Surat Luqman

Luqman

Surah: 31

Verses: 34

Ruku: 3

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة لُقْمٰن نام : اس سورہ کے دوسرے رکوع میں وہ نصیحتیں نقل کی گئی ہیں جو لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو کی تھیں ۔ اسی مناسبت سے اس کا نام لقمان رکھا گیا ہے ۔ زمانۂ نزول : اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب اسلامی دعوت کو دبانے اور روکنے کے لئے جبر و ظلم کا آغاز ہو چکا تھا اور ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جانے لگے تھے لیکن ابھی طوفان مخالفت نے پوری شدت اختیار نہ کی تھی ۔ اس کی نشان دہی آیت ۱٤ ۔ ۱۵ سے ہوتی ہے جس میں نئے نئے مسلمان ہونے والے نوجوانوں کو بتایا گیا ہے کہ والدین کے حقوق تو بے شک خدا کے بعد سب سے بڑھ کر ہیں ، لیکن اگر وہ تمہیں اسلام قبول کرنے سے توکیں اور دین شرک کی طرف پلٹنے پر مجبور کریں تو ان کی یہ بات ہرگز نہ مانو ۔ یہی بات سورۂ عنکبوت میں بھی ارشاد ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سورتیں ایک ہی دَور میں نازل ہوئی ہیں ۔ لیکن دونوں کے مجموعی انداز بیان اور مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورۂ لقمان پہلے نازل ہوئی ہے ، اس لیے کہ اس کے پس منظر میں کسی شدید مخالفت کا نشان نہیں ملتا ، اور اس کے برعکس سورۂ عنکبوت کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے زمانہ میں مسلمانوں پر سخت ظلم و ستم ہو رہا تھا ۔ موضوع و مضمون : اس سورہ میں لوگوں کو شرک کی لغویت و نامعقولیت اور توحید کی صداقت و معقولیت سمجھائی گئی ہے ، اور انہیں دعوت دی گئی ہے کہ باپ دادا کی اندھی تقلید چھوڑ دیں ، کھلے دل سے اس تعلیم پر غور کریں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم خداوند عالم کی طرف سے پیش کر رہے ہیں ، اور کھلی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہر طرف کائنات میں اور خود ان کے اپنے نفس میں کیسے کیسے صریح آثار اس کی سچائی پر شہادت دے رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی نئی آواز نہیں ہے جو دنیا میں یا خود دیار عرب میں پہلی مرتبہ ہی اٹھی ہو اور لوگوں کے لیے بالکل نامانوس ہو ۔ پہلے بھی جو لوگ علم و عقل اور حکمت و دانائی رکھتے تھے وہ یہی باتیں کہتے تھے جو آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں ۔ تمہارے اپنے ہی ملک میں لقمان نامی حکیم گزر چکا ہے جس کی حکمت و دانش کے افسانے تمہارے ہاں مشہور ہیں ، جس کی ضرب الامثال اور جس کے حکیمانہ مقولوں کو تم اپنی گفتگوؤں میں نقل کرتے ہو ، جس کا ذکر تمہارے شاعر اور خطیب اکثر کیا کرتے ہیں ۔ اب خود دیکھ لو کہ وہ کس عقیدے اور کن اخلاقیات کی تعلیم دیتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ لقمان یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے بارے میں کفار مکہ کی مخالفت اپنے شباب پر تھی اور کافروں کے سردارحیلوں بہانوں اور پر تشدد کاروائیوں سے اسلام کی نشر واشاعت کا راستہ روکنے کی کوششیں کررہے تھے، قرآن کریم کا اثر انگیز اسلوب جب لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتا تو وہ ان کی توجہ اس سے ہٹانے کے لئے انہیں قصے کہانیوں اور شعر وشاعری میں الجھا نے کی کوشش کرتے تھے، جس کا تذکرہ اس سورت کے شروع (آیت نمبر : ٦) میں کیا گیا ہے، حضرت لقمان اہل عرب ایک بڑے عقل مند اور دانشور کی حیثیت سے مشہور تھے، ان کی حکیمانہ باتوں کو اہل عرب بڑاوزن دیتے تھے، یہاں تک کہ شاعروں نے اپنے اشعار میں ان کا ایک حکیم کی حیثیت سے تذکرہ کیا ہے، قرآن کریم نے اس سورت میں واضح فرمایا ہے کہ لقمان جیسے حکیم اور دانشور جن کی عقل وحکمت کا تم بھی لوہا مانتے ہو وہ بھی توحید کے قائل تھے، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شریک ماننے کو ظلم عظیم قرار دیا تھا، اور اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ تم کبھی شرک مت کرنا، اس ضمن میں اس سورت نے ان کی اور بھی کئی قیمتی نصیحتیں ذکر فرمائی ہیں، جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں، دوسری طرف مکہ مکرمہ کے مشرکین کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو توحید اور نیک عمل کی نصیحت تو کیا کرتے انہیں شرک پر مجبور کرتے تھے، اور اگر ان کی اولاد میں سے کوئی مسلمان ہوجاتا تو اس پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ دوبارہ شرک کو اختیار کرلے، اس مناسبت سے حضرت لقمان کی نصیحتوں کے درمیان ( آیات نمبر : ١٤، ١٥ میں) اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر وہ اصول بیان فرمایا ہے جو پیچھے سورۂ عنکبوت (٨: ٢٩) میں بھی گزرا ہے کہ والدین کی عزت اور اطاعت اپنی جگہ لیکن اگر وہ اپنی اولاد کو شرک اختیار کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں تو ان کا کہنا ماننا جائز نہیں، اس کے علاوہ یہ سورت توحید کے دلائل اور آخرت کی یاد دہانی کے مؤثر مضامین پر مشتمل ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

(سورۃ نمبر۔ ٣١) ، (کل رکوع ۔ ٤) ، (آیات۔ ٣٤) ، (الفاظ و کلمات۔ ٥٥٤) ، (حروف۔ ٢٢١٧) ، (مقام نزول۔ مکہ مکرمہ) ، (دوآیتیں۔ مدینہ منورہ) ۔ ( سورة لقمان قیام مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی جب کفار عرب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغ دین کے راستے میں شدید رکاوٹیں پیدا کر رہے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) (رض) پر ظلم و زیادتی شروع کردی تھی ۔ اس میں صرف دو آیتیں مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں بقیہ ساری آیات مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں۔ ) حضرت لقمان کو عرب میں ایک نہایت عقل مند اور صاحب بصیرت شخص مانا جاتا تھا۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اور دنیا کو ہر فلاح اور کامیابی وابستہ ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورة کا نام سورة لقمان رکھا گیا ہے۔ حضرت لومان کون تھے ؟ کب اور کہاں پیدا ہوئے ؟ ان کا ذکر قرآن کریم جیسی عظیم کتاب میں اتنی اہمیت کے ساتھ کیون کیا گیا ہے ؟ اور ان کی نصیحتوں کا خلاصہ کیا ہے ؟ اس سورة کو پڑھتے ہوئے ہر ایک کے ذہن میں یہ سوالات ابھرتے ہیں جس کے جوابات اس سورة کے مضامین سے سمجھ میں آتے ہیں۔ علماء و مفسرین نے فرمایا ہے کہ حضرت لقمان ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بہت پہلے آئے جو اپنی عقل و فہم اور بصیرت کی وجہ سے ا کی خاص مقام رکھتے تھے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ قوم عادثانیہ کے عربی النسل ایک بادشاہ تھے اور انہوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) کا زمانہ پایا ہے اور حضرت ہود (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ حضرت لقمان حبشہ کے رہنے والے سیاہ فام ایک آزاد کردہ غلام تھے ۔ حضرت لقمان کے متعلق مفسرین کے یہ الگ الگ بیانات ہیں لیکن تمام مفسرین کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ حضرت لقمان نبی تو نہیں تھے مگر ایک صالح، متقی، پرہیز گار شخص تھے جن کو اللہ نے عقل و بصیرت اور فہم و فراست میں ایک خاص مقام عطا فرمایا تھا۔ ان کی عقل و فہم کی باتوں سے عرب میں سارے لوگ اچھی طرح واقف تھے اور مختلف موقعوں پر ان کی دانائی اور عقل و سمجھ کی باتوں کو نقل کیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کی نصیحتوں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کفار عرب ان کی عقل مندیوں کی داستانیں تو بیان کرتے ہیں لیکن وہ اللہ کی توحید کے کس طرح قائل تھے اور ان کو کفر و شرک سے کس قدر نفرت تھی اس کو بیان نہیں کرتے۔ حالانکہ ان کی عزت و عظمت کا تقاضایہ تھا کہ کفار مکہ بھی کفر و شرک سے اسی طرح نفرت کرتے جس طرح لقمان جیسے آدمی کرتے تھے۔ حضرت لقمان اور ان کی نصیحتوں کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو اس طرف رغبت دلائی ہے کہ وہ بھی ان کی طرح توحید و رسالت کو مان کر اپنی آخرت سنوار لیں۔ (پورے جزیرۃ العرب میں نضرابن حارث وہ پہلا شخص تھا جس نے ایران کے بادشاہوں اور رستم و سہراب کے قصوں کہانیوں سے عرب والوں کو آشنا کیا اور دین اسلام سے نفرت پیدا کرنے کے لیے اس نے نہ صرف قصے کہانیوں کو رواج دیا بلکہ ناچنے گانے والی ایک لونڈی کو خرید کر اس سے ناچ گانے کو رواج دیا۔ مقصد صرف یہ تھا کہ نوجوان گانے، ناچ اور قصوں میں لگ جائیں تاکہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حق وصداقت کی آواز کو نہ سن سکیں۔ ) اسی سورة میں نضر ابن حارث جیسے شخص کا بھی نام لیے بغیر ذکر کیا ہے جس نے ایران کے بادشاہوں اور رستم و سہراب کے قصے کہانیاں لا کر مکہ کے تمام نوجوانوں اور عرب معاشرہ کے بوڑھے جوانوں کو اسلام مے نفرت دلانے کے لیے جھوٹے قصے، کہانیوں اور ناچ رنگ میں لگا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان اور نضر ابن حارث دونوں کا ایک جگہ ذکر کر کے کفار مکہ پر سخت طنز کیا ہے کہ ایک شخص جو نہایت پرہیز گار، عقل مند آدمی ہے جو اپنے بیٹے کو توحید خالص کی تعلیم دے رہا ہے جس کے قصے نہایت ادب احترام سے سنے اور سنائے جاتے ہیں اس کی توحید کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اس کی اتباع اور پیروی سے دور بھاگتے ہیں اور وہ نضر ابن حارث جو صرف مال و دولت اکٹھا کرنے اور دین اسلام کی تعلیم سے نفرت دلانے کے لیے قصے کہانیوں اور ناچ رنگ میں پوری قوم کو مبتلا کر رہا ہے یہ اس کے پیچھے گے ہوئے ہیں اور اپنے آخرت برباد کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں حضرت لقمان کی ان نصیحتوں کا ذکر فرمایا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو نہایت پیار و محبت اور شفقت سے کی ہیں تاکہ وہ دنیا کی اونچ نیچ اور آخرت کے سچے عقیدے کو اپنا کر اپنی دنیا اور دین کو سنوار سکے۔ حضرت لقمان سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں کیونکہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا سب سے بڑی سعادت ہے اور کفر و شرک سے بچنا بڑی نیکی ہے۔ جو لوگ کفروشرک میں مبتلا ہوتے ہیں وہ در حقیقت ایک بہت بڑا ظلم کرتے اور بےانصافی سے کام لیتے ہیں۔ اسی بات کی انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی کہ وہ ہمیشہ شرک سے بچتا رہے کیونکہ شرک کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔ دوسری نصیحت یہ فرمائی کہ ماں باپ کا ادب و احترام اور ہر حال میں ان کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے خاص طور پر ماں جو بوجھ پر بوجھ اٹھا کر اس کی پرورش کرتی ہے اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا جائے لیکن اگر وہی ماں باپ کفر اور شرک پر چلنے کرلیے کہیں تو اس سے صاف انکار کردینا چاہیے کیونکہ معصیت اور گناہ میں کسی کی اطاعت کرنا حرام ہے۔ لہٰذا اس سب کے باوجود والدین کے ادب و احترام میں تو کوئی کمی نہ کی جائے لیکن کفروشرک میں ان کی ایک بات بھی نہ مانی جائے۔ تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ انسان کا اس بات پر پکا یقین ہونا چاہیے کہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے اللہ اس سے پوری طرح واقف ہے۔ اگر کوئی آدمی ہزارپردوں میں چھپ کر بھی گناہ کرتا ہے تو وہ اس سے نہ چھپ سکتا ہے نہ چھپا سکتا ہے۔ چوتھی نصیحت یہ فرمائی کہ نماز ایک اہم ترین عبادت ہے اس کو قائم کرنے کی جدہ جہد کرتے رہنا۔ پانچویں نصیحت یہ فرمائی کہ میرے پیارے بیٹے ! تم خود بھی نیکیوں پر ثابت قدم رہو اور ہر طرح کی برائیوں اور گناہوں سے اپنا دامن بچائے رہو اور دوسروں کو بھی نیکیوں پر لانے اور گناہ بھری زندگی سے بچانے کی کوشش اور جدو جہد کرتے رہو اور اگر اس راہ حق و صداقت میں تکلیفیں آئیں تو ان کا ہمت و جرات اور بھر پور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرو اور عزم و ہمت کے ساتھ سچائی پر ڈٹے رہو کیونکہ سچائی پر قائم رہنا بہت بڑے عزم کی بات ہے۔ چھٹی نصیحت یہ فرمائی کہ لوگوں سے غرور وتکبر سے پیش مت آنا۔ اترانا اور خود پسندی کا مظاہرہ کرنا اللہ کو سخت ناپسند ہے کیونکہ جو لوگ ذرا ذرا سی باتوں پر اتراتے اور خود اپنے منہ سے اپنی پڑائیاں کرتے رہتے ہیں تاکہ لوگوں پر ان کا رعب جم جائے تو ایسے لوگ بڑے پن کا نہیں بلکہ اپنی گھٹیا ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہیں جو اللہ کو اور اس کے بندوں کو بھی سخت ناگوار گذرتی ہے۔ ساتویں نصیحت یہ فرمائی کہ اپنی چال میں اعتدال قائم رکھنا کیونکہ اکڑ کر چلنا اور غرور وتکبر کا انداز اختیار کرنا اللہ کو پسند نہیں ہے اللہ کے بندے جب زمین پر چلتے ہیں تو وہ بڑے وقار اور دھیمے پن سے چلتے ہیں۔ ان کی چال میں اکڑ اور تکبر نہیں ہوتا۔ آٹھویں نصیحت یہ فرمائی کہ جب کسی سے بات کی جائے تو اس میں سنجیدگی، متانت اور سلیقہ کا خیال رکھا جائے۔ گفتگو میں آواز کو بلند کرنا، چلا چلا کر بولنا اور جاہلوں کا جیسا انداز اختیار کرنا نہ تو اللہ کو پسند ہے اور نہ اس کے بندے ہی پسند کرتے ہیں۔ گدھا جو بہت زور سے چلاتا ہے اس کا چلانا اور آواز نکالنا کس کو پسند ہے وہ آوازوں میں بد ترین آواز ہے جس پر بچے بھی ہنس پڑتے ہیں۔ فرمایا کہ آواز میں مناسب دھیما پن اور سنجیدگی ہونی چاہیے۔ یہ ہیں وہ نصیحتیں جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو فرمائیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے کائنات کی ہر چیز کو انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے اور اس طرح اللہ نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے انسان کو نواز رکھا ہے جس پر ہر آن اللہ کا شکر ادا کرنا واجب ہے مگر اکثرلوگ وہ ہیں جو اس کی ناشکری کرتے ہیں اور اس کا ساتھ عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ جب ایسے لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ اس کے سوا کسی کو نہ پکاریں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی راستے پر چلتے دیکھا ہے اور ہم بھی اسی راستے پر قائم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سوال فرمایا ہے کہ اچھا یہ بتائو کہ اگر تمہارے باپ دادا کو شیطان نے گمراہ کر کے غلط راستے پر ڈال دیا تھا کیا پھر بھی تم ان ہی کی پیروی کرو گے ؟ اگر تمہارے باپ دادا نے جہنم کا گڑھا کھودا تھا تو کیا تم بھی اسی گڑھے میں جا کر گرو گے ؟ اس سوال کا مشرکین و کفار کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ فرمایا اس کے برعکس وہ لوگ جو محض اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے اسی کی عبادت و بندگی کرتے ہیں وہ در حقیقت ایک ایسی مضبوط گرہ کو پکڑ لیتے ہیں جو ان کو گمراہی اور جہنم کی آگ میں گرنے سے بچا لیتی ہے اور ان کو قیامت میں بہترین انجام تک پہنچائے گی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آج یہ کفارو مشرکین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور آپ کے لائے ہوئے قرآن کریم کی تعلیمات کا مذاق اڑا رہے ہیں تو آپ اس سے رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ ان سب کو آخر کار میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے پھر میں ان کو بتاؤں گا کہ وہ دنیا میں کیا کرتے رہے ہیں اور جس سامان زندگی پر وہ اترا رہے ہیں وہ سب ان سے ختم ہوجائے گا اور یہ لوگ ایک برے انجام سے دوچار ہو کر رہیں گے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ زمین و آسمان اور اس کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب کا سب اسی کے تابع ہے اور اسی کے حکم سے ہر چیز چل رہی ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے اس کو چلاتا ہے وہ اس کے چلانے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة لقمان ایک نظر میں قرآن کریم نے انسانی فطرت سے فطری منطق کے ذریعہ خطاب کیا اس لیے کہ وہ کلام فطرت کا کلام ہے۔ خالق جانتا ہے انسان کے لیے کیا مفید ہے ، اور کس چیز سے اس کی اصلاح ممکن ہے۔ اسے معلوم ہے کہ انسانی فطرت کے ساتھ کسی انداز کا مکالمہ مناسب ہے۔ خالق اپنی مخلوق کی رسم راہ سے بہت ہی اچھی طرح واقف ہے۔ چناچہ قرآن نے اس فطرت انسانی کے سامنے وہی حقیقت پیش کی جو اس میں پہلے سے موجود تھی۔ فطرت انسانی اس حقیقت سے پہلے ہی خبردار تھی ، قرآن کے مکالمے سے بھی پہلے۔ کیونکہ انسانی فطرت اس اصول پر قائم ہے جو انسانی فطرت کے اندر تخلیق کے وقت سے ودیعت کردیا گیا ہے۔ وہ حقیقت کیا ہے ؟ یہ کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے اور یہ کہ وہ خالق وحدہ لاشریک ہے۔ یہ پوری کائنات اس کی ثنا خواں ہے۔ لوعا و کر با اس کے احکام کی مطیع فرمان ہے حمد و تسبیح کرنے والی ہے۔ لہٰذا انسان کو صرف اسی کی بندگی اور اس کی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ یہ ہے اصل فطرت لیکن یہ فطرت اس دنیا کے گردوغبار اور دھوئیں کی تہوں کے نیچے دب جاتی ہے اور گوشت و پوست کی سفلی خواہشات اس کو دبا لیتی ہیں۔ خواہش نفس اور جسمانی شہوات اسے جاوہ مستقیم سے منحرف کردیتی ہیں۔ چناچہ قرآن کریم آتا ہے اور وہ اس فطرت کو اس کے اندر موجود سبق یاد دلاتا ہے اور فطری منطق کے مطابق اس کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے۔ اس کو یاد دلاتا ہے کہ وہ خارجی وجوہات سے غافل ہوگئی ہے اور یہ یاد دہانی ایسے اسلوب میں کی جاتی ہے کہ جیسے فطرت جانتی ہے ۔ چناچہ قرآن کریم اس فطری منہاج پر یہاں ایک مکمل نظام وضع کرتا ہے۔ یہ منہاج درست عقیدہ کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ نہایت فطری ہے اور اسی راستے پر ہے جو انسان اور فطرت کے خالق کا پیدا کردہ ہے۔ یہ مکی سورة ہے اور یہ نمونہ اور مثال ہے قرآن مجید کے اندر مکالمات کا کہ قرآن کس طرح انسانی دل میں بات اتارتا ہے۔ خصوصاً عقیدہ توحید کو مشرکین کے سامنے کس اسلوب کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ عقیدہ توحید وہ بنیادی مسئلہ ہے جسے تمام مکی سورتیں مختلف اسالیب میں پیش کرتی ہیں۔ اس سورة میں نطریاتی بحث عقیدہ توحید ، اللہ وحدہ کی بندگی اور اللہ وحدہ کا شکر ادا کرنے کے موضوعات تک محدود ہے۔ آخرت پر یقین اور آخرت میں عادلانہ جزاء و سزا اور ان عقائد کے سوا تمام دوسرے اعتقادات کی نفی اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت ، یہ ہیں اہم موضوعات اس سورة کے۔ یہ سورة عقیدے کے مسئلے کو قرآن کے بیان اور موضوع کے دائرے کے اندر پیش کرتی ہے۔ قرآن کریم کا دائرہ بحث اس پوری کائنات تک وسیع ہے۔ آسمان ، زمین ، شمس و قمر ، شب و روز ، فضا اور سمندر ، لہریں اور بارش ، نباتات اور درخت ، یہ ہیں وہ موضوعات جس پر قرآن بحث کرتا ہے اور یہ بحث قرآن میں بار بار دہرائی جاتی ہے۔ چناچہ اس پوری کائنات کو قرآن کریم ایک ناطق موثر عامل کے طور پر پیش کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس کے اندر آیات الہیہ بکھری پڑی ہیں۔ اس میں دلائل ایمان بھی ہیں اور دلائل اخلاق بھی ہیں۔ یہ تمام نشانات و دلائل قلب انسانی پر اثر انداز ہوتے ہیں ، اس کے اندر جوش پیدا کرتے ہیں اور اس کا ایک رخ متعین کرتے ہیں اور اسے سمت عطا کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مسئلہ ایک ہی ہے اور اس مسئلہ کا میدان بحث بھی ایک ہے لیکن اس ایک ہی سورت میں اسے چار مرتبہ پیش کیا گیا ہے اور چار بار عقیدہ توحید کو ثابت کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ ہر بار انسانی دل و دماغ کو اس وسیع کائنات میں لے جایا گیا ، پھرایا گیا ، اور ہر بار ایک نیا تاثر چھوڑا گیا۔ ہر بار بیان اور زبان کا ایک نیا انداز اپنایا گیا۔ کائنات کی یہ سیر پے در پے آتی ہے۔ سفر کا آغاز ہوتا ہے اور ختم ہوتا ہے اور اس سیر میں قلب و نظر کو عجیب عجیب تفریحات ملتی ہیں اور قلب انسانی ایک نئے تاثر سے مالا مال ہوکر از سر نو آمادہ عمل ہوتا ہے۔ ان اسفار اربعہ کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ سورة بھی انہی حروف سے مرکب ہے اور یہ کتاب حکیم کی آیات پر مشتمل ہے۔ اور محسنین کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔ یہ محسنین کون ہیں۔ الذین یقیمون ۔۔۔۔۔ ھم یوقنون (31: 4) ” جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں “۔ گویا محسن وہ ہے جو اللہ کی عبادت کرتا ہے اور آخرت کی جواب دہی پر یقین رکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے خوشخبری یہ ہے کہ اولئک علی ۔۔۔۔۔ المفلحون (31: 5) ” یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں “۔ پھر کون ہے جو کامیاب نہ ہونا چاہتا ہو۔ ان کے مقابلے میں دوسرے لوگ وہ ہیں جو لہو و لعب کی باتیں قیمتاً خریدتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے بدراہ کریں ، یہ لوگ جاہل ہیں۔ یہ اللہ کی آیات کا مزاح اڑاتے ہیں اور ایسے لوگوں کا انجام بھی بتا دیا جاتا ہے تاکہ ان کے ذہن کا آپریشن ہوجائے اور وہ جو آیات الٰہیہ کا مزاح اڑاتے ہیں اس کا نفسیاتی جواب ہوجائے۔ اولئک لھم عذاب مھین (31: 6) ” ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے “۔ اس کے بعد اس فریق کو مزید حرکتیں بیان کی جاتی ہیں۔ واذاتتلی علیہ ۔۔۔۔ یسمعھا (31: 7) ” اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ اس طرح رخ پھیر لیتا ہے کہ گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں “۔ اس بیان کے ساتھ ایک ایسی بات بھی کہہ دی جاتی ہے جو نفسیاتی اعتبار سے قاری کو متاثر کرتی ہے اور اس قسم کے لوگوں کے لیے ایک قسم کی تحقیر بھی اس میں ہے۔ کان فی اذنیہ وقرا (31: 7) ” گویا اس کے دونوں کانوں میں پردے ہیں “۔ اور ایک دوسری پر تاثیر بات جس میں مزاح کا رنگ بہت نمایاں ہے۔ فبشرہ بعذاب الیم (31: 7) ” اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو “۔ بشارت کا لفظ بطور تحقیر اور مذاق اختیار کیا گیا ہے ۔ اسکے بعد روئے سخن اہل ایمان کی طرف پھرجاتا ہے ، ان کی کامیابیوں کے بیان کے بعد جو سورة کے آغاز ہی میں بیان کی گئی ہیں۔ آخرت میں ان کی جزاء کا تذکرہ ہے دوسری جانب اسلام کے ساتھ مزاح کرنے والے بڑے لوگوں کی جزاء کا بھی ذکر ہے ان الذین امنوا ۔۔۔۔ وھو العزیز الحکیم (31: 8-9) ” البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں ان کیلئے نعمت بھری جنتیں ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے۔ اور وہ زبردست و حکیم ہے “۔ یہاں آکر عظیم کتاب کائنات کا ایک صفحہ کھولا جاتا ہے۔ جس میں فطرت کے براہین ہیں ، یہ براہین فطرت انسانی کے مطالعہ کے لیے ہیں ، یہ اس فطرت کو خطاب کرتے ہیں اور اس کے سامنے وہ عظیم سچائی پیش کرتے ہیں ، جسے لوگ نہیں دیکھتے اور نہایت لاپرواہی سے اس پر سے گزر جاتے ہیں۔ خلق السموت بغیر ۔۔۔۔۔ کل زوج کریم (31: 10) ” اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستوں کے جو تمہیں نظر آئیں۔ اس نے زمین میں پہاڑ جما دئیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔ اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دئیے اور آسمانوں سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اگا دیں “۔ ان کائناتی دلائل کے بعد جس سے احساس میں خوف پیدا ہوتا ہے اور شعور ششدر رہ جاتا ہے ، اب بےراہ روش اختیار کرنے والے دلوں کو گریبان سے پکڑا جاتا ہے ، جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنی آنکھوں کے ساتھ اللہ کی اس عظیم اور ہولناک کائنات کو دیکھ رہے ہیں۔ ھذا خلق اللہ ۔۔۔۔۔۔ ضلل مبین (31: 11) ” یہ تو ہے اللہ کی تخلیق اب ذرا مجھے دکھاؤ ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں “۔ پہلا سبق یا پہلا مطالعاتی سفر اس کائناتی مطالعہ کے بعد یہاں ختم ہوجاتا ہے اور مسائل و نظریات کی یہ بحث اللہ کی وسیع کائنات کے میدان میں ہے۔ دوسرے سبق کے کردار انسانی نفوس ہیں۔ یہ سبق بھی مسئلہ توحید ہی کو موضوع بحث بناتا ہے۔ یہ بحث بھی کائناتی میدان میں ہے۔ البتہ اسلون بحث جدید ہے اور اس میں بعض نئے دلائل دئیے گئے ہیں جن کا اثر نیا ہے۔ ولقد اتینا لقمن الحکمۃ (31: 12) ” ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی “۔ یہ حکمت کیسی تھی اور اس کا اظہار کس شکل میں ہوا ؟ خلاصہ صرف یہ تھا کہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو ، ان اشکر للہ (31: 12) ” کہ اللہ کا شکر ادا کرو “۔ یہ تھا اس حکمت کا خلاصہ اور یہ تھی اس کی سمت۔ اور اس کا دوسرا رخ یہ تھا کہ حضرت لقمان اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہیں۔ ایک دانشمند آدمی اپنے بیٹے کو نصیحت کرتا ہے۔ یہ نصیحت ہر قدم کی کمزوری سے پاک ہوگی اس لیے کہ نصیحت کرنے والا حکیم اپنے بیٹے کو عقیدہ توحید کی تلقین کرتے ہیں اور آخرت کے خوف اور جوابدہی کی طرف متوجہ کرتے ہیں ، نہایت ہی پر اثر انداز میں اور نئے موثر الفاظ اور دل میں اترنے والے دلائل کے ساتھ۔ واذ قال ۔۔۔۔۔ لظلم عظیم (31: 13) ” یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا ” بیٹا خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے “۔ ایک دوسری دلیل اس موضوع پر یہ دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں باپ اور اولاد ، ماں اور اولاد کے رشتے کو پیش کیا جاتا ہے ، نہایت ہی موثر اور جذباتی انداز میں۔ جس کے نتیجے میں رحم و محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ووصینا الانسان ۔۔۔۔ فی عامین (31: 14) ” اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف بہ ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے “۔ یوں اللہ کے شکر کا حکم والدین کے شکر کے ساتھ یکجا ہوجاتا ہے۔ اور اپنے شکر کو ان کے شکر پر مقدم رکھا جاتا ہے۔ ان اشکولی ولو الدیک (31: 14) ” میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا “۔ اس کے بعد اسلامی نظریہ حیات کا پہلا اصول سامنے لایا جاتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں نظریاتی اخوت ، گوشت و پوست کی اخوت اور قوم و نسب کے تعلق پر مقدم ہوگی۔ اگرچہ نسب اور خون کے رشتے بہت مضبوط ہوتے ہیں لیکن یہ اللہ کی ذات اور عقیدہ توحید اور نظریہ حیات کے زاویہ سے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ وان جاھدک علی ۔۔۔۔۔ من اناب الی (31: 15) ” لیکن اگر وہ یہ دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان ۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا وہ مگر پیروی اس شخص کے راتے کی کہ جس نے میری طرف رجوع کیا ہے “۔ اس کے بعد آخرت کی جوابدہی کا احساس ۔ ثم الی ۔۔۔۔۔ کنتم تعملون (31: 15) ” پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے اس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو “ اب ایک دوسری دلیل توحید سامنے آتی ہے۔ یہ ایک عظیم دلیل ہے۔ اس میں اللہ کے علم کے عموم و شمول اور جامعیت و مانعیت کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ یہ علم محیط ہے۔ یہ تصویر کشی اس قدر موثر ہے کہ انسانی شعور میں ایک قسم کا ارتعاش پیدا ہوجاتا ہے۔ جب انسان سوچ اس دلیل کا میدان کائنات میں پیچھا کرتی ہے۔ یبنی انھا ان ۔۔۔۔۔۔ لطیف خبیر (31: 16) ” بیٹا ، کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ اسے نکال لائے گا ، وہ باریک بین اور باخبر ہے “۔ اس کے بعد لقمان اپنے بیٹے کو عقیدہ توحید کے تقاضوں کی نصیحت کرتے چلے جاتے ہیں کہ امر بالمعروف کرو ، منکر سے روکو اور اسلامی نظریہ حیات اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے آپ کو جو تکالیف پیش آئیں ان پر صبر کرو کیونکہ داعی الی اللہ کا مشکلات آتی ہیں اور اس طریقہ پر صبرہوتا ہے۔ لوگوں پر دست درازی نہ کرو ، اس لئے کہ زبان سے جو اصلاح کی جائے گی برے عمل سے وہ بگڑ جائے گی۔ ولا تصعر خدک ۔۔۔۔۔ لصوت الحمیر (31: 18- 19) ” اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر ، نہ زمین میں اکڑ کر چل ، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز پست رکھ سب آوازوں میں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے “۔ یہاں کسی سے منہ پھیرنے اور تکبر نہ کرنے کے لئے لا تصعر اور لاتمشی مرحا کے الفاظ استعمال کرکے ان حرکتوں کو حقیر بناتا گیا ہے۔ یہاں آکر یہ سبق ختم ہوجاتا ہے ۔ اس میں بھی اصل موضوع بحث عقیدہ توحید ہی ہے بالکل عملی انداز میں۔ اور نئے موثر دلائل اور نئے اسلوب کے ساتھ۔ تیسرے سبق میں بھی یہی عقیدہ توحید ہے ، لیکن اسے زمین و آسمان کے وسیع میدان میں زیر بحث لایا گیا ہے۔ دلیل یہ دی گئی کہ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو اللہ نے انسانکے لیے مسخر کیا ہے اور انسان کا فرض ہے کہ وہ اللہ کا شکر بجا لائے۔ الم تروا ان اللہ سخر ۔۔۔۔۔۔ ولا کتب منیر (31: 20) ” کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین و آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں۔ اس پر بھی حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو یا ہدایت یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب “۔ اور اس کائنات اور اس کے اندر اللہ کی نعمتوں کو دیکھتے ہوئے فطرت انسانی کے بارے میں ایسے مباحثے سے نفرت کرتی ہے۔ اس کے بعد راہ راست پر چلنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے کفر اور انکار پر سرزنش کی جاتی ہے۔ واذا قیل لھم ۔۔۔۔۔۔۔ علیہ ابآءنا (31: 21) ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے۔ تو کہتے ہیں کہ ہم تو اس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے “۔ یہ کس قدر بودا موقف ہے اس لئے اس کی پر زور دلائل سے تردید کردی ہے۔ اولو کان ۔۔۔۔۔ عذاب السعیر (31: 21) ” کیا یہ انہی کی پیروی کریں گے خواہ شیطان ان کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں نہ بلاتا ہو “۔ اب آخرت کی جزاء و سزا کو ایمان کے ساتھ مربوط کرکے پیش کردیا جاتا ہے۔ ومن یسلم وجھہ ۔۔۔۔۔۔ فننبئھم بما عملوا۔۔۔ (31: 22 – 23) ” جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے اور عملاً وہ نیک ہو ، اس نے فی الواقعہ ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا اور سارے معاملات کا آخری فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اب جو کفر کرتا ہے اس کا کفر تمہیں غم میں مبتلا نہ کرے۔ انہیں پلٹ کر آنا تو ہماری طرف ہے۔ پھر ہم بتا دیں گے کہ وہ کیا کچھ کرکے آئے ہیں “۔ اب یہاں پھر اللہ کے وسیع علم کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے : ان اللہ علیم بذات الصدور (31: 23) ” یقینا اللہ سینوں میں چھپے ہوئے راز جانتا ہے “۔ اور اب تہدید اور تنبیہہ نمتعھم قلیلا ۔۔۔۔ عذاب غلیظ (31: 24) ” ہم تھوڑی مدت انہیں دنیا میں مزے کرنے کا موقعہ دے رہے ہیں ، پھر ان کو بےبس کرکے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیں گے “۔ اس سبق کے خاتمے کے قریب ان کو فطرت کا آمنا سامنا کرایا جاتا ہے۔ ان کو اس پوری کائنات کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہتا کہ وہ اعتراف ہی کر لیں ولئن سالتھم ۔۔۔۔۔ لا یعلمون (31: 25) ” اگر ان سے پوچھو کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے تو پھر یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ، کہو الحمد للہ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں “۔ اس سفر کا خاتمہ ایک کائناتی منظر پر ہوتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے علم کی انتہا نہیں ہے اور زمین و آسمان میں اللہ کی مشیت حاکم ہے۔ وہ خالق مطلق ہے۔ اس سے بعث بعد الموت پر استدلال کیا جاتا ہے اور دوبارہ تخلیق کا اسے ثبوت قرار دیا جاتا ولو ان ما ۔۔۔۔۔۔ سمیع بصیر (31: 27- 28) ” زمین و آسمان میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر دوات بن جائے جسے مزید سات سمندر روشنائی فراہم کریں ، تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی بیشک اللہ زبردست و حکیم ہے۔ تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ بلا اٹھانا بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو پیدا کرنا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے “۔ چوتھا سفر بھی ایک کائناتی منظر میں ہے۔ قلب بشری پر اس کے زبردست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ منظر لیل و نہار ہے۔ رات لمبی ہوتی ہے اور دن کے جسم میں داخل ہوجاتی ہے۔ اور یوں لمبی ہوتی جاتی ہے ، اور دن لمبا ہوتا ہے اور وہ رات کے جسم میں داخل ہوتا ہے اور آگے ہی بڑھتا ہے۔ شمس و قمر اپنے فلک میں مسخر ہیں اور یہ چلتے ہیں اور چلتے رہیں گے اس وقت تک جس میں ان کا خاتمہ ہوگا ، خالق ہی جانتا ہے کہ یہ وقت کب آئے گا جو ان چیزوں کو بھی جانتا ہے اور لوگوں کو بھی جانتا ہے اور زمان و مکان سے بھی باخبر ہے۔ الم تر ان اللہ ۔۔۔۔۔ تعملون خبیر (31: 29) ” کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں پروتا ہوا لے آتا ہے۔ اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ سب وقت مقررہ تک چلے جا رہے ہیں۔ اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو ، باخبر ہے۔ اس منظر سے فطرت انسانی کی راہنمائی اس حقیقت کی طرف کی جاتی ہے جو زیر بحث ہے۔ ذلک بان اللہ ۔۔۔۔۔ العلی الکبیر (31: 30) ” یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے اور اسے چھوڑ کر جن دوسری چیزوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور اللہ ہی بزرگ و برتر ہے “۔ اب اللہ کی ایک دوسری نعمت لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے ۔ یہ بھی کائنات کا ایک حصہ ہے۔ انسانوں کے دلوں کو چھوا جا رہا ہے۔ الم تر ان ۔۔۔۔۔ من ایتہ (31: 31) ” تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے ۔ اب ان کو اپنے فطری خوف کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے۔ یہ سمندر میں ہیں۔ ان کے پاس اب نہ علم ہے اور نہ قدرت۔ تمام قدرتیں اللہ کے پاس ہیں اور یہ بھی دلیل ہے عقیدہ توحید پر کہ سب کچھ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ واذا غشیھم ۔۔۔۔۔ ختار کفور (31: 32) ” اور جب سمندر میں ان لوگوں پر ایک موج سائبان کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ اللہ کو پکارتے ہیں ، اپنے دین کو بالکل اسی کے لیے خالص کرکے پھر جب وہ بچا کر انہیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کوئی اقتصاد برتتا ہے اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا ، مگر ہر وہ شخص جو غدار اور ناشکرا ہے “۔ امواج بحر کی ہوکنا کی قیامت کے ہول کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ ایک عظیم خوف ہوگا ، یہ یوم آخرت ہوگا۔ ایسا ہولناک منظر ہوگا کہ وہاں وہ تمام رشتے کٹ جائیں گے جو دنیا کی کسی ہولناکی میں نہیں کٹتے۔ یایھا الناس ۔۔۔۔۔۔ باللہ الغرور (31: 33) ” لوگو ، بچو اپنے رب کے غضب سے اور ڈرو اس دن سے جبکہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف کچھ بدلہ لینے والا ہوگا۔ فی الواقعہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ پس یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے۔ اور نہ کوئی دھوکہ باز تمہیں اللہ کے معاملے میں دھوکہ دئیے پائے۔ اس مقطع پر سورة ختم ہوجاتی ہے۔ اور اس حال میں ختم ہوتی ہے کہ مومنین کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ سورة کے مسائل پر بحث ختم ہوتی ہے اور قاری اور سامع کے دل اور دماغ پر گہرے اثرات پڑچکے ہوتے ہیں اور اب قلب و نظر کے تاروں پر آخرت ضرب ان اللہ عندہ ۔۔۔۔۔ ان اللہ علیم خبیر (31: 34) ” اس گھڑی کا علم اللہ کے پاس ہے ، وہی بارش برساتا ہے ، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے۔ کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سر زمین میں اسی کی موت آتی ہے۔ اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے “۔ یہ چار سفر اور سبق اپنے مخصوص انداز بیان ، دلائل اور آیات و نشانات کے ساتھ ایک نمونہ ہیں کہ قرآن مجید کس انداز سے دلوں میں اپنی بات اتارتا ہے اور یہ انداز اللہ نے اختیار کیا ہے جو انسانی دلوں کا خالق ہے۔ وہ ان راہبوں کو جانتا ہے جن کے ذریعے ان دلوں میں اترا جاسکتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ان کے لئے کیا مفید ہے اور کس طرح مفید ہے۔ اب مناسب ہے کہ اس اجمالی اور سرسری نظر کے بعد آیات کی تفصیلات کی طرف آئیں۔ ہم ان اسفار اربعہ کو دو سبقوں کی شکل میں پیش کریں گے کیونکہ مضمون و موضوع بہرحال ایک ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi