Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 48

سورة آل عمران

وَ یُعَلِّمُہُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ ﴿ۚ۴۸﴾

And He will teach him writing and wisdom and the Torah and the Gospel

اللہ تعالٰی اسے لکھنا اور حکمت اور توراۃ اور انجیل سکھائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Description of `Isa and the Miracles He Performed Allah tells; وَيُعَلِّمُهُ ... And He will teach him, Allah states that the good news brought to Maryam about `Isa was even better because Allah would teach him, ... الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ... the Book and Al-Hikmah. It appears that the `Book' the Ayah mentioned here refers to writing. We explained the meaning of Al-Hikmah in the Tafsir of Surah Al-Baqarah. ... وَالتَّوْرَاةَ وَالاِنجِيلَ the Tawrah and the Injil. The Tawrah is the Book that Allah sent down to Musa, son of Imran, while the Injil is what Allah sent down to `Isa, son of Maryam, peace be upon them, and `Isa memorized both Books. Allah's statement,

فرشتوں کا مریم سے خطاب فرشتے حضرت مریم سے کہتے ہیں کہ تیرے اس لڑکے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پروردگار عالم لکھنا سکھائے گا حکمت سکھائے گا لفظ حکمت کی تفسیر سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے ، اور اسے توراۃ سکھائے گا جو حضرت موسیٰ بن عمران پر اتری تھی اور انجیل سکھائے گا جو حضرت عیسیٰ ہی پر اتری ، چنانچہ آپ کو یہ دونوں کتابیں حفظ تھیں ، انہیں بنی اسرائیل کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجے گا ، اور اس بات کو کہنے کے لئے کہ میرا یہ معجزہ دیکھو کہ مٹی لی اس کا پرندہ بنایا پھر پھونک مارتے ہی وہ سچ مچ کا جیتا جاگتا پرند بن کر سب کے سامنے اڑنے لگا ، یہ اللہ کے حکم اور اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے سبب تھا ، حضرت عیسیٰ کی اپنی قدرت سے نہیں یہ ایک معجزہ تھا جو آپ کی نبوت کا نشان تھا ، اکمہ اس اندھے کو کہتے ہیں جسے دن کے وقت دکھائی نہ دے اور رات کو دکھائی دے ، بعض نے کہا اکمہ اس نابینا کو کہتے ہیں جسے دن کو دکھائی دے اور رات کو دکھائی نہ دے ، بعض کہتے ہیں بھینگا اور ترچھا اور کانا مراد ہے ، بعض کا قول یہ بھی ہے کہ جو ماں کے پیٹ سے بالکل اندھا پیدا ہوا ہو ، یہاں یہی ترجمہ زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس میں معجزے کا کمال یہی ہے اور مخالفین کو عاجز کرنے کے لئے اس کی یہ صورت اور صورتوں سے اعلیٰ ہے ، ابرص سفید دانے والے کوڑھی کو کہتے ہیں ایسی بیمار بھی اللہ جل شانہ کے حکم سے حضرت عیسیٰ اچھے کر دیتے تھے اور مردوں کو بھی اللہ عزوجل کے حکم سے آپ زندہ کر دیا کرتے تھے ، اکثر علماء کا قول ہے کہ ہر ہر زمانے کے نبی کو اس زمانے والوں کی مناسبت سے خاص خاص معجزات حضرت باری غراسمہ نے عطا فرمائے ہیں ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادو کا بڑا چرچا تھا اور جادو گروں کی بڑی قدرو تعظیم تھی تو اللہ تعالیٰ نھے آپ کو وہ معجزہ دیا جس سے تمام جادوگروں کی آنکھیں کھل گئیں اور ان پر حیرت طاری ہو گئی اور انہیں کامل یقین ہو گیا کہ یہ تو الہ واحد و قہار کی طرف سے عطیہ ہے جادو ہرگز نہیں چنانچہ ان کی گردنیں جھک گئیں اور یک لخت وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور بالاخر اللہ کے مقرب بندے بن گئے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں طبیبوں اور حکیموں کا دور دورہ تھا ۔ کامل اطباء اور ماہر حکیم علم طب کے پورے عالم اور لاجواب کامل الفن استاد موجود تھے پس آپ کو وہ معجزے دے گئے جس سے وہ سب عاجز تھے بھلا مادر زاد اندھوں کو بالکل بینا کر دینا اور کوڑھیوں کو اس مہلک بیماری سے اچھا کر دینا اتنا ہی نہیں بلکہ جمادات جو محض بےجان چیز ہے اس میں روح ڈال دینا اور قبروں میں سے مردوں کو زندہ کر دینا یہ کسی کے بس کی بات نہیں؟ صرف اللہ سبحانہ کے حکم سے بطور معجزہ یہ باتیں آپ سے ظاہر ہوئیں ، ٹھیک اسی طرح جب ہمارے نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس وقت فصاحت بلاغت نکتہ رسی اور بلند خیالی بول چال میں نزانت و لطافت کا زمانہ تھا اس فن میں بلند پایہ شاعروں نے وہ کمال حاصل کر لیا تھا کہ دنیا ان کے قدموں پر جھکتی تھی پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کتاب اللہ ایسی عطا فرمائی گئی کہ ان سب کو کوندتی ہوئی بجلیاں ماند پڑ گئیں اور کلام اللہ کے نور نے انہیں نیچا دکھایا اور یقین کامل ہو گیا کہ یہ انسانی کلام نہیں ، تمام دنیا سے کہدیا گیا اور جتا جتا کر بتا بتا کر سنا سنا کر منادی کر کے بار بار اعلان کیا گیا کہ ہے کوئی؟ جو اس جیسا کلام کہہ سکے؟ اکیلے اکیلے نہیں سب مل جاؤ اور انسان ہی نہیں جنات کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لو پھر سارے قرآن کے برابر بھی نہیں صرف دس سورتوں کے برابر سہی ، اور اچھا یہ بھی نہ سہی ایک ہی سورت اس کی مانند تو بنا کر لاؤ لیکن سب کمریں ٹوٹ گئیں ہمتیں پست ہوگئیں گلے خشک ہوگئے زبان گنگ ہو گئی اور آج تک ساری دنیا سے نہ بن پڑا اور نہ کبھی ہو سکے گا بھلا کہاں اللہ جل شانہ کا کلام اور کہاں مخلوق؟ پس اس زمانہ کے اعتبار سے اس معجزے نے اپنا اثر کیا اور مخالفین کو ہتھیار ڈالتے ہی بن پڑی اور جوق درجوق اسلامی حلقے بڑھتے گئے ۔ پھر حضرت مسیح کا اور معجزہ بیان ہو رہا ہے کہ آپ نے فرمایا بھی اور کر کے بھی دکھایا بھی ، کہ جو کوئی تم میں سے آج اپنے گھر سے جو کچھ کھا کر آیا ہو میں اسے بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اطلاع بتا دوں گا یہی نہیں بلکہ کل کے لئے بھی اس نے جو تیاری کی ہو گی مجھے اللہ تعالیٰ کے معلوم کرانے پر معلوم ہو جاتا ہے ، یہ سب میری سچائی کی دلیل ہے کہ میں جو تعلیم تمہیں دے رہا ہوں وہ برحق ہے ہاں اگر تم میں ایمان ہی نہیں تو پھر کیا ؟ میں اپنے سے پہلی کتاب توراۃ کو بھی ماننے والا اس کی سچائی کا دنیا میں اعلان کرنے والا ہوں ، میں تم پر بعض وہ چیزیں حلال کرنے آیا ہوں جو مجھ سے پہلے تم پر حرام کی گئی ہیں ، اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے توراۃ کے بعض احکام منسوخ کئے ہیں ، گو اس کے خلاف بھی مفسرین کا خیال ہے ، لیکن درست بات یہی ہے کہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ تورات کا کوئی حکم آپ نے منسوخ نہیں کیا البتہ بعض حلال چیزوں میں جو اختلاف تھا اور بڑھتے بڑھتے گویا ان کی حرمت پر اجماع ہو چکا تھا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی حقیقت بیان فرما دی اور ان کے حلال ہونے پر مہر کر دی ، جیسے قرآن حکیم نے اور جگہ فرمایا ولا بین لکم بعض الذی تختلفون فیہ میں تمہارے بعض آپس کے اختلاف میں صاف فیصلہ کر دونگا واللہ اعلم ، پھر فرمایا کہ میرے پاس اپنی سچائی کی اللہ جل شانہ کی دلیلیں موجود ہیں تم اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو ، جس کا خلاصہ صرف اسی قدر ہے کہ اسے پوجو جو میرا اور تمہارا پالنہار ہے سیدھی اور سچی راہ تو صرف یہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 کتاب سے مراد کتابت ہے جیسا کہ ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے یا انجیل و تورات کے علاوہ کوئی اور کتاب ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا (قرطبی) یا تورات و انجیل (الکتاب وحکمۃ) کی تفسیر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بلا کا حافظہ عطا فرمایا تھا۔ علاوہ ازیں وہ خوشنویس بھی تھے اور تورات ہاتھ سے لکھا کرتے تھے۔ تورات پر انہیں اتنا عبور تھا کہ جب یہودی علماء (فقیہ اور فریسی) ان سے کسی بات پر الجھتے تو آپ تورات کے زبانی حوالے دے کر انہیں قائل کرتے اور چپ کرا دیتے تھے اور فقیہ اور فریسی ان کے کمال درجہ کے حافظہ پر حیران و ششدر رہ جاتے تھے۔ آپ کو تیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی تھی۔ اس کے بعد تین سال مسلسل سیاحت کرتے رہے اور دین کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف رہے اور غالباً اسی وجہ سے آپ کو مسیح کہا جانے لگا تھا آپ نے یہود کی بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کی ان تھک کوشش کی۔ انہیں تورات کے احکام یاد دلائے اور ان کی از سر نو تعلیم دی۔ ان کی غلطیوں اور غلط فہمیوں کی نشاندہی کی۔ انجیل کے احکام سنائے اور سکھلائے۔ مگر اس بگڑی قوم کی حالت سدھر نہ سکی۔ وہ الٹا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن بن گئے، اور حضرت زکریا پر حضرت مریم سے زنا کا الزام لگا دیا اور بالآخر حضرت زکریا کو اسی وجہ سے قتل کردیا۔ حضرت زکریا کے بعد حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نے حضرت عیسیٰ کی تصدیق کی تو انہیں بھی حکومت کی وساطت سے مروا ڈالا۔ ان دونوں انبیاء کے قتل کے بعد یہود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درپے آزار ہوئے اور ان کے دشمن بن گئے۔ بالآخر تینتیس سال کی عمر میں علمائے یہود نے ان پر مقدمہ چلایا اور حکومت کی وساطت سے انہیں سولی پر لٹکانے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ جسد مع روح آسمان پر اٹھا لیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ : عیسیٰ (علیہ السلام) کو تورات اور ہر کتاب بغیر پڑھے آتی تھی اور یہ سب معجزے تھے۔ (موضح) بعض مفسرین نے ” الْكِتٰبَ “ کا معنی لکھنا کیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

1. Verse 48 recounts the august virtues of Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) who would be born blessed with the honour of learning from Allah: Scriptures, Wisdom and specially the توراۃ Torah and the اِنجیل Injil; and that he will be sent as a Messenger of Allah to all of the Children of Isra` il. 2. The message he will carry to them will be his argument in fa¬vour of his prophethood. In order that they believe, enumerated in verse 49, there are four signs or miracles that he would perform, being enough for willing believers. 3. Verse 50 says that Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) will declare that he has come to confirm Torah which was revealed before his coming and to make lawful what remained unlawful for them in the law of Moses. This means that the unlawfulness of some things in the earlier code would stand abrogated by the new one, (that of Sayyidna ` Isa علیہ السلام) whose station of prophethood was the conclusive argument for that claim of abrogation. The proof of his truth were the signs from their Lord. 4. Once his prophethood is established, verse 51 states that Sayyid¬na ` Isa (علیہ السلام) will ask them to beware of any contravention of Divine commandments, fear Allah, and follow his teachings in matters of re¬ligion which, in a nutshell, are that &Allah is my Lord and your Lord& (the ultimate in belief) and &Worship Him& (the ultimate in deeds). This, then, is the straight path which helps perfect the ideal combina¬tion of beliefs and deeds, leads to the way of salvation and is the source of communion with Allah. Ruling: Making the shape of a bird was the making of a picture, something permitted in that Shari` ah. In our Shari&ah, its permissibility was abro¬gated.

خلاصہ تفسیر ( اور اے مریم اس مولود مسعود کی یہ فضیلتیں ہوں گی) اللہ ان کو تعلیم فرمادیں گے، (آسمانی) کتابیں اور سمجھ کی باتیں اور (بالخصوص) توریت اور انجیل اور ان کو ( تمام) بنی اسرائیل کی طرف ( پیغمبر بنا کر یہ مضمون دے کر) بھیجیں گے کہ ( انی جئتکم تا مستقیم یعنی) میں تم لوگوں کے پاس ( اپنی نبوت پر) کافی دلیل لے کر آیا ہوں وہ یہ ہے کہ میں تم لوگوں کے ( یقین لانے کے) لئے گارے سے ایسی شکل بناتا ہوں جیسی پرندہ کی شکل ہوتی ہے پھر اس (مصنوعی شکل) کے اندر پھونک مار دیتا ہوں جس سے وہ ( سچ مچ کا جاندار) پرندہ بن جاتا ہے خدا کے حکم سے ( ایک معجزہ تو یہ ہوا) اور میں اچھا کردیتا ہوں مادر زاد اندھے کو اور برص کے بیمار کو اور زندہ کردیتا ہوں مردوں کو خدا کے حکم سے ( یہ دوسرا، تیسرا معجزہ ہوا) اور میں تم کو بتلا دیتا ہوں جو کچھ اپنے گھروں میں کھا ( کھا کر) آتے ہو اور جو (گھروں میں) رکھ آتے ہو ( یہ چوتھا معجزہ ہوا) بلا شبہ ان ( معجزات مذکورہ) میں ( میرے نبی ہونے کی) کافی دلیل ہے تم لوگوں کے لئے اگر تم ایمان لانا چاہو، اور میں اس طور پر آیا ہوں کہ تصدیق کرتا ہوں اس کتاب کی جو مجھ سے پہلے (نازل ہوئی) تھی یعنی توراۃ کی اور اس لئے آیا ہوں کہ تم لوگوں کے واسطے بعضی ایسی چیزیں حلال کردوں جو ( شریعت موسیٰ (علیہ السلام) میں) تم پر حرام کردی گئی تھیں ( سو ان کی حرمت میری شریعت میں منسوخ ہوگی) اور ( میرا یہ دعوی نسخ بلا دلیل نہیں ہے بلکہ میں ثابت کرچکا ہوں کہ) میں تمہارے پاس (نبوت کی) دلیل لے کر آیا ہوں ( اور صاحب نبوت کا قول دعوی نسخ میں حجت ہے) حاصل یہ کہ ( جب میرا نبی ہونا دلائل سے ثابت ہوچکا تو میری تعلیم کے موافق ( تم لوگ اللہ تعالیٰ (کی مخالفت حکم) سے ڈر اور (دین کے باب میں) میرا کہنا مانو ( اور خلاصہ میری دینی تعلیم کا یہ ہے کہ) بیشک اللہ تعالیٰ میرے بھی رب ہیں اور تمہارے بھی رب ہیں ( یہ تو حاصل ہے تکمیل عقیدہ کا) سو تم لوگ اس (رب) کی عبادت کرو ( یہ حاصل ہوا تکمیل عمل کا) بس یہ ہے راہ راست ( دین کی جس میں عقائد و اعمال دونوں کی تکمیل ہو اسی سے نجات و وصول الی اللہ میسر ہوتا ہے ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيُعَلِّمُہُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَالتَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ۝ ٤٨ ۚ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو حکمت ( نبوۃ) قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه . قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔ توراة التوراة التاء فيه مقلوب، وأصله من الوری، وبناؤها عند الکوفيين : ووراة، تفعلة «4» ، وقال بعضهم : هي تفعلة نحو تنفلة ولیس في کلامهم تفعلة اسما . وعند البصريين وورية، هي فوعلة نحو حوصلة . قال تعالی: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة/ 44] ، ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح/ 29] . ( ت و ر ) التوراۃ آسمانی کتاب جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ وری سے مشتق ہے اور تاؤ واو سے مبدل سے علماء کوفہ کے نزدیک یہ وؤراۃ بروزن نفعلۃ ہے اور بعض کے نزدیک تفعل کے وزن پر ہے جیسے تنفل لیکن کلام عرب میں تفعل کے وزن پر اسم کا صیغہ نہیں آتا ۔ علماء بصرہ کے نزدیک یہ وؤری بروزن فوعل ہے جیسے قل قرآن میں ہے ؛۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة/ 44] بیشک ہم نے تو رات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح/ 29] . ان کے اوصاف تو رات میں ( مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨) اور اللہ تاس مولود (یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو انبیاء کرام کی کتابوں کی تعلیم فرمائے گا اور حلال و حرام کی یا انبیاء سابقین کی حکمت اور ماں کے پیٹ میں توریت کی اور پیدا ہونے بعد انجیل کی نعمت سے نوازے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ ) یہاں پر چار چیزوں کا ذکر آیا ہے جن کی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو تعلیم دی : کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل۔ ان چار چیزوں کے مابین جو تین وآئے ہیں ان میں سے دو واو عطف ہیں ‘ جبکہ درمیانی وواو تفسیر ہے۔ اس طرح آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ ان کو سکھائے گا کتاب اور حکمت یعنی تورات اور انجیل۔ اس لیے کہ تورات میں صرف احکام تھے ‘ حکمت نہیں تھی اور انجیل میں صرف حکمت ہے ‘ احکام نہیں ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو سمجھ لینے سے یہ گتھی حل ہوتی ہے اور اسے سمجھے بغیر لوگوں کے ذہنوں میں الجھنیں رہتی ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(48 ۔ 51) ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس زمانہ کے موافق معجزہ دیا ہے چناچہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں جادو کا بڑا زور تھا اس لئے ان کو ایسا معجزہ دیا کہ جس سے سب جادوگر بےبس ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں طبیبوں کا بڑا زور تھا اس واسطے ان کو ویسا ہی معجزہ دیا کہ مردہ کو اٹھانا تو درکنار مادرزاداندھے اور بدن پر کے سفید داغ والے کو بھی کوئی طبیب اچھا نہیں کرسکتا اور نہ کوئی طبیب یہ بتلا سکتا ہے کہ بیمار نے کل کیا کھایا تھا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہ سب کچھ کرتے تھے جس سے سب طبیب حیران تھے۔ اسی طرح نبی آخر الزمان کے زمانہ میں عربی زبان کی فصاحت و بلاغت بڑا زور تھا اللہ تعالیٰ نے ان پر ان فصیح وبلیغ لفظوں میں قرآن اتارا کہ کسی سے ایک آیت بھی ویسی نہ بن سکی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بڑے خوشنویس تھے اور تورات اور انجیل ان کو زبانی یاد تھی حکمۃ سے مراد تہذیب اخلاق ہے۔ بعض چیزیں جو یہود پر ان کی شرارت کے سبب سے حرام تھیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان پر ان چیزوں کو اللہ کے حکم سے حلال کردیا جس سے بہ نسبت شریعت موسوی کے شریعت عیسوی بہت آسان ہوگئی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فقط چمگادڑ لوگوں کی فرمائش سے بنائی تھی۔ جہاں تک لوگوں کی نگاہ کام دیتی تھی وہاں تک وہ اڑتی تھی۔ پھر مر گرپڑتی تھی۔ تاکہ اللہ کے کام اور بندے کے کام میں فرق پیدا ہوجاوے اس آیت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کو بتلایا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کی عبادت میں شریک ٹھہراتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:48) آیۃ 47 بطور جملہ معترضہ بیچ میں آگئی۔ آیۃ 46 میں فرشتوں کا کلام جو شروع ہوا تھا آیۃ 47 کے بعد اب پھر جاری ہوگیا۔ یہ سلسلہ کلام آیۃ 49 کے اختتام سے قبل ہی ختم ہوکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کلام بغیر کسی تمہید کے شروع ہوجاتا ہے۔ یہ طرز کلام انشاء عربی میں انوکھا اور غیر معروف نہیں ہے۔ اور قرآن حکیم میں اس کی اکثر مثالیں ملیں گی۔ ویعلم الکتاب ۔۔ کا عطف یبشرک پر ہے اور ہر دو یعلم اور یبشر میں ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی جب وہ رسول بن کر آئیں گے تو ان کی عوت یہ ہوگی۔۔۔۔ الخ

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد اس بشارت کی مزید تفاصیل بتائی جاتی ہیں ‘ جس کی پیدائش کے لئے حضرت مریم کو منتخب کیا گیا اور جو بےمثال طریقے سے روبعمل آرہی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس نئے آنے والے کی سیرت اور کردار کیا ہوگا۔ حضرت عیسیٰ کی آئندہ تاریخ بتائی جاتی ہے ۔ اب بشارت اور تاریخ مستقل ساتھ ساتھ جاری ہیں تو یا بشارت بھی ہورہی اور ساتھ ہی تاریخ بھی چلتی پھرتی ہے۔ یہ قرآن کریم کا اپنا اسلوب کلام ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالإنْجِيلَ……………” اور اللہ اسے کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا اور تورات اور انجیل کا علم سکھائے گا۔ اور بنی اسرائیل کی طرف اپنا رسول مقرر کرے گا۔ “ کتاب سے کبھی مراد کتابت بھی ہوتی ہے اور کبھی اس سے مرد تورات اور انجیل بھی ہوتی ہے ۔ اس صورت میں تورات اور انجیل کا عطف کتاب پر عطف بیان ہوگا۔ حکمت انسان کے ذہن میں ایسے ملکہ کا نام ہے جس کے ذریعہ وہ ہر چیز کو اپنے مقام پر رکھتا ہے۔ جس کلے ذریعہ انسان صحیح اور برے کی تمیز کرسکتا ہے ۔ اور صحیح کا اتباع کرسکتا ہے ۔ اور یہ حکمت اور ملکہ دراصل خیر کثیر ہے ۔ تورات بھی حضرت عیسیٰ کی کتاب تھی جس طرح انجیل ان کی کتاب تھی ‘ تورات اس دین کی اساس تھی جو وہ لیکر آئے تھے ۔ انجیل دراصل اسی دین کا ایک تکملہ تھا ‘ اس کے ذریعہ تورات کی اصل روح کا احیاء مطلوب تھا ‘ وہ روح جو یہودیوں سے ختم ہوگئی تھی ۔ ان کے دل اس روح سے خالی ہوگئے تھے ۔ وہ لوگ جو مسیحیت پر بحث کرتے ہیں ‘ ان میں سے اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہیں ہوتی کہ حضرت مسیح کے دین کی اصل تورات ہے ۔ اس میں وہ نظام شریعت ہے جس پر معاشرے کا نظام قائم ہے ۔ انجیل نے اس میں بہت سی کمی بیشی کی ہے ۔ وہی انجیل بذات خود تو وہ صرف احیائے دین کی ایک جدوجہد تھی ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مقصد یہ تھا کہ ظاہری نصوص سے پیچھے جاکر انسان کے ضمیر اور اس کی روح کو پاک کیا جائے ۔ اور وہ تحریک احیائے روح کیا تھی جس کی وجہ سے معاشرے نے آپ کے خلاف سازش کی تھی ۔ وہ اور جس کے لئے آپ جدوجہد کرتے رہے تھے وہ یہ تھی :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi