Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 46

سورة الروم

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ یُّرۡسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّ لِیُذِیۡقَکُمۡ مِّنۡ رَّحۡمَتِہٖ وَ لِتَجۡرِیَ الۡفُلۡکُ بِاَمۡرِہٖ وَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۴۶﴾

And of His signs is that He sends the winds as bringers of good tidings and to let you taste His mercy and so the ships may sail at His command and so you may seek of His bounty, and perhaps you will be grateful.

اس کی نشانیوں میں سے خوشخبریاں دینے والی ہواؤں کو چلانا بھی ہے اس لئے کہ تمہیں اپنی رحمت سے لطف اندوز کرے اور اس لئے کہ اس کے حکم سے کشتیاں چلیں اور اس لئے کہ اس کے فضل کو تم ڈھونڈو اور اس لئے کہ تم شکر گزاری کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Among the Signs of Allah are the Winds Allah says: وَمِنْ ايَاتِهِ أَن يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ ... And among His signs is this that He sends the winds as glad tidings, Here Allah mentions the favor He does for His creatures by sending winds to them, as harbingers of His mercy, meaning that they will be followed by rain. Allah says: ... وَلِيُذِيقَكُم مِّن رَّحْمَتِهِ ... giving you a taste of His mercy, that is, the rain which will come down and revive people and the land. ... وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ ... and that the ships may sail at His command, means, on the sea, for they are driven by the wind. ... وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ ... and that you may seek of His bounty, means, by trading, earning a living and traveling from one country to another, one region to another. ... وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ in order that you may be thankful. means, that you may give thanks to Allah for the innumerable favors He has done for you, both visible and hidden. Then Allah says:

مسلمان بھائی کی اعانت پر جہنم سے نجات کا وعدہ بارش کے آنے سے پہلے بھینی بھینی ہواؤں کا چلنا اور لوگوں کو بارش کی امید دلانا ۔ اس کے بعد مینہ برسانا تاکہ بستیاں آباد ہیں اور جاندار زندہ رہیں سمندروں اور دریاؤں میں جہاز اور کشتیاں چلیں ۔ کیونکہ کشتیوں کا چلنا بھی ہوا پر موقوف ہے ۔ اب تم اپنی تجارت اور کمائی دھندے کے لئے ادھر سے ادھر ، ادھر سے ادھر جاسکو ۔ پس تمہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ان بیشمار ان گنت تعمتوں پر اس کا شکریہ ادا کرو ۔ پھر اپنے نبی کو تسکین اور تسلی دینے کے لئے فرماتا ہے کہ اگر آپ کو لوگ جھٹلاتے ہیں تو آپ اسے کوئی انوکھی بات نہ سمجھیں ۔ آپ سے پہلے کے رسولوں کو بھی ان کی امتوں نے ایسے ہی ٹیڑھے ترچھے فقرے سنائے ہیں ۔ وہ بھی صاف روشن اور واضح دلیلیں معجزے اور احکام لائے تھے بالآخر جھٹلانے والے عذاب کے شنکجے میں کس دئیے گئے اور مومنوں کو اس وقت ہر قسم کی برائی سے نجات ملی ۔ اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے نفس کریم پر یہ بات لازم کر لی ہے کہ وہ اپنے با ایمان بندوں کو مدد دے گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ 54؀ ) 6- الانعام:54 ) ابن ابی حاتم میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی آبرو بچالے اللہ پر حق ہے کہ وہ اس سے جہنم کی آگ کو ہٹالے ۔ پھر آپ نے پڑھا آیت ( وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ 47؀ ) 30- الروم:47 )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

461یعنی یہ ہوائیں بارش کی پیامبر ہوتی ہیں۔ 462یعنی بارش سے انسان بھی لذت و سرور محسوس کرتا ہے اور فصلیں بھی لہلا اٹھتی ہیں۔ 463یعنی ان ہواؤں کے ذریعے سے کشتیاں بھی چلتی ہیں۔ مراد بادبانی کشتیاں ہیں اب انسان نے اللہ کی دی ہوئی دماغی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال سے دوسری کشتیاں اور جہاز ایجاد کرلیے ہیں جو مشینوں کے ذریعے سے چلتے ہیں۔ تاہم ان کے لیے بھی موافق اور مناسب ہوائیں ضروری ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ انھیں بھی طوفانی موجوں کے ذریعے سے غرق آب کردینے پر قادر ہے۔ 464یعنی ان کے ذریعے سے مختلف ممالک میں جاکر تجارت و کاروبار کرکے۔ 465یعنی ظاہری و باطنی نعمتوں پر جن کا کوئی شمار ہی نہیں۔ یعنی یہ ساری سہولتیں اللہ تعالیٰ تمہیں اس لئے بہم پہنچاتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں ان سے فائدہ اٹھاؤ اور اللہ کی بندگی و اطاعت بھی کرو !

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٤] قرآن میں جہاں بھی ارسال الریاح کے الفاظ مذکور ہوں (یعنی میح کا لفظ جمع کے صیغہ میں ہو) تو اس سے مراد خوشگوار ہوائیں ہوتی ہیں اس آیت میں دو قسم کی خوشگوار ہواؤں اور ان کے فوائد کا ذکر کیا۔ ایک باران رحمت سے پہلے دلوں کو فرحت بخشنے والی اور بارش کی بشارت دینے والی ہوائیں، جس سے زمین سیراب ہوتی ہے۔ اور اس بارش میں طرح طرح کے فائدے ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ موافق ہوائیں جو کشتیوں اور جہازوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ پہلے زمانہ میں تو رواج ہی بادبانی کشتیوں کا تھا جن کے چلنے کا زیادہ تر انحصار باد موافق پر ہی ہوتا ہے۔ آج دخانی کشتیوں اور جہازوں کا دور ہے۔ پھر بھی باد موافق اور باد مخالف کا دن دخانی کشتیوں اور جہازوں پر خاصا اثر پڑتا ہے یہ کشتیاں جو باد موافق کے سہارے چلتی ہیں ان میں تم سفر ہی نہیں کرتے بلکہ اپنا تجارتی سامان بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں لے جاکر خوب نفع کماتے ہو۔ یہ ہوائیں تو اللہ ہی بھیجتا ہے۔ پھر کیا تم اس کی اس نعمت کا شکر بھی ادا کرتے ہو && اللہ کی ان مہربانیوں کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ ۔۔ : بروبحر میں فساد کا باعث شرک بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل کے طور پر چند چیزیں ذکر فرمائیں جن کا سب لوگ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں بھی ”إِرْسَال الرِّیَاحِ “ کے الفاظ مذکور ہوں (رِیْحٌ کی جمع کے صیغے کے ساتھ) ان سے مراد خوش گوار ہوائیں ہوتی ہیں۔ اس آیت میں دو قسم کی خوش گوار ہواؤں کا اور ان کے فوائد کا ذکر فرمایا، ایک رحمت کی بارش کی خوش خبری دینے والی، جس سے گردوغبار اور فضا میں پھیلی ہوئی زہر ناکی ختم ہوتی ہے، مردہ زمین سیراب ہوتی ہے، طرح طرح کی فصلیں، پودے اور درخت پیدا ہوتے ہیں اور تمام جان داروں کی بنیادی ضرورت پانی مہیا ہوتا ہے۔ غرض بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ دوسری وہ موافق ہوائیں جو کشتیوں اور جہازوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ پہلے زمانے میں تو رواج ہی بادبانی کشتیوں کا تھا، جن کے چلنے کا زیادہ تر انحصار موافق ہواؤں پر ہوتا تھا۔ آج کل انجن سے چلنے والی کشتیوں اور جہازوں کا دور ہے، پھر بھی موافق اور مخالف ہواؤں کا ان کشتیوں اور جہازوں پر خاصا اثر پڑتا ہے۔ فرمایا، یہ کشتیاں جو موافق ہواؤں کے سہارے چلتی ہیں ان کے ذریعے سے تم اللہ کا فضل تلاش کرتے ہو کہ وہ طلب علم، تجارت اور دوسری ضروریات کے لیے سفر کا آسان اور سستا ذریعہ بنتی ہیں۔ پھر تم انھی کشتیوں پر اپنا ہزاروں لاکھوں من تجارتی سامان لے جا کر خوب نفع کماتے ہو اور انھی جہازوں پر ملکوں کو فتح کرتے ہو۔ ایک علاقے میں پیدا ہونے والی چیزیں صرف وہاں تک محدود نہیں رہتیں بلکہ تمام دنیا کے لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہواؤں کے بھیجنے میں یہ تمام فوائد بھی ہیں اور یہ بھی کہ تم ان نعمتوں پر اللہ کا شکر کرو اور اس کی وحدانیت مان کر اس اکیلے کی عبادت کرو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور اللہ تعالیٰ کی (قدرت و وحدت و نعمت کی) نشانیوں میں سے ایک یہ (بھی) ہے کہ وہ (بارش سے پہلے) ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ (بارش کی) خوش خبری دیتی ہیں (پس ان کا بھیجنا ایک تو جی خوش کرنے کے لئے ہوتا ہے) اور (نیز اس واسطے) تاکہ (اس کے بعد بارش ہو اور) تم کو اپنی (اس) رحمت (بارش) کا مزہ چکھاوے (یعنی بارش کے فوائد عنایت فرماوے) اور (نیز اس واسطے ہوا بھیجتا ہے) تاکہ (اس کے ذریعے سے بادبانی) کشتیاں اس کے حکم سے چلیں اور تاکہ (اس ہوا کے ذریعہ سے بواسطہ کشتی دریا کے سفر سے) تم اس کی روزی تلاش کرو (یعنی کشتیوں کا چلنا اور روزی تلاش کرنا دونوں ارسال ریاح سے حاصل ہوتے ہیں اول بلا واسطہ اور ثانی بواسطہ کشتی کے) اور تاکہ تم شکر کرو اور (ان دلائل بالغہ اور نعم سابغہ پر بھی یہ مشرکین حق تعالیٰ کی جو ناشکریاں کرتے ہیں، یعنی شرک اور مخالفت رسول اور ایذاء مومنین وغیرہ، تو آپ اس پر غمگین نہ ہوں، کیونکہ ہم عنقریب ان سے انتقام لینے والے اور اس میں ان کو مغلوب اور اہل حق کو غالب کرنے والے ہیں جیسا کہ پہلے بھی ہوا ہے چنانچہ) ہم نے آپ سے پہلے بہت سے پیغمبر ان کی قوموں کے پاس بھیجے اور وہ ان کے پاس دلائل (ثبوت حق کے) لے کر آئے (جس پر بعضے ایمان لائے اور بعضے نہ لائے) سو ہم نے ان لوگوں سے انتقام لیا جو مرتکب جرائم کے ہوئے تھے (اور وہ جرائم تکذیب حق و مخالفت اہل حق ہیں اور اس اتنقام میں ہم نے ان کو مغلوب اور اہل ایمان کو غالب کیا) اور اہل ایمان کو غالب کرنا (حسب وعدہ و عادت) ہمارے ذمہ تھا (وہ انتقام عذاب الہی تھا اور اس میں کفار کا ہلاک ہونا یا ان کا مغلوب ہونا ہے اور مسلمانوں کا بچ جانا ان کا غالب آنا ہے۔ غرض اسی طرح ان کفار سے انتقام لیا جائے گا۔ خواہ دنیا میں خواہ بعد موت اور یہ مضمون تسلی کا بطور جملہ معترضہ کے تھا آگے ارسال ریاح کے بعضے آثار مذکورہ بالاجمال کی تفصیل ہے کہ) اللہ ایسا (قادر و حکیم و منعم) ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے پھر وہ (ہوائیں) بادلوں کو (جو کہ کبھی ان ہواؤں سے پہلے بخارات اٹھ کر بادل بن چکتے ہیں اور کبھی وہ بخارات انہی ہواؤں سے بلند ہو کر بادل بن جاتے ہیں پھر وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے یعنی فضائے آسمانی سے یا زمین سے) اٹھاتی ہیں پھر اللہ تعالیٰ اس (بادل) کو (کبھی تو) جس طرح چاہتا ہے آسمان (یعنی فضائے آسمانی میں پھیلا دیتا ہے اور (کبھی) اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے (بسط کا مطلب یہ ہے کہ مجتمع کر کے دور تک پھیلا دیتا ہے اور كَيْفَ يَشَاۗءُ کا مطلب یہ ہے کہ کبھی تھوڑی دور تک کبھی بہت دور تک اور کسفاً کا مطلب یہ کہ مجتمع نہیں ہوتا متفرق رہتا ہے) پھر (دونوں حالت میں) تم مینھ کو دیکھتے ہو کہ اس (بادل) کے اندر سے نکلتا ہے (مجتمع بادل سے برسنا تو بکثرت ہے اور بعض موسموں میں اکثر بارش متفرق بدلیوں سے بھی ہوتی ہے) پھر (بادل سے نکلنے کے بعد) جب وہ (مینھ) اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے پہنچا دیتا ہے تو بس وہ خوشیاں کرنے لگتے ہیں اور وہ لوگ قبل اس کے کہ ان کے خوش ہونے سے پہلے ان پر برسے (بالکل ہی) ناامید (ہو رہے) تھے (یعنی ابھی ابھی ناامید تھے اور ابھی خوش ہوگئے۔ اور ایسا ہی مشاہدہ بھی ہے کہ انسان کی کیفیت ایسی حالت میں بہت جلدی جلدی بدل جاتی ہے) سو (ذرا) رحمت الٰہی (یعنی بارش) کے آثار (تو) دیکھو کہ اللہ تعالیٰ (اس کے ذریعہ سے) زمین کو اس کے مردہ (یعنی خشک) ہونے کے بعد کس طرح زندہ (یعنی ترو تازہ) کرتا ہے (اور یہ بات نعمت اور دلیل وحدت ہونے کے علاوہ اس کی بھی دلیل ہے کہ اللہ کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر پوری قدرت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس خدا نے مردہ زمین کو زندہ کردیا) کچھ شک نہیں کہ وہی (خدا) مردوں کو زندہ کرنے والا ہے (پس عقلاً ممکن ہونے میں دونوں برابر اور قدرت ذاتی دونوں کے ساتھ برابر اور مشاہدہ میں دونوں کاموں کا یکساں ہونا یہ سب چیزیں اس استبعاد کو دفع کرنے والی ہیں کہ مرنے کے بعد پھر کیسے زندہ ہوں گے) اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے (یہ مضمون احیاء موتی کا بمناسب حیات ارض کے جملہ معترضہ تھا) اور (آگے پھر بارش و ریاح کے متعلق مضمون ہے، جس میں اہل غفلت کی ناشکری کا بیان ہے۔ یعنی اہل غفلت ایسے حق ناشناس و ناسپاس ہیں کہ اتنی بڑی بڑی نعمتوں کے بعد) اگر ہم ان پر اور (قسم کی) ہوا چلا دیں پھر ( اس ہوا سے) یہ لوگ کھیتی کو (خشک اور) زرد دیکھیں (کہ اس کی سبزی اور شادابی جاتی رہی) تو یہ اس کے بعد ناشکری کرنے لگیں (اور پچھلی نعمتیں سب طاق نسیاں میں رکھ دیں) سو (جب ان کی غفلت اور ناشکری پر اقدام اس درجہ میں ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ بالکل ہی بےحس ہیں تو ان کے عدم ایمان و عدم تدبر پر غم بھی بےکار ہے کیونکہ) آپ مردوں کو (تو) نہیں سنا سکتے اور بہروں کو (بھی) آواز نہیں سنا سکتے (خصوصاً ) جب کہ پیٹھ پھیر کر چل دیں (کہ اشارہ کو بھی نہ دیکیں) اور (اسی طرح) آپ (ایسے) اندھوں کو (جو کہ بصیر کا اتباع نہ کریں) ان کی بےراہی سے راہ پر نہیں لا سکتے (یعنی یہ تو ماؤف الحواس والحیوة کے مشابہ ہیں) آپ تو بس ان کو سنا سکتے ہیں، جو ہماری آیتوں کا یقین رکھتے ہیں (اور) پھر وہ مانتی (بھی) ہیں (اور جب یہ لوگ مردوں، بہروں، اندھوں کے مشابہ ہیں پھر ان سے توقع ایمان کی نہ رکھئے اور غم نہ کیجئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّلِيُذِيْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِہٖ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِاَمْرِہٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝ ٤٦ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ الرِّيحُ معروف، وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] . وأمّا قوله : يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ. وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ : تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ : مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء . ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح . الریح کے معنی معروف ہیں ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔ المراوحتہ کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ فلك الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر . قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع . ( ف ل ک ) الفلک کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے ابتغاء (ينبغي) البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟ فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] . ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو ) لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اللہ تعالیٰ کی وحدت وقدرت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ہواؤں کو بھیجتا ہے جو مخلوق کو بارش کی خوشخبری دیتی ہیں تاکہ تمہیں اپنی نعمت کا مزہ چکھائے اور تاکہ سمندروں میں اس کے حکم سے کشتیاں چلیں کہ تم کشتیوں میں سوار ہو کر اس کا رزق تلاش کرو اور تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکرو کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَّلِیُذِیْقَکُمْ مِّنْ رَّحْمَتِہٖ ) ” تا کہ باران رحمت برسا کر تمہیں اس کے ثمرات سے مستفیض ہونے کا موقع فراہم کرے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

68 That is, to give good news of the rain. 69 This refers to winds, which are helpful in sailing. In ancient times, sailing boats and ships mostly depended on favourable winds and adverse winds were disastrous for them. Therefore, the mention of these winds after the rainbringing winds has been made as a special favour of Allah. 70 "To seek His bounty": To perform trade journeys.

سورة الروم حاشیہ نمبر : 68 یعنی باران رحمت کی خوشخبری دینے کے لیے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 69 یہ ایک اور قسم کی ہواؤں کا ذکر ہے جو جہاز رانی میں مددگار ہوتی ہیں ۔ قدیم زمانہ کی بادبانی کشتیوں اور جہازوں کا سفر زیادہ تر باد موافق پر منحصر تھا اور باد مخالف ان کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہوتی تھی ۔ اس لیے بارش لانے والی ہواؤں کے بعد ان ہواؤں کا ذکر ایک نعمت خاص کی حیثیت سے کیا گیا ہے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 70 یعنی تجارت کے لیے سفر کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

21: ہوائیں چلانے کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ وہ بارش کی خوشخبری لاتی ہیں، اور بادلوں کو اٹھا کر پانی برسانے کا سبب بنتی ہیں، اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ وہ سمندروں اور دریاؤں میں کشتیوں کو چلاتی ہیں، بادبانی کشتیوں کا تو سارا دارومدار ہی ہواؤں پر ہوتا ہے، لیکن مشینی جہاز بھی ہوا کی مدد سے بے نیاز نہیں ہوتے، اور سمندروں میں کشتیاں چلانے کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے ذریعے لوگ اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کریں، جیسا کہ بار بار عرض کیا گیا، اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنا قرآن کریم کی ایک اصطلاح ہے، جس سے مراد تجارت اور روزگار کے دوسرے ذرائع اختیار کرنا ہے، لہذا قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے کہ اگر یہ ہوائیں نہ ہوں جن سے کشتیاں اور جہاز سمندروں میں چلنے کے لائق ہوتے ہیں، تو تمہاری ساری تجارت ٹھپ ہو کر رہ جائے، کیونکہ ساری بین الاقوامی تجارت کا دارومدار پانی کے جہازوں پر ہی ہوتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:46) مبشرات۔ اسم فاعل جمع مؤنث تبشیر (تفعیل) مصدر۔ خوشخبری دینے والیاں َ بارش کی خوشخبری دینے والی ٹھنڈی ہوائیں جو بارش ہونے سے کچھ پہلے چلتی اور پیام رحمت لاتی ہیں۔ ولیذیقکم۔ واؤ عطف کا ہے اس کا عطف علت محذوف پر ہے جس پر مبشرات کے معنی دلالت کرتے ہیں۔ عبارت یوں ہوگی۔ لیبشرکم ولیذیقکم۔ لام تعلیل کا ہے تاکہ وہ تمہیں (اپنی رحمت کا مزہ) چکھائے بارش برساکر۔ یذیقکم مضارع واحد مذکر غائب منصوب بوجہ لام تعلیل۔ ولتجری الفلک۔ اور تاکہ کشتیاں چلیں۔ اس میں بھی واؤ عاطفہ ہے اور معطوف علیہ یا تو لیذیقکم ہے۔ تجری واحد مؤنث غائب۔ منصوب بوجہ لام تعلیل۔ جری ضرب سے مصدر۔ ولتبتغوا۔ اور تاکہ تم ڈھونڈو۔ تم تلاش کرو۔ ابتغاء (افتعال) مصدر۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ اصل میں تبتغون تھا۔ نون اعرابی بوجہ عمل ان گرگیا۔ جو لام تعلیل کے بعد مقدر ہے واؤ عاطفہ ہے اور اس کا معطوف علیہ لتجری ہے یا اس کا عطف حسب بالا لیبشرکم ہے اور تاکہ تم تلاش کرو۔ ولعلکم تشکرون ۔ اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی بارش سے غلے اور میوے پیدا ہوں اور تم کھائو اور جانور موٹے تازے ہوں۔ تم ان کا گوشت کھائو اور دودھ پیو یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے۔ جس سے سب لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات آیت نمبر 46 تا 50 مبشرات (کوش خبری دینے والیاں) ۔ اجرموا (جنہوں نے جرم کیا) ۔ حق (حق ہے۔ ذمہ داری ہے) ۔ تشیر (وہ پھیلاتا ہے) ۔ سحاب (بادل) ۔ کسف (ٹکڑا۔ تقسیم کرنا ) ۔ ودق (بارش) ۔ اثر (اثر) (نشایاں) ۔ تشریح : آیت نمبر ( 46 تا 50) اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے خزاں کے بعد بہار، مصیبت کے بعد راحت، دکھ کے بعد آرام و سکون اور ہر مشکل کے بعد آسانی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ اسی طرح کفرو شرک اور اللہ کی نافرمانیاں جب حد سے برھ جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے پاکیزہ نفوس انبیاء کرام (علیہ السلام) کو بھیجتا ہے جو اپنی قوم کے لوگوں کو یہ بات بتاتے ہیں کہ اگر انہوں نے کفر و شرک اور نافرمانیوں کو نہ چھوڑا تو اللہ کا عذاب آئے گا جو تمہاری تمام ترقیات کو مٹاکر رکھ دے گا۔ اس طرح گویا کفروشرک کی وجہ سے جو خزاں کا موسم طاری ہوجاتا ہے وہ موسم بہار سے بدل جاتا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک بیشمار انبیاء اور رسول تشریف لائے جنہوں نے راستے سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراط مستقیم پر چلایا۔ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اب قیامت تک آپ کی امت کے علماء کرام اس فریضے کو پورا کرتے رہیں گے اور جب بھی لوگ کفروشرک میں مبتلا ہوں گے ان کی اصلاح کر کے ان کے سکون کا انتظام فرماتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی بیشمار نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ وہ بارش سے پہلے خوش خبری دینے والی ہوائیں بھیجتا ہے جن سے گرمی میں جھلسے ہوئے لوگ اس تصور کے ساتھ خوش ہوجاتے ہیں کہ اب گرمی کا موسم ختم ہوجائے گا اور اس کی شدت سے نجات مل جائے گی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں۔ یہ خوش گوار ہوائیں جب دریا اور سمندر میں چلتی ہیں تو چھوٹے اور بڑے جہاز اور کشتیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ چلی جاتی ہیں جن سے اللہ کا فضل و کرم اور تجارتی لین دین میں ترقی ہوتی ہے اور اس طرح بہت سے لوگوں کو اپنا رزق حاصل کرنے میں سہولت میسر آجاتی ہے۔ یہ اللہ کا اتنا پڑا کرم ہے کہ اس پر ہر ایک کو اس اللہ کا شکر گذار ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسی طرح جب کسی قوم میں اللہ کی نافرمانیوں کو وجہ سے کفر وشرک پھیل جاتا ہے تو وہ اپنے رسولوں کو بھیجتا ہے تاکہ ان کی زندگیوں میں رونق، بہار، نئی زندگی اور تروتازگی آجائے۔ جو لوگ ان کی بات مان لیتے ہیں تو اللہ نے اپنے ذمے لیا ہے کہ ایسے ایمان والوں کی وہ ہر حال میں مدد فرمائے گا لیکن جو لوگ ان انبیاء کرام (علیہ السلام) کو ستاتے ہیں اور ان کا کہا نہیں مانتے ان سے اللہ انتقام لے کر چھوڑتا ہے جس سے ان کی دنیا اور آخرت کی زندگی برباد ہو کر وہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دیکھتے ہو کہ بارش سے پہلے وہ اللہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کو بھیجتا ہے وہی بادلوں کو ہواؤں کے دوش پر اٹھاتا ہے جو تہہ درتہہ بادلوں کی شکل میں زمین کے مختلف ٹکڑوں کی طرف چلتے ہیں۔ جہاں وہ بادل برستے ہیں وہاں کے لوگ خوشیاں منانے لگتے ہیں حالانکہ وہ اس سے پہلے اس قدر مایوس ہوچکے ہوتے ہیں کہ جیسے ان پر کبھی بارش برسے گی ہی نہیں۔ اس طرح اللہ اس زمین کو جو خشک اور بنجر ہونے لگتی ہے اس کو بارش کے برسنے سے ایک نئی تازگی اور زندگی عطا کردیتا ہے۔ فرمایا کہ جس طرح بارش کے برسنے سے مردہ زمین دوبارہ تروتازہ ہوجاتی ہے اسی طرح اللہ کی یہ قدرت کاملہ ہے کہ وہ تمام ان لوگوں کو جو مر کر گل سڑ گئے ہوں گے ان کو اپنی رحمت خاص سے دوبارہ پیدا کرے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح بارش نہ برسنے سے زمین خشک، بنجر اور بےرونق ہوجاتی ہے لیکن بارش برستے ہی اس میں ایک نئی تروتازگی اور رونق آجاتی ہے اسی طرح جب انسانی ذہنوں کی دنیا بےرونق اور اجاڑ ہوجاتی ہے تو اللہ کے انبیاء کرام (علیہ السلام) آکر ان کو دنیا اور آخرت کی ایک نئی اور کامیاب زندگی سے آشنا کرتے رہے ہیں۔ کفار مکہ کو بھی اشارۃ بتایا جارہا ہے کہ ان کی زندگیوں کی بےرونقی اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی جب تک خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکمل ایمان لا کر عمل صالح زندگی اختیار نہ کی جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مکہ کے ان لوگوں نے جو خوف، بھوک اور باہمی جگھڑوں کی وجہ سے مردہ ہوچکے تھے جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دامن رسالت سے وابستگی اختیار کی تو ان کو ایک ایسی زندگی مل گئی جس میں ہر طرف امن و سکون، خوش حالی اور دین و دنیا کی بھلائیوں کی رونقیں تھیں۔ صحابہ کرام (رض) کی کوششوں سے ساری دنیا کا موسم تبدیل ہوگیا اور ساری دنیا جو بےرونق ہوچکی تھی اس میں ایک نئی زندگی اور تروتازگی پیدا ہوگئی تھی۔ آج بھی مسلمانوں کو ترقی اور زندگی کی بہاریں بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے اسوہ حسنہ کے ذریعہ ہی نصیب ہو سکتی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی جریان فلک اور ابتغاء فضل دونوں ارسال ریاح کے مسبب ہیں، اول قریب بلا واسطہ اور ثانی بعید بواسطہ اول کے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کفار کو اس لیے پسند نہیں کرتا کہ وہ اس کی ذات کے منکر اور اس کی نعمتوں کے ناشکرے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو ان کے اعمال کے بدلے جزا دینے کے ساتھ اپنے فضل سے مزیدنوازے گا اور کفار کو پسند نہیں کرتا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مومن اللہ کی ذات پر بلاشرکت غیرے ایمان لانے کے ساتھ اس کے احکام مانتے ہوئے اس کی نعمتوں پر شکر گزار رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کافر اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا انکار کرنے کے ساتھ اس کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے حالانکہ ” اللہ “ کی پہچان کے لیے، اس کی قدرت کی نشانیاں اور اس کی رحمتیں اس قدر ہمہ گیر اور ہمیشہ سے جاری ہیں کہ جن سے کافر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٹھنڈی ہواؤں پر غور کریں کہ موسم گرما میں جوں ہی چلتی ہیں اس سے کافر اور مومن مسرور ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب بارش برسنے ہی والی ہے بارش ہوتی ہے تو انسان ہی نہیں بلکہ درند پرند یہاں تک کہ کیڑے مکوڑے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اسی طرح بحری سفر کرنے والے کافر ہوں یا مومن سب کے سب مستفید ہوتے ہیں۔ باد موافق سے ان کے سفر کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور وہ بڑے اطمینان کے ساتھ بحری سفر کرتے ہوئے اپنے کاروبار کو وسعت دیتے اور اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔ سفری سہولتیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ سمندر میں طلاطم پیدا کردے اور ہواؤں کو مخالف سمت پر چلا دے تو بادبانی کشتیاں تو درکنار ہزاروں ہارس پاور (HORSE POWER) انجنوں سے چلنے والے جہاز بھی کئی کئی دن تک اپنی جگہ پر ٹھہرے رہتے ہیں حالانکہ اس کی عطائیں اس لیے ہیں کہ لوگ اپنے رب کا شکر بجالائیں لیکن کافر کفر اور مشرک اپنے رب کے ساتھ شرک کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ اس کا شکر کروگے تو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا۔ (وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَءِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزٍیْدَنَّکُمْ وَ لَءِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ) [ ابراہیم : ٧] ” اور جب تمہارے رب نے اعلان کیا اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب بہت سخت ہے۔ “ (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَخَذَ بِیَدِہِ وَقَالَ یَا مُعَاذُ وَاللَّہِ إِنِّیْ لَاُحِبُّکَ وَاللَّہِ إِنِّیْ لأُحِبُّکَ فَقَالَ أُوصِیْکَ یَا مُعَاذُ لاَ تَدَعَنَّ فِی دُبُرِکُلِّ صَلاَۃٍ تَقُوْلُ اللَّہُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) [ رواہ أبوداوٗد : باب فی الإستغفار ] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑا اور دو مرتبہ فرمایا اے معاذ ! اللہ کی قسم میں تجھ سے محبت کرتا ہوں پھر فرمایا اے معاذ ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر فرض نماز کے بعد یہ کلمات پڑھنے نہ چھوڑنا : الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ “ مسائل ١۔ ہوائیں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت کی نشانیاں ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی سمندروں میں کشتیاں اور جہاز چلانے والا ہے۔ ٣۔ انسان کو اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن شکر کرنے کا حکم اور اس کے فائدے : ١۔ لوگو ! اللہ کو یاد کرو اللہ تمہیں یاد کرے گا اور اس کا شکر ادا کرو کفر نہ کرو۔ (البقرۃ : ١٥٢) ٢۔ لوگو ! تم اللہ کا شکر ادا کرو اور ایمان لاؤ۔ اللہ تعالیٰ بہت ہی قدر دان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو وہ تمہیں مزید عطا فرمائے گا۔ (ابراہیم : ٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دل، آنکھیں اور کان دیے تاکہ تم شکر کرو۔ (السجدۃ : ٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی پاکیزہ نعمتیں کھا کر اس کا شکر کرو۔ (البقرۃ : ١٧٢) ٦۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرو۔ (العنکبوت : ١٧) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں تمہارے لیے سامان زندگی بنائے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ (الاعراف : ١٠) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کیا تاکہ تم شکر کرو۔ (الحج : ٣٦) ٩۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے شکر گزار بندوں میں شامل ہوجاؤ۔ (الزمر : ٦٦) ١٠۔ میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتے رہو بالآخر تم نے میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ (لقمان : ١٤) ١١۔ لوگوں میں بہت کم لوگ شکرادا کرنے والے ہوتے ہیں۔ (سبا : ١٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومن ایتہ ان یرسل ۔۔۔۔۔ من بعدہ یکفرون (46 – 51) ان آیات میں بظاہر نہایت مختلف النوع موضوعات کو جمع کیا گیا ۔ بشارت دینے والی ہوائیں ، رسولوں کو معجزات اور نشانیوں کے ساتھ بھیجنا ، مومنین کا رسولوں کے ذریعہ مدد کرنا ، ایسی بارشوں کا نزول جو مردہ زمین کو زندہ کردیتی ہیں اور بعث بعد الموت کا مسئلہ۔ یہ اجتماع بامقصد ہے۔ یہ سب چیزیں اللہ کی رحمت کی نشانیاں ہیں۔ یہ سب سنت الہیہ کے مظاہر ہیں ، یہ سب اس کائنات کے نظام کے تحت ہیں ، رسولوں کو ہدایت کے ساتھ بھیجنے اور مومنین کی نصرت کے درمیان گہرا تعلق ہے اور یہ سب آیات الہیہ کے مختلف نمونے ہیں۔ یہ سب امور اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں سے متعلق ہیں۔ لوگوں کی زندگی ان سب امور پر موقوف ہے اور یہ سب امور نظام کائنات کے ساتھ متعلق ہیں۔ ومن ایتہ یرسل الریاح مبشرت (30: 46) ” اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے بشارت دینے کے لیے “۔ یہ ہوائیں بارشیں برساتی اور پھیلاتی ہیں۔ یہ لوگ بارش برسانے والی ہواؤں کو خوب جانتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کو مہارت اور تجربہ حاصل تھا۔ جب ایسی ہوائیں چلتیں تو یہ لوگ خوش ہوتے۔ ولیذیقکم من رحمتہ (30: 46) ” تاکہ وہ انہیں اپنی رحمت سے بہرہ مند کرے “۔ اس رحمت کے نتیجے میں سرسبزی اور شادابی اور روئیدگی ہوتی ہے۔ ولتجری الفلک بامرہ (30: 46) ” تاکہ کشتیاں اس کے حکم سے چلیں “۔ یہ کشتیاں اس طرح بھی چلتی ہیں کہ یہ ہوائیں انہیں چلاتی ہیں اور یوں بھی کہ ہواؤں سے بارش برستی ہے ، دریا بہتے ہیں اور ان میں کشتیاں چلتی ہیں۔ یہ ان ظاہری اسباب کے باوجود امر الٰہی سے چلتی ہیں۔ اس سنت الہیہ کے مطابق جس کے مطابق اللہ نے اس کائنات کو بنایا ہے۔ اللہ کے اس نظام تقدیر کے مطابق کہ اللہ نے ہر چیز کے اندر ایک خاصیت مقدر کردی ہے۔ مثلاً یوں کہ پانی کی سطح پر کشتی کو ہلکا بنایا اور وہ چلنے لگی۔ اور یوں کہ یہ کشتی ہوا اور موجوں کے رخ پر اور ہوا اور موجوں کے رخ کے تصاد میں چلے۔ اللہ نے ہر چیز کو ایک مقدار کے مطابق بنایا ہے۔ ولتبتغوا من فضلہ (30: 46) ” تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو “۔ یعنی تجارتی سفروں میں اور فصل کاٹنے میں ، لین اور دین میں یہ سب امور اللہ کے فضل سے ہیں اور اللہ نے ہر چیز کو ایک مقدار کے مطابق پیدا کیا ہے۔ ۔۔۔ پورا پورا۔ ولعلکم تشکرون (30: 46) ” تاکہ تم شکر کرو “۔ یہ سب امور فضل الٰہی ہیں اور ان پر تم شکر کرو۔ یہ تمام امور ایسے ہیں جن کے مقابلے میں بندگان خدا کا فرض ہے کہ وہ اللہ کی ان نعمتوں کے مناسب رویہ اختیار کریں۔ ہواؤں کے بھیجنے کی طرح رسولوں کا بھیجنا بھی انسانوں پر اللہ کا فضل و کرم ہے۔ ولقد ارسلنا ۔۔۔۔ بالبینت (30: 47) ” اور ہم نے تم سے پہلے رسولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے “۔ لیکن لوگوں نے اللہ کی اس رحمت کا انتظار نہ کیا حالانکہ اللہ کی یہ رحمت ایسی تھی کہ ان کو اس کا استقبال تو ہواؤں سے زیادہ کرنا چاہئے تھا۔ ان لوگوں نے رسولوں سے کوئی استفادہ نہ کیا حالانکہ یہ نفع زیادہ اور دائمی نفع تھا بمقابلہ بارش اور پانی کے منافع کے اور رسولوں کے مقابلے میں یہ لوگ بٹ گئے۔ ایک گروہ ان ، مجرمین کا تھا جو ایمان نہ لاتے تھے۔ اللہ کی آیات پر تدبر نہ کرتے تھے۔ رسولوں کو اذیت دینے سے بھی نہ چوکتے تھے ، اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے باز رکھنے کے جرم سے بھی باز نہ آتے تھے۔ دوسرا گروہ ان مومنین کا تھا جو اللہ کی آیات کو سمجھ جاتے تھے۔ اللہ کا شکر ادا کرتے تھے ، اللہ کے وعدوں پر اعتماد کرتے تھے اور وہ ان مجرمین کے ہاتھوں اذیتیں برداشت کرتے۔ بہت زیادہ اذیتیں۔ چناچہ انجام وہی ہوتا تھا جو اللہ کے عدل کے مطابق تھا اور اللہ کا وعدہ ہمیشہ پختہ ہوتا ہے۔ فانتقمنا من الذین ۔۔۔۔۔ نصر المومنین (30: 47) ” پھر جنہوں نے جرم کیا ان سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں “۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے اوپر مومنین کی امداد فرض کرلی۔ اور اسے مومنین پر محض فضل و کرم کے بجائے ان کا حق قرار دیا۔ اسے اس انداز میں موکد قرار دیا اور لازمی قرار دیا کہ اس امداد میں کوئی شک و شبہ نہ رہا اور شک و شبہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جب وعدہ کرنے والا اللہ ہو ، جو قوی ، عزیر اور جبار ہے۔ وہ بلند اور اپنے بندوں پر کنٹرول کرنے والا اور حکیم وخبیر ہے۔ یہ اللہ فرماتے ہیں جس کا ارادہ کبھی رد نہیں ہوتا اور اس کی سنت کبھی بھی ٹلنے والی نہیں ہوتی کیونکہ اس کا ناموس فطرت اس پوری کائنات میں جاری ہے۔ بعض اوقات یہ نصرت بظاہر دیر میں آتی ہے لیکن یہ دیر انسانوں کے اپنے اندازوں کے مطابق ہوتی ہے کیونکہ لوگ معاملات کا حساب اپنے پیمانوں سے کرتے ہیں ، اللہ کے پیمانوں سے نہیں کرتے۔ معاملات کا اندازہ اللہ کے اندازوں کے ساتھ نہیں کرتے اور اللہ حکیم اور خبیر ہے۔ وہ جانتا ہے کہ امداد کا صحیح وقت کون سا ہے۔ اس کا وعدہ اس وقت سچ ہوتا ہے جس وقت اللہ کی مشیت ہو۔ اس کی حکمت کا تقاضا ہو ، اللہ جو وقت مقرر کرتا ہے اس کی حکمت بعض اوقات انسانوں کو معلوم ہوتی ہے اور بعض اوقات معلوم نہیں ہوتی لیکن اللہ جو چاہتا ہے ، وہی بہتر ہوتا ہے اور اللہ جو وقت مقرر کرتا ہے وہی صحیح ہوتا ہے۔ لیکن اللہ کا وعدہ قطعی ہے اور عین الیقین ہے اور صبر کرنے والے ، اس پر بھروسہ کرنے والے بڑے اطمینان سے اس کا انتظار کرتے ہیں۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ ہی ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے ، جو بارشیں برساتی ہیں۔ جن سے زمین زندہ ہوتی ہے حالانکہ وہ مر چکی تھی۔ بس یہی انداز ہوگا حشر میں لوگوں کے اٹھائے جانے کا ۔ یہی انداز ہوگا۔ فصل کی طرف لوگ زمین سے اگ آئیں گے۔ یہ دونوں اس کائنات کے طبیعی سنن ہیں۔ اللہ الذی یرسل الریع (30: 48) ” اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے “۔ یہ ہوائیں اس کے قانون قدرت کے مطابق چلتی ہیں اور یہ قانون اس کائنات میں اچھی طرح متصرف ہے۔ فتثیر سحابا (30: 48) ” وہ بادل اٹھاتی ہیں “۔ اور یہ ہوائیں پانی کے بخارات اٹھاتی ہیں۔ ان بخارات کو وہ آسمانوں میں پھیلاتی ہیں۔ فیبسطہ فی السمآء کیف یشآء (30: 48) ” پھر ان کو آسمانوں میں پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے “۔ ویجعلہ کسفا (30: 48) ” پھر انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے “۔ یعنی جمع کرتا ہے۔ وہ کثیف اور بوجھل بن جاتے ہیں۔ وہ پھر ایک دوسرے کے اوپر اور نیچے تہوں میں جم جاتے ہیں۔ بعض ٹکڑیوں کا بعض کے ساتھ تصادم ہوتا ہے۔ پھر بجلیاں چمکتی ہیں ۔ فتری الودق یخرج من خللہ (30: 48) ” پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکتے چلے آتے ہیں “۔ ودق کے معنی بارش کے ہیں جو بادلوں سے نکلتی ہے۔ فاذزا اصاب ۔۔۔۔۔ یستبشرون (30: 48) ” یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے ، برساتا ہے تو یکایک وہ خوش و خرم ہوجاتے ہیں “۔ اسی خوشی کو اچھی طرح وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کی زندگی بارش پر موقوف ہوتی ہے۔ عرب اس منظر سے اچھی طرح واقف تھے جن کی پوری معیشت آسمانوں کے پانیوں پر موقوف تھی اور ہے اس کا تذکرہ وہ اپنے اشعار اور اپنی روایات و محاورات میں بڑی محبت سے کرتے ہیں اور بڑے فخر و مباہات کے ساتھ کرتے ہیں۔ وان کانوا من۔۔۔۔۔ قبلہ لمبلسین (30: 49) ” حالانکہ اس کے نزول سے پہلے وہ مایوس ہو رہے تھے “۔ یہ تو ہے ان کی حالت اس وقت جب بارش نہ برسی ہوئی تھی۔ وہ مایوس ہوتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ گویا وہ مرنے ہی والے ہیں۔ لیکن جب بارش آجاتی ہے تو وہ خوش و خرم ہوتے ہیں۔ فانظر الی اثر رحمت اللہ (30: 50) ” دیکھو ، اللہ کی رحمت کے اثرات کو “۔ ذرا ان خوش و خرم چہروں کو دیکھو جو بالکل مایوس ہوگئے تھے اور اس زمین پر ان آثار کو دیکھو جو تباہ شدہ تھی اور مردہ تھی۔ اور ذرا اس زندگی میں دیکھو جو زمین پر چلتی پھرتی ہے اور اسے ذرا لوگوں کے دلوں میں دیکھو کہ خوشی کی وجہ سے ان میں کیا کیا امنگیں پیدا ہوتی ہیں۔ یحی الارض بعد موتھا (30: 50) ” کہ مردہ پڑی ہوئی زمین کو کس طرح جلا اٹھاتا ہے “۔ یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ اسکے دیکھنے کیے ” کسی زیادہ عقل کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی بات دلیل روشن ہے اس پر کہ حشر کے دن اس زمین سے انسان اسی طرح اگ آئیں گے۔ یہ قرآن کریم کا وجدانی طرز استدلال ہے کہ وہ اس کائنات کے قابل مشاہدہ مناظر سے عقائد اور مستقبل کے واقعات اور امکانیات ثابت کرتا ہے۔ قرآن انہی پیش پا افتاد مناظر سے اپنا مدعا ثابت کرتا ہے۔ ان ذلک ۔۔۔۔۔ شئ قدیر (30: 50) ” یقیناً وہ مردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ اس زمین پر اللہ کی رحمت کے یہ آثار بتاتے ہیں کہ اللہ کا یہ وعدہ سچا ہے کہ وہ لوگوں کو اٹھائے گا اور ان کا اچھا یا برا انجام ہوگا ، حسب وعدہ الٰہی اس حقیقت کی تصویر کشی کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ لوگ پانی سے لدے ہوئے بادل لانے والی ہواؤں کی آمد پر خوش ہوتے ہیں اور جب وہ اللہ رحمت کے آثار بادلوں اور بارش کی صورت میں دیکھتے ہیں تو خوش و خرم ہوتے ہیں۔ یہی لوگ اگر دیکھیں کہ یہ ہوا اور یہ بادل زرد ہیں ، ان ہواؤں میں پانی کے بجائے گرم ریت اور مٹی بھری ہوئی ہے۔ پانی کا قطرہ بھی نہیں ہے ، اور یہ ہوا ایسی ہے کہ فصلوں کو زرد کرکے رکھ دیتی ہے اور دودھ پلانے والے جانوروں کو خشک کردیتی ہے اور جس سے فصل زرد ہو کر قبل از وقت خشک ہوکر بھوسہ بن جاتی ہے تو ان کی حالت یہ ہوتی ہے : ولئن ارسلنا ۔۔۔۔۔ بعدہ یکفرون (30: 51) ” اور اگر ہم ایک ایسی ہوا بھیج دیں جس کے اثرات سے وہ اپنی کھیتی کو زرد پائیں تو وہ کفر کرتے رہ جائیں “۔ اس عذاب کو پاکر اور مایوس ہوکر بھی وہ کفر کریں۔ اور اللہ کی قدرت کا اقرار نہ کریں اور اللہ کے سامنے نہ گڑ گڑائیں کہ وہ اس مصیبت کو دور کرے بلکہ کفر کے رویہ ہی پر جم جائیں ، ایمان نہ لائیں اور یہ ہرگز نہ سمجھ سکیں کہ اللہ کی حکمت اور تدبیر کیا کیا کرتی ہیں۔ ان کو ان مصیبتوں کے پیچھے دست قدرت نظر نہ آئے۔ وہ ان واقعات اور حادثات کی تفسیر و تعبیر اس طرح نہ کریں کہ یہ سب کچھ اللہ کے قانون قدرت اور ناموس فطرت کے مطابق ہو رہا ہے ۔ بلکہ ابدی کافرانہ تاویلات ہیں۔ جب لوگ اس حد تک پہنچ جائیں کہ وہ اس دنیا کے واقعات اور حادثات کی تعبیر بھی اپنی خواہشات کے مطابق کرنے لگیں اور ان واقعات کے اندر جو اللہ کے نشانات و اشارات پنہاں تھے ، ان کو سمجھنے کی سعی ہی نہ کریں۔ اپنے ماحول کے اندر غور ہی نہ کریں۔ ان مشاہدات میں ان کو اللہ کی قدرت اور حکمت نظر ہی نہ آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جاتا ہے کہ بس ایسے لوگوں کو ہدایت دینے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معذور ہیں۔ ایسے لوگوں کو ان کے مزاج کے حوالے کردیں کیونکہ ان کی بصیرت اور بصارت دونوں ختم ہوچکی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ ہواؤں کو بھیجتا ہے اور بارش برساتا ہے، وہی مردوں کو زندہ فرمائے گا ان آیات میں اول تو ہواؤں کا ذکر فرمایا جن کے چلنے سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ بارش آنے والی ہے، یہ ہوائیں بارش آنے سے پہلے بارش کی خوشخبری دے دیتی ہیں۔ پھر جب بارش ہوجاتی ہے انسان ان کے منافع سے مستفید ہوتے ہیں، منافع میں سے یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعہ بادبانی کشتیاں چلتی ہیں۔ جب ان کشتیوں میں سوار ہو کر سفر کرتے ہیں تو ان سفروں میں اللہ تعالیٰ کا رزق بھی تلاش کرتے ہیں، تجارت کے لیے بھی مال لاتے ہیں اور آل اولاد کے کھانے پینے کے لیے بھی، ان سب چیزوں میں اللہ تعالیٰ کے انعامات بھی ہیں اور اس کی قدرت کے دلائل بھی ہیں، ان دلائل کے ذریعہ اسے پہچانیں اور اس کی جو نعمتیں ہیں ان کا شکر ادا کریں۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا، واضح دلائل پیش کیے لیکن جنہیں ماننا نہ تھا انہوں نے نہ مانا، انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور کفر پر جمے رہے ان کے جرم کی وجہ سے ہم نے انتقام لے لیا۔ وہ انتقام یہ تھا کہ یہ مجرمین ہلاک ہوئے اور اہل ایمان عذاب سے محفوظ رہے۔ جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کر رہے ہیں وہ بھی مجرم ہیں ان سے بھی انتقام لیا جائے گا۔ (وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ) (اور اہل ایمان کی مدد کرنا ہمارے ذمہ ہے) اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قاعدہ کلیہ بیان فرما دیا اور یہ وعدہ فرمایا کہ جس طرح ہم نے گذشتہ زمانوں میں مؤمنین کی مدد کی ہے اسی طرح آئندہ بھی مومنین کی مدد ہوتی رہے گی البتہ مدد میں حکمت کے موافق دیر بھی لگ جاتی ہے جیسا کہ انبیاء سابقین کی امتوں کے ساتھ ہوا ہے لہٰذا اہل ایمان کو ناامید اور اداس نہ ہونا چاہیے اور یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ دنیا ہی میں مدد ہوجائے۔ سب سے بڑی مدد یہ ہے کہ موت کے بعد انسان دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں چلا جائے۔ دنیا میں جو صبر شکر کے ساتھ زندگی گزاری اور نیک اعمال کیے یہ جنت میں داخل ہونے کا ذریعہ بنیں گے۔ حضرت ابو الدرداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی مسلمان نے اپنے بھائی کی آبرو کی طرف سے دفاع کیا (یعنی بےآبرو کرنے والے کو جواب دیا) تو یہ بات اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ اس دفاع کرنے والے سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ کو دور رکھیں گے۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت (وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ) تلاوت فرمائی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٢٤) درمیان میں بطور جملہ معترضہ تسلی دینے کے طور پر کافروں سے انتقام لینے اور اہل ایمان کی مدد فرمانے کا تذکرہ فرمانے کے بعد پھر ہواؤں کے ارسال فرمانے اور ان کے بعض منافع کا تذکرہ فرمایا۔ ارشاد فرمایا کہ اللہ وہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے، یہ ہوائیں بادلوں کو اٹھا کر لاتی ہیں پھر اللہ تعالیٰ ان بادلوں کو جیسے چاہے پھیلا دیتا ہے اور کبھی اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے پھر ان بادلوں سے بارش کو نکالتا ہے، بارش آتی ہے تو دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ بادل کے اندر سے بارش آرہی ہے، اسی کو فرمایا (فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ فَاِذَآ اَصَابَ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖٓ اِذَا ھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ ) (پھر اللہ اس بارش کو اپنے بندوں میں سے جسے چاہے پہنچا دیتا ہے جنہیں بارش پہنچ گئی وہ خوش ہوتے ہیں) (وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْھِمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمُبْلِسِیْنَ ) (اور یہ بات واقعی ہے کہ وہ لوگ اس سے پہلے ناامید ہوچکے تھے) نا امیدوں کی امیدیں برلانا یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، بارش آنے پر خوشی بھی منائیں اور شکر بھی ادا کریں۔ (قرطبی)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35 یہ توحید پر گیارہویں عقلی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت اور اس کی وحدانیت کہ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ بارانِ رحمت کی خوشخبری لانے والی ہوائیں چلاتا ہے اور بارانِ رحمت سے سرسبز و شاداب اور لہلہاتے کھیت اگاتا ہے۔ اللہ کے حکم سے ہوا بادبانی کشتیوں کو ادھر سے ادھر لیجاتی ہے جس سے ہم آسانی سے سفر کرتے ہیں اور تجارتی سفروں میں نفع کماتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور اس کے ساتھ شرک نہ کریں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

46۔ آگے پھر دلائل توحید کا بیان ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک یہ نشانی ہے کہ وہ ہوائیں اس لئے چلاتا ہے اور ہوائوں کو اس لئے بھیجتا ہے کہ وہ بارش کی خوشخبری دینے والی ہوں اور تا کہ وہ تم اپنی رحمت سے لذت اندوز کرے اور اپنی رحمت کا تم کو مزہ چکھائے اور تا کہ اس کے حکم سے کشتیاں جاری ہوں اور تا کہ تم اس کا فضل یعنی روزی تلاش کرو اور تا کہ تم اسکا شکر بجا لائو ۔ یعنی اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ بارش سے پہلے خوشخبری دینے والی ہوائیں چلتی ہیں جن سے بارش کے ہونے کا پتہ چلتا ہے پھر بارش ہوتی ہے اس بارش کے مزے سے تم کو لطف اندوز فرماتا ہے اور یہ ہوائیں دریا میں چلنے والی کشتیوں اور جہازوں کو مدد دیتی ہیں خواہ دخانی ہوں خواہ غیر دخانی ہوائوں سے جہازوں اور کشتیوں کی روانی تیز ہوجاتی ہے ان کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے ایک ملک کا مال دوسرے ملک میں لے جا کر فروخت کرو اوخوب نفع کمائو ایک ہوا سے کتنے کام نکلتے ہیں یہ منافع مالی اور جسمانی اس کے مقتضی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا شکربجا لائو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی باد کے چلنے سے اتنے فائدے ہیں مینہ کی خبر آتی ہے اور جہاز چلتے ہیں ۔ 12