Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 8

سورة آل عمران

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ ﴿۸﴾

[Who say], "Our Lord, let not our hearts deviate after You have guided us and grant us from Yourself mercy. Indeed, You are the Bestower.

اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما ، یقیناً تو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا ... Our Lord! Let not our hearts deviate (from the truth) after You have guided us. meaning, "Do not deviate our hearts from the guidance after You allowed them to acquire it. Do not make us like those who have wickedness in their hearts, those who follow the Mutashabih in the Qur'an. Rather, make us remain firmly on Your strai... ght path and true religion." ... وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ ... And grant us from Ladunka, meaning, from You, ... رَحْمَةً ... Mercy, with which You make our hearts firm, and increase in our Faith and certainty, ... إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ Truly, You are the Bestower. Ibn Abi Hatim and Ibn Jarir recorded that Umm Salamah said that the Prophet used to supplicate, يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِك O You Who changes the hearts, make my heart firm on Your religion.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] علم میں پختہ کار لوگوں کا شیوہ صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ متشابہات کی تاویل کے پیچھے نہیں پڑتے۔ بلکہ اللہ سے یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ جو فتنہ انگیز لوگ متشابہات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ان کی فکر ہمارے فکر پر کہیں اثر انداز نہ ہوجائے اور اپنی رحمت خاص سے ہمیں ایسے فتنہ پرور لوگوں کے افکار و عقائد سے بچ... ائے رکھ اور صحیح عقل و فکر عطا فرما۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہ وہ دعا ہے جو راسخ فی العلم حضرات اللہ تعالیٰ کے حضور کرتے رہتے ہیں، ہدایت پر ثابت قدمی کی دعا کے ساتھ قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش ہونے کا یقین بھی ہر وقت ان کے پیش نگاہ رہتا ہے، ان کی اصل کوشش اور دعا دنیا کے لیے نہیں بلکہ آخرت کے لیے ہوتی ہے۔ ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علی... ہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے : ( یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ! ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ )” اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔ “ [ ترمذی، الدعوات، باب دعاء یا مقلب القلوب ! ۔۔ : ٣٥٢٢، وصححہ الألبانی ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence The previous verse mentioned &those well-grounded in knowledge& who, in spite of their excellent knowledge, were not proud of their ex¬cellence. Instead of that, they elected to have faith in what comes from their Lord. The present verse mentions yet another excellence of theirs - that they pray for steadfastness on the right path, not for any world¬ly gains, but for salvation in ... the life-to-come. Commentary The first verse (8) shows us that guidance and straying are from Allah alone. When Allah intends to guide someone, He makes his heart tilt towards what is good and right; and when He decides to let someone go astray, He turns his heart away from the straight path. This is just as it was said in a hadith of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) There is no heart which is not there in between the two of Allah&s fin¬gers - He makes it firm on the truth as long as He wills, and turns it away from the truth when He wills. He is Allah, absolute in power. He does what He wills. Therefore, those who are concerned about how to remain firm in their faith, they go to the source - requesting and praying Allah for steadfastness. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) always used to pray for it as it appears in a hadith: یامقلب القلوب ثبت قلوبنا علی دینک ( O reverser of hearts, make our hearts firm on the faith chosen by You). (Mazhari)   Show more

ربط آیات پچھلی آیت میں حق پرستوں کے ایک کمال کا ذکر تھا کہ وہ باوجود علمی کمال رکھنے کے اس پر مغرور نہیں تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا کرتے تھے، اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ ان کے دوسرے کمال کو بیان فرما رہے ہیں۔ خلاصہ تفسیر اے ہمارے پروردگار ہمارے دلوں کو کج نہ کیجئے بعد اس کے کہ آپ ہم ک... و ( حق کی طرف) ہدایت کرچکے ہیں اور ہم کو اپنے پاس سے رحمت ( خاصہ) عطا فرمایئے ( وہ رحمت یہ ہے کہ راہ مستقیم پر قائم رہیں) بلاشبہ آپ بڑے عطا فرمانے والے ہیں، اے ہمارے پروردگار ( ہم یہ دعا کجی سے بچنے کی اور حق پر قائم رہنے کی کسی دنیاوی غرض سے نہیں مانگتے بلکہ محض آخرت کی نجات کے واسطے، کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ) آپ بلاشبہ تمام آدمیوں کو ( میدان حشر میں) جمع کرنے والے ہیں اس دن میں جس ( کے آنے) میں ذرا شک نہیں ( یعنی قیامت کے دن میں اور شک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے آنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اور) بلاشبہ اللہ تعالیٰ خلاف نہیں کرتے وعدہ کو ( اس لئے قیامت کا آنا ضرور ہے اور اس واسطے ہم کو اس کی فکر ہے) معارف و مسائل پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت اور ضلالت اللہ ہی کی جانب سے ہے اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دینا چاہتے ہیں اس کے دل کو نیکی کی جانب مائل کردیتے ہیں اور جس کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں اس کے دل کو سیدھے راستہ سے پھیر لیتے ہیں۔ چناچہ ایک حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ کوئی دل ایسا نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان نہ ہو، وہ جب تک چاہتے ہیں اس کو حق پر قائم رکھتے ہیں، اور جب چاہتے ہیں اس کو حق سے پھیر دیتے ہیں۔ وہ قادر مطلق ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اس لئے جن لوگوں کو دین پر قائم رہنے کی فکر ہوتی ہے وہ ہمیشہ اپنے اللہ سے استقامت کی دعا مانگتے ہیں، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ استقامت کی دعا مانگا کرتے تھے چناچہ ایک حدیث میں ہے یا مقلب القلوب ثبت قلوبنا علی دینک یعنی اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم رکھ۔ ( مظہری، ج ٢)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَۃً۝ ٠ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۝ ٨ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من ... هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ وهب الهِبَةُ : أن تجعل ملكك لغیرک بغیر عوض . يقال : وَهَبْتُهُ هِبَةً ومَوْهِبَةً ومَوْهِباً. قال تعالی: وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] ، إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ( و ہ ب ) وھبتہ ( ف ) ھبۃ وموھبۃ ومو ھبا بلا عوض کوئی چیز دے دینا یا کچھ دینا قرآن میں ہے : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ [ الأنعام/ 84] اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب ) بخشے ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْماعِيلَ وَإِسْحاقَ [إبراهيم/ 39] خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑی عمر اسماعیل اور اسحاق بخشے ۔ إِنَّما أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا یعنی فر شتہ ہوں اور اسلئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں ۔ لدن لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل . قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] ( ل دن ) لدن ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔ وَهَّابِ بمعنی: أنه يعطي كلًّا علی استحقاقه،  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨۔ ٩) اہل ایمان یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہدایت حق عطا کردینے کے بعد ہمارے دلوں کو حق سے دور نہ کیجیے اور اسلام پر ہمیں ثابت قدم رکھیے اور ہم سے پہلے مسلمانوں کو یا یہ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ نبوت اور دین اسلام عطا فرمانے والے ہیں اور یہ وہ یہ بھی کہتے ہیں اے ہمارے پرو... ردگار آپ مرنے کے بعد تمام انسانوں کو بلاشبہ ایسے دن جمع کرنے والے ہیں، جس کے واقع ہونے میں ذرا بھی شک نہیں۔ مرنے کے بعد زندہ ہونا، حساب، پل صراط، جنت، دوزخ، اور میزان عمل ان میں بلاشبہ کوئی وعدہ خلافی نہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا) (وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً ج) ( اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ ) ہمیں جو بھی ملے گا تیری ہی بارگاہ سے ملے گا۔ تو ہی فیاض حقیقی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:8) لاتزغ دیکھو ۔ زیغ آیۃ مندرجہ بالا (3:7) فعل نہی۔ واحد مذکر حاضر۔ تو کج نہ کر۔ تو نہ پھیر۔ ھب واحد مذکر حاضر۔ امر ۔ وھب ۔ ھبۃ مصدر باب فتح۔ تو عطا کر ۔ تو بخشش کر۔ وھاب۔ مبالغہ کا صیغہ ہے بہت عطا کرنے والا۔ بہت زیادہ بخشش کرنے والا۔ اس سے قبل ان اور ک اور انت کو لا کر اللہ تعالیٰ کی صفت واہب... ہ میں سخت تاکید پیدا کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہوگا : یقینا وہاب تو تو ہی ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یہ وہ دعا ہے جو علم میں راسخ حضرت اللہ کے حضور کرتے رہتے ہیں۔ حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک اے اللہ میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ ) ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن جریر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ حق پرستوں کا دسرا کامل مذکور ہے کہ باوجود وصول الی الحق کے اس پر نازل نہیں، بلکہ حق تعالیٰ سے استقامت علی الحق کی دعا کرتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حقیقت جاننے کے باوجود ٹیڑھا پن اور کج روی اختیار کرنا عقل مندی نہیں۔ عقل مندی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی طلب اور کج روی سے دوری اختیار کی جائے۔ اس سے پہلے قرآن فہمی کے بارے میں کج بحث، فتنہ جو اور گمراہ لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد علم میں یدطولیٰ رکھنے والے علماء کی مثبت...  سوچ، عاجزی اور اعتراف حقیقت کے اظہار کا ذکر ہوا ہے۔ ایسے علماء کی یہ بھی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنی بصیرت پر ناز ‘ موقف پر فخر اور علم پر اترانے کے بجائے اپنے رب سے آرزوئیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت عطا کرنے کے بعد ہمارے دلوں کو کجی اور گمراہی سے بچائے رکھنا کیونکہ کتنے ہی علم والے ہیں جن کا علم ان کی گمراہی کا سبب اور ان کی تحقیق ان کے لیے حجاب بن گئی اور وہ گمراہی کے سرغنہ ثابت ہوئے۔ اللہ ! ہماری تیرے حضور یہ فریاد ہے کہ ہمیں ہمیشہ اپنی رحمت سے نوازتے رہنا یقیناتوہی عطا کرنے والا ہے۔ اے ہمارے رب ! یہاں تو لوگ حق پر اکٹھے نہیں ہوئے لیکن قیامت کے دن لوگوں کو تو اکٹھا کرنے والا ہے جس کے قائم ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔ الٰہی ! اس دن بھی ہمیں اپنی رحمتوں سے ہمکنار اور اپنی عطاؤں سے سرفراز فرمانا، بیشک تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُوْلَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اٰمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِءْتَ بِہٖ فَھَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ماجاء أن القلوب ...] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر دعا کرتے۔ اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے۔ کیا آپ ہمارے بارے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ انہیں جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ “  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں ان کا اپنے رب کے ساتھ یہ تعلق ہے ‘ اور یہ ایسا تعلق ہے جو ایک صحیح مومن کا ہونا چاہئے ‘ جو اللہ کے کلام اور اللہ کے عہد پر پورا بھروسہ ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے ۔ وہ اللہ کے فضل و رحمت کے صحیح شعور کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے ‘ خصوصاً اس وقت جب ایک مومن اللہ کی قضا وقد... ر پر پختہ یقین بھی رکھتا ہو اور اللہ کا خوف بھی اس کے دل میں موجزن ہو۔ اور ایک مومن نہ غافل ہوتا ہے ‘ نہ مغرور ہوتا ہے ‘ نہ اپنے روز وشب میں کبھی اپنے فرائض بھولتا ہے۔ قلب مومن کی ضلالت اور گمراہی کے بعد دولت ایمان ملنے کی بڑی قدر دانی ہوتی ہے ۔ اور کسی دھندلے تصور کے بعد اپنی آنکھوں سے حقیقت کو دیکھ لینے کی اس کے دل میں بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ اور حیرانی و پریشانی کے کے بعد راہ راست پانے سے اسے شعور ہوتا ہے ۔ خلجان اور بےیقینی کے بعد اطمینان پانے پر وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے ‘ وہ دنیا کی تمام غلامیوں سے آزاد ہوکر ایک اللہ کی غلامی میں داخل ہوکر پر مسرت ہوتا ہے اور اسے یہ شعور ہوتا ہے کہ دولت ایمان دیکر اللہ تعالیٰ نے اسے بہت کچھ دیدیاہے……………اس لئے وہ دوبارہ گمراہی کی راہ سے بہت ہی ڈرتا ہے ‘ چونکہ وہ راہ راست پر آچکا ہوتا ہے اس لئے دوبارہ گمراہی کے نشیب و فراز اور تاریک راہوں میں پھنس جانے سے بہت خوف کھاتا ہے ‘ وہ یوں ڈرتا ہے جس طرح وہ شخص جو ایک خوش گوار موسم میں گھنی چھاؤں میں بیٹھا ہو تو جھلسادینے والی گرمی اور بےآب وگیاہ صحرا کے تصور سے بھی ڈر رہا ہو ‘ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی قدر اور ذوق یقین وہی شخص پاسکتا ہے جس نے بدبختی کے کڑے دن اور الحاد وزندگی کی ذہنی خشکی کے دن دیکھے ہوں ۔ ایسا ہی شخص اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہے کہ بےدینی گمراہی اور فسق وفجور کی زندگی کے مقابلے میں ایمانی زندگی کے اندر کس قدر مٹھاس ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے مقامات پر ایک مومن ایسے خضوع وخشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا……………” اے ہمارے رب ! راہ ہدایت دکھانے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کردیجیو۔ “ یہ پکارتے ہیں کہ انہیں گمراہی کے بعد ایک عظیم رحمت مل گئی ہے ۔ کہیں وہ لٹ نہ جائے ‘ یہ ایک ایسا انعام ہے جس سے بڑا کوئی انعام نہیں ہے ۔ وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ……………” ہمیں اپنے خزانہ غیب سے رحمت عطاکر تو ہی فیاض حقیقی ہے۔ “ یعنی یہ لوگ اپنے شعور ایمان کے ذریعہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے فضل و رحمت کے سوا کچھ نہیں کرسکتے ۔ خود ان کے دل بھی ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں ۔ اس لئے وہ اپنی ہدایت اور نجات اخروی کے لئے بھی اللہ کے سامنے دست بدعا ہوتے ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر اوقات یہ دعا فرمایا کرتے تھے ۔” تمام دل اللہ رحمان کی دوانگلیوں کی گرفت میں ہیں ‘ جب وہ دلوں کو سیدھا کرنا چاہے تو سیدھا کردیتا ہے۔ اور جب وہ ٹیڑھا کرنا چاہے تو وہ ٹیڑھا کردیتا ہے۔ “ اور جب ایک مومن کو صحیح طرح اس بات کا شعور حاصل ہوتا ہے تو وہ نہایت گرم جوشی کے ساتھ آستانہ درگاہ الٰہی کے ساتھ چمٹ جاتا ہے ‘ اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کی معاونت اور توفیق کا طلب گار ہوجاتا ہے اور اس کی طرف متوجہ ہوکر اس کی رحمت اور اس کے فضل وکرم کا طلبگار ہوتا ہے تاکہ وہ خزانہ محفوظ رہے ‘ جو اس نے اس مومن کو عطا کیا ہے اور وہ کرم باقی رہے جن سے اسے نوازا گیا ہے۔ اس کے بعد روئے سخن اہل کفر کی طرف مڑجاتا ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ ان کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ ان کے بارے میں وہ سنت الٰہی کیا ہے۔ جس میں کوئی تبدیلی کبھی واقعہ نہیں ہوتی ۔ معنی یہ کہ ان کے گناہوں پر ان سے ضرور مواخذہ ہوگا ۔ اہل کتاب میں سے جو لوگ ‘ اس دین کا انکار کرتے ہیں اور اس کی راہ روکے کھڑے ہوتے ہیں انہیں یہ دہمکی کی جاتی ہے کہ وہ باز آجائیں ‘ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ سے انہیں متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کفار مکہ کے انجام بد سے عبرت حاصل کریں ‘ جوان کی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوا ‘ جن میں ایک قلت قلیلہ کے مقابلے میں ان کے بھاری لشکر کو شکست ہوئی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

راسخین فی العلم کی دعاء ان دونوں آیتوں میں ان لوگوں کی دعا نقل فرمائی ہے جنہیں رسوخ فی العلم حاصل ہے۔ وہ یوں دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! آپ نے ہم کو ہدایت عطا فرمائی ہے۔ ہم کو ہدایت پر ہی رکھئے ہمارے دلوں میں کجی اور ٹیڑھا پن پیدا نہ فرمائیے۔ جو لوگ دلوں کی کجی کی وجہ سے متشابہات کے پیچھے پڑتے ہی... ں ہمیں ان میں سے نہ کیجیے اور اپنے پاس سے ہمیں بڑی رحمت عطا فرمائیے۔ یہ رحمت عامہ ہمیں دنیا میں بھی شامل ہو۔ اور آخرت میں بھی شامل ہو۔ ہمارا ایمان محکمات پر بھی رہے اور متشابہات پر بھی رہے۔ درحقیقت یہ دعا بہت اہم ہے اور یہ دعا برابر کرتے رہنا چاہیے۔ بہت سے لوگوں نے ہدایت اختیار کرنے کے بعد گمراہی اختیار کرلی فتنہ گروں کے اتباع میں لگ گئے اور فتنہ میں پڑگئے اور ایمان کھو بیٹھے اور ہدایت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ بنی آدم کے دل سب کے سب رحمان کے قبضہ میں ہیں وہ جیسے چاہے پھیر دے۔ پھر آپ نے یہ دعا کی : ” اَللّٰھُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ “ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ : ٢٠) (اے اللہ ! دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری پر لگائے رکھ) راسخین فی العلم کی دوسری دعا یہ نقل فرمائی کہ اے ہمارے رب ! آپ سب لوگوں کو ایسے دن میں جمع فرمائیں گے جس میں کوئی شک نہیں ہے آپ نے اس کا وعدہ فرمایا ہے جو سچا وعدہ ہے قیامت کا دن ضرور آئے گا اور تمام لوگ اس میں ضرور جمع ہوں گے۔ اس دعا میں اپنی حاجت اصلیہ کا اظہار کردیا جو دن واقعی حاجت مندی کا ہے اس دن کی خیر طلب کی۔ کما قال صاحب الروح صفحہ ٩١: ج ٣ و مقصود ھم من ھذا کما قال غیر واحد۔ عرض کمال افتقارھم الی الرحمۃ و أنھا المقصد الأسنی عندھم، والتاکید لاظھار ما ھم علیہ من کمال الطمانینۃ و قوۃ الیقین باحوال الاٰخرۃ لمزید الرغبۃ فی استنزال طائر الاجابۃ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11 یہ راسخین فی العلم کی دعا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم متشابہات پر ایمان لائے اور ان کے صحیح علم کو تیرے حوالے کیا اور ظن وتخمین سے ان پر رائے زنی سے اجتناب کیا اے اللہ ہمیں ہدایت کی اسی راہ پر قائم رکھنا اور ہمارے دلوں کو باطل کی طرف مائل نہ کرنا اور اپنی رحمت سے دستگیری ف... رمانا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi