Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 65

سورة آل عمران

یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوۡنَ فِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَتِ التَّوۡرٰىۃُ وَ الۡاِنۡجِیۡلُ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۵﴾

O People of the Scripture, why do you argue about Abraham while the Torah and the Gospel were not revealed until after him? Then will you not reason?

اے اہلِ کتاب! تم ابراہیم کی بابت کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات و انجیل تو ان کے بعد نازل کی گئیں کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Disputing with the Jews and Christians About the Religion of Ibrahim Allah censures the Jews and Christians for their dispute with Muslims over Ibrahim Al-Khalil and the claim each group made that he was one of them. Muhammad bin Ishaq bin Yasar reported that Ibn Abbas said, "The Christians of Najran and Jewish rabbis gathered before the Messenger of Allah and disputed in front of him. The rabbis said, `Ibrahim was certainly Jewish.' The Christians said, `Certainly, Ibrahim was Christian.' So Allah sent down, يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَأجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ ... O people of the Scripture (Jews and Christians)! Why do you dispute about Ibrahim, meaning, `How is it that you, Jews, claim that Ibrahim was Jew, although he lived before Allah sent down the Tawrah to Musa! How is it that you, Christians, claim that Ibrahim was Christian, although Christianity came after his time" ... وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالانجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ ... while the Tawrah and the Injil were not revealed till after him! This is why Allah said, ... أَفَلَ تَعْقِلُونَ Have you then no sense! Allah then said,

حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق یہودی اور نصرانی دعوے کی تردید یہودی حضرت ابراہیم کو اپنے میں سے اور نصرانی بھی حضرت ابراہیم کو اپنے میں سے کہتے تھے اور آپس میں اس پر بحث مباحثے کرتے رہتے تھے اللہ تعالیٰ ان آیتوں میں دونوں کے دعوے کی تردید کرتا ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نجران کے نصرانیوں کے پاس یہودیوں کے علماء آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کا جھگڑا شروع ہو گیا ، ہر فریق اس بات کا مدعی تھا کہ حضرت خلیل اللہ ہم میں سے تھے اس پر یہ آیت اتری کہ اے یہودیو تم خلیل اللہ کو اپنے میں سے کیسے بتاتے ہو؟ حالانکہ ان کے زمانے میں نہ موسیٰ تھے نہ توراۃ ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور کتاب تورات شریف تو خلیل اللہ علیہ السلام کے بعد آئے ، اسی طرح اے نصرانیو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نصرانی کیسے کہہ سکتے ہو؟ حالانکہ نصرانیت تو ان کے صدیوں بعد ظہور میں آئی کیا تم اتنی موٹی بات کے سمجھنے کی عقل بھی نہیں رکھتے؟ پھر ان دونوں فرقوں کی اس بےعلمی کے جھگڑے پر رب دو عالم انہیں ملامت کرتا ہے اگر تم بحث و مباحثہ دینی امور میں جو تمہارے پاس ہیں کرتے تو بھی خیر ایک بات تھی تم تو اس بارے میں گفتگو کرتے ہو جس کا دونوں کو مطلق علم ہی نہیں ، تمہیں چاہئے کہ جس چیز کا علم نہ ہو اسے اس علیم اللہ کے حوالے کرو جو ہر چیز کی حقیقت کو جانتا ہے اور چھپی کھلی تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے ، اسی لئے فرمایا اللہ جانتا ہے اور تم محض بےخبر ہو ۔ دراصل اللہ کے خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی تھے وہ شرک سے بیزار مشرکوں سے الگ صحیح اور کامل ایمان کے مالک تھے اور ہرگز مشرک نہ تھے ، یہ آیت اس آیت کی مثل ہے جو سورۃ بقرہ میں گذر چکی آیت ( وَقَالُوْا كُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا ) 2 ۔ البقرۃ:135 ) یعنی یہ لوگ کہتے ہیں یہودی یا نصرانی بننے میں ہدایت ہے ۔ پھر فرمایا کہ سب سے زیادہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تابعداری کے حقدار ان کے دین پر ان کے زمانے میں چلنے والے تھے اور اب یہ نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے ساتھ کے ایمانداروں کی جماعت جو مہاجرین و انصار ہیں اور پھر جو بھی ان کی پیروی کرتے رہیں قیامت تک ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی کے ولی دوست نبیوں میں سے ہوتے ہیں میرے ولی دوست انبیاء میں سے میرے باپ اور اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام الصلوٰۃ والسلام ہیں ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ( ترمذی وغیرہ ) پھر فرمایا جو بھی اللہ کے رسول پر ایمان رکھے وہی ان کا ولی اللہ ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں جھگڑنے کا مطلب یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی دونوں دعویٰ کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے دین پر تھے حالانکہ تورات جس پر یہودی ایمان رکھتے تھے اور انجیل جسے عیسائی مانتے تھے دونوں حضرت ابراہیم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سینکڑوں برس بعد نازل ہوئیں پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی یا عیسائی کس طرح ہوسکتے ہیں حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ایک ہزار سال کا حضرت ابراہیم و عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان دو ہزار سال کا فاصلہ تھا (قرطبی)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٨] یہود و نصاریٰ دونوں حضرت ابراہیم کو اپنا پیشوا تسلیم کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان میں شدید قسم کے اختلاف تھے۔ مزید یہ کہ یہودیوں کا دعویٰ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم ہمارے مذہب پر تھے یعنی یہودی تھے اور نصاریٰ کا یہ دعویٰ تھا کہ ہمارے مذہب پر تھے یعنی نصاریٰ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا۔ عقل کے اندھو ! یہودی وہ ہیں جو تورات کے متبع ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نصاریٰ وہ ہیں جو انجیل کے متبع ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ دونوں کتابیں تو حضرت ابراہیم کی وفات کے مدتوں بعد نازل ہوئیں تو پھر حضرت ابراہیم یہودی یا نصرانی کیسے ہوسکتے ہیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تُحَاۗجُّوْنَ ۔۔ : یہود ابراہیم (علیہ السلام) کے یہودی ہونے کے دعوے دار تھے اور نصاریٰ ان کے نصرانی ہونے کے اور یہ بات ایسی تھی جو واضح طور پر غلط تھی۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا زمانہ موسیٰ (علیہ السلام) سے ہزاروں برس پہلے کا ہے، یہ تورات و انجیل ان کے بہت بعد نازل ہوئیں تو وہ یہودی یا نصرانی کیسے ہوئے ؟ بھلا یہ کوئی ایسی بات ہے جس پر عقلمند لوگ باہمی جھگڑے میں مشغول ہوں۔ ہماری امت میں سے بھی اگر بعد میں بننے والا کوئی گروہ جو : ( مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ ) پر قائم نہ ہو اور دعویٰ کرے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے گروہ سے تھے تو اس سے یہی کہا جائے گا کہ تمہاری تو بنیاد ہی بعد میں رکھی گئی، جب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا سے رخصت ہوچکے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے گروہ میں کیسے شامل ہوگئے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The argumentation referred to in verse 65 was to decide whether Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) followed the way of the Jews, or that of the Christians. The futility of their exercise already stood exposed as both these ways in religion appeared long after the revelation of the Old and New Testaments. These just did not exist before that. How, then, could it be claimed that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . It adhered To these ways? Verse 66 points out to the hollowness of their approach when they indulged in their argumentation on the basis of incomplete knowledge. That they would venture to do so on the basis of no knowledge could hardly he explained. The truth is that only Allah knows the way of Ibrahim (علیہ السلام) . That way has been described in Verse 67. Verse 68 declares that the closest of people to Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) were those who followed him during his time and now the closest to him is the Prophet of Islam, Muhammad a1-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and so are the believers in him and in past prophets. These believers are the community of Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and their guardian is Allah and He will reward them for their belief.

خلاصہ تفسیر : اے اہل کتاب کیوں حجت کرتے ہو ( حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں ( کہ وہ طریق یہودیت پر تھے یا نصرانیت پر تھے) حالانکہ نہیں نازل کی گئی توراۃ اور انجیل، مگر ان کے (زمانہ کے بہت) بعد ( اور یہ دونوں طریق ان دونوں کتابوں کے نزول کے بعد سے ظاہر ہوئے پہلے سے ان کا وجود ہی نہ تھا، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان طریقوں پر کس طرح ہوسکتے ہیں) کیا (ایسی خلاف عقل بات منہ سے نکالتے ہو اور) پھر سمجھتے نہیں ہو، ہاں تم ایسے ہو کہ ایسی بات میں حجت کر ہی چکے تھے جس سے تم کو کسی قدر تو واقفیت تھی ( گو اس میں ایک غلط مقدمہ لگا کر نتیجہ غلط نکالتے تھے مراد اس سے خوارق ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے کہ یہ مطابق واقع کے ہے۔ البتہ اس میں یہ مقدمہ غلط ملا لیا گیا کہ ایسے خوارق والا الہ یا ابن الہ ہوگا لیکن ایک مقدمہ منشاء اشتباہ تو تھا، اس لئے اس کو ناکافی واقفیت کہیں گے۔ جب اس میں تمہاری غلطی ظاہر ہوگئی) سو ایسی بات میں (پھر) کیوں حجت کرتے ہو جس سے تم کو اصلا واقفیت نہیں (کیونکہ اس دعوے کے لئے تو کوئی سبب اشتباہ کا بھی تمہارے پاس نہیں، کیونکہ ان کے اور ابراہیم (علیہ السلام) کے فروع شریعت میں موافقت بھی نہ تھی) اور اللہ تعالیٰ ( ابراہیم (علیہ السلام) کے طریق کو خوب) جانتے ہیں تم نہیں جانتے ( جب تم ایسے بےسروپا دعوے کرتے ہو جس سے علم بھی مثل عدم علم کے سمجھا جاتا ہے، تو اب اللہ تعالیٰ سے ان کے طریق کو سنو کہ) ابراہیم (علیہ السلام) نہ تو یہودی تھے اور نہ نصرانی تھے، لیکن (البتہ) طریق مستقیم والے (یعنی) صاحب اسلام تھے اور مشرکین میں سے (بھی) نہ تھے (سو یہود اور نصاری کو تو مذہبی طریق کے اعتبار سے ان کے ساتھ کوئی مناسبت نہ ہوئی، ہاں) بلاشبہ سب آدمیوں میں زیادہ خصوصیت رکھنے والے ( حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ البتہ وہ لوگ تھے جنہوں نے (ان کے وقت میں) ان کا اتباع کیا تھا اور یہ نبی ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، اور یہ ایمان والے (جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہیں) اور اللہ تعالیٰ حامی ہیں ایمان والوں کے (کہ ان کو ان کے ایمان کا ثواب دیں گے ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمَآ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰىۃُ وَالْاِنْجِيْلُ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِہٖ۝ ٠ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝ ٦٥ حاجَّة والمُحاجَّة : أن يطلب کلّ واحد أن يردّ الآخر عن حجّته ومحجّته، قال تعالی: وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام/ 80] ، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران/ 61] ، وقال تعالی: لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 65] ، وقال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران/ 66] ، وقال تعالی: وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر/ 47] ، وسمّي سبر الجراحة حجّا، قال الشاعر : يحجّ مأمومة في قعرها لجف الحاجۃ ۔ اس جھگڑے کو کہتے ہیں جس میں ہر ایک دوسرے کو اس کی دلیل اور مقصد سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَحاجَّهُ قَوْمُهُ قالَ : أَتُحاجُّونِّي فِي اللَّهِ [ الأنعام/ 80] اور ان کی قوم ان سے بحث کرنے لگی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے خدا کے بارے میں ( کیا بحث کرتے ہو ۔ فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ [ آل عمران/ 61] پھر اگر یہ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چکی ہے ۔ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 65] تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فِيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ [ آل عمران/ 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تم کو کچھ بھی علم نہیں ۔ وَإِذْ يَتَحاجُّونَ فِي النَّارِ [ غافر/ 47] اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے ۔ اور حج کے معنی زخم کی گہرائی ناپنا بھی آتے ہیں شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) یحج مامومۃ فی قھرھا لجف وہ سر کے زخم کو سلائی سے ناپتا ہے جس کا قعر نہایت وسیع ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا توراة التوراة التاء فيه مقلوب، وأصله من الوری، وبناؤها عند الکوفيين : ووراة، تفعلة «4» ، وقال بعضهم : هي تفعلة نحو تنفلة ولیس في کلامهم تفعلة اسما . وعند البصريين وورية، هي فوعلة نحو حوصلة . قال تعالی: إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة/ 44] ، ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح/ 29] . ( ت و ر ) التوراۃ آسمانی کتاب جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی یہ وری سے مشتق ہے اور تاؤ واو سے مبدل سے علماء کوفہ کے نزدیک یہ وؤراۃ بروزن نفعلۃ ہے اور بعض کے نزدیک تفعل کے وزن پر ہے جیسے تنفل لیکن کلام عرب میں تفعل کے وزن پر اسم کا صیغہ نہیں آتا ۔ علماء بصرہ کے نزدیک یہ وؤری بروزن فوعل ہے جیسے قل قرآن میں ہے ؛۔ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْراةَ فِيها هُدىً وَنُورٌ [ المائدة/ 44] بیشک ہم نے تو رات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے ۔ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ [ الفتح/ 29] . ان کے اوصاف تو رات میں ( مرقوم ) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں ۔ عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

یہودیت ونصرانیت خود ساختہ مذاہب ہیں قول باری ہے (یآھل الکتاب لم تحاجون فی ابراھیم، اے اہل کتاب ! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو) تاقول باری (افلاتعقلون، کیا تمھیں اتنی بھی سمجھ نہیں ہے) حضرت ابن عباس (رض) حسن بصری اور سدی سے مروی ہے کہ یہود کے علماء نجران کے عیسائی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اکٹھے ہوگئے اور پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں جھگڑنے لگے۔ یہودیوں نے دعوی کیا کہ حضرت ابراہیم یہودی تھے اور عیسائیوں نے دعوی کیا کہ وہ عیسائی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کے دعوے کو یہ فرماکرباطل کردیا کہ (یاھل الکتاب لم تحاجون فی ابراھیم وما انزلت التوراۃ والانجیل الامن بعد افلاتعقلون، اے اہل کتاب ! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہوحالان کہ تورات اور انجیل کا نزول ان کے بعد ہوا ہے کیا تمھیں اتنی بھی سمجھ نہیں ہے) جب یہودیت اور عیسائیت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد پیداوار ہیں تو پھر آپ یہودی اور عسائی کیسے قراردیئے جاسکتے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ یہودیوں کو یہودی اس لیئے کہاجاتا ہے کہ یہودا کی اولاد ہیں اور نصاری کو نصاری اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کی اصل کا تعلق شام کے ایک گاؤں ناصرہ سے ہے۔ بہرحال یہودیت اس مذہب کا نام ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لائے ہوئے دین کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اسی طرح نصرانیت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی لائی ہوئی شریعت کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وماانزلت التوراۃ والانجیل الا من بعدہ) اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کسی ایسے مذہب کی طرف کس طرح منسوب کیئے جاسکتے ہیں۔ جوان کی وفات کے بعد وجود میں آیاہو۔ ایک شبہ کا ازالہ۔ اگریہ کہاجائے کہ درج بالاوجہ کی بناپرحضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حنیف اور مسلم بھی نہیں ہونا چاہیے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے اس لیے کہ قرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ہی نازل ہوا ہے، اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ حنیف اس دین دارکوکہتے ہیں جو سیدھے راستے پر ہو۔ لغت میں حنف کے اصل معنی استقامت یعنی سیدھاپن کے ہیں اور اس مقام پر اسلام کے معنی اللہ کی طاعت اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردینے کے ہیں۔ اس لیے اہل حق میں ہر ایک فردکواس صفت سے موصوف کرنا درست ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ انبیاء مقتدین حضرت ابراہیم اور آپ سے پہلے گزرجانے والے سب کے سب اس صفت سے متصف تھے اس لیے حضرت ابراہیم کو حنیف اور مسلم کی صفت سے موصوف کرنا درست ہوگیا۔ مگر چہ قرآن کا نزول آپ کی وفات کے بعد ہوا۔ اس لیے کہ یہ نام نزول قرآن کے ساتھ مختص نہین ہے۔ بلکہ جملہ اہل ایمان کو اس صفت سے متصف کرنا جائز ہے۔ اس کے برعکس یہودیت اور نصرانیت کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ تورات اور انجیل کی شریعت کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔ جنہیں ان کے پیروکاروں نے گھڑلیا تھا۔ اس لیے ان کی نسبت حضرت ابراہیم کی طرف کرنا درست نہیں ہے اس لیئے کہ آپ تورات اور انجیل کی شریعت سے پہلے ہی دنیا سے گذرچکے تھے۔ اس آیت میں دین کے معاملے میں باطل پرستوں کا دلائل کے ساتھ مقابلہ کرنے اور ان پر حجت قائم کرنے کے وجوب پر دلالت ہورہی ہے۔ جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معاملے میں یہودونصاری کے مقابلہ میں دلائل پیش کرکے ان کے شک وشبہ اور شوروشغب کو باطل کردیا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٥۔ ٦٦۔ ٦٧) چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کے بارے میں حجت کرتے ہو، یہ کتابیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بہت بعد نازل ہوئی ہیں، توریت وانجیل میں کسی مقام پر یہ نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی یا نصرانی تھے، اے گروہ یہود اور نصاری ! تم اپنی کتاب میں تو حجت کرچکے ہو جس میں یہ واضح طور پر موجود ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی مرسل ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی اور پھر تم اس بات کا انکار کرتے ہو تو پھر امور میں کیوں حجت کرتے ہو جو تمہاری کتابوں میں موجود نہیں اور پھر جھوٹ بولتے ہو کہ حضرت براہیم (علیہ السلام) یہودی یا نصرانی تھے اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی اور تم نہیں جانتے کہ وہ یہودی تھے یا نصرانی، اب اللہ تعالیٰ صاف طور پر ان کے اقوال کی تکذیب فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہ دین یہود پر تھے اور نہ دین نصاری پر البتہ طریق مستقیم والے صاحب اسلام تھے۔ شان نزول : (آیت) ” یا اھل الکتاب لم تحاجون “۔ (الخ) ابن اسحاق (رح) نے اپنی متصل کے ساتھ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نجران کے عیسائی اور یہود کے عالم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر جھگڑنے لگے، یہود کے عالم بولے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی تھے اور نجران کے عیسائی بولے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عیسائی تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہوتوریت، انجیل تو ان کے بہت بعد نازل ہوئیں اس روایت کو بیہقی (رح) نے بھی دلائل میں روایت کیا ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٥ (یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْ اِبْرٰہِیْمَ وَمَآ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰٹۃُ وَالْاِنْجِیْلُ الاَّ مِنْم بَعْدِہٖ ط) یہ بات تم بھی جانتے اور مانتے ہو کہ تورات بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئی اور انجیل بھی۔ یہودیت بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد کی پیداوار ہے اور نصرانیت بھی۔ وہ تو مسلمان تھے ‘ اللہ کے فرماں بردار تھے ‘ یہودی یا نصرانی تو نہیں تھے !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

58. That is, both Judaism and Christianity came into existence after the Torah and the Injil had been revealed; Abraham had lived much earlier than that. Thus it can easily be grasped that the religion of Abraham could not have been that of either Judaism or Christianity. If Abraham was on the right path and had attained salvation it is obvious that one need not follow either, Judaism or Christianity in order to be on the right path and to attain salvation. (See also Surah 2, nn. 135 and 141 above.)

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(65 ۔ 68) ۔ بیہقی نے دلائل النبوہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک دن آنحضرت کے رو برو علماء یہود اور نجران کے پادریوں کا بڑا جھگڑا ہوا یہود کہتے تھے کہ حضرت ابراہیم یہودی تھے کہ نہیں نصرانی تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١۔ اور فرما دیا کہ تورات اور انجیل جن دونوں کتابوں سے یہود اور نصاریٰ کا دین دنیا میں چلا ہے وہ تو حضرت ابراہیم کے بعد اتر ہے ابراہیم (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) میں ہزار برس کے قریب کا فاصلہ ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) میں تین ہزار برس کے قریب کا پھر حضرت ابراہیم یہودی یا نصرانی کیوں کر ہوسکتے ہیں رہی یہ بات کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں اب کون سے دین سے مناسبت ہے، خلافت علم الٰہی انجانی بات میں یہ لوگ جو بحث کر رہے ہیں یہ اللہ کو ہرگز پسند نہیں اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو بات آدمی کو معلوم نہ ہو اس میں نفسانیت سے ہرگز بحث نہ کر رہے ہیں اس شان نزول کی روایت چند طریقوں سے ہے جس کے سبب سے ایک سند سے دوسرے کو قوت ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یہود حضرت ابراہم ( علیہ السلام) کو یہودی ہونے کے دعوے دار تھے اور نصاریٰ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے نصرانی ہونے کے مدعی تھے اور یہ بات ایسی تھی جو بد ہتہ غلط تھی۔ حضرت ابراہیم کا زمانہ حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) سے تقریبا ڈھائی ہزار برس پہلے کا ہے پھر وہ یہو دی یا نصرانی کیسے ہوسکتے تھے چناچہ اس آیت میں ان کے اس دعویٰ کی تردید فرمائی ہے۔ (ابن کثیر۔ ابن جریر ) 6 اس آیت میں زصرف غلط پر جھگڑا کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ مطلقا مجادلہ سے گریز کی نصحیت بھی کی ہے۔ ابن کثیر، فتح القدیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 65 تا 71 لم تحاجون (تم کیوں جھگڑتے ہو ؟ ) ھآ انتم (تم نے سنا) ھٰؤلآء (یہ سب) حاججتم (تم جھگڑچکے) حنیف (صرف اللہ کی عبادت کرنے والا) اولی الناس (لوگوں میں زیادہ قریب) لویضلون (کاش وہ بھٹکاویں) لم تلبسون (تم کیوں ملاتے ہو ؟ ) ۔ تشریح : آیت نمبر 65 تا 71 یہود اور نصاریٰ جس طرح توحید کے دعویدار ہونے کے باوجود طرح طرح کے شرک میں مبتلا تھے اسی طرح ایک بات پر دونوں جماعتیں جھگڑتی رہتی تھیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی تھے یا عیسائی۔ دونوں کا یہ دعوی تھا کہ وہ ہمارے فرقے سے تعلق رکھتے تھے اور ہم دین ابراہمی اور ملت ابراہیمی کے پیروکار ہیں۔ ان آیات میں حق تعالیٰ شانہ نے ان دونوں کی حماقت کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا یہ لوگ عقل وفکر سے بالکل ہی کورے ہوچکے یا جان بوجھ کر آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جن پر توریت نازل ہوئی وہ ابراہیم (علیہ السلام) سے تقریباً نوسو سال کے بعد تشریف لائے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دوہزار سال بعد۔ فرمایا جارہا ہے کہ تمہیں ابراہیم (علیہ السلام) کے دین وملت سے کیا واسطہ ، تم سب غلط عقیدوں کی وجہ سے مشرک ہو جب کہ ابراہیم توحید پرست اور مسلم یعنی اللہ کے فرماں برادر تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) سے محبت کرنے والے اور ان کے طریقوں کو اپنانے والے تو حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے جان نثار صحابہ کرام ہیں۔ آج بھی ہر ایک کی نجات کا ذریعہ صرف حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریقہ آپ کی شان ختم نبوت اور لایا ہوا دین ہے۔ اور ان صحابہ کا طریقہ ہے جس پر چل کر وہ کامیاب ہوئے۔ اس راستے کے علاوہ ہر طریقہ گمراہی میں اضافہ کا سبب تو ہے کامیابی کا نہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب اپنے غلط اور مشرکانہ موقف کی تائید کے لیے عیسائی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو عیسائی اور یہودی ان کو یہودی ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ اس کی تردید اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کی سراحت اور ان سے امت مسلمہ کے تعلق کی وضاحت کی گئی ہے۔ قومیں جب گمراہی کا شکار ہوتی اور الٹے پاؤں چلتی ہیں تو وہ صرف مذہب کا حلیہ ہی نہیں بگاڑا کرتیں بلکہ تاریخ کے مسلّمہ حقائق کو تبدیل کرتے ہوئے اپنے اختلافات میں ان بزرگوں کو گھسیٹ لاتی ہیں جن کا ان کے اختلافات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ صرف اپنے موقف کو سچا ثابت کرنے کے لیے ان شخصیات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے عیسائیوں پر برتری ثابت کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہودی اور عیسائیوں نے یہودیوں پر اپنا سکہ جمانے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو عیسائی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان کی دیکھا دیکھی مشرکین مکہ نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ ہم اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد اور کعبہ کے متولّی ہیں۔ اگر ہم ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث اور تولیت کے اہل نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے گھر کا متولّی اور نگران نہ بناتا۔ لہٰذا محمد اور اس کے ساتھیوں کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کوئی تعلق نہ ہے۔ ان لوگوں کی تردید اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا رسول کریم اور آپ کی امت محمدیہ کے ساتھ رشتہ ثابت کرنے کے لیے ان کے عقیدے اور شخصیت کی وضاحت کی جارہی ہے کہ تورات وانجیل تو عرصۂ دراز کے بعد نازل ہوئیں۔ تم اپنی جہالت کی بنیاد پر ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ؟ وہ نہ یہودی تھے نہ عیسائی اور نہ ہی مشرکین کے ساتھ ان کا کوئی تعلق تھا اور ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے تعلق محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ماننے والوں کا ہے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) صرف ایک ہی رب کی عبادت کرنے اور اس کی توحید کی دعوت دینے والے اور اللہ کے تابع فرمان تھے۔ افسوس ! اسی مرض میں امت محمدیہ مبتلا ہوچکی ہے کہ آج قرآن وسنت کے داعی حضرات کو مقلد حضرات طعنہ دیتے ہیں کہ تمہارا کوئی امام نہیں اور بغیر امام کے کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ کچھ علماء غلو کرتے ہوئے یہاں تک کہتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) بھی مقلد تھے۔ (نعوذ باللہ) حالانکہ تقلید چار سو سال بعد شروع ہوئی۔ مزید تفصیل کے لیے سورة البقرۃ آیت : 170 ملاحظہ فرمائیں۔ اہل تشیع نے اخلاق کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے واقعۂ کربلا کو اس قدر پھیلایا ہے کہ تین خلفاء اور چند اصحاب کے علاوہ باقی صحابہ کرام (رض) کو شہادت حسین میں ملوث سمجھتے ہوئے ان پر دشنام کرتے ہیں۔ جب کہ یہ واقعہ حضرت ابوبکر (رض) کے 47 سال بعد حضرت عمر (رض) کے 36 سال بعد اور حضرت عثمان (رض) کے 26 سال بعد رونما ہوا۔ اور انکا واقعہ کربلا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسائل ١۔ تورات و انجیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئیں۔ ٢۔ جس مسئلہ کا علم نہ ہو اس میں بحث نہیں کرنی چاہیے۔ ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی، عیسائی اور مشرک نہیں تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کا دوست ہے۔ ٥۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے تعلق حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کا ہے۔ تفسیر بالقرآن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے تعلق خاص : ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ (الحدید : ٢٦) ٢۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ نسبت ہے۔ (آل عمران : ٦٨) ٣۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا۔ (البقرۃ : ١٢٩) ٤۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ (الممتحنۃ : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس ٢٥ ایک نظر میں سورت کا یہ حصہ بھی انہیں خطوط پر چلتا ہے ‘ جس پر ابتداء ً یہ سورت چلی آرہی ہے ۔ یعنی اہل کتاب اور جماعت مسلمہ کے درمیان برپا معرکہ آرائی ‘ یعنی فریقین کے درمیان نظریاتی جنگ ‘ اور دشمنان دین اور دین اسلام کے خلاف جو حیلہ سازی ومکاری یعنی جو فریب کاری اور دھوکہ بازی ‘ جو کذب وافتراء اور مختلف قسم کی سازشیں اور تدابیر اختیار کرکے حق و باطل میں ہر وقت التباس پیدا کرتے تھے ۔ شکوک و شبہات پھیلاتے تھے ۔ اور جس طرح اس امت کو نقصان پہنچانے کے لئے ہر وقت گھات میں بیٹھے رہتے تھے اور جس طرح وہ بلا ناغہ مسلسل کام کررہے تھے ۔ ان کا ازالہ اور جواب ‘ اور اس حصے میں مسلمانوں کو سمجھایا جارہا تھا کہ وہ اس صورت حال کا مقابلہ اس طرح کریں کہ جس حق پر قائم ہیں اس پر علی وجہ البصیرت قائم ہوں اور یہ یقین پیدا کریں کہ ان کے دشمن باطل موقف پر کھڑے ہیں۔ نیز اس سورت میں متنبہ کیا گیا تھا کہ دشمن تمہارے بارے میں کیا کیا منصوبے بناتے ہیں ۔ آخر میں پھر ان دشمنوں کی تشریح بھی کردی گئی تھی ۔ اور بتایا گیا تھا کہ ان کا مزاج ‘ ان کے اخلاق ‘ ان کے اعمال اور ان کی نیتیں کیسی ہیں ۔ اور یہ باتیں کھول کر جماعت مسلمہ کے سامنے رکھدی گئیں تاکہ وہ اپنے دشمنوں کو اچھی طرح جان لے ۔ اور وہ جس علم ومعرفت کا دعویٰ کرتے تھے ۔ اس کی قلعی بھی کھول دی گئی تھی ۔ اور پھر جن مسلمانوں کو وہ دھوکہ دے رہے ‘ ان کا اعتماد ان پر سے اٹھادیا تھا۔ انہیں ان سے متنفر کیا گیا ۔ اور ان کی مکاریوں کو طشت ازبام کردیا گیا تھا کہ وہ نہ کسی کو دھوکہ دے سکیں اور نہ طمع کاری کرسکیں ۔ یہ تھے مضامین پہلے سبق کے ۔ لیکن اس سبق میں بھی اہل کتاب یعنی یہود نصاری کے ساتھ بحث ہے ‘ لیکن یہاں بتایا گیا ہے کہ خصوصاً ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں ان کا موقف اور نظریہ تو بادی النظر میں غلط ہے ۔ یہودی سمجھتے تھے ‘ کہ وہ یہودی تھے ‘ عیسائی یہ سمجھتے تھے کہ وہ عیسائی تھے ۔ حالانکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودیت اور نصرانیت دونوں کے وجود میں آنے سے بھی پہلے دنیا میں تشریف لائے تھے ۔ وہ تورات وانجیل کے نزول سے بھی پہلے تشریف لائے تھے ۔ لہٰذا ان کے بارے میں اس قسم کے دعوے کرنا محض وہم ہے ۔ جس پر کوئی دلیل نہیں ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو دین حنیف پر تھے ۔ جو سیدھے راستے کا نام ہے ۔ اور ان کے دوست اور پیروکار کہلانے کے مستحق وہی لوگ ہیں جو اس طریقے پر ہوں ۔ اور اللہ بھی اہل ایمان کا دوست ہوتا ہے ۔ لہٰذا ان لوگوں کے بارے میں یہ دعوے کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پیرو اور دوست ہیں باطل قرار پاتے ہیں ۔ پھر بتایا جاتا ہے کہ رسولوں کے بارے میں اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ اہل اسلام تمام رسولوں کو برحق تسلیم کرتے ہیں إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ……………” ابراہیم سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق اگر کسی کو پہنچتا ہے تو ان لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے اس کی پیروی کی اور اب یہ نبی اور اس کے ماننے والے اس نسبت کے زیادہ حق دار ہیں ۔ اور اللہ صرف انہی کا حامی و مددگار ہے جو ایمان رکھتے ہیں۔ “ (٦٨ : ٣) اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں اہل کتاب یہ مجادلہ کیوں کرتے ہیں ؟ اس میں پردہ راز کیا ہے ؟ بتایا جاتا ہے کہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین کے معاملے میں گمراہ کردیں ‘ ان کے عقائد میں شبہات پید اکئے جائیں ۔ چناچہ اس سلسلے میں ان کی گوشمالی کی جاتی ہے ۔ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ (٧٠) يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ” اے اہل کتاب کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود ان کا مشاہدہ کررہے ہو ‘ اے اہل کتاب ! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو ؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو۔ “ اس کے بعد جماعت مسلمہ کو ان سازشوں کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے ۔ جو سازشیں وہ اہل ایمان کے عقائد ‘ ان کے اعتماد اور ان کے اطمینان کے خلاف وہ خفیہ طور پر کرتے تھے ۔ اور نہایت ہی مکاری سے کام لیتے تھے اور وہ اسکیم یہ تھی کہ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ صبح کے وقت اسلام کا اعلان کریں گے اور شام کو پھر واپس اپنے کفر کی طرف لوٹ جائیں گے ۔ اس کا مقصدیہ تھا کہ اہل اسلام میں سے جو لوگ ثابت قدم نہیں ہیں ان کے دل میں یہ خلجان ڈالدیں کہ اہل کتاب صبح مسلمان ہوئے اور شام کو انہوں نے کفر کیوں اختیار کرلیا ‘ اور ظاہر ہے کہ ہر جماعت کے اندر ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو ثابت قدم نہیں ہوتے ۔ خصوصاً جبکہ ان کے نزدیک اہل کتاب کتب اور ادیان کے بارے میں زیادہ علم رکھتے تھے ۔ وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ” اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ اس نبی کے ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو اس سے انکار کردو ‘ شاید اس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھرجائیں۔ “ یہ ان کا نہایت ہی مذموم منصوبہ تھا ۔ اس کے بعد بتایا جاتا ہے ‘ اہل کتاب کے اجتماعی اخلاق کیا ہیں اور یہ کہ معاہدات کے بارے میں ان کا نقطہ نظر کیا ہے۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جن کی امانت ودیانت مسلم ہے ۔ لیکن ان میں اکثر ایسے ہیں ان میں دیانت نام کو نہیں ہے ۔ اور انہوں نے اپنی اس بددیانتی اور بدعملی سے اپنے مذہبی عقائد میں سے بعض دلائل تلاش کرلئے تھے ۔ حالانکہ اہل کتاب کا اصل دین ایک برحق دین ان باتوں کے ساتھ ان کے دین کا کوئی تعلق نہ تھا۔ وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الأمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ” اہل کتاب میں کوئی تو ایسا ہے ‘ کہ اگر تم اس کے اعتمادپر مال و دولت کا ایک ڈھیر بھی دیدو تو وہ تمہارا مال تمہیں ادا کردے گا ‘ اور کسی کا حال یہ ہے کہ اگر تم ایک دینار کے معاملے میں اس پر بھروسہ کرو وہ ادا نہ کرے گا۔ الا یہ کہ تم اس کے سر پر سوار ہوجاؤ۔ ان کی اس اخلاقی حالت کا سبب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ امیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔ “ اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی ۔ یہاں آکر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا اخلاقی نقطہ نظر کیا ہے ۔ یہ کہاں سے اٹھتا ہے اور یہ کہ اس کا تعلق کس طرح اللہ خوفی کے ساتھ ہوتا ہے۔ بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (٧٦)إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا أُولَئِكَ لا خلاق لَهُمْ فِي الآخِرَةِ وَلا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ” جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا ۔ وہ اللہ کا محبوب بنے گا ۔ کیونکہ پرہیز گار لوگ اللہ کو پسند ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو اپنے عہد اور قسموں کو تھوڑی قیمت دے کر بیچ ڈالتے ہیں تو ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔ اللہ قیامت کے روز ان سے بات کرے گا ‘ اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا ۔ بلکہ ان کے لئے تو سخت دردناک سزا ہے۔ “ یہ سبق آگے بڑھتا ہے اور اب اس میں اہل کتاب کی ایک کج روی کو منظر عام پر لایا جاتا ہے ۔ اور بتایا جاتا ہے کہ وہ دین کے معاملے میں جھوٹ تک بولنے میں کس قدر بیباک ہیں۔ اور یہ کام وہ دنیاوی مفادات اور نہایت ہی کم قیمت مفادات کے لئے کرتے ہیں ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ” اور ان میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو کہ ‘ جو کچھ وہ پڑ رھے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہے ۔ حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی ۔ وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں ‘ یہ خدا کی طرف سے ہے حالانکہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہوتا۔ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ “ اور منجملہ اور امور کے ‘ جو وہ اپنی چالاکی سے کتاب میں داخل کرتے تھے ‘ ایک یہ بات تھی کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) الٰہ ہیں اور یہ کہ روح القدس بھی الٰہ ہیں۔ چناچہ یہاں اللہ تعالیٰ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نہ کوئی ایسی آیت لے کر آئے ہیں اور نہ ہی انہوں نے ان لوگوں کو ایسے عقائد رکھنے کا کوئی حکم دیا ہے۔ مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ (٧٩) وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (٨٠) ” کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کی بجائے تم میرے بندے بن جاؤ ‘ وہ تو یہی کہے گا کہہ سچے ربانی ہوجاؤ۔ جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے ہو اور پڑھاتے ہو ۔ وہ تم سے ہرگز نہ کہے گا کہ فرشتوں کو اپنا رب بنالو ‘ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمہیں کفر کا حکم دے جبکہ تم مسلم ہو۔ “ اور اس مضمون کی مناسبت یہاں مسلسل دنیا میں بھیجے جانے والے انبیاء کے باہمی تعلق اور تعاون کے سلسلے میں لیے جانے والے اقرار کو بھی بیان کردیا جاتا ہے کہ ان میں سے ہر سابق نبی یہ میراث آنے والے کے سپرد کرے گا اور اس کی مدد کرے گا۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ (٨١) ” اور یاد کرو ‘ اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ ” آج ہم نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے ‘ کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے ‘ جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے ۔ تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنا ہوگی۔ “ یہ ارشاد فرماکر اللہ نے پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو “ انہوں نے کہا ہاں ‘ ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا ! اچھا تو گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔ “ یہی وجہ ہے اہل کتاب پر یہ بات فرض ہوجاتی ہے کہ وہ نبی آخرالزمان پر ایمان لائیں اور اس کی امداد کریں ۔ لیکن ان کا وطیرہ تو یہ ہے کہ وہ اپنے نہ ان وعدوں کی پابندی کرتے ہیں جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کئے اور نہ ان معاہدوں کی جو انہوں نے سابقہ رسولوں کے ساتھ کئے ۔ ان مقدمات کا فطری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے دین یعنی دین اسلام کے سوا کوئی اور دین اپنے لئے تلاش کرتا ہے ۔ تو گویا وہ پوری کائنات کے نظام قدرت سے بغاوت کرتا ہے جیسا کہ اللہ نے اس کا ارادہ کیا ہے ۔ أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ ” کیا یہ لوگ اللہ کے دین کا طریقہ چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں ؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار وناچار اللہ ہی کے تابع ہیں (مسلم ہیں ) اور اس کی طرف سب کو پلٹنا ہے ۔ “ پس وہ لوگ جو اسلام سے خارج ہوتے ہیں ‘ ان کا معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے ۔ اسی طرح وہ لوگ جو اسلامی نظام کی مکمل اطاعت نہیں کرتے ‘ ان کا معاملہ بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس قدر نافرمان ہیں اللہ کے اس تکوینی نظام سے بھی خارج ہیں۔ یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کو اللہ وحدہ کے دین پر ثابت قدمی کا اعلان کردیں اور دین ان ہدایات کے اندر ہے جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی جانب سے لے کر آئے اور آپ سے قبل دوسرے رسول لے کر آئے اور اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ وہ انسانوں کی جانب سے صرف اسی دین کو قبول کرے گا۔ وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ……………” اور جو شخص بھی اسلام کے سوا کسی اور دین کی پیروی کرے گا تو یہ اس کی جانب سے قبول نہ کی جائے گی اور آخرت میں وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔ “ اب جو لوگ اس دین پر ایمان نہیں لاتے تو ان کے لئے ہدایت پانے کی کوئی امید نہیں ہے اور نہ ان کے لئے اللہ کی پکڑ سے بچنے کی کوئی امید ہے ۔ الا یہ کہ وہ توبہ کریں ۔ رہے وہ لوگ جو کفر کی حالت میں اس دنیا سے چلے جائیں تو انہیں وہ تمام مال و دولت کچھ فائدہ نہ دے گی جو انہوں نے بھلائی کی راہ میں خرچ کی ۔ اور اگر وہ اپنے اس کفر کا اس کرہ ارض کو بھر کر سونا ادا کریں تو بھی یہ فدیہ قبول نہ ہوگا۔ اللہ کی راہ میں خرچ اور قربانی کے اس مقام پر اہل اسلام کو آمادہ کیا جاتا ہے کہ اپنے مال و دولت سے اللہ کی راہ میں وہ چیزیں خرچ کریں جو انہیں پسند ہیں ۔ لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّاتُحِبُّونَ وَمَاتُنفِقُوامِن شَیئٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیمٌ……………” تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم اپنی وہ چیز خرچ نہ کرو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو ۔ اور جو کچھ تم خرچ کروگے اللہ اس سے بیخبر نہ ہوگا۔ “ غرض اس مختصر حصے میں ‘ اس قدر عظیم حقائق اور بیشمار ہدایات جمع کردی گئی ہیں ۔ اور یہ اس عظیم معرکہ میں ایک مختصر جملہ ہے جو اس پوری سورت میں برپا ہے ۔ اور اس کے فریق امت مسلمہ اور اس کے دشمنان ہیں۔ اور یہ معرکہ صدیوں سے یونہی برپا ہے ۔ آج بھی امت معرکہ میں اسباب اور وسائل بالکل مختلف استعمال ہورہے ہیں ‘ لیکن لائن آج بھی وہی ہے لیکن آج یہ معرکہ طویل خطوط پر ہے۔ محمد بن اسحاق ‘ محمد سعید بن جبیر ‘ یا عکرمہ اور حضرت ابن عباس (رض) کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا نجران کے نصاریٰ اور یہودیوں کے احبار رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جمع ہوئے اور فرمایا آپ سے مباحثہ شروع کردیا ‘ احبار نے کہا ابراہیم یہودی تھا ‘ نصاریٰ نے کہا وہ نصرانی تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ……………” اہل کتاب ! تم ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو ۔ “ چاہے ان آیات کا شان نزول یہ ہو یا نہ ہو ‘ بہرحال آیات بظاہر اس بات پر شاہد ہیں کہ وہ اہل کتاب کے بےبنیاد دعوؤں کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان کا یہ تنازعہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں وہ آپس میں جھگڑتے تھے اور ان کے جھگڑے کے پس منظر میں یہ نظریہ کارفرما تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ ان کی اولاد میں نبوت رہے گی تو اس طرح وہ یہ فضیلت اور ہدایت اپنے نام الاٹ کرانا چاہتے تھے ۔ یہ تھا ان اصل مقصد ‘ دوسرے یہ کہ وہ اس طرح رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دعویٰ کی تکذیب کرنا چاہتے تھے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت دین حنیف کے پیروکار ہیں اور حنفیت اولیٰ کے وارث ہیں ۔ نیز اس طرح وہ مسلمانوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرنا چاہتے تھے ۔ یا کم ازکم بعض اہل اسلام میں وہ شک ڈالنا چاہتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ ان کی سخت ترین الفاظ میں تردید فرماتے ہیں اور ان کی خوس فہمی کو طشت ازبام کرتے ہیں ‘ جو کسی علمی دلیل پر مبنی نہیں ہے ۔ اس لئے کہ ابراہیم (علیہ السلام) تورات سے بھی پہلے گزرے ہیں اور انجیل سے بھی پہلے گزرے ہیں ۔ پس کس طرح ممکن ہے کہ وہ یہودی ہوں یا نصرانی ہوں ‘ لہٰذا یہ دعویٰ مکمل طور پر خلاف عقل ہے ۔ صرف پیغمبروں کی تاریخ پر اچٹتی نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کا دعویٰ باطل ہے۔ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالإنْجِيلُ إِلا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلا تَعْقِلُونَ ” اہل کتاب تم ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں ہم سے کیوں جھگڑتے ہو ؟ تورات اور انجیل تو ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئی ہیں ۔ پھر کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

91 پانچ شکوے : پہلے عقلی اور نقلی دلائل سے توحید کا اثبات فرمایا اور ساتھ ساتھ عیسائیوں کے شبہات متعلقہ توحید کا ازالہ کیا۔ اب یہاں سے اہل کتاب یہود ونصاریٰ پر پانچ شکوے بیان فرمائے ہیں۔ پہلا شکوہ یہودونصاریٰ آپس میں جھگڑتے تھے اور ہر فریق دعویٰ کرتا تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے دین پر تھے۔ نیز یہود ونصاریٰ یہ پر اپیگنڈا بھی کرتے تھے کہ ہمارا دین سچا ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہمارے دین پر تھے اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ لوگ دین اسلام سے متنفر ہوجائیں۔ جب مسئلہ توحید دلائل سے واضح ہوگیا اور اہل کتاب کو اس کے نہ ماننے پر مباہلہ کا چیلنج بھی دیدیا گیا تو اب انہوں نے اسلام کے خلاف یہ پر اپیگنڈا شروع کردیا کہ ان کا دین ابراہیمی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا آگاہ فرمادیا کہ وہ ان کے غلط پروپیگنڈے سے ہوشیار رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کے دعوے کی تردید کی ہے اور اہل کتاب سے فرمایا کہ جن کتابوں کو تم اپنی مزعومہ یہودیت اور نصرانیت کی بنیاد قرار دیتے ہو وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے سینکڑوں برس بعد نازل کی گئیں اس لیے یہ نہایت ہی بےعقلی کی بات ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی یا نصرانی تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ اے اہل کتاب تم ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کیوں جھگڑا کرتے ہو کہ وہ یہودیت مسلک رکھتے تھے یا نصرانیت حالانکہ توریت اور انجیل نہیں نازل ہوئی مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد تو کیا تم پھر اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔ یعنی کیسے بیوقوف اور کم عقلی ہو کہ توریت جو یہودیت کا مخزن ہے اور انجیل جو نصرانیت کا سر چشمہ ہے جب یہ دونوں کتابیں ان کے زمانہ میں موجود ہی نہ تھیں بلکہ ان کی وفات کے بعد نازل ہوئیں ہیں تو ان کی یہودیت اور نصرانیت کا سوال ہی کیسے پیدا ہوسکتا ہے۔ اسی لئے فرمایا افلا تعقلون تو کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہود و نصاریٰ کا جھگڑا یہ تھا کہ ہر کوئی کہتا تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) ہمارے دین پر تھا۔ ( موضح القرآن) اب آگے اہل کتاب کو ایک اور تنبیہ کرنے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مسلک ظاہر فرماتے ہیں ۔ ( تسہیل)