Surat ur Room

The Romans

Surah: 30

Verses: 60

Ruku: 6

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الرُّوْم نام : پہلی ہی آیت کے لفظ غُلِبَتِ الرُّوم سے ماخوذ ہے ۔ زمانہ نزول : آغاز ہی میں جس تاریخی واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس سے زمانہ نزول قطعی طور پر متعین ہو جاتا ہے ۔ اس میں ارشاد ہوا ہے کہ ” قریب کی سر زمین میں رومی مغلوب ہوگئے ہیں ۔ “ اس زمانے میں عرب سے متصل رومی مقبوضات اردن ، شام اور فلسطین تھے اور ان علاقوں میں رومیوں پر ایرانیوں کا غلبہ ٦١۵ء میں مکمل ہوا تھا ۔ اس لئے پوری صحت کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سورة اسی سال نازل ہوئی تھی ، اور یہ وہی سال تھا جس میں ہجرت حبشہ واقع ہوئی تھی ۔ تاریخی پس منظر : جو پیش گوئی اس سورة کی ابتدائی آیات میں کی گئی ہے وہ قرآن مجید کے کلام الہٰی ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول برحق ہونے کی نمایاں ترین شہادتوں میں سے ایک ہے ۔ اسے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان تاریخی واقعات پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالی جائے جو ان آیات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے ۸ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ قیصر روم ماریس ( Maurice ) کے خلاف بغاوت ہوئی اور ایک شخص فوکاس ( Phocas ) تخت سلطنت پر قابض ہوگیا ۔ اس شخص نے پہلے تو قیصر کی آنکھوں کے سامنے اس کے پانچ بیٹوں کو قتل کرایا ، پھر خود قیصر کو قتل کرا کے باپ بیٹوں کے سر قسطنطنیہ میں بر سر عام لٹکوا دیے ، اور اس کے چند روز بعد اس کی بیوی اور تین لڑکیوں کو بھی مروا ڈالا ۔ اس واقعہ سے ایران کے بادشاہ خسرو پرویز کو روم پر حملہ آور ہونے کے لئے بہترین اخلاقی بہانہ مل گیا ۔ قیصر ماریس اس کا محسن تھا ۔ اسی کی مدد سے پرویز کو ایران کا تخت نصیب ہوا تھا ۔ اس بنا پر اس نے اعلان کیا کہ میں غاصب فوکاس سے اس ظلم کا بدلہ لوں گا جو اس نے میرے مجازی باپ اور اس کی اولاد پر ڈھایا ہے ۔ ٦۰۳ء میں اس نے سلطنت روم کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور چند سال کے اندر وہ فوکاس کی فوجوں کو پے در پے شکستیں دیتا ہوا ایک طرف ایشیائے کوچک میں ایڈیسا ﴿موجودہ اُورفا﴾ تک اور دوسری طرف شام میں حَلَب اور انطاکیہ تک پہنچ گیا ۔ روم کے اعیان سلطنت یہ دیکھ کر کہ فوکاس ملک کو نہیں بچا سکتا ، افریقہ کے گورنر سے مدد کے طالب ہوئے ۔ اس نے بیٹے ہرقل ( Heracllus ) کو ایک طاقتور بیڑے کے ساتھ قسطنطنیہ بھیج دیا ۔ اس کے پہنچتے ہی فوکاس معزول کردیا گیا ، اس کی جگہ ہرقل قیصر بنایا گیا ، اور اس نے برسر اقتدار آکر فوکاس کے ساتھ وہی کچھ کیا جو اس نے ماریس کے ساتھ کیا تھا ۔ یہ ٦١۰ء کا واقعہ ہے ، اور وہی سال ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوت پر سرفراز ہوئے ۔ خسرو پرویز نے جس اخلاقی بہانے کو بنیاد بنا کر جنگ چھیڑی تھی ، فوکاس کا عزل اور قتل کے بعد وہ ختم ہوچکا تھا ۔ اگر واقعی اس کی جنگ کا مقصد غاصب فوکاس سے اس کے ظلم کا بدلہ لینا ہوتا تو اس کے مارے جانے پر اسے نئے قیصر سے صلح کر لینی چاہیےتھی ۔ مگر اس نے پھر بھی جنگ جاری رکھی ، اور اب اس جنگ کو اس نے مجوسیت اور مسیحیت کی مذہبی جنگ کا رنگ دے دیا ۔ عیسائیوں کے جن فرقوں کو رومی سلطنت کے سرکاری کلیسا نے ملحد قرار دے کر سالہا سال سے تختہ مشق ستم بنا رکھا تھا ﴿یعنی نسطوری اور یعقوبی وغیرہ ان کی ساری ہمدردیاں بھی مجوسی حملہ آوروں کے ساتھ ہوگئیں ۔ اور یہودیوں نے بھی مجوسیوں کا ساتھ دیا ، حتیٰ کہ خسرو پرویز کی فوج میں بھرتی ہونے والے یہوویوں کی تعداد ۲٦ ہزار تک پہنچ گئی ۔ ہرقل آکر اس سیلاب کو نہ روک سکا ۔ تخت نشین ہوتے ہی پہلی اطلاع جو اسے مشرق سے ملی وہ انطاکیہ پر ایرانی قبضے کی تھی ۔ اس کے بعد ۲١۳ء میں دمشق فتح ہوا ۔ پھر ٦١٤ء میں بیت المقدس پر قبضہ کر کے ایرانیوں نے مسیحی دنیا پر قیامت ڈھادی ۔ ۹۰ ہزار عیسائی اس شہر میں قتل کیے گئے ۔ ان کا سب سے زیادہ مقدس کلیسا ، کینستہ القیامہ ( Holy Sepulchre ) برباد کردیا گیا ۔ اصلی صلیب ، جس کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ اسی پر مسیح نے جان دی تھی ، مجوسیوں نے چھین کر مدائن پہنچا دی ۔ لاٹ پادری زکریاہ کو بھی پکڑ لے گئے اور شہر کے تمام بڑے بڑے گرجوں کو انہوں نے مسمار کر دیا ۔ اس فتح کا نشہ جس بری طرح خسرو پرویز پر چڑھا تھا اس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے جو اس نے بیت المقدس سے ہرقل کو لکھا تھا ۔ اس میں وہ کہتا ہے : ” سب خداؤں سے بڑے خدا ، تمام روئے زمین کے مالک خسرو کی طرف سے اس کے کمینہ اور بے شعور بندے ہرقل کے نام ، تو کہتا ہے کہ تجھے اپنے رب پر بھروسہ ہے ۔ کیوں نہ تیرے رب نے یروشلم کو میرے ہاتھ سے بچا لیا ؟ “ اس فتح کے بعد ایک سال کے اندر اندر ایرانی فوجیں اردن ، فلسطین اور جزیرہ نمائے سینا کے پورے علاقے پر قابض ہوکر حدود مصر تک پہنچ گئیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مکہ معظمہ میں ایک اور اس سے بدرجہا زیادہ تاریخی اہمیت رکھنے والی جنگ برپا تھی ۔ یہاں توحید کے علم بردار سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ، اور شرک کے پیرو کار سرداران قریش کی رہنمائی میں ایک دوسرے سے برسر جنگ تھے ، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ٦١۵ء میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر حبش کی عیسائی سلطنت میں ﴿جو روم کی حلیف تھی﴾ پناہ لینی پڑی ۔ اس وقت سلطنت روم پر ایران کے غلبے کا چرچا ہر زبان پر تھا ۔ مکے کے مشرکین اس پر بغلیں بجا رہے تھے اور مسلمانوں سے کہتے تھے کہ دیکھو ایران کے آتش پرست فتح پا رہے ہیں اور وحی اور رسالت کو ماننے والے عیسائی شکست پر شکست کھاتے چلے جا رہے ہیں ۔ اسی طرح ہم عرب کے بت پرست بھی تمہیں اور تمہارے دین کو مٹا کر رکھ دیں گے ۔ ان حالات میں قرآن مجید کی یہ سورة نازل ہوئی اور اس میں یہ پیشین گوئی کی گئی کہ ” قریب کی سر زمین میں رومی مغلوب ہوگئے ہیں ، مگر اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر اندر ہی وہ غالب آجائیں گے ، اور وہ دن وہ ہوگا جبکہ اللہ کی دی ہوئی فتح سے اہل ایمان خوش ہو رہے ہونگے ۔ “ اس میں ایک کے بجائے دو پیشین گوئیاں تھیں ۔ ایک یہ کہ رومیوں کو غلبہ نصیب ہوگا ۔ دوسری یہ کہ مسلمانوں کو بھی اسی زمانے میں فتح حاصل ہوگی ۔ بظاہر دور دور تک کہیں اس کے آثار موجود نہ تھے کہ ان میں سے کوئی ایک پیشین گوئی بھی چند سال کے اندر پوری ہوجائے گی ۔ ایک طرف مٹھی بھر مسلمان تھے جو مکے میں مارے اور کھدیڑے جارہے تھے ۔ اور اس پیشین گوئی کے بعد بھی آٹھ سال تک ان کے لئے غلبہ و فتح کا کوئی امکان کسی کو نظر نہ آتا تھا ۔ دوسری طرف روم کی مغلوبیت روز بروز بڑھتی چلی گئی ۔ سن ٦١۹ء تک پورا مصر ایران کے قبضہ میں چلا گیا اور مجوسی فوجوں نے طرابلس کے قریب پہنچ کر اپنے جھنڈے گاڑ دیئے ۔ ایشیائے کوچک میں ایرانی فوجیں رومیوں کو مارتی دباتی باسفورس کے کنارے تک پہنچ گئیں اور سن ٦١۷ء میں انہوں نے عین قسطنطنیہ کے سامنے خلقدون ﴿Chalcedon ، موجودہ قاضی کوئی ﴾ پر قبضہ کر لیا ۔ قیصر نے خسرو کے پاس ایلچی بھیج کر نہایت عاجزی کے ساتھ درخواست کی کہ میں ہر قیمت پر صلہ کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ مگر اس نے جواب دیا کہ ” اب میں قیصر کو اس وقت تک امان نہ دونگا جب تک وہ پابز بخیر میرے سامنے حاضر نہ ہو اور اپنے خدائے مصلوب کو چھوڑ کر خداوند آتش کی بندگی نہ اختیار کر لے ۔ “آخر کار قیصر اس حد تک شکست خوردہ ہوگیا کہ اس نے قسطنطنیہ چھوڑ کر قرطاجنہ ﴿Carthage ، موجودہ ٹیونس﴾ منتقل ہوجانے کا ارادہ کر لیا ۔ غرض انگریز مؤرخ گبن کے بقول ، قرآن مجید کی اس پیشین گوئی کے بعد بھی سات آٹھ برس تک حالات ایسے تھے کہ کوئی شخص یہ تصور تک نہ کر سکتا تھا کہ رومی سلطنت ایران پر غالب آجائے گی ، بلکہ غلبہ تو درکنار اس وقت تو کسی کو یہ امید بھی نہ تھی کہ اب یہ سلطنت زندہ رہ جائے گی ۔ ﴿Gibboon, Decline and fall of the Roman Empire, Vol. II, p, 788. Modern Library, New York.﴾ قرآن کی یہ آیات جب نازل ہوئیں تو کفار مکہ نے ان کا خوب مذاق اڑایا اور ابی بن خلف نے حضرت ابو بکر سے شرط بدی کہ اگر تین سال کے اندر رومی غالب آگئے تو دس اونٹ میں دوں گا ورنہ دس اونٹ تم کو دینے ہوں گے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شرط کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن میں فِی بِضعِ سِنِین کے الفاظ آئے ہیں ، اور عربی زبان میں بِضع کا اطلاق دس سال سے کم پر ہوتا ہے ، اس لئے دس سال کے اندر کی شرط کرو اور اونٹوں کی تعداد بڑھا کر سو ﴿١۰۰﴾کردو ۔ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ نے اُبَیّ سے پھر بات کی اور نئے سرے سے یہ شرط طے ہوئی کہ دس سال کے اندر فریقین میں سے جس کی بات غلط ثابت ہوگی وہ سو﴿١۰۰﴾ اونٹ دے گا ۔ سن ٦۲٤ء میں ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے ، اور ادھر قیصر ہرقل خاموشی کے ساتھ قسطنطنیہ سے بحر اسود کے راستے طرابزون کی طرف روانہ ہوا جہاں اس نے ایران پر پشت کی طرف سے حملہ کرنے کی تیاری کی ۔ اس جوابی حملے کی تیاری کے لئے قیصر نے کلیسا سے روپیہ مانگا اور مسیحی کلیسا کے اُسقُف اعظم سر جیس ( Sergius ) نے مسیحیت کی مجو سیت سے بچانے کے لئے گرجاؤں کے نذرانوں کی جمع شدہ دولت سود پر قرض دی ۔ ہرقل نے اپنا حملہ سن ٦۲۳ء میں ارمینیا سے شروع کیا اور دوسرے سال سن ٦۲٤ء میں اس نے آذربیجان میں گھس کر زرتشت کے مقام پیدائش ارمیاہ ( Clorumia ) کو تباہ کر دیا اور ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ خدا کی قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ یہی وہ سال تھا جس میں مسلمانوں کو بدر کے مقام پر پہلی مرتبہ مشرکین کے مقابلے میں فیصلہ کن فتح نصیب ہوئی ۔ اس طرح وہ دونوں پیشین گوئیاں جو سورة روم میں کی گئی تھیں ، دس سال کی مدت ختم ہونے سے پہلے بیک وقت پوری ہوگئیں ۔ پھر روم کی فوجیں ایرانیوں کو مسلسل دباتی چلی گئیں ۔ نینویٰ کی فیصلہ کن لڑائی ﴿سن ٦۲۷ء﴾ میں انہوں نے سلطنت ایران کی کمر توڑدی ۔ اس کے بعد شاہان ایران کی قیام گاہ دستگرد ﴿دَسکرة الملک﴾ کو تباہ کر دیا اور آگے بڑھ کر ہرقل کے لشکر طیسفون ( Ctesiphon ) کے سامنے پہنچ گئے جو اس وقت ایران کا دار السلطنت تھا ۔ سن ٦۲۸ء میں خسرو پرویز کے خلاف گھر میں بغاوت رونما ہوئی ، وہ قید کر لیا گیا ، اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے ١۸ بیٹے قتل کردیے گئے ، اور چند روز بعد وہ خود قید کی سختیوں سے ہلاک ہوگیا ۔ یہی سال تھا جس میں صلح حدیبیہ واقع ہوئی جسے قرآن ” فتح عظیم “ کے نام سے تعبیر کرتا ہے ، اور یہی سال تھا جس میں خسرو کے بیٹے قباد ثانی نے تمام رومی مقبوضات سے دست بردار ہو کر اور اصلی صلیب واپس کر کے روم سے صلح کر لی ۔ سن ٦۲۹ء میں قیصر ”مقدس صلیب “ کو اس کی جگہ رکھنے کے لئے خود بیت المقدس گیا ، اور اسی سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم عُمرة القضا ادا کرنے کے لئے ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ۔ اس کے بعد کسی کے لئے بھی اس امر میں شبہہ کی گنجائش باقی نہ رہی کہ قرآن کی پیشین گوئی بالکل سچی تھی ۔ عرب کے بکثرت مشرکین اس پر ایمان لے آئے ۔ اُبَیّ بن خَلف کے وارثوں کو ہار مان کر شرط کے اونٹ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کرنے پڑے ۔ وہ انہیں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ نے حکم دیا کہ انہیں صدقہ کر دیا جائے ۔ کیونکہ شرط اس وقت ہوئی تھی جب شریعت میں جوئے کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا ، مگر اب حرمت کا حکم آچکا تھا ، اس لئے حربی کافروں سے شرط کا مال لے لینے کی اجازت تو دے دی گئی مگر ہدایت کی گئی کہ اسے خود استعمال کرنے کے بجائے صدقہ کر دیا جائے ۔ موضوع اور مضمون : اس سورة میں کلام کا آغاز اس بات سے کیا گیا ہے کہ آج رومی مغلوب ہوگئے ہیں اور ساری دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ اس سلطنت کا خاتمہ قریب ہے ، مگر چند سال نہ گزرنے پائیں گے کہ پانسہ پلٹ جائے گا اور جو مغلوب ہے وہ غالب ہوجائے گا ۔ اس تمہید سے یہ مضمون نکل آیا کہ انسان اپنی سطح بینی کی وجہ سے وہی کچھ دیکھتا ہے ، جو بظاہر اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے ، مگر اس ظاہر کے پردے کے پیچھے جو کچھ ہے اس کی اسے خبر نہیں ہوتی ۔ یہ ظاہر بینی جب دنیا کے ذرا ذرا سے معاملات میں غلط فہمیوں اور غلط اندازوں کی موجب ہوتی ہے ، اور جبکہ محض اتنی سی بات نہ جاننے کی وجہ سے کہ ” کل کیا ہونے والا ہے “ آدمی غلط تخمینے لگا بیٹھتا ہے ، تو پھر بحیثیت مجموعی پوری زندگی کے معاملے میں ظاہر حیات دنیا پر اعتماد کر بیٹھنا اور اسی کی بنیاد پر اپنے پورے سرمایہ حیات کو داؤ پر لگا دینا کتنی بڑی غلطی ہے ۔ اس طرح روم اور ایران کے معاملے سے تقریر کا رخ آخرت کے مضمون کی طرف پھر جاتا ہے ۔ اور مسلسل تین رکوعوں تک طریقے طریقے سے یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آخرت ممکن بھی ہے ، معقول بھی ہے ، اس کی ضرورت بھی ہے ، اور انسانی زندگی کے نظام کو درست رکھنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ آدمی آخرت کا یقین رکھ کر اپنی موجودہ زندگی کا پروگرام اختیار کرے ، ورنہ وہی غلط ہوگی جو ظاہر پر اعتماد کرلینے سے واقع ہوا کرتی ہے ۔ اس سلسلے میں آخرت پر استدلال کرتے ہوئے کائنات کے جن آثار کو شہادت میں پیش کیا گیا ہے وہ بعینہ وہی آثار ہیں جو توحید پر بھی دلالت کرتے ہیں ۔ اس لئے چوتھے رکوع کے آغاز سے تقریر کا رخ توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال کی طرف پھر جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ انسان کے لئے فطری دین اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ بالکل یکسو ہو کر خدائے واحد کی بندگی کرے ۔ شرک فطرت کائنات اور فطرت انسان کے خلاف ہے ، اسی لئے جہاں بھی انسان نے اس گمراہی کو اختیار کیا ہے وہاں فساد رونما ہوا ہے ۔ اس موقع پر پھر اس فساد عظیم کی طرف ، جو اس وقت دنیا کی دو سب سے بڑی سلطنتوں کے درمیان جنگ کی بدولت برپا تھا ، اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ فساد شرک کے نتائج میں سے ہے اور پچھلی انسانی تاریخ میں بھی جتنی قومیں مبتلائے فساد ہوئی ہیں وہ سب بھی مشرک ہی تھیں ۔ خاتمہ کلام پر تمثیل کے پیرایہ میں لوگوں کو سمجھایا گیا ہے کہ جس طرح مردہ پڑی ہوئی زمین خدا کی بھیجی ہوئی بارش سے یکایک جی اٹھتی ہے اور زندگی و بہار کے خزانے اگلنے شروع کردیتی ہے ، اسی طرح خدا کی بھیجی ہوئی وحی اور نبوت بھی مردہ پڑی ہوئی انسانیت کے حق میں ایک باران رحمت ہے جس کانزول اس کے لئے زندگی اور نشو ونما اور خیر و فلاح کا موجب ہوتا ہے ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ گے تو یہی عرب کی سونی زمین رحمت الہٰی سے لہلہا اٹھے گی اور ساری بھلائی تمہارے اپنے لئے ہی ہوگی ۔ اس سے فائدہ نہ اٹھاؤ گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے ، پھر پچھتانے کا کچھ حاصل نہ ہوگا اور تلافی کا کوئی موقع تمہیں میسر نہ آئے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ الروم اس سورت کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے جو حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی سچائی اور حقانیت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کرتا ہے، جس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا ہوئی اس وقت دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں، ایک ایران کی حکومت جو مشرق کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی، اور اس کے ہر بادشاہ کو کسری کہا جاتا تھا، یہ لوگ آتش پرست تھے، یعنی آگ کو پوجتے تھے، دوسری بڑی طاقت روم کی تھی، جو مکہ مکرمہ کے شمال اور مغرب میں پھیلی ہوئی تھی، شام، مصر، ایشیائے کو چک اور یورپ کے علاقے اسی سلطنت کے ماتحت تھے، اور اس کے ہر بادشاہ کو قیصر کہا جاتا تھا، اور ان کی اکثریت عیسائی مذہب پر تھی، جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اس وقت ان دونوں طاقتوں کے درمیان شدید جنگ ہورہی تھی، اور اس جنگ میں ایران کا پلہ ہر لحاظ سے بھاری تھا، اور اس کی فوجوں نے ہر محاذ پر روم کی فوجوں کو شکست دے کر ان کے بڑے بڑے شہر فتح کرلئے تھے، یہاں تک کہ وہ بیت المقدس میں عیسائیوں کا مقدس ترین کلیسا تباہ کرکے رومیوں کو مسلسل پیچھے ڈھکیلتی جارہی تھی، اور روم کے بادشاہ ہرقل کو جائے پناہ تلاش کرنا مشکل ہورہا تھا، ایران کی حکومت چونکہ آتش پرست تھی اس لئے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں، اور جب کبھی اریان کی کسی فتح کی خبر آتی تو مکہ مکرمہ کے بت پرست اس پر نہ صرف خوشی مناتے بلکہ مسلمانوں کو چڑاتے کہ عیسائی لوگ جو آسمانی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں مسلسل شکست کھاتے جارہے ہیں، اور ایران کے لوگ جو ہماری طرح پیغمبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے، انہیں برابر فتح نصیب ہورہی ہے، اس موقع پر یہ سورت نازل ہوئی، اور اس کے بالکل شروع میں یہ پیشینگوئی کی گئی کہ روم کے لوگ اگرچہ اس وقت شکست کھاگئے ہیں، لیکن چند سالوں میں وہ فتح حاصل کرکے ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اور اس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے، اس طرح اس سورت کے شروع میں بیک و قت دو پیشنگوئیاں کی گئیں، ایک یہ کہ روم کے جو لوگ شکست کھاگئے ہیں وہ چند سالوں میں ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، اور دوسرے یہ کہ مسلمان جو اس وقت مکہ مکرمہ کے مشرکین کے ہاتھوں ظلم وستم کا شکار ہیں اس دن وہ بھی مشرکین پر فتح منائیں گے، یہ دونوں پیشینگوئیاں اس وقت کے ماحول میں اتنی بعید از قیاس تھیں کہ کوئی شخص جو اس وقت کے حالات سے واقف ہو ایسی پیشینگوئی نہیں کرسکتا تھا، مسلمان اس وقت جس طرح کافروں کے ظلم وستم میں دبے اور پسے ہوئے تھے، اس کے پیش نظر بظاہر کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ اپنی فتح کی خوشی منائیں، دوسری طرف سلطنت روما کا حال بھی یہ تھا کہ اس کے ایرانیوں کے مقابلے میں ابھرنے کا دور دور کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا تھا، چنانچہ سلطنت روما کا مشہور مؤرخ ایڈروڈ گبن اس پیشینگوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : جس وقت مبینہ طور پر یہ پیشینگوئی کی گئی اس وقت کسی بھی پیشینگوئی کا پورا ہونا اس سے زیادہ بعید نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے کہ قیصر ہرقل کی حکومت کے پہلے بارہ سالوں میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ رومی سلطنت کا خاتمہ بالکل قریب آچکا ہے : Gibbon: The Decline and Fall of the Roman Epaire,chapter 46,Volume 2,P.125,Great Books,V.38,University of Chicago,1990 چنانچہ مکہ مکرمہ کے مشرکین نے اس پیشینگوئی کا بہت مذاق اڑایا، یہاں تک کہ ان کے ایک مشہور سردار ابی بن خلف نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے یہ شرط لگالی کہ اگر آئندہ نوسال کے درمیان روم کے لوگ ایرانیوں پر غالب آگئے تو وہ حضرت ابوبکر کو سواونٹ دے گا، اور اگر اس عرصے میں وہ غالب نہ آئے تو حضرت ابوبکر صدیق اس کو سو اونٹ دیں گے (اس وقت تک اس قسم کی دو طرفہ شرط لگانا حرام نہیں کیا گیا تھا)، چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ایرانیوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک وہ قیصر کے پایۂ تخت قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچ گئے اور انہوں نے قیصر ہرقل کی طرف سے صلح کی ہر پیشکش کو ٹھکرا کر یہ جواب دیا کہ انہیں ہرقل کے سر کے سوا کوئی اور پیشکش منظور نہیں ہے، جس کے نتیجے میں ہرقل تیونس کی طرف بھاگنے کا منصوبہ بنانے لگا لیکن اسکے فوراً بعد حالات نے عجیب وغریب پلٹا کھایا، ہر قل نے مجبور ہو کر ایرانیوں پر عقب سے حملہ کیا جس میں اسے ایسی کامیابی حاصل ہوئی جس نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا، اس پیشینگوئی کو ابھی سات سال گزرے تھے کہ رومیوں کی فتح کی خبر عرب تک پہنچ گئی، جس وقت یہ خبر پہنچی یہ ٹھیک وہ وقت تھا جب بدر کے میدان میں سردار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ کے لشکر کو عبرتناک شکست دی تھی، اور مسلمانوں کو اس فتح پر غیر معمولی خوشی حاصل ہوئی تھی، اس طرح قرآن کریم کی دونوں پیشینگوئیاں کھلی آنکھوں اس طرح پوری ہوئیں جس کا بظاہر حالات کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا، اور اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی سچائی روز روشن کی طرح واضح ہوگئی، اس وقت ابی بن خلف جس نے حضرت ابوبکر (رض) سے شرط لگائی تھی مرچکا تھا، لیکن اس کے بیٹوں نے شرط کے مطابق سو اونٹ حضرت ابوبکر (رض) کو ادا کئے، اور چونکہ اس وقت جوے کی حرمت آچکی تھی اور دو طرفہ شرط جوے ہی کی ایک شکل ہے، اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیق اکبر (رض) کو حکم دیا کے وہ یہ اونٹ خود استعمال کرنے کے بجائے صدقہ کردیں۔ اس پیشینگوئی کے علاوہ اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد تو حید، رسالت اور آخرت کو مختلف دلائل سے ثابت کیا گیا ہے اور مخالفین کی تردید کی گئی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

(سورۃ نمبر ٣٠ ۔ کل رکوع ٦ ۔ آیات ٦٠ ۔ الفاظ و کلمات ٨٠ ۔ حروف ٤٤١٠ ۔ مقام نزول مکہ مکرمہ ۔ ) ( سورة روم ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ اس سورة میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان رسالت، حشر و نشر، قیامت، آخرت ، جزا و سزا، مشرکانہ اعمال کی مذمت، جنت و جہنم، اللہ کی قدرت کی نشانیوں ، قرآن کریم کا نزول اور دنیا کی بدکارقوموں کے برے انجام کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ ) جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت عرب کے لوگ آزاد، خودمختار زندگی گذار رہے تھے۔ چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں تقسیم تھے اور آپس ہی میں ایک دوسرے سے بات بات پر لڑتے جگھڑتے اور قتل و غارت گری کرتے رہتے تھے۔ اسی زمانہ میں (جو معلوم دنیاتھی) اس میں دو باقاعدہ زبردست سلطنتیں تھیں جو سپر پاورز (Super Powers) کی حیثیت رکھتی تھیں اور ساری معلوم دنیا پر حکومت کر رہی تھیں اور ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے آپس میں ٹکراتی رہتی تھیں۔ قیصر روم کی سلطنت ملک شام، مصر، فلسطین، اردن اور افریقہ اور ایشیا کے بعض ملکوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ ساب مسیحی تھے یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے تھے۔ دوسرے بڑی ایرانی سلطنت مجوسیوں یعنی آگ کو اپنا معبود ماننے والوں کی تھی جس کا سربراہ خسرہ پرویز تھا۔ ان دونوں طاقت ور حکومتوں کے درمیان ساتویں صدی عیسوی میں زبردست اور خونریز جنگیں ہوئیں۔ ایرانی بادشاہ خسرو پرویز کی للچائی ہوئی نظریں ہمیشہ رومی سلطنت کو حاصل کرنے کی طرف لگی رہتی تھیں۔ جب روم میں قیصر کے خلاف اندرونی بغاوت ہوئی تو ایرانی بادشاہ کو رومی سلطنت پر حملہ کرنے کا ایک بہانہ ہاتھ آگیا۔ اس کی فوجوں نے رومیوں کے انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئی رومیوں کو ہر محاذ پر بری طرح شکست دینا شروع کی، رومیوں کے تمام علاقوں پر قبضہ کر کے روم کی سلطنت کو تباہ و برباد کردیا گیا۔ ہزاروں عیسائیوں گا قتل عام کیا گیا۔ ان کی عبادت گاہوں کو مسمار کر کے ہزاروں عورتوں اور مردوں کو غلام بنا لیا گیا تھا۔ ( جب یہ سورة نازل ہوئی تو اس وقت مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر کفار مکہ کے ظلم و ستم کی انتہا ہوچکی تھی۔ کفارومشرکین اہل ایمان کو مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے اور جس سے انسانیت بھی شرما جائے اس ظلم و زیادتی سے باز نہیں آ رہے تھے۔ یہاں تک کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت سے صحابہ کرام (رض) مکہ چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت شروع کرچکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تسلی دینے کے لیے قیصرو کسریٰ جیسی طاقتوں والی قوموں کے مٹنے اور بننے کے واقعہ کو بیان کر کے بتایا ہے کہ اہل ایمان بہت جلد کامیاب ہوں گے اور کفار مٹادیئے جائیں گے۔ ) اس طرح خسرو پرویز نے سلطنت روم کو جڑ و بنیاد سے کھود کر رکھ دیا۔ ٹھیک یہی وہ زمانہ تھا جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان نبوت فرمایا اور جب مجوسیوں نے عیسائیوں کی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی تھی تو عرب کے کفارومشرکین مجوسیوں کی فتح پر بہت خوش تھے کیونکہ جس طرح مجوسی آگ کو پوجتے تھے اسی طرح مکہ کے کفاربتوں کو پوجتے تھے۔ اس کے بر خلاف اہل ایمان کو یہ بتایا گیا تھا کہ عیسائی اہل کتاب ہیں جو اگرچہ اصل تعلیم سے بہت دور جاچکے ہیں مگر اللہ کو اور وحی کو کسی حد تک مانتے تھے۔ اس لیے رومیوں کی سلطنت کے زوال پر مکہ کے مظلوم مسلمان رنجیدہ تھے۔ پھر کفار مکہ بھی کھل کر یہ کہنے لگے تھے کہ جس طرح آگ پرستوں نے عیسائیوں کو تباہ کردیا ہے اسی طرح مکہ کے لوگ بھی مسلمانوں کو اسی طرح تباہ و برباد کر کے ان کو اپنے علاقوں سے نکال باہر کریں گے۔ ان طعنوں سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو بہت صدمہ پہنچتا تھا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورة روم کو نازل فرما کر تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ ان حالات سے بالکل رنجیدہ اور پریشان نہ ہوں کیونکہ حالات بہت جلد بدلنے والے ہیں اور رومی جو شکست کھاچکے ہیں وہ چند برسوں میں پھر سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة روم کی ابتدائی آیتوں میں جو کچھ فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔ بیشک آج رومی شکست کھاچکے ہیں لیکن چند برسوں (تین سے نو سال کے درمیان) میں پھر سے مجوسیوں پر غالب آجائیں گے۔ اور یہ دن اہل ایمان کے لیے بھی انتہائی خوشی اور مسرت کا دن ہوگا ۔ سورئہ روم کی ان آیات میں نہ صرف رومیوں کے دوبارہ اٹھ کھڑا ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے بلکہ کفار پر اہل ایمان کی فتح و کامیابی کا واضح اشارہ بھی کردیا گیا تھا۔ ظاہری حالات میں رومیوں کی دوبارہ فتح اور مسلمانوں کی کامیابی کا دور دور تک پتہ نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے رومیوں کی فتح کی پیش گوئی فرما دی تھی جس پر اہل ایمان کو پختہ یقین تھا کہ چند برسوں میں دوبارہ رومی سلطنت قائم ہوگی اور مکہ میں مسلمانوں کو کفار پر مکمل غلبہ حاصل ہوجائے گا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) مکہ مکرمہ کی جس محفل سے گذرتے وہاں قرآن کریم کی اس پیش گوئی کا ذکر فرماتے، وہ فرماتے کہ اے کفار مکہ تم مجوسیوں کی وقتی فتح پر خوش مت ہو کیونکہ چند برسوں میں رومی پھر سے ایرانیوں پر غلبہ حاصل کرلیں گے۔ کفار مکہ ان باتوں کو ہنسی مذاق میں اڑا دیتے یہاں تک کہ ابی ابن خلف نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) ابی ابن خلف کو ایک سو اونٹ دیں گے اور اگر قرآن کی یہ پیش گوئی صحیح ہوگئی اور رومی ایراینوں پر غالب آگئے تو ابی ابن خلف حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو ایک سو اونٹ دے گا۔ اگرچہ اس طرح کی دو طرفہ شرط اسلام میں اب حرام ہے لیکن جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے شرب باندھی تھی اس وقت تک جوئے کے حرام ہونے کے احکامات نہیں آئے تھے کیونکہ شراب اور جوئے کے حرام ہونے کے احکامات سن ٢ ھجری میں مدینہ منورہ میں نازل ہوئے تھے۔ رومیوں کی شکست نے کفارو مشرکین مکہ کے حوصلے اور بھی بڑ ھا دیئے تھے اور مسلمانوں نے اس میں عافیت محسوس کی کہ مکہ مکرمہ کو چھوڑ کر کسی اور ملک میں اپنے ایمان کی سلامتی کی فکر کی جائے چناچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت سے صحابہ کرام (رض) نے ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنا شروع کردی۔ اس کے بعد اللہ کے حکم سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اسی سال قیصر روم ہر قل نے تیاری کرکے ایرانیوں پر زبردست حملہ کردیا۔ یہ حملہ اس قدر بھر پور اور اچانک تھا کہ ایرانی فوجیں ان کے سامنے ڈھیر ہو کر رہ گئیں۔ آہستہ آہستہ قیصر روم ہر قل نے ایرانیوں سے وہ تمام علاقے واپس لے لیے جن پر انہوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ ہر قل فتح کے جھنڈے گاڑتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ اس نے ایرانیوں کے آتش کدے مسمار کردیئے اور ہزاروں ایرانیوں کو قتل کر کے روم کی سلطنت پر مکمل قبضہ کرلیا اور اس طرح صرف سات سال کے عرصے میں رومی دوبارہ ایرانیوں پر غالب آگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دن رومیوں نے ایرانیوں پر مکمل فتح حاصل کی اسی دن اہل ایمان کو کفار مکہ پر غزوہ بدر کے دن ایک پھر پور کامیابی حاصل ہوئی۔ اس طرح قرآن کریم کی دونوں پیش گوئیاں پوری ہوئیں اور اہل ایمان ان دونوں کامیابیوں پر بہت زیادہ خوش ہوئے اور انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ابی ابن خلف سے جیت چکے تھے۔ اگرچہ اس وقت ابی ابن خلف مر چکا تھا مگر آپ نے ابی ابن خلف کے وارثوں سے مطالبہ کیا کہ شرط کے سو اونٹ ان کے حوالے کردیئے جائیں۔ ابی ابن خلف کے وارثوں نے ایک سو اونٹ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے حوالے کردیئے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اے ابوبکر ان اونٹوں کو صدقہ کر دو ۔ چناچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ اونٹ صدقہ کردیئے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یہ شرط باندھی تھی اس وقت تک اس طرح کی شرط کرنا حرام نہیں تھا اور جب آپ کو شرط کے سو اونٹ ملے تو اس وقت مدینہ منورہ میں اس طرح کی شرط کو ” جوا “ قرار دیا گیا اور ہر طرح کا جوا اور شرط قیامت تک حرام کردی گئی۔ اس سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہو کر سامنے آگیا ہے کہ اگر کسی کو حرام مال مل جائے تو وہ اس کو اپنی ذات پر خرچ نہ کرے بلکہ اس کو صدقہ کردے۔ ہمارے دور میں سود کا لین دین بہت زیادہ ہوگیا ہے خاص طور پر بینکوں کا سود۔ اس کے لئے علماء نے فرمایا ہے کہ اگر کسی کو اس طرح کا مال یا بینک کا سود مل جائے تو وہ اس کو لے کر بغیر ثواب کی نیت کے کسی ایسے غریب آدمی کو دے دے جو صاحب نصاب نہ ہو یعنی غریب آدمی ہو۔ بینکوں وغیرہ میں سود چھوڑنے کا نقصان یہ ہے کہ موجودہ دور میں بینک ہر اس رقم کو جس کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہیں ہوتا اس کو ڈیڈ اکائونٹ (Dead Account) میں ڈال کر اکثر مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسی رقم ہو تو اس کو لے کر صدقہ کردیا جائے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة روم – 30 آیات 1 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 60 سورة روم ایک نظر میں اس سورة کی ابتدائی آیات ایک مخصوص تاریخی واقعہ کے حوالے سے نازل ہوئیں ، جب اہل فارس نے اہل روما پر غلبہ حاصل کرلیا تھا۔ کیونکہ فارس والے جزیرہ العرب کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتے تھے۔ یہ اس دور کا واقعہ ہے جب مکہ میں مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان نظریاتی جنگ جاری تھی۔ مسلمان مکہ میں تھے۔ ابھی ہجرت نہیں ہوئی تھی۔ اس دور میں رومی چونکہ اہل کتاب یعنی نصاریٰ تھے اور اہل فارس مجوسی یعنی مشرک تھے۔ اس لیے اس غلبے پر اہل مکہ خوش تھے کہ ایک مشرک ملت کے لوگ ایک کتابی ملت پر غالب آگئے۔ انہوں نے مکہ میں شرک اور توحید کی کشمکش میں اس واقعہ کو اپنے لیے نیک فال تصور کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان آیات میں پیش گوئی کی گئی کہ چند سالوں کے اندر اندر اہل کتاب رومی ، مشرک فارسیوں پر غلبہ پالیں گے اور اس وقت اہل ایمان خوش ہوں گے کیونکہ اہل ایمان دوسری ملتوں کے اہل توحید کے بھی حامی تھے۔ لیکن قرآن کریم نے بس صرف یہی بتانے پر اکتفاء نہیں کیا کہ اس واقعہ اور اس کے ماحول سے ذرا آگے ایک وسیع دنیا میں لے جاتا ہے کیونکہ یہ واقعہ تو ایک جزئی اور وقتی واقعہ تھا۔ قرآن کریم مسلمانوں کو بتاتا ہے کہ وہ جس حق اور جس سچائی کے حامل ہیں وہ دراصل اس عظیم سچائی اور حق کا ایک حصہ ہے جس کے اوپر زمین و آسمان اور اس پوری کائنات کا نظام قائم ہے اور ان دونوں سچائیوں کے درمیان گہرا ربط ہے۔ اس طرح انسانوں کا ماضی ، ان کا حال اور ان کا مستقبل باہم مربوط ہیں۔ پھر اسی طرح یہ بات اس کائنات سے بھی آگے بڑھ کر عالم آخرت میں داخل ہوتی ہے اور اس حیات دنیا کے بعد بات اخروی زندگی میں داخل ہوجاتی ہے۔ اس زمین کی محدود زندگی سے انسانوں کو آخرت کی وسعتوں میں لے جایا جاتا ہے۔ پھر اس پوری کائنات کا سیر کرائی جاتی ہے ، پھر انسانی نفس کی گہرائیوں میں ، انسان کے شب و روز میں انسانی فطرت کے عجائبات بتائے جاتے ہیں۔ یوں انسان اس محدود واقعہ کے حوالے سے اس عظیم کائنات کی وسعتوں میں چلا جاتا ہے اور علم و معرفت کے بےقید اصول معلوم کرکے اس کی زندگی لامحدود ہوجاتی ہے۔ اس کا نصب العین بلند ، منزل بہت اعلیٰ وارفع ہوجاتی ہے ، اور وہ زمان و مکان کی تنگیوں سے نکل کر اللہ کی اس کائنات کی وسعتوں میں گم ہوجاتا ہے۔ اس کا ماضی ، اس کا حال اور اس کا مستقبل سب کے سب اللہ کے وسیع اور لازوال قانون قدرت اور سنن فطرت میں گم ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ایک مومن انسان کے ہاں اس دنیا کے تعلقات و روابط ، اس عظیم کائنات کے حوالے سے ، بہت ہی وسیع اور ارفع ہوجاتے ہیں اس لیے کہ اس کے ذہن میں وہ قوانین بہت ہی عظیم ہوتے ہیں جو اس عظیم کائنات کو چلاتے ہیں ، وہ اصول بہت ہی حکیمانہ ہوتے ہیں جو فطرت انسانی میں ودیعت کر دئیے گئے ہیں۔ انسانی زندگی اس کے مختلف حوادث ، اور اس میں فتح و شکست اور وہ پیمانے جن کے مطابق انسانی اعمال کی قدروقیمت متعین ہوتی ہے اور جن اصولوں کے مطابق انسان اس زمین پر کام کرتا ہے اور جن کے مطابق اسے آخرت میں جزاء و سزا ملے گی ، یہ سب پیمانے اور اصول اعلیٰ اور بامقصد ہوجاتے ہیں۔ اس سے اس پوری زندگی کے بارے ، میں انسان کا تصور بلند ہوجاتا ہے۔ اس ہمہ گیر اور بلند تصور کے نقطہ نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے جو دعوت دی ہے وہ عالمی اور ابدی دعوت ہے اور اس کا تعلق اس جہاں اور اس کے پورے ماحول سے ہے۔ اگرچہ یہ دعوت مکہ کے بلند پہاڑوں کے درمیان سے اٹھ رہی ہے لیکن یہ وہاں مکہ تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ اس کائنات کی فطرت سے مربوط ہے۔ اس کائنات کے قوانین سے ہم آہنگ ہے۔ نفس انسانی اور اس کے حالات کے عین مطابق ہے۔ انسان کے ماضی ، حال اور مستقبل کا اس میں لحاظ رکھا گیا ہے۔ نہ صرف اس زمین پر بلکہ عالم آخرت کے ساتھ بھی اس دعوت کا گہرا تعلق ہے۔ یہ دعوت قلب مومن کو ان وسعتوں سے باندھ دیتی ہے ۔ ایک مسلم کا تصور اور اس کا شعور اور اس کی اقدار حیات وسیع اور رفع ہوجاتی ہیں۔ انسان کی نظریں عالم بالا پر ، آسمان پر اور آخرت پر ہوتی ہیں۔ عالم بالا اور عالم سماوات کے اسرار و رموز پر وہ غور کرتا ہے۔ اس کی تخلیق ، اس کے انقلابات پر اس کی نظر رہتی ہے اور یہ مخصوص واقعہ کو نہیں بلکہ اس کائنات کے تمام حادثات کو وہ اچھی طرح سمجھتا ہے۔ اس عظیم کائنات بلکہ کائناتوں کے ایک سمندر میں اس کا موقف ایک عظیم امت کا موقف ہوتا ہے۔ وہ اپنی قدر و قیمت جانتا ہے ، وہ اپنے اس عظیم تصور کی اہمیت سے واقف ہوتا ہے ، اللہ کے حوالے سے بھی اور دوسرے انسانوں کے حوالے سے بھی ، یوں ایک مومن عظیم انسان ہوتا ہے اور اس کا کردار بھی عظیم ہوتا ہے ۔ وہ علی وجہ البصیرت اپنے اس کردار کو ادا کرتا ہے۔ وہ اپنے فرائض ادا کرتا ہے نہایت اطمینان ، نہایت وثوق اور نہایت اہتمام کے ساتھ۔ اب روابط پر غور کرنے ، اس کائنات میں ان کے مفہوم و مدلول کو سمجھنے اور پھر انسانی دلوں میں ان کا تصور بٹھانے کے لیے یہ سورة دو حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ پہلے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ مومنین کی کامیابی اسی طرح برحق ہے جس طرح یہ کائنات ایک برحق نظام پر قائم ہے اور اہل ایمان کی اس کامیابی کے ساتھ دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کا تعلق ہے۔ انسانی تاریخ میں اللہ کی جو سنت کار فرما رہی ہے وہ بھی اس میں شاہد عادل ہے۔ کائنات کا یہ نظام شاہد ہے کہ اللہ دوبارہ تمام انسانوں کو اٹھائے گا اور حساب و کتاب لے گا۔ اس لیے پہلے حصے میں قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر بھی یہاں پیش کیا جاتا ہے اور اس میں مومنین اور کافرین کے ساتھ جو سلوک کیا جائے گا ، وہ دکھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر اس کائنات پر ایک نظر ڈالی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کے اندر اللہ کی کیا کیا نشانیاں پوشیدہ ہیں اور انسان کے دل و دماغ پر وہ نشانیاں کیا اثرات چھوڑتی ہیں۔ پھر خود انسان اور اس کے مملوک غلاموں کی مثال دے کر دکھایا جاتا ہے کہ عقیدہ شرک کس قدر غیر معقول عقیدہ ہے اور یہ کہ یہ نظریہ محض خواہشات نفسانیہ پر مبنی ہے ، کسی سچائی اور کسی دلیل کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ آخر میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سیدھے راستے پر ثابت قدمی کے ساتھ گامزن رہیں ، یہ واضح راستہ ہے ، فطری راستہ ہے جس کے اندر کوئی ٹیڑھ اور کوئی تغیر نہیں ہے اور یہ راستہ انسانوں کو متحد کرتا ہے ، ان کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں کرتا جس طرح اہل شرک نے انسانیت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے طبقات میں تقسیم کردیا ہے۔ دوسرے حصے میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کے اندر کس قدر تلون مزاجی ہے۔ اس تلون مزاجی کے اوپر زندگی کی عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی ۔ زندگی کا نظام تو ناقابل تغیر و تبدل اصولوں پر ہی قائم ہوسکتا ہے جن کو کچھ مخصوص لوگوں کی خواہشات کے مطابق بدلا نہ جاسکے۔ ان کے سامنے خود انسانوں کے وہ حالات رکھے جاتے ہیں جن میں وہ امن و عافیت میں ہوں یا مصیبت اور مشکلات میں ہوں ، خوشحال ہوں یا بدحال ہوں۔ اس مناسبت سے پھر اس رزق کو خرچ کرنے اور اس کو ترقی دینے کا مضمون اور پھر رزق الٰہی کے حوالے سے شرک اور شرکاء کا تذکرہ کہ یہ ٹھہرائے ہوئے خود ساختہ شرکاء نہ تو رزق دے سکتے ہیں نہ زندگی عطا کرسکتے ہیں ، نہ مار سکتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کرہ ارض پر فساد لوگوں کے اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ زمین میں سیر کرو ، اور اس کے جغرافیائی مطالعہ کے ساتھ تاریخی مطالعہ کرو اور دیکھو کہ مشرکین کا انجام ہمیشہ کیا ہوتا رہا ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ دین فطرت پر سیدھے جمے رہو یہاں تک کہ وہ دن آجائے جس میں ہر شخص کے سامنے اس کی کمائی رکھ دی جائے گی۔ اس دوسرے حصے میں بھی مشاہد کائنات پیش کیے جاتے ہیں جس طرح پہلے حصے میں اس کائنات سے نشانیاں پیش کی گئی تھیں۔ حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ کے طریقے پر چلو۔ رسول کا فریضہ تو صرف ابلاغ ہے۔ رسول تو نہ اندھوں کو ہدایت کرسکتا اور نہ بہروں کو سنا سکتا ہے۔ اسکے بعد خود انسان کے انفس کی سیر کرائی جاتی ہے اور اس کی پیدائش سے انتہا تک اسے اس کے اطوار حیات دکھائے جاتے ہیں کہ کس طرح انسان کو پیدا کیا گیا اور طفولیت کا دور کیسے گزرا۔ پھر موت آئے گی اور دوبارہ بعث بعد الموت ہوگی۔ یہ دوسرا حصہ بھی ختم ہوتا ہے اور رسول اللہ کو ہدایت دی جاتی ہے کہ آپ دعوت دیں صبر کریں اور لوگ جو تکالیف دیتے ہیں ان کو برداشت کریں۔ اللہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ آنے والا ہے لہٰذا آپ ان لوگوں کے طرز عمل سے پریشان نہ ہوں جو ایمان نہیں لاتے۔ سورة کی فضا اور اس کا انداز بیان سورة کے مرکزی مضمون اور محور کی تصویر کشی میں باہم معاون ہیں۔ محور یہ ہے کہ لوگوں کے حالات ، زندگی کے واقعات ، ان کی تاریخ اور ماضی اور حال کے درمیان گہرا رابطہ ہوتا ہے۔ یہ سب امور پھر ان سنن الہیہ کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں جو اس کائنات میں جاری وساری ہیں۔ لہٰذا انسان کی ہر حرکت اور اس کا سکون ، انسان کو پیش آنے والا ہر حادثہ اور اس کا ہر حال ، انسان کی ہر سرگرمی اور اس کا ہر انجام ، اس دنیا میں اس کی فتوحات اور ناکامیاں سب کی سب انسان کے ان روابط اور تعلقات کی روشنی میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اور ان کا سنن کانیہ کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے اور اصل بات یہ ہوتی ہے کہ تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ للہ الامر من قبل ومن بعد (30: 4) ” تمام امور اللہ کیلئے ہیں ، پہلے بھی اور بعد میں بھی “۔ اور یہ وہ اساسی حقیقت جس کی توثیق و تاکید پورا قرآن کرتا ہے اور یہ بات اسلامی نظریہ حیات کی اساسی حقیقت ہے۔ اسی اسلامی تصور حیات سے ، اقدار ، شعور اور اقدار و پیمانے پھوٹتے ہیں اور اس کے سوا کوئی تصور حیات اور کوئی قدر درست نہیں ہو سکتی ، نہ اسلام اس کو تسلیم کرتا ہے۔ درس نمبر 183 تشریح آیات 1 ۔۔۔ تا۔۔۔ 32

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi