Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 182

سورة آل عمران

ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ ﴿۱۸۲﴾ۚ

That is for what your hands have put forth and because Allah is not ever unjust to [His] servants."

یہ تمہارے پیش کردہ اعمال کا بدلہ ہے اور اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

and We shall say: "Taste you the torment of the burning (Fire)." This is because of that which your hands have sent before you. And certainly, Allah is never unjust to (His) servants. They will be addressed like this as a way of chastising, criticism, disgrace and humiliation. Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ : اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ” ظَلاَّمٌ“ مبالغے کا صیغہ ہے، جس کا معنی بہت ظلم کرنے والا ہے۔ بظاہر معنی یہ ہوا کہ ” اللہ بندوں پر بہت ظلم کرنے والا نہیں “ گویا کم ظلم کرسکتا ہے۔ اس کا ایک جواب استاد مرحوم مولانا محمد عبدہ (رض) نے دیا ہے : ” اس مبالغے کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ظلم کی نفی کے یہ معنی ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعوذ باللہ رتی برابر بھی ظلم صادر ہو تو وہ ” ظَلاَّمٌ“ ٹھہرے گا اور اللہ تعالیٰ کی ذات ظلم سے منزہ ہے۔ “ یہ جواب بھی اچھا ہے، مگر اس سے قوی جواب یہ ہے کہ بعض اوقات مبالغے کے صیغے پر نفی آئے تو اس سے مراد مبالغہ کی نفی نہیں ہوتی، بلکہ نفی میں مبالغہ ہوتا ہے۔ اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ” اللہ بندوں پر کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں۔ “ جیسا کہ طرفہ نے کہا ہے ۔۔ ؂ وَلَسْتُ بِحَلَّال التَّلَاعِ مَخَافَۃً وَلٰکِنْ مَتٰی یَسْتَرْفِدِ الْقَوْمُ أَرْفِدِ ظاہر الفاظ کے مطابق ترجمہ یہ ہوگا ” اور میں خوف کی وجہ سے ٹیلوں پر بہت زیادہ چڑھنے والا نہیں، بلکہ قوم جب مجھ سے عطیہ مانگے تو میں عطیہ دیتا ہوں۔ “ مگر یہاں یہ معنی نہیں کہ میں بہت زیادہ چڑھنے والا نہیں، بلکہ معنی ہے کہ میں بالکل ٹیلوں پر نہیں چڑھتا۔ دلیل یہ ہے کہ میں عطیہ مانگنے پر دیتا ہوں۔ دیکھیے ” البحر المحیط “ اور ” اللباب “ وغیرہ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْكُمْ وَاَنَّ اللہَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ۝ ١٨٢ ۚ قدم وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] وقوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ، قيل : معناه لا تَتَقَدَّمُوهُ. وتحقیقه : لا تسبقوه بالقول والحکم بل افعلوا ما يرسمه لکم كما يفعله العباد المکرمون، وهم الملائكة حيث قال : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] ( ق د م ) القدم عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو اور آیت کریمہ : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لاتقدموا بمعنی لاتتقدموا کے ہے اور اس کے اصل معنی یہ ہیں ۔ کہ قول وحکم میں پیغمبر سے سبقت نہ کرو بلکہ وہی کام کرو جس کا تمہیں حکم دیتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ کے مکرم بندوں یعنی فرشتوں کا کردار بیان کرتے ہوئے فرمایا : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] اس کے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٢) اور ہم بغیر جرم کے پکڑ نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:182) قدمت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ تقدیم مصدر۔ پہلے کرچکے یا پہلے بھیج چکے۔ وان۔ والامران۔ قرنہ حقیقت تو یہ ہے۔ ظلام۔ فعال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یہاں حق تعالیٰ شانہ کی ذات عالی سے نفی ظلم کے سلسلہ میں مبالغہ کا صیغہ استعمال ہوا ہے یہاں ظلام میں مبالغہ کمیت کے لحاظ سے ہے نہ کہ کیفیت کے لحاظ سے ۔ یعنی ذرا سا ظلم بھی نہیں کرتا۔ یہ مطلب نہیں کہ زیادہ ظلم نہیں کرتا اور تھوڑا سا ظلم کرلیتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اس مبالغہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ظلم کی نفی کے یہ معنی ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعوذباللہ رتی برابر بھی ظلم صادر ہو تو وہ ظلام ٹھہرے گا اور اور اللہ تعالیٰ کی ذات ظلم سے منزہ ہے (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ……………” یہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔ “ پوری جزاء جس میں نہ ظلم ہے اور نہ ہی کوئی سنگدلی ہے۔ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلامٍ لِلْعَبِيدِ……………” اللہ اپنے بندوں کے لئے ظالم نہیں ہے ۔ “ یہاں بندوں کے لئے عبید کا لفظ استعمال کرنے سے انسان کی اصل حیثیت بتادی گئی ہے کہ وہ اللہ کے مقابلے میں غلاموں کا غلام ہے ۔ اور پھر بھی اگر وہ اللہ کی بارگاہ میں اس قدر بےادبی کرتا ہے اور بندہ اور غلام ہوکر وہ کہتا ہے کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں تو یہ کس قدر گستاخی ہے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ انبیاء کے قتل جیسا شنیع کام ۔ یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں پھر یہی قاتلین انبیاء بھی ہیں ۔ ان کا مزید کارنامہ دیکھو کہ یہ کہتے ہیں کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس لئے ایمان نہیں رکھتے کہ ہمیں خود اللہ نے یہ کہا ہے کہ وہ اس وقت تک کسی نبی پر ایمان نہ لائیں جب تک وہ ایسی قربانی نہ کرے جسے عالم غیب سے آگ آکر معجزانہ طور اسے کھانہ لے ۔ جس طرح انبیاء بنی اسرائیل میں سے بعض کے ہاتھوں اس قسم کے معجزے کا اظہار ہوا تھا ۔ اور جب تک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی اس قسم کا معجزہ نہ دکھائیں گے وہ چونکہ اللہ کے ساتھ عہد کرچکے ہیں اس لئے وہ ایمان نہیں لاسکتے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان گستاخ لوگوں کا وہ گستاخانہ قول سن لیا ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے قرض حسنہ طلب کرنے پر کہا تھا کہ اللہ محتاج و مفلس ہے اور ہم غنی اور مالدار ہیں ہم ان کی کہی ہوئی بات کو یقیناً ان کے نامۂ اعمال میں لکھ دیں گے اور اسی طرح ان گستاخ لوگوں کا یہ جانتے ہوئے کہ قتل انبیاء ناجائز ہے۔ پھر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو قتل کرنا بھی لکھا جائے گا اور ان کو سزا دیتے وقت ہم کہیں گے کہ لو اب آتش سوزاں کے عذاب کا مزہ چکھو اور اس وقت ہم یہ بھی کہیں گے یہ عذاب ان افعال و اقوال کفری کی پاداش میں ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجے تھے اور تم نے اپنے ہاتھوں سمیٹے تھے اور یہ امر یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ (تیسیر) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا کی آیت نازل ہوئی تو یہود نے کہا اے محمد ! تیرا رب فقیر ہوگیا۔ بندوں سے مانگنے لگا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (ابن مردویہ۔ ابن ابی حاتم) دوسرا لفظ ابن عباس کا یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ایک روز یہود کے بیت المدارس میں تشریف لے گئے وہاں بہت سے یہودی اپنے بہت بڑے عالم اور جرفخاص کے گردجمع ہیں فخاص کے ساتھ ان کا ایک اور بہت بڑا عالم بھی موجود تھا جس کا نام اشیع تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا ! اے فخاص تو اللہ سے ڈر اور اسلام لے آ تو خوب جانتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور تمہارے پاس اللہ کی طرف سے حق لے کر آئے ہیں اور اس کی صفات تم توریت و انجیل میں پاتے ہو۔ اس پر فخاص نے کہا اے ابوبکر ہم کو اللہ کی کوئی احتیاج نہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ ہمارا محتاج ہے ہم اس سے غنی ہیں اگر وہ غنی ہوتا تو ہمارے آگے کیوں عاجزی کرتا اور ہم سے کیوں قرض مانگتا اور تمہارے نبی ہم کو تو سود کھانے سے منع کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ غنی ہوتا تو وہ کیوں سود دیتا اور سود پر قرض لیتا۔ اس گستاخی پر حضرت ابوبکر (رض) نے فخاص کے منہ پر ایک طمانچہ مارا اور فرمایا اگر تمہارے ہمارے مابین معاہدہ نہ ہوتا قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں تجھ کو قتل کردیتا تم ہماری تکذیب کرسکتے ہو تو کرو لیکن اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی نہ کرو۔ اس واقعہ کے بعد فخاص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ابوبکر کی شکایت کی حضرت ابوبکر (رض) کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طلب کیا اور واقعہ دریافت کیا ابوبکر (رض) نے تمام واقعہ عرض کردیا اور یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرنے سے مجھے غصہ آگیا اور میں نے اس کے طمانہ مارا۔ فخاص نے اپنے الفاظ سے انکار کیا اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ (ابن ابی حاتم) (1) فخاص کا یہ کہنا اور دوسرے لوگوں کا اس پر خوش ہونا اور فخاص کو منع نہ کرنا اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب لوگوں نے اس گستاخی کا ارتکاب کیا۔ (2) یہود کا یہ قول بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ استہزاء ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حقیقتاً ان کا عقیدہ بھی یہ ہو کہ معاذ اللہ تعالیٰ محتاج ہے اور ہم غنی ہیں اور وہ فقرو افلاس کی وجہ سے بندوں سے قرض مانگتا ہے۔ بہرحال مذاق ہو یا عقیدتاً ہو ہر حالت میں ان کلمات کا کہنا کفر اور آیات قرآنی کی تکذیب ہے۔ اگر عقیدتاً یہ بات کہی ہو تب تو کفر میں شک ہی نہیں اور اگر مذاقاً ہو تب بھی آیات قرآنی کی تکذیب کو مستلزم ہے۔ (3) اور جب یہ بات کافرانہ تھی تو اس پر وعید فرمائی چناچہ یہ فرمانا کہ اللہ تعالیٰ نے سن لیا ہے یہ عتاب کا انداز ہے اور یہ ایسا سننا نہیں ہے جیسا سمع اللہ لمن حمدہ میں ہے اور چونکہ سماع علم بالمسموع کو لازم ہے اس لئے مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ان یہود نے کہا وہ ہم کو معلوم ہے۔ اس لئے نامہ ٔ اعمال میں درج کرنے کا ذکر کیا کہ یہ مجرم پر عادتاً زیادہ حجت ہوتا ہے کہ جو کچھ تو نے کہا وہ تیری رپورٹ میں لکھا ہوا ہے۔ (4) اسی کے ساتھ ان کے قتل انبیاء کی بھی کتابت کا ذکر کیا تاکہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ یہ الفاظ کہہ کر تو انہوں نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب ہی کی ہے یہ تو ایسے نالائق اور بدکردار ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کرچکے ہیں اور یہ جانتے ہوئے انہوں نے نبیوں کو قتل کیا ہے کہ انبیاء کا قتل حرام اور حق کے خلاف ہے۔ (5) اگرچہ انبیاء کو ان کے بڑوں نے قتل کیا تھا لیکن یہ لوگ اپنے بڑوں کی مذمت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے اس فعل پر راضی تھے اس لئے ان کی طرف بھی قتل انبیاء کی نسبت کی گئی۔ (6) اس کے صراحتاً وعید کا اظہار فرمایا کہ ہم جس وقت ان کو سزا دیں گے تو یوں فرمائیں گے خواہ یہ وقت قبر میں ہو یا میدان حشر میں یا جہنم میں ڈالتے وقت۔ (7) سنکتب اور نقول کی نسبت مجازی ہے کیونکہ نامۂ اعمال فرشتے لکھتے ہیں اور اسی طرح عذاب کے وقت فرشتے کہیں گے۔ ذوقوا اور ہوسکتا ہے کہ نقول کی نسبت حقیقی ہو اور سنکتب کی مجازی ہو۔ (8) حریق کے معنی محرق ہیں اور اضافت بیانیہ ہے کیونکہ عذاب دینے والا تو در حقیقت اللہ تعالیٰ سے یا اضافت سبب کی طرف ہے اور سبب کو قائم مقام فاعل کے کردیا ہو جیسا کہ بعض محققین نے اختیار کیا ہے۔ (9) ذوق کے معنی تو اصل میں تھوڑی سی چیز ک منہ میں یا زبان پر رکھ کر چکھنے کے ہیں۔ لیکن اب استعمال میں وسعت ہوگئی ہے اور ہر قسم کے محسوسات کے ادراک پر بولا جاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مال اکثر کھانے پینے کے کام میں آتا ہے اور یہ لوگ بخیل تھے اس کی مناسبت سے ذوقوا کہا جائے گا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ یہود نے ان اقوال سے انبیاء کے متبعین کو تکلیف پہنچائی اور دکھ دیا اور مسلمانوں کے قلوب کو جلایا اس لئے اس کے عوض اسی جیسا عذاب ان کے لئے مقرر کیا گیا۔ (واللہ اعلم) (01) چونکہ اچھا برا کام کرنے میں ہاتھوں کو زیادہ دخل ہوتا ہے اس لئے بما قدمت ایدیکم فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ سب کچھ تمہارے ہی اعمال کا بدلہ اور تمہارے ہی اعمال کی پاداش ہے ورنہ ہم تو کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ اگر معاذ اللہ وہ ظالم ہوتا تو اس کی یہ صفت بھی کامل ہوتی اور ذرا سا ظلم بھی بہت اور بےاندازہ ہوتا۔ اس لئے مبالغہ کا صیغہ استعمال فرمایا۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) حریق پر فرماتے ہیں یہود نے جو یہ آیت سنی کہ اقرضوا اللہ کہنے لگے اللہ ہم سے قرض مانگتا ہے تو اللہ محتاج ہے اور ہم دولت مند ہیں۔ (موضح القرآن) خلاصہ یہ کہ ہم ان کی باتوں سے واقف ہیں اور آج کی بات سے کیا واقف ہیں ہم تو ان کی اس قتل و خونریزی سے بھی واقف ہیں جو یہ حرام جان کر اپنے اپنے پیغمبروں کے ساتھ کرتے رہے ہیں جیسے حضرت یحییٰ اور حضرت ذکریا (علیہ السلام) کا واقعہ تو قریب ہی کا ہے۔ اور جب ہم کو ان کے اقوال و افعال معلوم ہیں تو وہ قاعدے کے موافق سب ان کے نامہ ٔ اعمال میں درج کردیئے جاتے ہیں اور ان کی سزا ان کو بھگتنی پڑے گی اور ان سے یہ کہا جائے گا کہ عذاق حریق کا مزہ چکھو چونکہ تم نے مسلمانوں کو بہت طعنے دے دے کر جلایا تھا لہٰذا اب جلانے والے عذاب کی سزا کا مزہ چکھو۔ اور یہ بھی کہہ دیا جائے گا کہ یہ سزا اس کمائی کے عوض ہے جو تم نے خود اپنے ہاتھوں کمائی تھی کیونکہ یہ بات تو مسلم اور یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ ظلم وہاں ہے ہی نہیں وہاں تو عدل ہی عدل ہے۔ بداعمالوں کے ساتھ جو ہو وہ عدل اور نیک اعمال والوں کے ساتھ جو ہو وہ فضل۔ اب آگے اس سلسلے میں ان کی افترا پردازی اور ان کے قبائح میں سے ایک اور واقعہ کا ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)