Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 86

سورة آل عمران

کَیۡفَ یَہۡدِی اللّٰہُ قَوۡمًا کَفَرُوۡا بَعۡدَ اِیۡمَانِہِمۡ وَ شَہِدُوۡۤا اَنَّ الرَّسُوۡلَ حَقٌّ وَّ جَآءَہُمُ الۡبَیِّنٰتُ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۸۶﴾

How shall Allah guide a people who disbelieved after their belief and had witnessed that the Messenger is true and clear signs had come to them? And Allah does not guide the wrongdoing people.

اللہ تعالٰی ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان لانے اور رسول کی حقّانیت کی گواہی دینے اور اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد کافر ہو جائیں اللہ تعالٰی ایسے بے انصاف لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah Does Not Guide People Who Disbelieve After they Believed, Unless They Repent Ibn Jarir recorded that Ibn Abbas said, "A man from the Ansar embraced Islam, but later reverted and joined the polytheists. He later on became sorry and sent his people to, `Ask the Messenger of Allah for me, if I can repent.' Then, كَيْفَ يَهْدِي اللّهُ قَوْمًا كَفَرُواْ بَعْدَ إِيمَانِهِمْ (How shall Allah guide a people who disbelieved after their belief) until, فَإِنَّ الله غَفُورٌ رَّحِيمٌ (Verily, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful), (3:86-89) was revealed and his people sent word to him and he re-embraced Islam." This is the wording recorded by An-Nasa'i, Al-Hakim and Ibn Hibban. Al-Hakim said, "Its chain is Sahih and they did not record it." Allah's statement, كَيْفَ يَهْدِي اللّهُ قَوْمًا كَفَرُواْ بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُواْ أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءهُمُ الْبَيِّنَاتُ ... How shall Allah guide a people who disbelieved after their belief and after they bore witness that the Messenger is true and after clear proofs came to them! means, the proofs and evidences were established, testifying to the truth of what the Messenger was sent with. The truth was thus explained to them, but they reverted to the darkness of polytheism. Therefore, how can such people deserve guidance after they willingly leapt into utter blindness! This is why Allah said, ... وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ And Allah guides not the people who are wrongdoers. He then said, أُوْلَـيِكَ جَزَاوُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللّهِ وَالْمَليِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ

توبہ اور قبولیت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ایک انصار مرتد ہو کر مشرکین میں جا ملا پھر پچھتانے لگا اور اپنی قوم سے کہلوایا کہ رسول اللہ صلعم سے دریافت کرو کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ ان کے دریافت کرنے پر یہ آیتیں اتریں اس کی قوم نے اسے کہلوا بھیجا وہ پھر توبہ کر کے نئے سرے سے مسلمان ہو کر حاضر ہو گیا ( ابن جریر ) نسائی حاکم اور ابن حبان میں بھی یہ روایت موجود ہے امام حاکم اسے صحیح الاسناد کہتے ہیں ، مسند عبدالرزاق میں ہے کہ حارث بن سوید نے اسلام قبول کیا پھر قوم میں مل گیا اور اسلام سے پھر گیا اس کے بارے میں یہ آیتیں اتریں اس کی قوم کے ایک شخص نے یہ آیتیں اسے پڑھ کر سنائیں تو اس نے کہا جہاں تک میرا خیال ہے اللہ کی قسم تو سچا ہے اور اللہ کے نبی تو تجھ سے بہت ہی زیادہ سچے ہیں اور اللہ تعالیٰ سب سچوں سے زیادہ سچا ہے پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آئے اسلام لائے اور بہت اچھی طرح اسلام کو نبھایا بینات سے مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق پر حجتوں اور دلیلوں کا بالکل واضح ہو جانا ہے پس جو لوگ ایمان لائے رسول کی حقانیت مان چکے دلیلیں دیکھ چکے پھر شرک کے اندھیروں میں جا چھپے یہ لوگ مستحق ہدایت نہیں کیونکہ آنکھوں کے ہوتے ہوئے اندھے پن کو انہوں نے پسند کیا اللہ تعالیٰ ناانصاف لوگوں میں رہبری نہیں کرتا ، انہیں اللہ لعنت کرتا ہے اور اس کی مخلوق بھی ہمیشہ لعنت کرتی ہے نہ تو کسی وقت ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی نہ موقوفی ۔ پھر اپنا لطف و احسان رافت و رحمت کا بیان فرماتا ہے کہ اس بدترین جرم کے بعد بھی جو میری طرف جھکے اور اپنے بداعمال کی اصلاح کر لے میں بھی اس سے درگذر کر لیتا ہوں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧٥۔ ١] اہل کتاب کا اندھاتعصب :۔ اس آیت کے مخاطب ہٹ دھرم اور متعصب قسم کے اہل کتاب ہیں۔ خواہ وہ یہودی ہوں یا نصاریٰ ، یہ دونوں فریق آنے والے نبی کے منتظر تھے۔ کیونکہ نبی آخرالزمان کی بشارت تورات میں بھی موجود تھی اور انجیل میں بھی۔ لیکن جب وہ رسول مبعوث ہوگیا تو ان لوگوں نے اس پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ وجہ یہ تھی کہ یہود یہ سمجھتے تھے کہ وہ ہمارے مذہب کی تائید کرے گا۔ اور عیسائی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ یہود کے مقابلہ میں ان کا ساتھ دے گا۔ لیکن جب ان کی یہ تمنا بر نہ آئی تو انہوں نے انکار کردیا۔ پھر انہی یہود و نصاریٰ میں کچھ ایسے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے جنہوں نے برملا شہادت دی کہ یہ وہی رسول ہے جس کی شہادت ہماری کتابوں میں موجود ہے اور وہ ایمان بھی لے آئے۔ متعصب لوگوں پر اس کا بھی کچھ اثر نہ ہوا۔ پھر نبی آخر الزمان میں انہوں نے کئی ایسی نشانیاں بھی دیکھیں جو ان کی تسلی کے لیے بہت کافی تھیں۔ ان نشانیوں میں کچھ تو وہ تاریخی قسم کے سوالات تھے جو علمائے اہل کتاب یہ سمجھتے تھے کہ ان کے جوابات ان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر جب انہوں نے امتحان کے طور پر آپ سے وہ سوالات پوچھے تو آپ نے ان کے کافی و شافی جواب دے دیئے اور یہ بات وحی الٰہی کے علاوہ ممکن نہ تھی۔ علاوہ ازیں قرآن نے کچھ پیشین گوئیاں کی تھیں جو ان کی آنکھوں کے سامنے یا خود ان پر پوری ہو رہی تھیں۔ پھر بھی یہ لوگ اپنے تعصب کی بنا پر ایمان لانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ وضاحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کو زبردستی کبھی ہدایت نہیں دیا کرتا۔ اس طرح کی زبردستی اس کے دستور کے خلاف ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعنی جو لوگ حق کے پوری طرح واضح ہوجانے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا نبی ہونے کے روشن دلائل دیکھنے کے باوجود محض کبر و حسد اور مال و جاہ کی محبت کی بنا پر کفر کی روش پر قائم رہے، یا ایک مرتبہ اسلام قبول کرلینے کے بعد پھر مرتد ہوگئے تو وہ سراسر ظالم و بدبخت ہیں، ایسے لوگوں کو راہ ہدایت دکھانا اللہ تعالیٰ کا قانون نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مرتد شخص کافر سے زیادہ مجرم ہے۔ ( ابن کثیر، شوکانی) حسن بصری (رض) نے ایک اور آیت کے ساتھ اس کی بہترین تفسیر فرمائی کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں، وہ اپنی کتابوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موجود پاتے تھے، ان کی آمد پر ان کے ذریعے سے فتح کی دعائیں کیا کرتے تھے (گویا آپ پر ایمان رکھتے تھے) جب آپ تشریف لائے تو انھوں نے آپ کے ساتھ کفر اختیار کیا، جیسا کہ ارشاد فرمایا : (وَكَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ښ فَلَمَّا جَاۗءَھُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ ۡ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ) [ البقرۃ : ٨٩ ] ” حالانکہ وہ اس سے پہلے ان لوگوں پر فتح طلب کیا کرتے تھے جنھوں نے کفر کیا، پھر جب ان کے پاس وہ چیز آگئی جسے انھوں نے پہچان لیا تو انھوں نے اس کے ساتھ کفر کیا، پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہے۔ “ (طبری بسند حسن )

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The removal of a doubt: On a superficial view of the verse كَيْفَ يَهْدِي اللَّـهُ : &How shall Allah give guidance...& (86), there emerges a doubt that whoever turns an apostate receives no guidance afterwards, although, the fact is contrary to this. There are many who, after having become apostates, re-embrace the faith and become recipients of guidance. The answer is that the withholding of guidance mentioned here is in accordance with common usage. For instance, some criminal when punished by a certain ruler may say, &I have been given a special treat¬ment by the ruler with his own hands.& And in answer to him, it is said: &Why are we going to give a special treatment to such a criminal?& That is, there is just no special treatment called for in this case, while it does not mean that such a person cannot, in any way, become deserving of special treatment even if he behaved well. (Bayern a1-Qur&an)

خلاصہ تفسیر : (اول ان مرتدین کا بیان ہے جو کفر پر قائم رہ کر اس کو ہدایت سمجھتے رہے، چونکہ ان کا اعتقاد یا دعوی یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اب ہدایت فرمائی، لہذا ان کی مذمت میں اس کی نفی بھی فرماتے ہیں کہ بھلا) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت کریں گے جو کافر ہوگئے بعد ایمان لانے کے (دل سے) اور بعد اپنے اس اقرار کے (زبان سے) کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوی رسالت میں) سچے ہیں، اور بعد اس کے کہ ان کو واضح دلیل (حقانیت اسلام کے) پہنچ چکے تھے، اور اللہ تعالیٰ ایسے بےڈھنگے لوگوں کو ہدایت نہیں کیا کرتے (یہ مطلب نہیں کہ ایسوں کو کبھی توفیق اسلام کی نہیں دیتے، بلکہ مقصود ان کے اسی دعوی مذکورہ بالا کی نفی کرنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ ہم نے جو اسلام چھوڑ کر یہ طریق اختیار کیا ہے ہم کو خدا نے ہدایت دی ہے۔ خلاصہ نفی کا یہ ہوا کہ جو شخص کفر کا بےڈھنگا راستہ اختیار کرے وہ ہدایت خداوندی پر نہیں، اس لئے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھ کو خدا نے ہدایت دی ہے، کیونکہ ہدایت کا یہ راستہ نہیں ہے، بلکہ ایسے لوگ یقینا گمراہ ہیں اور) ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی بھی لعنت ہوتی ہے اور فرشتوں کی بھی اور (بہتیرے) آدمیوں کی بھی (غرض) سب کی (اور پھر وہ لعنت بھی ایسے طور پر رہے گی کہ) وہ ہمیشہ ہمیشہ کو اسی (لعنت) میں رہیں گے ( اور چونکہ اس لعنت کا اثر جہنم ہے تو حاصل یہ ہوا کہ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور) ان پر سے عذاب ہلکا بھی نہ ہونا پاوے گا اور نہ (داخل ہونے سے قبل) ان کو (کسی میعاد تک) مہلت ہی دی جاوے گی ( آگے ان کا بیان ہے جو پھر مسلمان ہوگئے ان کو اس حکم سے مستثنی فرماتے ہیں یعنی) ہاں مگر جو لوگ توبہ کرلیں اس (کفر) کے بعد (یعنی مسلمان ہوجاویں) اور اپنے (دل) کو (بھی) سنواریں (یعنی منافقانہ طور پر صرف زبان سے توبہ کافی نہیں) سو بیشک (ایسوں کے لئے) اللہ تعالیٰ بخش دینے والے رحمت کرنے والے ہیں، بیشک جو لوگ کافر ہوئے اپنے ایمان لانے کے بعد پھر بڑہتے رہے کفر میں (یعنی کفر پر دوام رکھا ایمان نہیں لائے) ان کی توبہ (جو کہ اور گناہوں سے کرتے ہیں) ہرگز مقبول نہ ہوگی (کیونکہ توب عن المعاصی ایک اطاعت فرعیہ ہے، اور اطاعت فرعیہ کے مقبول ہونے کی شرط ایمان ہے) اور ایسے لوگ (اس توبہ کے بعد بھی بدستور) پکے گمراہ ہیں۔ بیشک جو لوگ کافر ہوئے اور وہ مر بھی گئے حالت کفر ہی میں، سو ان میں سے کسی کا (بطور کفارہ) زمین بھر سونا بھی نہ لیا جائے گا، اگرچہ وہ معاوضہ میں اس کو دینا بھی چاہے (اور بےدیئے تو کون پوچھتا ہے) ان لوگوں کو سزائے دردناک ہوگی اور ان کے حامی (مددگار) بھی نہ ہوں گے۔ معارف و مسائل : ایک شبہ کا ازالہ : کیف یھدی اللہ الخ۔ اس آیت سے بظاہر یہ شبہ ہوتا ہے کہ کسی کو مرتد ہونے کے بعد ہدایت نصیب نہیں ہوتی، حالانکہ واقعہ اس کے خلاف ہے، کیونکہ بہت سے لوگ مرتد ہونے کے بعد ایمان قبول کر کے ہدایت یافتہ بن جاتے ہیں۔ جواب یہ ہے کہ یہاں جو ہدایت کی نفی کی گئی ہے اس کی مثال ہمارے محاورات میں ایسی ہے جیسے کسی بدمعاش کو کوئی حاکم اپنے ہاتھ سے سزا دے اور وہ کہے کہ مجھ کو حاکم نے اپنے ہاتھ سے خصوصیت عنایت فرمائی ہے، اور اس کے جواب میں کہا جائے کہ ایسے بدمعاش کو ہم خصوصیت کیوں دینے لگے، یعنی یہ امر خصوصیت ہی نہیں، اور یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ایسا شخص کسی طرح قابل خصوصیت نہیں ہوسکتا اگرچہ شائستہ بن جاوے۔ (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَيْفَ يَہْدِي اللہُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِہِمْ وَشَہِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ٨٦ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٦) اور اللہ تعالیٰ اپنے دین کی ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت فرمائیں گے جو اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے بعد کافر ہوئے باوجود یہ کہ ان کو حقانیت اسلام کے واضح دلائل پہنچ چکے تھے اور اللہ تعالیٰ ایسے مشرکوں کو جو اس چیز کے اہل نہ ہوں ہدایت نہیں کیا کرتے۔ شنان نزول : (آیت) ” کیف یہدی اللہ قوما “۔ (لخ) حضرت امام نسائی (رح) حاکم (رح) اور ابن حبان (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ انصار میں سے ایک شخص نے اسلام قبول کیا پھر وہ مرتد ہوگیا، اس کے بعد اس کو اپنے فعل پر شرمندگی ہوئی تو اس نے اپنی قوم کے پاس قاصد بھیجا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم کرو کہ میرے لیے کچھ توبہ کا امکان ہے اس پر کیف یھد اللہ “۔ سے اخیر تک یہ آیات نازل ہوئیں، چناچہ اس کی قوم نے اس کو اس چیز سے مطلع کردیا اور وہ مشرف بااسلام ہوگیا اور عبدالرزاق نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ حارث بن سوید، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آیا اس کے بعد وہ مرتدہو کر پھر اپنی قوم سے جا کر مل گیا تو اسکے بارے میں قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں تو اس کی قوم میں سے ایک شخص نے ان آیات کو یاد کرکے اس کو جاکر سنایا تو حارث سن کر بولے اللہ کی قسم یقیناً تو سچا ہے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجھ سے زیادہ سچے ہیں اور اللہ تعالیٰ تم سے زیادہ سچا ہے چناچہ اس نے کفر سے توبہ کی اور مشرف بااسلام ہوگئے اور پھر ان کا اسلام بھی بہت اچھا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٦ (کَیْفَ یَہْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ ) یعنی ان کے دل ایمان لے آئے تھے ‘ ان پر حقیقت منکشف ہوگئی تھی ‘ لیکن دنیوی مصلحتیں آڑے آگئیں اور زبان سے انکار کردیا۔ جیسے سورة النمل میں ہم پڑھیں گے : (وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ط) (آیت ١٤) انہوں نے ظلم اور تکبر کے مارے ان معجزات کا انکار کیا حالانکہ ان کے دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔ (وَشَہِدُوْآ اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ) اہل کتاب جب آپس میں باتیں کرتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ واقعتا نبی آخر الزمان ہیں جو ہماری کتابوں میں بیان کردہ پیشینگوئیوں کا مصداق ہیں۔ چناچہ روایات میں آتا ہے کہ علقمہ کے دو بیٹے ابوحارثہ اور کرز جب نجران سے مدینہ منورہ چلے آ رہے تھے تو راستے میں کرز کے گھوڑے کو کہیں ٹھوکر لگی تو اس نے کہا : تَعِسَ الْاَبْعَدُ (ہلاک ہوجائے وہ دور والا یعنی جس کی طرف ہم جا رہے ہیں) ۔ اس کا اشارہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف تھا۔ اس پر اس کے بڑے بھائی ابوحارثہ نے کہا بَلْ تَعِسَتْ اُمُّکَ (بلکہ تیری ماں ہلاک ہوجائے ! ) اس نے کہا میرے بھائی ! تمہیں میری بات اس قدر بری کیوں لگی ؟ ابوحارثہ نے کہا : اللہ کی قسم ! یقیناً وہ وہی نبی امی ہیں جس کے ہم منتظر تھے۔ کرز نے کہا : جب آپ یہ سب جانتے ہیں تو ان پر ایمان کیوں نہیں لے آتے ؟ ابوحارثہ کہنے لگا : ان بادشاہوں نے ہمیں بڑا مقام و مرتبہ عطا کر رکھا ہے ‘ اگر ہم ایمان لے آئے تو وہ ہم سے یہ سب کچھ چھین لیں گے۔ یہ لوگ سلطنت روما کے تحت تھے اور انہیں مصر کی حکومت کی طرف سے بڑی مراعات حاصل تھیں ‘ انہیں مال و دولت اور عزت و وجاہت حاصل تھی۔ ابھی یہ لوگ محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے تو یہ حال تھا ‘ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کئی روز گزارنے کے بعد مباہلہ سے راہ فرار اختیار کر کے واپس جاتے ہوئے انہیں کس قدر یقین حاصل ہوگیا ہوگا کہ یہی وہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جن کے وہ منتظر تھے۔ ان کے دل گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول برحق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73. This is a repetition of the statement made earlier, namely that the Jewish rabbis of Arabia in the time of the Prophet (peace be on him) knew, and sometimes even testified to verbally, that Muhammad was a true Prophet and that his teachings were the same as those of the earlier Prophets. (See for instance Qur'an 2: 89 - Ed.) Their subsequent attitude - namely that of rejection and opposition - was the outcome of prejudice and intransigence, born out of their centuries-old hostility to the Truth.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :73 یہاں پھر اسی بات کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے قبل بارہا بیان کی جا چکی ہے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عرب کے یہودی علماء جان چکے تھے اور ان کی زبانوں تک سے اس امر کی شہادت ادا ہو چکی تھی کہ آپ نبی برحق ہیں اور جو تعلیم آپ لائے ہیں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء لا تے رہے ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا وہ محض تعصب ، ضد اور دشمنی حق کی اس پرانی عادت کا نتیجہ تھا جس کے وہ صدیوں سے مجرم چلے آرہے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(86 ۔ 91) ۔ نسائی اور صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جس کو حاکم نے صحیح کہا ہے۔ حاصل اس روایت کا یہ ہے کہ حارث بن سوید انصاری اور طعمہ بن ابریق وغیرہ سب بارہ شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگئے اور مدینہ سے مکہ کو چلے گئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا ٹکڑا ولا ھم ینظرون تک نازل فرمایا پھر حارث بن سوید کو اپنے مرتد ہونے پر بڑا افسوس ہوا تو انہوں نے انصار سے جو ان کی قوم کے مدینہ میں تھے یہ پیغام کہلا بھیجا کہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کریں کہ ہم لوگ کی توبہ قبول ہوسکتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے دوسرا ٹکڑا آیت کا الا الذین تابوا نازل فرمایا۔ اس پر حارث بن سوید پھر مدینہ میں آکر مسلمان ہوگئے اور ان کے ساتھ کے گیارہ آدمی فتح مکہ تک مرتد رہے فتح مکہ کے وقت چند شخص ان میں کے مسلمان ہوگئے اور چند حالت کفر میں مرگئے جن کا ذکر آیت کے آخر میں ان الذین کفروا سے اخیر پارہ تک ہے ١۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے دوسری روایت جو ہے کہ یہ آیت کا ٹکڑا اہل کتاب کی شان میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود کی شان میں بھی یہ آیت صادق آتی ہے ورنہ جو شان نزول حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے مسند بزاز میں ہے اس کی سند قوی ہے ٢۔ اور یہود پر مرتد ہوجانے کا مطلب اس طرح صادق آتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہونے سے پہلے یہود لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی برحق جانتے تھے اور آپ کا نام لے کر فتح کی دعا مانگتے تھے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہوئے تو مرتدوں کی طرح آپ سے پھرگئے۔ اس آیت کے معنی میں ایک شبہ یہ پڑتا ہے کہ الا الذین تابو اسے فان اللہ غفور الرحیم تک تو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی توبہ کے قبول فرمانے کا وعدہ کیا ہے اور پھر ان الذین کفروا بعد ایمانہم ثم اذدادوا کفر لن تقبل توبتہم واولئک ھم الضالون سے آخیر پارہ تک یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ مرتد ہوں اور زمانہ مرتدی میں خوب کفر میں سرشار رہیں تو ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی آیت کے دونوں ٹکڑوں کے ملانے سے مطلب اصلی آخر کو کیا نکلا۔ جواب اس شبہ کا یہ ہے کہ جس طرح ہر چیز کا اللہ کے یہاں وقت مقرر ہے اسی طرح توبہ کا بھی وقت مقرر ہے وہ وقت یہ ہے کہ مثلاً آدمی ایسی مجبوری اور اضطرار کی حالت میں شرک کفر یا کبیرہ گناہ سے توبہ کرے جیسے فرعون نے بالکل ڈوبتے وقت توبہ کی اور قبول نہیں ہوئی یا مغرب سے آفتاب نکلنے کے وقت سب لوگ توبہ کریں تو ایسی توبہ قبول نہ ہوگی۔ بلکہ وہ توبہ قبول ہوگی کہ ایسے وقت آدمی توبہ کرے کہ اپنی موت کا ابھی اس کو پورا یقین ہو کر اس کی حالت اضطرار کی نہ ہوئی ہو اپنی زیست کا اس کو بھروسا ہو اور اس زیست کے سوچے ہوئے زمانہ میں اس کا گناہ سے باز رہنے کا اور آئندہ نیک کا کرنے کا پورا پورا ارادہ ہو ورنہ اگر دم اکھڑ جانے کے بعد جب خراٹا لگ گیا اور موت کا پورا یقین ہوگیا اور موت کے سامنے آجانے سے ایک اضطرار کی حالت پیش آگئی تو اس وقت کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ چناچہ سورة نساء میں جو توبہ کے قبول ہونے کی آیت آئے گی اس میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ توبہ انہی لوگوں کی قبول ہوتی ہے کہ گناہ کرتے ہی جھٹ پٹ توبہ کرلیتے ہیں اور جو لوگ مرتے دم تک برائیاں کرتے ہیں اور جب موت بالکل سامنے آجاتی ہے تو توبہ کرتے ہیں ان کی توبہ توبہ نہیں ہے اور موت کے بالکل سامنے آجانے کی تفسیر حدیث شریف میں آئی ہے کہ وہ خراٹا لگ جانے کا وقت کہ دم اکھڑ کر سینہ میں آجاتا ہے اور کوئی چیز پینے کی منہ میں ڈالے تو دم خر خر کرتا ہے اور وہ چیز نگلی نہیں جاتی۔ چناچہ مسند امام احمد بن حنبل اور ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تک موت کا خراٹا نہ لگے اس وقت تک اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ قبول کرتا ہے ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ١۔ اب رہی یہ بات کہ کوئی مشرک بلا توبہ مرجائے تو اس کا اور مسلمان جو گناہ کبیرہ کر کے مرجائے اس کا ایک حکم ہے یا دونوں میں فرق ہے اس کی صراحت بقدر ضرورت یہ ہے کہ آیت ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشاء (٤۔ ١١٦/٤٨) اور آیت انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ (٥۔ ٢ ٧) صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو مشرک وقت مقرر پر توبہ نہ کرے اور بغیر توبہ کے مرجائے تو اس کی بخشش نہیں ہے اور مسلمان کبیرہ کا گناہ گار بغیر توبہ کے مرجائے تو اس کی بخشش اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھی ہے۔ حدیث میں ان دونوں آیتوں کی صراحت یوں آئی ہے کہ نامہ اعمال اللہ کی بار گاہ میں تین طرح کے ہیں ایک نامہ اعمال شرک کا ہے۔ اس نامہ اعمال والے شخص کی بخشش ہرگز نہیں ہے۔ ایک نامہ اعمال ان کبیرہ گناہوں کا ہے جو فقظ اللہ کا گناہ ہے جیسے نماز کا نہ پڑھنا یا روزہ کا نہ رکھنا۔ ان گناہوں کی توقع ہے کہ اللہ غفور رحیم ہے بخش دے گا۔ ایک نامہ اعمال ان کبیرہ گناہوں کا ہے جن گناہوں میں بندوں کا بھی حق ہے۔ جیسے کسی کا مال چرانا۔ یا کسی عورت سے بد فعلی کرنا اس کا بدلا اور انصاف ضرور ہوگا۔ یہ روایت عائشہ (رض) سے مسند امام احمد بن حنبل اور مستدرک حاکم میں آئی ہے۔ ١۔ اور شرح جامع صغیر میں اس کو صحیح کہا ہے۔ اور اس باب میں مثل حدیث حضرت عائشہ (رض) کے اور بھی صحیح حدیثیں ہیں اس کے بعد آیت کے جن دو ٹکڑوں میں شبہ پڑتا تھا ان دو ٹکڑوں کو ملا کر حاصل معنی یہ ہوئے کہ وقت مقرر پر مرتد اور گنہگار کی توبہ قبول ہے۔ اور مرتد یا گنہگار وقت مقرر ٹال کر موت کے بالکل سامنے آجانے تک حالت مرتدی یا گنہگاری میں سرشار رہے اور عین مرتے وقت توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول نہیں ہے۔ اور جس مسلمان گنہگار کی آخری وقت کی توبہ قبول نہیں ہے اس کی بخشش کی توقع ہے۔ مشرک کی بخشش کی توقع نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک مسلمان کو ہر ایک طرح کے شریک سے بچائے۔ آمین۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یہ مطلب نہیں کہ ایسوں کو کبھی توفیق اسلام کی نہیں دیتے بلکہ مقصود ان کے اسی دعوے مذکور کی نفی کرنا ہے وہ کہتے تھے کہ ہم نے جو اسلام چھوڑ کر یہ طریق اختیار کیا ہے تو ہم کو خدا نے ہدایت دی ہے خلاصہ نفی کا یہ ہوا کہ جو شخص کفر کا بےڈھنگا راستہ اختیار کرے وہ ہدایت خداوندی پر نہیں اس لیے وہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھ کو خدا نے ہدایت دی ہے کیونکہ کفر ہدایت کا راستہ نہیں بلکہ ایسے لوگ یقینا گمراہ ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انبیاء کے مشن اور نظام کائنات کے خلاف چلنے والے کفار کی دنیا میں سزا اور آخرت میں اس کا انجام۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ایمان کے بعد کفر اختیار کرنے والوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ کیونکہ تورات اور انجیل کے حوالے سے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے بارے میں قلبی طور پر مانتے ہیں کہ یہ حق ہے۔ اس فرمان کے مخاطب اہل کتاب ہوں یا مرتدین آپ کی رسالت کی حقیقت کے ٹھوس دلائل جاننے کے باوجود جو بھی تسلیم ورضا کارویّہ اختیار نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت عطا نہیں کیا کرتا۔ جو شخص اپنے آپ پر ظلم کرنے کے درپے ہوجائے اس کا ہاتھ پکڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ہر زبان میں محاورہ ہے کہ ” سوئے ہوئے کو تو جگایا جاسکتا ہے۔ لیکن جاگتے کو جگانامحال ہوتا ہے “ یہاں بھی ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کیا جارہا ہے کہ جنہوں نے آپ کی رسالت کو اس طرح پہچان لیا ہے جس طرح باپ اپنے بیٹے کو پہچان لیا کرتا ہے لیکن پھر بھی تعصب یا کسی مفاد کے چھن جانے کے خوف سے آپ پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے ظالموں کو ہدایت دینا تو درکنار ان پر اللہ تعالیٰ ‘ ملائکہ اور دنیا جہان کے انسان پھٹکار بھیجتے ہیں۔ ایسا پھٹکارا ہوا شخص ہدایت پائے تو کس طرح ؟ انہیں تو اس پھٹکار کی حالت میں ہمیشہ رہنا ہے اور یہ پھٹکار انہیں بالآخر جہنم میں لے جائے گی۔ جہاں ان پر نہ کبھی عذاب ہلکا ہوگا اور نہ وہ اس سے چھٹکارا پاسکیں گے۔ مسائل ١۔ جان بوجھ کر حق کا انکار کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ ٢۔ کفار پر اللہ تعالیٰ اور پوری مخلوق لعنت کرتی ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ خوفناک دہمکی دیکھ کر ‘ ہر وہ دل جس میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو وہ کانپ اٹھتا ہے اور جن کے دل میں دنیا وآخرت دونوں کے بارے میں ذمہ داری کا احساس ہو اور یہی مناسب سزا ہے اس شخص کی جسے نجات کا خوبصورت موقعہ ملے اور وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائے بلکہ اس سے اعراض برتے ۔ لیکن اس کفر واعراض کے باوجود اسلام تو بہ کے دروازے کھلے رکھتا ہے ۔ اسلام کسی گمراہ کے لئے واپسی کے دروازے بند نہیں کرتا ‘ لیکن اسے ہدایت کی طرف آنے پر مجبور بھی کر تاکہ وہ دروازہ ہدایت پر خود دستک دے ۔ بلکہ اسلام اس کے قریب ہوتا ہے اور اس کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہونے دیتا ۔ اور یہاں تک کہ وہ اس پرامن محفوظ مقام تک آجائے اور عمل صالح شروع کردے تاکہ معلوم ہو کہ اس نے توبہ صحیح طرح کرلی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مرتدوں اور کافروں کی سزا تفسیر درمنثور صفحہ ١٩: ج ٢ میں نقل کیا ہے کہ حارث بن سوید نے اسلام قبول کیا پھر کافر ہو کر اپنی قوم کی طرف چلا گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (کَیْفَ یَھْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا۔۔ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) تک نازل فرمائی۔ اس کی قوم میں سے ایک شخص اس کے پاس گیا اور اسے پوری آیت سنائی۔ آیت سن کر حارث بن سوید نے کہا میں جہاں تک جانتا ہوں تو سچا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجھ سے بڑھ کر سچے ہیں اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم دونوں سے بڑھ کر سچا ہے۔ اس کے بعد اس نے (دو بارہ) اسلام قبول کرلیا اور اچھی طرح اسلام کے کاموں میں لگا رہا۔ چونکہ آیت میں (اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا) بھی ہے اس لیے حارث بن سوید نے اس استثناء پر نظر کی اور اسلام قبول کرلیا اور سچی توبہ کرلی۔ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اسلام قبول کر کے اسلام سے پھر جائے پھر سچی توبہ کر کے اسلام میں داخل ہوجائے تو اس کی توبہ قبول ہے اور اس کا اسلام بھی قبول ہے۔ دوسری آیت میں فرمایا : (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِھِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا) (الآیۃ) اس کے بارے میں درمنثور میں حضرت حسن سے نقل کیا ہے کہ اس سے یہود اور نصاریٰ مراد ہیں جو موت کے وقت توبہ کرنے لگیں۔ موت کے وقت توبہ قبول نہیں ہے۔ جیسا کہ آیت (حَتّٰٓی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْءٰنَ وَ لَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَ ھُمْ کُفَّارٌ) ( سورة نساء ع ٣) کے ذیل میں بیان ہوگا۔ حضرت ابو العالیہ سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت یہود و نصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا اور پھر کفر میں آگے بڑھتے چلے گئے پھر اس کے بعد کفر پر باقی رہتے ہوئے گناہوں سے توبہ کرنے لگے۔ لہٰذا ان کی توبہ قبول نہ ہوگی کیونکہ کفر پر ہوتے ہوئے گناہوں کی توبہ مقبول نہیں اور حضرت مجاہد نے (ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْراً ) کی تفسیر میں فرمایا کہ وہ کفر پر مرگئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

124 یہاں قوم سے مراد اہل کتاب یہودونصاریٰ ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے تو ان کا آپ پر ایمان تھا اور وہ آپ کے بارے میں تورات کی بیان کردہ صفتیں اور پیشگوئیاں پڑھ کر سنایا کرتے تھے جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔ کانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا (بقرہ) انہوں نے اس بات کا کئی بار اقرار کیا اور اس کی شہادت دی اس کے علاوہ پیغمبر کی صداقت کے عقلی ونقلی دلائل بھی ان کے سامنے آگئے۔ ان تمام باتوں کے باوجود جب انہوں نے جان بوجھ کر عمداً ، قصدا ! انکار کیا اور باختیار خود کفر کو ترجیح دی تو بھلا اب ان کے ایمان لانے اور راہ راست پر آنے کی بھی کوئی توقع ہوسکتی ہے۔ کیونکہ جب یہودونصاریٰ نے دیکھا کہ جس پیغمبر کی پیشگوئی تورات وانجیل میں موجود ہے اور جس کے متعلق انہیں توقع تھی کہ وہ بنی اسرائیل میں پیدا ہوگا۔ وہ تو عرب کے قبیلہ بنی اسمعیل میں پیدا ہوگیا ہے تو بغض وحسد کیوجہ سے انکار کردیا۔ 125 جو لوگ اپنی جانوں پر اس طرح ظلم کریں کہ اللہ کی دی ہوئی عقل سے ذرا کام نہ لیں اور محض ضدوعناد اور بغض حسد کی بنا پر حق سے آنکھیں بند کرلیں اور اسے قبول کرنیکے بجائے اس کا انکار کردیں تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو دنیا میں یہ سزا دیتا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر جباریت لگا کر ان سے توفیق ہدایت ہی سلب کرلیتا ہے اور وہ کبھی راہ اسلام پر نہیں آسکتے۔ الظالمین الذین ظلموا انفسہم بالاخلال بالنظر (روح ج 3 ص 216) ای ماداموا مختارین الکفر (مدارک ج 1 ص 131) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت کی توفیق بخشے جو ایمان لانے کے بعد اور زبان سے اس بات کی شہادت دینے کے بعد کہ یہ رسول اپنے دعویٰ میں سچا ہے اور اس کے بعد کہ ان کو اسلام کی صداقت کے واضح دلائل پہنچ چکے ۔ ان تمام انعامات کے بعد پھر وہ لوگ کافر ہوگئے اور انہوں نے کفر اختیار کرلیا اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالم اور ستم شعار لوگوں کو ہدایت کی توفیق نہیں دیا کرتا ۔ ( تیسیر) آیت کا تعلق یا تو ان بارہ آدمیوں سے ہے جو مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور مدینہ سے مکہ چلے گئے تھے۔ جیسے حارث بن سوید اور طمعہ بن ابیرق اور حجوج بن اسلت وغیرہ اور یا اس آیت کا تعلق معصب اور معاند یہود و نصاریٰ سے ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے پہلی تقریر پر مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کس طرح سرپرستی فرمائے گا اور بھلا ان کو کس طرح ہدایت دے گا ۔ جنہوں نے دل سے ایمان قبول کیا اور زبان سے اس امر کا اقرار کیا کہ بیشک یہ رسول برحق ہے اور ان کو ہر قسم کے دلائل قرآنیہ سے بھی آگاہی ہوچکی ہے اور باوجود حضرت حق کی ان تمام مہربانیوں اور ہدایت نوازیوں کے پھر وہ کافر ہوگئے اور کفار سے جا ملے اور اللہ تعالیٰ ایسے ستم شعاروں کی رہنمائی نہیں فرمایا کرتا اور ایسے لوگوں کو فلاح و نجات کا راستہ نہیں دکھاتا ۔ دوسری تقریر پر مطلب اس طرح ہوگا ۔ بھلا اللہ تعالیٰ ایسے معاند اور سرکشوں کو ہدایت کی توفیق کس طرح دے گا جن کی حالت یہ ہے کہ آپس میں بیٹھ کر اپنی قلبی یقین کا اظہار کرتے ہیں اور زبان سے بھی کہتے ہیں کہ یہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس اسلام کی صداقت کے دلائل بھی آ چکے ہیں بلکہ یہ اس رسول کے آنے سے پہلے اس کا نام لے کر دشمنوں کے مقابلہ میں فتح کی دعائیں کیا کرتے تھے اس رسول کی بشارتوں سے ان لوگوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور باوجود آنکھوں سے دیکھنے اور دل سے سمجھنے اور زبان سے اقرار کرنے کے پھر کفر کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں تو ایسے ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کو فلاح دائمی اور نجات حقیقی کی ہدایت و رہنمائی کی کوئی ذمہ داری کس طرح کی جاسکتی ہے۔ غرض قلبی معرفت اور زبانی اقرار کے باوجود کفر پر اڑے رہنا یا اس سے بڑھ کر یہ کہ اسلام قبول کرلینے کے بعد مرتد ہوجانا یہ ایسے جرائم ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی توفیق ہدایت ان سے سلب ہوجاتی ہے اور یہ لوگ دائمی عذاب اور دائمی لعنت کے مستحق ہوجاتے ہیں ، چناچہ آگے اسی لعنت و عذاب کا ذکر فرماتے ہیں۔ ( تسہیل)