Surat Luqman
Surah: 31
Verse: 1
سورة لقمان
الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾
Alif, Lam, Meem.
الم
الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾
Alif, Lam, Meem.
الم
Allah says: الم Alif Lam Mim. At the beginning of Surah Al-Baqarah we discussed the letters such as those that appear at the beginning of this Surah. تِلْكَ ايَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ
سُوْ رَ ۃُ لُقْمٰنَ 3 1سورت مکی ہے اس میں 3 4 آیات اور 4 رکوع ہیں
الۗمّۗ ۚتِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة یونس کی پہلی آیت کی تفسیر۔
خلاصہ تفسیر الم (اس کے معنی اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (جو اس سورة یا قرآن میں مذکور ہیں) آیتیں ہیں ایک پر حکمت کتاب (یعنی قرآن) کی جو کہ ہدایت اور رحمت (کا سبب) ہے، نیک کاروں کے لئے جو نماز کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ لوگ آخرت کا پورا یقین رکھتے ہیں (سو) یہ لوگ (اس قرآن کے اعتقاد اور عمل کی بدولت) اپنے رب کے سیدھے راستہ پر ہیں اور یہی لوگ (اس ہدایت کی بدولت) فلاح پانے والے ہیں (پس قرآن اس طرح ان کے لئے ہدایت اور رحمت کا جس کا اثر فلاح ہے سبب ہوگیا، پس بعضے آدمی تو ایسے ہیں جیسا بیان کیا گیا) اور (برخلاف ان کے) بعض آدمی ایسا (بھی) ہے جو (قرآن سے اعراض کر کے) ان باتوں کا خریدار بنتا ہے (یعنی ایسی باتیں اختیار کرتا ہے) جو (اللہ سے) غافل کرنے والی ہیں (سو اول تو لہو کا اختیار کرنا جب کہ اس کے ساتھ آیات آلہیہ سے اعراض بھی ہو خود ہی کفر اور ضلال ہے، پھر خاص کر جب کہ اس کو اس غرض سے اختیار کیا جائے) تاکہ (اس کے ذریعہ سے دوسروں کو بھی) اللہ کی راہ (یعنی دین حق سے) بےسمجھے بوجھے گمراہ کرے اور (اسی گمراہ کرنے کے ساتھ) اس (راہ حق) کی ہنسی اڑا دے (تا کہ دوسروں کے دل سے بالکل اس کی وقعت اور تاثیر نکل جاوے، تب تو کفر بر کفر اور ضلال کے ساتھ اضلال بھی ہے اور) ایسے لوگوں کیلئے (آخرت میں) ذلت کا عذاب (ہونے والا) ہے (جیسا کہ ان کے اضداد کے لئے فلاح کا ہونا معلوم ہوا) اور (اس شخص مذکور کے اعراض کی یہ حالت ہے کہ) جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ شخص تکبر کرتا ہوا (ایسی بےالتفاتی سے) منہ موڑ لیتا ہے جیسے اس نے سنا ہی نہیں، جیسے اس کے کانوں میں ثقل ہے (یعنی جیسے بہرا ہے) سو اس (شخص) کو ایک دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے (یہ تو اعراض کرنے والے کی سزا کا بیان ہوا، آگے اہل ہدیٰ کی جزا کا بیان ہے جو کہ فلاح موعود کی تفصیل ہے، یعنی) البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ان کے لئے عیش کی جنتیں ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ نے سچا وعدہ فرمایا ہے اور وہ زبردست حکمت والا ہے (پس کمال قدرت سے وعدہ اور وعید کو واقع کرسکتا ہے اور حکمت سے اس کو حسب وعدہ واقع کرے گا)
رکوع نمبر 10 سورة لقمان بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ الۗمّۗ ١ۚتِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ ٢ۙ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
(١ تا ٤) الم اس کے معنی سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ ہی جاننے والا ہے یا یہ کہ تاکیدا یہ ایک قسم کھائی گئی ہے۔ یہ سورت اس قرآن حکیم کی آیات ہیں جو حلال و حرام اور اوامرو نواہی کو واضح طور پر بیان کرنے والی اور گمراہی سے ہدایت اور عذاب سے رحمت کا سبب ہے ان با اخلاص موحدین کے لیے جو پانچوں نمازوں کے وضو رکوع و سجود اور تمام واجبات کی رعایت رکھتے ہوئے پابندی کرتے ہیں اور اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ لوگ آخرت کا پورا یقین رکھتے ہیں۔
١ تا ٥۔ حروف مقطعات کا بیان اور اس سورة کی شروع کی آیتوں کی یہ تفسیر سورة بقرہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کو نیک کام کرنے والوں کی ہدایت کے لیے اتارا ہے یہ قرآن ان کے حق میں رحمت ہے نیک کام کرنے والے محسنین وہ لوگ ہیں جو شریعت کے تابع ہو کر اچھے عمل کرتے ہیں مثلا نماز کو اس کے وقتوں پر فرض ہوں یا سنت سب کو اچھی طرح ادا کرتے ہیں اور ایسے ہی زکوٰۃ کو جو اس کے مستحق ہیں ان کو دیتے ہیں اور صلہ رحمی کرتے ہیں اور آخرت کی جزا وسزا کا یقین رکھتے ہیں اور اللہ سے آخرت کے ثواب کی امید رکھتے ہیں دنیا کے دکھاوے کو کسی نیک عمل میں ریا کاری نہیں کرتے نہ بدعت کے طور پر اپنی طرف سے شریعت میں کوئی ایجاد نکالتے ہیں غرض یہ نیک کام شریعت کے مطابق خالص عقبیٰ کے اجر کی نیت سے جو لوگ کرتے ہیں انہی کو فرمایا کہ یہ لوگ دنیا میں راہ راست پر ہیں جس کے سبب سے آخرت میں ان ہی کا بھلا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی وہ حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے۔ ان حدیثوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں نیک ٹھہر چکے ہیں ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی ہی فائدہ مند ہوتی ہے جس طرح اچھی زمین میں مینہ کا پانی فائدہ مند ہوتا ہے اس لیے یہ وہ لوگ اس نصیحت کے اثر سے ایسے کام کرتے ہیں جن کاموں کا ذکر ان آیتوں میں ہے اس طرح سے جو لوگ علم الٰہی میں برے اور بد قرار پاچکے ہیں ان کے حق میں قرآن کی نصیحت ایسی رائگاں ہے جیسے بری زمین میں مینہ کا پانی رائگاں جاتا ہے اس لیے یہ لوگ ایسے کام کرتے ہیں جن کاموں کا ذکر آگے کی آیتوں میں ہے کچھ تفسیر ان آیتوں کی آگے کی آیتوں کی تفسیر میں بھی آتی ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر (1 تا 5) تلک یہ (اسم اشارہ) ۔ المحسنین (نیکیاں کرنے والے) ۔ یقیمون (وہ قائم کرتے ہیں) ۔ یوتون (وہ دیتے ہیں۔ ادا کرتے ہیں) ۔ یوقنون (وہ یقین کرتے ہیں) ۔ المفلحون (فلاح و کامیابی حاصل کرنے والے) ۔ تشریح : آیت نمبر (1 تا 5) ” اس سورت کا آغاز بھی حروف مقطعات سے کیا گیا ہے۔ سورة بقرہ اور دوسری چند سورتوں کی ابتداء میں جہاں یہ حروف آئے ہیں وہاں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ ان حروف کے معنی اور مراد کا علم صرف اللہ کو ہے کیونکہ یہ اسی کا کلام ہے۔ ممکن ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے ان حروف کے معنی بتا دیئے ہوں لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے جاں نثاروں کو نہیں بتائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جو حکمت و دانائی کے اصولوں سے پھر پور ہے اور اس کے ہر حکم میں اللہ نے حکمت و دانائی کو اس طرح بھر دیا ہے کہ ہر وہ شخص جو حسن عمل پیش کرتا ہے اس کے لئے سراسر ہدایت اور رحمت ہے۔ لیکن جو بڑی سے بڑی حکیمانہ بات سے منہ پھیر کر گذر جائے اور اس پر غور و فکر کر کے حسن عمل کا پیکر نہ بن جائے وہ یقینا ناکام و نامرادشخص ہے۔ فرمایا کہ وہ لوگ جو ” محسن “ ہیں یعنی ہر نیکی کو قبول کرتے اور ہر گناہ سے بچتے ہیں ان کے لئے قرآن کریم کی آیات سراسررحمت و ہدایت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ” محسنین “ ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو (1) نمازوں کو قائم کرتے ہیں یعنی نمازوں کے آداب اور شرائط کا پوری طرح لحاظ کرکے ان کی پابندی کرتے ہیں۔ نماز در حقیقت اللہ کی عبادت و بندگی کا سب سے بہتر اور اعلیٰ معیاری عمل ہے۔ وہ لوگ جو نمازوں کو قائم کرتے ہیں وہی دین اسلام کی عمارت کو مضبوط کرتے ہیں لیکن جن کے نزدیک نماز کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ سارے دین کی بنیادوں کو ڈھادینے والے ہیں۔ (2) ” محسنین “ کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ ” زکوۃ “ دیتے ہیں یعنی مال و دولت سے اس طرح چمٹ کر نہیں رہ جاتے کہ ان کے ہاتھوں سے ایکم سکہ بھی غریبوں اور بےکسوں کی جیب میں نہ جائے بلکہ صدقات کے علاوہ وہی زکوۃ بھی ادا کرتے ہیں اس میں کوتاہی نہیں کرتے۔ سورة لقمان کی آیات اگرچہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں جہاں زکوۃ کی ساری تفصیلات اور احکامات نازل نہیں ہوئے تھے لیکن نماز کی طرح زکوۃ بھی مکہ مکرمہ میں فرض کردی گئی تھی۔ مدینہ منورہ میں زکوۃ کے احکامات، اس کا نصاب ، مقدار اور زکوۃ کے مستحقین کی تفصیلات کا تعین کردیا گیا تھا۔ مکہ مکرمہ میں یہ حکم تھا کہ اپنی ضرورت سے جو کچھ زائدہو وہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو دے دیا جائے لیکن مدنیہ منورہ میں اللہ کے حکم سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ متعین فرمادیا کہ صرف حاحب نصاب لوگ اپنے مال میں سے ڈھائی فیصد ادا کریں۔ اگر وہ اس کو ادا نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے مالوں کو دو منہ والے سانپ کی شکل میں ان کے گلے میں لٹکا دیں گے جو ان کو ڈستا رہے گا اور کہتا رہے گا کہ میں ہوں تیرا مال، میں ہوں تیرا خزانہ۔ (3) ” محسنین “ کی تیسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں یعنی ان کا اس بات پر پختہ یقین ہوتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب پیش کریں گے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجائے گی کہ فکر آخرت ہی انسان کے اعمال و کردار کی سچی بنیاد ہے۔ اگر آخرت کا فکر دامن گیر نہ ہو تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ اسی لئے اگر قرآن کریم کا غوروفکر سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم نے سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا ہے وہ آخرت کی فکر ہے۔ فکر آخرت سے بےنیاز تو صرف کفارہی ہو سکتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم سراسر ہدایت اور رحمت ہے لیکن اس سے فائدہ حاصل کرنے والے لوگ وہی ہیں جو نیکیوں پر قائم رہتے ہیں اور برائیوں سے بچ کر فکر آخرت میں لگے رہتے ہیں۔ کفار مکہ کہتے تھے کہ یہ مسلمان جس خطرناک راستے پر بےسوچے سمجھے چلے جارہے ہیں ہماری عقلوں میں یہ بات نہیں آتی کہ ان کا بہتر انجام کیسے ہوگا ۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ دنیا کے ناکام ترین لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زور دے کر فرمایا کہ وہ اہل ایمان جو حسن عمل کا پیکر ہیں ، اللہ کی اطاعت وفرماں برداری کرنے والے، نمازیں قائم کرنے والے، زکوۃ دینے اور فکر آخرت میں لگے ہوئے ہیں یہی راہ مستقیم پر ہیں اور ان لوگوں کی کامیابی یقینی ہے صرف اس دنیا کی حد تک نہیں بلکہ آخرت میں بھی ہر طرح کی کامیابیاں ان کے قدم چو میں گی۔
فہم القرآن سورۃ الرّوم کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لوگوں کی راہنمائی کے لیے ہر طرح کی مثالیں بیان کی ہیں مگر قرآن کا انکار کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے اس لیے ہم نہیں مانیں گے۔ ان کے انکار کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس پر صبر کیجیے کہ آپ کے مخالف آپ میں ہلکا پن پیدانہ کردیں۔ سورة لقمان کی ابتداء قرآن مجید کے تعارف سے ہوتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا سرچشمہ بنایا ہے گویا کہ یہی قرآن کچھ لوگوں کی گمراہی کا سبب بن رہا ہے اور کچھ کے لیے باعث ہدایت ثابت ہورہا ہے۔ ہدایت یافتہ لوگ یہی کامیاب ہونگے۔ الف، لام، میم حروف مقطعات ہیں جن کے بارے میں عرض ہوچکا ہے کہ ان کا معنٰی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں لہٰذا انہیں اسی طرح ہی پڑھنا چاہیے۔ یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں جو نیکی کرنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہیں۔ ایسے لوگ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں۔ انہیں آخرت کے قائم ہونے پر پورا یقین ہے کہ یہ برپا ہو کر رہے گی اور اس میں نیکی کی جزا اور بدی کی سزا دی جائے گی۔ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید کے بیشمار اوصاف جمیلہ کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں مرکزی اور بنیادی وصف دو ہیں 1 قرآن مجید پڑھنے، اس پر غور کرنے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے سے انسان اپنے رب کی رحمت کا مستحق ٹھہرتا ہے اور دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے قرآن مجید کے بنیادی مضامین میں توحید و رسالت کے بعد تین مضامین ہیں جن کی باربار تاکید کی جاتی ہے۔ نماز کو اس کے تقاضوں کے مطابق ادا کرنا، زکوٰۃ کو اس کے اصولوں کے تحت خرچ کرنا، اور آخرت پر یقین رکھنا ہے 2 یقین کا معنٰی ہے کہ آدمی زبان سے اقرار اور اس کے مطابق عمل کرتے ہوئے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے تسلیم کرے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں ایک دن اس کا حساب دینا ہے۔ اسی تصور کے پیش نظر آخرت کے بارے میں قرآن مجید اکثر مقامات پر ایمان کی بجائے یقین کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ انسان کا ایمان وایقان جس قدر مضبوط ہوگا اسی قدر اس کے اخلاق اور اعمال میں نکھار اور سنوار پیدا ہوگا۔ مسائل ١۔ قرآن مجید پر حکمت، ہدایت اور رحمت کا مرقع ہے۔ ٢۔ قرآن مجید سے وہی لوگ مستفید ہوسکتے ہیں جو نیکی کے طالب ہوں گے۔ ٣۔ تمام نیکیوں کا انحصار نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور آخرت پر یقین رکھنے میں ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجیدلاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ : ٢) ٢۔ قرآن مجید کی آیات واضح ہیں۔ (یوسف : ١) ٣۔ قرآن مجید کی آیات محکم ہیں۔ (ھود : ١) ٤۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٥۔ قرآن کریم لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ : ١٨٥) ٦۔ قرآن مجیددلوں کے لیے شفا ہے۔ (یونس : ٥٧) ٧۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٨۔ قرآن مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٩۔ جن و انس مل کر اس جیسا قرآن نہیں لاسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ١٢۔ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ (القدر : ١) ١٠۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩)
درس نمبر 185 تشریح آیات 1 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 19 الم ۔۔۔۔۔۔ واولئک ھم المفلحون (1 – 5) حروف مقطعات ا۔ ل۔ م سے آغاز ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد یہ فقرہ آتا ہے۔ تلک آیت الکتب الحکیم (31: 2) ” یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں “۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ کتاب الٰہی حروف سے مرکب ہے۔ جیسا کہ دوسری سورتوں میں بھی یہی اشارات موجود ہیں۔ کتاب کو کتاب حکمت کہا گیا ہے۔ کیونکہ اس کا اصل موضوع ہی فلسلفہ و حکمت ہے لہٰذا یہاں اس کتاب کی اس صفت کو لایا گیا کیونکہ اس سورة کے مضامین کے ساتھ اس کی مناسبت ہے اور یہی قرآن کا انداز ہے۔ کتاب کو کتاب حکیم کہہ کر یہ تاثر دیا گیا کہ یہ ایک زندہ کتاب ہے۔ اور یہ ارادتاً ایک ہدف کی بڑھ رہی ہے۔ گویا یہ ایک زندہ شخصیت ہے۔ بہت ہی دانشمند اور اس کی گفتگو میں ایک مقصد ہے۔ اس کا ایک متعیقن ہدف ہے ، اور یہ اس ہدف کی طرف بالارادہ بڑھ رہی ہے۔ اس میں روح ہے ، اس میں زندگی ہے۔ اس میں حرکت ہے ، اور اس کتاب کی ایک ذات اور شخصیت ہے جو متعین ہے۔ یہ محبت کرنے والی ہے اور یہ ہر اس شخص کے ساتھ مکالمہ کرتی ہے جو اس کی صحبت میں بیٹھے۔ جو اس کے سایوں میں زندگی بسر کرے اور وہ اس کی اس کشش کو محسوس کرے جس طرح ایک زندہ دوسرے زندہ کی طرف رکھتا ہے اور جس طرح دوست دوست کی طرف کھینچتا ہے۔ یہ ہے کتاب حکیم ۔ اور اس کی آیات ہدایت اور رحمت ہیں محسنین کے لیے۔ یہ اس کی اصل ماہیت ہے کہ یہ کتاب ہدایت ہے اور یہ محسنین کے لئے ہمیشہ ہدایت رہتی ہے۔ یہ ان کو ایک متعین منزل مقصود تک پہنچاتی ہے جس طرح ایک زندہ شخص کسی کو راہ دکھاتا ہے مگر کرخت طریقے سے نہیں بالکل الفت اور محبت کے ساتھ نہایت آرام اطمینان کے ساتھ اور اس کی ہدایت یہ ہے کہ پہلے نماز قائم کرو اور اپنے رب سے رابطہ قائم کرو اور پھر زکوٰۃ ادا کرو ، اہل ایمان کے دل اس کے ذریعے بالم جوڑ کر رکھ دو اور پھر تمام اہل ایمان اللہ کی اس کائنات کے لیے ہمکلام اور مربوط ہوجائیں جس میں وہ رہتے ہیں۔ یہ کتاب وہ اقدار اور وہ حالات پیدا کرتی ہے جس میں تمام انسانوں کا مقام متعین ہو اور وہ اپنی اصل پہچان جان سکیں۔ اس کتاب کے ہدایت یافتہ لوگ اس فطرت سے بھی متعارف ہوں جس فطرت پر انہیں پیدا کیا گیا ہے اور سیدھے ہوں اور ان کے اندر کوئی زیغ اور ٹیڑھ نہ ہو۔ یہ کتاب جن محسنین کے لیے ہدایت ہے وہ کون ہیں ؟ الذین یقیمون ۔۔۔۔۔ ھم یوقنون (31: 4) ” جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکوۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں “۔ جب کوئی نماز قائم کرتا ہے ۔ اس کے پورے ارکان کے ساتھ اسے ادا کرتا ہے ، بروقت ادا کرتا ہے اور مکمل طور پر ادا کرتا ہے تو اس کی حکمت ، اس کا اثر انسانی شعور اور انسانی طرز عمل میں واضح ہو کر سامنے آتا ہے ، اور اس کے ذریعہ اللہ اور بندے کے درمیان وہ تعلق قائم ہوجاتا ہے ، جو مطلوب ہے۔ اللہ سے انس پیدا ہوتا ہے اور نماز کے اندر مٹھاس پیدا ہوجاتی ہے اور زکوٰۃ کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کے اندر جو فطری بخل ہے ، اس پر انسان قابو پالیتا ہے۔ وہ امت مسلمہ کے لیے ایک اجتماعی نظام کی بنیاد ہوتی ہے اور امت کے اندر اجتماعی کفالت کی بنیاد پڑتی ہے۔ اس سوسائٹی میں امیروں اور غریبوں دونوں کے اندر ارتماد ہوتا ہے۔ اطمینان ہوتا ہے اور باہم مودت اور محبت ہوتی ہے۔ اس کے اندر طبقاتی نفرت نہیں ہوتی اور آخرت پر ایمان تو تمام نیکیوں کی اساس ہے۔ اس سے قلب بشری ہر وقت بیدار رہتا ہے۔ اس کی نظریں عالم آخرت پر ہوتی ہیں اور زمین کی گندگیوں اور زمین کے عارضی سازوسامان کے مقابلے میں اس کی نظریں بلند ہوتی ہیں۔ خفیہ طور پر اور اعلانیہ طور پر انسان یہ دیکھتا ہے کہ اسے اللہ دیکھ رہا ہے اور انسان درجہ احسان تک پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی بندگی اس طرح کرو کہ اسے تم دیکھ رہے ہو ، اگر تم اسے نہ دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے “۔ (بخاری و مسلم ، کتاب الایمان) یہ لوگ جو ایسی نماز پڑھتے ہیں ، جو اس نیت سے زکوۃ دیتے ہیں۔ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ اولئک علی ۔۔۔۔۔ ھم المفلحون (31: 5) ” یہی لوگ رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں “۔ جس نے ہدایت پائی۔ اس نے فلاح پائی۔ وہ ایک روشنی پر چل رہا ہوتا ہے۔ منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے ۔ گمراہیوں سے اور فساد سے بچ جاتا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس کرہ ارض پر اپنے اس سفر پر وہ مطمئن ہوتا ہے ، پھرتا رہتا ہے۔ وہ اس کائنات کے ساتھ ہم سفر ہوتا ہے اور اس کائنات کے ایک جزء کے طور پر اس کے ساتھ ہم آہنگی سے سفر طے کرتا جاتا ہے ، نہایت انس و محبت کے ساتھ۔ ایسے ہی لوگ اس کتاب کی آیات سے راہنمائی پاتے ہیں۔ محسن ، غازی ، زکوٰۃ دینے والے ، آخرت کا یقین رکھنے والے۔ یہ لوگ دنیا اور آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔ یہ لوگ ایک فریق ہیں۔ ان کے مقابلے میں ایک فریق اور بھی ہے۔ کیا ہیں اس کے خدوخال ؟