Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 12

سورة لقمان

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۱۲﴾

And We had certainly given Luqman wisdom [and said], "Be grateful to Allah ." And whoever is grateful is grateful for [the benefit of] himself. And whoever denies [His favor] - then indeed, Allah is Free of need and Praiseworthy.

اور ہم نے یقیناً لقمان کو حکمت دی تھی کہ تو اللہ تعالٰی کا شکر کر ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کے لئے شکر کرتا ہے جو بھی ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالٰی بے نیاز اور تعریفوں والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Luqman The Salaf differed over the identity of Luqman; there are two opinions: was he a Prophet or just a righteous servant of Allah without the Prophethood. The majority favored the latter view, that he was a righteous servant of Allah without being a Prophet. Sufyan Ath-Thawri said, narrating from Al-Ash`ath, from Ikrimah, from Ibn Abbas, "Luqman was an Ethiopian slave who was a carpenter. Abdullah bin Az-Zubayr said, "I said to Jabir bin Abdullah: `What did you hear about Luqman?' He said: `He was short with a flat nose, and came from Nubia."' Yahya bin Sa`id Al-Ansari narrated from Sa`id bin Al-Musayyib that "Luqman was from the black peoples of (southern) Egypt, and had thick lips. Allah gave him wisdom but withheld Prophethood from him." Al-Awza`i said, "Abdur-Rahman bin Harmalah told me; `A black man came to Sa`id bin Al-Musayyib to ask him a question, and Sa`id bin Al-Musayyib said to him: "Do not be upset because you are black, for among the best of people were three who were black: Bilal, Mahja` the freed slave of Umar bin Al-Khattab, and Luqman the Wise, who was a black Nubian with thick lips." Ibn Jarir recorded that Khalid Ar-Raba`i said: "Luqman was an Ethiopian slave who was a carpenter. His master said to him, `Slaughter this sheep for us,' so he slaughtered it. (His master) said: `Bring the best two pieces from it,' so he brought out the tongue and the heart. Then time passed, as much as Allah willed, and (his master) said: `Slaughter this sheep for us,' so he slaughtered it. (His master) said, `Bring the worst two morsels from it,' so he brought out the tongue and the heart. His master said to him, `I told you to bring out the best two pieces, and you brought these, then I told you to bring out the worst two pieces, and you brought these!' Luqman said, `There is nothing better than these if they are good, and there is nothing worse than these if they are bad."' Shu`bah narrated from Al-Hakam, from Mujahid, "Luqman was a righteous servant, but he was not a Prophet." Allah's saying: وَلَقَدْ اتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ ... And indeed We bestowed upon Luqman Al-Hikmah, means, understanding, knowledge and eloquence. ... أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ ... saying: "Give thanks to Allah." means, `We commanded him to give thanks to Allah for the blessings and favors that Allah had given to him alone among his people and contemporaries.' Then Allah says: ... وَمَن يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ... And whoever gives thanks, he gives thanks for (the good of) himself. meaning, the benefit of that will come back to him, and Allah's reward is for those who give thanks, as He says: وَمَنْ عَمِلَ صَـلِحاً فَلًّنفُسِهِمْ يَمْهَدُونَ and whosoever does righteous good deeds, then such will prepare a good place for themselves. (30:44) ... وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ And whoever is unthankful, then verily, Allah is Rich, Worthy of all praise. He has no need of His servants and He will not be harmed by that, even if all the people of the earth were to disbelieve, for He has no need of anything or anyone besides Himself. There is no God but He, and we worship none but Him.

حضرت لقمان نبی تھے یا نہیں؟ اس میں سلف کا اختلاف ہے کہ حضرت لقمانبی تھے یا نہ تھے؟ اکثر حضرات فرماتے ہیں کہ آپ نبی نہ تھے پرہیزگار ولی اللہ اور اللہ کے پیارے بزرگ بندے تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ حبشی غلام تھے اور بڑھئی تھے ۔ حضرت جابر سے جب سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت لقمان پستہ قد اونچی ناک والے موٹے ہونٹ والے نبی تھے ۔ سعد بن مسیب فرماتے ہیں آپ مصر کے رہنے والے حبشی تھے ۔ آپ کو حکمت عطا ہوئی تھی لیکن نبوت نہیں ملی تھی آپ نے ایک مرتبہ ایک سیاہ رنگ غلام حبشی سے فرمایا اپنی رنگت کی وجہ سے اپنے تئیں حقیر نہ سمجھ تین شخص جو تمام لوگوں سے اچھے تھے تینوں سیاہ رنگ تھے ۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضور رسالت پناہ کے غلام تھے ۔ حضرت مجع جو جناب فاروق اعظم کے غلام تھے اور حضرت لقمان حکیم جو حبشہ کے نوبہ تھے ۔ حضرت خالد ربعی کا قول ہے کہ حضرت لقمان جو حبشی غلام بڑھی تھے ان سے ایک روز ان کے مالک نے کہا بکری ذبح کرو اور اس کے دو بہترین اور نفیس ٹکڑے گوشت کے میرے پاس لاؤ ۔ وہ دل اور زبان لے گئے کچھ دنوں بعد ان کے مالک نے کہاکہ بکری ذبح کرو اور دو بدترین گوشت کے ٹکڑے میرے پاس لاؤ آپ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ بہترین مانگے تو بھی یہی لائے گئے اور بدترین مانگے گئے تو بھی یہی لائے گئے یہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا جب یہ اچھے رہے تو ان سے بہترین جسم کا کوئی عضو نہیں اور جب یہ برے بن جائے تو پھر سبب سے بد تر بھی یہی ہیں ۔ حضرت مجاہد کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے نیک بندے تھے ۔ سیاہ فام غلام تھے موٹے ہونٹوں والے اور بھرے قدموں والے اور بزرگ سے بھی یہ مروی ہے کہ بنی اسرائیل میں قاضی تھے ۔ ایک اور قول ہے کہ آپ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں تھے ۔ ایک مرتبہ آپ کسی مجلس میں وعظ فرما رہے تھے کہ ایک چروا ہے نے آپ کو دیکھ کر کہا کیا تو وہی نہیں ہے جر میرے ساتھ فلاں فلاں جگہ بکریاں چرایاکرتا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں وہی ہوں اس نے کہا پھر تجھے یہ مرتبہ کیسے حاصل ہوا ؟ فرمایا سچ بولنے اور بیکار کلام نہ کرنے سے ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی بلندی کی وجہ یہ بیان کی کہ اللہ کا فضل اور امانت ادائیگی اور کلام کی سچائی اور بےنفع کاموں کو چھوڑ دینا ۔ الغرض ایسے ہی آثار صاف ہیں کہ آپ نبی نہ تھے ۔ بعض روایتیں اور بھی ہیں جن میں گو صراحت نہیں کہ آپ نبی نہ تھے لیکن ان میں بھی آپ کا غلام ہونا بیان کیا گیا ہے جو ثبوت ہے اس امر کا کہ آپ نبی نہ تھے کیونکہ غلامی نبوت کے منافی ہے ۔ انبیاء کرام عالی نسب اور عالی خاندان کے ہوا کرتے تھے ۔ اسی لئے جمہور سلف کا قول ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے ۔ ہاں حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ آپ نبی تھے لیکن یہ بھی جب کے سند صحیح ثابت ہوجائے لیکن اسکی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ کہتے ہیں کہ حضرت لقمان حکیم سے ایک شخص نے کہا کیا تو بنی حسحاس کا غلام نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں ۔ اس نے کہا تو بکریوں کا چرواہا نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہوں ۔ کہا گیا تو سیاہ رنگ نہیں؟ آپ نے فرمایا ظاہر ہے میں سیاہ رنگ ہوں تم یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا یہی کہ پھر وہ کیا ہے ؟ کہ تیری مجلس پر رہتی ہے ؟ لوگ تیرے دروازے پر آتے ہیں تری باتیں شوق سے سنتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا سنو بھائی جو باتیں میں تمہیں کہتا ہوں ان پر عمل کرلو تو تم بھی مجھ جیسے ہوجاؤگے ۔ آنکھیں حرام چیزوں سے بند کرلو ۔ زبان بیہودہ باتوں سے روک لو ۔ مال حلال کھایاکرو ۔ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو ۔ زبان سے سچ بات بولا کرو ۔ وعدے کو پورا کیا کرو ۔ مہمان کی عزت کرو ۔ پڑوسی کا خیال رکھو ۔ بےفائدہ کاموں کو چھوڑ دو ۔ انہی عادتوں کی وجہ سے میں نے بزرگی پائی ہے ۔ ابو داؤد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت لقمان حکیم کسی بڑے گھرانے کے امیر اور بہت زیادہ کنبے قبیلے والے نہ تھے ۔ ہاں ان میں بہت سی بھلی عادتیں تھیں ۔ وہ خوش اخلاق خاموش غور و فکر کرنے والے گہری نظر والے دن کو نہ سونے والے تھے ۔ لوگوں کے سامنے تھوکتے نہ تھے نہ پاخانہ پیشاب اور غسل کرتے تھے لغو کاموں سے دور رہتے ہنستے نہ تھے جو کلام کرتے تھے حکمت سے خالی نہ ہوتا تھا جس دن ان کی اولاد فوت ہوئی یہ بالکل نہیں روئے ۔ وہ بادشاہوں امیروں کے پاس اس لئے جاتے تھے کہ غور و فکر اور عبرت ونصیحت حاصل کریں ۔ اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی ۔ حضرت قتادۃ سے ایک عجیب اثر وارد ہے کہ حضرت لقمان کو حکمت ونبوت کے قبول کرنے میں اختیار دیا گیا تو آپ نے حکمت قبول فرمائی راتوں رات ان پُر حکمت برسادی گئی اور رگ وپے میں حکمت بھر دی گئی ۔ صبح کو ان کی سب باتیں اور عادتیں حکیمانہ ہوگئیں ۔ آپ سے سوال ہوا کہ آپ نے نبوت کے مقابلے میں حکمت کیسے اختیار کی ؟ تو جواب دیا کہ اگر اللہ مجھے نبی بنادیتا تو اور بات تھی ممکن تھا کہ منصب نبوت کو میں نبھاجاتا ۔ لیکن جب مجھے اختیار دیا گیا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں نبوت کا بوجھ نہ سہار سکوں ۔ اس لئے میں نے حکمت ہی کو پسند کیا ۔ اس روایت کے ایک راوی سعید بن بشیر ہیں جن میں ضعف ہے واللہ اعلم ۔ حضرت قتادہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مراد حکمت سے اسلام کی سمجھ ہے ۔ حضرت لقمان نہ نبی تھے نہ ان پر وحی آئی تھی پس سمجھ علم اور عبرت مراد ہے ۔ ہم نے انہیں اپنا شکر بجالانے کا حکم فرمایا تھا کہ میں نے تجھے جو علم وعقل دی ہے اور دوسروں پر جو بزرگی عطا فرمائی ہے ۔ اس پر تو میری شکر گزاری کر ۔ شکر گذار کچھ مجھ پر احسان نہیں کرتا وہ اپناہی بھلاکرتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِهِمْ يَمْهَدُوْنَ 44؀ۙ ) 30- الروم:44 ) نیکی والے اپنے لئے بھی بھلا توشہ تیار کرتے ہیں ۔ یہاں فرمان ہے کہ اگر کوئی ناشکری کرے تو اللہ کو اسکی ناشکری ضرر نہیں پہنچاسکتی وہ اپنے بندوں سے بےپرواہ ہے سب اس کے محتاج ہیں وہ سب سے بےنیاز ہے ساری زمین والے بھی اگر کافر ہوجائیں تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ سب سے غنی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ہم اس کے سواکسی اور کی عبادت نہیں کرتے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121حضرت لقمان، اللہ کے نیک بندے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حکمت یعنی عقل فہم اور دینی بصیرت میں ممتاز مقام عطا فرمایا تھا۔ ان سے کسی نے پوچھا تمہیں یہ فہم و شعور کس طرح حاصل ہوا ؟ انہوں نے فرمایا، راست بازی، امانت کے اختیار کرنے اور بےفائدہ باتوں سے اجتناب اور خاموشی کی وجہ سے۔ ان کا حکمت و دانش پر مبنی ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ غلام تھے، ان کے آقا نے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بہترین دو حصے لاؤ، چناچہ وہ زبان اور دل نکال کرلے گئے۔ ایک دوسرے موقع پر آقا نے ان سے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بدترین حصے لاؤ، چناچہ وہ زبان اور دل نکال کرلے گئے، پوچھنے پر انہوں نے بتلایا کہ زبان اور دل، اگر صحیح ہوں تو سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو ان سے بدتر کوئی چیز نہیں۔ (ابن کثیر) 122شکر کا مطلب ہے، اللہ کی نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا اور اس کے احکام کی فرماں برداری۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] حضرت لقمان حبشہ یا مصر کے رہنے والے تھے۔ بعد میں شام میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ پایا۔ آپ کی نبوت میں اختلاف ہے اور راجح کی یہی بات ہے کہ آپ نبی نہیں تھے۔ البتہ حکیم اور دانا ضرور تھے۔ عرب بھر میں وہ اپنی حکمت و دانائی کی وجہ سے مشہور تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں جو حکمت اور دانائی کی باتیں سکھلائی تھیں ان میں سرفہرست یہ بات تھی کہ اگر اللہ کی نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے تو اس کا فائدہ شکر ادا کرنے والے کو پہنچتا ہے۔ شکر میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھ دی کہ وہ مزید توجہ اور مہربانی کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اللہ کا اس لئے بھی شکر ادا کرنا چاہئے تاکہ وہ مزید انعامات فرمائے اور بندوں کا بھی ضرور احسان مند ہونا چاہئے جو کوئی احسان کرے۔ اور یہ ایسی باتیں ہیں جو تقریباً ہر انسان کے تجربہ میں آتی رہتی ہیں۔ اور ناشکری اور نمک حرامی یا احسان فراموشی کے نتائح اس کے بالکل برعکس نکلتے ہیں۔ پہلی نعمتیں بھی چھین لی جاتی ہیں۔ بہرحال شکر کرنے کا فائدہ بھی شکر کرنے والے کو ہی پہنچتا ہے اور ناشکری کا نقصان بھی اسے ہی پہنچتا ہے۔ رہا اللہ کا معاملہ تو اللہ لوگوں کے شکر یا ناشکری سے بےنیاز ہے۔ کیونکہ اس کے سب کارنامے ہی ایسے ہیں جو قابل ستائش ہیں اور وہ اپنی ذات میں ہی محمود ہے۔ یہ تھی وہ پہلی دانائی کی بات جو اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کو سکھلائی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ : تفاسیر میں لقمان کے متعلق جو کچھ لکھا ہے ملاحظہ فرمائیں، روح المعانی میں ہے : ” وہب نے کہا، وہ ایوب (علیہ السلام) کے بھانجے تھے۔ مقاتل نے کہا، ان کے خالہ زاد تھے۔ عبدالرحمن سہیلی نے کہا، وہ عنقا بن سرون کے بیٹے تھے۔ بعض نے کہا، وہ آزر کی اولاد سے تھے، ہزار برس زندہ رہے اور داؤد (علیہ السلام) کو پایا اور ان سے علم حاصل کیا۔ ان کے مبعوث ہونے سے پہلے فتویٰ دیتے تھے، جب وہ مبعوث ہوئے تو فتویٰ دینا چھوڑ دیا۔ ان سے پوچھا گیا تو فرمانے لگے، جب مجھ سے کفایت کی گئی تو کیا میں اکتفا نہ کروں۔ بعض نے کہا، وہ بنی اسرائیل کے ایک قاضی تھے۔ یہ بات واقدی سے نقل کی گئی ہے، مگر انھوں نے کہا، ان کا زمانہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تھا۔ عکرمہ اور شعبی نے کہا، وہ نبی تھے۔ اکثر کا کہنا ہے کہ وہ داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھے، نبی نہیں تھے اور ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ آزاد تھے یا غلام۔ اکثر کا کہنا ہے کہ وہ غلام تھے۔ ایک اختلاف اور ہے، بعض نے کہا، حبشی تھے، یہ ابن عباس اور مجاہد سے مروی ہے اور ابن مردویہ نے یہ ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے۔ مجاہد نے ان کے بارے میں بیان کیا کہ وہ موٹے ہونٹوں اور پاؤں کے سیدھے تلوے والے تھے۔ بعض نے کہا، وہ نوبی تھے، پھٹے ہوئے پاؤں اور موٹے ہونٹوں والے تھے۔ یہ ابن عباس، ابن مسیب اور مجاہد سے منقول ہے۔ ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا، میں نے جابر بن عبداللہ (رض) سے کہا، آپ کو لقمان کے بارے میں کیا خبر پہنچی ہے ؟ انھوں نے فرمایا، وہ چھوٹے قد، چپٹی ناک والے نوبی (حبشی) تھے۔ ابن ابی حاتم، ابن جریر اور ابن المنذر نے ابن المسیّب سے بیان کیا ہے، انھوں نے فرمایا کہ لقمان مصر کے سیاہ فام لوگوں میں سے کالے رنگ والے اور بڑے ہونٹوں والے تھے، اللہ تعالیٰ نے انھیں حکمت عطا کی، مگر نبوت نہیں دی۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ ان کا پیشہ کیا تھا۔ چناچہ خالد بن ربیع نے کہا، وہ نجار (راء کے ساتھ) یعنی ترکھان تھے اور معانی الزجاج میں ہے، وہ نجاد تھے (دال کے ساتھ، بروزن کتاب، جو بچھونے اور گدے وغیرہ بناتے اور سیتے ہیں) ۔ ابن ابی شیبہ نے اور احمد نے ” الزہد “ میں اور ابن المنذر نے ابن المسیّب سے روایت کی ہے کہ وہ خیاط (کپڑے سینے والے) تھے، جو نجاد سے عام ہے۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ وہ چرواہے تھے۔ بعض نے کہا، وہ ہر روز اپنے مالک کے لیے ایندھن کا گٹھا لاتے تھے۔ “ مفسر آلوسی صاحب روح المعانی یہ سب کچھ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ” وَلَا وُثُوْقَ لِيْ بِشَيْءٍ مِنْ ھٰذِہِ الْأَخْبَارِ وَإِنَّمَا نَقَلْتُھَا تَأْسِیًا بِمَنْ نَقَلَھَا مِنَ الْمُفَسِّرِیْنَ الْأَخْیَارِ غَیْرَ أَنِّيْ أَخْتَارُ أَنَّہُ کَانَ رَجُلًا صَالِحًا حَکِیْمًا وَلَمْ یَکُنْ نَبِیًّا “ ” یعنی مجھے ان خبروں میں سے کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے، میں نے تو انھیں صرف اس لیے نقل کیا ہے کہ جید مفسرین نے انھیں نقل کیا ہے۔ میں تو صرف اس بات کو ترجیح دیتا ہوں کہ وہ صالح اور حکیم (و دانا) آدمی تھے، نبی نہیں تھے۔ “ میں نے بھی یہ سارا کلام یہ دکھانے کے لیے نقل کیا ہے کہ بعض مفسرین کس طرح بلاثبوت باتیں نقل کرتے جاتے ہیں اور یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ مجاہد، قتادہ، ابن المسیّب وغیرہ حضرات کا ہزاروں برس پہلے گزرے ہوئے لقمان کے ساتھ کوئی میل جول رہا ہے، یا انھوں نے ان تک کوئی سند بیان کی ہے۔ نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب روایت نقل کرتے ہوئے یہ اہتمام کرتے ہیں کہ ثابت شدہ روایت ہی نقل کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان کے متعلق اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا اور جسے صاحب روح المعانی نے ترجیح دی ہے۔ ان کے غلام یا حبشی وغیرہ ہونے کی کوئی روایت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ البتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے بھی ان کی حکمت اور دانائی کے واقعات عرب میں مشہور تھے اور جاہلی شعراء اور خطباء اپنے کلام میں ان کا ذکر کرتے تھے، جیسا کہ ابن ہشام نے اپنی سیرت میں نقل کیا ہے۔ 3 شرک کی تردید میں ایک پر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ توحید کی بات صرف پیغمبروں ہی کے ذریعے سے نہیں آئی، بلکہ عقل و حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے اور پہلے عاقل اور دانا لوگ بھی یہی بات کہتے چلے آئے ہیں، چناچہ تمہارا اپنا مشہور حکیم لقمان بھی اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے۔ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِ : تفسیر قاسمی میں ہے : ” قَالَ فِي الْبَصَاءِرِ الشُّکْرُ مَبْنِيٌّ عَلٰی خَمْسَۃِ قَوَاعِدَ ، خُضُوْعُ الشَّاکِرِ لِلْمَشْکُوْرِ وَ حُبُّہُ لَہُ وَاعْتِرَافُہُ بِنِعْمَتِہِ وَالثَّنَاءُ عَلَیْہِ بِھَا وَ أَنْ لَّا یَسْتَعْمِلَھَا فِیْمَا یَکْرَہُ ، ھٰذَا الْخَمْسَۃُ ھِيَ أَسَاس الشُّکْرِ وَبَنَاءُ ہُ عَلَیْھَا فَإِنْ عُدِمَ مِنْھَا وَاحِدَۃٌ اخْتَلَّتْ قَاعِدَۃٌ مِّنْ قَوَاعِدِ الشُّکْرِ وَکُلُ مَنْ تَکَلَّمَ فِي الشُّکْرِ فَإِنَّ کَلَامَہُ إِلَیْھَا یَرْجِعُ وَ عَلَیْھَا یَدُوْرُ “ ” البصائر میں فرمایا کہ شکر کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، شکر کرنے والے کا اس کے سامنے عاجز ہونا جس کا وہ شکر ادا کر رہا ہے، اس کے ساتھ محبت کرنا، اس کی نعمت کا اعتراف کرنا، اس پر اس کی تعریف کرنا اور یہ کہ اس نعمت کو اس جگہ استعمال نہ کرے جہاں نعمت دینے والا پسند نہ کرتا ہو۔ یہ پانچوں چیزیں ہی شکر کی اساس ہیں اور انھی پر اس کی بنیاد ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک کم ہو تو شکر کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد کم ہوجائے گی۔ جس نے بھی شکر کے بارے میں گفتگو کی ہے اس کی گفتگو کا نتیجہ یہی ہے اور وہ اسی پر گھومتی ہے۔ “ وَمَنْ يَّشْكُرْ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة ابراہیم (٧) اور سورة نمل (٤٠) ۔ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ : یعنی کسی کے کفر کا اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں، کیونکہ وہ بےنیاز ہے اور وہ کسی کے شکر کا محتاج نہیں، کوئی شکر کرے یا نہ کرے، کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ اس کی ذات محمود ہے اور تمام خوبیوں کا مالک وہی ہے، کسی میں کوئی خوبی ہے تو اس کی اپنی نہیں بلکہ اسی کی عطا کردہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Who was Luqman (علیہ السلام) mentioned in verse 12: وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ (And We gave wisdom to Luqman)? According to a report of Wahb Ibn Munnabih, Luqman, (علیہ السلام) was a nephew of Sayyidna Ayyub (Job) (علیہ السلام) while Muqatil identifies him as his brother from his maternal aunt. It appears in Tafsir ul-Baidawi and elsewhere that he lived long, as long as the time of Sayyidna Dawud (علیہ السلام) . It is proved by other reports too that Luqman (علیہ السلام) appeared during the time of Sayyidna Dawud علیہ السلام . And the report of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) appearing in ad-Durr al-Manthur says that he was an Ethiopian slave who worked as a carpenter (narrated by Ibn Abi Shaibah and Ahmad in az-Zuhd, and Ibn Jarir and Ibn al-Mundhir and others). When the Sahabi, Sayyidna Jabir Ibn ` Abdullah (رض) was asked about his background, he said that he was an Ethiopian of low height and flat nose. And Mujahid said that he was a thick-lipped, cracked-footed Ethiopian slave (al-Zajjaj). (Ibn Kathir) An Ethiopian came to Said Ibn al-Musayyab looking for an answer to some religious problem. The famous Tabi` i consoled him by telling him that he should not worry about the dark color of his skin, because there were three highly revered persons from among the black people who were regarded as the best of any people anywhere. Then he cited the names of Sayyidna Bilal al-Habashi, Sayyidna Mahja&, the freed slave of Sayyidna ` Umar Ibn ul-Khattab (رض) and Luqman (علیہ السلام) . The Identity of Luqman (علیہ السلام) According to Ibn Kathir, the majority of the elders concur that he was not a prophet. That he was a prophet has been reported only from ` Ikrimah, but the authority of this report is weak. Then, Imam al-Baghawi reports a consensus on the fact that he was a man of wisdom and knowledgeable in religious law, but not a prophet. (Mazhari) Ibn Kathir has also pointed out to an unusual report from Sayyidna Qatadah (رح) about him saying that Allah Ta’ ala had given Luqman (علیہ السلام) choice between prophethood (nubuwwah) and wisdom (hikmah). He opted for wisdom. And in some reports, it appears that he was given the option to be a prophet. But he had submitted that he would be honored to accept it if that was a command, otherwise he should be excused. Again, it has also been reported from Sayyidna Qatadah (رح) that someone asked Luqman: &Why did you prefer wisdom over prophethood while you were given a choice between the two?& He said, &The office of a prophet carries great responsibilities. Had that been given to me without my choice, Allah Ta’ ala would have been sufficient to see that I am enabled to discharge its responsibilities as due. And if I had asked for it with my choice and volition, the responsibility would have been mine.& (Ibn Kathir) Now, it already stands established that Luqman (علیہ السلام) was not a Nabiyy or prophet. This is as held by the majority of the scholars. So, we can say that the command mentioned in the present verse (i.e. Be grateful to Allah) could have been given to him through Ilham (inspiration) attributed to men of Allah (awliya& Allah). Before the time of Sayyidna Dawud (علیہ السلام) Luqman (علیہ السلام) used to give Fatwa (religious rulings on questions asked by people). When Sayyidna Dawud (علیہ السلام) was invested with prophethood, he stopped this practice believing that he was not needed anymore. According to some reports, he was a judge among the Bani Isra&il. Many words of wisdom have been reported from him. Wahb Ibn Munnabih says that he has read more than ten thousand of these. (Qurtubi) On a certain day, while sage Luqman was addressing a big gathering of people sharing his wisdom with them, there came a person and asked him point blank: &Are you not the same person who used to graze goats with me in such and such forest?& Luqman (علیہ السلام) said: &Yes, I am the same person.|" The man asked, &How then, could you achieve this status that such multitudes of people hold you in reverence and come to hear your words from far and wide?& Luqman (علیہ السلام) said: &The reason lies in two .things I do: (1) Always telling the truth and (2) avoiding the useless things. It appears in another report that he said: &I tell you about a few things that have given me this station in life. If you were to take to these, you too will have the same rank and status. These are as follow: (1) Lower your gaze and hold your tongue. (2) Stay content with lawful sustenance. (3) Guard your private parts. (4) Tell the truth and uphold it. (5) Fulfill the pledge. (6) Honor the guest. (7) Protect the neighbor. (8) Observe silence against wasteful speech and leave off all useless indulgences.& (Ibn Kathir) What does the &hikmah& given to Luqman actually mean? The word: حِکمَۃ (hikmah) has been used in the Qur&an (20 times) conveying several meanings such as wisdom, knowledge, reason, forbearance, patience, prophethood, and correctness of opinion. Commentator Abu Hayyan has said: &Hikmah means a statement in words, a statement that teaches people a lesson, a lesson that goes down their hearts and which they conserve and communicate to others.& And the famous Sahabi, Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) said: &Hikmah means intellect, understanding and intelligence& while some others have said that acting in accordance with knowledge is what Hikmah is. In reality, there is no contradiction here. All these ingredients are included under the purview of Hikmah. Those who have seen the abridged Tafsir of moulana Ashraf All Thanavi (رح) in the original Urdu version of the present Tafsir will notice that he has translated Hikmah in the sense of prudence and wisdom and explained it as being knowledge that has been put into practice. This is very comprehensive and very clear. After having mentioned the giving of Hikmah to Luqman (علیہ السلام) ، on whom be peace, in this verse (12), it was said: |"Be grateful to Allah.|" Here, the first probability is to take the word: قُلنَا (qulna: We said) as understood. The sense would be that &We gave Hikmah to Luqman and commanded him to be grateful to Allah.& Then, there are others who have also said that the statement: أَنِ اشْكُرْ‌ لِلَّـهِ (anishkur lillah: Be grateful to Allah) is in itself an explanation of Hikmah. In other words, the Hikmah given to Luqman (علیہ السلام) was that &We gave him the command to be grateful which he carried out.& In that case, it would mean that being grateful to the blessings of Allah Ta’ ala is the greatest wisdom (hikmah). Soon after, it was explicitly clarified that this command to be grateful was not given by Allah Ta’ ala to earn some benefit for Himself. He needs no gratefulness from anyone. In fact, it has been done in the interest of human beings and for their benefit - because, according to the law of Allah, whoever is grateful to Him, He causes an increase in the blessings given to a person. Mentioned after that there are some words of wise counsel spoken by Luqman (علیہ السلام) to his son. These have been reported by the Qur&an so that others may also benefit from these.

خلاصہ تفسیر اور ہم نے لقمان کو دانشمندی (جس کی حقیقت علم مع العمل ہے) عطا فرمائی (اور ساتھ ہی یہ حکم دیا) کہ (سب نعمتوں پر عموماً اور اس نعمت حکمت پر کہ افضل النعم ہے خصوصاً ) اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے رہو اور جو شخص شکر کرے گا وہ اپنے ذاتی نفع کے لئے شکر کرتا ہے (یعنی اسی کا نفع ہے کہ اس سے نعمت میں ترقی ہوتی ہے کما قال (آیت) لئن شکرتم لازیدنکم) ، دینی نعمت میں تو ترقی دنیا میں بھی ہوتی ہے اور آخرت میں بھی، دنیا میں تو شکر نعمت سے علم بڑھتا ہے اور توفیق عمل میں اضافہ ہوتا ہے اور آخرت میں ثواب عظیم ملتا ہے، اور دنیوی میں آخرت کی ترقی یعنی ثواب میں اضافہ تو یقینی ہے اور کبھی دنیا میں شکر کرنے سے نعمت بڑھ جاتی ہے) اور جو ناشکری کرے گا تو (اپنا ہی نقصان کرے گا، کیونکہ) اللہ تعالیٰ (تو) بےنیاز (اور سب) خوبیوں والا ہے (یعنی چونکہ وہ اپنی ذات میں کامل ہے جو مدلول ہے حمید کا اس لئے وہ غنی ہے، اس کو کسی کے شکر وثناء کی احتیاج نہیں، کہ اس میں استکمال بالغیر لازم آتا ہے اور چونکہ لقمان موصوف ہیں حکمت یعنی علم و عمل کے ساتھ اس سے مفہوم ہوا کہ انہوں نے تعلیم شکر پر بھی شکر کیا ہوگا پس وہ شاکر بھی تھے اور شاکر ہونے سے ان کی حکمت میں ترقی بھی ہوئی ہوگی، پس وہ اعلیٰ درجہ کے حکیم ہوئے) اور (ایسے حکیم کی تعلیم ضرور قابل عمل ہونی چاہئے سو ان کی تعلیمات ان لوگوں کے سامنے ذکر کیجئے) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا خدا کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرانا، بیشک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے (ظلم کی حقیقت علماء نے یہ بیان کی ہے کہ کسی چیز کو بےمحل استعمال کیا جائے اور یہ بات شرک میں سب سے زیادہ واضح ہے کہ پیدا کرنے والے کی جگہ بتوں کی پرستش کی جائے) اور (درمیان قصہ کے امر توحید کی تاکید کے لئے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے (کہ ان کی اطاعت اور خدمت کرے) کیونکہ انہوں نے اس کے لئے بڑی مشقتیں جھیلی ہیں بالخصوص ماں نے چنانچہ) اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا، (کیونکہ جوں جوں حمل بڑھتا جاتا ہے حاملہ کا ضعف بڑھتا جاتا ہے) اور (پھر) دو برس میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے (ان دنوں میں بھی وہ ہر طرح کی خدمت کرتی ہے، اسی طرح اپنی حالت کے موافق باپ بھی مشقت اٹھاتا ہے، اس لئے ہم نے اپنے حقوق کے ساتھ ماں باپ کے حقوق ادا کرنے کا حکم فرمایا، چناچہ یہ ارشاد کیا) کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کر (حق تعالیٰ کی شکر گزاری تو عبادت و اطاعت حقیقیہ کے ساتھ اور ماں باپ کی خدمت و ادائے حقوق شرعیہ کے ساتھ کیونکہ) میری ہی طرف (سب کو) لوٹ کر آنا ہے (اس وقت میں اعمال کی جزاء و سزا دوں گا، اس لئے احکام کی بجا آوری ضروری ہے) اور (باوجودیکہ ماں باپ کا اتنا بڑا حق ہے جیسا ابھی معلوم ہوا، لیکن امر توحید ایسا عظیم الشان ہے کہ) اگر تجھ پر وہ دونوں (بھی) اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس (کے شریک الوہیت ہونے) کی تیرے پاس کوئی دلیل (اور سند) نہ ہو (اور ظاہر ہے کہ کوئی چیز بھی ایسی نہیں کہ جس کے استحقاق شرکت پر کوئی دلیل قائم ہو بلکہ عدم استحقاق پر بہت سی دلیلیں قائم ہیں، پس مراد یہ ہوئی کہ اگر وہ کسی چیز کو بھی شریک الوہیت ٹھہرانے کا تجھ پر زور دیں) تو تو ان کا کہنا نہ ماننا اور (ہاں یہ ضرور ہے کہ) دنیا (کے حوائج و معاملات) میں (جیسے ان کے ضروری اخراجات اور خدمت وغیرہ) ان کے ساتھ خوبی کے ساتھ بسر کرنا اور (دین کے بارے میں صرف) اس (ہی) شخص کی راہ پر چلنا جو میری طرف رجوع ہو (یعنی میرے احکام کا معتقد اور عامل ہو) پھر تم سب کو میرے پاس آنا ہے پھر (آنے کے وقت) میں تم کو جتلا دوں گا جو جو کچھ تم کرتے تھے (اس لئے کسی امر میں میرے حکم کے خلاف مت کرو آگے پھر تکمیل ہے نصائح لقمانیہ کی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو اور نصیحتیں بھی کیں چناچہ توحید و عقائد کے بارے میں یہ بھی نصیحت کی کہ) بیٹا (حق تعالیٰ کا علم اور قدرت اس درجہ ہے کہ) اگر (کسی کا) کوئی عمل (کیسا ہی مخفی ہو، مثلاً فرض کرو کہ وہ) رائی کے دانہ کے برابر (مقدار میں) ہو (اور) پھر (فرض کرو کہ) وہ کسی پتھر کے اندر (چھپا رکھا) ہو (جو کہ ایسا حجاب ہو کہ اس کا رفع ہونا دشوار ہے اور بدون رفع کسی کو اس کے اندر کا علم نہیں ہوتا) یا وہ آسمانوں کے اندر ہو (جو کہ عام خلائق سے مکاناً بہت بعید ہے) یا وہ زمین کے اندر ہو (جہاں خوب ظلمت رہتی ہے، اور یہی اسباب ہیں عام مخلوق کی نظروں سے پوشیدہ رہنے کے، کیونکہ کبھی کوئی چیز چھوٹی اور باریک ہوتی ہے کہ نظر میں نہیں آتی اور کبھی کوئی شدید حجاب حائل ہونے سے کبھی مکان کے بعید ہونے سے کبھی ظلمت سے، لیکن حق تعالیٰ کی ایسی شان ہے کہ اگر یہ اسباب بھی چھیننے کے مجتمع ہوں) تب بھی (قیامت کے روز حساب کے وقت) اس کو اللہ تعالیٰ حاضر کر دے گا (جس سے علم اور قدرت دونوں ثابت ہوں) بیشک اللہ تعالیٰ بڑا باریک بیں (اور) باخبر ہے (اور اعمال کے باب میں یہ نصیحت کی کہ) بیٹا نماز پڑھا کرو (کہ بعد تصیح عقائد کے اعلیٰ درجہ کا عمل ہے) اور (جیسا تصحیح عقائد و اعمال سے اپنی تکمیل کی ہے اسی طرح دوسروں کی تکمیل کی بھی کوشش کرنا چاہئے، پس لوگوں کو) اچھے کاموں کی نصیحت کیا کر اور برے کاموں سے منع کیا کر اور (اس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بالخصوص اور ہر حالت میں بالعموم) تجھ پر جو مصیبت واقع ہو اس پر صبر کیا کر یہ (صبر کرنا) ہمت کے کاموں سے ہے اور (اخلاق و عادات کے باب میں یہ نصیحت کی کہ بیٹا) لوگوں سے اپنا رخ مت پھیر اور زمین پر اترا کر مت چل، بیشک اللہ تعالیٰ کسی تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے اور اپنی رفتار میں اعتدال اختیار کر (نہ بہت دوڑ کر چل کہ وقار کے خلاف ہے، نیز گر جانے کا بھی احتمال ہے، اور نہ بہت گن گن کر قدم رکھ کہ وضع متکبرین کی ہے، بلکہ بےتکلف اور متوسط رفتار تواضع و سادگی کی چال اختیار کر، جس کو دوسری آیت میں اس عنوان سے ذکر کیا ہے، (آیت) یمشون علیٰ الارض ھوناً ) اور (بولنے میں) اپنی آواز کو پست کر (یعنی بہت غل مت مچا اور یہ مطلب نہیں کہ اتنی پستی کر کہ دوسرا سنے بھی نہیں آگے غل مچانے سے نفرت دلاتے ہیں کہ) بیشک آوازوں میں سے سب سے بری آواز گدھوں کی آواز (ہوتی) ہے (تو آدمی ہو کر گدھوں کی طرح چیخنا اور چلانا کیا مناسب ہے، نیز چیخ چلاؤ سے بعض اوقات دوسروں کو وحشت و اذیت بھی ہوتی ہے) معارف ومسائل (آیت) ولقد اتینا لقمٰن الحکمة، حضرت لقمان علیہ السلام، وہب بن منبہ کی روایت کے مطابق حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بھانجے تھے، اور مقاتل نے ان کا خالہ زاد بھائی بتلایا ہے۔ اور تفسیر بیضاوی وغیرہ میں ہے کہ ان کی عمر دراز ہوئی، یہاں تک کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ پایا۔ یہ بات دوسری روایات سے بھی ثابت ہے کہ لقمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں ہوئے ہیں۔ اور تفسیر درمنثور میں حضرت ابن عباس کی روایت یہ ہے کہ لقمان ایک حبشی غلام تھے، نجاری کا کام کرتے تھے (اخرجہ ابن ابی شیبہ و احمد فی الزہد وابن جریر وابن المنذر وغیرہ) اور حضرت جابر بن عبداللہ سے ان کے حالات دریافت کئے گئے تو فرمایا کہ پست قد پست ناک کے حبشی تھے اور مجاہد نے فرمایا کہ حبشی غلام موٹے ہونٹ والے پھٹے ہوئے قدموں والے تھے۔ (ابن کثیر) ایک سیاہ رنگ حبشی حضرت سعید بن مسیب کے پاس کوئی مسئلہ دریافت کرنے کے لئے حاضر ہوا تو حضرت سعید نے اس کی تسلی کے لئے فرمایا کہ تم اپنے کالے ہونے پر غم نہ کرو، کیونکہ کالے لوگوں میں تین بزرگ ایسے ہیں جو لوگوں میں سب سے بہتر تھے۔ حضرت بلال حبشی اور محجع حضرت عمر بن خطاب کے آزاد کردہ غلام اور حضرت لقمان علیہ السلام۔ لقمان جمہور سلف کے نزدیک نبی نہیں بلکہ ولی اور حکیم تھے : ابن کثیر نے فرمایا کہ جمہور سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ نبی نہیں تھے، صرف حضرت عکرمہ سے ان کا نبی ہونا نقل کیا جاتا ہے، مگر اس کی مسند ضعیف ہے۔ اور امام بغوی نے فرمایا کہ اس پر اتفاق ہے کہ وہ فقیہ اور حکیم تھے نبی نہیں تھے۔ (مظہری) ابن کثیر نے فرمایا کہ حضرت قتادہ سے ان کے بارے میں ایک عجیب روایت منقول ہے کہ حق تعالیٰ نے حضرت لقمان کو اختیار دیا تھا کہ نبوت لے لو یا حکمت، انہوں نے حکمت کو اختیار کرلیا۔ اور بعض روایات میں ہے کہ ان کو نبوت کا اختیار دیا گیا تھا، انہوں نے عرض کیا کہ اگر اس کے قبول کرنے کا حکم ہے تو میرے سر آنکھوں پر ورنہ مجھے معاف فرمایا جائے۔ اور حضرت قتادہ ہی سے یہ بھی منقول ہے کہ لقمان (علیہ السلام) سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے حکمت کو نبوت پر کیوں ترجیح دی جبکہ آپ کو دونوں کا اختیار دیا گیا تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ نبوت بڑی ذمہ داری کا منصب ہے، اگر وہ مجھے بغیر میرے اختیار کے دے دیا جاتا تو حق تعالیٰ خود اس کی کفالت فرماتے کہ میں اس کے فرائض ادا کرسکوں اور اگر میں اپنے اختیار سے اس کو طلب کرتا تو ذمہ داری مجھ پر ہوتی۔ (ابن کثیر) اور جبکہ لقمان (علیہ السلام) کا نبی نہ ہونا جمہور کے نزدیک مسلم ہے، تو پھر ان کو وہ حکم جو قرآن میں مذکور ہے ان اشکرلی یہ بذریعہ الہام ہوسکتا ہے جو اولیاء اللہ کو حاصل ہوتا ہے۔ حضرت لقمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) سے پہلے شرعی مسائل میں لوگوں کو فتویٰ دیا کرتے تھے، جب داؤد (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوئی تو فتویٰ دینا چھوڑ دیا کہ اب میری ضرورت نہیں رہی، بعض روایات میں ہے کہ بنی اسرائیل کے قاضی تھے۔ حضرت لقمان (علیہ السلام) سے کلمات حکمت بہت منقول ہیں۔ وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت لقمان (علیہ السلام) کی حکمت کے دس ہزار سے زیادہ ابواب پڑھے ہیں۔ (قرطبی) حضرت لقمان ایک روز ایک بڑی مجلس میں لوگوں کو حکمت کی باتیں سنا رہے تھے، ایک شخص آیا اور اس نے سوال کیا کہ تم وہی ہو جو میرے ساتھ فلاں جنگل میں بکریاں چرایا کرتے تھے ؟ لقمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہاں میں وہی ہوں، اس شخص نے پوچھا کہ پھر آپ کو یہ مقام کیسے حاصل ہوا کہ خلق خدا آپ کی تعظیم کرتی ہے اور آپ کے کلمات سننے کے لئے دور دور سے جمع ہوتی ہے۔ لقمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کا سبب میرے دو کام ہیں ایک ہمیشہ سچ بولنا، دوسرے فضول باتوں سے اجتناب کرنا۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت لقمان نے فرمایا کہ چند کام ایسے ہیں جنہوں نے مجھے اس درجہ پر پہنچایا، اگر تم اختیار کرلو تو تمہیں بھی یہی درجہ اور مقام حاصل ہوجائے گا۔ وہ کام یہ ہیں اپنی نگاہ کو پست رکھنا اور زبان کو بند رکھنا، حلال روزی پر قناعت کرنا، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنا، بات میں سچائی پر قائم رہنا، عہد کو پورا کرنا، مہمان کا اکرام کرنا، پڑوسی کی حفاظت کرنا اور فضول کام اور کلام کو چھوڑ دینا۔ (ابن کثیر) حکمت جو لقمان کو دی گئی اس سے کیا مراد ہے ؟ لفظ حکمت قرآن کریم میں متعدد معانی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ علم، عقل، حلم و بردباری، نبوت، اصابت رائے۔ ابوحیان نے فرمایا کہ حکمت سے مراد وہ کلام ہے جس سے لوگ نصیحت حاصل کریں اور ان کے دلوں میں موثر ہو اور جس کو لوگ محفوظ کر کے دوسروں تک پہنچائیں۔ اور ابن عباس نے فرمایا کہ حکمت سے مراد عقل و فہم اور ذہانت ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ علم کے مطابق عمل کرنا حکمت ہے اور درحقیقت ان میں کوئی تضاد نہیں، یہ سبھی چیزیں حکمت میں داخل ہیں۔ اوپر خلاصہ تفسیر میں حکمت کا ترجمہ دانشمندی سے اور اس کی تفسیر علم باعمل سے کی گئی ہے یہ بہت جامع اور واضح ہے۔ آیت مذکورہ میں حضرت لقمان (علیہ السلام) کو حکمت عطا کرنے کا ذکر فرما کر آگے فرمایا ہے ان اشکرلی، اس میں ایک احتمال تو یہ ہے کہ یہاں قلنا مخدوف مانا جائے۔ مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے لقمان کو حکمت دی اور یہ حکم دیا کہ میرا شکر ادا کیا کرو، اور بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ان اشکرلی خود حکمت کی تفسیر ہے، یعنی وہ حکمت جو لقمان کو دی گئی یہ تھی کہ ہم نے اس کو شکر کا حکم دیا انہوں نے تعمیل کی۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر گزار ہونا سب سے بڑی حکمت ہے۔ اس کے بعد یہ جتلا دیا کہ یہ شکر گزاری کا حکم ہم نے کچھ اپنے فائدہ کے لئے نہیں دیا ہمیں کسی شکر کی حاجت نہیں، بلکہ یہ خود انہی کے فائدے کے لئے دیا ہے۔ کیونکہ ہمارا ضابطہ یہ ہے کہ جو شخص ہماری نعمت کا شکر ادا کرتا ہے ہم اس کی نعمت میں اور زیادتی کردیتے ہیں۔ اس کے بعد لقمان (علیہ السلام) کے کچھ کلمات کا ذکر فرمایا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائے تھے، وہ کلمات حکمت قرآن کریم نے اس لئے نقل فرمائے کہ دوسرے لوگ بھی ان سے فائدہ اٹھائیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 11 وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَۃَ اَنِ اشْكُرْ لِلہِ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يَّشْكُرْ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِہٖ۝ ٠ ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ۝ ١٢ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ لقم لُقْمَانُ : اسم الحکيم المعروف، واشتقاقه يجوز أن يكون من : لَقِمْتُ الطّعام أَلْقَمُهُ وتَلَقَّمْتُهُ ، ورجل تَلْقَامٌ: كثير اللُّقَمِ ، واللَّقَمُ أصله الملتقم، ويقال لطرف الطریق : اللَّقَمُ. ( ل ق م ) لقمان مشہور حکیم کا نام ہے ہوسکتا ہے کہ یہ بھی لقمت الطعام القمہ وتلقمتہ سے مشتق ہو جس کے معنی کسی چیز کو ہڑپ کو جانا کے ہیں ۔ رجل تلقام ۔ بڑے بڑے لقمے نگلنے والا ۔ اللقیم ۔ لوالا اور راستہ کی ایک جانب کو لقم کہاجاتا ہے ۔ حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے لقمان کو علم و فہم اور قول و فعل کی درستگی عطا فرمائی اور یہ حکم دیا کہ توحید اور اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہو کیونکہ جو اس طریقہ پر اس کی نعمتوں کا شکر کرے گا تو وہ اپنے ذاتی ثواب کے لیے کرے گا۔ اور جو اس کی نعمتوں کی ناشکری کے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے شکر سے بےنیاز ہے اور اپنے تمام کاموں میں قابل تعریف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

سورة لقمان کا یہ رکوع اپنے مضامین کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اسے ہم نے مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب میں بھی شامل کیا ہے۔ چناچہ منتخب نصاب کے پہلے حصے (جامع اسباق) کا تیسرا درس اس رکوع پر مشتمل ہے۔ بنیادی طور پر اس رکوع میں حضرت لقمان کی نصیحتیں نقل ہوئی ہیں۔ ان نصیحتوں میں اس قدر جامعیت ہے کہ انسان کی نجات اخروی کے لوازمات کا ایک مکمل خاکہ ان کے اندر موجود ہے۔ حضرت لقمان نہ تو خود نبی تھے اور نہ ہی کسی نبی کے پیروکار تھے ‘ بلکہ وہ ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان تھے۔ ان کے حوالے سے جو بہت اہم نکتہ یہاں پر واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے (اس دورۂ ترجمہ قرآن کے دوران قبل ازیں بھی یہ نکتہ بار بارزیر بحث آچکا ہے) کہ ہر انسان فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے اور اگر ماحول کے منفی اثرات کے باعث اس کی فطرت مسنح نہ ہوگئی ہو تو وحی یا کسی نبی کی راہنمائی کے بغیر بھی کائنات کے کچھ حقائق تک اس کی رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔ وہ اپنی عقل سلیم کے ذریعے بڑی آسانی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ اس پوری کائنات کا خالق ایک ہے ‘ اس کی تخلیق میں اس کے ساتھ کوئی اور شریک نہیں۔ وہ ایسی ہستی ہے جو تمام صفات کمال سے بتمام و کمال متصفّ ہے۔ اسی نے اس کائنات کی تدبیر کی ہے اور وہی اس کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ اسی طرح ایک سلیم الفطرت انسان عقلی طور پر یہ حقیقت بھی سمجھ سکتا ہے کہ انسان کی زندگی صرف اس دنیا کی زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی کا ہونا بھی ناگزیر ہے۔ اور یہ کہ جس خالق نے انسانوں کو پیدا کیا ہے وہ ان کا محاسبہ بھی کرے گا۔ ہر انسان کو اپنے کیے کی سزا یا جزا کے لیے اپنے خالق کے حضور ضرور حاضر ہونا پڑے گا۔ ان حقائق کے ادراک کو ” ایمان “ تو نہیں کہا جاسکتا ‘ لیکن معرفت یا حکمت کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ” ایمان “ تو نبی کی دعوت کی تصدیق کا نام ہے ‘ جس تک انسان خود بخود رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ البتہ معرفت اور حکمت کے یہ دو مقامات (وجود باری تعالیٰ کا ادراک اور آخرت کا شعور) ایسے ہیں جن تک انسان اپنی عقل سلیم کی مدد سے بھی پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ اس کی فطرت پر غفلت اور مادیت کے پردے نہ پڑچکے ہوں۔ ایک سلیم الفطرت انسان کو اس مقام معرفت پر پہنچ کر آگے بڑھنے کے لیے کسی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اب تک اس نے عقل کی مدد سے اپنے خالق کو پہچان تو لیا ہے لیکن اس کے خالق کا اس سے تقاضا کیا ہے اس بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ چناچہ یہاں پہنچ کر وہ مدد کے لیے پکارتا ہے۔ انسان کی فطرت سلیمہ کی اس پکار کو اللہ تعالیٰ نے الفاظ کا جامہ عطا کر کے ایک خوبصورت دعا کی صورت میں محفوظ فرما دیا ہے۔ یہ وہی دعا ہے جو ہم ہر نماز کی ہر رکعت کے اندر پڑھتے ہیں۔ لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک عام آدمی کی دعا نہیں ہے بلکہ یہ اس انسان کی فطرت کی پکار ہے جو اپنی سلامتئ طبع ‘ سلامتئ فطرت اور سلامتئ عقل کی مدد سے اللہ کی معرفت حاصل کرچکا ہے۔ اس معرفت کے بعد اس کی روح گویا بےاختیار پکار اٹھتی ہے : (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) یعنی اس نے اللہ کو خالق کائنات اور رب العالمین کے طور پر پہچان لیا ہے۔ وہ اللہ کو (الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) ہستی کے طور پر بھی جان چکا ہے۔ اس کے بعد وہ (مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) کی منطق کا قائل بھی ہوچکا ہے اور اپنی عقل سلیم ہی کی مدد سے اسے (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) کا فلسفہ بھی سمجھ میں آچکا ہے۔ لیکن اس سے آگے وہ کچھ نہیں جانتا۔ اسے اس حقیقت کا ادراک تو ہوگیا ہے کہ اسے اپنے رب ہی کی بندگی کرنا چاہیے اور اسی کی مرضی پر چلنا چاہیے ‘ مگر اس کی بندگی کا طریقہ کیا ہے ؟ اور اس کی مرضی ہے کیا ؟ اس بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ چناچہ یہاں وہ اسی ذات کی طرف رجوع کرتا ہے جس کی معرفت سے اس کا سینہ منور ہوا ہے اور اس سے راہنمائی کی درخواست کرتا ہے : (اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ٥ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلا الضَّآلِّیْنَ ) ” (اے ہمارے ربّ ! ) ہمیں ہدایت بخش سیدھی راہ کی۔ راہ ان لوگوں کی جن پر تیرا انعام ہوا ‘ جو نہ تو مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ۔ “ ٦ حضرت لقمان ایک ایسی ہی سلیم الفطرت شخصیت تھے جو وحی یا کسی نبی کی راہنمائی کے بغیر کائنات کے مذکورہ حقائق تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ وہ حبشئ النسل تھے اور پیشے کے اعتبار سے بڑھئی تھے۔ ان کا تعلق مصر اور سوڈان کے سرحدی علاقے نوبیا (Noobia) سے تھا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت و ذہانت اور سلامتی فطرت کی مدد سے نہ صرف انہیں توحید کی معرفت حاصل ہوئی بلکہ وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ گئے کہ انسانی اعمال ضائع ہونے کی چیز نہیں ہیں۔ اس رکوع میں حضرت لقمان کی ان نصیحتوں کا ذکر ہے جو انہوں نے انتقال کے وقت اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ گویا یہ باتیں ان کی عمر بھر کی سوچ کاُ لبّ لباب ہیں۔ چونکہ وہ کسی نبی کے پیروکار نہیں تھے اور نہ ہی وحی کی تعلیمات ان تک پہنچی تھیں اس لیے ان کی نصیحتوں میں نہ تو کسی رسول کا تذکرہ ہے اور نہ ہی ان حقائق کا ذکر ہے جن کا علم صرف وحی کے ذریعے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ عرب کے لوگ حضرت لقمان کی شخصیت سے خوب واقف تھے۔ وہ نہ صرف انہیں ایک دانشور حکیم کے طور پر جانتے تھے بلکہ ان کے اقوال کو اپنے اشعار اور خطبات میں نقل (quote) بھی کیا کرتے تھے۔ اس پس منظر میں حضرت لقمان کے اقوال و نصائح کو قرآن میں نقل (quote) کر کے اللہ تعالیٰ گویا مشرکین عرب کو بتانا چاہتا ہے کہ دیکھو ! لقمان جیسا دانشور حکیم بھی اپنی سلامتی طبع اور سلامتی فکر کے باعث اسی اصول اور اسی نکتے تک پہنچا تھا جس کی دعوت آج تم لوگوں کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دے رہے ہیں۔ (اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ ط) ” انسان کی حکمت و دانائی اور اس کی فطرت کے ” سلیم “ ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ جو کوئی بھی اس کے ساتھ بھلائی کرے اس کے لیے اس کے دل میں بھلائی اور احسان مندی کے جذبات پیدا ہوں اور پھر وہ مناسب طریقے سے ان جذبات کا اظہار بھی کرے۔ چناچہ اگر کسی شخص کی فطرت بالکل ہی مسخ نہ ہوچکی ہو تو وہ اپنے محسن اعظم اور منعم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور ہر لمحہ اور ہر مقام پر ضرور کلمہ شکر بجا لائے گا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ اللہ کے شکر کے اظہار کے لیے بہترین کلمہ شکر ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ ہے جو قرآن مجید کا کلمہ آغاز بھی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 After presenting a rational argument to refute shirk the Arabs arc being told that this rational point of view is not being presented before them for the first time, but the wise and learned people before them also have been saying the same thing, including their own famous sage, Luqman. Therefore, they cannot refute the Holy Prophet's message, saying, "If shirk was an irrational creed, why didn't it strike so to somebody else before?" Luqman was well known as a wise and Iearned man in Arabia. He has been mentioned in the poetry of the pre-Islamic poets like Imra'ul-Qais, Labid, A'asha, Tarafa and others. Some educated Arabs also possessed a collection of the wise sayings of Luqman. According to traditions, three years before the Hijrah the very first person of Madinah to be influenced by the Holy Prophet was Suwaid bin Samit. He went to Makkah for Hajj. There the Holy Prophet was as usual preaching Islam to the pilgrims coming from different places, at their residences. When Suwaid heard his speech, he submitted, "I have also got a thing similar to what you preach," When the Holy Prophet asked what it was, he said, "The roll of Luqman." Then on the Holy Prophet's instance, he read out a portion of it, whereupon the Holy Prophet said, "This discourse is fine, but that which I have is better still.' Then he recited the Qur'an to him, and Suwaid admitted that that was certainly better than the wisdom of Luqman. (Ibn Hisham, vol. II, p. 3781. According to the historians, this person (Suwaid bin Samit) was known by the title of Kamil (Perfect) in Madinah on account of his ability, bravery, nobility and poetry. Bet when after his meeting with the Holy Prophet he returned to Madinah. He was killed in the battle of Bu'ath, which was fought some time afterwards. His tribesmen were of the opinion that he had become a Muslim after his meeting with the Holy Prophet Historically. Luqman is a disputed personage. In the dark centuries of ignorance there was no compiled history. The only source of information were the traditions that were being handed down since centuries. According to these, some people thought that Luqman belonged to the people of 'Ad and was a king of Yaman. Relying on these traditions, Maulana Sayyid Suleman Nadvi has expressed the opinion in the Ard al-Qar'an that Luqman was a descendent of the believers who remained safe with the Prophet Hud after the destruction of the people of 'Ad by a Divine torment, and he was one of the kings of Yaman when it was ruled by the 'Ad. But other traditions which have been reported from sane Iearned Companions and their immediate followers do not support this view. Ibn 'Abbas says Luqman was a negro slave, and the same is the opinion of Hadrat Abu Hurairah, Mujahid, 'Ikrimah and Khalid ar-Rabi. According to Hadrat Jabir bin'Abdullah Ansari, he belonged to Nirbah. S'id bin al-Musayyib says that Ire was an Egyptian negro. These three sayings closely resemble one another. The Arabs generally called the black people negroes (Habashis) in those days, and Nirbah is the country south of Egypt and north of Sudan. Therefore, calling the same person an Egyptian and a Nubian and a negro, in spite of the difference in words. is one and the same thing. Then the elucidations made by Suhayli in Raud al-Unuf nd Mas'udi in Muruj adh-Dhahab also throw some light on the question as to how the wisdom of this Sudanese slave spread in Arabia. They both agree that this person though originally a Nubian was an inhabitant of Madyan and Aylah (modern, 'Aqabah). That is why he spoke Arabic and his wisdom spread in Arabia. Besides, Suhayli also elucidates that Luqman the Sage and Luqman bin 'Ad were two different persons, and it is not correct to regard them as one and the same man. (Raud al-Unuf, vol. I, p. 266; Mas'udi, vol. I, p. 57). Another thing may also be made clear here. The Arabic manuscript from the Library of Paris, which the orintalist Derenbourg has published under the title Amthal Luqman Hakim (Fables De Luqman Le Sage) is a fabricated thing which has nothing to do with the Roll of Luqman. These Fables were compiled by somebody in the 13th century A.D. Its Arabic is poor, and a perusal shows that it is, in fact, a translation of some other book in a different language, which the author or translator has himself ascribed to Luqman the Sage. The orientalists make such researches with a special object in view. They bang out such forged and fake things in order to prove that the narratives of the Quran are unhistorical legends and therefore unreliable. Anyone who reads B. Helle's article on 'Luqman" in the Encyclopeadia of Islam will not fail to understand the real motive of these people. 18 That is, "The very first demand of the wisdom and knowledge, insight and sagacity, granted by AIIah was that man should have adopted the attitude of gratefulness and obedience before his Lord, and not of ingratitude and thanklessness. And this gratefulness should not have merely been lip-service but expressed and translated in thought and word and deed. One should have the conviction in the depths of one's heart and mind that whatever one has got, has been given by God. One's tongue should always be acknowledging the favours of God; and practically also one should be trying to prove by carrying out His Commands, by avoiding sins, by striving to achieve His good-will, by conveying His blessings and favours to His servants and by fighting those who have rebelled against Him that one is really a grateful servant of one's God." 19 That is,"The one who is ungrateful and unbelieving, his unbelief is harmful to his own self. Allah does not lose anything. He is Independent and does not stand in need of anyone's gratitude. The gratitude of someone dces not add anything to His Godhead, nor does anyone's ingratitude and disbelief change the factual reality that whatever the servants have got, has been granted by Him. He is Self-Praiseworthy whether someone praises Him or not. Every particle in the universe bears testimony to His Perfection and Beauty, His Creativity and Providence, and every creature is paying homage to His glory perpetually."

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :17 شرک کی تردید میں ایک پر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ معقول بات آج کوئی پہلی مرتبہ تمہارے سامنے پیش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ پہلے بھی عاقل و دانا لوگ یہی بات کہتے رہے ہیں اور تمہارا اپنا مشہور حکیم ، لقمان اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے ۔ اس لئے تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت کے جواب میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر شرک کوئی نامعقول عقیدہ ہے تو پہلے کسی کو یہ بات کیوں نہیں سوجھی ۔ لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم و دانا کی حیثیت سے بہت مشہور تھی ۔ شعرائے جاہلیت ، مثلاً امراؤ القیس ، لَبِید ، اَعْشیٰ ، طَرَفہ وغیرہ کے کلام میں ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے ان کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا ۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینے کا اولین شخص جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ہوا وہ سُوَید بن صامت تھا ۔ وہ حج کے لئے مکہ گیا ۔ وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہ جا جا کر دعوت اسلام دیتے پھر رہے تھے ۔ اس سلسلہ میں سُوید نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سنی تو اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے ۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا مجلّۂ لقمان ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش پر اس نے اس مجلّہ کا کچھ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا ۔ یہ بہت اچھا کلام ہے ، مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے ۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ بلا شبہ مجلّہ لقمان سے بہتر ہے ( سیر ۃ ابن ہشام ، ج ۲ ، ص ٦۷ ۔ ٦۹ ۔ اُسُد الغابہ ، ج ۲ ، صفحہ ۳۷۸ ) مؤرخین کا بیان ہے کہ یہ شخص ( سُوَید بن صامت ) مدینہ میں اپنی لیاقت ، بہادری ، شعر و سخن اور شرف کی بنا پر کامل کے لقب سے پکارا جاتا تھا ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد جب وہ مدینہ واپس ہوا تو کچھ مدت بعد جنگ بعاث پیش آئی اور یہ اس میں مارا گیا ۔ اس کے قبیلے کے لوگوں کا عام خیال یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد وہ مسلمان ہو گیا تھا ۔ تاریخی اعتبار سے لقمان کی شخصیت کے بارے میں بڑے اختلافات ہیں ۔ جاہلیت کی تاریک صدیوں میں کئی مدَوَّن تاریخ تو موجود نہ تھی ۔ معلومات کا انحصار ان سینہ بسینہ روایات پر تھا جو سینکڑوں برس سے چلی آ رہی تھیں ۔ ان روایات کی رو سے بعض لوگ لقمان کو قوم عاد کا ایک فرد اور یمن کا ایک بادشاہ قرار دیتے تھے ۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے انہی روایات پر اعتماد کر کے ارض القرآن میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قوم عاد پر خدا کا عذاب آنے کے بعد اس قوم کے جو اہل ایمان حضرت ہود علیہ السلام کے ساتھ بچ رہے تھے ، لقمان انہی نسل سے تھا اور یمن میں اس قوم نے جو حکومت قائم کی تھی ، یہ اس کے بادشاہوں میں سے ایک تھا ۔ لیکن دوسری روایات جو بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہیں اس کے بالکل خلاف ہیں ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ لقمان ایک حبشی غلام تھا ۔ یہی قول حضرت ابو ہریرہ ، مُجاہِد ، عکْرِمَہ اور خالد الربعی کا ہے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کا بیان ہے کہ وہ نُوبہ کا رہنے والا تھا ۔ سعید بن مُسَیِّب کا قول ہے کہ وہ مصر کے سیاہ رنگ لوگوں میں سے تھا ۔ یہ تینوں اقوال قریب قریب متشابہ ہیں ۔ کیونکہ عرب کے لوگ سیاہ رنگ لوگوں کو اس زمانہ میں عموماً حبشی کہتے تھے ، اور نُوبہ اس علاقہ کا نام ہے جو مصر کے جنوب اور سوڈان کے شمال میں واقع ہے ۔ اس لیے تینوں اقوال میں ایک شخص کو مصری ، نُوبی اور حبشی قرار دینا محض لفظی اختلاف ہے معنی میں کوئی فرق نہیں ہے ، پھر روض الانف میں سُہَیلی اور مُرُوج الذَّہَب میں مسعودی کے بیانات سے اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اس سوڈانی غلام کی باتیں عرب میں کیسے پھیلیں ۔ ان دونوں کا بیان ہے کہ یہ شخص اصلاً تو نُوبی تھا ، لیکن باشندہ مَدْیَن اور اَیلَہ ( موجودہ عَقَبہ ) کے علاقے کا تھا ۔ اسی وجہ سے اسکی زبان عربی تھی اور اس کی حکمت عرب میں شائع ہوئی ۔ مزید براں سُہَیلی نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ لقمان حکیم اور لقمان بن عاد دو الگ الگ اشخاص ہیں ۔ ان کو ایک شخصیت قرار دینا صحیح نہیں ہے ( روض الانف ، ج۱ ، ص۲٦٦ ۔ مسعودی ، ج۱ ۔ ص۵۷ ) ۔ یہاں اس بات کی تصریح بھی ضروری ہے کہ مستشرق دیر نبورگ ( Derenbours ) نے پیرس کے کتب خانہ کا ایک عربی مخطوطہ جو امثال لقمان الحکیم ( Fables De Loqman Le Sage ) کے نام سے شائع کیا ہے وہ حقیقت میں ایک موضوع چیز ہے جس کا مجلّٔہ لقمان سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے ۔ یہ امثال تیرھویں صدی عیسوی میں کسی شخص نے مرتب کی تھیں ۔ اس کی عربی بہت ناقص ہے اور اسے پڑھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل کسی اور زبان کی کتاب کا ترجمہ ہے جسے مصنف یا مترجم نے اپنی طرف سے لقمان حکیم کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ مستشرقین اس قسم کی جعلی چیزیں نکال نکال کر جس مقصد کے لیے سامنے لاتے ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کسی طرح قرآن کے بیان کردہ قصوں کو غیر تاریخی افسانے ثابت کر کے ساقط الاعتبار ٹھہرا دیا جائے ۔ جو شخص بھی انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں لقمان کے عنوان پر ہیلر ( B. Heller ) کا مضمون پڑھے گا اس سے ان لوگوں کی نیت کا حال مخفی نہ رہے گا ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :18 یعنی اللہ کی بخشی ہوئی اس حکمت و دانائی اور بصیرت و فرزانگی کا اولین تقاضا یہ تھا کہ انسان ا پنے رب کے مقابلے میں شکر گزاری و احسان مندی کا رویہ اختیار کرے نہ کہ کفران نعمت اور نمک حرامی کا ۔ اور اس کا یہ شکر محض زبانی جمع خرچ ہی نہ ہو بلکہ فکر اور قول اور عمل ، تینوں صورتوں میں ہو ۔ وہ اپنے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں اس بات کا یقین و شعور بھی رکھتا ہو کہ مجھے جو کچھ نصیب ہے خدا کا دیا ہوا ہے ۔ اس کی زبان اپنے خدا کے احسانات کا ہمیشہ اعتراف بھی کرتی رہے ۔ اور وہ عملاً بھی خدا کی فرماں برداری کر کے ، اس کی معصیت سے پرہیز کر کے ، اس رضا کی طلب میں دَوڑ دھوپ کر کے ، اس کے دیے ہوئے انعامات کو اس کے بندوں تک پہنچا کر ، اور اس کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے مجاہدہ کر کے یہ ثابت کر دے کہ وہ فی الواقع اپنے خدا کا احسان مند ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :19 یعنی جو شخص کفر کرتا ہے اس کا کفر اس کے اپنے لیے نقصان دہ ہے ، اللہ تعالیٰ کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔ وہ بے نیاز ہے ، کسی کے شکر کا محتاج نہیں ہے ۔ کسی کا شکر اس کی خدائی میں کوئی اضافہ نہیں کر دیتا ، نہ کسی کا کفر اس امر واقعہ کو بدل سکتا ہے کہ بندوں کو جو نعمت بھی نصیب ہے اسی کی عطا کردہ ہے ۔ وہ تو آپ سے آپ محمود ہے خواہ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے ۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے کمال و جمال اور اس کی خلاقی و رزاقی پر شہادت دے رہا ہے اور ہر مخلوق زبان حال سے اس کی حمد بجا لا رہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: حضرت لقمان کے بارے میں راجح بات یہی ہے کہ وہ نبی نہیں، بلکہ ایک دانشمند شخص تھے، وہ کس زمانے میں تھے ؟ اور کس علاقے کے باشندے تھے، اس کے بارے میں بھی روایات بہت مختلف ہیں، جن سے کوئی حتمی نتیجہ نکالنا مشکل ہے، بعض روایات میں ہے کہ وہ یمن کے باشندے تھے اور حضرت ہود (علیہ السلام) کے جو ساتھی عذاب سے بچ گئے تھے، ان میں یہ بھی شامل تھے، اور بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ حبشہ سے تعلق رکھتے تھے، لیکن قرآن کریم نے ان کا جس غرض سے تذکرہ فرمایا ہے، وہ ان تفصیلات کے جاننے پر موقوف نہیں ہے، یہ بات واضح ہے کہ عرب کے لوگ ان کو عظیم دانشور سمجھتے تھے، اور ان کی حکمت کی باتیں ان کے درمیان مشہور تھیں، جاہلیت کے زمانے کے کئی شعراء نے ان کا تذکرہ کیا ہے، لہذا ان کی باتیں بجا طور پر ان اہل عرب کے سامنے حجت کے طور پر پیش کی جاسکتی تھیں۔ 5:

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢‘ ١٣۔ اوپر کی آیتوں میں شرک کی مذمت تھی اور لقمان (رض) کی نصیحت میں بھی شرک کی مذمت ہے اس مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیتوں کے ساتھ لقمان ( علیہ السلام) کی نصیحت کا ذکر فرمایا حضرت داؤد (علیہ السلام) اور لقمان (علیہ السلام) کا زمانہ ایک ہے سوا عکرمہ کے سلف میں اور کوئی لقمان ( علیہ السلام) کے نبی ہونے کا قائل نہیں ہے تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن ابی حاتم میں عکرمہ کی ایک روایت ١ ؎ بیان کی گئی ہے جس سے لقمان ( علیہ السلام) کا نبی ہونا ثابت ہوتا ہے یہ عکرمہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے پر ور دہ ہیں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) عکرمہ کے دونوں پاؤں کاٹھ میں ٹھوک دیا کرتے تھے اور عکرمہ کو قرآن شریف کی تفسیر سکھایا کرتے تھے چناچہ عکرمہ سے روایت ہے کہ میں نے چالیس برس تک حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے علم سیکھا ہے آخر کو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے روبرو میں نے فتوے دینے شروع کردیے تھے چناچہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے گھر کے در وازہ پر بیٹھ کر میں فتوے دیا کرتا تھا اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) گھر کے اندر ہوا کرتے تھے اسماء الرجال کی کتابوں میں جہاں یہ سب کچھ عکرمہ کا حال لکھا ہے وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ عکرمہ کے مزاج میں آخر کو کچھ خارجی پن آگیا تھا اس واسطے امام مالک اور امام احمد اور اور محدثین عکرمہ کی روایت سے پرہیز کرتے تھے علاوہ اس کے تفسیر ابن جریر اور تفسیر ابن ابی حاتم کی سند میں جابر بن یزید جعفی ہے جس کی روایت کو ابوداؤد ونسائی اور اور محدثین (رح) نے ضعیف ٹھہرایا ہے غرض ان سببوں سے جمہور مفسرین کے مقابلہ میں حافظ ابن کثیر اور اور مفسروں نے عکرمہ کی اس روایت کو قابل اعتبار نہیں شمار کیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے شاگرد مجاہد وغیرہ بھی عکرمہ کی اس روایت کے مخالف ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ حکمت عطا فرماوے اور وہ اس کے موافق اور لوگوں کو تعلیم دیوے تو ایسے شخص کا سا مرتبہ حاصل کرنے کی باقی کے لوگوں کو حرص کرنی چاہیے صحیح بخاری ومسلم میں اسامہ بن زید (رض) سے روایت ١ ؎ ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان علما کو سخت عذاب کا مستحق فرمایا ہے جو لوگوں کو علم دین کی باتیں سکھا دیں اور خود اس کے موافق عمل نہ کریں ان صحیح حدیثوں کو حکمت کے لفظ کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ علم دین کے سیکھنے کو اور اس کے موافق تعلیم وفتوے دینے اور عمل کرنے کو حکمت کہتے ہیں فقط تعلیم اور فتوے ہو اور عمل نہ ہو تو ایسا علم دین حکمت نہیں بلکہ وبال ہے سورة بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے حکمت کو بڑی خوبی فرمایا ہے جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے کی معتبر روایت ٢ ؎ ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص احسان کرنے والے کے احسان کو ہر وقت یاد رکھے گا اور اس کا ذکر کرتا رہے گا اس نے اس احسان کا گویا شکر ادا کرلیا یہ حدیث ان اشکر لی و لوالدیک کی گویا تفسیر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ دین کی باتو کی سمجھ کو نعمت عطا کرنے تو اس شخص کو چاہیے کہ پڑھنے پڑھانے اور عمل کرنے سے اس تعمت کی یاد میں مصروف رہے کہ یہی اس نعمت کی شکر گزاری ہے۔ حافظ ابو جعفرابن جریر نے شکر کو حکمت کی تفسیر میں جو ٹھہرایا ہے اس کا مطلب بھی وہی ہے جو حضرت عائشہ (رض) کی حدیث کے موافق اوپر بیان کیا گیا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ سارا جہان نیک ہوجاوے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں کچھ بڑھ نہ جاوے گا اور اگر سارا جہان بد ہوجاوے تو اس کی بادشاہت میں سے کچھ گھٹ نہ جاوے گا یہ حدیث فان اللہ غنی حمید کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شکر گزاروں کے شکر اور ناشکری سے ان خوبیوں پر کچھ اثر نہیں پڑ سکتا۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر یہ احسان کیا کہ اس کو پیدا کیا اس کے اس احسان کو بھول کر جو لوگ اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک کرتے ہیں دنیا میں ان سے بڑھ کر کوئی گنہگار نہیں یہ حدیث ان الشرک لظلم کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرک شخص بغیر توبہ کے مرجائے گا تو اس کی مغفرت کسی طرح سے نہ ہوگی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ مشرک پر جنت حرام ہے ہاں سوا شرک کے اور گناہوں کا گنہگار بغیر توبہ کے اگر مرجاوے گا تو اس کی مغفرت اللہ کے اختیار میں ہے چاہے وہ بلا کسی مواخذہ کے ایسے شخص کو جنت میں داخل کرے چاہے کسی قدر مواخذہ کے بعد اس سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ شرک سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں۔ سقراط ‘ بقراط ‘ افلاطوں ‘ جالینوس وغیرہ اگرچہ یہ لوگ بھی صاحب حکمت مشہور ہیں لیکن یہ لوگ فقط عقلی باتوں کی سمجھ کو حکمت جانتے ہیں حالانکہ فقط عقل کی رسائی سے حشر جنت دوزخ ایسی غیب کی باتوں کے سمجھنے میں بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں مثلا یہ لوگ جسمانی حشر کے قائل نہیں جنت اور دوزخ کی ظاہری ہستی کے منکر ہیں دنیا کی قدیم کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو دنیا کی روز مرہ کی باتوں کا علم نہیں بتلاتے۔ اس طرح کی ان لوگوں کی اور باتیں بھی آسمانی کتابوں کے بر خلاف ہیں شرعی حکمت کے صاحب حکمت علماء نے اپنی کتابوں میں ان غلط باتوں کو آسمانی کتابوں کے حوالہ سے اچھی طرح بےاصل ٹھہرایا ہے لیکن ان لوگوں کو اپنی عقل باتوں کے صحیح ہونے کا ایسا یقین ہے کہ ان باتوں کے آگے یہ لوگ نبوت کی وحی کو کچھ نہیں گنتے چناچہ سقراط نے جب موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا حال سنا تو موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جانے سے انکار کیا اور صاف کہہ دیا کہ ہمارا علم ہم کو کافی ہے ہمیں کسی نبی کی تعلیم درکار نہیں ہے جن عقلی صاحب حکمت لوگوں کا ذکر اوپر گزرا یہ ان میں کے متقدمین کہلاتے ہیں ان کے زمانہ تک دنیا کے قدیم ہونے کا اعتقاد نہیں تھا یہ اعتقاد ان لوگوں کے بعدا ارسطو کے زمانہ میں پیدا ہوا ہے یہ ارسطو بت پرست مشرک شخص تھا علم منطق اسی کی ایجاد سے اس واسطے اس کو معلم اول کہتے ہیں پھر ابو نصر فارابی نے ارسطو کی باتوں کی شرح بیان کی ہے اس لیے ابونصر معلم ثانی مشہور ہے آخر شیخ ابو علی بن سینا کا زمانہ ہے ابو علی بن سینا نے اگرچہ پہلی عقلی باتوں کو اسلام کے مطابق کردینے کو کوشش کی ہے لیکن ابو علی بن سینا کی بہت سی باتیں قواعد اسلام کے برخلاف ہیں چناچہ اس ابوعلیٰ بن سینا کا یہ اعتقاد کہ نہ اللہ تعالیٰ غیب کی باتوں کو جانتا ہے نہ وہ متکلم بالذات ہے بلکہ وہ کسی چیز میں کلام کی صفت پیدا کردیتا ہے اسی کو اللہ کا کلام کہتے ہیں اسی طرح ابو علی کی اور باتیں بھی قواعد اسلام کے بر خلاف اس کی کتابوں میں ہیں۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٤٣ جلد ٣ ) (٢ ؎ مشکوۃ کتاب العلم فصل اول) (١ ؎ مشکوۃ ص ٤٣٦ باب الامربا لمروف) (٢ ؎ الترغیب والترہیب ص ٧٨ ج ٢ عنوان ” الترغیب فی شکر المعروف الخ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:12) ان اشکر اللہ۔ اس میں ان تفسیریہ ہے ای وقلنا لہ ان اشکر اللہ اور ہم نے اسے کہا کہ شکر ادا کر اللہ کا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 حضرت لقمان کے بارے میں کرمہ کے سوا باقی تمام مفسرین کا خیال ہے کہ وہ نبی نہ تھے بلکہ ایک نیک و دانا شخص تھے جو سوڈانی (حبشی) نسل سے تھے۔ ایک مرفوع روایت میں بھی ان کے حبشی ہونے کا ذکر ہے مقاتل نے کہا ہے کہ وہ حضرت ایوب کے بھانجے تھے ایک ہزار سال کی عمر پائی حضرت دائود کے زمانہ میں یہ بنی اسرائیل کے قاضی تھے لیکن ان کے بعد عہدہ قضا سے الگ ہوگئے (ابن کثیر) اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ وہ آزاد نہیں بلکہ غلام تھے۔ (روح المعانی) ہی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پیشتر بھی ان کی حکمت اور دانئیا کے واقعات عرب میں مشہور تھے اور جاہلی شعرا کو ادبا اپنے کلام میں ان کا ذکر کرتے تھے جیسا کہ ابن ہشام نے اپنی سیرت میں نقل کیا ہے۔ (دیکھیے ج 71 ص 247) 1 یہ فرمانا بذریعہ الہام تھا یا خود حکمت دیئے جانے کا لازمی نتیجہ تھا۔2 وہ بذات خود محمود ہے اس کو نہ کسی کے شکر کی پرواہ ہے ورنہ کسی کی ناشکری کی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 12 تا 19 اسرارومعارف اور بیشک لقمان کو حکمت عطا فرمائی گئی کہ وہ شکر ادا کرے اور جو بھی شکر ادا کرتا ہے اپنی ذات کا فائدہ کرتا ہے ورنہ اللہ تو سب سے بےنیاز اور تمام خوبیوں کا مالک ہے کسی کے شکر کا محتاج نہیں۔ حضرت لقمان اور حکمت : جمہور علماء سلف کے نزدیک حضرت لقمان ولی اللہ تھے حبشی تھے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے عہد میں تھے اور اتنی طویل عمر پائی کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ میں بھی تھے۔ حکمت کی تفسیر میں بہت سے اقوال ہیں مثلا علم ، عقل ، بردباری و دانائی یا نیک عمل کی توفیق اور اسی طرح مگر یہ سب ایک ہی شے کے مختلف نام ہیں حکمت عطا ہونے سے مراد مرضات باری کا علم اور اس پر عمل کی توفیق بھی ہے جسے علم لدنی کہا گیا ہے کہ بغیر کسی کے سیکھے یا پڑھے اللہ کریم بعض اولیاء اللہ کو عطا فرما دیتے ہیں کہ وہ ایسے ایسے نکات بیان فرماتے ہیں جو بڑے بڑے علما صرف ان سے حاصل کرسکتے ہیں۔ سید عبد العزیز دباغ ایسی ہی ہستی تھے جن کے فرمودات الابریز نامی کتاب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ صحت عقیدہ : جب لقمان نے اپنے بیٹے کو حکیمانہ نصیحت کی تو فرمایا کہ اے جان پدر کبھی شرک مت کرنا کہ شرک بہت ہی بڑا ظلم ہے یعنی صحت عقیدہ سب بھلائیوں کی بنیاد ہے۔ اگر عقیدہ ہی درست نہ ہو تو عمل کی اصلاح کی امید ہی فضول ہے۔ والدین کے ساتھ احسان : ایمان و اخلاق میں سب سے مقدم والدین کے ساتھ لطف و محبت اور اکرام سے پیش آنا ہے کہ ماں نے اسے پیٹ میں رکھ کر بہت دکھ جھیلے پھر دو سال اپنے سینے سے دودھ پلایا اور دونوں کا بوجھ باپ نے برداشت کیا لہذا والدین کا بہت بڑا حق ہے کہ بندہ اللہ کا شکر کرے جس کا طریقہ والدین کی خدمت بھی ہے کہ آخر بندے کو پلٹ کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے لیکن والدین بھی اگر اللہ کی نافرمانی کا یا شرک کرنے کا حکم دیں تو ان کا یہ حکم ہرگز نہ مانا جائے ۔ اس کے باوجود اگر وہ مسلمان نہ بھی ہوں تو دنیا میں ان کی معروف طریقے سے خدمت ضرور کرے مگر اتباع انہی لوگوں کا کے جو اللہ کی راہ پر اور قرب الہی کی طرف گامزن ہوں اس کیے کہ سب نے واپس اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے اور اللہ ہی ان کے اعمال کو ان کے سامنے لاکر ان سے حساب لیں گے۔ والدین اللہ کی اطاعت سے روکنے کا حق نہیں رکھتے : یہ بات واضح ہوگئی کہ والدین اللہ کی اطاعت اللہ کے ذکر اور اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ رہنے سے روکنے کا حق نہیں رکھتے اس کے باوجود والدین کا احترام کیا جائے گا اور یہ نافرمانی شمار نہ ہوگی کہ نیک کام کیوں کرتے ہو یا نیک لوگوں کے ساتھ کیوں رہتے ہو اس لیے کہ انہیں اس کا حق ہی نہیں ہے۔ ایٹم کی بات : اور فرمایا کہ اے بیٹے اللہ سے کچھ پوشیدہ نہیں کہ کوئی نہایت ہی چھوٹا ذرہ جو کسی چٹان میں پوشیدہ ہے یعنی ایٹم جس کو سائنس نے اب دریافت کیا ہے کہ سب سے چھوٹا ذرہ جو چٹانوں کے اندر ہے یا کوئی بھی شے جو آسمانوں میں ہے سب کچھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر کیا جائے گا کہ اللہ باریک سے باریک تر شے سے بھی پوری طرح واقف ہے۔ عبادت کی اہمیت : اے جان پدر ! اللہ کی عبادت میں پوری پوری محنت کر اوقات اور ارکان و احکام کا پورا پورا لحاظ رکھتے ہوئے۔ عام آدمی تو اسے وقت کا زیاں سمجھتا ہے مگر حق یہ ہے کہ مومنانہ حیات اور اسلامی زندگی میں عبادات ہوا کا درجہ رکھتی ہیں جس طرھ کوئی بھی کام کرتے وقت ہم ہوا میں سانس لینے کا عمل نہیں چھوڑ سکتے اسی طرح فرائض اپنے وقت میں اور ذکر الہی ہر لمحہ اسلامی زندگی کی آکسیجن ہے اور دنیا میں نیکی کا حکم کر یعنی نیکی اور بھلائی دین اور اسلام کو رائج کرنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھ اور کفر و شرک اور برائی کا راستی روکنے میں مصروف رہ کہ مسلمان ہمیشہ اور ہر آن جہاد میں ہے۔ زبانی ، تحریری ، عملی اور قلبی طور پر نیز اس راہ میں مشکلات کا آنا ایک فطری قاعدہ ہے لہذا جو تکلیف بھی آئے اس پر صبر اختیار کر اور ثابت قدم رہ کہ حقیقتا راہ حق میں ثابت قدم رہنا ہی بہت بڑا کام ہے ۔ کفر کے لیے سخت ہو مگر متکبر نہ ہو : اور اللہ اگر دین پر قائم رہنے اور عزم و ہمت سے زندگی گزارنے کی توفیق دیں تو اس پر اکڑ نہ جانا اور لوگوں سے متکبرانہ انداز سے منہ نہ پھیرلیا جائے اور زمین پر اترا اترا کر مت چلنا کہ کفر کے مقابلے میں سختی تکبر میں مبتلا نہ کردے اس لیے کہ اللہ شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا اپنی رفتار میں ایک خوبصورت توازن پیدا کر اور بات کرنے میں متانت اور سنجیدگی کو اپنا کہ محض شور کرنا اور بلند آواز کرے اپنی رائے منوانا درست طریقہ نہیں کہ چلانے کو تو گدھا بھی شور کرسکتا ہے مگر اس کا شور سب سے برا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح : آیت نمبر (12 تا 15) ۔ سورئہ لقمان کی اس سے پہلے آیات میں نظر ابن حارث کا نام لئے بغیر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بعض کافر و مشرک وہ ہیں جو بےہودہ اور دین سے غافل کرنے والی چیزویں خرید کر لاتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو اور نئی نسل کو جھوٹے قصے کہانیوں میں لگا کر دین کی سچائیوں کو بےحقیقت ثابت کرسکیں۔ اب ان زیر مطالعہ آیات میں عرب کے ذہین شخص حکمت و دانائی، علم و دانش کے پیکرشکر گذار توحید پرست حضرت لقمان کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ وہ حضرت لقمان جنہیں اللہ نے علم و حکمت الہام فرمایا تھا جن کی عقل و سمجھ کی باتوں سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا انہوں نے اپنے بیٹے کو یعنی نوجوان نسل کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میرے بیٹے ! اللہ (کی ذات، صفات اور عبادت میں) کسی کو شریک نہ کرنا کیونکہ کسی کو بھی اللہ کے ساتھ شریک کرنا انتہائی زیادتی، بےانصافی اور گناہ کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی اس شدت کا بیان کرنے کے لئے فرمایا کہ ہم نے انسان کو اس بات کی تاکید کردی ہے کہ اس کے وہ والدین خاص طور پر ماں جس نے اپنے بچے کو دکھ پر دکھ اٹھا کر نو مہینے اپنے پیٹ میں پرورش کیا۔ دو سال تک دودھ پلا کر نہایت شفقت و محبت سے اس کو پروان چڑھایا اور وہ باپ جس نے زندگی کی کڑی دھوپ میں اس کے لئے زندگی گذارنے کے وسائل مہیا کئے ان دونوں کی اطاعت و فرماں برادری کی جائے۔ ان کا کہا مانا جائے۔ ادب و احترام کا پوری طرح خیال رکھا جائے ان کی دل داری کرتے ہوئے اگر وہ کچھ کہہ دیں تو اس پر اف تک نہ کہا جائے لیکن وہی والدین جن کی خدمت کو عبادت قرار دیا گیا ہے اگر اس کو کفروشرک پر آمادہ کریں اور شرک کرنے کے لئے زور ڈالیں تو صاف انکار کردینا جاہیے کیونکہ کسی گناہ اور معصیت میں کسی شخص ہیاں تک کہ والدین کی بات بھی نہیں مانی جائے گی۔ البتہ اس کے باوجود ان سے دنیاوی حسن سلوک، خدمت، ادب واحترام اور اچھے برتائو میں کمی نہیں آنی چاہیے۔ کیونکہ اصول کی بات یہ ہے کہ ہر اس شخص کی پیروی کی جائے گی جو اللہ کی طرف لانے کی جدوجہد اور کوشش کرتا ہے کیونکہ سب لوگوں کو آخر کار اسی ایک اللہ کی طرف لوٹنا ہے ۔ جہاں وہ ہر ایک کے نامہ اعمال کے مطابق یہ بتادے گا کہ وہ دنیا میں کیا کرتا رہا ہے۔ اسی پر جنت یا جہنم میں داخلے کا حکم دیا جائے گا۔ ان آیات کی وضاحت کے لئے عرض ہے کہ (1) اللہ تعالیٰ کے بعد انسان پر سب سے زیادہ ادب و احترام اور اطاعت و فرماں برداری کا حق والدین کا ہے جنہوں نے سخت مصیبتیں اور دکھ جھیل کر نہایت شفقت و محبت سے اس کی پرورش کی ہے۔ لہذا اولاد میں سے ہر ایک پر یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی بےانتہا اطاعت و فرماں برداری کرے اور ان کو غیر محسوس تکلیف بھی نہ ہونے دے لیکن اگر کسی کے والدین اپنی اولاد کو کسی گناہ یا شرک کرنے پر زور ڈالیں تو صاف انکار کردینا لازمی ہے کیونکہ والدین کی اطاعت و فرماں برداری کے حدود مقرر ہیں۔ شرک میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ (2) تقریباً تمام علما، محدثین اور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت لقمان اللہ کے نبی یا رسول نہیں تھے بلکہ نہایت نیک اور پارسا شخص تھے ان کی عقل و دانش کے پورے عرب میں چرچے عام تھے۔ اور وہ لوگ ان کی حکمت و دانائی سے بہت متاثر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے عقل مند انسان نے بھی یہی بتایا ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنا ظلم عظیم ہے اس سے زیادہ بےادبی، بےانصافی اور گستاخی کوئی نہیں ہے کہ اللہ کی ذات، صفات اور عبادت میں دوسروں کو شریک سمجھا جائے۔ فرمایا کہ وہ حضرت لقمان کو بہت دانش مند شخص سمجھتے ہیں وہ بھی شرک کو بد ترین گناہ سمجھتے ہیں وہ کیسے لوگ ہیں جو دین اسلام کا راستہ روکنے کے لئے اپنے کفر و شرک میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ لوگوں کو اور نئی نسل کے نوجوانوں کو وحدانیت اور شکر کی طرف لانے کے بجائے ان کو ناچ گانے، کھیل کود، قصے کہانیوں اور دین سے غافل کرنے والی چیزوں میں لگا رہے ہیں۔ (3) قرآن کریم میں توحید کی تعلیم اس قدر واضح اور تفصیل سے بیان کی گئی ہے کہ اس کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو پوری روشنی میں نہ آگیا ہو۔ اللہ نے اسی پرزور دیا ہے اور تمام رسول اسی تعلیم کو لے کر آئے تھے۔ گذشتہ امتوں کو جس وجہ سے تباہ و برباد کیا گیا ہے وہ ان کا شرک تھا۔ شرک ایک ایسی خرابی اور برائی ہے جو کسی حال میں معاف نہیں کی جاتی۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی امتوں کو کفر و شرک سے روکتے رہے۔ جب وہ اپنی مشرکانہ حرکتوں سے باز نہیں آئے تو اللہ کا فیصلہ آگیا اور قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹاکر نشان عبرت بنا دیا گیا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ لقمان (علیہ السلام) نبی نہ تھے، ان کا زمانہ قریب داود (علیہ السلام) کے تھا، پس ان کے نبی نہ ہونے کی بنا پر ان کو یہ حکم ہونا ان اشکر اللہ یا بطور الہام کے ہوگا یا اس زمانے کے کسی نبی کی تعلیم کے ذریعہ سے، اور جس فرزند کو انہوں نے نصیحت کی ہے صحیح اور صریح طور پر کہیں نہیں دیکھا کہ ان کے فرزند کا کیا طریقہ تھا، پہلے سے موحد تھے یا اس نصیحت کے بعد موحد ہوئے یا کیا ہوا۔ 5۔ یعنی خود اسی کا نفع ہے کہ اس سے نعمت میں ترقی ہوتی ہے، دنیوی نعمت میں تو باعتبار نفس نعمت کے کبھی اور باعتبار ثواب کے ہمیشہ اور دینی نعمت میں مثل علم وغیرہ کے دونوں طرح پر یعنی علم بھی بڑہتا ہے اور ثواب بھی ملتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور ہر قسم کے چوپائے پیدا کیے اور پھر اسی سے انسان کے رزق کا بندوبست فرمایا۔ جس پر ہر انسان کو اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے اور یہی عقل مندی ہے۔ اب ایک عقل مند شخص کا عقیدہ اور اس کی دانائی پر مبنی نصیحتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ عرب کی تاریخ میں حضرت لقمان ایک جانی پہچانی شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور مؤرّخ لکھتے ہیں کہ یہ نسب کے اعتبار سے خالص عربی تھے۔ بعض مؤرّخین نے انہیں افریقی نسل قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ عربی النسل تھے۔ ان کا قدر چھوٹا، رنگ کالا اور بدن بھاری تھا۔ ظاہری طور پر پرکشش شخصیت نہ ہونے کے باوجود اپنی دانشمندی کی وجہ سے اس زمانے کی پوری دنیا پر ان کے اقوال حوالے کے طور پر پیش کیے جاتے تھے۔ ان کی دانائی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اس وقت ” اللہ “ کی توحید کو سمجھا اور اس کا پرچار کیا جب دنیا کفر و شرک کے اندھیرے میں بھٹک رہی تھی۔ اہل عرب بالخصوص مکہ کے لوگ ان کی دانائی کے بڑے معترف تھے جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے نام پر یہ سورت نازل فرمائی اور ان کے نصائح میں سب سے پہلے یہ نصیحت ذکر فرمائی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحتیں کرتے ہوئے سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا وہ عقیدہ توحید تھا۔ شکر وہ جذبہ ہے جس سے انسان اپنے محسن کو پہنچانتا ہے۔ انسان کا سب سے بڑا محسن اس کا خالق ہے۔ اس لیے، حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار رہنے کی نصیحت فرمائی۔ یہی انسان کے دانشمند ہونے کی پہلی دلیل ہے۔ شکر کے بیشمار فوائد ہیں۔ جن میں چند ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا۔ مزید ملنے کی گارنٹی اور زوال نعمت سے مامون رہنے کی ضمانت ہے۔ اور یہ رب کی بارگاہ میں نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ اس کے مقابلہ میں ناشکری کفر کے مترادف ہے۔ شرک خالق کی سب سے بڑی ناشکری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی عبادت اور دین کے کسی عمل کے بارے میں بیک وقت یہ نہیں فرمایا کہ اس کے کرنے سے تم عذاب سے محفوظ رہو گے اور مزیدنعمتیں پانے کے حقدار بن جاؤ گے۔ صرف شکر ایسا عمل ہے جس کے بارے میں فرمایا کہ اگر شکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں مزید عطا فرمائے گا (ابراہیم : ٧) اس دوہرے انعام کی وجہ سے شیطان نے سرکشی اور بغاوت کی حدود پھلانگتے ہوئے کہا تھا۔ (وَلَاتَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِےْنَ ) [ الاعراف : ١٧]” اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ “ شکروہ جذبہ ہے جس سے انسان کی طبیعت خود بخود اپنے محسن کے ادب واحترام اور اس کی سمع و اطاعت کے لیے آمادہ ہوتی ہے۔ اعتراف احسانات سے ” اللہ “ کی ذات کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور محبت کے جذبات میں اضافہ ہوتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذات باری تعالیٰ کے شکریے کو ہر محسن کے شکر یے کے ساتھ منسلک فرمایا ہے (مَنْ لَمْ یَشْکُرِالنَّاسَ لَمْ یَشْکُرِاللّٰہَ ) ” جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ ” اللہ “ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کا مقصدیہ ہے کہ جو شخص اپنے جیسے انسانوں کے چھوٹے چھوٹے احسانات کا شکریہ نہیں ادا کرتا وہ خالق کائنات کے پہاڑوں جیسے ان گنت احسانات کا شکریہ کس طرح ادا کرسکتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ (اَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ ]” اے اللہ اپنے شکر اور بہترین انداز سے عبادت کرنے کی توفیق نصیب فرما۔ “ ” حضرت ابی سعید مقبری حضرت ابوہریرہ (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ یہ دعا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب سے یاد کی اس کو چھوڑا نہیں۔ (اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی أُعْظِمُ شُکْرَکَ وَأُکْثِرُ ذِکْرَکَ وَأَتَّبِعُ نَصِیحَتَکَ وَأَحْفَظُ وَصِیَّتَکَ ) اے اللہ مجھے سب سے زیادہ شکر گذار، کثرت سے ذکر کرنے، ہدایت کی پیروی کرنے اور نصیحت کی حفاظت کرنے والا بنا دے۔ “ [ رواہ الترمذی : باب فی الاستعاذۃ ] مسائل ١۔ عقیدہ توحید اپنانا اور اس کا پرچار کرنا بہت بڑی دانائی ہے۔ ٢۔ شرک بہت بڑی ناشکری ہے۔ ٣۔ شکر کا فائدہ انسان ہی کو ہوتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کے کفر کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ غنی اور صاحب تعریف ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد اتینا لقمن ۔۔۔۔۔ غنی حمید (12) حضرت لقمان حکیم کی زبانی یہاں عقیدہ توحید ، عقیدہ آخرت اور دوسری اخلاقی تعلیمات یہاں دی گئی ہیں۔ ان کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نبی تھے اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ نبوت کے منصب کے بغیر ایک عبد صالح تھے زیادہ تر مفسرین اس دوسری رائے کی طرف گئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ ایک حبشی غلام تھے۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ نوبہ کے رہنے والے تھے۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے ججوں میں سے ایک جج تھے۔ وہ جو بھی ہوں قرآن نے ہمیں یہ اطلاع دی ہے کہ وہ ایک ایسا شخص تھا جس کو اللہ نے حکمت عطا کی تھی اور اس حکمت اور فلسفے کا خلاصہ یہ تھا کہ اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔ ولقد اتینا ۔۔۔۔ اشکر للہ (31: 12) ” ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کے شکر گزار بنو “۔ چناچہ قرآن کریم ہمیں اس قصے کے ضمن میں یہ ہدایت دیتا ہے کہ تم لوگ اللہ کا شکر ادا کرو اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت اور اطلاع کہ شکر تو شکر کرنے والے کیلئے ایک ذخیرہ ہے۔ اس کے نتیجے میں خود شاکر کو نفع ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تو غنی بادشاہ ہے کوئی شکر کرے یا نہ کرے اس کی بادشاہت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اللہ تو بذات خود محمود اور قابل ستائش ہے ، چاہے کوئی اس کی حمد و ثنا کرے یا نہ کرے ومن یشکر۔۔۔۔۔ غنی حمید (31: 12) ” جو کوئی شکر کرے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بےنیاز ہے “۔ لہٰذا بہت بڑا احمق ہے وہ جو حکمت کے مخالف ہو اور وہ اپنے لیے یہ سرمایہ جمع نہ کرتا ہو۔ اب مسئلہ توحید ایک تقریر کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کے سامنے کی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت حکیم لقمان (علیہ السلام) کے نصائح اس رکوع میں حضرت لقمان (علیہ السلام) کا اور ان کی نصیحتوں کا ذکر ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں، درمیان میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو وصیت کی کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھی طرح پیش آئے۔ حضرت لقمان (علیہ السلام) کا تعارف۔ لقمان (علیہ السلام) کون تھے اور کس زمانہ میں تھے ؟ اس بارے میں اصحاب سیر اور علمائے تفسیر نے کئی باتیں لکھی ہیں یہ سب باتیں اسرائیلیات میں سے ہیں صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ وہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بہن کے بیٹے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ ان کی خالہ کے بیٹے تھے، والد کا نام باعوراء اور عنقا لکھا ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آزر کی اولاد میں سے تھے، ایک ہزار سال تک زندہ رہے اور داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ پایا اور ان سے علم بھی حاصل کیا واقدی سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان جو زمانہ تھا اس میں گزرے ہیں۔ پھر اس میں یہ اختلاف ہے کہ وہ نبی تھے یا نہیں۔ حضرت عکرمہ اور شعبی سے نقل کیا ہے کہ وہ نبی تھے، بعض لوگوں نے انہیں حبشی بتایا ہے، ان کے آزاد اور غلام ہونے میں بھی اختلاف ہے۔ (واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب) ان کا شغل کیا تھا ؟ اس بارے میں بھی متعدد اقوال ہیں : اول یہ کہ وہ نجار تھے یعنی بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ اور دوم یہ کہ گدے اور تکیے بناتے تھے۔ سوم یہ کہ درزی کا کام کرتے تھے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ بکریاں چراتے تھے۔ یہ سب باتیں لکھنے کے بعد صاحب روح المعانی جلد ٢١: ص ٨٣ میں فرماتے ہیں (ولا وثوق لی بشیءٍ من ھذہ الاخبار غیر أنی اختار انہٗ کان رجلاً صالحاً حکیماً ولم یکن نبیًّا) (یعنی ان باتوں میں سے کسی بات پر بھی وثوق نہیں کیا جاسکتا اور میں یہ مانتا ہوں کہ وہ رجل صالح تھے، حکیم تھے اور نبی نہیں تھے) جب نبی نہیں تھے تو ان کو جو خطاب ہے وہ بذریعہ الہام تھا یا ان کے زمانہ کے نبی کے ذریعہ تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے قاضی تھے۔ حضرت لقمان (علیہ السلام) سے بہت سے کلمات حکمت منقول ہیں، مؤطا امام مالک میں ہے کہ حضرت لقمان حکیم سے دریافت کیا گیا کہ یہ جو آپ کو علم اور فضل ملا ہے اس کا کیا سبب ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ تین باتوں پر عمل کرنے سے یہ مقام حاصل ہوا (١) سچی بات کرنا۔ (٢) امانت ادا کرنا۔ (٣) لایعنی بات اور لایعنی کام کو چھوڑ دینا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٤٥) یہ جو فرمایا کہ ہم نے لقمان کو حکمت دی، اس حکمت کی تشریح میں بھی متعدد اقوال ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ حکمت سے عقل و فہم اور سمجھداری مراد ہے۔ اور علامہ راغب اصفہانی (رض) نے فرمایا کہ اس سے موجودات کی معرفت اور اچھے کام کرنا مراد ہے۔ امام رازی (رض) نے فرمایا کہ علم کے مطابق عمل کرنا مراد ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے علم و عمل دونوں کی پختگی مراد ہے۔ (روح المعانی) (اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ ) (کہ تو اللہ کا شکر ادا کر) جو نعمتیں تمہیں دی ہیں ان سب کا اور خاص کر حکمت جو عطا فرمائی ہے اس کا شکر ادا کرو (وَ مَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ) (اور جو شخص اللہ کا شکر ادا کرتا ہے وہ اپنی ہی جان کے لیے شکر کرتا ہے) کیونکہ اس شکر کا نفع خود اسی کو پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ ثواب بھی عطا فرمائے گا اور مزید نعمتیں دے گا، جیسا کہ (لَءِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزْیْدَنَّکُمْ ) میں واضح فرما دیا ہے، (وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ) اور جو شخص ناشکری کرے گا تو اس میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے اور اللہ تعالیٰ کو کسی کے شکر گزار ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ ساری مخلوق سے اور ساری مخلوق کے اعمال سے اور طاعات سے بےنیاز ہے اور وہ حمید ہے تمام خوبیوں والا ہے، اس کی ذات کامل ہے، صفات عالیہ سے متصف ہے، کوئی شخص اس کی حمدو ثناء بیان کرنے میں مشغول ہو یا نہ ہو وہ بہرحال حمید ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ولقد اتینا الخ، یہ توحید پر نقلی دلیل ہے یعنی جس طرح عقل سے بطلان شرک واضح ہے اسی طرح نقل بھی بطلان شرک پر شاہد ہے۔ چناچہ لقمان جو محسنین میں سے تھا اس کو ہم نے حکمت اور دانائی عطا کی تو اس نے اپنے بیٹے کو حکیمانہ پند و نصائح کرتے وقت سب سے پہلے شرک سے بچنے کی نصیحت کی جمہور مفسرین کا قول ہے کہ لقمان ولی تھا نبی نہیں تھا عکرمہ اور شعبی کا قول ہے کہ وہ نبی تھے وعلی ھذا جمہور اھل التاویل انہ کان ولیا ولم یکن نبیا وقال بنبوتہ۔۔۔ والشعبی (قرطبی ج 14 ص 59) ۔ ان اشکر لی سے پہلے قلنا مقدر ہے۔ ہم نے لقمان کو حکمت دی اور کہا اس نعمت عظمی کا شکر ادا کرو جو شخص اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو کفران نعمت کرتا ہے اس کا نقصان بھی اسی ہی کو ہوگا۔ اللہ تعالیٰ تو بےنیاز ہے اور صفات کمال کا مالک ہے اس کا اس سے کچھ نقصان نہیں۔ ثواب الشکر لا یحصل الا للشاکرین اذ ھو تعالیٰ غنی عن الشکر فشکر الشاکر لا ینفعہ وکفر من کفر لایضرہ (بحر ج 7 ص 186) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12۔ اور بلا شبہ ہم نے لقمان کو حکمت اور دانشمندی عطا کی اور اس کو حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہ اور جو شکر بجا لاتا ہے تو وہ اپنے ہی نفع کو اور بھلے کو شکر بجا لاتا ہے اور جو شخص نا سپاسی اور کفران نعمت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بےنیاز اور سب خوبیاں سراہا ہے۔ حکمت یعنی علم و عمل سے نوازا بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے البتہ ان کو حکمت و دانائی سے نوازا گیا تھا انہوں نے بہت سے انبیاء کی شاگردی کی تھی اور عمر بھی بڑی پائی تھی ۔ وہ سیاہ رنگ تھے ، بعض نے کہا وہ غلام تھے پھر آزاد ہوئے بنی اسرائیل میں مفتی تھے چونکہ ان کے عام نصائح توحید کو مشتمل میں اس لئے ان کا یہاں ذکر فرمایا اور چونکہ انبیاء (علیہم السلام) کی صحبت میں رہے تھے اس لئے ان کی باتوں میں آسمانی دین کی جھلک ہے وہ حکیم تھے مرد صالح تھے بنی اسرائیل کو پندرہ نصائح کیا کرتے تھے ، بعض لوگوں نے لقمان کا ایک قول نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں ۔ میں نے چار ہزار نبیوں کی خدمت کی ہے اور ان کے کلام میں سے میں نے آٹھ باتیں محفوظ کی ہیں۔ 1۔ اگر تو نماز میں ہو تو اپنے دل کی حفاظت کر۔ 2۔ اگر کھانے پر ہو تو اپنے حلق کی حفاظت کر یعنی زیادہ نہ کھا۔ 3۔ اور جب تو کسی غیر کے گھر میں ہو تو اپنی آنکھوں کی حفاظت کر۔ 4۔ اور جب تو لوگوں میں ہو تو اپنی زبان کی حفاظت کر۔ 5۔ 6۔ دو چیزوں کو ہمیشہ یاد رکھو۔ 7۔ 8۔ اور دو چیزوں کو بھلادے۔ یادرکھنے والی دو چیزیں یہ ہیں ایک اللہ تعالیٰ کو دوسرے موت کو ہمیشہ یاد کیا کر ۔ بھول جانے والی دو چیزیں یہ ہیں ایک تو جب کسی اپنے یا کسی غیر کے ساتھ احسان کرے تو اس احسان کو بھول جادوسرے جو تیرے ساتھ کوئی برائی کرے تو اسکی برائی کو بھلا دے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ۔ حضرت لقمان غلام تھے حبشی حضرت دائود کے وقت میں اللہ نے ان کو حکمت دی یعنی عقل کی راہ سے دے باتیں کھولیں جو موافق ہوئیں پیغمبروں کے حکم کے۔ 12