Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 8

سورة لقمان

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمۡ جَنّٰتُ النَّعِیۡمِ ۙ﴿۸﴾

Indeed, those who believe and do righteous deeds - for them are the Gardens of Pleasure.

بیشک جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور کام بھی نیک ( مطابق سنت ) کئے ان کے لئے نعمتوں والی جنتیں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Good Destiny of the Believers Allah says: إِنَّ الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ .... Verily, those who believe and do righteous good deeds, for them are Gardens of Delight. Here Allah mentions the destiny of the righteous in the Hereafter, those who believe in Allah and His Messenger and do righteous deeds in accordance with the Laws of Allah. .. لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِيم

اللہ تعالیٰ کے وعدے ٹلتے نہیں نیک لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ جو اللہ پر ایمان لائے رسول کو مانتے رہے شریعت کی ماتحتی میں نیک کام کرتے رہے ان کے لئے جنتیں ہیں جن میں طرح طرح کی نعمتیں لذیذ غذائیں بہترین پوشاکیں عمدہ عمدہ سواریاں پاکیزہ نوارنی چہروں والی بیویاں ہیں ۔ وہاں انہیں اور انکی نعمتوں کو دوام ہے کبھی زوال نہیں ۔ نہ تو یہ مریں گے نہ ان کی نعمتں فناہوں نہ کم ہوں نہ خراب ہوں ۔ یہ حتما اور یقینا ہونے والا ہے کیونکہ اللہ فرماچکاہے اور رب کی باتیں بدلتی نہیں اس کے وعدے ٹلتے نہیں ۔ وہ کریم ہے منان ہے محسن ہے منعم ہے جو چاہے کرسکتا ہے ۔ ہر چیز پر قادر ہے عزیز ہے سب کچھ اس کے قبضے میں ہے حکیم ہے ۔ کوئی کام کوئی بات کوئی فیصلہ خالی از حکمت نہیں ۔ اس نے قرآن کریم کو مومنوں کے لئے کافی اور شافی بنایا ہاں بے ایمانوں کے کانوں میں بوجھ ہیں اور آنکھوں میں اندھیرا ہے ۔ اور آیت میں ہے ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا 82؀ ) 17- الإسراء:82 ) یعنی جو قرآن ہم نے نازل فرمایا ہے وہ مومنوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے اور ظالم تو نقصان میں ہی بڑھتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۔۔ : لہو الحدیث کے خریدار بدنصیبوں اور ان کی جزا کے ذکر کے بعد ایمان اور عمل صالح والے خوش نصیبوں کا ذکر فرمایا کہ ان کے لیے نعمت کے باغات ہیں، جن میں نعمت ہی نعمت ہوگی، کسی قسم کی زحمت یا تکلیف یا رنج و غم نہیں ہوگا، جب کہ دنیا کا کوئی باغ یا کوئی نعمت ایسی نہیں جس کے ساتھ کوئی زحمت یا رنج و غم نہ ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ جَنّٰتُ النَّعِيْمِ۝ ٨ۙ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

البتہ جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم پر ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے عیش کی جنتیں ہیں جن کی نعمتیں ختم نہ ہوں گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10 Instead of saying 'There are blessings of Paradise (Gardens) for them," it has been said, there are blissful Gardens for them." In the first case, it would have meant this: "They will enjoy the blessings but the Gardens will not belong to them." In the second case, it automatically becomes evident that the whole Gardens will be handed over to them, and they will take advantage of their blessings as an owner does of his own possession, and not like the one who is allowed to use something without giving him ownership rights over it."

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :10 یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لئے جنت کی نعمتیں ہیں ، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں ۔ اگر پہلی بات فرمائی جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ ان نعمتوں سے لطف اندوز تو ضرور ہوں گے مگر وہ جنتیں ان کی اپنی نہ ہوں گی ۔ اس کے بجائے جب یہ فرمایا گیا کہ ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں ، تو اس سے خود بہ خود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوری پوری جنتیں ان کے حوالہ کر دی جائیں گی اور وہ ان نعمتوں سے اس طرح مستفید ہوں گے جس طرح ایک مالک اپنی چیز سے مستفید ہوتا ہے ، نہ کہ اس طرح جیسے کسی کو حقوق ملکیت دیے بغیر محض ایک چیز سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے دیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:8) جنت النعیم۔ مضاف مضاف الیہ۔ نعمت و راحت کی جنتیں اصل میں جنتوں کی نعمتیں اور راحتیں تھا۔ کیونکہ جنت جگہ ہی نعمت و راحت کی ہے مبالغہ کے لئے الٹ دیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ” عَذَابٌ مُّھِیْنٌ“ پانے والوں کے بعد ” جَنّٰتُ النَّعِیْمِ “ کا انعام پانے والوں کا ذکر خیر۔ فہم القرآن میں کئی مقامات پر یہ وضاحت ہوچکی ہے کہ قرآن مجید کا یہ اسلوب ہے کہ اکثر مقام پر جنّت اور جہنم کا بیک مقام ذکر کرتا ہے تاکہ قارئ قرآن کے سامنے بیک وقت دونوں قسم کے انجام آجائیں اور وہ غور کرے کہ مجھے کس قسم کے اعمال اختیار کرنے چاہئیں تاکہ میں دنیا وآخرت کی ذلّت سے بچ جاؤں اور اپنے رب کے انعامات کا حقدار ہوجاؤں ایسے لوگوں کو خوشخبری سنائی جا رہی ہے جو اپنے رب پر بلا شرکت غیرے ایمان لائے اور اس کے بتلائے ہوئے نیک اعمال کرتے رہے۔ وہ نعمتوں والی جنت میں داخل ہوں گے اور اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ ان کے ساتھ ” اللہ “ کا سچاوعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا ہر وعدہ پورا کرنے پر غالب اور اس کے ہر حکم اور فیصلے میں اَن گنت حکمتیں ہوتی ہیں۔ جنت کے حسن و جمال کی ایک جھلک : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْجَنَّۃُ مَا بِنَاؤُہَا قَالَ لَبِنَۃٌ مِنْ فِضَّۃٍ وَلَبِنَۃٌ مِنْ ذَہَبٍ وَمِلاَطُہَا الْمِسْکُ الأَذْفَرُ وَحَصْبَاؤُہَا اللُّؤْلُؤُ وَالْیَاقُوتُ وَتُرْبَتُہَا الزَّعْفَرَانُ مَنْ یَّدْخُلْہَا یَنْعَمْ وَلاَ یَبْأَسْ وَیُخَلَّدْ وَلاَ یَمُوْتُ لاَ تَبْلَی ثِیَابُہُمْ وَلاَ یَفْنٰی شَبَابُہُمْ ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ الجنۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنّت اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس کی ایک اینٹ چاندی کی اور دوسری سونے کی ہے اور اس کا گارا خوشبودار کستوری کا ہے۔ اس کے کنکر لؤلؤ اور یاقوت کے ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے جو اس میں داخل ہوگا وہ خوش و خرم رہے گا۔ اسے کوئی تکلیف نہ ہوگی وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اسے موت نہیں آئے گی نہ اس کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ ہی وہ بوڑھا ہوگا۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے) ۔ “ مسائل ١۔ صاحب ایمان اور صالح اعمال کرنے والوں کے لیے نعمتوں والی جنت ہوگی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ حکیم اور غالب ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بےخار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ : ٢٣) ٥۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ : ٣١) ٦۔ مومنوں کے ساتھ جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں چار قسم کی نہریں ہوں گی۔ ( محمد : ١٠) ٧۔ جنت میں نیچی نگاہ رکھنے والی حوریں ہوں گی جنہیں کسی جن وانس نے چھوا تک نہیں ہوگا۔ ( الرحمن : ٥٦) ٨۔ جنت میں محبت کرنے والی ہم عمر حوریں ہوں گی۔ ( الواقعہ : ٣٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قرآن کریم میں جہاں جہاں اہل ایمان کی جزاء کا ذکر ہے وہاں ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر ضرور کیا گیا ہے اس لیے کہ اسلامی نظریہ حیات کا مزاج یہ نہیں ہے کہ ایمان محض منجمد ، پوشیدہ ، معطل اور مجرد تصور ہی ہو بلکہ ایمان کو ایک زندہ ، فعال اور متحرک حقیقت ہونا چاہئے۔ جب وہ دل میں پیدا ہو ، قرار پکڑے پورا ہو ، تو متحرک ہو کر عملی شکل اختیار کرے۔ وہ حرکت اور طرز عمل کی شکل اختیار کرے اور عالم واقعہ میں اس کے آثار اپنی ترجمانی کریں۔ اور یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس مومن کے دل میں کیا ہے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو عملی شکل دی۔ لھم جنت النعیم (31: 8) ” ان کے لیے نعمت بھری جنتیں ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے “۔ یہ باغات اور یہ دوام اللہ کے عہد کے مطابق ان کو دیا جا رہا ہے۔ وعد اللہ حقا (31: 9) ” یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے “۔ اللہ کی مہربانی اس حد تک آگے بڑھ گئی کہ اس نے اپنے اوپر اپنے بندوں کے ساتھ احسان کرنا فرض کرلیا۔ یہ ان کی نیکی اور ان کے نیک اعمال کے بدلے میں حالانکہ اللہ تو غنی ہے۔ اسے کسی کے عمل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وھو العزیز الحکیم (31: 9) ” وہ تو زبردست و حکیم ہے “۔ وہ اپنے عہد کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ مخلوقات کو اس نے بڑی حکمت سے بنایا ہے۔ وعدہ بھی حکمت سے کرتا ہے اور پورا بھی حکمت سے کرتا ہے۔ اس بات کی دلیل کیا ہے کہ اللہ عزیر و حکیم ہے اور اس سے قبل جو کچھ کہا اس کا ثبوت کیا ہے ؟ یہ عظیم کائنات جس کی تخلیق کا دعویٰ کوئی انسان اور کوئی قوت نہیں کرسکتی ماسوائے اللہ کے۔ یہ کائنات بہت ہی عظیم ہے اور اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اس کا نظام نہایت مستحکم اور دقیق ہے۔ اس کی ساخت نہایت ہی متوازن ہے۔ جوں جوں اس کائنات کے بارے میں زیادہ معلومات ہوتی ہیں اور انسان غور کرتا جاتا ہے ، عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان کا تصور بھی رک جاتا ہے اور یہ عظیم کائنات ایک ایسی دلیل اور ایک ایسی شہادت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جس سے کوئی منہ نہیں موڑ سکتا۔ جو بھی ذرا غور کرے ، ذات باری کے تسلیم کرنے کے سوا اس کے لیے چارہ کار ہی نہیں ہے اور جو لوگ پھر بھی اللہ وحدہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں وہ ھق کے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ان الذین الخ، یہ محسنین کے لیے بشارت اخروی ہے یعنی جو لوگ اللہ کی خالص توحید پر ایمان لائے اور پورے اخلاص کے ساتھ نیک عمل کیے ان کیلئے بیشمار نعمتوں کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کا نہایت ہی پختہ وعدہ ہے جو لامحالہ پورا ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8۔ بلا شبہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کے پابند رہے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان کے لئے نعمت کے باغ اور عیش کی جنتیں ہیں۔