Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 174

سورة آل عمران

فَانۡقَلَبُوۡا بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ لَّمۡ یَمۡسَسۡہُمۡ سُوۡٓءٌ ۙ وَّ اتَّبَعُوۡا رِضۡوَانَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۷۴﴾

So they returned with favor from Allah and bounty, no harm having touched them. And they pursued the pleasure of Allah , and Allah is the possessor of great bounty.

۔ ( نتیجہ یہ ہوا ) کہ اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ یہ لوٹے ، انہیں کوئی بُرائی نہیں پہنچی ، انہوں نے اللہ تعالٰی کی رضامندی کی پیروی کی ، اللہ بہت بڑے فضل والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَانقَلَبُواْ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ ... So they returned with grace and bounty from Allah. No harm touched them; for when they relied on Allah, Allah took care of their worries, He confounded the plots of their enemies, and the Muslims returned to their land, بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ (with grace and bounty from Allah... . No harm touched them;) safe from the wicked plots of their enemies, ... وَاتَّبَعُواْ رِضْوَانَ اللّهِ وَاللّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ and they followed the pleasure of Allah. And Allah is the Owner of great bounty. Al-Bayhaqi recorded that Ibn Abbas said about Allah's statement, فَانقَلَبُواْ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ (So they returned with grace and bounty from Allah), "The `Grace' was that they were saved. The `Bounty' was that a caravan passed by, and those days were (Hajj) season days. Thus the Messenger of Allah bought and sold and made a profit, which he divided between his Companions." Allah then said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

174۔ 1 نِعْمَۃ، سے مراد سلامتی ہے اور فضل سے مراد نفع ہے جو بدر صغریٰ تجارت کے ذریعے حاصل ہوا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر صغریٰ میں ایک گزرنے والے قافلے سے سامان تجارت خرید کر فروخت کیا جس سے نفع حاصل ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں میں تقسیم کردیا (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٢] یعنی صحابہ کرام (رض) ہر لحاظ سے فائدہ میں رہے۔ اللہ کی رضا بھی حاصل ہوگئی۔ جنگ کی سختی سے بھی بچ رہے۔ دشمن بھی مرعوب ہو کر واپس چلا گیا اور مالی فائدہ بھی حاصل ہوگیا اور ہر طرح سے کامیاب کامران واپس لوٹے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اس آیت سے اور ابن عباس (رض) کی حدیث سے کلمہ ( وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ) کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ کس طرح ابراہیم (علیہ السلام) ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) ہر قسم کی برائی سے محفوظ رہ کر اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ واپس پلٹے اور انھوں نے اللہ کی...  رضا کی پیروی کی۔ اس لیے ہر مصیبت کے وقت اس وظیفہ کے معنی کا خیال کرتے ہوئے دل اور زبان کو ایک کر کے اسے کثرت سے پڑھنا چاہیے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The third verse (174) recounts the blessings which descended upon these noble Companions for their brave response to the call of Jihad and for saying: حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (Allah is all-sufficient for us, and the best one to trust in). It was said: فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِ‌ضْوَانَ اللَّـهِ So, they returned with bou... nty from Allah, and grace, with no evil having even touched them -- and submitted to the pleasure of Allah. Allah Almighty bestowed on them three blessings: 1. Such awe and terror was placed in the hearts of disbelievers that they ran away because of which the Companions remained protected against the rigours of fighting on the battlefield. Allah Almighty has used the very word نِعْمَة Ni&mah for what we refer to as blessing. 2. The second blessing conferred on them was the opportunity to engage in trading in the market of Hamra&al-Asad. The benefits yielded by such financial transactions were called فضل &Fadl& or the bounty from Allah. 3. The third and the highest of the three blessings was the attain¬ment of the pleasure of Allah which these blessed souls received in Jihad in a special manner حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ : Hasbunallahu wa ni` mal-wakil: A wonderful prayer for all of us The blessings of this prayer cited by the Holy Qur&an were not limited to the Companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in any restrictive sense. The fact is that anyone who recites this prayer devot¬edly with a genuine sense of faith will share in such blessings. Muslim scholars and spiritual masters have said that one who recites this verse a thousand times with true faith, and prays, will find that Allah Almighty has not rejected his prayer. Reciting this verse under the stress of frustrations and difficulties is a proven panacea. The fourth verse (175) tells Muslims that the real agent behind the report that the disbelievers are coming back is شیطان Satan himself who would love to see Muslims overawed. In other words, شیطان Satan is threat¬ening Muslims with the strength of his friends - his cohorts, the disbe¬lievers. Thus, one of the two objects of the verb يُخَوِّفُ yukhawwifu [ frightens (you)] has been left out in the text. The one mentioned is in اولیاہُ &auliya&ahu& (of his friends) while the one understood but not mentioned is &you& as it would be in يُخَوِّفُکم yukhawwifukum (frightens you). In the end, the verse exhorts Muslims not to fear such threats. What is necessary is that Muslims must continue fearing Allah, the natural outcome of which will be that a true Muslim will always think twice before embarking on anything that means disobedience to Allah. The truth of the matter is that, with Allah&s help and support on ones& side, no harm can come from any side. The Fear of Allah: What does it mean? The imperative in the present verse obligates Muslims that they must always keep fearing Allah. In another verse, يَخَافُونَ رَ‌بَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ (They fear their Lord above them-16:50) those who do so have been praised. Some revered elders have explained it by saying that fearing Allah does not mean that one should be scared stiff or sit back in tears. Far from it, a God-fearing person is one who leaves everything which may become a source of Allah&s displeasure or punishment. Abu ` Ali al-Daqqaq, may Allah&s mercy be upon him, says that Abu Bakr ibn al-Fuwarrak (رض) was sick so he paid him a visit. When Abu Bakr saw him, he was in tears. Abu ` Ali consoled him by saying that there was nothing to worry about, Allah Almighty will give him health soon enough. Abu Bakr corrected Abu &Ali&s impression and said that he was certainly not weeping because of any fear of death. What he really worried about was his fate after death lest he may be awarded some punishment then. (Qurtubi)   Show more

تیسری آیت میں ان حضرات صحابہ کے اقدام جہاد اور حسبنا اللہ و نعم الوکیل کہنے کے فوائد وثمرات اور برکات کا بیان ہے، فرمایا ہے : فانقلبوا بنعمة من اللہ و فضل لم یمسھم سوء واتبعوا رضوان اللہ یعنی یہ لوگ اللہ کے انعام اور فضل کے ساتھ واپس آئے کہ انہیں کوئی ناگواری ذرا نہ پیش آئی اور یہ لوگ رضائے الٰہی ک... ے تابع رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو تین نعمتیں عطا کیں، پہلی نعمت تو یہ کہ کافروں کے قلوب میں رعب وہیبت ڈال دی اور وہ لوگ بھاگ گئے جس کی وجہ سے یہ حضرات قتل و قتال سے محفوظ رہے، اس نعمت کو اللہ تعالیٰ نے نعمت ہی کے لفظ سے تعبیر فرمایا اور دوسری نعمت اللہ تعالیٰ نے یہ عطا فرمائی کہ ان حضرات کو حمراء الاسد کے بازار میں تجارت کا موقع ملا اور اس مال سے منافع حاصل ہوا اس کو لفظ فضل سے تعبیر فرمایا ہے۔ تیسری نعمت جو ان تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے وہ رضائے الٰہی کا حصول ہے جو اس جہاد میں ان حضرات کو خاص انداز میں حاصل ہوئی۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل کے جو فوائد و برکات قرآن کریم نے بیان فرمائے وہ کچھ صحابہ کرام کے ساتھ مخصوص نہ تھے، بلکہ جو شخص بھی جذبہ ایمانی کے ساتھ اس کا ورد کرے وہ یہ برکات حاصل کرے گا۔ مشائخ و علماء نے حسبنا اللہ و نعم الوکیل پڑھنے کے فوائد میں لکھا ہے کہ اس آیت کو ایک ہزار مرتبہ جذبہ ایمان وانقیاد کے ساتھ پڑھا جائے اور دعا مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ رد نہیں فرماتا۔ ہجوم افکار و مصائب کے وقت حسبنا اللہ ونعم الوکیل کا پڑھنا مجرب ہے۔ چوتھی آیت میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لئے مشرکین کے دوبارہ لوٹنے کی خبر دینے والا اصل میں شیطان ہے، جو تم کو اپنے اولیاء یعنی ہم مذہب کفار سے ڈرانا چاہتا ہے، تو گویا اصل عبارت میں یخوف کا ایک مفعول محذوف ہے، یعنی یخوفکم اور دوسرا مفعول اولیآء ہو مذکور ہے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کو ایسی خبروں سے ہرگز ڈرنا نہیں چاہئے، البتہ مجھ سے ڈرتے رہنا ضروری ہے، یعنی میری اطاعت کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے ہر مومن کو ڈرانا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کی مدد ساتھ ہو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ خوف خدا سے مراد کیا ہے :۔ اس آیت میں حق تعالیٰ نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے رہیں اور دوسری آیت میں ان لوگوں کی مدح فرمائی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں، یخافون ربھم من فوقھم (٦١: ٠٥) مگر بعض اکابر نے فرمایا کہ خوف خدا رونے اور آنسو پونچھنے کا نام نہیں، بلکہ اللہ سے ڈرنے والا وہ ہے جو ہر اس چیز کو چھوڑ دے جس پر اللہ کی طرف سے عذاب کا خطرہ ہو۔ ابو علی دقاق رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر بن فواک بیمار تھے، میں ان کی عیادت کر گیا، مجھے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، میں نے کہا کہ گھبرایئے نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء و عافیت دیں گے، وہ فرمانے لگے کہ کیا تم یہ سمجھے کہ میں موت کے خوف سے روتا ہوں، بات یہ نہیں، مجھے مابعد الموت کا خوف ہے کہ وہاں کوئی عذاب نہ ہو (قرطبی)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْھُمْ سُوْۗءٌ۝ ٠ۙ وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللہِ۝ ٠ۭ وَاللہُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِيْمٍ۝ ١٧٤ انقلاب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ ... آل عمران/ 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں الانقلاب کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے رِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٤) اور اس جانے آنے میں ان حضرات کو نہ لڑائی کا سامنا ہوا اور نہ کسی قسم کی کوئی شکست ہوئی ان حضرات نے بدر صغری میں رسول اکرم (رض) کی اطاعت وپیروی کی اور اللہ تعالیٰ بڑے انعام و احسان والا ہے، ان سے دشمنوں کو دور کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٤ (فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ ) ابوسفیان کو جب پتا چلا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے تعاقب میں آ رہے ہیں تو اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ سیدھا مکہ مکرمہ کی طرف رخ کرلیا جائے۔ بدرِصغریٰکی مہم میں بھی یہی ہوا کہ جب اس نے سنا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ...  وسلم) تو اپنے پورے ساتھیوں کے ساتھ مقابلے پر آگئے ہیں تو وہ کنی کترا کر اور طرح دے کر نکل گیا اور مقابلے میں نہیں آیا۔ ( لَّمْ یَمْسَسْہُمْ سُوْءٌ لا) انہیں اس مہم میں کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تھی جس میں وہ پورے اترے۔ (وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَان اللّٰہِ ط) ۔ انہیں اللہ کی رضا و خوشنودی پر چلنے کا شرف حاصل ہوگیا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یہاں فضل سے مراد وہی مالی فائدہ ہے و انہوں نے تجا رت سے حاصل کیا تھا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اور پھر انجام کیا ہوگا ؟ وہی جو اللہ نے متوکلین کے لئے لکھ دیا ہے جو اللہ کے لئے خالص ہوجاتے ہیں اور جن کے لئے بس اللہ ہی کافی ہوتا ہے۔ فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ ” آخرکار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت...  اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے ‘ ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضاپر چلنے کا شرف بھی انہیں حاصل ہوگیا ‘ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ “ وہ مشکلات سے بچ کر بغیر کسی تکلیف کے واپس ہوگئے ۔ اللہ کی رضامندی کے ساتھ واپس ہوئے اور کامیابی اور خوشی سے واپس ہوئے ۔ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ……………” اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ ۔ “ اللہ تعالیٰ یہاں پھر ان کی توجہ جود اور بخشش کے سبب اول کی طرف مبذول کراتے ہیں ‘ کہ سبب اول اللہ کی نعمت اور اس کا فضل ہوا کرتا ہے ۔ اور اس میں یہ اشارہ بھی مقصود ہے کہ صحابہ کرام کا موقف قابل تعریف تھا۔ کیونکہ ان کا یہ موقف تھا کہ وہ صرف اللہ کا فضل اور اس کی نعمت کی تلاش میں تھے ۔ تمام نعمتوں کا سرچشمہ یہی ہے کہ اللہ کا فضل ہوجائے اور ان کا موقف بھی ایسا تھا جہاں فضل خداوندی کی بارش تھی ۔ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ……………” اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔ “ اس طرح ‘ اللہ اپنی ابدی کتاب میں یہ ثبت کردیتے ہیں اور اپنے کلام میں ان کی یہ تصویر کھینچتے ہیں ‘ ان کا یہ موقف پیش فرماتے ہیں اور اللہ کا کلام وہ کلام ہے جس کے ساتھ یہ پوری کائنات ہم آہنگ ہے ۔ غرض ان کا موقف نہایت ہی شریفانہ ہے اور ان کی یہ تصویر بھی نہایت ہی خوبصورت ہے ۔ جب انسان کے اس موقف اور ان کے اس نظارے پر غور کرتا ہے تو اسے احساس ہوجاتا ہے کہ صرف ایک ہی رات میں ان لوگوں کا نقطہ نظر یکسر بدل گیا ہے ‘ وہ پختہ کار ہوگئے ‘ باہم متناسق ہوگئے ‘ وہ جہاں کھڑے تھے وہاں مطمئن ہوکر جم گئے ۔ ان کے خیالات سے تمام دھند اور میل دور ہوگئی اور ان کی صورت حال بالکل نئی ہوگئی ۔ کل ان کے تصورات میں اور ان کی صفوں کے اندر جو خلجان اور جو تذبذب پایا جاتا تھا ‘ آج اس کا نام ونشان نہیں ہے ۔ صرف ایک رات ہی گزری تھی کہ ان کے موقف میں زمین و آسمان کا فرق ہوگیا ۔ عظیم فرق اور میلوں کی مسافت ایک لحظہ میں طے ہوگئی۔ اس تلخ تجربے نے ان کے نفوس کے اندر اپنا کام کردکھایا ۔ اس حادثہ نے انہیں خوب جھنجھوڑا جس کی وجہ سے ان کے تصورات سے ہر قسم کے غبار چھٹ گئے ‘ ان کے دل از سر نو جاگ اٹھے ‘ ان کے قدم جم گئے اور ان کے دل از سر نو عزم صمیم سے مالا مال ہوگئے ۔ بالکل درست ہے یہ کہنا کہ اس ابتلا میں بھی اللہ فضل پوشیدہ تھا۔ اس پیراگراف کے آخر میں اس وقت کے موجودہ جزع وفزع اور خوف وہراس کی علت بھی بتادی گئی ۔ بتایا گیا کہ یہ تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں کا ڈر اور رعب تمہارے دلوں میں بٹھاتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں کو رعب وبدبہ کے لباس میں پیش کرتا ہے۔ اس لئے اہل ایمان کو شیطان کی اس چال سے خوب خبردار رہنا چاہئے ۔ اور اس کے اس مکر کو بےاثر بنانے کی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں ۔ اس لئے وہ اہل قریش سے نہ ڈریں کیونکہ وہ اس وقت شیطان کے ساتھی ہیں ۔ وہ شیطان ہے دوستوں سے خائف ہونے کے بجائے اللہ سے ڈریں کیونکہ صرف وہی قوی قادر مطلق اور جبار ہے اور وہی اس بات کا مستحق کہ اس سے خوف کیا جائے۔ ” اب تمہیں معلوم ہوگیا کہ وہ دراصل شیطان تھا ‘ جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرارہا تھا لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا ‘ مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں ایمان لانے والے ہو۔ “ شیطان اپنے دوستوں کو بہت بڑا کرکے اور پھولا کر پیش کرتا ہے ۔ وہ انہیں ایسے لباس میں پیش کرتا ہے جس میں وہ قوی اور طاقتور نظر آئیں ۔ وہ دلوں میں یہ رعب بٹھاتا ہے کہ شیطان کے ساتھی سب کچھ اپنے حق میں پھیر سکتے ہیں اور ان کے ہاتھ لمبے ہیں ۔ وہ نفع بھی دے سکتے ہیں اور ضرر بھی دے سکتے ہیں تاکہ شیطان اس ذریعہ سے اپنی ضروریات اور اغراض پوری کرتا رہے ۔ اور ان دوستوں کے ذریعہ دنیا میں شر اور فساد پھیلائے ۔ اور لوگوں کو اپنے دوستوں کے سامنے اس قدر جھکادے کہ وہ ان کی اطاعت غیر مشروط طور پر کریں ۔ کوئی ان کے سامنے کسی بات کا انکار نہ کرسکے ۔ کوئی شخص ان پر تنقید نہ کرسکے اور ان شر و فساد سے روکنے کی جرأت ہی نہ کرسکے ۔ شیطان کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ باطل کو خوب پھولاکر اور موٹا کرکے پیش کرے ۔ اس طرح کہ وہ قوی ‘ صاحب قدرت ‘ قہار اور جبار اور سخت گرفت کا مالک نظر آئے ۔ اس کی کوئی پوزیشن نہ ہو ۔ اس کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ ہو اور کوئی قوت ایسی نہ ہو جو اس پر غالب آسکتی ہو ۔ شیطان کی مصلحت یہ ہے کہ وہ صورت حال کو اس طرح قائم رکھے ۔ خوف اور رعب کے پردے میں اور تخویف اور پکڑ کی فضا میں شیطان کے دوست دنیا میں سب کاروائیاں کرتے ہیں ۔ وہ معروف کو منکر بناتے ہیں اور منکر کو معروف بناتے ہیں۔ شر ‘ فساد اور گمراہی پھیلاتے ہیں ۔ سچائی ‘ ہدایت اور عدل کی آواز کو دھیما کرتے ہیں ‘ بغیر اس کے کہ کوئی ان کو چیلنج کرے یا ان کے سامنے کھڑا ہو ‘ یا قیادت کے مقام سے انہیں ہٹاسکے ۔ غرض وہ باطل جس کی ترویج کرتے ہیں ان پر تنقید کی جرأت ہی اہل حق کو نہ ہو اور جس حق کو وہ مٹانا چاہتے ہیں اس کی وضاحت کرنے اور اسے غالب کرنے کی بھی کسی جرأت نہ ہوسکے ۔ شیطان سخت مکار ‘ دغاباز اور غدار ہے ۔ وہ اپنے دوستوں کے لباس میں آتا ہے۔ اور جو لوگ شیطانی وساوس کے مقابلے میں احتیاط نہیں کرتے ‘ وہ ان دوستوں سے انہیں خوب ڈراتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں اسے خوب ننگا کرتے ہیں ۔ اور وہ یوں ننگا ہوجاتا ہے کہ اس کے جسم پر اس کے مکروفریب کا کوئی لباس ہی نہیں رہتا ۔ اہل ایمان شیطان کی حقیقت کو اچھی طرح جان لیتے ہیں ۔ اس کے وسوسوں اور اس کے مکر و فریب کی حقیقت کو پالیتے ہیں تاکہ وہ اس سے محتاط ہوجائیں ۔ اس کے دوستوں سے نہ ڈریں اور نہ ان سے خائف ہوں۔ جو مومن ذات باری پر مکمل بھروسہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے مقابلے میں شیطان بہت ہی کمزور ہوتا ہے اس لئے کہ اس کی قوت کا سرچشمہ اللہ ہوتا ہے ۔ وہ واحد قوت جس سے کسی انسان کو ڈرنا چاہئے وہ صرف وہی قوت ہوتی ہے جو نفع اور نقصان پہنچانے پر قادر ہو اور نفع اور نقصان دینے والی قوت صرف اللہ کی قوت ہے ۔ اور ایک مومن صرف اللہ سے ڈرنے والا ہوتا ہے۔ اور جب تمام اہل ایمان صرف اللہ سے ڈرنے والے بن جائیں تو وہ سب قوتوں کے مقابلے میں قوی تر ہوجاتے ہیں ۔ پھر ان کے مقابلے میں دنیا کی کوئی قوت ٹھہر نہیں سکتی ۔ نہ شیطانی قوت اور نہ شیطان کے دوستوں کی قوت تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ……………” پس تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو ‘ اگر تم مومن ہو۔ “ اب اس سلسلے میں آخری نتیجہ اور آخری نچوڑ پیش کیا جاتا ہے ۔ روئے سخن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرکے بطور تسلی اور دلجوئی کہا جاتا ہے کہ آپ پریشان نہ ہوں ‘ اور آپ اس بات کا غم نہ کھائیں کہ یہ اہل کفر والحاد کی جانب بہت تیزی سے جارہے ہیں ۔ اور وہ اس کفر میں اس قدر تیز ہیں کہ گویا وہ کسی دوڑ کے مقابلے میں ہیں ‘ کہا جاتا ہے کہ ذرا ان کی اس حرکت پر غور کرو کہ اس سے اللہ تعالیٰ کو نقصان کیا ہے ؟ یہ تو خود ان کے لئے ایک مصیبت ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مصیبت ان کی قسمت میں لکھ دی ۔ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ کیا کریں گے اور کیا کیا کفر کرنے والے ہیں ؟ اس لئے اس سے پہلے ہی یہ فیصلہ کردیا کہ اچھا تو آخرت میں محروم ہوگے ۔ اس لئے انہیں اس نے ان کے حال ہی پر چھوڑدیا اور وہ ہدف کفر ہی کی طرف بڑی مسارعت سے بڑھتے رہے ۔ ان کے سامنے راہ ہدایت بھی واضح تھی ‘ لیکن انہوں نے اپنے اختیار تمیزی کو استعمال کرتے ہوئے کفر کی راہ کو اپنایا ۔ اس لئے انہیں ان کے حال ہی پر چھوڑ دیا گیا ۔ اور ان کو مزید مہلت دی گئی کہ وہ خوب گناہ سمیٹ لیں زیادہ سے زیادہ ۔ یہ مہلت ان کو وقت کے لحاظ سے بھی دی گئی اور خوشحالی کی صورت میں بھی دی گئی ۔ لہٰذا یہ مہلت اور خوشحالی ان کے لئے گویا بطور انعام کار ایک وبال اور مصیبت ہے ۔ یہ حصہ آیات اس پر ختم ہوتا ہے کہ ان تمام واقعات کی پشت پر کیا حکمت تھی ؟ یہ کہ مومنین کو کیوں ابتلا میں ڈالا گیا ‘ اہل کفر کو کیوں اس قدر مہلت دی جارہی ہے ۔ یہ اس لئے پاک لوگ گندے لوگوں سے الگ چھٹ کر رہ جائیں ۔ اور یہ پاکیزگی اور تطہیر کا عمل آزمائش اور ابتلا ہی کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ رسول کی بات بذریعہ آزمائش ہی معلوم ہوسکتی ہے ۔ وہ تو غیب ہے اور غیب کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے ۔ لوگوں کو اس کا پتہ نہیں ہوتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ مناسب سمجھا کہ ایک مناسب طریقہ کار کے مطابق غیب کا اظہار اہل ایمان پر ہوجائے ‘ اہل ایمان کو دلوں کا حال معلوم ہوجائے ‘ پاک لوگ گندے عناصر سے الگ ہوجائیں اور اللہ پر ایمان لانے والے ‘ قطعی اور یقینی طور پر میدان میں آجائیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

266 فَانْقَلَبُوْا میں فاء عاطفہ ہے اور معطوف علیہ محذوف ہے و المعنی خرجوا فانقلبو (کبیر ج 3 ص 147) یعنی حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان بدر صغریٰ کی طرف ابو سفیان کے وعدہ کے مطابق نکل پڑے اور خیر و عافیت سے واپس آئے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہوئی اور نہ کوئی نقصان اٹھانا پڑا۔...  وَ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللہِ ۔ جب مسلمانوں کو لشکر کفار کی کثرت تعداد اور کثرت ساز و سامان کی خبر ملی تو انہوں نے کسی قسم کی کمزوری اور بزدلی کا اظہار نہ کیا بلکہ اللہ پر توکل اور بھروسہ کیا۔ اور اس کی رضا جوئی کو ہر چیز پر ترجیح دی اور جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ لما بلغھم کثرۃ جموعھم لم یفتروا و لم یفتروا و لم یفشلوا وتوکلوا علی اللہ و رضوا بہ کافیا و معینا فلھم اجر عظیم (کبیر) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi