Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 17

سورة الروم

فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ حِیۡنَ تُمۡسُوۡنَ وَ حِیۡنَ تُصۡبِحُوۡنَ ﴿۱۷﴾

So exalted is Allah when you reach the evening and when you reach the morning.

پس اللہ تعالٰی کی تسبیح پڑھا کرو جب کہ تم شام کرو اور جب صبح کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to pray Five Times Daily Allah says: فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ So glorify Allah, when you enter the evening, and when you enter the morning. Here Allah glorifies Himself and commands His servants to glorify and praise Him at these times which come one after the other and are indicative of His might and power in the heavens. This is when the night comes with its darkness, then in the morning the day comes with its light. This glorification is followed by befitting praise, as Allah says:

خالق کل مقتدر کل ہے اس رب تعالیٰ کا کمال قدرت اور عظمت سلطنت پر دلالت اس کی تسبیح اور اس کی حمد سے ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی رہبری کرتا ہے اور اپنا پاک ہونا اور قابل حمد ہونا بھی بیان فرما رہا ہے ۔ شام کے وقت جبکہ رات اپنے اندھیروں کو لے آتی ہے اور صبح کے وقت جبکہ دن اپنی روشنیوں کو لے آتا ہے ۔ اتنا بیان فرما کر اس کے بعد کاجملہ بیان فرمانے سے پہلے ہی یہ بھی ظاہر کردیا کہ زمین وآسمان میں قابل حمد وثنا وہی ہے ان کی پیدائش خود اس کی بزرگی پر دلیل ہے ۔ پھر صبح شام کے وقتوں کی تسبیح کا بیان جو پہلے گذرا تھا اس کے ساتھ عشاء اور ظہر کا وقت ملالیا ۔ جو پوری اندھیرے اور کامل اجالے کا وقت ہوتا ہے ۔ بیشک تمام پاکیزگی اسی کو سزاوار ہے جو رات کے اندھیروں کو اور دن کے اجالوں کو پیدا کرنے والا ہے ۔ صبح کا ظاہر کرنے والا رات کو سکون والی بنانے والا وہی ہے ۔ اس جیسی آیتیں اور بھی بہت سی ہیں ۔ آیت ( وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا Ǽ۝۽ ) 91- الشمس:3 ) اور ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى Ǻ۝ۙ ) 92- الليل:1 ) ٰ ( اور ) ( وَالضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى Ǻ۝ۙ ) 93- الضحى:1-2 ) وغیرہ ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کا نام خلیل ( وفادار ) کیوں رکھا ؟ اس لئے کہ وہ صبح شام ان کلمات کو پڑھاکرتے تھے ۔ پھر آپ نے آیت ( فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ سے وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ 18؀ ) 30- الروم:18 ) تک کی دونوں آیتیں تلاوت فرمائیں ۔ طبرانی کی حدیث میں ان دونوں آیتوں کی نسبت ہے کہ جس نے صبح وشام یہ پڑھ لیں اس نے دن رات میں جو چیز چھوٹ گئی اسے پالیا ۔ پھر بیان فرمایا کہ موت وزیست کا خالق مردوں سے زندوں کو اور زندوں سے مردوں کو نکالنے والا وہی ہے ۔ ہر شے پر اور اس کی ضد پر وہ قادر ہے دانے سے درخت درخت سے دانے مرغی سے انڈہ انڈے سے مرغی نطفے سے انسان انسان سے نطفہ مومن سے کافر کافر سے مومن غرض ہر چیز اور اسکے مقابلہ کی چیز پر اسے قدرت حاصل ہے ۔ خشک زمین کو وہی تر کرتا ہے بنجر زمین سے وہی زراعت پیدا کرتا ہے جیسے سورۃ یاسین میں فرمایا کہ خشک زمین کا ترو تازہ ہو کر طرح طرح کے اناج وپھل پیدا کرنا بھی میری قدرت کا ایک کامل نشان ہے ۔ ایک اور آیت میں ہے تمہارے دیکھتے ہوئے اس زمین کو جس میں سے دھواں اٹھتاہو دوبوند سے تر کرکے میں لہلہادیتا ہوں اور ہر قسم کی پیداوار سے اسے سرسبز کردیتا ہوں ۔ اور بھی بہت سی آیتوں میں اس مضمون کو کہیں مفصل کہیں مجمل بیان فرمایا ۔ یہاں فرمایا اسی طرح تم سب بھی مرنے کے بعد قبروں میں سے زندہ کرکے کھڑے کردئیے جاؤ گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] یعنی مشرکین کے عقائد باطلہ سے اللہ کی تزیہہ بیان کرو۔ مشرکین اپنے عقائد باطلہ کی ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ اللہ اکیلا اس ساری کائنات کا انتظام کیسے سنبھال سکتا ہے لہذا ضروری ہے کہ وہ کچھ اختیارات دوسری ہستیوں کو تفویض کر دے۔ لہذا مسلمانوں کو حکم ہوا کہ وہ ایسے بیہودہ اور لچر عقائد سے اللہ کی پاکیزگی بیان کریں۔ اکثر مفسرین نے یہاں تسبیح سے مراد نماز لی ہے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ یہاں نمازوں کے اوقات بیان ہوئے ہیں۔ مشرکوں کی اکثریت ایسی ہری ہے جو انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات اور تاثیر کے قائل تھے۔ اور سورج کی تاثیر سے چونکہ تمام زمینی مخلوق متاثر ہوتی ہے۔ لہذا اسے معبود اکبر سمجھ کر مختلف رنگوں میں سورج کی اور آگ کی پوجا کی جاتی رہی ہے۔ سورج پرست عموماً طلوع آفتاب اور غروب کے وقت اس کی پرستش کرتے تھے۔ لہذا مسلمانوں کو حکم ہوا کہ ان اوقات کوئی فرض نماز تو کجا نفلی نماز بھی ادا نہ کی جائے۔ نیز سورج پرست سورج کی پوجا ان اوقات میں کیا کرتے تھے جب سورج مائل بہ عروج ہو۔ یعنی طلوع آفتاب سے نصف النہار تک۔ لہذا اس دوران کسی فریضہ نماز کا وقت مقرر نہیں کیا گیا۔ دو نمازیں تو اس وقت آتی ہیں جب سورج زوال پذیر ہو اور تین نمازیں اس وقت مقرر کی گئیں جبکہ سورج غائب ہوتا ہے۔ آیت نمبر ١٧ میں صبح اور شام کی نماز کا ذکر آگیا اور بعض کے نماز تُمْسُوْنَ میں شام اور عشاء دونوں شامل ہیں اور آیت نمبر ١٨ میں تیسرے پہر یعنی عصر کی نماز اور ظہر کی نماز کا ذکر آگیا۔ اور نماز بجائے خود اللہ کی تسبیح و تمہید کی بہترین شکل ہے۔ اور اگر ان دو آیات سے چار نمازوں کا ہی وقت سمجھا جائے تو سورة ہود کی آیت نمبر ١٤، بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٧٨ اور سورة طٰٰہٰ کی آیت نمبر ١٣٠ کو سامنے رکھا جائے تو قرآن سے ہی پانچ نمازوں کے اوقات کی صراحت ثابت ہوجاتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ : ” سُبْحَان اللّٰہِ “ فعل محذوف ” سَبِّحُوْا “ کا مفعول مطلق ہے۔ ” پس تم اللہ کی تسبیح کرو “ میں ” پس “ کا مطلب یہ ہے کہ جب تم جان چکے کہ ایمان اور عمل صالح والوں کا حال کیا ہوگا اور اللہ کی آیات کا انکار اور ان تکذیب کرنے والوں کا انجام کیا ہوگا، تو تم پر لازم ہے کہ جنت کے عالی شان باغوں میں جانے کے لیے اور عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو۔ اسے ہر شریک، ہر عیب اور ہر کمزوری سے پاک مانو۔ مشرکین و کفار اللہ کے شریک بنا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو قیامت قائم کرنے سے عاجز قرار دے رہے ہیں، تم ان سب باتوں سے اللہ تعالیٰ کے پاک ہونے کا اعلان کرو اور اس کی تسبیح کرو۔ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ ۔۔ : زبان اور عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے اظہار اور اعلان کی بہترین اور جامع صورت نماز ہے۔ اس لیے مفسرین نے یہاں تسبیح سے مراد نماز لی ہے اور یہاں اس کا واضح قرینہ بھی موجود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح تو دن رات کے ہر لمحے میں ہوسکتی ہے اور ہونی چاہیے، اس کے لیے اوقات مقرر کرنے کا مطلب یہی ہے کہ یہاں تسبیح کی خاص صورت کا حکم دیا جا رہا ہے، جو نماز پنج گانہ ہے۔ چناچہ ” حِيْنَ تُمْسُوْنَ “ (جب تم شام کرتے ہو) سے مغرب اور عشاء مراد ہیں، ” وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ “ (جب تم صبح کرتے ہو) سے صبح کی نماز مراد ہے، ” عشیا “ (پچھلے پہر) سے عصر کی نماز اور ” حین تظھرون “ (جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو) سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ یاد رہے نمازوں کے یہ اوقات اجمالاً بیان ہوئے ہیں، ان کے اول و آخر کی تعیین اور نمازوں کی ادائیگی کا طریقہ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بیان ہوا ہے، جس کے بغیر قرآن مجید کے حکم پر عمل ممکن ہی نہیں۔ قرآن مجید میں نمازوں کے اوقات کے بیان کے لیے سورة بنی اسرائیل (٧٨) ، ہود (١١٤) اور طٰہٰ (١٣٠) کی تفسیر پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَسُبْحَانَ اللَّـهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُ‌ونَ So, proclaim Allah&s purity when you see the evening and when you see the morning. And to Him be praise in the heavens and the earth, and in the afternoon and when you enter the time of Zuhr (soon after the decline of the sun towards West). (30:17-18) The word &subhan& (سُبْحَانَ ) is an infinitive which means &to declare the purity of someone from defects&. The phrase &subhanallah& (فَسُبْحَانَ اللَّـهِ ) is meant to proclaim Allah&s purity from all defects. To recite this phrase with this intention is called &tasbih&. But in general usage, the word &tasbih& often includes all forms of worship and remembrance of Allah, like salah, dhikr, etc. In the present verse, a verb is understood before the infinitive &subhan& which is meant to direct the addressees to make &tasbih& which, in its general sense, includes all forms of remembrance of Allah, and salah in particular, as explained above. In the light of this explanation, the present verse, in its beginning, enjoins upon its followers that they should remember Allah in the morning and evening, and at the end of the verse, it is instructed that they should remember Him at the other two times, عَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُ‌ونَ. One of these times is &ashiyy& (عَشِیّ ) which is the name of the last part of the day, and here it refers to the time of ` Asr; and the other time is when the sun starts declining towards West, that is Zuhr. In the sequence of the present verse, evening is mentioned before morning, and the end of the day (` Asr) is mentioned before Zuhr. One reason of precedence of evening over morning is that in Islamic calendar evening precedes the morning, and the date changes at the sunset (Maghrib). For precedence of ` Asr over zuhr one reason could be that at the time of ` Asr, which is also called the middle (wusta) prayer, people are generally busy in their work, and hence, it is rather difficult to offer prayer at that time. This is why there is greater emphasis in the Qur&an for offering ` Asr prayers حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ (Take due care of all the prayers, and the middle prayer, - 2:238) In the wordings of this verse the prayer (salah) is not specified as such. Hence, all types of worships, whether by actions or by word of mouth, are included in the meaning of the verse. Since prayer is supreme in all worships, it is included here on priority. It is for this reason that the scholars have stated that this verse has clearly described and defined the timings of the five prayers. Someone asked Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) whether the Qur&an has specifically mentioned about the five prayers? He answered in the affirmative, and quoted this verse as a proof. Then explaining his point, he said that the words,|" when you see the evening|" (حِین تُمسُونَ ) are for maghrib prayer, |"when you see the morning|" (حِینَ تُصبِحُونَ )for fajr prayer, |"in the afternoon|" (عَشِیَّا) for ` Asr prayer, |"and when you enter the time of zuhr|" (وَ حِینَ تُظھِرُون) for zuhr prayer. In this way, this verse has described the four prayers very clearly. As for the ` Isha& prayer, it is enjoined explicitly in the verse مِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ (After the prayer of ` Isha& - 24:58). Sayyidna Hasan Al-Basri (رح) has opined that the words, |"when you see the evening|" include both maghrib and ` Isha& prayers. Special Note This verse is the dhikr of Sayyidna Ibrahim (رض) which earned him the title of وَإِبْرَ‌اهِيمَ الَّذِي وَفَّىٰ (And Ibrahim who fulfilled his covenant - 53:37). Sayyidna Ibrahim used to recite these words in the morning and evening. It is reported from Sayyidna Mu` adh Ibn &Anas (رض) with authentic proofs that the reason behind awarding the title of &fulfilling his covenant& to Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was his recitation of this prayer. Abu Dawud, Tabarani and Ibn- us- Sunni have reported on the authority of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said about these two verses: فَسُبْحَانَ اللَّـهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ ﴿١٧﴾ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُ‌ونَ ﴿١٨﴾ يُخْرِ‌جُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِ‌جُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِي الْأَرْ‌ضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ وَكَذَٰلِكَ تُخْرَ‌جُونَ So, proclaim Allah&s purity when you see the evening and when you see the morning. And to Him be praise in the heavens and the earth, and in the afternoon and when you enter the time of Zuhur (soon after the decline of the sun towards West). He brings out the living from the dead and brings out the dead from the living, and gives life to the land after it is dead. And in similar way you will be brought out. (30:17-19) That whoever will recite them in the morning, all shortcomings in his acts during the day will be repaired; and whoever will recite these verses in the evening all shortcomings in his actions during the night will be repaired. (Ruh).

فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ ، وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ ، لفظ سـبْحٰنَ اللّٰهِ مصدر ہے، اس کا فعل محذوف ہے یعنی سبحوا اللہ سبحانا، حِيْنَ تُمْسُوْنَ ، یعنی جب تم شام کے وقت میں داخل ہو اور وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ ، یعنی جب تم پر صبح کا وقت آئے وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یہ جملہ درمیان میں بطور دلیل کے لایا گیا ہے کہ صبح شام اللہ کی تسبیح اس لئے ضروری ہے کہ آسمان و زمین میں صرف وہی مستحق حمد ہے اور تمام آسمان و زمین والے اس کی حمد کرنے میں مشغول ہیں اور جس طرح شروع آیت میں صبح شام کی تسبیح کا حکم ہے، آخر آیت میں عَشِـيًّا اور حِيْنَ تُظْهِرُوْنَ سے اور دو وقتوں میں تسبیح کرنے کا حکم دیا گیا ہے ایک وقت عَشِی جو دن کے آخری حصہ کو کہا جاتا ہے جو عصر کا وقت ہے دوسرا وقت ظہر یعنی بعد زوال آفتاب کے۔ اور ترتیب بیان میں جس طرح شام کو صبح سے مقدم کر کے بیان کیا گیا ہے اسی طرح دن کے آخری حصہ کو ظہر پر مقدم کر کے بیان کیا گیا ہے، شام یعنی رات کو مقدم کرنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی تاریخ میں رات مقدم ہوتی ہے اور تاریخ غروب آفتاب سے بدلتی ہے اور عشی یعنی وقت عصر کو ظہر سے مقدم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عصر کا وقت عموماً کاروبار کی مشغولیت کا وقت ہوتا ہے، اس میں کوئی دعا تسبیح یا نماز عادة مشکل ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں صلوة وسطی جس کی تفسیر جمہور کے نزدیک نماز عصر ہے، اس کی خصوصی تاکید آئی ہے۔ حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى۔ آیت مذکورہ کے الفاظ میں نماز یا صلوة کی تصریح نہیں۔ اس لئے ہر قسم کے ذکر اللہ قولی اور عملی کو شامل ہے، جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں بیان کیا گیا ہے اور ذکر اللہ کی تمام اقسام میں چونکہ نماز سب سے اعلی اور افضل ہے، اس لئے وہ اس میں بدرجہ اولی داخل ہے۔ اسی لئے علماء نے کہا ہے کہ اس آیت میں پانچوں نمازوں کا مع ان کے اوقات کے ذکر آ گیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس سے کسی نے دریافت کیا کہ کیا قرآن میں پانچ نمازوں کا ذکر صریح ہے ؟ تو فرمایا ہاں ! اور استدلال میں یہی آیت پیش کر کے فرمایا کہ حِيْنَ تُمْسُوْنَ میں نماز مغرب اور حِيْنَ تُصْبِحُوْنَ میں نماز فجر اور عَشِـيًّا میں نماز عصر اور حِيْنَ تُظْهِرُوْنَ میں نماز ظہر کا ذکر صریح موجود ہے۔ اب صرف ایک نماز عشاء رہی، اس کے ثبوت میں دوسری آیت کا جملہ ارشاد فرمایا مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَاۗءِ ۔ اور حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ حِيْنَ تُمْسُوْنَ میں نماز مغرب و عشاء دونوں داخل ہیں۔ فائدہ عظیمہ : یہ آیت حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوة والسلام کی وہ دعا ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم نے ان کو دعائے عہد کا خطاب دیا ہے، ارشاد فرمایا وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ کلمات صبح شام پڑھا کرتے تھے۔ جیسا کہ اسانید صحیحہ کے ساتھ حضرت معاذ بن انس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعریف وفاء عہد سے کرنے کا سبب ان کی یہ دعا تھی۔ اور ابو داؤد، طبرانی، ابن سنی وغیرہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ ، وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ ، يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَيُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَ آ وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ ، ان دو آیتوں کے متعلق فرمایا کہ جس شخص نے صبح کو یہ کلمات پڑھ لئے تو دن بھر میں اس کے عمل میں جو کوتاہی ہوگی وہ ان کلمات کی برکت سے پوری کردی جائے گی اور جس نے شام کے وقت یہ کلمات پڑھ لئے تو اس کے رات کے اعمال کی کوتاہی اس کے ذریعے پوری کردی جائے گی۔ (روح)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَسُـبْحٰنَ اللہِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ۝ ١٧ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ حين الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] ( ح ی ن ) الحین ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔ صبح الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو تم مغرب و عشاء اور صبح کی نماز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کیا کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22 "So", here, implies: "When you have come to know the good results of belief and righteous acts and the evil consequences of disbelief and denial of the Truth, you should adopt the following conduct." It also means: "By holding the life Hereafter to be impossible, the polytheists and disbelievers are, in fact, holding AIIah to be helpless. Therefore, as against them, you should glorify Allah, and proclaim that He is free from this weakness." This Command has been addressed to the Holy Prophet and through him to all the believers. 23 "To glorify Allah" means to proclaim Allah's being free from and exalted above the defects and faults and weaknesses, which the mushriks ascribe to Him due to their shirk and denial of the Hereafter. The best form of this proclamation and expression is the Prayer. That is why Ibn 'Abbas; Mujahid, Qatadah, lbn Zaid and other commentators say that here "to glorify" means to offer the prescribed Prayer. A clear indication in favour of this commentary is contained in the verse itself. It lays down certain definite times for the glorification of Allah. Evidently, if it was meant to instil the belief that Allah is free from all defects and weaknesses, there should be no question of the restriction of the times of the morning and evening, and the early and late afternoon, for a Muslim should always have this belief. Similarly, if it was meant to teach. glorifying Allah merely verbally, it' should be meaningless to specify the tunes, for a Muslim should express Allah's glory at all times. Therefore, inevitably the Command to glorify Allah with the restriction of the times points to its particular practical form which is none other than the Prayer.

سورة الروم حاشیہ نمبر : 22 یہ پس اس معنی میں ہے کہ جب تمہیں یہ معلوم ہوگیا کہ ایمان و عمل صالح کا انجام وہ کچھ اور کفر و تکذیب کا انجام یہ کچھ ہے تو تمہیں یہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیے ۔ نیز یہ پس اس معنی میں بھی ہے کہ مشرکین و کفار حیات اخروی کو ناممکن قرار دے کر اللہ تعالی کو دراصل عاجز و درماندہ قرار دے رہے ہیں ۔ لہذا تم اس کے مقابلہ میں اللہ کی تسبیح کرو اور اس کمزوری سے اس کے پاک ہونے کا اعلان کرو ۔ اس ارشاد کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے واسطے سے تمام اہل ایمان ہیں ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 23 اللہ کی تسبیح کرنے سے مراد ان تمام عیوب اور نقائص اور کمزوریوں سے ، جو مشرکین اپنے شرک اور انکار آخرت سے اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، اس ذات بے ہمتاکے پاک اور منزہ ہونے کا اعلان و اظہار کرنا ہے ۔ اس اعلان و اظہار کی بہترین صورت نماز ہے ۔ اسی بنا پر ابن عباس ، مجاہد ، قتادہ ، ابن زید ( رضی اللہ عنہم ) اور دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں تسبیح کرنے سے مراد نماز پڑھنا ہے ۔ اس تفسیر کے حق میں یہ صریح قرینہ خود اس آیت میں موجود ہے کہ اللہ کی پاکی بیان کرنے کے لیے اس میں چند خاص اوقات مقرر کیے گئے ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ اگر محض یہ عقیدہ رکھنا مقصود ہو کہ اللہ تمام عیوب و نقائص سے منزہ ہے تو اس کے لیے صبح و شام اور ظہر و عصر کے اوقات کی پابندی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ، کیونکہ یہ عقیدہ تو مسلمان کو ہر وقت رکھنا چاہیے ۔ اسی طرح اگر محض زبان سے اللہ کی پاکی کا اظہار مقصود ہو ، تب بھی ان اوقات کی تخصیص کے کوئی معنی نہیں ، کیونکہ یہ اظہار تو مسلمان کو ہر موقع پر کرنا چاہیے ۔ اس لیے اوقات کی پابندی کے ساتھ تسبیح کرنے کا حکم لا محالہ اس کی ایک خاص عملی صورت ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اور یہ عملی صورت نماز کے سوا اور کوئی نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧ تا ٢٦۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ ہمارے نام کی تسبیح ایک تو شام کے قوقت اور صبح کے وقت کیا کرو پھر فرمایا کیوں کہ اسی کے لیے حمد اور تعریف ہے آسمانوں میں اور زمین میں مطلب یہ کہ آسمان اور زمین اور جو اور ان کے درمیان میں ہیں اس سب کے پیدا کرنے کی وجہ سے ان سب کی زبان سے خدا تعالیٰ حمد کرنے کا مستحق ہے پھر اللہ تعالیٰ نے عشا اور ظہر کے وقت تسبیح کرنے کو فرمایا عشا سخت اندہیرے کو اور ظہر بڑی روشنی کو کہتے ہیں ان دونوں وقتوں کی بڑائی کا ذکر قرآن میں کئی جگہ آیا ہے پھر فرمایا نکالتا ہے اللہ زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے جس طرح انڈے کو مرغی سے اور مرغی کو انڈے سے آدمی کو نطفہ سے اور نطفہ کو آدمی سے پھر فرمایا اللہ زندہ کرتا زمین کے بعد مرنے کے پھر فرمایا کہ جس طرح تم زمین کا مرنا جینا دیکھتے ہو اسی طرح تم بعد مرنے کے زندہ کئے جاؤ گے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا تسبیح کا لفظ جہاں قرآن میں ہے وہ نماز کے معنوں میں ہے اور یہ بھی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ١ ؎ ہے کہ اس آیت میں سب نمازوں کے وقتوں کو جمع کرلیا ہے اس طرح پر کہ حین تمسون میں مغرب اور عشا آگئی اور حین تصبحون میں فجر اور عشا میں عصر اور حین تظھرون میں ظہر حاصلؔ مطلب آیت یخرج الحی من المنیت کا یہ ہے کہ جس میں زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے کی قدرت ہے اس کی قدرت میں پہلی بار پیدا کرنا اور پھر اس کا دوہرانا برابر ہے کچھ بھی فرق دونوں میں نہیں ہے اور اس خدا کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمارے باپ آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا پھر ناگہاں تم آدمی بن کر زمین میں پھیل پڑے اس سے سمجھ لو کہ اصل تماری اول مٹی سے ہے پھر ایک ناچیز پانی سے معتبر سند سے مسند امام احمد ترمذی ابوداؤد اور صحیح ابن حبان میں ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو ایک مٹھی مٹی سے جو ساری زمین سے لی گئی تھی پیدا کیا ہے اس لیے اولاد آدم میں کوئی گوارا ہے کوئی کالا کوئی بد کوئی نیک کوئی نرم کوئی سخت مزاج پھر فرمایا کہ خدا کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری قسم میں سے بیویاں پیدا کیں وہ تمہارا جوڑا اور بیبیاں ہوئیں تاکہ تم کو آرام اور چین ہو اگر بیبیاں غیر جنس سے ہوتیں تو بجائے محبت کے نفرت اور بجائے آرام کے تکلیف ہوتی ہے اسی واسطے تمہاری عورتیں تمہاری قسم سے بنائیں اور ان میں اور تم میں تمہاری محبت اور رحمت ڈال دی بیشک اس کے اندر بہت نشانیاں ہیں اس قوم کے لیے جو دھیان کرتے ہیں پھر فرمایا اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا ہے آسمان کو کیسا بلند اور فراخ بنایا ستاروں سے اس کو رونق بخشی اور دنیا کی چھت اس کو قرار دیا زمین کو کیسا پست کیا اور اس کے اندر پہاڑ ‘ میدان دریا ‘ سمندر ‘ درخت غرض انسان کی ضرورت کی چیزیں پیدا کیں جس سے خدا کی قدرت ظاہر ہوتی ہے اور تمہاری زبانوں کا اختلاف ہر ہر ملک کی جدا جدا بولی ہے اسی طرح تمہارے رنگ صورتیں علیحدہ علیحدہ ہیں ایک کا چہرہ دوسرے کے چہرہ سے نہیں ملتا پھر بھی اس کی قدرت کی بڑی نشانی سمجھ داروں کے لیے ہے اور یہ بھی خدا کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے کہ رات میں تمہارے لیے نیند کو بنا دیا جس کے سبب سے تم کو راحت ملتی ہے دن میں ادھر ادہر پھر کر معاش کے اسباب ڈھونڈتے ہوتے ہو اور دور دور کے دریا اور خشکی میں سفر کرتے ہو ان باتوں میں قرآن کی نصیحت کو جو دل سے سنتے ہیں انہیں بہت نشانیاں ہیں اور اس کی قدرت کی ایک نشانی یہ ہے کہ کہ وہ تم کو بجلی دکھلاتا ہے کہ کبھی تم ہیبت ناک بادل اور بجلی کی کڑک سے ڈر جاتے ہو اور کبھی بارش کی امید رکھتے ہو اور نازل کرتا ہے آسمان سے پانی۔ پھر جلاتا ہے بہ سبب اس کے زمین کو زمین کے مرنے سے مراد اس کا خشک ہوجانا ہے کہ گھاس تک اس میں نہ تھی جب اس پر مینہ بر ساتو لہٰذا لانے لگی اور ہر جنس کی چیز اس میں پیدا ہوئی یہی اس کا جینا ہے اس میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سمجھ رکھتے ہیں اور خدا کی قدرت کی ایک نشانی یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے کھڑے ہیں آسمان کو زمین پر گرنے سے خدا نے روک رکھا ہے بغیر اس کے حکم کے گر نہیں سکتا پھر فرمایا اب تو اللہ کی قدرت کی یہ سب نشانیاں دیکھ کر تم لوگ حشر کے منکر ہو لیکن جب تمہارے مرجانے کے بعد تمہارا پروردگار تم کی نیک وبد کے حساب کے لیے زندہ کرنا چاہے گا تو ناگہاں تم اسی وقت قبروں سے نکل پڑو گے پھر فرمایا کہ آسمان اور زمین میں جو کوئی ہے سب اسی کی ملک ہے اور سب اسی کے حکم کے فرما نبردار ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جب آسمان و زمین میں کوئی اس کے حکم کو ٹال نہیں سکتا تو ان منکرین حشر کی کیا طاقت ہے کہ یہ حشر کے حکم کو ٹال دیویں۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) اور ابوسعید خدری (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ١ ؎ ہے جس میں ایک شخص نے وصیت کی تھی کہ اس کے مرجانے کے بعد اس کی لاش کو جلا کر آدھی مٹی دریا میں بہادی جائے اور آدھی ہوا میں اڑا دی جائے اس شخص کے مرجانے کے بعد اس کے وارثوں نے وصیت کے موافق عمل کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے جنگل اور دریا کو اس مٹی کے جمع کرنے کا حکم دیا اور جھٹ پٹ وہ مٹی جمع ہوگئی اور حکم الٰہی سے اس کا پتلہ بن کر تیار ہوگیا اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں جو بیان کی ہیں ان کو بھول کر اپنی نادانی سے منکرین حشر یہ کو کہتے ہیں کہ جب مردہ کی مٹی جنگل اور دریا میں رواں دواں ہوگئی تو پھر وہ مٹی کیوں کر جمع ہوگی اور اس کا پتلہ کیوں کر بنے گا ان لوگوں کو یہ یاد ہے کہ جنگل دریا کوئی چیز اس کے حکم سے باہر نہیں ہے جب وقت آوے گا یہ لوگ دیکھ لیویں گے کہ اس وصیت والے شخص کی طرح کیوں کر ان کی رواں دواں مٹی جمع ہوجاوے گی اور کس طرح سے اس کا پتلہ بن کر تیار ہوجاوے گا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دوسرے صور سے پہلے ایک مہینہ برسے گا جس سے سب پتلے بن کر تیار ہوجائیں گے یہ حدیث و کذالک تخرجون کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح اب مینہ کی تاثیر سے ہر ایک چیز زمین میں پیدا ہوتی ہے اسی طرح حشر کے دن جو مینھ برسے گا اس کی تاثیر سے تمہارے جسم بن کر تیار ہوجاویں گے اور ان جسموں میں روحیں پھونک دی جاویں گی اور حشر قائم ہوجاوے گا۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٥٤ ج ٥۔ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ مع تنقیح الرواۃ باب الایمان بالقدر فصل دوسری۔ ) (١ ؎ بحوالہ مشکوۃ ص ٢٠٧ باب باب الاستغفار والتوبۃ)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:17) فسبحن اللہ : ف ترتیب کا ہے ماقبل پر مابعد کی ترتیب کے لئے۔ سبحان مدر ہے اور بوجہ مصدر منصوب ہے اس سے فعل نہیں آتا ۔ اس کی اضافت فعل مفرد کی طرف لازم ہے خواہ وہ اسم ظاہر ہو جیسے سبحان اللہ یا اسم ضمیر ہو جیسے سبحنہ یہ صرف خدا کی شان میں آتا ہے اور اس کے معنی ہیں پاکی بیان کرنا۔ آیت ہذا میں اس سے قبل فعل امر محذوف ہے ای فسبحوا سبحان اللہ پس تم تسبیح پڑھو سبحان اللہ (اس صورت میں سبحان اللہ کا نصب بوجہ امر کے بھی ہوسکتا ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنت کے حصول اور جہنم سے بچنے کا مؤثر ترین ذریعہ ” رب “ کے حضور نماز پڑھنا اور اس کا ثنا خواں رہنا ہے۔ کفار ” اللہ “ کی ذات کے منکر اور اس کے احکام اور ملاقات کو قولاً اور فعلاً جھٹلانے والے ہیں۔ جس وجہ سے جہنم میں جھونکے جائیں گے۔ جہنم سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ پر سچا ایمان لایا جائے اور اس کے احکام کی تعمیل کی جائے جس کا عملی مظاہرہ یہ ہے کہ آدمی صبح، شام، سہ پہر اور ظہر کے وقت اپنے رب کو یاد کرے یہ اس لیے بھی لازم ہے کہ زمین کا ذرّہ ذرّہ اور آسمانوں کا چپہ چپہ اپنے رب کی حمد بیان کرنے میں لگا ہوا ہے۔ گویا کہ انسان کے گردوپیش اور اوپر نیچے کا ماحول اپنے رب کا ثناخواں ہے۔ جس سے یہ بات لازم ہوجاتی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اوقات میں اسے یاد کرے۔ اس لیے پنجگانہ نماز فرض قرار پائی جو اللہ تعالیٰ کی یاد کا بہترین ذریعہ اور طریقہ ہے۔ ظاہر ہے یہ کام وہی شخص کرے گا جو اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان، اس کے احکام کی تعمیل اور قیامت کے دن کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے، قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز کے لیے ” اَقِیْمُوْا “ کا لفظ آیا ہے سورة کوثر میں ” فَصَلِّ “ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا صاف معنٰی ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کو یاد کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، جاہل صوفی اور حدیث رسول کے منکر یہ کہہ کر نماز کا انکار کرتے ہیں کہ اصل چیز اللہ کو یاد کرنا ہے اگر مسنون طریقہ کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حالانکہ تمام صحابہ کرام (رض) نے صبح وشام، ظہر اور عصر کے وقت تسبیح پڑھنے سے مراد فجر، ظہر، عصر اور مغرب کی نماز لی ہے۔ اس آیت مبارکہ کی روشنی میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کے اوقات مقرر فرمائے ہیں۔ ” حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم ہمارے ساتھ دو دن نمازیں ادا کرو۔ پہلے دن جب سورج ڈھلا ہی تھا تو بلال کو اذان کا حکم دیا۔ اس کے بعد اقامت ظہر ہوئی پھر بلال (رض) کو نماز عصر کی اقامت کا حکم فرمایا جبکہ سورج کافی بلند اور دھوپ تیز تھی پھر سورج غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز کھڑی فرمائی ابھی سورج کی سرخی ختم ہونے ہی پائی تھی تو عشاء کی نماز قائم کرنے کا حکم فرمایا۔ پھر صبح کی نماز کا حکم دیاجب کہ فجرا بھی نمودار ہوئی تھی۔ جب دوسرا دن ہوا تو بلال (رض) کو نماز ظہر ٹھنڈی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس نے خوب ٹھنڈے وقت میں اذان کہی۔ نماز عصر تاخیر سے ادا فرمائی لیکن سورج ابھی بلندی پر تھا۔ نماز مغرب سورج کی روشنی کے آثار ختم ہونے سے پہلے ادا کی۔ جب رات کا تیسرا حصہ گزر گیا تو نماز عشا ادا کی گئی، نماز فجر اس وقت ادا کی جب صبح کی روشنی خوب پھیل چکی تھی۔ اب ارشاد ہوا کہ نمازوں کے اوقات پوچھنے والا کہاں ہے ؟ وہ عرض کرتا ہے کہ اللہ کے رسول میں حاضر ہوں۔ فرمایا تمہاری نمازوں کے وقت ان اوقات کے درمیان ہیں۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلٰوۃ ] تسبیح کی فضیلت : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِِ ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بھاری ہیں۔ مسائل ١۔ نماز ” اللہ “ کی تسبیح کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ ٢۔ زمین وآسماں اور ہر چیز اپنے رب کی حمد بیان کرتی ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن میں نماز کے اوقات : ١۔ نماز قائم کرو سورج کے ڈھلنے سے لیکر رات تک اور فجر کے وقت قرآن پڑھا کرو۔ (بنی اسرائیل : ٧٨) ٢۔ دن کے دونوں سروں یعنی صبح شام اور رات کی ساعات میں نماز پڑھا کرو۔ (ہود : ١١٤) ٣۔ اللہ کی تسبیح صبح شام بیان کرو اور تیسرے پہر بھی اور جب دوپہر ہو تب بھی۔ (الروم : ١٧۔ ١٨) ٤۔ سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اللہ کی تسبیح بیان کریں رات کے کچھ اوقات میں اور نماز کے بعد بھی۔ (ق : ٣٩۔ ٤٠) ٥۔ سورج نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کے اوقات میں اور دن کے اطراف میں تسبیح وتحمید بیان کریں۔ (طٰہٰ : ١٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تسبیح کا یہ حکم اور حمد سابق فقرات و آیات میں بیان کردہ مشاہد قیامت کے بعد آتا ہے جس میں بتایا گیا کہ اہل ایمان جنت کے ایک مخصوص باغ میں خوش و خرم ہوں گے۔ اور کافر اور جھٹلانے والے ، عذاب اور سزا کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ تو یہ تسبیح دراصل بطور نتیجہ یہاں لائی گئی ہے اور سابقہ مناظر قیامت دراصل اس مطالعہ کائنات کے لئے تمہید تھے کہ یہ وسیع کائنات اور اس کے نشیب و فرار ، نفس انسانی اور اس کی نفسیات و عجائبات اور اللہ کی یہ تخلیق اور اس کے اسرار و رموز یہ سب لایعنی نہیں ہیں۔ ان پر قیامت کے نتائج مرتب ہوں گے۔ پس سابقہ مناظر قیامت اور موجودہ مطالعہ کائنات کے اندر مکمل ربط و مناسبت ہے یہاں تسبیح اور حمد کے لیے کچھ اوقات بھی مقرر کیے گئے ہیں۔ شام کے اوقات میں اور صبح کے مناظر میں ، پچھلے پہر اور پہلی پہر میں۔ پھر اس حمد و تسبیح کو آفاق سماوات کے ساتھ بھی جوڑا گیا تاکہ زمان و مکان کے فاصلے مٹا کر اس حمد و تسبیح کو ہمہ گیر بنا دیا جائے اور انسان کا دل ہر وقت اور ہر جگہ اللہ کے ساتھ جڑا رہے۔ وہ اس کائنات کے ڈھانچے ، کر ات سماوی کی گردش اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مظاہر صبح و مساء کے مظاہر کو دیکھ کر انسان ہر لمحہ اللہ کو یاد کرے۔ اس کا دل کھلا رہے ، حساس رہے ، اور اپنے ماحول کے حوالے سے بیدار رہے۔ اپنے بدلتے ہوئے حالات میں ماحول کا مشاہدہ کرتا رہے اور اللہ کی حمد و تسبیح کے ساتھ یہ غور و فکر جاری رہے۔ اور ان تمام امور کو اللہ اور خالق کائنات کی آیات و معجزات سمجھے۔ یہ تمام حالات ، تمام مظاہر ، اور تمام اوقات دراصل ایک معجزہ پروردگار ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

صبح و شام اور دن کے پچھلے اوقات میں اللہ کی تسبیح کرنے کا حکم اس کے بعد اللہ تعالیٰ شانہ کی پاکی بیان کرنے کا حکم دیا کہ شام کے وقت اور صبح کے وقت اور دن کے پچھلے اوقات میں اور ظہر کے وقت اللہ کی پاکی بیان کرو، اوقات مذکورہ میں اللہ کی تسبیح اور تنزیہ بیان کرنے کا حکم دیتے ہوئے درمیان میں یہ بھی فرما دیا کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ تعالیٰ ہی کی حمد ہے، یعنی آسمانوں میں فرشتے اور زمین میں اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتے ہیں اور جو لوگ اہل کفر ہیں ان کا وجود ہی اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے کے لیے کافی ہے گو زبان سے اس کی حمد بیان نہ کرتے ہوں، جیسا کہ سورة النور میں فرمایا (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰفّٰتٍ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلاَتَہُ وَتَسْبْیْحَہٗ ) (کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں اور پرندے بھی جو پر پھیلائے ہوئے ہیں، ہر ایک نے اپنی نماز اور تسبیح کو جان لیا ہے) یوں تو ہر وقت ہی اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید میں مشغول رہنا چاہیے لیکن چونکہ یہ اوقات تجدد نعمت اور آثار قدرت ظاہر ہونے کے خصوصی اوقات ہیں اس لیے ان میں تسبیح کا حکم دیا گیا ہے۔ صاحب روح المعانی جلد ٢١ ص ٢٨ پر تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا کہ قرآن مجید میں پانچ نمازوں کا کس جگہ ذکر ہے ؟ تو انہوں نے یہ آیت پڑھ کر بتایا کہ (تُمْسُوْنَ ) سے مغرب کی نماز، اور (تُصْبِحُوْنَ ) سے صبح کی نماز اور (عَشِیًّا) سے عصر کی نماز (تُظْھِرُوْنَ ) سے ظہر کی نماز مراد ہے۔ اس طرح آیت شریف میں چار نمازوں کا ذکر آگیا اور پانچویں نماز ثابت کرنے کے لیے انہوں نے سورة النور کی ایک آیت کا یہ حصہ پڑھ دیا (وَمِنْ بَعْدِ صَلاَۃِ الْعِشَاءِ ) اور ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ لفظ (تُمْسُوْنَ ) ہی سے مغرب اور عشاء دونوں مراد ہیں، اور اسی آیت سے پانچوں نمازوں کو ثابت کردیا۔ نماز چونکہ افضل الاعمال ہے اور سراپا اللہ کے ذکر پر مشتمل ہے اس لیے ان اوقات میں عام ذکر کے علاوہ فرض نمازوں کا اہتمام کرنے کا بھی خصوصیت کے ساتھ حکم فرمایا۔ حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ پانچ نمازیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فرض فرمائی ہیں، جس نے ان نمازوں کو اچھی طرح ادا کیا اور ان کو بروقت پڑھا اور ان کا رکوع اور سجدہ پورا کیا ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کا عہد ہے کہ اس کی مغفرت فرما دے گا، اور جس نے ایسا نہ کیا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد نہیں اگر چاہے تو اس کی مغفرت فرما دے اور چاہے تو اسے عذاب دے (رواہ احمد و ابو داؤد کما فی المشکوٰۃ ص ٥٨) لفظ ” عشی “ عربی زبان میں زوال سے لے کر غروب آفتاب کے لیے بولا جاتا ہے جس کا ترجمہ ہم نے ” دن کے پچھلے اوقات “ کیا ہے۔ آیت شریف میں یہ لفظ (وَّ حِیْنَ تُظْھِرُوْنَ ) سے پہلے آیا ہے اور اس سے عصر کا وقت مراد لیا ہے۔ بعض اکابر نے اس میں یہ نکتہ بتایا ہے کہ نماز عصر چونکہ صلوٰۃ وسطیٰ ہے اور اس کی ادائیگی کے لیے خاص تاکید وارد ہوئی ہے اور چونکہ یہ وقت عموماً کاروبار کا ہوتا ہے اور اس میں مشغولیت کی وجہ سے نماز کی طرف سے غافل ہوجاتے ہیں (جیسا کہ بازاروں میں دیکھا جاتا ہے کہ عام حالات میں نمازوں کا اہتمام کرنے والے بھی نماز کو چھوڑ بیٹھے ہیں) اس لیے اس کا ذکر مقدم فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ فاء فصیحہ ہے اور یہ ابتدائے سورت سے متعلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ توحید کی وجہ سے تمہیں کفار پر غلبہ ضرور عطا کرے گا لہذا تم اللہ تعالیٰ کو شریکوں سے پاک سمجھو اور پنج وقتہ نمازوں میں اس کی تسبیح و تقدیس بیان کرو۔ فسبحن اللہ اگرچہ لفظًا جملہ انشائیہ ہے کیونکہ اصل میں فسبحوا سبحانا تھا لیکن معنی خبریہ ہے بقرینہ ولہ الحمد لاخ اور مطلب یہ ہوگا کہ دلائل مذکورہ کی وجہ سے ان اوقات میں شرک سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ و تقدیس ظاہر ہو رہی ہے یا یہ دونوں جملے ہی انشائیہ ہیں۔ فسبحن اللہ کا انشائیہ ہونا تو ظاہر ہے اور جملہ لہ الحمد اگرچہ لفظًا خبر ہے لیکن معنی انشاء ہے کیونکہ اس سے زمین و آسمان کے باسیوں کو اللہ کی حمد و ثنا کرنے کا حکم دینا مقصود ہے۔ لہ الحمد و ان کانت خبریۃ الا ان الاخبار بثبوت الحمد لہ تعالیٰ ووجوبہ علی المیزین من اھل السموات والارض فی معنی الامر بہ علی ابلغ وجہ فکانہ قیل فسبحو اللہ تعالیٰ تسبیحہ اللائق بہ سبحانہ فی ھذہ الاوقات واحمدوہ (روح ج 21 ص 28) ۔ مفسرین کرام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں پانچوں نمازیں مذکور ہیں اور حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ قرآن مجید میں پانچوں نمازوں کا یکجا ذکر صرف اسی جگہ ہے۔ اتفق المفسرون علی ان الخمس داخلۃ فی ھذہ الایۃ و عن ابن عباس ما ذکرت الخمس الا فیھا (بحر ج 7 ص 166) ۔ حین تمسون میں مغرب اور عشاء، حین تصبحون میں صبح، عشیا میں عصر اور حین تظہرون، میں ظہر کی نماز کا ذکر ہے۔ (بحر، مدارک، روح وغیرہ) ۔ سورة عنکبوت میں (واقم الصلوۃ) (رکوع 5) فرمایا تھا ان آیتوں میں اس کی تفصیل فرما دی۔ یہاں یہ شبہہ کیا جاتا ہے کہ ان آیتوں میں نماز کا تو کوئی ذکر ہی نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تسبیح سے نماز ہی مراد ہے کیونکہ نماز اول سے آخرت تک قولاً و فعلاً اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس پر مشتمل ہے اسی لیے قرٓان میں اکثر نماز کو تسبیح سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مثلا و سبحوہ بکرۃ واصیلا (احزاب رکوع 6) ۔ و سبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس و قبل غروبہا (طہ رکوع 7) ۔ سورة عنکبوت میں اقم الصلوۃ کی تعبیر اختیار کی گئی اور یہاں فسبحن اللہ الخ سے اس مضمون کو ادا کیا گیا۔ ولہ الحمد الخ یعنی زمین و آسمان میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو تمام صفات کارسازی سے متصف ہے اور ان صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

17۔ سو تم لوگ جب شام کرو اور جب صبح کرو تو اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرو اور پاک اللہ کو یاد کرو جب شام کرو اور جب صبح کرو یعنی ان اوقات میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی پاکی بیان کیا کرو اور سب سے بہتر اس کی یاد اور پاکی نماز میں ادا ہوتی ہے تو مطلب یہ ہے کہ صبح ، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھا کرو۔