمہارے خیر خواہ اور دوست نہیں ہیں کہ تم کوئی کوئی بھلا مشورہ دیں گے۔ بعض تو ان میں سے کھلم کھلم ہی کفر قبول کرنے کو کہہ رہے ہیں اور جو لوگ دوست بن کر مشورہ دے رہے ہیں وہ بھی ایسا نقصان دہ مشورہ دے رہے ہیں جس کا نتیجہ وہی ہوگا کہ تم سے اسلام کا دامن چھوٹ جائے گا اگر ایسا ہوا تو یہ تمہارے لئے سخت نقصان دہ ہوگا اور تم قیامت میں بالکل دیوالیے ہو جائوگے۔ دوسری آیت میں بتایا ہے کہ تمہارا خیر خواہ اور مددگار تو بس اللہ ت عالیٰ ہی ہے اور وہی بہترین حمایتی ہے اس لئے اسی کی اطاعت بجا لائو۔ حضرت شاہ صاحب خاسرین پر لکھتے ہیں یعنی اس جنگ میں جو مسلمانوں کے دل ٹوٹے تو کافروں نے اور منافقوں نے وقت کو غنیمت پایا ۔ بعضے الزام دینے لگے بعضے خیر خواہی کے پردے میں سمجھانے لگے تا آگے لڑائی پر دلیری نہ کریں۔ حق تعالیٰ خبر دار کرتا ہے کہ دشمن کا فریب نہ کھائو۔ (موضح القرآن) حدیث میں آتا ہے کہ ابو سفیان نے اعل ھبل اعل ھبل کے احد سے واپس ہوتے وقت نعرہ لگائے تھے ہبل ان کے بت کا نام تھا یعنی ہبل اونچا ہو ہبل بلند ہو۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے فرمایا تم اس کا جواب دو ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا جواب دیں آپ نے فرمایا کہو۔ اللہ اکبر پھر ابو سفیان نے کہا لنا العزی ولا عزی لکم یعنی ہمارا حمایتی زی ہے اور تم کو عزی کی حمایت حاصل نہیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اس کے جواب میں یہ نعرہ لگائو ۔ اللہ مولانا ولا مولی لکم یعنی اللہ ہمارا حمایتی اور مولیٰ ہے وہ تمہارا مولی نہیں ہے۔ عزی بھی کفار قریش کے ایک بت کا نام ہے۔ بہرحال اب آگے اسی دعوے کا ثبوت پیش کرتے ہیں اور اپنی مدد کو ظاہر کرتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں۔ (تسہیل)