Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 186

سورة آل عمران

لَتُبۡلَوُنَّ فِیۡۤ اَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَ لَتَسۡمَعُنَّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ مِنَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا اَذًی کَثِیۡرًا ؕ وَ اِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَ تَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿۱۸۶﴾

You will surely be tested in your possessions and in yourselves. And you will surely hear from those who were given the Scripture before you and from those who associate others with Allah much abuse. But if you are patient and fear Allah - indeed, that is of the matters [worthy] of determination.

یقیناً تمہارے مالوں اور جانوں سے تمہاری آزمائش کی جائے گی اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور مشرکوں کو بہت سی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی اور اگر تم صبر کرلو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یقیناً یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ... You shall certainly be tried and tested in your wealth and properties and in yourselves, just as He said in another Ayah, وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الاٌّمَوَالِ وَالاٌّنفُسِ وَالثَّمَرَتِ And certainly, We shall test you with something of fear, hunger, loss of wealth, lives and fruits. (2:155) Therefore, the believer shall be tested, in his wealth, himself, his offspring and family. The believer shall be tested according to the degree of his faith, and when his faith is stronger, the test is larger. ... وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ أَذًى كَثِيرًا ... and you shall certainly hear much that will grieve you from those who received the Scripture before you (Jews and Christians) and from those who ascribe partners to Allah. Allah said to the believers upon their arrival at Al-Madinah, before Badr, while comforting them against the harm they suffered from the People of the Scriptures and the polytheists; ... وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الاُمُورِ but if you persevere patiently, and have Taqwa, then verily, that will be a determining factor in all affairs. Therefore, Allah commanded the believers to be forgiving, patient and forbearing until He brought His awaited aid. Al-Bukhari recorded that Usamah bin Zayd said that; Allah's Messenger rode a donkey with a saddle covered by a velvet sheet and let Usamah ride behind him (on the donkey). The Prophet wanted to visit Sa`d bin Ubadah in Bani Al-Harith bin Al-Khazraj, and this occurred before the battle of Badr. The Prophet passed by a gathering in which Abdullah bin Ubayy bin Salul was sitting, before Abdullah bin Ubayy became Muslim. That gathering was made up of various Muslims as well as Mushriks, who worshipped the idols, and some Jews. Abdullah bin Rawahah was sitting in that gathering. When the Prophet reached Abdullah bin Ubayy, the donkey caused some sand to fall on the group. Then, Abdullah bin Ubayy covered his nose with his robe and said, `Do not fill us with sand.' The Messenger of Allah greeted the gathering with Salam, called them to Allah and recited some of the Qur'an to them. Abdullah bin Ubayy said, `O fellow! No other speech is better than what you said, if it was true! However, do not bother us in our gatherings. Go back to your place and whoever came to you, narrate your stories to him.' Abdullah bin Rawahah said, `Rather, O Messenger of Allah! Attend our gatherings for we like that.' The Muslims, Mushriks and Jews then cursed each other, and they almost fought with each other. The Prophet tried to calm them down, until they finally settled. The Prophet rode his donkey and went to Sa`d bin Ubadah, saying, `O Sa`d! Have you heard what Abu Hubbab said (meaning Abdullah bin Ubayy)? He said such and such things.' Sa`d said, `O Messenger of Allah! Forgive and pardon him. By Allah, Who sent down the Book to you, Allah brought us the truth that you came with at a time when the people of this city almost appointed him king. When Allah changed all that with the truth that He gave you, he choked on it, and this is the reason behind the behavior you saw from him.' The Messenger of Allah forgave him. Indeed, the Messenger of Allah and his Companions used to forgive the Mushriks and the People of the Scriptures, just as Allah commanded them, and they used to tolerate the harm that they suffered. Allah said, ... وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ أَذًى كَثِيرًا ... and you shall certainly hear much that will grieve you from those who received the Scripture before you (Jews and Christians) and from those who ascribe partners to Allah; and, وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَـبِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِن بَعْدِ إِيمَـنِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُواْ وَاصْفَحُواْ حَتَّى يَأْتِىَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ Many of the People of the Scripture (Jews and Christians) wish that they could turn you away as disbelievers after you have believed, out of envy from their own selves, even after the truth has become manifest unto them. But forgive and overlook, till Allah brings His command. (2:109) The Prophet used to implement the pardon that Allah commanded him until He gave His command (to fight the disbelievers). When the Messenger fought at Badr, and Allah killed, by his hand, the leaders of the disbelievers from Quraysh, Abdullah bin Ubayy bin Salul and the Mushriks and idol worshippers who were with him said, `This matter has prevailed,' and they gave their pledge to the Prophet and became Muslims." Therefore, every person who stands for truth, enjoins righteousness and forbids evil, will be harmed in some manner. In such cases, there is no cure better than being patient in Allah's cause, trusting in Him and returning to Him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

186۔ 1 اہل ایمان کو ان کے ایمان کے مطابق آزمانے کا بیان ہے، جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت نمبر 155 میں گزر چکا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک واقعہ بھی آتا ہے کہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے ابھی اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا اور جنگ بدر بھی نہیں ہوئی تھی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد بن عباد (رض) کی عیادت کے لئے بنی حارث بن خزرج میں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک مجلس میں مشرکین، یہود اور عبد اللہ بن ابی وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کی جو گرد اٹھی، اس نے اس پر بھی ناگواری کا اظہار کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ٹھہر کر قبول اسلام کی دعوت بھی دی جس پر عبد اللہ بن ابی نے گستاخانہ کلمات بھی کہے۔ وہاں بعض مسلمان بھی تھے، انہوں نے اس کے برعکس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحسین فرمائی، قریب تھا کہ ان کے مابین جھگڑا ہوجائے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو خاموش کرایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد (رض) کے پاس پہنچے تو انہیں بھی یہ واقعہ سنایا، جس پر انہوں نے فرمایا کہ عبد اللہ بن ابی یہ باتیں اس لئے کرتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ آنے سے قبل، یہاں کے باشندوں کو اس کی تاج پوشی کرنی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے سے اس کی سرداری کا یہ حسین خواب ادھورا رہ گیا، جس کا اسے سخت صدمہ ہے اور اس کی یہ باتیں اس کے اس بغض وعناد کا مظہر ہیں، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) در گزر ہی سے کام لیں (صحیح بخاری) 186۔ 2 اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف انداز سے طعن وتشنیع کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح مشرکین عرب کا حال تھا۔ علاوہ ازیں مدینہ میں آنے کے بعد منافقین بالخصوص ان کا رئیس عبد اللہ بن ابی بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں استخفاف کرتا رہتا تھا۔ آپ کے مدینہ آنے سے قبل اہل مدینہ اسے اپنا سردار بنانے لگے تھے اور اس کے سر پر تاج سیادت رکھنے کی تیاری مکمل ہوچکی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے سے اس کا یہ سارا خواب بکھر کر رہ گیا، جس کا اسے شدید صدمہ تھا چناچہ انتقام کے طور پر بھی یہ شخص آپ کے خلاف کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا (جیسا کہ صحیح بخاری کے حوالے سے اس کی ضروری تفصیل گزشتہ حاشیہ میں ہی بیان کی گئی ہے) ان حالات میں مسلمانوں کو عفو و درگزر اور صبر اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ داعیانِ حق کا اذیتوں اور مشکلات سے دو چار ہونا اس راہ حق کے ناگزیر مرحلوں میں سے ہے اور اس کا علاج صبر فی اللہ، استعانت باللہ اور رجوع الی اللہ کے سوا کچھ نہیں (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٥] یہ انتباہ کرکے مسلمانوں کو اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے لیے آمادہ کیا جارہا ہے اور آزمائش کے فوائد پہلے بتلائے جاچکے ہیں۔ مختصراً یہ کہ ابتلاء سے صبر و استقامت کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ اخلاقی کمزوریوں کا علاج ہوتا ہے۔ درجات بلند ہوتے ہیں اور مومنوں اور منافقوں میں امتیاز ہوجاتا ہے۔ [١٨٦] یہود اور مشرکین کے ہاتھوں مسلمانوں کو جو تکالیف پہنچیں ان کی فہرست بڑی طویل ہے، اور کتاب و سنت میں جا بجا مذکور ہیں۔ ان کا حصران حواشی میں ممکن نہیں، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دور نبوی میں ہجرت نبوی سے پہلے بھی اور بعد میں بھی آپ کی زندگی انہیں لوگوں سے دکھ اٹھاتے گزری تو بےجا نہ ہوگا، اور مسلمانوں کو یہ خبر اس لیے دی جارہی ہے کہ ذہنی طور پر مسلمان ان تکلیفوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہ خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عام مسلمانوں سے ہے کہ آئندہ بھی جان و مال میں تمہاری آزمائش ہوگی اور تمہیں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنا ہوں گی، جیسے اموال کا تلف ہوجانا اور بیمار پڑجانا وغیرہ۔ اہل کتاب اور مشرکین کی زبانوں سے تمہیں انتہائی دل آزار اور جگر خراش طعن و تشنیع، بےہودہ گفتگو اور جھوٹے الزامات سننا پڑیں گے، جیسا کہ منافقین نے ہر طرح ستایا۔ سورة منافقون اور سورة توبہ میں تفصیل دیکھ لیں، نیز کعب بن اشرف یہودی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی ہجو کی اور اپنے قصائد میں مسلمان خواتین کا نام لے کر تشبیب کہی۔ مگر ان کا علاج یہ ہے کہ تم صبر، یعنی ثابت قدمی اور استقلال سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اپنے دلوں میں رکھو۔ اگر صبر اور تقویٰ سے ان آزمائشوں کا مقابلہ کرو گے تو یہ نہایت ہمت، حوصلہ اور اولو العزمی کا کام ہے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) ہمیشہ صبر اور تقویٰ سے کام لیتے رہے، حتیٰ کہ حالت جنگ میں بھی نہ ان کی طرح بد زبانی سے کام لیا اور نہ عملاً اس طرح زیادتی کی جس طرح انھوں نے کی تھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَتُبْلَوُنَّ فِيْٓ اَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ۝ ٠ ۣ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَذًى كَثِيْرًا۝ ٠ ۭ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۝ ١٨٦ بلی يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس/ 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] ( ب ل ی ) بلی الو ب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو گھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی سخت آزمائش تھی ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٦) کفار رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو جو تکالیف پہنچاتے تھے اللہ تعالیٰ اس کا ذکر فرماتے ہیں۔ اپنے اموال کے ختم ہوجانے بیماریوں اور قتل ہر قسم کی تکالیف سے آزمائے جاؤ گے اور یہود و نصاری اور مشرکین عرب سے گالی گلوچ طعن وتشنیع اور اللہ تعالیٰ پر الزامات سنو گے، اگر ان الزامات اور اس طرح کی دیگر تکالیف میں صبر کرکے اللہ کی نافرمانی سے بچو گے تو یہ صبر بہترین کاموں اور بہت تاکیدی امور سے ہے۔ شان نزول : (آیت) ” ولتسمعن من الذین “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) اور ابن منذر (رح) نے سند حسن کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ (آیت) ” ان اللہ فقیرا “۔ سے یہاں تک حضرت ابوبکرصدیق (رض) اور فخاص کے مابین جو معاملہ پیش آیا اس کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ اور عبدالرزاق (رح) نے بواسطہ معمر، زہری، کعب بن مالک (رض) سے روایت کیا کہ کعب بن اشرف یہودی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرات صحابہ (رض) کی شان میں ہجو (توہین و گستاخی) کے اشعار کہا کرتا تھا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٦ (لَتُبْلَوُنَّ فِیْ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ قف) یہ وہی مضمون ہے جو سورة البقرۃ کے انیسویں رکوع میں گزر چکا ہے : (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط) (آیت ١٥٥) اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف سے اور بھوک سے اور مالوں ‘ جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔ یہاں مجہول کا صیغہ ہے کہ تمہیں لازماً آزمایا جائے گا ‘ تمہاری آزمائش کی جائے گی تمہارے مالوں میں بھی اور تمہاری جانوں میں بھی۔ کان کھول کر سن لو کہ یہ ایمان کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں ہے ‘ یہ کانٹوں بھرا بستر ہے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ٹھنڈے ٹھنڈے اور بغیر تکلیفیں اٹھائے تمہیں جنت مل جائے گی۔ سورة البقرۃ (آیت ٢١٤) میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تو تم پر وہ حالات و واقعات وارد نہیں ہوئے جو تم سے پہلوں پر ہوئے تھے۔۔ (وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًا ط) یہ سب کچھ سنو اور صبر کرو۔ جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ابتدا میں کہا گیا تھا : (وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا ) (المزمل) اور ان باتوں پر صبر کیجیے جو یہ لوگ کہتے ہیں اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ ہوجایئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا کچھ نہیں سننا پڑا۔ کسی نے کہہ دیا مجنون ہے ‘ کسی نے کہہ دیا شاعر ہے ‘ کسی نے کہا ساحر ہے ‘ کسی نے کہا مسحور ہے۔ سورة الحجر کے آخر میں ارشاد ہے : (وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَ نَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ ) (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ ( مشرکین) جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کا سینہ بھنچتا ہے۔ ان کی زبانوں سے جو کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سننا پڑرہا ہے اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچتی ہے ‘ لیکن صبر کیجیے ! وہی بات مسلمانوں سے کہی جا رہی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

131. Muslims should not lose their self-control in the face of the Jews' invidious taunts and slander. The Jews' accusations, debased talk and false propaganda should not provoke the Muslims into adopting a posture either inconsistent with truth and justice or with the dignity, decorum and high standards of moral conduct that become men of faith.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :131 یعنی ان کے طعن و تشنیع ، ان کے الزامات ، ان کے بیہودہ طرز کلام اور ان کی جھوٹی نشر و اشاعت کے مقابلہ میں بے صبر ہو کر تم ایسی باتوں پر نہ اتر آؤ جو صداقت و انصاف ، وقار و تہذیب اور اخلاق فاضلہ کے خلاف ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:186) لتبلون۔ مضارع مجہول بلام تاکید ونون ثقیلہ صیغہ جمع مذکر حاضر بلاء سے بلی مادہ۔ بلاء سے ماضی جب باب سمع سے آتی ہے تو اس کے معنی بوسیدہ ہونے کے آتے ہیں۔ بلی الثوب کپڑا بوسیدہ اور پرانا ہوگیا۔ اور جب اس کی ماضی باب نصر سے آتی ہے تو امتحان اور آزمائش کے معنی ہوتے ہیں مثلاً انا بلانھم کما بلونا اصحت الجنۃ (68:17) تحقیق ہم نے آزمایا ان کو جیسا کہ ہم نے اصحاب الجنۃ کو آزمایا تھا۔ لتبلون۔ یقینا تم ضرور آزمائے جاؤ گے۔ فی۔ کے باب میں۔ لتسمعن۔ سمع سے مضارع معروف بلام تاکید و نون ثقلیہ صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تم ضرور سنو گے۔ اذی۔ ہر وہ ضرر جو کسی جاندار کی روح یا جسم کو پہنچے۔ اذیت دینے والی باتیں۔ دلآزار باتیں۔ اذی کثیرا۔ لتسمعن کا مفعول ہے۔ العزم۔ والرعازم۔ کسی کام کو قطعی اور حتمی طور پر کرنے کا ارادہ کرنا ۔ مصمم ارادہ کرنا۔ عزمۃ وعزمات۔ پختہ ارادہ۔ خدا کی طرف سے عائد کردہ فرض۔ عزیمۃ وعزائم۔ ثابت قدمی۔ ارادہ کی پختگی۔ امر عازم۔ کام جس کا پختہ ارادہ کرلیا گیا ہو۔ وعزم الامر۔ اس مخصوص کام کا کرنا واجب ہوگیا۔ من عزم الامور۔ ای من صواب التدبیر الذی لاشک ان الرشد فیہ ولا ینبغی لعاقل ترکہ واصلہ من قولک عزمت علیک ان تفعل کذا ای الزمتک ان تفعلہ لا محالۃ ولا تتر کہ وقیل معناہ فان ذلک مماقد عزم علیکم فعلہ۔ درست تدبیر کہ جس کی راستگی کے متعلق کوئی شک نہیں ۔ اور ایک عقلمند کو اسے ترک نہ کرنا چاہیے اور اس کے اصل معنی میں یہ قول ہے کہ عزمت کذا۔ میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ تم ایسے کرو۔ یعنی تم پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ تم ہر حال میں اس کو کرو اور ترک مت کرو اور یہ بھی کہ اس کام کا کرنا تم پر لازم کردیا گیا (الخازن) ان ربک من عزم الامور۔ تو یہ فعل (اجر اور تقوی) ان امور میں سے ہے جو تم پر واجب کردیا گیا۔ فان تصبروا وتتقوا کا جواب محذوف ہے جو فان ذلک من عزم الامور سے لیا گیا۔ گویا آیت کی تقدیر ہے ان ذلک عزمۃ من عزمات اللہ۔ یہ خدا کی طرف سے عائد کردہ حقوق میں سے ہے (کشاف) صاحب المفردات۔ ومؤلفین تفہیم القرآن وضیاء القرآن نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے۔ بیشک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یہ خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عام مسلمانوں سے ہے آئندہ بھی جان ومال میں تمہارا آزمائش ہوگی اور تمہیں ہر قسم کی قربانیا پیش کرنا ہوں گی جیسے اموال کا تلف ہوجاتا بیمار پڑنا وغیرہ اہل کتاب اور مشرکین کی زبانوں سے تمہیں انتہائی دل آزار اور جگر خراش طعن وتشنیع بیہودہ گفتگو اور جھوٹے الزامات سننا پڑیں گے جسیا کہ منافقین نے ہر طرح سے ستایا ہے اور کعب بن اشرف یہودی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) کی بجو اور مسلمان خواتین کی تشبیب میں قصائص نظم کئے۔ مگر ان سب کا علاج یہ ہے کہ تم صبر ثابت قدمی اور استقلال سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کا نقوی ٰ اپنے دلوں میں رکھو۔ اگر صبر وتقویٰ سے ان آزمائشوں کا مقابلہ کروگے تو یہ نہایت ہمت حوصلہ اور الو العزمی کا کام ہے۔ چناچہ آحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب تک قیال کی اجازت نہیں ملی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) کرام عفو اور دو گزر سے کام لیتے رہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 186 تا 189 لتبلون (البتہ ضرور تم آزمائے جاؤگے) لتسمعن (البتہ تم ضرور سنو گے) عزم الامور (البتہ تم اس کو ظاہر کرو گے) لا تکتمونه (تم اس کو نہ چھپاؤ گے) نبذوہ (انہوں نے اس کو پھینک دیا) لم یفعلو (انہوں نے نہیں کیا) ۔ تشریح : آیت نمبر 186 تا 189 آخرت کی کامیابی اور ناکامی اور دائمی جزا وسزا کا حال سنا کر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ اے مسلمانو ! ابھی جان دونوں ہی سے تمہاری آزمائش کی جائے گی۔ اللہ کی راہ میں تمہاری جانیں اور مال دونوں ہی طلب کئے جائیں گے۔ تمہیں کفار اور یہودیوں کی ابھی بہت سی تکلیف دینے والی باتیں بھی سننا پڑیں گی لیکن اگر تم نے صبر وتقویٰ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تو یہ تمہاری بہت بڑی کامیابی اور عزم وہمت کے کاموں میں سے ہوگا۔ کیونکہ ان یہودیوں کا مزاج ہی یہ ہے کہ وہ حق و صداقت سے بھاگتے ہیں اور کسی عہد پر قائم نہیں رہتے۔ فرمایا جارہا ہے کہ اہل کتاب سے اس بات کا عہد لیا گیا جو احکامات اور بشارتیں ان کی کتابوں میں موجود ہیں انہیں صاف صاف لوگوں کے سامنے بیان کریں گے نہ کسی بات کو چھپائیں گے اور نہ اس میں ہیر پھیر کریں گے۔ مگر انہوں نے اس عہد کی ذرا بھی پرواہ نہ کی دنیا کے معمولی سے نفع کی خاطر انہوں نے تمام عہدو پیمان توڑ دیئے۔ احکامات الہٰی کو بدل ڈالا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے جو خوشخبریاں تھیں انہوں نے اس کو بھی چھپا لیا۔ فرمایا جارہا ہے کہ وہ اپنی ان حرکتوں پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ جو کام انہوں نے نہیں کئے ہیں ان پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں۔ فرمایا ایسے لوگ اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوکر رہیں گے۔ ان کو اس سے چھٹکارا مل جائے گا اس کا تو گمان بھی نہ کرنا۔ بلاشبہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب کا سب اللہ ہی کا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ آزمانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے حوادث تم پر وقتا فوقتا واقع ہوا کریں گے اس کو مجازا آزمانا کہہ دیا ورنہ اللہ تعالیٰ آزمانے کے حقیقی معنی سے پاک ہیں کیونکہ وہ عالم الغیب ہیں۔ 8۔ صبر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ تدبیر نہ کرو یا مواقع انتقام میں انتقام نہ لو یا مواقع قتال میں قتال نہ کرو بلکہ حوادث میں دل تنگ نہ ہوں کیونکہ اس میں تمہارے لیے منافع ومصالح ہیں اور تقوی یہ کہ خلاف شرع امور سے بچو گوتدبیر بھی کی جائے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : احد میں مالی، جانی نقصان اور یہودیوں کی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہرزہ سرائی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق کے لیے غلط ثبوت کا مطالبہ مسلمانوں کے لیے پریشانی کا باعث تھا۔ اس لیے انہیں تسلی دیتے ہوئے صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ دنیا ہر کسی کے لیے آزمائش ہے خاص کر انبیاء اور مومنوں کے لیے اسے امتحان گاہ اور کڑی آزمائش کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ مومن کا مال اور اس کی جان آزمائش کی بھٹی میں اس لیے جھونکے جاتے ہیں تاکہ مال کا حق ادا کرنے کے بعد مومن کا مال خالص ہوجائے۔ مومنوں کو اس لیے آزمایا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ بن کر زندگی بسر کریں۔ آزمائش اور امتحان کا یہ بھی مقصد ہے کہ مومن دین کی سربلندی اور لوگوں کی خیر خواہی کے لیے قربانیاں پیش کریں۔ اس کے باوجود بھی غیر مسلم حسد و بغض کا مظاہرہ کرتے ہیں جس پر تسلی دینے کے لیے ارشاد ہوتا ہے اے مسلمانو ! تم اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کے باوجود یہود و نصاریٰ اور مشرکین سے باتیں سنو اور تکلیفیں اٹھاؤگے۔ اگر صبر اور پرہیزگاری اختیار کرتے رہو گے تو یہ بڑے ہی عظمت والے کام ہیں۔ صاحب عزیمت لوگ ہی اللہ تعالیٰ کے دین کو سربلند کرنے والے اور دنیا وآخرت میں سرخرو ہوں گے۔ چناچہ وہ کونسی اذیت اور طعن ہے جو رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں دیا گیا۔ اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے آپ اور صحابہ کرام (رض) نے وہ دکھ اٹھائے کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ مسائل ١۔ مسلمانوں کو مال اور ان کی جانوں کے ساتھ ضرور آزمایا جائے گا۔ ٢۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکوں سے مسلمان بڑی تکلیفیں اٹھائیں گے۔ ٣۔ تکالیف پر صبر کرنا اور گناہوں سے بچنا بڑے عظیم کام ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جب یہ حقیقت انسان کے اندر جگہ پکڑلیتی ہے اور جب نفس انسانی اپنے حساب و کتاب سے زندہ رہنے کی تڑپ نکال دیتا ہے ‘ کیونکہ ہر نفس نے بہرحال ایک دن مرنا ہے اور اسی طرح جب اس نے اپنی فہرست ترجیحات سے دنیا کے نظر فریب سامان کو بھی نکال دیا تو اس وقت پھر اللہ اہل ایمان سے بات کرتے ہیں کہ ان کے لئے مالی اور جانی آزمائشیں آنے والی ہیں ۔ اور اسی وقت پھر وہ ان قربانیوں کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الأمُورِ ” مسلمانو ‘ تمہیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آکر رہیں گی ‘ اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنوگے ۔ اگر ان سب حالات میں تم صبر اور اللہ ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے ۔ “ عقائد اور نظریات اور دعوت اور تحریک کی سنت یہ ہے کہ ان میں ابتلا ‘ جان کی ابتلا ‘ مال کی ابتلا ضروری ہوتی ہے اور نفس انسانی کو اس میں ثابت قدمی ‘ صبر اور عزم سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ یہ جنت کی راہ ہے اور جنت تو تب ملتی ہے جب ناپسندیدہ کاموں سے اجتناب کیا جائتے اور جنت ان کے اندرگھیری ہوئی ہے اور دوزخ شہوات نفس کے درمیان ہے ۔ یہی ایک صورت ہے جس میں کسی دعوت کو لے کر اٹھنے والی جماعت کو برپا کیا جاسکتا ہے ۔ اسی صورت میں دعوتی فرائض ادا کئے جاسکتے ہیں ۔ یہی طریقہ ہے ‘ ایسی جماعت کی تربیت کا ۔ اور صرف اسی طریقے سے اس کی خفیہ قوتوں ‘ بھلائی کی قوتوں ‘ صبر وثبات کی قوتوں کو جگایا جاسکتا ہے ۔ یہ طریقہ کہ فرائض کو عملاً ادا کیا جائے اور لوگوں کی حقیقی حیثیت کو جانا جائے اور زندگی کی اصلیت بھی ذہن میں ہو کہ اس کی کیا حقیقت ہے ؟ یہی ایک طریقہ ہے کہ دعوت کے اردگرد مضبوط لوگ جمع ہوجاتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگ کسی دعوت کو لے کر چلتے ہیں اور اسی کی راہ میں آنے والی مشکلات پر صبر کرتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ۔ کسی بھی دعوت کی قدر ایسے ہی لوگوں کے پاس ہوتی ہے اور وہ اسے اہم سمجھتے ہیں اور اس دعوت کی راہ میں وہ جس قدر مشکلات برداشت کریں گے ‘ اس قدروہ انہیں عزیز ہوگی ۔ اس لئے وہ اس کو کبھی بھی نظر انداز نہ کریں گے ‘ خواہ جیسے حالات بھی ہوں۔ آزمائش کو ہر دعوت کی سنت اس لئے قرا ردیا گیا ہے کہ اس سے داعی اور دعوت دونوں مضبوط ہوجاتے ہیں ۔ مقابلہ ہی انسان کے اندر سے اس کی خفیہ قوتوں کو جگاتا ہے ۔ ان کو نشوونما دیتا ہے ‘ ان کو مجتمع کرتا ہے اور پھر ان کو ایک راہ پر لگاتا ہے ۔ کسی بھی جدید دعوت کو چاہئے کہ وہ ان خفیہ قوتوں سے کام لے ‘ انہیں جگائے تاکہ اس کی جڑیں مضبوط ہوں اور وہ معاشرے کے اندر گہری جڑیں رکھتی ہو۔ پھر نظریاتی اعتبار سے اسے چاہئے کہ وہ تروتازہ ‘ اور انسانی فطرت کے اندر رچی بسی ہو۔ حاملین دعوت کو اپنے نفوس کی حقیقت اچھی طرح معلوم ہو ‘ اور وہ جہاد فی سبیل اللہ اور اس کی زندگی کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہوں ۔ انہیں معلوم ہو کہ نفس انسانی کی حقیقت کیا ہے اور اس کے اندر کیا کیا خفیہ قوتیں ہیں۔ انہیں معلوم ہو کہ ایک جماعت اور ایک معاشرے کی تشکیل کس طرح ہوتی ہے ۔ انہیں معلوم ہو کہ ان کی دعوت کے اصول اور ان کی نفسانی خواہشات کے درمیان کہاں کہاں اور کس کس طرح جنگ ہوگی اور پھر تمام لوگوں کے ساتھ اس دعوت کی جنگ کس طرح ہوگی ۔ پھر انہیں معلوم ہو کہ شیطان کن کن دروازوں سے نفس انسانی کے اندر داخل ہوجاتا ہے ‘ راستے میں کہاں کہاں پھسلن ہے اور کہاں کہاں گمراہی کی دلدل ہے ۔ اس جہد مسلسل کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس پر اس کے مخالفین بھی غور کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ وہ سوچتے ہیں کہ جو اس قدر قربانیاں دیتے ہیں لازماً اس میں کوئی خیر ہوگی کوئی راز تو اس میں ہوگا۔ یہ لوگ اس راہ میں اس قدر مشکلات برداشت کرتے ہیں اور وہ پر عزم طور پر اپنے موقف پر جمے ہوئے ہیں ۔ ایک مقام ایسا ضرور آتا ہے کہ مخالفین کے دل پگھل جاتے ہیں ‘ وہ ٹوٹ جاتے ہیں اور آخرکار فوج درفوج تحریک میں داخل ہوتے ہیں۔ غرض دعوت کی یہ سنت ہے ۔ اس دعوت کی راہ میں جو پُر مشقت حالات پیش آتے ہیں ‘ ایسے حالات آتے ہیں جن حالات کے اندر تلخ کھینچاتانی قائم رہتی ہے اور اس راہ میں دشمنوں کے عملوں کا مقابلہ ہوتا ہے اور اس راہ میں ہر وقت مشکلات برداشت کرکے اللہ کی رحمت کی امید قائم رکھنا ہوتی ہے اور یہ سب کام صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو نہایت ٹھوس لوگ ہوں اور جو نہایت ہی الوالعزم ہوں۔ وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الأمُورِ……………” اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ ان لوگوں کے کاموں میں سے ہوگا جو اولوالعزم ہیں ۔ “ مدینہ کی اسلامی جماعت اس بات کی توقع کرتی تھی کہ اس کی راہ میں اسے بےپناہ مشکلات پیش آنے والی ہیں ۔ وہ اذیت ‘ مصیبت اور مشکلات کی توقع کررہی تھی ۔ چاہے یہ مشکلات جانی ہوں یا مالی ۔ یہ ان اہل کتاب کی طرف سے ہوں جو مدینہ کے اردگرد بستے تھے یا ان دشمن مشرکین کی طرف سے ہوں جو مکہ میں تھے ۔ لیکن یہ مشکلات ضرور ان کی راہ میں آئیں گی ۔ وہ کبھی بھی شکست تسلیم نہ کرے گی……………اس جماعت کو یہ بھی یقین تھا کہ اس نے ایک دن ضرور مرنا ہے ۔ اور یہ کہ اصل اجر تو وہ ہوگا جو آخرت میں ملے گا اور یہ کہ کامیاب وہی ہوگا جو آگے سے ہٹایا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا اور یہ کہ دنیا کی زندگی تو متاع غرور ہے۔ مدینہ کی یہ جماعت اس قدر مضبوط بنیادوں پر کھلی زمین پر کھڑی تھی اور وہ اسی شاہرہ پر گامزن تھی جو یقیناً منزل مقصود کو جاتی تھی ۔ اور یہ پختہ اور مضبوط زمین اب بھی حاملین دعوت اسلامی کے لئے موجود ہے ۔ اور یہ کھلی اور سیدھی شاہراہ ہر انسان کے سامنے ہے ۔ اس کے دعوت کے وہی پرانے دشمن آج بھی اس کے دشمن ہیں ۔ صدیوں وقت گزرنے کے باجود یہ دشمن نہیں بدل ۔ وہ آج تک اس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں ‘ حالانکہ صدیاں بیت گئیں اور قرآن وہی قرآن ہے اور وہی اس کا پیغام ہے جو تھا۔ ہاں ‘ یہ درست ہے کہ فتنہ وابتلا کے اسٹائل ہر دور میں بدل جاتے اور اس تحریک کے خلاف پروپیگنڈے کے نئے نئے وسائل سامنے آجاتے ہیں ۔ اس کو ایذا دینے کے طریقے بھی نئے آتے رہتے ہیں ۔ اس کی شہرت کو خراب کیا جاتا ہے ‘ اس کے تصورات کے بنیادی عناصر کو خراب کیا جاتا ہے ۔ ان کی اہمیت کو ختم کیا جاتا ہے اور دعوت کے مقاصد کے بارے میں غلط تاثرات دیئے جاتے ہیں ‘ لیکن اس سلسلے میں واحداصول یہ ہے : لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ” اے مسلمانو ‘ تمہیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آکر رہیں گی اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنوگے۔ “ اس سورت میں اہل کتاب کی سازشوں کے ایک بڑے حصے کو بےنقاب کیا گیا ہے ۔ یہ ان کے پروپیگنڈے اور شکوک و شبہات پھیلانے کیے نمونوں سے بھری پڑی ہے ۔ کبھی شکوک و شبہات اصل دعوت اور اس کے اصول کے اندر پیش کئے جاتے ہیں ۔ کبھی اس دعوت کے حاملین اور کارکنوں کے خلاف شبہات پھیلائے جاتے ہیں ۔ اور اس کام کا اسٹائل اور شکل و صورت ہر دور میں بدل جاتی ہے۔ اور جدید وسائل ‘ نشر و اشاعت کے بعد اس کے رنگ ڈھنگ بہت ہی بدل گئے ہیں ۔ اور یہ تمام کام اسلام کے نظریاتی کام کے خلاف مسلسل ہورہا ہے ۔ نیز اس کا اول ٹارگٹ اسلامی جماعت اور اس کی قیادت ہوتی ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مذکور بالا آیت میں جو فریم ورک دیا ہے یہ کام آج بھی بہرحال اسی کے اندر ہورہا اور جس مزاج کا اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اس مزاج سے ہورہا ہے ۔ اور دشمنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو نشاندہی کی ہے اس کے رنگ ڈھنگ آج بھی وہی ہیں ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت دی ہے وہ ہر دور میں جماعت اسلامی اور تحریک اسلامی کے لئے ایک سرمایہ ہے ‘ جب بھی وہ اس دعوت کو لے کر اٹھے اور جب بھی وہ اس زمین کے کسی حصے میں اسلامی نظام کے قیام کا نصب العین لے کر اٹھے ۔ جب بھی یہ کام شروع ہوگا تو اس کے خلاف فتنہ اور سازشوں کے وسائل حرکت میں آنا شروع ہوں گے ‘ جدید سے جدید پروپیگنڈے کے وسائل کے دروازے کھل جائیں گے ۔ اس کے مقاصد کو غلط رنگ میں توڑ موڑ کر پیش کیا جائے گا ۔ اور اس کی صفوں کو منتشر کرنے کی سعی کی جائے گی اور قرآن کی جانب سے تحریک اسلامی کی ہدایت اور اس کی آنکھیں کھولنے کے لئے یہ آیت سامنے آجائے گی ۔ وہ اس تحریک کے مزاج سے داعیوں کو خبردار کرے گی ‘ اس کا طریق کار سمجھائے گی ۔ اور اس کے مخالفین کا مزاج بھی تحریک کے سامنے رکھ دے گی جو راستے میں تحریک کی راہ پکڑے ہوئے ہیں اور یہ آیت تحریک اسلامی کے دل کو اطمینان سے بھردے گی ۔ اور اس راہ میں اسے جو مشکلات پیش آئیں انہیں انگیز کرے گی اور جب یہ بھیڑیے ہر طرف سے اس کا گوشت نوچیں گے اور جب اس کے چاروں طرف نشر و اشاعت کے وسائل بھونکنے لگیں گے اور جب اس پر ہر طرف سے ابتلا آئے گی اور اسے فتنہ سامانیوں کا سامنا ہوگا تو یہ تحریک مطمئن ہوکر اپنی راہ پر گامزن رہے گی اور اسے یہ تمام نشانات راہ صاف صاف نظر آئیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ابتلا ‘ اذیت ‘ فتنے اور باطل پروپیگنڈے سے پہلے ہی خبردار کردیا گیا ۔ بتادیا گیا کہ وہ اس دعوت کی وجہ سے بہت کچھ سنے گی اور یہ اس لئے بتادیا گیا کہ اس تحریک کو اس بات پر پہلے سے پختہ یقین ہے کہ صبر وتقویٰ ہی زاد راہ ہیں ۔ اور ان کے ذریعے تمام سازشیں ‘ تمام پروپیگنڈے ختم ہوجاتے ہیں ‘ ان کے ہوتے ہوئے اذیت وابتلا کی اہمیت اور شدت ہی ختم ہوجاتی ہے اور تحریک اپنے ٹارگٹ کی طرف جاتی ہے ‘ رواں دواں ہوتی ہے ‘ نہایت پر امید ہوکر ‘ نہایت عزم کے ساتھ اور صبر وتقویٰ کے زاد راہ کے ساتھ۔ اس کے بعد روئے سخن اہل کتاب پر تنقید کی جانب ہوجاتا ہے ۔ ان کے غلط موقف کی قلعی کھولی جاتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ جب ان کو کتاب دی گئی تھی تو ان سے تو عہد لیا گیا تھا کہ تم یہ یہ کروگے ۔ مگر انہوں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور جس بات کو ان کے پاس بطور امانت رکھا گیا تھا ‘ اس میں انہوں نے خیانت کی ۔ ان سے پوچھا جاتا ہے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جانوں اور مالوں میں تمہاری ضرور آزمائش ہوگی اس آیت شریفہ میں مسلمانوں کو بتادیا ہے کہ صبر اور آزمائش کے جو واقعات تمہارے سامنے آئے یہ نہ سمجھو کہ یہ آخری ہیں انکے بعد بھی ایسے واقعات پیش آتے رہیں گے، جن سے تمہاری آزمائش ہوتی رہے گی، یہ آزمائش جانوں میں بھی ہوگی اور مالوں میں بھی ہوگی، ہمت اور حوصلہ کے ساتھ سب کو برداشت کرتے رہو، نیز اہل کتاب یہود و نصاریٰ اور مشرکین تمہیں ایذا پہنچاتے رہیں گے اور ان سے ایسی باتیں سنو گے جن سے تمہیں دکھ پہنچے گا، دشمن اپنی حرکت سے باز نہ آئے گا، تمہیں ان کی ایذاؤں سے اور بدزبانیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ صبر اختیار کرو اور تقویٰ کو ہاتھ سے نہ جانے دو تمہارے لیے اسی میں خیر ہے اور صبر اور تقویٰ اختیار کرنا ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ صبر کرنے سے تسلی ہوتی ہے اور تقویٰ سے اعمال کی تکمیل ہوتی ہے جب یہ دونوں چیزیں اختیار کرلیں تو دشمن کی دل آزاریوں سے صرف نظر کرنا آسان ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

283 یہاں تیسری بار مضمون انفاق و قتال کا لف و نشر مرتب کے طور پر اعادہ کیا گیا ہے۔ فرمایا ابھی تم پر مال و جان کے سلسلے میں کئی امتحانات آئیں گے۔ مال میں امتحان یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ اور دیگر کارہائے خیر میں مال خرچ کرنے کا حکم ہوگا۔ یا مال پر آفات و بلیات آئیں گی اور جان میں ابتلاء یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہوگا۔ قتل و جراح، قید و بند اور دیگر مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ای لتختبرن (فی اموالکم) بالانفاق فی سبیل اللہ و بما یقع فیھا من الافات (وفی انفسکم) بالقتل والاسر والجراح و ما یرد علیھا من انواع المصائب (مدارک ج 1 ص 155) ۔ اس لیے ان امتحانات کے لیے تیار ہوجاؤ اور ان تکالیف کو برداشت کرنے کے لیے اپنی ہمتوں کو آمادہ کرلو۔ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْالْکِتٰبَ الخ یہ بھی ابتلاء ہی کی ایک صورت ہے اَلَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰب سے یہود و نصاریٰ اور اَلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا سے مشرکین عرب مراد ہیں اور اَذًی کَثِیْرًا سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں توہین آمیز کلمات، ہجویہ نظمیں، اسلام اور مسلمانوں پر طعن وتشنیع اور ان کا تمسخر مراد ہے۔ من الطعن فی الدین الحنیف و القدح فی احکام الشرع الشریف و صد من اراد ان یومن وتخطئۃ من اٰمن و ما کان من کعب بن الاشرف و اضرابہ من ھجاء المومنین الخ (ابو السعود ج 3 ص 167) ۔ یعنی تم اہل کتاب اور مشرکین کی زبانوں سے بہت کچھ طعن و ملامت اور تحقیر و تذلیل کی باتیں سنو گے اور یہ بھی تمہارے حق میں ایک امتحان ہوگا۔ ان دشمنان دین اور اعداء اسلام کی باتیں سن کر تم بد دل مت ہونا۔ نہ ہمت ہارنا اور نہ ہی ان کی باتوں سے مشتعل ہو کر سنجیدگی اور تقویٰ کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا اور ان تمام امتحانات کا صبر و تحمل اور متانت سے مقابلہ کرنا۔ 284 اس میں ایمان والوں کو بوقت ابتلاء و امتحان جرات و شجاعت سے کام لینے اور اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے دی گئی تکلیفوں پر صبر و ثبات کا دامن تھامنے کی تلقین کی گئی ہے ذَالِکَ سے صبر وتقویٰ کی طرف اشارہ ہے اور عزم الامور (ابو السعود ج 3 ص 167) ۔ اس سے موجودہ دور کے مبلغین توحید کو سبق حاصل کرنا چاہئے اگر آج کل کے مشرک مولوی، پیر اور گدی نشین ان کو گالیاں دیں، ان پر طعن وتشنیع کریں اور ان کو بےادب اور گستاخ کہہ کر بد نام کرنے کی کوشش کریں تو انہیں ان کی پر وہ کیے بغیر صبر و تحمل اور ثبات و استقلال سے اپنا کام جاری رکھنا چاہئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے مسلمانو ! بلاشبہ تم اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے نقصان کے سلسلہ میں ابھی اور آزمائے جائوگے اور یقیناً تم کو ان لوگوں سے جو تم سے پہلے کتاب دے گئے ہیں یعنی اہل کتاب سے اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں ابھی اور بہت سی تکلیف دہ اور دل آزار باتیں سننی پڑیں گی اور اگر تم نے ان آئندہ آنے والے مصائب پر صبر کیا اور ان باتوں کو برداشت کیا اور تقوے کے پابند رہے تو یقین جانو ! یہ صبر وتقویٰ بڑے اہم اور تاکیدی احکام میں سے ہیں اور یہ ہمت اور اولو العزمی کے کاموں میں سے ہیں۔ (تیسیر) چونکہ اوپر فنحاص اور حضت ابوبکر صدیق (رض) کا واقعہ گزر چکا ہے اسی سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ ابھی اور قسم کی دل خراش اور دل آزار باتیں سننی ہوں گی۔ اور بعض روایات میں ہے کہ کعب بن اشرف یہودی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) کی شان میں اکثر ہجو کے اشعار کہا کرتا تھا اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت بدر کے واقعہ سے پہلے نازل ہوئی ہے بعض نے کہا دل آزادی سے مراد ہے قصیدوں کی تشبیب میں عورتوں کا ذکر کرنا بہرحال آیت میں اہل کتاب اور مشرکین کی جارحانہ کاررائیوں کی مذمت کرنا ہے اور مسلمانوں کو آئندہ اس قسم کے امتحانات سے باخبر کرنا ہے اور صبر اور تقویٰ کی تاکید کرنا ہے۔ (واللہ اعلم) مطلب یہ ہے کہ ابھی کیا ہے اور غزوئہ احد میں تم نے کیا دیکھا ہے ابھی نہ معلوم اور کیا کیا امتحان تم پر آئیں گے اگر دنیا میں امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانا اور اعلاء کلمۃ اللہ کی غرض سے زندہ رہنا ہے تو قدم قدم پر بدمعاشوں، اوباشوں اور شرارت پسندوں کی رکاوٹ کو دور کرنا پڑے گا۔ اور روزمرہ جارحانہ کارروائیوں کی مدافعت کرنی ہوگی۔ اور ایک فنحاص کیا بلکہ ہر ایک اہل کتاب اور مشرک کی دل آزار باتیں سننی ہوں گی۔ اور جب تک مسلمانوں کے ہاتھ اقتدار اور قوت نہ آئے گی یہ سلسلہ جاری رہے گا لہٰذا ہم اپنے سابقہ وعدے کو پھر یاد دلاتے ہیں کہ اگر تم اے مسلمانو ! ثابت قدم رہے اور استقلال سے جمے رہے اور تقویٰ کے پابند رہے تو یہ تمہارے لئے انجام کے اعتبار سے بہتر ہوگا اور تم کامیاب ہوگے اور تم کو کوئی نقصان نہ ہوگا۔ کیونکہع یہ کام معزمات امور سے ہیں یا یہ کام ان کاموں میں سے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے۔ عزم کے معنی ہیں کسی رائے پر اس طرح قائم رہنا کہ اس کو کر گزرنا۔ عزیمت اور رخصت اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے اور مسائل فقیہہ میں تو عام طور سے یہ لفظ مستعمل ہے۔ یہاں دو معنی کئے ہیں ایک تو یہ کہ یہ ایسے کام ہیں جن پر ہر شخص کو رغبت کرنی چاہئے اور ہمت سے ان کو کر گزرنا چاہئے۔ اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے تاکیدی احکام ہیں جن کو پورا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ہم نے تیسیر میں دونوں معنیٰ کا لحاظ رکھا ہے۔ شرط کی جزا یا تو مخدوف ہے جیسا کہ ہم نے تسہیل میں اشارہ کیا ہے کہ اگر صبرکروگے اور تقویٰ کے پابند رہوگے تو وہ تمہارے حق میں بہتر ہوگا۔ اس صورت میں آخری جملہ دلیل اور علت ہوگی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ذلک سے مخاطبین کا صبر مراد ہو ایسی صورت میں آخری جملہ بھی شرط کا جواب ہوسکتا ہے۔ اب آگے یہود کی حقیقی عہد شکنی کا ذکر ہے کہ ان شریروں نے ایک طرف تو فرضی عہد گھڑ رکھا ہے اور پیغمبر پر ایمان نہ لانے کا اس کو بہانہ بنالیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے اس قسم کا کوئی عہد نہیں لیا اور دوسری طرف ان کی یہ حالت ہے کہ جس بات کا واقعی عہد لیا تھا اس عہدکو انہوں نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)