Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 18

سورة الروم

وَ لَہُ الۡحَمۡدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ عَشِیًّا وَّ حِیۡنَ تُظۡہِرُوۡنَ ﴿۱۸﴾

And to Him is [due all] praise throughout the heavens and the earth. And [exalted is He] at night and when you are at noon.

تمام تعریفوں کے لائق آسمان و زمین میں صرف وہی ہے تیسرے پہر کو اور ظہر کے وقت بھی ( اس کی پاکیزگی بیان کرو )

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ ... And His is all the praise in the heavens and the earth; meaning, He is the One who is to be praised for what He has created in the heavens and on earth. Then Allah says: ... وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ and in `Ashiyya and when Tuzhirun. -- the `Ashiyy is the time when the darkness is most intense, and Izhar is the brightest point of the day. Glory be to the One Who created both of them, the Cleaver of the daybreak and the One Who makes night a time of rest. Allah says: وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّـهَا وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشَـهَا By the day as it shows up its brightness. By the night as it conceals it. (91:3-4) وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى By the night as it envelops. By the day as it appears in brightness. (92:1-2) وَالضُّحَى وَالَّيْلِ إِذَا سَجَى By the forenoon (after sunrise). By the night when it darkens. (93:1-2) And there are many similar Ayat.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی ذات مقدسہ کے لئے تسبیح وتحمید ہے، جس سے مقصد اپنے بندوں کی رہنمائی ہے کہ ان اوقات میں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور جو اس کے کمال قدرت و عظمت پر دلالت کرتے ہیں، اس کی تسبیح وتحمید کیا کرو۔ شام کا وقت رات کی تاریکی کا پیش خیمہ اور سپیدہ سحر دن کی روشنی کا پیامبر ہوتا ہے۔ عشاء شدت تاریکی کا اور ظہر خوب روشن ہوجانے کا وقت ہے۔ پس وہ ذات پاک ہے جو ان سب کی خالق اور جس نے ان تمام اوقات میں الگ الگ فوائد رکھے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تسبیح سے مراد، نماز ہے اور دونوں آیات میں مذکور اوقات پانچ نمازوں کے اوقت ہیں۔ تمسون میں مغرب و عشاء، تصبحون میں نماز فجر، عشیا (سہ پہر) میں عصر اور تظہرون میں نماز ظہر آجاتی ہے۔ ایک ضعیف حدیث میں ان دونوں آیات کو صبح وشام پڑھنے کی یہ فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اس سے شب و روز کی کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : اس آیت میں ” وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ “ کا تعلق ” فسبحن اللہ “ کے ساتھ ہے۔ مسلسل عبارت یوں ہے : ” فَسُبْحَان اللّٰہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ وَ عَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْھِرُوْنَ ۔ “ ” وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ “ کا جملہ درمیان میں معترضہ ہے، یعنی صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ ہر خوبی کا مالک بھی وہی ہے، آسمانوں میں اور زمین میں جہاں بھی خوبی کی کوئی بات ہے اس خوبی کا مالک اور اس پر حمد کا حق دار اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ سو تسبیح کے ساتھ تحمید کا فریضہ بھی ادا کرو۔ 3 نمازوں کے یہ پانچوں اوقات نظام عالم میں روزانہ برپا ہونے والی پانچ تبدیلیوں کے مطابق رکھے گئے ہیں۔ شام کو آفتاب عالم تاب غروب ہوتا ہے، دن کی حکومت ختم ہوتی ہے، اس وقت نماز مغرب کا حکم ہے، پھر عشاء تک شفق کا راج ہوتا ہے۔ شفق غروب ہونے کے ساتھ سورج کا بقیہ اثر بھی ختم ہو کر رات کا اندھیرا مکمل ہوجاتا ہے، جس پر عشاء کی نماز کا حکم ہے۔ طلوع فجر کے ساتھ رات اپنا دامن سمیٹتی ہے، اس وقت فجر کی نماز کا حکم ہے۔ پھر سورج کی روشنی اور گرمی جب اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو ظہر کا حکم ہے اور آفتاب کی حرارت اور روشنی کمال کے بعد زردی میں بدلنا شروع ہوتی ہے تو عصر کی نماز کا حکم ہے۔ گویا ہر انقلاب عالم پر انقلاب لانے والے کے حضور سجدہ ریز ہونے کا حکم ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَہُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْہِرُوْنَ۝ ١٨ حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ عشا العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات/ 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، ( ع ش ی ) العشی زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔ العشاء ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔ ظَاهَرَ وظَهَرَ الشّيءُ أصله : أن يحصل شيء علی ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفی، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفی، ثمّ صار مستعملا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصیرة . قال تعالی: أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ، إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] ، يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] ، أي : يعلمون الأمور الدّنيويّة دون الأخرويّة، والعلمُ الظَّاهِرُ والباطن تارة يشار بهما إلى المعارف الجليّة والمعارف الخفيّة، وتارة إلى العلوم الدّنيوية، والعلوم الأخرويّة، وقوله : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] ، وقوله : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] ، أي : كثر وشاع، وقوله : نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] ، يعني بالظَّاهِرَةِ : ما نقف عليها، وبالباطنة : ما لا نعرفها، وإليه أشار بقوله : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] ، وقوله : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] ، فقد حمل ذلک علی ظَاهِرِهِ ، وقیل : هو مثل لأحوال تختصّ بما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، وقوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] ، أي : لا يطلع عليه، وقوله : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] ، يصحّ أن يكون من البروز، وأن يكون من المعاونة والغلبة، أي : ليغلّبه علی الدّين كلّه . وعلی هذا قوله : إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] ، وقوله تعالی: يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] ، فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] ، وصلاة الظُّهْرِ معروفةٌ ، والظَّهِيرَةُ : وقتُ الظُّهْرِ ، وأَظْهَرَ فلانٌ: حصل في ذلک الوقت، علی بناء أصبح وأمسی «4» . قال تعالی: وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] ظھر الشئی کسی چیز کا زمین کے اوپر اس طرح ظاہر ہونا کہ نمایاں طور پر نظر آئے اس کے بالمقابل بطن کے معنی ہیں کسی چیز کا زمین کے اندر غائب ہوجانا پھر ہر وہ چیز اس طرح پر نمایاں ہو کہ آنکھ یابصیرت سے اس کا ادراک ہوسکتا ہو اسے ظاھر کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] یا ملک میں فساد ( نہ ) پیدا کردے ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] مگر سرسری سی گفتگو ۔ اور آیت کریمہ : يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] یہ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کو جانتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ صرف دنیو یامور سے واقفیت رکھتے ہیں اخروی امور سے بلکل بےبہر ہ ہیں اور العلم اظاہر اور الباطن سے کبھی جلی اور خفی علوم مراد ہوتے ہیں اور کبھی دنیوی اور اخروی ۔ قرآن پاک میں ہے : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] جو اس کی جانب اندورنی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب ۔ اور آیت کریمہ : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ۔ میں ظھر کے معنی ہیں زیادہ ہوگیا اور پھیل گیا اور آیت نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں ۔ میں ظاہرۃ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکتی ہیں اور باطنۃ سے وہ جو ہمارے علم سے بلا تر ہیں چناچہ اسی معنی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اور آیت کریمہ : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] کے عام معنی تو یہی ہیں کہ وہ بستیاں سامنے نظر آتی تھیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور مثال کے انسانی احوال کیطرف اشارہ ہو جس کی تصریح اس کتاب کے بعد دوسری کتاب ہیں ) بیان کریں گے انشاء اللہ ۔ اظھرہ علیہ اسے اس پر مطلع کردیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنے غائب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا اور آیت کریمہ : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] میں یظھر کے معنی نمایاں کرنا بھی ہوسکتے ہیں اور معاونت اور غلبہ کے بھی یعنی تمام ادیان پر اسے غالب کرے چناچہ اس دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] اے قوم آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو ۔ فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس کے اوپر چڑھ سکیں ۔ صلاۃ ظھر ظہر کی نماز ظھیرۃ ظہر کا وقت ۔ اظھر فلان فلاں ظہر کے وقت میں داخل ہوگیا جیسا کہ اصبح وامسیٰ : صبح اور شام میں داخل ہونا ۔ قرآن پاک میں ہے : وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] اور آسمان اور زمین میں اسی کیلئے تعریف ہے اور سہ پہر کے وقت بھی اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تمام آسمان اور زمین والوں پر اسی کا شکر و اطاعت واجب ہے اور اسی طرح نماز ظہر اور عصر کی نماز کے ذریعے سے بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کیا کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (وَلَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِیًّا وَّحِیْنَ تُظْہِرُوْنَ ) ” ان دونوں آیات میں صبح ‘ شام ‘ رات اور دن ڈھلنے کے اوقات کا ذکر کر کے پانچوں نمازوں کے اوقات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 This verse clearly points to the times of the Fajr (morning), Maghrib (evening). 'Asr (late afternoon) and the Zuhr (early afternoon) Prayers. Besides this, the other allusions made to the times of the Prayer in the Qur'an are as follows: "Establish the Salat from the declining of the sun to the darkness of the night, and be particular about the recital of the Qur'an at dawn." (Bani Isra'il 78) "Establish the ,Salat at the two ends of the day and in the early part of the night." (Hud: 114). "And glorify your Lord with His praise before the rising of the sun and before its setting, and glorify Him again during the hours of the night and at the extremes of the day. " (Ta Ha: 130) The first of these verses tells that the times of the Prayer are from the declining of the sun to the darkness of the night (`Isha`) after which is the time of the morning Prayer (Fajr). In the second verse, the `"two ends of the day" imply the times of the morning (Fajr) and the evening (Maghrib) Prayers, and "in the early part of the night" implies the time of 'Isha`. In the third verse, "before the rising of the sun" implies the Fajr time and "before its setting" the Asr tune, and "during the hours of the night" implies the times of both the Maghrib and the 'Isha' Prayers; and the "extremes of the day" are three: the morning, the declining of the sun and the evening. Thus, the Qur'an at different places has pointed to the five Prayer times at which the Muslims the world over offer their Prayers. But, obviously, no one by merely reading these verses could have determined the Prayer times unless the divinely appointed teacher of the Qur'an, the Holy Prophet himself, had given guidance to these by his word and deed. Let us pause a while here and consider the boldness of the deniers of Hadith. They make fun of "offering the Prayer", and say that the Prayer that the Muslims offer today is not at alt the thing prescribed by the Qur'an. They assert that the Qur'anic injunction to establish the Salat does not mean the offering of the Prayer but establishing the Nizam-i-Rububiyat(Order of Providence). Ask thetas: "What is that hove! order of Providence which can either be established before the rising of the sun or after the declining of the sun till the early hours of the night? And what is that order of Providence which is required to be established especially on Fridays? ("O believers when you hear the call to the Friday Prayer, hasten to the remembrance of Allah".--(LXII: 9). And what is that special kind of the order of Providence for establishing which one has first to wash one's face and the hands up to the elbows and the feet up to the ankles and wipe one's head with wet hands, otherwise one will not establish it ? ( "O believers, when you stand up to offer the .Salat, you must wash your faces and your hands and arms up to the elbows, and wipe your heads with wet hands."--(V: 6). And what is this peculiarity of this order of Providence that one cannot establish it unless one has completely washed oneself after sexual intercourse? ("O believers, do not offer the Prayer . . . if you are unclean until you take your bath, except when passing on the way."--(IV: 433) And what is this odd thing that if one has touched the women, one will have to strike one's hands on pure dust and wipe thereby one's face and hands in case one does not fmd water, for the purpose of establishing this strange order of Providence ? ("... or if you have touched women and you can find no water, then cleanse yourselves with pure dust: strike your palms on it and wipe your Bands and faces with it."--(1V: 43). And what is this amazing order of Providence that while on a journey one should establish only half of it? ("When you go on a journey, there is no harm if you shorten the Salat. "--(IV : 101) Then, what an odd thing that during a war half of the soldiers should fall out,.carrying their weapons, in order to' establish the order of Providence behind the Imam, and the other half should stick to their positions and continue fighting the enemy; when the first group has performed one sajdah behind the Imam in its effort to establish the "order of Providence" it should go to relieve the other group, which should fall out and start establishing the "order of Providence" behind the Imam? ("And when you, O Prophet, are among the Muslims and are going to lead them in salat (in a state of war), Iet a party of them stand behind you, carrying their weapons with thetas. When they have made their prostrations, they should fall back, and let another party of them, who have not yet offered their Salat say it with you. "--(IV 102) All these verses of the Qur'an clearly indicate that to establish the Salat unplies the Prayer that the Muslims offer everywhere in the world today. But the deniers of Hadith seem to be bent upon changing the Qur'an instead of changing themselves. The fact is that unless a person becomes wholly fearless of Allah, he cannot dare play with His Word as these people do. Or, only such a person can engage in a pastime like this with respect to the Qur'an who believes it is not Allah's Word, but intends to mislead the Muslims in the name of the Qur'an. (See also E.N. 50 below in this connection).

سورة الروم حاشیہ نمبر : 24 اس آیت میں نماز کے چار اوقات کی طرف صاف اشارہ ہے ۔ فجر ، مغرب ، عصر اور ظہر ۔ اس کے علاوہ مزید اشارات جو قرآن مجید میں اوقات نماز کی طرف کیے گئے ہیں ، حسب ذیل ہیں: اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ ( نبی اسرائیل ، آیت 78 ) نماز قائم کرو آفتاب ڈھلنے کے بعد سے رات کی تاریکی تک ، اور فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو ۔ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ( ہود ، آیت 114 ) اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا ۚ وَمِنْ اٰنَاۗئِ الَّيْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّهَارِ ( طہ ، آیت 130 ) اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اور رات کی کچھ گھڑیوں میں پھر تسبیح کرو ، اور دن کے کناروں پر ۔ ان میں سے پہلی آیت بتاتی ہے کہ نماز کے اوقات زوال آفتاب کے بعد سے عشا تک ہیں ، اور اس کے بعد پھر فجر کا وقت ہے ۔ دوسری آیت میں دن کے دونوں سروں سے مراد صبح اور مغرب کے اوقات ہیں اور کچھ رات گزرنے پر سے مراد عشا کا وقت ۔ تیسری آیت میں قبل طلوع آفتاب سے مراد فجر اور قبل غروب سے مراد عصر ۔ رات کی گھڑیوں میں مغرب اور عشا دونوں شامل ہیں ۔ اور دن کے کنارے تین ہیں ، ایک صبح ، دوسرے زوال آفتاب ، تیسرے مغرب ۔ اس طرح قرآن مجید مختلف مقامات پر نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف اشارہ کرتا ہے جن پر آج دنیا بھر کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے کہ محض ان آیات کو پڑھ کر کوئی شخص بھی اوقات نماز متعین نہ کرسکتا تھا جب تک کہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے معلم قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے قول اور عمل سے ان کی طرف رہنمائی نہ فرماتے ۔ یہاں ذرا تھوڑی دیر ٹھہر کر منکرین حدیث کی اس جسارت پر غور کیجیے کہ وہ نماز پڑھنے کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نماز جو آج مسلمان پڑھ رہے ہیں یہ سرے سے وہ چیز ہی نہیں ہے جس کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے ۔ ان کا ارشاد ہے کہ قرآن تو اقامت صلوۃ کا حکم دیتا ہے اور اس سے مراد نماز پڑھنا نہیں بلکہ نظام ربوبیت قائم کرنا ہے ۔ اب ذرا ان سے پوچھیے کہ وہ کون سا نرالا نظام ربوبیت ہے جسے یا تو طلوع آفتاب سے پہلے قائم کیا جاسکتا ہے یا پھر زوال آفتاب کے بعد سے کچھ رات گزرنے تک؟ اور وہ کون سا نظام ربوبیت ہے جو خاص جمعہ کے دن قائم کیا جانا مطلوب ہے؟ اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ ( الجمعہ ، آیت 9 ) اور نظام ربوبیت کی آخر وہ کون سی خاص قسم ہے کہ اسے قائم کرنے کے لیے جب آدمی کھڑا ہو تو پہلے منہ اور کہنیوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لے اور سر پر مسح کرلے ورنہ وہ اسے قائم نہیں کرسکتا ؟ اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ ( المائدہ ، آیت 6 ) اور نظام ربوبیت کے اندر آخر یہ کیا خصوصیت ہے کہ اگر آدمی حالت جناب میں ہو تو جب تک وہ غسل نہ کرلے اسے قائم نہیں کرسکتا ؟ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ( النساء ، آیت 43 ) اور یہ کیا معاملہ ہے کہ اگر آدمی عورت کو چھو بیٹھا ہو اور پانی نہ ملے تو اس عجیب و غریب نظام ربوبیت کو قائم کرنے کے لیے اسے پاک مٹی پر ہاتھ مار کر اپنے چہرے اور منہ پر ملنا ہوگا ؟ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ ( المائدہ ، آیت 6 ) اور یہ کیسا عجیب نظام ربوبیت ہے کہ اگر سفر پیش آجائے تو آدمی اسے پورا قائم کرنے کے بجائے آدھا ہی قائم کرلے؟ وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ( النساء ، آیت 101 ) پھر یہ کیا لطیفہ ہے کہ اگر جنگ کی حالت ہو تو فوج کے آدھے سپاہی ہتھیار لیے ہوئے امام کے پیچھے نظام ربوبیت قائم کرتے رہیں اور آدھے دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہیں ، اس کے بعد جب پہلا گروہ امام کے پیچھے نظام ربوبیت قائم کرتے ہوئے ایک سجدہ کر لے تو وہ اٹھ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے چلا جائے اور دوسرا گروہ اس کی جگہ آکر امام کے پیچھے اس نظام ربوبیت کو قائم کرنا شروع کردے وَاِذَا كُنْتَ فِيْهِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَاۗىِٕفَةٌ مِّنْھُمْ مَّعَكَ وَلْيَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَھُمْ ۣفَاِذَا سَجَدُوْا فَلْيَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَاۗىِٕكُمْ ۠ وَلْتَاْتِ طَاۗىِٕفَةٌ اُخْرٰى لَمْ يُصَلُّوْا فَلْيُصَلُّوْا مَعَكَ ( النساء ، آیت 102 ) قرآن مجید کی یہ ساری آیات صاف بتا رہی ہیں کہ اقامت صلوۃ سے مراد وہی نماز قائم کرنا ہے جو مسلمان دنیا بھر میں پڑھ رہے ہیں ، لیکن منکرین حدیث ہیں کہ خود بدلنے کے بجائے قرآن کو بدلنے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اللہ تعالی کے مقابلے میں بالکل ہی بے باک نہ ہوجائے وہ اس کے کلام کے ساتھ یہ مذاق نہیں کرسکتا جو یہ حضرات کر رہے ہیں ۔ یا پھر قرآن کے ساتھ یہ کھیل وہ شخص کھیل سکتا ہے جو اپنے دل میں اسے اللہ کا کلام نہ سمجھتا ہو اور محض دھوکا دینے کے لیے قرآن قرآن پکار کر مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہو ۔ ( اس سلسلہ میں آگے حاشیہ 50 بھی ملاحظۃ ہو )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:18) ولہ الحمد فی السموت والارض یہ جملہ معطوف بھی ہوسکتا ہے اور اس کا عطف جملہ ماقبل پر ہے بمعنی اور (اس کی تسبیح میں یوں بھی کہو) اسی کے لئے ہیں ساری تعریفیں آسمانوں میں اور زمین میں۔ یا یہ جملہ معترضہ ہے۔ وعشیاو۔ اس کا عطف حین تمسون یا حین تصبحون پر ہے ۔ بعد دوپہر۔ بقول امام اصفہانی رحمۃ اللہ کے زوال سے لے کر صبح تک کا وقت۔ اہل لغت سے اس کے کئی معانی منقول ہیں :۔ (1) زوال کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک۔ اسی لئے ظہر اور عصر کو صلوتا العشی بولتے ہیں۔ (2) دن کا پچھلا وقت۔ (3) زوال سے لے کر صبح تک کا وقت۔ (4) نماز مغرب سے لے کر عشاء کی نماز تک کا وقت۔ وحین تظھرون اور جب تم دوپہر گرتے ہو۔ یعنی دوپہر کو۔ فائدہ : آیات 1718 سے بعض مفسرین نے تسبیح سے مراد نماز لیا ہے۔ اور شام صبح بعد دوپہر اور ظہر سے صلوۃ المغرب، صلوۃ الصبح، صلوۃ العصر اور صلوۃ الظھر مراد لی ہے۔ اس سلسلہ میں آیات 17: 78، و 11:114، اور 20:130 بھی ملاحظہ ہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی زمین و آسمان والوں کو اس کی تسبیح وتحمید کرتے رہنا چاہیے۔ 2 ۔ پہلے مبدا و معاد میں اپنی عظمت کا ذکر فرمایا۔ اب ان اوقات میں اپنی تنزیہہ وتحمید کا حکم دیا کیونکہ ان اوقات میں اللہ تعالیٰ کی قدر و عظمت کا کامل ظہور ہوتا ہے اور تسبیح قلب و لسان اور جوارح تینوں سے ہوتی ہے اور نماز بھی تینوں قسم کی تسبیح پر مشتمل ہے۔ اس لئے علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ یہاں تسبیح سے مراد نماز پڑھنا ہے اور اس آیت میں پانچوں نمازوں کا ذکر آگیا ہے۔ صبح سے فجر کی نماز مراد ہے اور شام (مساء) سے مغرب و عشا کی اور عشیا (سہ پہر) سے عصر اور دوپہر سے ظہر کی۔ (رازی، ابن کثیر) ان اوقات خمسہ میں عبادت و نماز کے اسرار و حکم علما نے اپنے ذوق علمی کے مطابق بیان فرمائے ہیں۔ حجۃ اللہ اور احیا غزالی میں ب ھی کچھ بیان موجود ہے۔ واللہ اعلم۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی آسمان میں فرشتے اور زمین میں بعض اختیارا اور بعض اضطرارا اس کی حمدو ثنا کرتے ہیں، پس جب وہ ایسا محمود الصفات کامل الذات ہے تو تم کو بھی ضرور اس کی تسبیح کرنا چاہئے۔ 3۔ اس لئے کہ یہ اوقات تجدد نعمت و زیادت ظہور آثار قدرت کے ہیں، ان میں تجدید تسبیح کی مناسب ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

18۔ اور تمام آسمانوں میں اور زمین میں اسی کی تعریف اور حمد وثناء ہوتی ہے اور تم سہ پہر اور دوپہر کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرو اور اسی کی خوبی ہے آسمان اور زمین میں اور پچھلے وقت اور جب دوپہر ہو یعنی آسمان و زمین میں اسی کی حمد وثناء اور اسی کی تعریف کا چرچا ہے خواہ زبان حال سے ہو یا زبان قال سے ہو اور تم لوگ پچھلے پہر اور دوپہر یعنی ظہر اور عصر کی نماز پڑھا کرو ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے ان آیات سے نماز اوقات بتائے ہیں اور فرمایا ہے ان آیات سے پانچ وقت کی نماز ثابت ہوتی ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی پاک اللہ کو یاد کرو اور اس کیخوبی آسمان و زمین میں ہو رہی ہے ان چار وقتوں پر یاد کرو صبح کی نماز اور شام کی اس میں مغرب اور عشاء آچکیں اور پچھلے وقت عصر اور دوپہر ظہر۔ 12