Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 189

سورة آل عمران

وَ لِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱۸۹﴾٪  10

And to Allah belongs the dominion of the heavens and the earth, and Allah is over all things competent.

آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And to Allah belongs the dominion of the heavens and the earth, and Allah has power over all things. He is the Owner of everything, able to do all things and nothing escapes His might. Therefore, fear Him, never defy Him and beware of His anger and revenge. He is the Most Great, none is greater than Him, and the Most Able, none is more able than He is.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ۔۔ : جب حقیقت یہ ہے کہ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے تو یہ حقیقت اگر تم ہر وقت اپنے سامنے رکھو تو شاید ایک نافرمانی کی جرأت بھی نہ کرسکو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ١٨٩ ۧ ملك ( مالک) فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وقال : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] وفي غيرها من الآیات ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٩) آسمان و زمین کے تمام خزانے اس کی ملکیت میں داخل ہیں اور تمام آسمان و زمین والے اس کے مملوک ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:189) ملک۔ اسم ومصدر۔ اقتدار اعلیٰ ۔ بادشاہت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی جب حقیقت یہ ہے اور تم بھی اس کا انکار نہیں کرسکتے تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے انتقام سے ڈر تے ہوئے اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ پس چونکہ وہ سلطان حقیقی ہیں سب پر ان کا حکم ماننا ضروری ہے اور نافرمانی جرم ہے اور چونکہ وہ قادر ہیں اس لیے جرم کی سزا دے سکتے ہیں اور چونکہ انہوں نے اس سزا کی خبر دی ہے اس لیے ضرور سزادیں گے اور چونکہ یہ صفات ان کے ساتھ خاص ہیں لہذا ان کے سزادیے ہوئے کو کوئی بچا نہیں سکتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ریاکاروں، کنجوسوں، خوشامدیوں اور اللہ کے منکروں کو سوچنا چاہیے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اور ملکیت کس کے پاس ہے ؟ صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے تعریف تو اس کی ہونا چاہیے۔ اگر سمجھنا چاہو تو اس نے زمین و آسمان کے درمیان اور لیل ونہار کے آنے جانے میں بہت سی نشانیاں رکھ دی ہیں دوسری طرف مسلمانوں کو سمجھایا کہ جس طرح رات اور دن کا آنا جانا ہے اسی طرح زندگی میں دکھ، سُکھ، خوشی، غم، کامیابی اور ناکامی ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ اس میں مومن کے لیے خوش خبری اور اطمینان کا سبق ہے۔ ” لُبْ “ کا معنی ہے عقل اور الباب اس کی جمع ہے۔ زمین و آسمان کی ملکیت تو ایک اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی خدائی کا ثبوت چاہتے ہو تو زمین و آسمان کی پیدائش اور لیل و نہار کی گردشوں پر غور کرو۔ لہٰذاہر قسم کی تعریف ذات کبریا کو لائق ہے اور وہی زمین و آسمان کا مالک اور ان کے چپے چپے پر اختیار اور اقتدار رکھنے والا ہے۔ لیکن نشانات قدرت پر عقل مند ہی غور و خوض کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں پر خوش ہونے اور اپنی تعریف کروانے والے لوگ اس کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔ کیونکہ ہر چیز پر اسی کا کنٹرول ہے۔ مسائل ١۔ آسمانوں اور زمین کی ملکیت اللہ کے لیے ہے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ ٢۔ زمین و آسمان کی تخلیق، رات اور دن کی تبدیلی میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نشانات ہیں۔ تفسیر بالقرآن سب کچھ اللہ ہی کی ملکیت ہے : ١۔ مشرق ومغرب اللہ کے لیے ہے۔ (البقرۃ : ١٤٢) ٢۔ زمین و آسمان اللہ کی میراث ہیں۔ (آل عمران : ١٨٠) ٣۔ زمین و آسمان پر اللہ کی بادشاہی ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ٤۔ قیامت کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حکومت ہوگی۔ (الفرقان : ٢٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (وَ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) اس میں بہت سی باتیں آگئیں جو لوگ حقیر دنیا کے لیے حق چھپاتے تھے ان کو بھی بتادیا کہ جو کچھ لینا ہے اللہ سے لو اس کی رضا کے کام کرکے لو۔ ہر چیز کا وہی مالک ہے اور مسلمانوں کو بھی توجہ دلا دی کہ اگر دنیا میں کسی فاسق فاجر کے پاس مال زیادہ ہے تو اس کی طرف نظریں نہ اٹھائیں سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے وہ جب چاہے گا تم کو بھی عطا فرما دے گا۔ اور اس کی مشیت ہوگی تو تمہیں دشمنوں سے زیادہ عطا فرما دے گا، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

288 یعنی سب کچھ اللہ کا ہے نہ کہ حضرت عیسی، حضرت مریم اور آل عمران کے کسی بزرگ کا۔ اور ہر چیز کا خالق اور ہر چیز پر قادر بھی صرف اللہ ہی ہے نہ کہ یہ حضرات جب زمین و آسمان کا مالک اور ساری کائنات میں متصرف و مختار اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کی قدرت اس قدر کامل اور حاوی ہے کہ کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں تو پھر عبادت اور پکار کے لائق بھی صرف وہی ہے اور وہی سب کا حاجت روا اور مشکل کشا ہے اور اس کے سامنے نہ کوئی شفیع غالب ہے اور نہ کوئی صفاتِ کارسازی میں اس کا شریک و نائب ہے۔ ای السلطان القاھر فیھما بحیث یتصرف فیھما و فیما فیھما کیف ما یشاء ویرید ایجادا و اعداما احیاء و اماتۃ تعذیبا واثابۃ من غیر ان یکون لغیرہ شائبۃ دخل فی شیء من ذلک بوجہ من الوجوہ (ابو السعود ج 3 ص 172) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اے پیغمبر جو لوگ ایسے ہیں کہ اپنے کئے پر خوش ہوتے ہیں اور اپنی بدکرداری اور بداعمالی پر خوش اور نازاں ہوتے ہیں اور جو نیک کام انہوں نے نہیں کئے ان پر یہ چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے۔ یعنی برے کام کے کرنے پر خوش اور نیک کام کے ترک پر مدح و ثنا کے جویاں سوائے پیغمبر آپ ایسے شخصوں کو ہرگز ہرگز عذاب الٰہی سے نجات یافتہ نہ سمجھیں اور یہ خیال نہ کریں کہ ایسے لوگ عذاب الٰہی سے محفوظ رہیں گے بلکہ ان کو دردناک عذاب ہوگا اور تمام آسمان و زمین کی سلطنت و بادشاہت اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خاص ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے اور ہر شئے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (تیسیر) یہود کا عام طریقہ یہ تھا کہ حق کو چھپاتے تھے اور اظہار حق سے گریز کرتے تھے جس کو کرتے تھے یعنی حق کا کتمان اس پر تو خوش ہوتے تھے اور جس کو ترک کر رکھا تھا یعنی حق کا اظہار اس پر چاہتے تھے کہ لوگ ہماری تعریف کریں اور ہم کو سرا ہیں۔ حضرت ابو سعید خدری کا قول ہے کہ منافقین لڑائی میں جانے سے بچتے تھے اور گھروں میں بیٹھ رہتے تھے اور جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدانِ جہاد سے واپس تشریف لاتے تو آکر اپنے خلوص کا اظہار کرتے اور قسمیں کھا کھا کر اپنا عذر پیش کرتے اور یہ چاہتے کہ مسلمان ہمارے خلوص اور ایمان کی تعریف کریں۔ مردان نے اپنے چوبدار ابو رافع کو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے پاس بھیج کر دریافت کرایا تھا کہ یہ آیت کن لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ یہود کتاب میں تحریف کرتے تھے حق کے خلاف فیصلے کرتے تھے اور ان تمام حرکات شنیعہ پر خوش ہوتے تھے اور نماز روزے کے تارک تھے اور چاہتے تھے کہ ہماری تعریف کی جائے ۔ بہرحال شان نزول کا تعلق اسی قسم کے لوگوں کے ساتھ ہے اور ایسے ہی لوگوں کے لئے یہ وعید فرمائی ہے جو برے کام کرکے خوش ہوتے ہیں اور جو اچھا کام نہیں کرتے اس پر مدح سرائی کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے متعلق یہ وعید ہے کہ تم ان کو عذاب سے بچنے والا نہ سمجھو ان کو دنیا میں بھی عذاب ہوتا ہے یعنی ان کی فضیحت و رسوائی ہوتی ہے اور آخرت میں تو ان کے لئے دردناک عذاب ہے ہی۔ لاتحسبن میں خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے جیسا کہ ہم نے اختیار کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ خطاب عام ہو اگرچہ آیت کا تعلق یہود اور منافقین سے ہے لیکن آیت اپنے مفہوم کی وجہ سے سب کو شامل ہے۔ فرح سے مراد معاصی پر فرح ہے اور حمد سے مراد حمد کی خواہش کرنا اور مدح سرائی کی ہوس کرنا اور اہتمام کرنا ہے۔ رہا کسی نیکی پر مدح کی ہوس اور مدح کا اہتمام یہ بھی شرعاً محمود نہیں ہے۔ باقی طبعاً اگر کسی نیکی پر فرح ہو اور طبعاً کسی کی تعریف محبوب ہو تو یہ گناہ نہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنی اچہئے کہ فرح ایسی خوشی کو کہتے ہیں جس میں عجب ادا اور اترانا ہو۔ اس قسم کی خوشی مذموم ہے اچھے کام پر بھی ناپسندیدہ ہے اور برے کام پرتو انتہائی مذموم ہے۔ اسی طرح کام کے نہ کرنے پر مدح کی خواہش یا اچھا کام ترک کرنیپر مدح سرائی کی ہوس یہ بھی مذموم ہے۔ البتہ کوئی اچھا کام کیا اور اس پر کسی نے بغیر خواہش اور بغیر طلب تعریف کردی اور اس قسم کی تعریف و مدح طبعاً محبوب ہوئی تو اس میں مضائقہ نہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے اذا سرتک حسنتک وساع تک سیئتک فانت مؤمن۔ یعنی تیری نیکی تجھ کو مسرور کرے اور تیرا گناہ تجھ کو ملول کرے تو تو مومن ہے۔ یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سرور فرمایا ہے ہم نے جو تقریر اوپر کی ہے اس سے سرور اور فرح کا فرق معلوم ہوگیا ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے نیک کام کرنے اور برے کام کے ترک کرنے پر عجب ہونا اور اترانا اور مدح کی خواہش اور ہوس کرنا اور مدح کو اہم مقصد قرار دینا مذموم ہے۔ البتہ اگر طبعاً مسرت اور خوشی ہو اور کسی مدح کرنے والے کی مدح طبعاً پسند ہو تو مضائقہ نہیں اور برا کام کرنا یا بھلے کام کو ترک کردینا اور اس پر خوش ہونا اور اترانا اور اس پر مدح کی خواہش اور ہوس کرنا اور مدح کو اہم مقصد قرار دینا یہودیت اور منافقت ہے اور اسی کی آیت میں مذمت اور وعید آئی ہے اس پر آخرت کا عذاب یقینی اور دنیا کی سزا کا اندیشہ ہے ورنہ عام طور پر نیک کا کرنے اور برے کام کے ترک پر طبعاً کس کا دل مسرور نہیں ہوتا اور صحیح تعریف اور مدح کس کو نہیں بھاتی۔ یہی مطلب ہے اس جواب کا جو جبرالامت حضرت ابن عباس (رض) نے حاکم مدینہ مردان کو ابو رافع چوبدار کی معرفت دیا تھا اور جو معنی مہ نے آیت کے وعید کے ساتھ کئے یقیناً اس اعتبار سے اس آیت کا کوئی تعلق مسلمانوں سے نہیں ہے۔ دوسری آیت میں جرم کی سزا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی سلطنت و بادشاہت اور اس کی وسعت وقدرت کا ذکر فرمایا ہے اور یہ قرآن کا ایک خاص داب اور قاعدہ ہے کہ سزا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حکومت وقدرت کا اظہار فرماتا ہے تاکہ مجرم یہ سمجھ لے کہ جس کے قانون کی خلاف ورزی کررہا ہوں اس سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتا کیونکہ اس کی حکومت وقدرت تمام کائنات کو محیط ہے۔ حضرت شاہ صاحب الیم پر کہتے ہیں وہی یہود مسئلے غلط بتاتے اور رشوتیں کھاتے اور پیغمبر کی صفت چھپاتے پھر خوش ہوتے کہ ہم کو کوئی پکڑ نہیں سکتا اور امید رکھتے کہ لوگ ہماری تعریف کریں کہ خوب عالم اور دین دار اور حق پرست ہیں۔ (موضح القرآن) اب آگے حضرت حق تعالیٰ کی قدرت و حکومت کے دلائل ہیں چونکہ اوپر اس کی حکومت کا ذکر آیا ہے اس لئے اس پر دلیل بیان کرتے ہیں نیزجیسا کہ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ اسلام کی حقانیت اور خدا کی توحید پر عقلی اور نقلی شواہد موجود ہیں ان کو دیکھنا چاہئے بلاوجہ پیغمبر سے معجزہ طلب کرنا ایک عامیانہ مطالبہ ہے اور منہ مانگا معجزہ طلب کرنے اور اس کے پورا ہوجانے کے بعد پھر ایمان نہ لانا اور تمام قوم کو ہلاکت میں ڈالنا ایک غلط اقدام ہے۔ اس لئے بجائے لغو اور عامیانہ مطالبات کے حق کو دلیل سے سمجھو اور مانو ! طبرانی اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس سے یہ بھی روایت کی ہے کہ مشرکین نے عناداً نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ پہاڑ کو سونے کا بنادو اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تسہیل)