Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 58

سورة آل عمران

ذٰلِکَ نَتۡلُوۡہُ عَلَیۡکَ مِنَ الۡاٰیٰتِ وَ الذِّکۡرِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۵۸﴾

This is what We recite to you, [O Muhammad], of [Our] verses and the precise [and wise] message.

یہ جسے ہم تیرے سامنے پڑھ رہے ہیں آیتیں ہیں اور حکمت والی نصیحت ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

This is what We recite to you of the verses and the Wise Reminder. meaning, "What We narrated to you, O Muhammad, regarding `Isa, his birth and his life, is what Allah conveyed and revealed to you, sent down from the Al-Lawh Al-Mahfuz (The Preserved Tablet). So there is no doubt in it. Similarly, Allah said in Surah Maryam; ذلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِى فِيهِ يَمْتُرُونَ مَا كَانَ للَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَـنَهُ إِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ Such is `Isa, son of Maryam. (It is) a statement of truth, about which they doubt (or dispute). It befits not Allah that He should beget a son. Glorified be He. When He decrees a thing, He only says to it: "Be!" and it is. (19:34-35)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ نَتْلُوْہُ عَلَيْكَ مِنَ الْاٰيٰتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيْمِ۝ ٥٨ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) ہم یہ اوامرو نواہی اور آیات قرآنیہ، بواسطہ جبریل امین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کرتے ہیں، اور یہ محکم (واضح) حلال و حرام جو کہ توریت وانجیل یہ یہ کہ لوح محفوظ کے موافق ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سناتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” ذالک نتلوہ علیک “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت حسن (رض) سے روایت کیا ہے کہ نجران کے دو (عیسائی) راہب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے ایک میں سے بولا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے والد کون ہیں ؟ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جواب دینے میں جلدی نہیں فرماتے تھے تاوقتیکہ وحی الہی نہ آجاتی، چناچہ اللہ نے (آیت) ” ذلک نتلوہ “۔ ممترین “۔ تک یہ آیات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائیں اور عوفی کے واسطہ سے ابن عباس (رض) سے اس طرح روایت نقل کی گئی ہے کہ نجران سے ایک جماعت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس میں ان کے سردار اور پیرو بھی تھے اور بولے کہ آپ ہمارے صاحب کا کیا تذکرہ کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کون ہیں، وہ بولے عیسیٰ (علیہ السلام) آپ کا خیال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جی ہاں وہ بولے کیا عیسیٰ (علیہ السلام) کو تم نے کوئی دیکھا ہے یا ان کے متعلق تمہیں کوئی اطلاع دی گئی ہے پھر اس کے بعد وہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے چلے گئے، اس کے بعد جبرئیل امین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان سے کہہ دو کہ بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی منفرد معجزاتی حالت کوئی نئی نہیں بلکہ ان کا معاملہ اس سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) سے ملتا جلتا ہے کہ وہ ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے ، اور بیہقی (رح) نے دلائل میں بواسطہ سلمہ (رح) ، عبد یشوع (رح) اور ان کے والد سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہونے سے قبل آپ نے اہل نجران کے پاس یہ لکھ کر روانہ کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اسحاق، (علیہ السلام) یعقوب (علیہ السلام) کے اللہ کے نام سے یہ شروع کرتا ہوں اور نبی کریم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے ہے الخ، اور آپ نے ان کی طرف شرجیل بن دواعہ ہمدانی اور عبداللہ بن شرجیل جبار حرثی کو بھی روانہ کیا چناچہ ان حضرات نے ان سے جاکر بولے کہ آپ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے باے میں کیا فرماتے ہیں، آپ نے فرمایا ابھی تک میرے اوپر کوئی سورت وحی نازل نہیں ہوئی، اور میں بلا ہدایت ربانی کچھ کہتا نہیں، جس کی یہ لوگ اقتدا کریں لہٰذا یہ لوگ قیام کریں تاکہ میں ان کو وحی الہی سے آگاہ کردو، چناچہ اگلے دن صبح ہوگئی تب اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ان مثل عیسیٰ “۔ سے کذبین “۔ تک یہ آیات نازل فرمائیں۔ اور ابن سعد نے طبقات میں ارزق بن قیس سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نجران کا ایک راہب اور اس کے پیروآئے، آپ نے ان پر اسلام کو پیش کیا وہ بولے ہم تو آپ سے پہلے ہی سے مسلمان ہیں۔ آپ نے فرمایا جھوٹ بولتے ہو تمہیں اسلام قبول کرنے سے تین چیزوں نے روک رکھا ہے، تمہارا یہ کہنا کہ العیاذ باللہ اللہ تعالیٰ نے لڑکا بنا لیا ہے، تمہارا سور کا گوشت کھانا تیسرے بتوں کو سجدہ کرنا، وہ لاجواب ہوگئے اور آپ کو زچ کرنے کے لیے وہ بولے کہ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے والد کون ہیں، آپ نے فی الحال بغیر وحی الہی کے ان کو کوئی جواب دینا مناسب نہ سمجھا تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی اس کے بعد آپ نے ان کے لیے بلایا تو انہوں نے آنے سے انکار کردیا تو آپ نے اس طرح ان پر جزیہ لاگو کردیا اور وہ واپس ہوگئے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

یہاں بھی گویا پس منظر میں حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) ہیں جو اللہ کی آیات اور ذکر حکیم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پڑھ کر سنا رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :53 یعنی اگر محض اعجازی پیدائش ہی کسی کو خدا یا خدا کا بیٹا بنانے کے لیے کافی دلیل ہو تب تو پھر تمہیں آدم کے متعلق بدرجہ اولیٰ ایسا عقیدہ تجویز کرنا چاہیے تھا ، کیونکہ مسیح تو صرف بے باپ ہی کے پیدا ہوئے تھے ، مگر آدم ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:58) ذلک۔ یعنی۔ الذی ذکرتہ لک من اخبار عیسیٰ دامہ مریم والحواریون وغیر ذلک من القصص (یعنی وہ ذکر جو میں نے حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ حضرت مریم اور ان کے حواری وغیرہ کے متعلق تجھ سے کیا ہے) من الایات والذکر الحکیم۔ یہ اللہ کی آیات اور کلام پر حکمت ہے جس میں سے یہ باتیں تجھے سنائی جاری ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس اختتامیہ میں سے پہلے تو یہ کہا گیا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو وحی نازل ہوئی ہے وہ حق ہے ۔ ذَلِكَ نَتْلُوهُ عَليْكَ مِنَ الآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ……………” یہ آیات اور حکمت سے لبریز تذکرے ہیں جو ہم تمہارے سنا رہے ہیں ۔ “ یہ قصے اور قرآنی ہدایات ‘ سب کی سب اللہ کی وحی پر مبنی ہیں اور خود اللہ انہیں پڑھ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکمت و دانائی کی آیات پرھ کر سناتے ہیں ۔ انداز بیان ایسا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کا قرب اور خوشنودی حاصل ہے ۔ جب خود اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکمت و دانائی کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں ۔ اللہ دانا و حکیم ہیں انسانی زندگی اور نفس کے حوالے سے اونچے حقائق اس کے پاس ہیں ۔ اور وہ اس نے ایک خاص طریقے اور خاص اسلوب کے ساتھ وہاں ودیعت کئے ہیں ۔ وہی بتاسکتا ہے کہ فطرت کے ساتھ ہمکلامی کا طریقہ کیا ہے ۔ اور فطرت انسانی تک رسائی کا اسلوب کیا ہے۔ اور یہ حکمت اس انداز میں بتائی جاتی ہے جس کی کوئی سابق نظیر نہیں ہے ۔ یعنی اس تمام انسانی حکمت کے ریکارڈ میں جس کا مصدر اور منبع اللہ نہ ہو ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

82 یہ جملہ معترضہ ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کے اظہار کیلئے لایا گیا ہے ذَالِکَ مبتدا ہے اور نَتْلُوْهُ عَلَیْکَ اس کی خبر ہے مِنَ الْآیَاتِ وَالذِّکْرِ الْحکِیْمِ خبر بعد خبر ہے یا نَتْلُوْهُ میں ضمیر منصوب سے حال ہے اور ذکر حکیم سے مراد قرآن ہے یعنی جو کچھ ہم آپ پر نازل کر رہے ہیں۔ یہ آپ کی نبوت کے واضح دلائل ہیں اور حکمت سے بھرپور قرآن کی آیتیں ہیں۔ جن کا علم وحی کے بغیر ناممکن ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ آپ خدا کے پیغمبر ہیں۔ ای الحجج الدالۃ علی صدق نبوتک اذا علمتہم بما لایعلمہ الا قائ کتاب او معلم ولست بواحد منہما فلم یبق الا انا وقد عرفتہ من طریق الوحی (روح ج 3 ص 58) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4۔ لہٰذا ان اختلاف کرنے والوں میں جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی ہوگی ان کو ان کے کفر کی وجہ سے دنیا اور آخرت دونوں میں سخت سزا دوں گا اور شدید عذاب کروں گا اور ان لوگوں کا کوئی حامی و مدد گار نہ ہوگا اور جو لوگ مومن ہوں گے اور نیک اعمال کے پابند رہے ہوں گے تو ان کو اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کی مزدوریاں اور ان کا حق الخدمت پورا پورا عطا فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ ظالموں اور نا انصافیوں کو پسند نہیں فرماتا اور محبوب نہیں رکھتا۔ اے پیغمبر ! یہ واقعات جو ہم آپ کو پڑھ پڑ ھ کر سناتے ہیں اور آپ پر بذریعہ وحی ان کی تلاوت کرتے ہیں یہ منجملہ دلائل نبوت اور منجملہ حکومت آمیز تذکرے کے ہیں یعنی ایسا تذکرہ جو حکمت سے لبریز ہو۔ ( تیسیر) دنیا کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ قتل کئے جائیں ۔ قید کئے جائیں ان کی تذلیل کی جائے۔ جزیہ مقرر کیا جائے یا اور کسی قسم کے مصائب او آلام میں مبتلا کئے جائیں ۔ قیامت کے دن فیصلہ کرنے کے بعد پھر دنیا و آخرت میں عذاب کرنے کا مطب یہ ہے کہ دنیا میں جو سزا دی جا چکی ہوگی وہ اور آخرت کی سزا دونوں یکساں شمار ہونگی ۔ یعنی ان کے جرائم پر دونوں سزائوں کا مجموعہ مرتب ہوگا اجر کے معنی مزدوری اور حق ہے یہاں وہ ثواب مراد ہے جو اعمال کے صلہ میں عطا ہوگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) اجر کا ترجمہ نیگ کیا کرتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق الخدمت کے معنی نیگ کرنا بہترین ترجمہ ہے ۔ نیگ دہلی میں عام طور سے استعمال ہوتا ہے اور یہ ایسے موقعہ پر بولا جاتا ہے جہاں محنت اور خدمت برائے نام ہو اور مزدوری پوری پوری دی جائے ، اور یہ جو فرمایا کہ اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالموں مبغوض ہے۔ ذلک نتلوہ علیک من الایات کی ترتیب کئی طرح کی گئی ہے ہم نے ان میں سے ایک کو اختیار کرلیا ہے۔ ان واقعات سے مراد وہ واقعات میں جو اوپر بیان کئے گئے ہیں یعنی حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات ، آیات سے مراد قرآنی آیات بھی ہوسکتی ہیں ۔۔۔۔ اور معجزات دلائل بھی ہوسکتے ہیں۔ الذکر الحکیم سے مراد قرآن ہے اور ہوسکتا ہے کہ لوح محفوظ مراد ہو۔ ( واللہ اعلم) حضرت جبریل کی تلاوت کو سبب آمر ہو نیکی وجہ سے حضرت حق نے اپنی طرف منسوب کیا اور یوں فرمایا کہ ہم آپ پر تلاوت کرتے ہیں اور آپ کو پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں۔ دلائل کا مطلب یہ ہے کہ یہ واقعات اللہ تعالیٰ کی قدرت پر بھی دلیل ہیں اور آپ کی صداقت اور آپ کی نبوت پر بھی دلیل ہیں کیونکہ یہ زمانہ سابقہ کے واقعات اس طرح صحیح اور بالتفصیل سوائے وحی کے کوئی بیان نہیں کرسکتا ۔ اب آگے ایک اور دلیل عیسائیوں کے دعویٰ الوہیت کے رد میں مذکور ہے۔ ( تسہیل)