Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 155

سورة آل عمران

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَلَّوۡا مِنۡکُمۡ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ ۙ اِنَّمَا اسۡتَزَلَّہُمُ الشَّیۡطٰنُ بِبَعۡضِ مَا کَسَبُوۡا ۚ وَ لَقَدۡ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ﴿۱۵۵﴾٪  7

Indeed, those of you who turned back on the day the two armies met, it was Satan who caused them to slip because of some [blame] they had earned. But Allah has already forgiven them. Indeed, Allah is Forgiving and Forbearing.

تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈ بھیڑ ہوئی تھی یہ لوگ اپنے بعض کرتوتُوں کے باعث شیطان کے پھسلانے میں آگئے لیکن یقین جانو کہ اللہ تعالٰی نے انہیں معاف کر دیا اللہ تعالٰی بخشنے والا اور تحمل والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ ... Those of you who turned back on the day the two hosts met, Shaytan only caused them to err because of some of what they had earned. because of some of their previous errors. Indeed, some of the Salaf said, "The reward of the good deed includes being directed to another good deed that follows it, while the retribution of sin includes committing another sin that follows it." Allah then said, ... وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ ... but Allah, indeed, has forgiven them, their giving flight. ... إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ surely, Allah is Oft-Forgiving, Most Forbearing. He forgives sins, pardons and exonerates His creatures. Imam Ahmad recorded that Shaqiq said, "Abdur-Rahman bin Awf met Al-Walid bin Uqbah, who said to him, `Why did you desert Uthman, the Leader of the Faithful?' Abdur-Rahman said, `Tell him that I did not run away during Uhud, remain behind during Badr, nor abandon the Sunnah of Umar.' Al-Walid told Uthman what Abdur-Rahman said. Uthman replied, `As for his statement, `I did not run away during Uhud,' how can he blame me for an error that Allah has already forgiven. Allah said, إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ ... Those of you who turned back on the day the two hosts met, Shaytan only caused them to err because of some of what they had earned. But Allah, indeed, has forgiven them. As for his statement that I remained behind from participating in Badr, I was nursing Ruqayyah, the daughter of the Messenger of Allah, until she passed away. The Messenger of Allah gave me a share in the booty of Badr, and whoever gets a share in the booty from the Messenger of Allah will have participated in battle. As for his statement that I abandoned the Sunnah of Umar, neither I nor he are able to endure it. Go and convey this answer to him."'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

155۔ 1 یعنی احد میں مسلمانوں سے جو لغزش اور کوتاہی ہوئی اس کی وجہ ان کی پچھلی کمزوریاں تھیں جس کی وجہ سے شیطان بھی انہیں پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ جس طرح بعض سلف کا قول ہے کہ " نیکی کا بدلہ یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مذید نیکی کی تو فیق ملتی ہے اور برائی کا بدلہ یہ ہے کہ اس بعد مذید برائی کا راستہ کھلتا اور ہموار ہوتا ہے۔ 155۔ 2 اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کی لغزشوں، ان کے نتائج اور حکمتوں کے بیان کے بعد پھر بھی اپنی طرف سے ان کی معافی کا اعلان فرما رہا ہے۔ جس سے ایک تو ان کا محبوب بارگاہ الٰہی میں ہونا واضح ہے اور دوسرے، عام مومنین کو تنبیہ ہے کہ ان کے مومنین صادقین کو جب اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا تو اب کسی کے لئے جائز نہیں کہ ہدف ملامت یا نشانہ تنقید بنائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٨] یعنی غزوہ احد جو مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان بپا ہوئی۔ اس شکست کے بعد بعض مخلص مسلمانوں نے بھی فرار کی راہ اختیار کرلی تھی۔ بالخصوص اس وقت جب آپ کی وفات کی افواہ پھیلی تھی اور مسلمانوں کے اوسان خطا ہوگئے تھے۔ اس آیت میں (بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا ١٥٥۔ ) 3 ۔ آل عمران :155) سے مراد بھی وہی درہ کو چھوڑنے اور اللہ کے رسول کی نافرمانی کرنے کی غلطی تھی جو مسلمانوں سے سرزد ہوگئی تھی اور یہ راہ فرار اختیار کرنا ان مومنوں کے اپنے عزم سے نہ تھا بلکہ یہ ایک شیطانی اغوا تھا ورنہ ان کے دل ایمان پر قائم تھے اس دوران رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صرف تیرہ یا چودہ مسلمان رہ گئے تھے جن میں سات مہاجرین تھے اور سات انصار۔ مہاجرین میں سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ (رض) ، حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) ، حضرت زبیر بن عوام (رض) اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) تھے اور حضرت عثمان (رض) بھی ان لوگوں میں شامل تھے۔ جنہوں نے راہ فرار اختیار کی تھی۔ چناچہ شیعہ حضرات حضرت عثمان (رض) پر ایک یہ طعن بھی کرتے ہیں۔ حالانکہ خود اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ یہ فرار محض شیطانی اغوا تھا۔ ایمان کی کمزوری کی بنا پر نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قصور معاف فرما دیا ہے۔ جب آپ زخمی ہوئے اور کفار نے آپ کے گرد گھیرا ڈال لیا تو اس دوران دو صحابہ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ (رض) نے آپ کی جان کی حفاظت کے لیے جانثاری کے بےمثال نمونے پیش کئے۔ چناچہ حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے سعد بن ابی وقاص کے بعد پھر کسی کے لیے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر اپنے آپ کو یا اپنے ماں باپ کو فدا کیا ہو۔ غزوہ احد کے دن آپ حضرت سعد سے یوں فرماتے تھے۔ & تیر مارو، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں & (بخاری، کتاب الجہاد باب المجن ومن تترس بترس صاحبہ) اور حضرت طلحہ (رض) آپ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ آپ بھی ماہر تیر انداز تھے جو کوئی پاس سے گزرتا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے اپنے تیر طلحہ کے حوالے کردو۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ کافروں کے تیر روکنے کے لیے حضرت طلحہ (رض) کے پاس کوئی چیز نہ تھی تو اپنا بازو آگے کردیا اور سب تیر اسی پر برداشت کرتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک بازو شل ہوگیا تو دوسرا آگے کردیا۔ چناچہ قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ & میں نے طلحہ (رض) کا وہ ہاتھ دیکھا جس سے انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچایا تھا، وہ بالکل شل ہوگیا تھا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب ذکر طلحہ بن عبیداللہ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا ۔۔ : یعنی احد کے دن جو مسلمان میدان جنگ سے ہٹ گئے، وہ شیطان کے پھسلانے کے سبب ہٹے، مگر شیطان کو انھیں پھسلانے کا موقع انہی کے کچھ گزشتہ گناہوں کی وجہ سے ملا۔ جن میں سے بعض کا ایک گناہ یہ بھی تھا کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی مخالفت کی تھی۔ سلف سے مروی ہے کہ ایک نیک کام کرنے سے دوسرے نیک کام کی توفیق ملتی ہے اور ایک گناہ دوسرے گناہ کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے۔ (ابن کثیر) مقصد یہ کہ بعض مخلص مسلمان جو اس دن بھاگ کھڑے ہوئے وہ اس وجہ سے نہیں بھاگے کہ وہ اسلام سے پھرگئے تھے، یا منافق تھے، بلکہ شامت نفس اور سیئات اعمال کی وجہ سے شیطان کو انھیں بہکانے کا موقع ملا۔ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے : ( وَ نَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّءَاتِ أَعْمَالِنَا ) ” ہم اپنے نفس کے شر اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ “ [ ابن ماجہ، النکاح، باب خطبۃ النکاح : ١٨٩٢ وصححہ الألبانی ] یہ بھی معلوم ہوا کہ نفس کا شر ہو یا اعمال کی شامت، ان کے ساتھ شیطان کا گمراہ کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔ 2 وَلَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْھُمْ ۭ : اس سے تین آیات پہلے بھی ( وَلَقَدْ عَفَا عَنکُم ) کہہ کر ان کی معافی کی نوید سنائی گئی ہے۔ اب پھر مزید اطمینان اور تسلی کے لیے دوبارہ خوش خبری سنائی جا رہی ہے کہ بلاشبہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کردیا ہے، یعنی جو واقعی دل میں اخلاص رکھتے تھے ان کی توبہ اور معذرت کے سبب اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کردیا، اب نہ ان پر کوئی گناہ ہے اور نہ کسی کو طعن کا حق ہے۔ مزید تفصیل دیکھیے آل عمران (١٥٢) کے فوائد ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ۝ ٠ ۙ اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّـيْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا۝ ٠ ۚ وَلَقَدْ عَفَا اللہُ عَنْھُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۝ ١٥٥ ۧ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ اسْتَزَلَّ : إذا تحرّى زلّته، وقوله : إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطانُ [ آل عمران/ 155] ، أي : استجرّهم الشّيطان حتی زلّوا، فإنّ الخطيئة الصّغيرة إذا ترخّص الإنسان فيها تصیر مسهّلة لسبیل الشّيطان علی نفسه . وقوله عليه السلام :«من أُزِلَّتْ إليه نعمةٌ فلیشکرها» أي : من أوصل إليه نعمة بلا قصد من مسديها، تنبيها أنه إذا کان الشّكر في ذلک لازما فكيف فيما يكون عن قصده استزلہ ( استفعال ) کسی کو پھسلانے کا قصد و ارادہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطانُ [ آل عمران/ 155] شیطان نے انہیں پھسلا دیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ شیطان انہیں آہستہ آہستہ پھسلانے کی کوشش کرتا رہا حتٰی کہ وہ پھسل گئے کیونکہ جب انسان صغائر میں بےپرواہی سے کام لیتا ہے تو وہ شیطان کے تسلط کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے ۔ حدیث میں ہے «من أُزِلَّتْ إليه نعمةٌ فلیشکرها»کہ جسے بلا طلب نعمت مل جائے اسے منعم کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔ جس سے مفہوم ہوتا ہے کہ جب بلا قصد نعمت حاصل ہونے پر شکر گزاری لازم ہے تو جو احسان کسی کے قصد اور ارادہ سے ہو اس کا شکریہ بالاولی ضروری ہے ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ عفو فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ حلم الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور/ 32] ، قيل معناه : عقولهم ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل وقد حَلُمَ وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] ، ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٥) غزوہ احد میں صحابہ کرام (رض) ظاہری شکست کھاکر متفرق ہورہے تھے ان میں حضرت عثمان بن عفان (رض) بھی تھے، جب کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوسفیان کی جماعت کا مقابلہ ہورہا تھا اور اس طرح متفرق ہونے کی وجہ یہ تھی کہ شیطان نے آواز بنا کر کہہ دیا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کردیے گئے تو اس غم میں کئی صحابہ بوجہ حب رسول، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ پا کر حوصلہ ہار بیٹھے اس غم فراق رسول میں چھ ہاتھ کے برابر پیچھے ہٹ گئے اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس ظاہری لغزش کو کہ ان لوگوں نے مورچہ کو چھوڑ دیا تھا اپنے فضل اور صحابہ کرام (رض) کی حسن نیت کے سبب معاف کردیا۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٥ (اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ لا) یہ ایسے مخلص حضرات کا تذکرہ ہے جو اچانک حملے کے بعد جنگ کی شدت سے گھبرا کر اپنی جان بچانے کے لیے وقتی طور پر پیٹھ پھیر گئے۔ ان میں سے کچھ لوگ کوہ احد پر چڑھ گئے تھے اور کچھ اس سے ذرا آگے بڑھ کر میدان ہی سے باہر چلے گئے تھے۔ ان میں بعض کبار صحابہ (رض) کا نام بھی آتا ہے۔ دراصل یہ بھگڈر مچ جانے کے بعد ایسی اضطراری کیفیت تھی کہ اس میں کسی سے بھی کسی ضعف اور کمزوری کا اظہار ہوجانا بالکل قرین قیاس بات ہے۔ (اِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا ج) ۔ کسی وقت کوئی تقصیر ہوگئی ہو ‘ کوئی کوتاہی ہوگئی ہو ‘ یا کسی کمزوری کا اظہار ہوگیا ہو ‘ یہ مخلص مسلمانوں سے بھی بعید نہیں۔ ایسا معاملہ ہر ایک سے پیش آسکتا ہے۔ معصوم تو صرف نبی ہوتے ہیں۔ انسانی کمزوریوں کی وجہ سے شیطان کو موقع مل جاتا ہے کہ کسی وقت وہ اڑنگا لگا کر اس شخص کو پھسلا دے ‘ خواہ وہ کتنا ہی نیک اور کتنا ہی صاحب رتبہ ہو۔ ( وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ ط) ۔ یہ الفاظ بہت اہم ہیں۔ بعض گمراہ فرقے اس بات کو بہت اچھالتے ہیں اور بعض صحابہ کرام (رض) کی توہین کرتے ہیں ‘ ان پر تنقید کرتے ہیں کہ یہ میدان جنگ سے پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے تھے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی معافی کا اعلان کرچکا ہے۔ اس کے بعد اب کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ ان پر زبان طعن دراز کرے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

54: یعنی جنگ سے پہلے ان سے کچھ ایسے قصور ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر شیطان کو حوصلہ ہوا اور اس نے انہیں بہکا کر مزید غلطی میں مبتلا کردیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:155) استزلہم۔ اس نے ان کو بہکادیا۔ (باب استفعال) الزلۃ بلا قصد کے قدم پھسل جانا۔ زلۃ پھسلنے کی جگہ باب افعال سے ازل یزل پھسلانا۔ فازلہما الشیطن (2:136) ان دونوں کو شیطان نے پھسلا دیا۔ ببعض ما کسبوا۔ ان کے کسی عمل کی وجہ سے۔ حلیم۔ حلم سے بروزن فعیل۔ صفت مشبہ کا صیغہ ۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ بہت تحمل والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یہ ستزل کے متعلق ہے کہ اور جملہ اس کی خبر ہے یعنی احد کی دن جو مسلمان میدان جنگ سے ہٹ گئے تو یہ ان کے کئے کی شامت میں یعنی گذشتہ گنا ہوں کا نتیجہ ہے۔ من جملہ ان کے یہ بھی ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حکم کی مخالفت بھی کی تھی۔ (زشوکانی) سلف سے مروی ہے کہ ایک نیک کام کرنے سے دو سرے نیک کام کی تو فیق ملتی ہے اور اگر ایک گناہ دوسرے گناہ کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے۔ ( ابن کثیر) مقصد یہ کے بعض مسلمان جو اس دن بھاگ کھڑے ہوئے وہ اس وجہ سے نہیں بھاگے کہ اسلام سے پھرگئے تھے یا منا فق تھے بلکہ شامت نفس اور اغوائے شیطان کے باعث یہ گنا کہ ان سے سرزد ہوا۔ (وحیدی)3 یعنی جو واقعی دل میں اخلاص رکھتے تھے ان کی تو بہ اور معذرت کے سبب الہ تعالیٰ نے ان کو معاف کردیا۔ اب نہ ان پر کوئی گناہ ہے اور نہ کسی کو طعن کا حق ہے ،۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کسی نے بطور طعن فرار ہوگئے تھے ؟ حضرت ابن عمر (رض) کہا ہاں ہے تو صحیح مگر قرآن نے ان کے لیے عفو اور مغفرت کا اعلان بھی تو کردیا ہے ،۔ لہذا فضیوں کا حضرت عثمان (رض) پر یہ طعن کرنا نری نادارنی اور حماقت ہے۔ ( قرطبی۔ وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ ببعض ماکسبوا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک گناہ سے دوسرا گناہ پیدا ہوتا ہے جیسا کہ ایک طاعت سے دوسری طاعت کی توفیق بڑھتی جاتی ہے۔ 4۔ بعض معاندین صحابہ نے اس واقعہ سے صحابہ پر خصوصا حضرت عثمان (رض) پر طعن کیا ہے اور اس سے عدم صلاحیت خلافت کی مستنبط کی ہے لیکن یہ محض مہل بات ہے جب اللہ نے معاف کردیا اب دوسروں کو مواخذہ کرنے کا حق رہا قصہ خلافت کا سو اہل حق کے نزدیک خلافت کے لیے عصمت شرط نہیں ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ کو ان باتوں کا علم ہے جو ذہن کے اندر تھیں ۔ انہوں نے شکست کھائی اور جب اس غزوہ میں انہیں دشمن کے ساتھ آمنا سامنا ہوا تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ کمزوری دکھائی ‘ پیٹھ دکھائی ‘ کیوں اس لئے کہ انہوں نے اپنے کمانڈر کی نافرمانی کی تھی ۔ اس کی وجہ سے ان کے نفوس متزلزل ہوگئے ۔ اس راہ سے شیطان ان کے دلوں میں داخل ہوگیا اور انہیں لغزش میں ڈال دیا اور یہ لوگ پھسل پڑے ۔ فرماتے ہیں ۔ إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ ” تم میں سے جو لوگ مقابلہ کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے ان کی اس لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے ان کے قدم ڈگمگادئیے تھے ۔ اللہ نے انہیں معاف کردیا ‘ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے۔ “ اس سے مراد وہ تیر انداز ہوسکتے ہیں جن کے دل میں مال غنیمت کی لالچ نے جوش مارا تھا ۔ جس طرح ان کے دلوں میں یہ بات بھی آگئی تھی کہ شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں ان کا حصہ نہ دیں گے۔ یہ وہ بات تھی جو انہوں نے اپنی کمزوریوں کی وجہ سے کمائی تھی ۔ اور اسی وجہ سے شیطان نے انہیں لغزش میں مبتلا کردیا تھا۔ لیکن اپنے عموم کے اعتبار سے وہ نفس انسانی کی اس حالت کی تصویر ہے جب اس سے کسی غلطی کا ظہور اور ارتکاب ہوتا ہے ۔ اسے اپنے اوپر قابو نہیں ہوتا۔ اللہ کے ساتھ اس کا رابطہ کمزور پڑجاتا ہے ۔ اس کی شخصیت کا توازن ختم ہوجاتا ہے ‘ اسے اپنے اوپر کنٹرول نہیں رہتا ۔ اور وہ خلجان اور وسوسوں کا شکار ہوجاتا ہے ۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کا تعلق اللہ سے ختم ہوجاتا ہے اور اسے اللہ کی رضامندی کا بھروسہ نہیں رہتا ۔ یہ مقام ہوتا جہاں شیطان حملہ آور ہوتا ہے ۔ وہ انسان کے نفس کے اندر داخل ہوجاتا ہے ۔ اب یہ ایسے شخص کی نکیل اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور اس سے لغزشوں پر لغزشیں کرواتا ہے اور یہ نفس اللہ کی پرامن اور مضبوط بارگاہ سے دور چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن اللہ پرستوں نے نبیوں کے ساتھ مل کر جنگ کی انہوں نے کفار کے مقابلے میں سب سے پہلے جس ہتھیار کی توجہ کی وہ استغفار تھا۔ کیونکہ استغفار کے ذریعہ ان کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف مڑجاتی تھی ۔ اللہ کے ساتھ ان کا تعلق اس کی وجہ سے مضبوط ہوجاتا ۔ ان کے دلوں میں سے تمام خلجان اور غیر یقینی حالت ختم ہوجاتی ۔ تمام وساوس دور ہوجاتے اور وہ دروازہ بند ہوجاتا جس میں سے شیطان درآتا۔ اور یہ دروازہ ہمیشہ تب کھلتا ہے جب اللہ سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ انسان کی اس کی حمایت اور پناہ گاہ سے باہر نکل آتا ہے اور اس سوراخ سے جب شیطان داخل ہوتا ہے تو وہ ان کے پاؤں کو متزلزل کردیتا ہے ۔ وہ بار بار ڈگمگاتے لگتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ انہیں اللہ کی پناہ گاہ سے بہت دور لے جاکر بےآب وگیاہ صحراء میں سرگرداں کردیتا ہے۔ اللہ بتاتے ہیں کہ میری رحمت ان کے شامل ہوگئی ہے ۔ اس لئے شیطان انہیں مجھ سے کاٹ نہ سکا۔ لہٰذا وہ معاف کردیئے گئے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اپنا ذاتی تعارف بھی کراتے ہیں کہ وہ غفور ہیں ‘ بخشنے والے ہیں اور بردبار ہیں ۔ غلط کاروں کو راندہ درگاہ نہیں کرتے اور نہ ہی سزادہی میں جلدی کرتے ہیں ۔ جب اللہ نے جان لیا کہ ان کے اندر اللہ کی تلاش کا داعیہ موجود ہے اور وہ اس سے جڑنا چاہتے ہیں اور اس نے جان لیا کہ وہ سرکشی نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ جان چھڑانا چاہتے ہیں اور نہ ہی اللہ کی غلامی سے فرار چاہتے ہیں تو وہ پھر اپنی مغفرت سے نوازتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

صحابہ (رض) کی معافی کا اعلان : آخر میں فرمایا (اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ ) (الآیۃ) بیشک تم میں سے جو لوگ اس دن پشت پھیر کر چلے گئے جس دن دونوں جماعتیں آپس میں مقابل ہوئیں بات یہی ہے کہ ان کو شیطان نے لغزش دے دی بعض ایسے اعمال کے سبب جو انہوں نے کیے اور البتہ تحقیق اللہ نے ان کو معاف فرمایا بیشک اللہ بخشنے والا علم والا ہے۔ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو تسلی بھی دی ہے (کیونکہ ان کی معافی کا اعلان فرمایا ہے) اور یہ بھی بتایا ہے کہ جو لوگ پشت پھیر کر چل دیئے تھے ان کو شیطان نے لغزش دے دی تھی اور اس لغزش کا سبب ان کے بعض گناہ بن گئے اس سے معلوم ہوا کہ گناہ گناہوں کی طرف کھینچتے ہیں ایک گناہ دوسرے گناہ کا سبب بن جاتا ہے۔ اور گناہوں کے ذریعہ شیطان دوسرے گناہوں پر آمادہ کردیتا ہے۔ (غزوہ احد کے بارے میں ہم نے جو کچھ لکھا ہے حافظ ابن کثیر کی تفسیر سے اور البدایہ والنہایہ سے اور تفسیر روح المعانی سے ماخوذ ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

236 اَلْجَمْعَانِ (دو لشکر) یعنی مسلمانوں کا اور مشرکوں کا جنگ احد میں جن صحابیوں سے لغزش ہوگئی تھی اور وہ مشرکین کے اچانک ہلے پر بدحواس ہو کر بھاگ نکلے تھے اس آیت میں ان کی مزید تسکین و تسلی فرمائی اور آئندہ کے لیے محتاط رہنے کی تلقین فرمائی۔ بعض ما کسبوا سے یا توتیر انداز دستے کا اپنے مورچہ کو چھوڑدینا دمراد ہے کیونکہ احد میں مسلمانوں کی شکست اس لغزش کا سب سے زیادہ دخل ہے یا اس سے ان کے بعض گذشتہ گناہ مراد ہیں کیونکہ بعض اوقات انسان اپنی شامت اعمال کی وجہ سے بھی خدا کی تائید ونصرت سے محروم ہوجاتا ہے اور ایک گناہ سے دوسرے گناہ کیلئے آمادہ کرنے کا شیطان کو بھی موقع مل جاتا ہے یعنی جنگ احد میں جو مسلمان شکست خوردہ ہو کر بھاگ نکلے تھے ان کے کسی پچھلے گناہ کی شامت سے شیطان نے ان کو بہکا پھسلا کر ان کے قدم ڈگمگادئیے اور وہ میدان سے ہٹ گئے۔ اس سے چند آیتیں پہلے بھی اللہ نے ان مومنین کے لیے معافی کا اعلان فرمایا اب ان کی مزید تسکین وتشفی کے لیے دوبارہ معافی کا اعلان فرمادیا اللہ کا فضل وکرم اور اس کی شفقت و رحمت سے بھرپور الفاظ کے ساتھ تیر اندازوں یا میدان سے ہٹنے والوں سے جو لغزش ہوئی اس پر صرف تنبیہ فرمائی اور اس کی پاداش میں کوئی تباہ کن شکست بھی نہیں دی۔ اور پھر ان کا قصور بھی ایسا معاف فرمایا کہ آخرت میں اس پر ان کی کوئی داروگیر نہیں ہوگی اس لیے اب اس قصور کی بنا پر دنیا میں ان صحابہ کرام (رض) پر طعن وملامت کرنے کا بھی کسی کو حق نہیں۔ 237 جو لوگ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیتے ہیں اللہ ان کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور آخرت میں ان پر مواخذہ نہیں فرمائے گا اور جو مجرم اور گنہگار اس سے معافی نہیں مانگتے ان پر فوراً گرفت نہیں فرماتا بلکہ انہیں توبہ و استغفار کا موقع دیتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 یقین جانو ! کہ جس دن احد کے میدان میں دو جماعتیں باہم نبرد آزما ہوئی تھیں اور آپس میں بھڑی تھیں اس دن جو لوگ میدان سے ہٹ گئے اور جنہوں نے اس دن لڑائی سے پشت پھیری تو سوائے لغزش دے دی اور ان کے قدم ڈگمگا دیئے۔ بلاشبہ جن کو شیطان نے بہکا دیا تھا اور نج سے لغزش ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرما دیا اور ان کو درگذر کردیا۔ یقین مانو ! اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا ہے اور بڑے تحمل کا مالک ہے یعنی بخش بھی دیا اور گرفت بھی کوئی سخت نہیں کی۔ (تیسیر) حضر ت ابن عباس سے مروی ہے۔ یہ معافی کا اعلان حضرت عثمان رافع بن المعلی اور خارجہ بن زید کے لئے ہوا ہے اور یہ آیت ان ہی کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ فقیر عرض کرتا ہے نزول کسی کے حق میں ہو لیکن جنگ سے جس قدر لوگ ہٹے تھے ان سب کی معافی مراد ہے کیونکہ اس دن سوائے تیرہ آدمیوں کے جن میں سے کچھ مہاجرین تھے اور کچھ انصار تھے باقی سب ہی جنگ سے ہٹ گئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان سب کو معاف فرما دیا اور اب جو لوگ کسی بزرگ پر لب کشائی کرتے ہیں وہ نالائق اللہ تعالیٰ پر معترض ہوتے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ تو معاف فرما چکا لیکن ان بدبختوں کی نظر میں باوجود اللہ تعالیٰ کے معاف کردینے کے مورد عتاب ہیں۔ ببعض ماکسبوا سے یا تو ان کے پہلے کچھ قصور اور خطائیں مراد ہیں اور ہوسکتا ہے کہ گھاٹی کو چھوڑ دینا اور پیغمبر کی آواز پر متوجہ نہ ہونا اور دنیا طلب کرنے کی خواہش مراد ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اشارہ اس غلطی کی طرف ہو جو بدر کے قیدیوں سے فدیہ لے لیا تھا۔ جیسا کہ بعض نے کہا ہے ایک غلطی سابق اور دوسری لاحق ۔ (واللہ اعلم) بہرحال۔ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ جس طرح کسی نیک عمل سے نیکی کی توفیق میسر ہوتی ہے اسی طرح کسی قصور اور خطا سے شیطان کا قابو اور اس کا وسوسہ بڑھتا ہے اور ایک غلطی بہت سی غلطیوں کا سبب بن جاتی ہے اور اگر فوری تدارک نہ کیا جائے تو انسان شیطان کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اعاذ نا اللہ من مکائد الشیطان اوپر کی آیتوں میں بھی معافی اک اعلان فرما دیا تھا یہاں یا تو محض تاکید معافی کی مقصود ہے یا منافقین کے خیالات کا رد کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس لغزش کو معاف فرما دیا ہے۔ آخری حصہ میں غفور حلیم فرمایا۔ مغفرت یہ کہ خطا معاف کردی۔ حلم یہ کہ معمولی سی ہزیمت ہوئی کوئی سخت گرفت نہیں فرمائی۔ آیت میں کس قدر مہربانی اور تلطف کا اظہار ہے خطا کے ذکر کے ساتھ فوراً ہی معذرت اور معذرت کے ساتھ فوراً ہی معانی کا اعلان پھر مستقل مغفرت اور حلم کا اظہار سبحان اللہ وبحمدہ۔ یعنی پہلے پیٹھ پھیرنے اور جنگ سے ہٹ جانے کا ذکر کیا پھر فرمایا وہ شیطان نے بعض کو تاہیوں کے باعث ان کے ساتھ ایسا کیا اور ان کے قدم پھسلا دیئے اور شیطانی قوت نے ایسا کرایا پھر آگے اطمینان ہے کہ اگر ایسا ہوگیا تو کچھ مضائقہ نہیں ہم نے معاف فرما دیا اور یہ معاف کردینا اور حلم سے کام لینا تو ہماری عام عاد ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ اس جنگ میں جو لوگ ہٹ گئے ہیں ان پر گناہ نہیں رہا۔ (موضح القرآن) اب آگے منافقین کے قول کی مزید تشریح فرما کر مسلمانوں کو منع فرماتے ہیں کہ تم ان منافقوں کے ان کافرانہ اقوال سے متاثر نہ ہونا یہ تقدیر الٰہی کے منکر ہیں اور یہ انکار ان کے لئے مزید موجب حسرت و برامت کیونکہ تقدیر الٰہی پر ایمان رکھنے والوں کو جو اطمینان نصیب ہوتا ہے وہ منکرین تقدیر کو نہیں حاصل ہوا کرتا ۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)