Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 94

سورة آل عمران

فَمَنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿؃۹۴﴾

And whoever invents about Allah untruth after that - then those are [truly] the wrongdoers.

اس کے بعد بھی جو لوگ اللہ تعالٰی پر جُھوٹ بُہتان باندھیں وہی ظالم ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then after that, whosoever shall invent a lie against Allah, then these it is that are the wrongdoers. in reference to those who lie about Allah and claim that He made the Sabbath and the Tawrah eternal. They are those who claim that Allah did not send another Prophet calling to Allah with the proofs and evidences, although evidence indicates that abrogation, as we have...  described, occurred before in the Tawrah. فَأُوْلَـيِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (then these it is that are the wrongdoers). Allah then said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَنِ افْتَرٰى عَلَي اللہِ الْكَذِبَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝ ٩٤ ۬ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إ... ِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) القری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:94) افتری۔ اس نے جھوٹ باندھا اس نے بہتان تراشا۔ افتراء (افتعال) ماضی واحد مذکر غائب فری حروف مادہ الفری (نصر) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں۔ اور افراء (افعال) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ہیں۔ افترائ۔ جھوٹ۔ دشمنی۔ افتری علیہ الکذب کسی پر تہمت لگانا۔ کسی پر ج... ھوٹ باندھنا۔ فمن ۔۔ الکذب۔ پس جو شخص اللہ پر جھوٹا بہتان تراشتا ہے۔ من بعد ذلک۔ اس وضاحت کے بعد جو آیۃ 93 میں کی گئی ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اوپر کی آیات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے اثبات کے اثبات میں دلائل پیش کیے اور اہل کتاب پر الزامات قائم کیے ہیں۔ اب یہاں سے انکے شہبات کا جواب ہے ج و آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر پیش کرتے تھے۔ (کبیر) جب قرآن نے بیان کیا کہ یہود کے ظلم وبغی کو جہ سے بہت سی چیزیں ... ان پر حرام کردی گئیں۔ (النسائ آیت 160 الا نعام آیت 146) اور نہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے عہد نبوت میں حلال تھیں تو یہود نے ان آیات کی تکذیب کی اور کہنے لگے کہ یہ چیزیں تو حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے وقت سے حرام چلی آتی ہیں اس پر یہ آیات نازل ہوئیں (شوکانی) بعض مفسرین نے ان آیات کل الطعام تا الظالمون کی شان نزول میں لکھا ہے کہ یہود تو رات میں نسخ کے قائل نہیں تھے اور حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی تکذیب بھی یہود نے اسی لیے کہ تھی کہ وہ تورات کے بعض محرکات کو حلال قرار دیتے ہیں اسی طرح انہوں نے قرآن کے ناسخ منسوخ پر بھی اعتراض کیا تو ان کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں کہ یہ نسخ تو خود تمہاری شریعت میں بھی موجود ہے جب تک تورات نازل نہیں ہوئی تھی تمام ماکولات تمہا رے لیے حلال کی تھیں بعض اونٹ کا گوشت اور دودھ شامل ہے پھر جب یعقوب ( علیہ السلام) عراق النسا کے مرض میں مبتلا ہوئے تو انہوں صحت یاب ہونے پر بطور نذر اونٹ کا گوشت حرام قرار دے لیا تھا ( اور تحریم حلا لکی یہ نذر ان کی شریعت میں روا تھی خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ایک واقعہ میں شہد پینے کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیا تھا گو یہ نذر نہ تھی مگر قرآن نے اس قسم کی نذر اور تحریم حلال سے منع فرمادیاے اور کفارہ مقرر کردیا سورالتحریم پھر جب تورات نازہوئیہ تو اس میں اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام قرار دے دیا گیا۔ (ابن کثیر۔ الکشاف بعض نے لکھا ہے کہ یہود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے سلسلہ میں اعتراض بھی کرتے ر تھے کہ یہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا مدعی بتاتا ہے اور اونٹ کا گوشت کھاتا ہے حالا ن کہ یہ گوشت ملت ابراہیمی میں حرام ہے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ نزول تورات سے قبل تو یہ سب چیزیں حلال کی تھیں پھر ملت ابراہیمی میں یہ کیسے حرام ہوسکتی ہیں اگر اپنے دعوی میں سچے ہو تو تورات میں دکھاو ورنہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اس قسم کی افرا بردازی سے باز رہو (ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا کسی وجہ سے اونٹ کا گوشت کھانا چھوڑنے کو یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اونٹ کا گوشت حرام کیا تھا سراسر جھوٹ ہے جس کی تردید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تورات میں اونٹ کا گوشت یا دودھ حرام نہیں کیا۔ تورات کے حوالے سے اسے حرام قرار دینا تمہارا اللہ تعال... یٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ظالم لوگ ہی جھوٹ باندھا کرتے ہیں۔ اے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ فرما دیں کہ یہودیو ! تمہاری بات غلط اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد سچا ہے۔ لہٰذا ملت ابراہیم کی اتباع کرو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہر طرف سے کٹ کر اللہ ہی کے ہوچکے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرکوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہی ملت ابراہیم ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو اپنے لیے حلال اور اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو اپنے لیے حرام سمجھے۔ اور بلاشرکت غیرے اور کسی کی پروا کیے بغیر اللہ تعالیٰ کا حکم مانتا رہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا ظالم ہے۔ ٢۔ سب کو ملّتِ ابراہیم کی اتّباع کرنے کا حکم ہے۔ تفسیر بالقرآن ملّتِ ابراہیم کی اتباع : ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملّت ابراہیم کی اتّباع کا حکم۔ (النحل : ١٢٣) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی امت محمدیہ کے لیے نمونہ ہے۔ (الممتحنۃ : ٦) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) مشرک نہ تھے۔ (آل عمران : ٩٥) ٤۔ ابراہیم (علیہ السلام) یکسو اور پکّے مسلمان تھے۔ (آل عمران : ٦٧) ٥۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حقیقی مسلمانوں کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے خاص تعلق ہے۔ (آل عمران : ٦٨) ٦۔ یہود و نصاریٰ کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کوئی تعلق نہیں۔ (آل عمران : ٦٧) ٧۔ تورات اور انجیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئیں۔ (آل عمران : ٦٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اہل کتاب کے اعتراضات میں سے ایک اعتراض تحویل قبلہ پر بھی تھا ‘ یہ اعتراض بھی وہ بار بار دہراتے تھے ۔ یہ اعتراض اس لئے پیدا ہوا تھا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت فرمائی تو مدینہ طیبہ میں آپ سولہ ‘ سترہ یا اٹھارہ مہینوں تک نماز بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھتے رہے تھے ۔ باوجود اس کے کہ اس ... سے پہلے ‘ سورة بقرہ میں ‘ اس موضوع پر تفصیلی بحث کی گئی تھی ‘ اور یہ بتایا گیا تھا کہ خانہ کعبہ دراصل حقیقی اور اصلی قبلہ تھا ‘ اور بیت المقدس کو عارضی طور پر ‘ بعض مصلحتوں کے تحت ‘ قبلہ قراردیا گیا تھا ‘ جس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اپنی جگہ کردی تھی ‘ لیکن اس اظہار حقیقت کے باوجود یہودی باربار اسی اعتراض کو دہراتے رہتے تھے ۔ یہ کام وہ اس لئے کرتے تھے کہ اہل ایمان کے دلوں میں فکری انتشار اور تشکیک پیدا کی جائے اور ایک واضح حقیقت کے اندر التباس پیدا کیا جائے ۔ یہ کام آج ہمارے دور میں بھی ‘ اسلامی نظریہ حیات کے ہر موضوع کے بارے میں دشمنان دین کی جانب سے بڑے منظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ از سر نو ان کے شبہات اور تلبیسات کی تردید فرماتے ہیں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

134 اللہ تعالیٰ کے اس واضح بیان سے یہودیوں کے جھوٹ اور کذب وافترا کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ اب اگر اس کے بعد بھی وہ غلط بیانی سے باز نہ آئیں اور بدستور اکابر انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابوں پر افترا کرتے اور بہتان تراشتے رہیں تو یہ بہت بڑے ظالم ہیں کیونکہ وہ حق واضح ہوجانے کے بعد بھی اپنی شرارتوں ... سے باز نہیں آئے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ جملہ اشیاء خوردنی جو مابہ النزاع ہیں یہ سب نزول تورات سے قبل ہی بنی اسرائیل پر حلال تھیں ۔ بجزان چند چیزوں کے جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خود اپنی ذات پر حرام کرلی تھیں یعنی اونٹ کے گوشت اور اونٹ کے دودہ کے علاوہ باقی جو چیزیں کھانے پینے کی عام طور سے حلال ہیں وہ سب بنی اسرائیل پر بھی نزول ت... ورات سے قبل حلال تھیں ۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے یہ مطلب کیجئے کہ تورا ت لائو اور اس کو لا کر پڑھو اگر تم سچے اور راست باز ہوتا کہ ہمارا تمہارا جھگڑا صاف ہوجائے پھر اگر اب کوئی اس صحیح مطالبے اور حقیقی الزام قائم ہوجانے کے بعد بھی اللہ عتالیٰ پر جھوٹ بات کی تہمت لگائے اور جھوٹی افترا پر دای کرے تو ایسے لوگ ظالم اور بڑے بےانصاف ہیں۔ ( تیسیر) یہود کے ظلم اور عدوان کی وجہ سے حضرت حق تعالیٰ نے جو بعض حلال چیزیں ان پر حرام فرمائی تھیں جب قرآن کریم نے ان کی حرمت اور حرمت کے سبب کا انکشاف کیا تو یہ لوگ بڑے ناراض ہوئے اور انہوں نے کہنا شروع کیا یہ ہم پر غلط الزام ہے کیونکہ یہ چیزیں تو حضرت ابراہیم بلکہ حضرت نوح کے زمانے سے حرام چلی آتی ہیں بلکہ تم مسلمان لوگ جو اپنے کو ملت ابراہیم کا پیرو بتاتے ہو تو ملت ابراہیم کے پیرو نہیں ہو بلکہ اس کی ملت کے صحیح پیرو ہیں اور اس کے زمانے میں جو چیزیں حرام تھیں ہم ان کو حرام سمجھتے ہیں اور تم ان چیزوں کو حلال سمجھ کر کھاتے ہو، لہٰذا تم ملت ابراہیمی کے پیرو نہیں ہو ۔ اس جھگڑے کا اس آیت میں جواب دیا گیا ہے یہاں جن پر چیزوں کی حلت و حرمت مابہ النزاع ہے وہ وہی ہیں جو آٹھویں پارے میں مذکور ہیں ، یعنی ناخن والے جانور اور جانوروں کی چربی کا بعض حصہ وغیرہ۔ آیت میں جو جواب دیا گیا اور یہود پر جو حجت قائم کی گئی اس کا خلاصہ یہ ہے۔ 1۔ جو چیزیں ہمارے تمہارے درمیان مابہ النزاع ہیں مثلاً بعض جانور اور جانوروں کی چربی کا بعض حصہ وغیرہ تم کہتے ہو یہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کے زمانے سے حرام چلی آتی ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ یہ چیزیں تورات سے قبل کسی زمانے میں بھی بنی اسرائیل پر حرام نہیں تھیں البتہ تورات جب نازل ہوئی اس وقت یہ چیزیں بنی اسرائیل کی سرکشی اور ظلم کی وجہ سے حرام ہوئیں ۔ مطلب یہ کہ یہاں ان ہی چیزوں کی حلت و حرمت کا فیصلہ ہے جن میں یہود اور اہل اسلام کے درمیان گفتگو ہو رہی ہے۔ کل الطعام سے مراد یہ ہے کہ وہ طیبات اور حلال چیزیں جو عام طور سے کھائی جاتی ہیں یعنی مطوعات اور طببات اور وہ چیزیں مراد نہیں جو حرام ہیں ، مثلاً سور کا گوشت ، خون ، مردار جانور وغیرہ اسی لئے ہم نے تیسیر میں اشیائے خوردنی ان کا ترجمہ کیا ہے۔ 2۔ البتہ اشیائے خوردنی میں سے جو دو یا ایک چیز بنی اسرائیل پر قبل از نزول تورات حرام تھیں وہ اونٹ کا گوشت تھا یا گوشت اور دودہ دونوں تھے ۔ اوسان کی حرمت کی ایک خاص وجہ تھی اور وہ وجہ کوئی سرکشی یا ظلم نہ تھا بلکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کسی خاص تکلیف وہ مرض میں مبتلا ہوگئے تھے وہ عرق النساء ہو یا اور اسی قسم کا کوئی مرض ہو ان کو اطباء نے مشورہ دیا کہ آپ اونٹ کا گوشت اور دودھ استعمال نہ کیا کریں انہوں نے ان دونوں چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور ان کی وجہ سے ان کی اولاد نے بھی اس کا استعمال ترک کردیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خود ہی یہ منت مانی ہو کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے مرض سے شفا دے گا تو میں اپنی محبوب غذا یعنی اونٹ کا گوشت کھانا چھوڑ دوں گا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو مرض سے شفا دے دی تو انہوں نے اپنی منت اور نذر کی بنا پر اونٹ کا گوشت کھانا اپنے اوپر حرام کرلیا اور اس حرمت کا سلسلہ حضرت یعقوب کی اولاد میں بھی جاری رہا ۔ 3۔ غالباً ان کی شریعت میں ایسا کرنا روا ہوگا کہ کسی حلال چیز کو نذر کے طور پر حرام کرلیا جائے۔ بہر حال انہوں نے جو اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام کرلیا تھا وہ حرمت انکی اولاد میں جاری رہی ۔ ان کی اولاد میں یہ حرمت خواہ حکم الٰہی سے جاری رہی جیسا کہ بعض نے کہا ہے خواہ محض حضرت یعقوب کی اتباع میں اولاد نے ایسا کیا ہو، اگرچہ یہ طریقہ شریعت محمدیہ میں روا نہیں ہے بلکہ یہاں کسی حلال کو حرام کرنا یمین ہے اور اس یمین کو توڑ کر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ 4۔ بس حضرت یعقوب کی ان حرا م کردہ دو چیزوں کے علاوہ اور کوئی چیز تورات کے نازل ہونے کے وقت تک حرام نہ تھی اور چونکہ اس عرصہ میں بنی اسرائیل کی سرکشی اور ظلم حد سے بڑھ چکا تھا اس لئے ان کو سزا دینے کی غرض سے بعض حلال چیزیں ان پر حرام کردی گئیں ۔ یہ چیزیں نہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت ہیں حرام تھیں اور نہ حضرت نوح کے زمانے میں حرام ہوئیں اور نہ ہم جو ملت ابراہیمی کے پیرو ہیں ان چیزوں کو اب حرام سمجھتے ہیں۔ 5۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اس قسم کا نسخ کہ کوئی حلال حرام ہوجائے اور کوئی حرام حلال کردیا جائے پہلی شرائع میں بھی ہوتا رہا ہے اگر اس شریعت محمدیہ نے بھی پہلی شریعت کو کوئی بات منسوخ کردی تو کون سے تعجب کی بات ہے۔ 6۔ پھر حکم دیا گیا کہ ان سے تورات منگا کر پڑھو اور ان سے کہو تم اگر سچے ہو تو تورات لا کر پڑھوتا کہ صحیح حقیقت ظاہر ہوجائے اور سچ جھوٹ سے نمایاں ہوجائے لیکن یہود تورات لانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ 7۔ پھر آخر میں فرمایا اب اگر اس مطالبے کے بعد اور اس کھلے الزام کے بعد جو تورات نہ لانے کی وجہ سے ان پر آگیا پھر بھی بدبخت یہی کہے جائے کہ یہ چیزیں ملت ابراہیمی میں حرام تھیں اور یہ بدبخت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بات کی تہمت لگائے جائے تو بس ایسے ہی بدبخت تو ظالم اور ناانصاف ہیں۔ 8۔ آیت کے ترجمہ میں لوگوں کو بہت الجھائو ہونا ہے اس لئے ہم کو اس قدر وضاحت کی ضرورت پیش آئی اور اب ہم کو توقع ہے کہ انشاء اللہ کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا اور نہ کوئی شبہ پیش آئے گا اور ربط آیات کے سلسلے میں بھی ایک اور بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ اوپر کی آیت میں محبوب چیز کے ترک کرنے کا ذکر تھا اور اس آیت میں ایک پیغمبر کی محبوب چیز کے ترک کا ذکر ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہود کہتے ہیں کہ تم کہتے ہو ہم ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں اور ابراہیم کے گھرانے میں جو چیزیں حرام تھیں سو کھاتے ہو جیسے اونٹ کا گوشت اور دودھ اللہ نے فرمایا کہ جتنی چیزیں اب لوگ کھاتے ہیں سب ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت حلال تھیں ۔ جب تک تورات نازل ہوئی تورات میں خاص بنی اسرائیل پر حرام ہوئی ہیں مگر ایک اونٹ حضرت یعقوب نے اس کے کھانے سے قسم کھائی تھی ان کی طبیعت سے ان کی اولاد نے بھی چھوڑ دیا تھا اس قسم کا سبب یہ تھا کہ ان کو ایک مرض ہوا تھا انہوں نے نذر کی ، اگر میں صحت پائوں تو جو میرب بہت عادت کی چیز ہو وہ چھوڑ دوں ان کو یہ بہت بھاتا تھا سونذر کے سبب چھوڑ دیا ۔ ( موضح القرآن) جب یہودکا دعویٰ باطل ہوگیا اور تورات لا کر نہ پڑھنے سے معلوم ہوا کہ وہ جھوٹے تھے اور مسلمان جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حق ہے اور وہی ملت ابراہیمی ہے اس لئے آگے ملت ابراہیمی اور اس ملت کی بعض چیزوں کا ذکر فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more