Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 42

سورة الروم

قُلۡ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ کَانَ اَکۡثَرُہُمۡ مُّشۡرِکِیۡنَ ﴿۴۲﴾

Say, [O Muhammad], "Travel through the land and observe how was the end of those before. Most of them were associators [of others with Allah ].

زمین میں چل پھر کر دیکھو تو سہی کہ اگلوں کا انجام کیا ہوا جن میں اکثر لوگ مشرک تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ سِيرُوا فِي الاَْرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلُ ... Say: "Travel in the land and see what was the end of those before (you)!" meaning, those who came before you. ... كَانَ أَكْثَرُهُم مُّشْرِكِينَ Most of them were idolators. means, so see what happened to them when they rejected the Messengers and were ungrateful for the blessings.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

421شرک کا خاص طور پر ذکر کیا، کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ علاوہ ازیں اس میں دیگر برائیوں سیأت و معاصی بھی آجاتی ہے کیونکہ ان کا ارتکاب بھی انسان اپنے نفس کی بندگی ہی اختیار کر کے کرتا ہے اسی لئے اسے بعض لوگ عملی شرک سے تعبیر کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] یعنی سابقہ اقوام کی تباہی کا اصل سبب شرک تھا۔ اب مشرکین میں سے اکثر تو ایسے ہوتے ہیں جو روز آخرت کے منکر ہوتے ہیں۔ جب کہ مشرکین مکہ کا حال تھا اور اگر ان کا آخرت پر عقیدہ ہو بھی تو پھر وہ اس عقیدہ میں کچھ ایسے اضافے کرلیتے ہیں تو عقیدہ آخرت کے اصل مقصد کو بےکار کرکے رکھ دیتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ ہم قیامت کے دن فلاں حضرت کا دامن پکڑ لیں گے اور ان کے ساتھ ہی جنت میں جا داخل ہوں گے۔ یا مثلاً فلاں پیر حضرت کی بیعت کرلی جائے تو ان کی شفاعت سے ہم نجات پاجائیں گے یا یہ کہ فلاں بزرگ کے مزار پر جو بہشتی دروازہ بنا ہوا ہے اس کے عرس کے دن اگر گزرا جائے تو بہشت واجب ہوجائے گی۔ اب دیکھئے کہ اگر سستی نجات کے اس قسم کے عقیدے اپنا لئے جائیں تو اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کا کچھ خوف باقی رہ جاتی ہے۔ پھر ایسے مشرکوں میں اور عقیدہ آخرت کے منکر مشرکوں میں کتنا فرق باقی رہ جاتا ہے ؟ عقیدہ آخرت کا صحیح تصور ہی انسان کو گناہوں سے باز رکھ سکتا ہے ورنہ انسان گناہوں پر دلیر ہوجاتا ہے۔ پھر یہی گناہ افراد اوراقوام کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ۔۔ : یعنی قوم نوح، عاد وثمود، قوم شعیب و قوم لوط، فرعون، ہامان اور قارون وغیرہ۔ پچھلی جن قوموں پر تباہی آئی اسی شرک کی بدولت آئی، جس سے بچنے کی تمہیں تلقین کی جا رہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلُ۝ ٠ ۭ كَانَ اَكْثَرُہُمْ مُّشْرِكِيْنَ۝ ٤٢ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ سير السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير ( س ی ر ) السیر ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف/ 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ ان کفار مکہ سے فرما دیجیے کہ زمین پر چلو پھرو پھر غور کرو کہ جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں ان کا کیا انجام ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کی تکذیب پر ان کو ہلاک کردیا اس لیے کہ وہ مشرک ہی تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

65 That is, "The disastrous war between Byzantium and Iran is not a new thing of its kind. The past history of mankind is full of the accounts of the destruction of great nations. The root cause of the evils that caused the destruction of those nations was shirk which you are today being admonished to avoid."

سورة الروم حاشیہ نمبر : 65 یعنی روم و ایران کی تباہ کن جنگ آج کوئی نیا حادثہ نہیں ےہ ۔ پچھلی تاریخ بڑی بڑی قوموں کی تباہی و بربادی کے ریکارڈ سے بھری ہوئی ہے ۔ اور ان سب قومں کو جن خرابیوں نے برباد کیا ان سب کی جڑ یہی شرک تھا جس سے باز آنے کے لیے آج تم سے کہا جارہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی پچھلی جن قوموں پر تباہی آئی۔ اسی شرک کی بدولت آئی جس سے باز رہنے کی آج تمہیں تلقین کی جا رہی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل سیروا فی الارض ۔۔۔۔۔ اکثرھم مشرکین (30: 42) ”(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہو کہ زمین میں چل کر پھر کر دیکھو۔ پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہوچکا ہے ، ان میں سے اکثر مشرک ہی تھے “۔ ان کا انجام وہ بار بار دیکھتے تھے جب وہ زمین میں پھرتے تھے۔ یہ انجام ایسا تھا جو کسی کو اس رویے پر آمادہ نہ کرتا تھا جو ان لوگوں نے اختیار کیا ہوا تھا۔ یہاں آکر اب دوسرا راستہ بھی بتا دیا جاتا ہے جس پر چلنے والے کبھی گمراہ نہیں ہوتے۔ اور ایک دوسرے بلند افق کی طرف ان کی نظریں مبذول کرائی جاتی ہیں جس کی طرف جانے والے کبھی نامراد نہیں ہوتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (قُلَ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ) (الآیۃ) کہ آپ اپنے مخاطبین یعنی مشرکین مکہ وغیرہ ہم سے فرما دیجیے کہ تم زمین میں چل پھر کر دیکھ لو۔ تم سے پہلے جو قومیں تھیں ان کا کیا انجام ہوا ؟ ان لوگوں میں اکثر مشرک تھے، ان لوگوں کے کفر اور شرک کی وجہ سے عام عذاب آیا اور ہلاک و برباد ہوئے، ان کے گھروں کے نشانات تمہارے سامنے ہیں، چلو پھرو، دیکھو اور عبرت حاصل کرو۔ اس آیت میں جو (کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّشْرِکِیْنَ ) فرمایا اس میں یہ بتادیا کہ ان برباد ہونے والوں میں اکثر تو مشرکین تھے اور بعض ایسے تھے جو کفر کی دوستی میں مبتلا تھے۔ اور اس میں اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ شرک کفر کی بدترین اقسام میں سے ہے اس کا وبال بہت بڑا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33:۔ یہ تخویف دنیوی ہے شرک و معاصی کے وبال کا انجام دیکھنا ہو تو زمین میں چل پھر کر گذشتہ زمانے کے معاندین کی ہلاکت و تباہی کے آثار دیکھو۔ وہ بھی مشرک ہی تھے اور نہوں نے توحید کا پیغام لانے والوں کو جھٹلایا اور دعوت توحید کو قبول نہ کیا تو دنیا ہی میں ان کو ذلت آمیز اور رسوا کن عذاب سے ہلاک کردیا گیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

42۔ اے پیغمبر آپ ان منکرین دین حق سے فرمایئے کہ تم لوگ زمین میں چلو پھر وپھر دیکھو کہ جو لوگ تم سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کا آخر اور ان کا انجام کیسا ہوا ان گزشتہ لوگوں میں اکثر اور بہت سے مشرک ہی تھے۔ یعنی یہ مشرک اس بات کے قائل نہیں ہوتے کہ گناہوں کی پاداش کبھی دنیا میں بھی ملتی ہے تو ان سے کہو کہ دنیا میں چل پھر کر دیکھو کہ پہلی قومیں کس طرح تباہ کی گئیں او تم ان کو دیکھ کر ان جرائم سے باز آئو جو وہ کیا کرتے تھے ، یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حوادثات کی علت اگر گناہ ہوں تو بعض دفعہ حوادثات تو نیک بندوں کو بھی پیش آتے ہیں کیونکہ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ مطلق حوادث کی علت معاصی اور گناہوں میں منحصر نہیں ہے بلکہ جو حوادثات بطور سزا کے پیش آتے ہیں ان کی علت یقینا معاصی ہی ہوتے ہیں اور رفع درجات وغیرہ کے لئے جو حوادثات پیش آئیں ان کی علت معاصی اور گناہ نہیں ہوتے۔ واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کفر اور ظلم پھیل پڑا ہے زمین میں اور جہازوں میں لوٹ مار ہر طرف اس کا وبال پڑا ، چاہے سارا تو آخرت میں ہے پر کچھ یہاں بھی شاید ڈر کر راہ پر آویں ۔ 12