Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 19

سورة الروم

یُخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ وَ یُحۡیِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ؕ وَ کَذٰلِکَ تُخۡرَجُوۡنَ ﴿۱۹﴾٪  5

He brings the living out of the dead and brings the dead out of the living and brings to life the earth after its lifelessness. And thus will you be brought out.

۔ ( وہی ) زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہی زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے اسی طرح تم ( بھی ) نکالے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ ... He brings out the living from the dead, and brings out the dead from the living. This is what we see of His power to create things and their opposites. These Ayat which come one after the other are all of the same; in each of them Allah mentions the creation of things and their opposites, to indicate to His creation the perfection of His power. Thus He creates the plant from the seed and the seed from the plant; He creates the egg from the chicken and the chicken from the egg; He creates man from sperm and sperm from man; He creates the believer from the disbelievers and the disbeliever from the believers. ... وَيُحْيِي الاَْرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ... And He revives the earth after its death. This is like the Ayat: وَءَايَةٌ لَّهُمُ الاٌّرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَـهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبّاً فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ And a sign for them is the dead land. We give it life, and We bring forth from it grains, so that they eat thereof. until: وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ and We have caused springs of water to gush forth therein. (36:33-34) وَتَرَى الاٌّرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَأءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ And you see the earth barren, but when We send down water on it, it is stirred, and it swells and puts forth every lovely kind. until: وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَن فِى الْقُبُورِ and certainly, Allah will resurrect those who are in the graves. (22:5-7) وَهُوَ الَّذِى يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرىً بَيْنَ يَدَىْ رَحْمَتِهِ حَتَّى إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالاً And it is He Who sends the winds as heralds of glad tidings, going before His mercy. Till when they have carried a heavy-laden cloud, until: لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ so that you may remember or take heed. (7:57) Allah says here: ... وَكَذَلِكَ تُخْرَجُونَ And thus shall you be brought out.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191جیسے انڈے کو مرغی سے، مرغی کو انڈے سے۔ انسان کو نطفے سے، نطفے کو انسان اور مومن کو کافر سے، کافر کو مومن سے پیدا فرماتا ہے۔ 192یعنی قبروں سے زندہ کر کے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] اور یہ عمل ہر وقت جاری وساری ہے۔ اللہ تعالیٰ حیوانات کی بےجان غذاؤں سے نطفہ کو، پھر نطفہ سے حیوانات کو پیدا کرتا رہتا ہے اور اس عمل میں انسان بھی شامل ہے۔ اور پرندوں سے انڈے کو، پھر انڈے سے زندہ پرندہ کو پیدا کرتا رہتا ہے اور اللہ کا یہ کارنامہ سب لوگوں ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں۔ [ ١٦] یعنی جب مردہ زمین پر بارش پڑتی ہے تو اس سے نباتات، پودے اور درخت ہی نہیں اگ آتے بلکہ حیوانات بھی آگ آتے ہیں موسم برسات آتا ہے تو ہزارہا مینڈک ٹرانے لگتے ہیں۔ جھینگر اور پپی ہے درختوں پر بولنے لگتے ہیں اور بیشمار قسم کے حشرات الارض اگ آتے ہیں جن کا پہلے نام و نشان تک نہ تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ جاندار مخلوق آخر کیسے اور کہاں سے وجود میں آگئی ؟ تو جیسے یہ وجود میں آسکتی ہے خواہ تمہیں اس کی سمجھ آئے نہ آئے ویسے ہی جب صورت میں پھونکا جائے گا جو مردہ انسانوں کے لئے موسم برسات کا حکم رکھتا ہے تو تم بھی زمین سے ایسے ہی پیدا ہوجاؤ گے جیسے ان جانوروں کو پیدا ہوتے دیکھتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیشمار مقامات پر بعث بعد الموت پر بارش کے پانی نباتات کے اگ آنے کو دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے چنانچہسورۃ ق میں تقریباً ایسے الفاظ سے ارشاد فرمایا۔ (وَاَحْيَيْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا ۭ كَذٰلِكَ الْخُرُوْجُ 11؀) 50 ۔ ق :11) نباتات کا اگنا بعث بعد الموت پر کیسے دلیل بن سکتا ہے اس مقام پر قارئیں کے غور و فکر کے لئے ایک وسیع میدان چھوڑ دیا گیا ہے۔ پھر بعض مقامات پر بعث بعد الموت یعنی انسان کی دوسری بار کی پیدائش کو پہلی بار کی پیدائش شے تشبیہ دے کر اسے آسان تر قرار دیا گیا ہے جیسے فرمایا : (كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ ١٠٤۔ ) 21 ۔ الأنبیاء :104) گویا اب تین باتیں سامنے آگئیں۔ ایک انسان کی پہلی بار کی پیدائش، دوسرے نباتات کی پیدائش اور ان دونوں کی تشبیہ اور دلیل کے طور پر تیسری چیز انسان کی دوسریبار کی پیدائش بطور دلیل لایا گیا ہے۔ ان میں سے تیسری چیز کے متعلق ہم مشاہدہ اور تجربہ سے کچھ بھی جان نہیں سکتے۔ البتہ پہلی چیز کو دوسری سے نسبتاً زیادہ جان سکتے ہیں۔ اور پہلی چیز سے متعلق بھی ہمارا علم جو تجربہ اور مشاہدہ سے حاصل ہوا ہے صرف اتنا ہی ہے کہ جب رحم مادر میں ماں باپ کے نطفہ کا ملاپ ہوجاتا ہے تو عورت کا ماہواری خون آنا بند ہوجاتا ہے اور جو خون ماہواری ایام کی صورت میں عورت کے جسم سے خارج یا ضائع ہوجاتا تھا۔ وہی خون اب اس مخلوط نطفہ کی تربیت میں صرف ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اور عورت کے خون سے ماہواری خون یا حیض کا خون بننا اور اسی طرح عورت کے اصل خون سے نطفہ بننا کوئی مستقل عادی امر نہیں تھا بلکہ یہ دونوں چیزیں اس وقت بننا شروع ہوئیں جب عورت جوان اور اولاد پیدا کرنے کے لئے قابل بن گئی۔ اس سے پیشتر اس کے اصل خوب سے یہ دونوں چیزیں پیدا نہیں ہوئی تھیں حالانکہ اس کے جسم کی ساخت میں یہ صلاحیت اس کی پیدائش کے پہلے دن سے ہی اس میں ودیعت کردی گئی تھی۔ یہی حال مرد کے نطفہ کا ہوتا ہے اس کے خون سے نطفہ یا منی صرف اس وقت بنتی ہے جب وہ جوان اور اولاد پیدا کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ حالانکہ اس کے جسم کی ساخت میں منی بنانے والے آلات یعنی خصیے وغیرہ اس پیدائش کے پہلے دن سے ہی بنائے گئے تھے گویا عورت اور مرد کے نطفہ بنانے والے اعضا کے اپنا اپنا کام ہی اس وقت شروع کیا جب وہ دونوں اولاد بنانے کے قابل ہوگئے۔ اور جب بڑھاپے کا دور آتا ہے تو دونوں کے جسم سے منی بنانے والے آلات موجود ہونے کے باوجود بھی اپنا اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس معاملہ میں عورت اور مرد دونوں بےبس ہوتے ہیں اگر وہ چاہیں بھی کہ عورت اور مرد کے جسم میں نصب شدہ آلات بڑھاپے میں بھی منی بنانے کا کام کرتے رہیں تو وہ ایسا کر نہیں سکتے۔ مرد کے جسم میں صرف منی بنانے والے اعضا ہوتے ہیں جو جوانی کے وقت اپنا کام شروع کرتے اور بڑھاپا آنے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن عورت کے جسم میں ایسے اعضا تین طرح کے ہوتے ہیں ایک حیض کا خون بنانے والے ، دوسرے منی بنانے والے اور یہ دونوں جوانی کے وقت اپنا کام شروع کرتے اور بڑھاپا آنے پر کام چھوڑ دیتے ہیں۔ اور تیسری قسم کے اعضاء وہ ہیں جو خون کے کچھ حصے کو دودھ میں منتقل کرتے ہیں۔ اور یہ اعضا اس کے پستان ہیں۔ پستانوں کے نشانات عورت اور مرد دونوں کے سینے پر پہلے دن سے ہی موجود ہوتے ہیں۔ جوان ہونے پر عورت کے ان نشانات میں ابھار شروع ہوجاتا ہے تاآنکہ وہ اپنی مکمل صورت اختیار کرلیتے ہیں اور یہ تبدیلی صرف عورت کے جسم میں ہوتی ہے۔ مرد کے جسم میں نہیں ہوتی۔ یہی مشینری خود کو دودھ میں منتقل کرنے کا کارخانہ ہوتا ہے اور یہ مشینری صرف اس وقت اپنا کام شروع کرتی ہے۔ جب حمل قرار پا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کام نہیں کرتی۔ خواہ عورت بالکل جوان اور اولاد پیدا کرنے کے قابل ہو۔ حمل قرار پانے کے بعد یہ مشینری حرکت میں تو آجاتی ہے۔ مگر خون سے دودھ بننے کا عمل اس وقت مکمل ہوتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ سے باہر آجاتا ہے تاکہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی اسے غذا میسر آسکے اور اس کی تربیت کا سلسلہ جو پہلے حیض کے خون سے ہوتا تھا۔ وہ جاری رہ سکے پھر کیا ان اعضاء کا صرف اپنے اپنے مقررہ وقت ہی کام کرنا اور بعد میں اپنا کام چھوڑ دینا ہی اللہ تعالیٰ کے (خَلاَّقُ الْعَلِیْمِ ) ہونے پر زبردست دلیل نہیں ؟ رحم مادر میں استقرار حمل کے بعد اس مخلوط نطفہ کی تربیت حیض کے گندے اور سیاہ رنگ کے خون سے ہوتی ہے جو اس مخلوط مادہ منویہ پر حاوی ہو کر اسے منجمد اور لمبوترے سے منجمد خون کی شکل میں تبدیل کردیتا ہے اور مخلوط مادہ منویہ کا وجود اس میں باقی نہیں رہتا بلکہ وہ اس میں مدغم ہوجاتا ہے۔ پھر یہی جما ہوا خون گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یعنی اس جمے ہوئے خون میں سختی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ پھر اسی گوشت کے لوتھڑے سے بچہ کی صورت کے نقش و نگار بننا شروع ہوجاتے ہیں۔ رحم مادر میں ایسے سات قسم کے تطورات ہوتے ہیں۔ جنہیں انسان خود بھی آلات کے ذریعہ مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ ان کا علم حاصل کرسکتا ہے۔ وہ ان چیزوں کا مشاہدہ اور علم تو حاصل کرسکتا ہے جو وقوع پذیر ہو رہی ہوتی ہیں لیکن وہ یہ نہیں جان سکتا کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوتا ہے۔ بالکل یہی صورت کسی غلے یا درخت یا پودے کے بیج کی ہوتی ہے جو دراصل مرد یا کسی بھی نر کے نطفہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ زمین اس کے لئے رحم مادر کا درجہ رکھتی ہے۔ تو جس طرح مرد کے نطفہ کا کسی عورت کے رحم میں جا پڑنے سے استقرار حمل ضروری نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہر بیج میں جو زمین پر گرپڑے اس سے درخت بننا ضروری نہیں ہوتا۔ پھر جب ایسی زمین جس میں بیج پڑا ہو۔ بارش کے پانی سے سیراب ہوجاتی ہے۔ اور موسم ساز گار ہوتا ہے تو یہ گویا اس بیج کے استقرار حمل کا وقت ہوتا ہے۔ پانی سے زمین کے ذرات میں حرکت پیدا ہونے لگتی ہے ، وہ پھول جاتے ہیں اور زمین میں دفن شدہ بیج سے مل جاتے ہیں اور اسے اپنے اندر ڈھانپ لیتے ہیں۔ اس طرح بیج اپنا وجود ختم کرکے ایک ملغویہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پھر کسی ملغویہ سے نرم و نازک کونپل نکلتی ہے۔ زمین کے اندر بیج پر بینہ اس قسم تطورات آتے ہیں جس طرح انسان کے نطفہ پر رحم مادر میں آتے ہیں۔ تاآنکہ یہی نرم و نازک کونپل چند دن بعد زمین کا سینہ چیر کر زمین سے باہر نکل آتی پھر زمین ہی سے اپنی خوراک حاصل کرنا شروع کردیتی ہے۔ یہ باتیں ہم مشاہدہ تو کرسکتے ہیں لیکن یہ نہیں جان سکتے کہ کیوں اور کیسے ہوتا ہے۔ پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مرے ہوئے انسان کے جسم کے ذرات بالآخر زمین میں پہنچ جاتے ہیں۔ خواہ کسی کی معیت زمین میں دفن کی گئی ہو۔ یا جلا دی گئی ہو یا دریا برد ہوئی ہو یا اسے درندوں نے پھاڑ کر کھایا ہو۔ بالآخر اس کے ذرات بلاواسطہ یا بالواسطہ زمین میں پہنچ جاتے ہیں اور یہی زمین انسان کی دوسری پیدائش کے لئے رحم مادر کا کام دیتی ہے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ انسان کی ریڑھ کی ہڈی کی دم جس کا نام عجب الذنب ہے۔ اس کے ذرات کبھی فنا نہیں ہوتے، انھیں ذرات میں سے ایک ذرہ انسان کے بیج یا نطفہ کا کام دیتا ہے، لیکن یہ زمین میں اس وقت تک بیکار پڑا رہے گا جب تک اسے مناسب موسم میسر نہ آئے۔ اور اس کا مناسب موسم وہ بارش ہے جو قیام قیامت کے بعد نفحہ صور یا حشر کے دن سے پہلے اسی زمین پر برسے گی اور یہ چیز بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ پھر اس بارش کے پانی سے زمین کے ذرات پھول کر انسان کے بیج کو ڈھانپ لیں گے پھر اس ملغویہ پر وہی تطورات شروع ہوجائیں گے جو حیض کی صورت میں ماں کے پیٹ میں اور بیج کی صورت میں زمین کے پیٹ میں واقع ہوتے ہیں پھر معینہ مدت کے بعد تمام کے تمام انسان زمین میں سے اس طرح اگ آئیں گے جس طرح زمین کو پھاڑ کر نباتات اگ آتی ہے اور جس طرح یہ تطورات ماں کے یا زمین کے پیٹ میں طبعی طور پر واقع ہوتے ہیں جس میں انسان کا یا بیج کا اپنا عمل دخل کچھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہی تطورات دوسری پیدائش کی صورت میں انسان پر طبعی طور پر واقع ہوں گے۔ جس میں اس کے اپنے ارادہ و اختیار کو کچھ دخل نہ ہوگا اور معینہ مدت کے بعد وہ زمین سے باہر نکل آنے پر مجبور ہوگا۔ (کَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ ) اور (کَذٰلِکَ الْمَخْرُوْجُ ) سے صاف معلوم ہوتا ہے۔ کہ یہ تطورات بالکل ویسے ہی طبیعی طور پر واقع ہونے والے امور ہونگے جیسا کہ ماں کے یا زمین کے پیٹ میں واقع ہوتے ہیں اور یہ تو واضح بات ہے کہ یہ دوسری بار کی پیدائش اللہ تعالیٰ کے لئے پہلی بار کی پیدائش سے آسان تر ہوگی۔ اس آیت میں تُخْرَجُوْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی تم زمین سے نکال لئے جاؤ گے۔ اور تمہارا یہ نکالا جانا ایک اضطراری عمل ہوگا جس میں تمہاری مرضی کو کچھ عمل دخل نہ ہوگا جیسے تم جب اس دنیا میں آئے یا اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اس میں تمہاری اپنی مرضی کا کچھ عمل دخل نہ تھا۔ اسی طرح تمہاری دوبارہ جی اٹھنا بھی ایک قہری اور اضطراری امر ہوگا۔ اس سلسلہ میں تمہاری رائے نہیں لی جائے گی۔ نہ تمہارا کچھ عمل دخل ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ ۔۔ : کائنات میں دن کو رات سے اور رات کو دن سے بدلنے اور صبح و شام اور عشاء اور ظہر و عصر کا تغیر برپا کرنے کے ذکر کے ساتھ ہی اپنی قدرت کے کمال، یعنی زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالنے اور زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کردینے کا بیان فرمایا۔ (مزید دیکھیے آل عمران : ٢٧) اور ان تبدیلیوں کو بطور دلیل ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اسی طرح تم بھی قیامت کے دن دوبارہ زمین سے زندہ کر کے نکال کھڑے کیے جاؤ گے۔ یعنی تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو کہ کائنات کا یہ کارخانہ اسی طرح جاری ہے کہ مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ نکلتا ہے۔ زمین مردہ پڑی ہوتی ہے، اس میں سبزی اور تروتازگی کا نام و نشان تک نہیں ہوتا، لیکن پانی برستے ہی طرح طرح کی سبزیاں اگ آتی ہیں اور ہزاروں قسم کے جانور پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایسے قادر مطلق کے لیے، جس کی قدرت سے یہ سب کچھ ہوا، تمہیں تمہارے مرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے ؟ اور دیکھیے سورة یٰس (٣٣) اور حج (٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَيُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝ ٠ ۭ وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ۝ ١ ٩ۧ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

وہ جاندار کو بےجان سے باہر لاتا ہے یعنی بچے اور جانوروں کو نطفہ سے اور پرندے کو انڈے سے اور کھجور کو گھٹلی سے اور بےجان کو جاندار سے باہر لاتا ہے یعنی انسان اور جانوروں سے نطفہ اور پرندے سے انڈا اور کھجور سے گٹھلی اور زمین کو اس کے خشک اور بنجر ہوجانے کے بعد پھر زندہ کرتا ہے اور اسی طرح تم لوگ زندہ کیے جاؤ گے اور قبروں سے نکالے جاؤ گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ ) ” مثلاً انڈے میں بظاہر زندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ‘ لیکن اس میں سے اللہ کی قدرت سے زندہ چوزہ برآمد ہوتا ہے۔ (وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ ) ” مثلاً مرغی جاندار ہے اور اس سے انڈا برآمد ہوتا ہے جو بظاہر بےجان ہے۔ اسی طرح زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ برآمد ہونے کی بہت سی مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ (وَیُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَاط وَکَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ ) ” جس طرح اللہ تعالیٰ بظاہر مردہ زمین سے فصلیں اور دوسرے نباتات نکالتا ہے اسی طرح وہ تمہیں بھی اس میں سے نکال کر حاضر کرلے گا ‘ چاہے تمہارے اجزاء تحلیل ہو کر کسی بھی شکل میں ہوں اور کہیں بھی ہوں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25 That is . "How can that God Who is doing all this perpetually in front of your eyes, be helpless in raising tnan to life after death? He is causing absolutely dead matter to be discharged from living men and animals. He is ever bringing into existence countless animals and human beings by breathing life into dead matter, whereas the substances themselves which make up the bodies of the living beings are absolutely without life He is making you witness the ' phenomenon that wherever water becomes available, lands previously lying barren start blooming and blossoming with animal and vegetable life. In spite of witnessing all this if a person thinks that the God Who is sustaining the universe will be helpless to raise man back to life after death, he is wholly devoid of the common sense. His mind's eyes do not see the clear realities gleaming from the manifestations which his head's eyes see."

سورة الروم حاشیہ نمبر :25 یعنی جو خد ہر آن تمہاری آنکھوں کے سامنے یہ کام کر رہا ہے وہ آخر انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندگی بخشنے سے عاجز کیسے ہوسکتا ہے ۔ وہ ہر وقت زندہ انسانوں اور حیوانات میں سے فضلات ( Waste Matter ) خارج کر رہا ہے جن کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔ وہ ہر لمحہ بے جان مادے ( dead Matter ) کے اندر زندگی کی روح پھونک کر بے شمار جیتے جاگتے حیوانات ، نباتات اور انسان وجود میں لارہا ہے ، حالانکہ بجائے خود ان مادوں میں جن سے ان زندہ ہستیوں کے جسم مرکب ہوتے ہیں ، قطعا کوئی زندگی نہیں ہوتی ، وہ ہر آن یہ منظر تمہیں دکھا رہا ہے کہ بنجر پڑی ہوئی زمین کو جہاں پانی میسر آیا اور یکایک وہ حیوانی اور نباتی زندگی کے خزانے اگلنا شروع کردیتی ہے ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کارخانہ ہستی کو چلانے والا خدا انسان کے مرجانے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کرنے سے عاجز ہے تو حقیقت میں وہ عقل کا اندھا ہے ۔ اس کے سر میں آنکھیں جن ظاہری مناظر کو دیکھتی ہیں ، اس کی عقل کی آنکھیں ان کے اندر نظر آنے والے روشن حقائق کو نہیں دیکھتیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: جاندار کو بے جان سے نکالنے کی مثال جیسے انڈے سے مرغی اور بے جان کو جاندار سے نکالنے کی مثال جیسے مرغی سے انڈا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ مثال دی ہے کہ زمین قحط کی وجہ سے مردہ ہوچکی ہوتی ہے، اور اس میں کچھ اگانے کی صلاحیت نہیں رہتی، لیکن اللہ تعالیٰ بارش برساکر اسے دوبارہ زندگی بخشتے ہیں، اسی طرح انسانوں کو بھی مرنے کے بعد وہ دوبارہ زندہ کردیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:19) یحی الارض بعد موتھا۔ وہ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ زمین کی موت اور زندگی مجازی ہے۔ مراد یہ ہے کہ خشک بےآب وگیاہ ۔ بنجر زمین کو اپنی قدرت سے سرسبز و شادات کردیتا ہے۔ تخرجون ۔ مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ اخراج (افعال) مصدر سے۔ تم نکالے جاؤ گے (قبروں میں سے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ یعنی جیسے مردہ زندہ سے اور زندہ مردہ سے نکلتا ہے، اسی طرح… (دیکھئے آل عمران آیت 97، انعام آیت :95) 4 ۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو کہ کائنات کا یہ کارخانہ اسی طرح جاری ہے۔ مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ نکلتا ہے۔ زمین مردہ پڑی ہوتی ہے۔ اس میں سبزی اور تروتازگی کا نام و نشان تک نہیں ہوتا، لیکن پانی برستے ہی طرح طرح کی سبزیاں آگ آتی ہیں اور ہزاروں قسم کے جانور پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایسے قادر مطلق کے لئے جس کی قدرت سے یہ سب کچھ ہوا۔ تمہارے مرجانے کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مثلا نطفہ اور بیضہ سے انسان اور بچہ، انسان اور پرندہ سے نطفہ اور بیضہ۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور اس کے حضور نماز پڑھنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ وہی زندہ سے مردہ اور مردے سے زندہ پیدا کرتا ہے اور اسی نے انسان کو مٹی سے پیدا فرمایا اور زمین میں بکھیر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور اس کے حضور اس لیے جھکنا ہے کیونکہ وہی زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ پیدا کرتا ہے جس کا ایک واضح ثبوت یہ دھرتی ہے جس کا انسان پوری زندگی مشاہدہ کرتا اور اس پر بسیرہ کرتا ہے بالخصوص صحرا میں رہنے والے لوگ جانتے ہیں کہ جب بارش نہ ہو تو وہاں بسنے والے لوگ اس قدر مایوس ہوجاتے ہیں کہ انہیں ہجرت کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہتا۔ جونہی بارشیں ہوتی ہیں تو وہی صحرا اس قدر شاداب ہوجاتا ہے کہ اس کا سہانا اور دلکش منظر دیکھنے کے لیے لوگ دوردور کے شہروں سے آکر کئی کئی روز وہاں تفریح کے طور پر قیام کرتے ہیں۔ جس طرح زمین بارش سے زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مردہ زمین سے مردہ انسانوں کو زندہ کرے گا۔ اور اسی مردہ زمین سے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور اس کے بعد نسل درنسل تخلیق انسانی کا سلسلہ جاری فرمایا۔ انسان کی خوراک رہناسہنا اور مرنا جینا بھی مٹی کے ساتھ وابستہ ہے۔ انسان اپنی پیدائش پر غور کرے تو اسے علم نہیں یقین ہوجائے گا کہ اس کی اپنی پیدائش بھی مردہ سے ہوئی ہے۔ انسان اوّل یعنی آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ جو آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت بھی بےحس و حرکت یعنی مردہ تھی اور آج بھی حس و حرکت سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو عزرائیل (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ زمین سے مٹی اٹھالاؤ۔ عزرائیل (علیہ السلام) مٹی اٹھالائے تو اللہ تعالیٰ نے زمین سے انسان کا ڈھانچہ بنایا پھر اس میں روح پھونکی تو مردہ زمین سے چلنے، پھرنے، اٹھنے، بیٹھنے اور کھانے، پینے والا زندہ انسان معرض وجود میں آیا۔ اس کے بعد آدم (علیہ السلام) سے اس کی بیوی کو پیدا کیا۔ پھر اس کی افزائش کا سلسلہ شروع فرمایا جو قیامت تک جاری رہے گا۔ ہر انسان اپنی تخلیق پر غور کرے کہ اس کی پیدائش پانی کی بوند سے ہوئی ہے۔ جو لاتعداد جرثوموں پر مشتمل ہوتی ہے۔ خالق کی تخلیق پر غور فرمائیں کہ اس نے اس بوند سے خون کا لوتھڑا بنایا اور پھر لوتھڑے سے انسان کا بہترین وجود بنایا اور اس کے بعد اس میں روح پھونکی اور بطن مادر میں ہی اس کے مستقبل کے معاملات طے فرما دیئے۔ انسان ہر دور میں چیزیں ایجاد کرتے اور بناتے رہے ہیں اور بناتے رہیں گے لیکن انسان پانی کے ایک قطرے کے ایک حقیر سے حصہ سے کوئی چیز ایجاد نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا۔ بالخصوص کوئی جاندار چیز تو کبھی نہیں بنا سکے گا۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اس نے پانی کی ایک بوند سے بہترین شکل و صورت والا انسان پیدا کیا اس لیے اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی تخلیق کے بارے میں بار، بار غور کرنے کا حکم دیتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے کہ اس نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کی نسل چلانے اور پھیلانے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح ہی قیامت کے دن لوگوں کو پیدا کرے گا۔ تفسیر بالقرآن تخلیق انسان کے مراحل : ١۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٢۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٣۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٤۔ حوا کو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٥۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف : ٣٧) ٦۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم : ٢٠) ٧۔ ” اللہ “ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے پھر تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن : ٦٧) ٨۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١) ٩۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر جسطرح چاہتا ہے پیدا کرتا۔ (الحج : ٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یخرج الحی ۔۔۔۔۔ وکذلک تخرجون (30: 19) ” ہاں وہ زندہ چیزوں سے مردوں کو نکالتا ہے اور مردہ چیزوں سے زندہ کو نکالتا ہے “۔ اور یہ ایک دائمی عمل ہے۔ نہ رکنے والا عمل ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس میں توقف نہیں ہوتا۔ رات اور دن ہر وقت یہ عمل جاری ہے ، ہر زمان و مکان میں جاری ہے۔ زمین کی سطح میں سے چپے چپے پر جاری ہے۔ فضائے کائنات میں جاری ہے ، سمندر کی تہوں میں جاری ہے ، ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ، یہ عمل کوئی غیر معمولی عمل نہیں ہے ، یہ تو ایک معجزہ ہے ، لیکن رات اور دن اسے دیکھتے دیکھتے ہم اس کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اس کا معجزانہ پہلو نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے حالانکہ ہر لحظہ نئ آن اور شان کے ساتھ مردے سے زندہ اور زندہ سے مردہ نکل رہا ہے۔ ایک مردہ اور خشک بین زمین میں ڈالا جاتا ہے اور اس سے خوشنما پودے اور پھول پیدا ہوتے ہیں ، فصلیں اگتی ہیں اور جب یہی پھل پھول خوشے اور پودے خشک ہوکر بھوسہ بن جاتے ہیں تو اس خشک بھوسے کے اندر ہزار ہا مردہ بیج تیار ہوچکے ہوتے ہیں جن کے اندر پوری حیات موجود ہوتی ہے۔ یہ مردہ پھر فضائے کائنات سے گری ، گیس ، پانی اور تپش حاصل کرکے پھر زندہ ہوتا رہتا ہے۔ انسانوں اور حیوانوں کے جنین اور پرندوں کے جنین اور انڈے مختلف اشکال اور مختلف اندازوں سے زندگی کی شکل اختیار کرتے ہیں ، غرض انسان ، حیوانات ، کیڑے اور مکوڑے اور حشرات اور بیج اور انڈے ہر وقت زندگی اختیار کرتے رہتے ہیں اور پھر مردہ بیج پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل سرکل ہے اور زندہ مردہ اور مردہ زندہ ہوتا رہتا ہے۔ کیا کسی زندہ اور جاگنے والے دل کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اللہ دوبارہ تخلیق کرسکتا ہے۔ قرآن کی روشنی میں اس بات کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ قرآن کی روشنی اللہ کے نور سے نکلی ہوئی ہے۔ وکذلک تخرجون (30: 19) ” بعینہ اسی طرح تم نکالے جاؤ گے “۔ یہ ایک تہمل الفہم مسئلہ ہے۔ ایک عام اور معمولی بات ہے ، یہ تو تمہارا مشاہدہ ہے۔ کائنات میں رات اور دن دیکھا جا رہا ہے۔ رات اور دن اس کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ ) (الآیۃ) (اللہ تعالیٰ مردہ کو زندہ سے اور زندہ کو مردہ سے پیدا کرتا ہے) اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کو بیان فرمایا ہے کہ وہ جاندار کو مردہ سے اور مردہ کو جاندار سے نکالتا ہے۔ مفسرین نے اس کی شرح میں فرمایا ہے کہ مردہ سے نطفہ مراد ہے جو بےجان ہے، اور بعض حضرات نے اس کی مثال بچہ اور انڈے سے دی ہے کہ چوزے کو انڈے سے اور انڈے کو پرندے سے نکالتا ہے۔ (وَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا) (اور زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ فرماتا ہے) یعنی جب زمین خشک ہو کر مردہ ہوجاتی ہے اس میں ایسی جان ہی نہیں رہتی جس سے کھیتی اور گھاس وغیرہ پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو زندہ فرماتا ہے وہ ترو تازہ اور شاداب ہوجاتی ہے، اس میں سے کھیتیاں نکل کر لہلہانے لگتی ہیں۔ آخر میں فرمایا (وَ کَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ ) (اور تم بھی اسی طرح نکالے جاؤ گے) یعنی قیامت کے دن قبروں سے زندہ ہو کر اٹھو گے۔ موت کے بعد زندہ ہونے کی یہ نشانی تمہارے سامنے ہے پھر بھی قیامت کا انکار کرتے ہو اور قیامت کے دن زندہ اٹھنے کو نہیں مانتے۔ فائدہ : حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص صبح کو یہ تین آیات (فَسُبْحٰنَ اللّٰہِ ) سے (وَ کَذٰلِکَ تُخْرَجُوْنَ ) تک پڑھ لے اس کا جو ورد چھوٹ جائے گا اس کا ثواب پالے گا اور جو شخص یہ آیات شام کو پڑھ لے اس رات کو جو اس کا ورد چھوٹ جائے گا اس کا ثواب پالے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ یہ بھی بعث و نشور پر عقلی دلیل ہے یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ بےجان سے جاندار کو اور جاندار سے بےجان کو پیدا کرسکتا ہے اور خشک زمین کو زندہ اور زرخیز بنا دیتا ہے اسی طرح وہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ اس سورت کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے وعدہ فرمایا کہ وہ توحید پر قائم رہیں آخر اللہ تعالیٰ ان کو مشرکین پر غلبہ عطا کرے گا۔ مسلمانوں کا مشرکین پر غلبہ جہاں ایمان والوں کے لیے خوشی کا باعث ہوگا وہ مشرکین کے حق میں عذاب خداوندی ہوگا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے دونوں فریقوں کی بھلائی کے لیے آگے توحید پر تیری عقلی دلیلیں ذکر کیں تاکہ مسئلہ خوب واضح ہوجائے مسلمانوں کی بھلائی یہ ہے کہ وہ اس مسئلہ کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں اور اس پر قائم رہیں کیونکہ ان کو غلبہ اسی کی بدولت حاصل ہوگا۔ مشرکین کی بھلائی یہ ہے کہ تیرہ دلائل عقلیہ کے ساتھ اس مسئلہ کو خوب واضح کردیا گیا ہے تاکہ کسی شک و شبہہ کی گنجائش باقی نہ رہے اور وہ اس مسئلہ کو سمجھ کر مان لیں اور اللہ کے عذاب سے بچ جائیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

19۔ وہ جاندارکو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے اور وہی زمین کو اس کے مرے پیچھے زندہ کرتا ہے اور اسی طرح تم لوگ بھی مرنے کے بعد زمین سے نکالے جائو گے۔ یعنی انسان کے نطفے سے اور نطفے کو انسان سے جانور سے انڈے اور انڈے سے جانور کو مومن سے کافر کو کافر سے مومن کو اور جب زمین خشک ہوتی ہے تو پھر اس کو برسات میں زندہ کردیتا ہے اور زمین میں روئیدگی ہوجاتی ہے اور اسی طرح تم کو بھی مرنے کے بعد قبروں سے نکال کھڑا کرے گا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی مٹی مردے سے جیتے جان دار۔ 12