Disputing with the Jews and Christians About the Religion of Ibrahim
Allah censures the Jews and Christians for their dispute with Muslims over Ibrahim Al-Khalil and the claim each group made that he was one of them.
Muhammad bin Ishaq bin Yasar reported that Ibn Abbas said,
"The Christians of Najran and Jewish rabbis gathered before the Messenger of Allah and disputed in front of him. The rabbis said, `Ibrahim was certainly Jewish.' The Christians said, `Certainly, Ibrahim was Christian.'
So Allah sent down,
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَأجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ
...
O people of the Scripture (Jews and Christians)! Why do you dispute about Ibrahim,
meaning, `How is it that you, Jews, claim that Ibrahim was Jew, although he lived before Allah sent down the Tawrah to Musa!
How is it that you, Christians, claim that Ibrahim was Christian, although Christianity came after his time"
...
وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالانجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ
...
while the Tawrah and the Injil were not revealed till after him!
This is why Allah said,
...
أَفَلَ تَعْقِلُونَ
Have you then no sense!
Allah then said,
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق یہودی اور نصرانی دعوے کی تردید
یہودی حضرت ابراہیم کو اپنے میں سے اور نصرانی بھی حضرت ابراہیم کو اپنے میں سے کہتے تھے اور آپس میں اس پر بحث مباحثے کرتے رہتے تھے اللہ تعالیٰ ان آیتوں میں دونوں کے دعوے کی تردید کرتا ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نجران کے نصرانیوں کے پاس یہودیوں کے علماء آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کا جھگڑا شروع ہو گیا ، ہر فریق اس بات کا مدعی تھا کہ حضرت خلیل اللہ ہم میں سے تھے اس پر یہ آیت اتری کہ اے یہودیو تم خلیل اللہ کو اپنے میں سے کیسے بتاتے ہو؟ حالانکہ ان کے زمانے میں نہ موسیٰ تھے نہ توراۃ ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور کتاب تورات شریف تو خلیل اللہ علیہ السلام کے بعد آئے ، اسی طرح اے نصرانیو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نصرانی کیسے کہہ سکتے ہو؟ حالانکہ نصرانیت تو ان کے صدیوں بعد ظہور میں آئی کیا تم اتنی موٹی بات کے سمجھنے کی عقل بھی نہیں رکھتے؟ پھر ان دونوں فرقوں کی اس بےعلمی کے جھگڑے پر رب دو عالم انہیں ملامت کرتا ہے اگر تم بحث و مباحثہ دینی امور میں جو تمہارے پاس ہیں کرتے تو بھی خیر ایک بات تھی تم تو اس بارے میں گفتگو کرتے ہو جس کا دونوں کو مطلق علم ہی نہیں ، تمہیں چاہئے کہ جس چیز کا علم نہ ہو اسے اس علیم اللہ کے حوالے کرو جو ہر چیز کی حقیقت کو جانتا ہے اور چھپی کھلی تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے ، اسی لئے فرمایا اللہ جانتا ہے اور تم محض بےخبر ہو ۔ دراصل اللہ کے خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی تھے وہ شرک سے بیزار مشرکوں سے الگ صحیح اور کامل ایمان کے مالک تھے اور ہرگز مشرک نہ تھے ، یہ آیت اس آیت کی مثل ہے جو سورۃ بقرہ میں گذر چکی آیت ( وَقَالُوْا كُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا ) 2 ۔ البقرۃ:135 ) یعنی یہ لوگ کہتے ہیں یہودی یا نصرانی بننے میں ہدایت ہے ۔ پھر فرمایا کہ سب سے زیادہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تابعداری کے حقدار ان کے دین پر ان کے زمانے میں چلنے والے تھے اور اب یہ نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے ساتھ کے ایمانداروں کی جماعت جو مہاجرین و انصار ہیں اور پھر جو بھی ان کی پیروی کرتے رہیں قیامت تک ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی کے ولی دوست نبیوں میں سے ہوتے ہیں میرے ولی دوست انبیاء میں سے میرے باپ اور اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام الصلوٰۃ والسلام ہیں ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ( ترمذی وغیرہ ) پھر فرمایا جو بھی اللہ کے رسول پر ایمان رکھے وہی ان کا ولی اللہ ہے ۔