Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 175

سورة آل عمران

اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیۡطٰنُ یُخَوِّفُ اَوۡلِیَآءَہٗ ۪ فَلَا تَخَافُوۡہُمۡ وَ خَافُوۡنِ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۷۵﴾

That is only Satan who frightens [you] of his supporters. So fear them not, but fear Me, if you are [indeed] believers.

یہ خبر دینے والا صرف شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو ، اگر تم مومن ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءهُ ... It is only Shaytan that suggests to you the fear of his friends, meaning, Shaytan threatens you with his friends and tries to pretend they are powerful and fearsome. Allah said next, ... فَلَ تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّوْمِنِينَ so fear them not, but fear Me, if you are indeed believers. meaning, "If Shaytan brings these thoughts to you, then depend on Me and seek refuge with Me. Indeed, I shall suffice you and make you prevail over them." Similarly, Allah said, أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِهِ Is not Allah Sufficient for His servant! Yet they try to frighten you with those besides Him! (39: 36) until, قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ Say: "Sufficient for me is Allah; in Him those who trust must put their trust." (39:38) Allah said, فَقَـتِلُواْ أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَـنِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَـنِ كَانَ ضَعِيفاً So fight you against the friends of Shaytan; ever feeble indeed is the plot of Shaytan. (4:76) and, أُوْلَـيِكَ حِزْبُ الشَّيْطَـنِ أَلاَ إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَـنِ هُمُ الخَـسِرُونَ They are the party of Shaytan. Verily, it is the party of Shaytan that will be the losers! (58:19) كَتَبَ اللَّهُ لاّغْلِبَنَّ أَنَاْ وَرُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِىٌّ عَزِيزٌ Allah has decreed: "Verily, it is I and My Messengers who shall be the victorious." Verily, Allah is All-Powerful, All-Mighty. (58:21) and, وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ Verily, Allah will help those who help His (cause). (22:40) and, يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِن تَنصُرُواْ اللَّهَ يَنصُرْكُمْ O you who believe! If you help (in the cause of) Allah, He will help you. (47:7) and, إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الاٌّشْهَـدُ يَوْمَ لاَ يَنفَعُ الظَّـلِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ الْلَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ Verily, We will indeed make victorious Our Messengers and those who believe, in this world's life and on the Day when the witnesses will stand forth. The Day when their excuses will be of no profit to wrongdoers. Theirs will be the curse, and theirs will be the evil abode. (40:51,52)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

175۔ 1 یعنی تمہیں اس وسوسے اور وہم میں ڈالتا ہے کہ وہ بڑے مضبوط اور طاقتور ہیں۔ 175۔ 2 یعنی جب وہ تمہیں اس وہم میں مبتلا کرے تو تم صرف مجھ پر ہی بھروسہ رکھو اور میری ہی طرف رجوع کرو میں تمہیں کافی ہوجاؤں گا اور تمہارا ناصر ہوں گا، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ ) 039:036 کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٣] پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ابو سفیان نے خود ہی غزوہ احد سے اگلے سال بدر کے میدان میں مقابلہ کے لیے چیلنج کیا۔ مگر بعد میں خود ہی ہمت ہار بیٹھا اور الزام مسلمانوں کے سر تھوپنے اور انہیں ڈرانے اور دہشت زدہ کرنے کے لیے ایک شخص نعیم بن مسعود کو کچھ دے دلا کر اس بات پر آمادہ کیا کہ مدینہ جاکر مسلمانوں کو بتلائے کہ ابو سفیان نے اتنا لشکر جرار تیار کرنے کی ٹھانی ہے جو عرب بھر کے مقابلہ کو کافی ہوگا۔ اس طرح مسلمان خود خوف زدہ ہو کر بدر میں مقابلہ پر آنے کا ارادہ ترک کردیں گے۔ اس سارے ڈرامہ کو اللہ تعالیٰ نے شیطانی کھیل سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہاں شیطان سے مراد ابو سفیان بھی ہوسکتا ہے اور نعیم بن مسعود بھی، اور مسلمانوں کو تاکید کی جارہی ہے کہ میرے سوا کسی طاغوتی طاقت سے مت ڈریں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وہ شخص جو یہ افواہیں پھیلا رہا تھا اسے شیطان فرمایا اور بتایا کہ یہ اپنے منافق دوستوں سے ڈرا رہا ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا ڈر دل میں نہ لائیں۔ حقیقی شیطان بھی اپنے انسانی دوست شیطانوں کے دلوں میں مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے نئے سے نئے طریقے ڈالتا رہتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انعام (١١٢) ۔ آج کل اخبار، ریڈیو، ٹیوی اور انٹرنیٹ جھوٹ پھیلانے اور خوف زدہ کرنے کے لیے شیطان کے آلات ہیں۔ مومن کو ان کی خبروں سے ڈرنے کے بجائے اللہ پر بھروسا کرنا چاہیے اور ” اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ“ کے تحت ان کا علاج بھی کرنا چاہیے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَہٗ۝ ٠۠ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ١٧٥ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٥) بات یہ ہے کہ تم لوگوں کو نعیم بن مسعود اشجعی نے (اللہ تعالیٰ نے اس کو شیطان فرمایا) اپنے کافر دوستوں سے آکر ڈرانا چاہا، لہٰذا باہر نکلنے میں ان سے مت ڈرو اور گھروں میں بیٹھے رہنے میں مجھ سے ڈرو، اگر تم میری تصدیق کرنے والے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٥ ( اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَ ‘ ہٗص) وہ تو چاہتا ہے کہ اپنے ساتھی کفار یعنی حزب الشیطان کا خوف تم پر طاری کر دے۔ اس کے ایک معنی یہ بھی لیے گئے ہیں کہ شیطان اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے۔ یعنی شیطان کی اس تخویف کا اثر انہی پر ہوتا ہے جو اس کے ولی ہوتے ہیں ‘ لیکن جو اولیاء اللہ ہیں ان پر شیطان کی طرف سے اس قسم کی وسوسہ اندازی کا اثر نہیں ہوتا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

124. While returning from the Battle of Uhud, Abu Sufyan challenged the Muslims to another encounter at Badr the following year. But when the appointed time arrived, Abu Sufyan's courage failed him on account of the famine prevailing in Makka that year. As a face-saving device he arranged to send an agent to Madina who spread the rumour that tremendous war preparations were afoot among the Quraysh, and that they were trying to muster a huge army which would be so powerful that no other power in the whole of Arabia would resist it. The purpose of this rumour was to overawe the Muslims and discourage them from advancing towards Makka, so that when the confrontation did not take place it would be blamed on the timidity of the Muslims. The effect of this measure was such that when the Prophet (peace be on him) urged the Muslims to accompany him to Badr the initial response was not encouraging. Finally, the Prophet publicly announced that if no one would accompany him, he would go alone. In response, fifteen hundred devotees expressed their willingness and accompanied him to Badr. Abu Sufyan set out with two thousand men but after travelling for two days he told his men that it seemed unwise to fight and that they would return the following year for the proposed encounter. Thus he and his men retreated. The Prophet and his Companions stayed at Badr for eight days awaiting the threatened encounter. Meanwhile, they conducted business with a trade caravan which yielded them considerable profit. Later, when it became known that the unbelievers had gone back to Makka, the Prophet returned to Madina. (See Ibn Hisham, vol. 2, pp. 209 f.; Ibn Ishaq, Life of Muhammad, pp. 447 f. - Ed.)

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :124 احد سے پلٹتے ہوئے ابو سفیان مسلمانوں کو چیلنج دے گیا تھا کہ آئندہ سال بدر میں ہمارا تمہارا پھر مقابلہ ہوگا ۔ مگر جب وعدے کا وقت قریب آیا تو اس کی ہمت نے جواب دے دیا کیونکہ اس سال مکہ میں قحط تھا ۔ لہٰذا اس نے پہلو بچانے کے لیے یہ تدبیر کی کہ خفیہ طور پر ایک شخص کو بھیجا جس نے مدینہ پہنچ کر مسلمانوں میں یہ خبریں مشہور کرنی شروع کیں کہ اب کے سال قریش نے بڑی زبردست تیاری کی ہے اور ایسا بھاری لشکر جمع کر رہے ہیں جس کا مقابلہ تمام عرب میں کوئی نہ کرسکے گا ۔ اس سے مقصد یہ تھا کہ مسلمان خوفزدہ ہو کر اپنی جگہ رہ جائیں اور مقابلہ پر نہ آنے کی ذمہ داری انہی پر رہے ۔ ابوسفیان کی اس چال کا یہ اثر ہوا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی طرف چلنے کے لیے مسلمانوں سے اپیل کی تو اس کا کوئی ہمت افزا جواب نہ ملا ۔ آخر کار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھرے مجمع میں اعلان کر دیا کہ اگر کوئی نہ جائے گا تو میں اکیلا جاؤں گا ۔ اس پر ١۵ سو فدا کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہی کو لے کر بدر تشریف لے گئے ۔ ادھر سے ابوسفیان دو ہزار کی جمعیت لے کر چلا مگر دو روز کی مسافت تک جا کر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس سال لڑنا مناسب نہیں معلوم ہوتا ، آئندہ سال آئیں گے چنانچہ وہ اور اس کے ساتھی واپس ہوگئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ روز تک بدر کے مقام پر اس کے انتظار میں مقیم رہے اور اس دوران میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے ایک تجارتی قافلہ سے کاروبار کر کے خوب مالی فائدہ اٹھایا ۔ پھر جب یہ خبر معلوم ہوگئی کہ کفار واپس چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لے آئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 وہ شخص جو افواہیں پھیلا رہا تھا اسے شیطان فرمایا اور بتایا کہ یہ اپنے منا فق درستوں کو ڈرہا ہے مسلمانوں کا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا اندیشہ دل میں نہ لائیں (رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اوپر منافقین کی بےوفائی اور بدخواہی کا ذکر تھا جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر ان کی ان حرکات کا رنج ہوا ہوگا حق تعالیٰ آیت آئندہ میں آپ کو تسلی دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ضمنا وتبعا جمیع کفار کے معاملہ کے متعلق خواہ کوئی ہو آپ کی تسلی فرماتے ہیں تاکہ آپ کے قلب پر اب یا آئندہ ان کی اور دوسروں کی طرف سے کبھی ضد غالب نہ ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : احد میں مقابلہ یا اس کے بعد کفار کی دھمکیاں دراصل شیطانی ہتھکنڈے ہیں جن سے ڈرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے سمجھا دیا گیا کہ کبھی اور کسی حال میں بھی شیطان اور اس کے چیلوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے مکرو فریب بظاہر بڑے مضبوط اور خوفناک نظر آتے ہیں لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور کامل ایمان کے ساتھ قائم رہو گے تو کفار کی سازشیں اور شرارتیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ شیطان اور غیروں کے خوف کی بجائے اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے سینوں میں جاگزیں کرو۔ جس کا خاصہ یہ ہے کہ آدمی بڑی سے بڑی طاقت اور سازش سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک وقت میں دل میں ایک ہی کا خوف سما سکتا ہے۔ کامیابی کے لیے یہی بنیادی اصول ہے کہ مسلمان غیر سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے اور اپنی زندگی ایمان کے سانچے میں ڈھال لینے والے کبھی ناکام اور نامراد نہیں ہوا کرتے۔ مسائل ١۔ شیطان اپنے دوستوں سے مسلمانوں کو ڈراتا ہے۔ ٢۔ ان سے ڈرنے کے بجائے اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا خوف : ١۔ مومنوں کو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ (البقرۃ : ١٥٠) ٢۔ اللہ کے بندے صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں۔ (المائدۃ : ٢٨) ٣۔ نبی صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔ (یونس : ١٥، الزمر : ٣) ٤۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں۔ (النور : ٥٢) ٥۔ مومنوں کی استقامت دیکھ کر شیطان خود ڈر جاتا ہے۔ (الانفال : ٤٨) ٦۔ کفار اور منافق اللہ تعالیٰ کے بجائے لوگوں سے ڈرتے ہیں۔ (النساء : ٧٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

267 یہ جملہ مستانفہ ہے اس میں شیطان کی شرارت و شیطینت کا ذکر فرمایا نیز ایمان والوں کو نصیحت فرمائی کہ جس طرح اس موقع پر وہ شیطان کے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوئے اور نہ اس سے ڈرے ہیں اسی طرح آئندہ بھی وہ شیطان کے چیلوں سے مت خوف کھائیں اور صرف مجھ سے ڈریں۔ ذَالِکُمْ میں خطاب مسلمانوں سے ہے اور اشارہ اس پروپیگنڈا کرنے والے کی طرف ہے جو مسلمانوں سے کفار کی جمعیت اور کثرت سامان کا ذکر کر کے ان کی ہمتیں پست کرنا چاہتا تھا۔ اور یُخَوِّفُکُمْ اَوْلِیَاءَہ (روح ج 4 ص 129، کبیر ج 3 ص 148) اور اَوْلِیَاءَہ میں ضمیر الشیطان کی طرف راجع ہے اور اَوْلِیَاءَ الشَّیْطٰنِ سے یہاں ابو سفیان و من معہ (بحر ج 3 ص ص 120) ۔ شیطان جب بھی بنی آدم کو غلط راستہ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اپنے انسانی چیلوں کو سامنے کردیتا ہے جو شیطان کی پوری پوری نمائندگی کرتے ہیں چناچہ ابو سفیان کی طرف سے جن لوگوں (عبد القیس کے سواروں یا نعیم بن مسعود ثقفی علی اختلاف القولین) نے مسلمانوں کو بد دل کرنے کی کوشش کی تھیں وہ شیطان ہی کے ایجنٹ تھے اور اسی کے سیکھے سکھائے تھے تو آیت کا مطلب یہ ہوا اے ایمان والو ! یہ تمہیں بد دل کرنیوالا اور تمہاری ہمت پست کرنے کی کوشش کرنیوالا در اصل شیطان ہے جو اپنے دوستوں (ابو سفیان وغیرہ) سے تم کو خوفزدہ اور مرعوب کرنا چاہتا ہے لیکن تم خدا پر بھروسہ رکھو اور جس طرح اس موقع پر تم نے استقامت اور جرات دکھائی ہے اور شیطان کے دوستوں سے مرعوب نہیں ہوئے۔ اسی طرح آئندہ بھی کبھی ان سے خوفزدہ مت ہونا اور ہمیشہ صرف مجھ سے ڈرنا اور میرے احکام کی تعمیل کرنا کیونکہ ایمان کا تقاضا یہی ہے۔ لان الایمان یقتضی ان یوثر العبد خوف اللہ علی خوف ؟ (مدارک ج ص 152) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 چناچہ یہ لوگ واپس آئے اور اس شان کے ساتھ واپس آئے کہ اللہ کی نعمت اور اس کے فضل کے ساتھ لوٹے یعنی ثواب اور تجارت کے نفع سے مالا مال ہو کر واپس آئے اور ان کو ذرا بھی کوئی ناگوار بات پیش نہیں آئی اور کسی معمولی سی تکلیف نے بھی ان کو مس تک نہیں کیا اور وہ لوگ رضائے الٰہی اور اس کی مرضی کے تابع رہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے۔ مسلمانو ! سوائے اس کے کوئی بات نہیں کہ یہ بدخبر اور دہشت پھیلانے والا عملاًشیطان ہے جو اپنے ہم مذہب اور ہم مشرب دوستوں سے تم کو ڈراتا ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو اور صرف اللہ ہی ہے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ مسلمان جو محسن بھی تھے اور متقی بھی انہوں نے حسبنا اللہ ونعم الوکیل کہا اور کفار کے تعاقب میں روانہ ہوگئے یا حسب وعدہ بدر پہنچے اور نہایت کامیاب واپس آئے ابوسفیان کے آنے کی ہمت نہ ہوئی اور یہ عافیت مال اور عزت سے بھرپور واپس آئے۔ نعمت سے مراد عزت سلامتی، عافیت، ثواب، دشمن پر دھاک وغیرہ اور فضل سے مراد مال ہے تجارت کا نفع ہے۔ لو یمسسھم سوء کا مطلب یہ ہے کہ جب مقابلہ نہیں ہوا تو مسلمانوں کو کوئی گذند ہی نہیں پہونچا رضائے الٰہی کی انباع کا یہ مطلب ہے کہ باوجود حالات کے ناساز گار ہونے کے پھر نکل کھڑے ہوئے اور زخموں کی پرواہ کئے بغیر خدا کے حکم کی تعمیل کرنے کو چل کھڑے ہوئے اور رضائے الٰہی پر ہی دراصل سے بہرہ ور ہوئے پھر شیطانی افعال کے مرتکب کو شیطان فرمایا جو شیطانی کام کرے وہ شیطان ہے مسلمانوں کو خوف زدہ کرنا اور بزدل بنانا اور جہاد سے روکنا یہ شیطان کا کام ہے۔ اولیاء ہ میں ہم نے اسی لئے ہم مشرب اور ہم مذہب کی قید لگا دی ہے تاکہ یہ شبہ نہ ہو کو شیطان کو تو بنی آدم کا دشمن فرمایا ہے دوستی کیسی ؟ یہاں شیطان سے ابلیس مراد نہیں ہے بلکہ بعض کافروں اور منافقوں کو ان کے عمل بد کی وجہ سے شیطان فرمایا ہے اور عملاً کی قید سے یہ فائدہ ہے کہ شیطانی کام کے وقت وہ شیطان ہیں ہوسکتا ہے کہ کل کو وہ تائب ہو کر مسلمان ہوجائیں اور شیطنت کو ترک کردیں۔ حضرت حق نے کفار کے خوف سے روکا اور اپنے ہی خوف کا حکم دیا اور ایمان کی شرط اس لئے لگائی کہ ایمان کا مقتضا یہی ہے کہ غیر اللہ کے ڈر سے دل پاک اور نڈر ہو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی وہ شخص جو خبر کہتا تھا اس کو شیطان سکھاتا ہے۔ (موضح القرآن) شاح صاحب نے شیطان کہنے کی ایک اور وجہ بیان فرمائی کہ چونکہ شیطان اس کو سکھاتا تھا اور وہ شیطان کی تعلیم پر چلتا تھا اس لئے اس کو شیطان فرمایا۔ فقیر عرض کرتا ہے کہ یہ انسان نما شیطان ہت ہی خطرناک ہیں ان کا ضرر بہت خوفناک ہے۔ اعاذنا اللہ منھم اس آیت میں مخلصین کو جو بشارتیں دی گئی ہیں اور ان کو جو مدح فرمائی ہے اور جن دینی اور دنیوی برکتوں سے ان کو نوازا ہے وہ سب اسی استجابت اور اتباع رضوان اللہ کی بدولت ہے جس کا ان آیتوں میں ذکر فرمایا ہے اور ہم کئی دفعہ عرض کرچکے ہیں کہ احکام کی تعمیل ہی وہ چیز ہے جو بندے کو بلند سے بلند مرتبے کا وارث بنا دیتی ہے ۔ اسی طرح یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ تجارت کے نفع کو فضل فرمایا ہے جس سے معلوم ہوا کہ مطلقاًمال مذموم نہیں ہے اگرچہ بڑے لوگوں کے لئے مال کی کثرت محمود نہ ہو لیکن مال کی عام طور سے مذمت کرتے پھرنا اور ہر سرمایہ دار کو برا کہنا اور برا سمجھنا یہ طریقہ کوئی شرعی طریقہ نہیں ہے۔ بعض اہل سلوک نے فرمایا ہے خدا کے خوف کی تین قسمیں ہیں ایک اس کی عقوبت کا ڈر یہ ڈر تو عوام کا ڈر ہے اور اس کے بعد اور دوری کا خوف یہ خواص کا خوف ہے اور ایک ال لہ تعالیٰ کا خوف یہ اخص الخواص کا خوف ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشہور دعا میں انہی تینوں قسموں کی طرف اشار ہ ہے۔ اعوذ بعفوک من عقابک واعوذ برضاک من سخظک واعوذ بک منک اب آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی فرمائی اور منافقین کی ان حرکات سے رنج اور حزن آپ کو ہوتا تھا اس کا مداوا فرمایا۔ چناچہ ارشادہوتا ہے۔ (تسہیل)