Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 18

سورة الأحزاب

قَدۡ یَعۡلَمُ اللّٰہُ الۡمُعَوِّقِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ الۡقَآئِلِیۡنَ لِاِخۡوَانِہِمۡ ہَلُمَّ اِلَیۡنَا ۚ وَ لَا یَاۡتُوۡنَ الۡبَاۡسَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿ۙ۱۸﴾

Already Allah knows the hinderers among you and those [hypocrites] who say to their brothers, "Come to us," and do not go to battle, except for a few,

اللہ تعالٰی تم میں سے انہیں ( بخوبی ) جانتا ہے جو دوسروں کو روکتے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ ۔ اور کبھی کبھی ہی لڑائی میں آجاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells, قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ مِنكُمْ وَالْقَايِلِينَ لاِِخْوَانِهِمْ ... Allah already knows those among you who keep back (men) from fighting (in Allah's cause), and those who say to their brethren, Allah tells us that His knowledge encompasses those who sought to tell others not to go out and who said to their brethren, meaning their companions, friend and acquaintances, ... هَلُمَّ إِلَيْنَا ... Come here towards us, meaning, come to where we are in the shade and enjoying fruits. But in spite of that, ... وَلاَ يَأْتُونَ الْبَأْسَ إِلاَّ قَلِيلً

جہاد سے منہ موڑنے والے ایمان سے خالی لوگ اللہ تعالیٰ اپنے محیط علم سے انہیں خوب جانتا ہے جو دوسروں کو بھی جہاد سے روکتے ہیں ۔ اپنے ہم صحبتوں سے یار دوستوں سے کنبے قبیلے والوں سے کہتے ہیں کہ آؤ تم بھی ہمارے ساتھ رہو اپنے گھروں کو اپنے آرام کو اپنی زمین کو اپنے بیوی بچوں کو نہ چھوڑو ۔ خود بھی جہاد میں آتے نہیں یہ اور بات ہے کہ کسی کسی وقت منہ دکھاجائیں اور نام لکھوا جائیں ۔ یہ بڑے بخیل ہیں نہ ان سے تمہیں کوئی مدد پہنچے نہ ان کے دل میں تمہاری ہمدردی نہ مال غنیمت میں تمہارے حصے پر یہ خوش ۔ خوف کے وقت تو ان نامردوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑجاتے ہیں ۔ آنکھیں چھاچھ پانی ہوجاتی ہے مایوسانہ نگاہوں سے تکتے لگتے ہیں ۔ لیکن خوف دور ہوا کہ انہوں نے لمبی لمبی زبانیں نکال ڈالیں اور بڑھے چڑھے دعوے کرنے لگے اور شجاعت ومرومی کا دم بھرنے لگے ۔ اور مال غنیمت پر بےطرح گرنے لگے ۔ ہمیں دو ہمیں دو کا غل مچا دیتے ہیں ۔ ہم آپ کے ساتھی ہیں ۔ ہم نے جنگی خدمات انجام دی ہیں ہمارا حصہ ہے ۔ اور جنگ کے وقت صورتیں بھی نہیں دکھاتے بھاگتوں کے آگے اور لڑتوں کے پیچھے رہاکرتے ہیں دونوں عیب جس میں جمع ہوں اس جیسا بےخیر انسان اور کون ہوگا ؟ امن کے وقت عیاری بد خلقی بد زبانی اور لڑائی کے وقت نامردی روباہ بازی اور زنانہ پن ۔ لڑائی کے وقت حائضہ عورتوں کی طرح الگ اور یکسو اور مال لینے کے وقت گدھوں کی طرح ڈھینچو ڈھینچو ۔ اللہ فرماتا ہے بات یہ ہے کہ ان کے دل شروع سے ہی ایمان سے خالی ہیں ۔ اس لئے ان کے اعمال بھی اکارت ہیں ۔ اللہ پر یہ آسان ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

181یہ کہنے والے منافقین تھے، جو اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے سے روکتے تھے۔ 182کیونکہ وہ موت کے خوف سے پیچھے ہی رہتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٣] یعنی نہ صرف یہ کہ خود جہاد سے فرار کے بہانے سوچتے رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس پیغمبر کا اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑو۔ یہ ایمان اور صداقت کے کس چکر میں پڑے ہو۔ اور خواہ مخواہ اپنی زندگی کو تلخ بنا رکھا ہے۔ مصائب اور خطرات میں پڑنے کی بجائے وہی امن و عافیت کی راہ اختیار کرو جو ہم نے اختیار کر رکھی ہے۔ اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ کبھی کبھار محض ظاہری وضع داری اور دکھاوے کے لئے میدان عمل میں آکھڑے ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الْمُعَوِّقِيْنَ مِنْكُمْ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کو جانتا ہے جو دوسروں کو بھی جہاد سے روکتے ہیں اور اپنے یار دوست لوگوں اور کنبے قبیلے کے لوگوں سے کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو خطرات میں ڈالنے کے بجائے ہمارے پاس چلے آؤ اور ہماری طرح آرام سے گھروں میں رہو۔ مراد اس سے منافقین ہیں۔ وَلَا يَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِيْلًا : یعنی کبھی کبھار دکھاوے اور نام لکھوانے کے لیے چلے آتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَدْ يَعْلَمُ اللہُ الْمُعَوِّقِيْنَ مِنْكُمْ وَالْقَاۗىِٕلِيْنَ لِاِخْوَانِہِمْ ہَلُمَّ اِلَيْنَا۝ ٠ ۚ وَلَا يَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِيْلًا۝ ١ ٨ۙ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا عوق العَائِقُ : الصارف عمّا يراد من خير، ومنه : عَوَائِقُ الدّهر، يقال : عَاقَهُ وعَوَّقَهُ واعْتَاقَهُ. قال تعالی: قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ [ الأحزاب/ 18] ، أي : المثبّطين الصّارفین عن طریق الخیر، ورجل عَوْقٌ وعَوْقَةٌ: يَعُوقُ النّاسَ عن الخیر، ويَعُوقُ : اسم صنم . ( ع و ق ) العائق وہ جو لوگوں کو خیر اور بھلائی سے روکنے والا ہو لوگوں کو ان کے مقاصد سے روک کر اپنی طرف متوجہ کرلیں اور عاقۃ عوقۃ واعتا قہ اس نے اسے روک دیا قرآن پاک میں ہے : ۔ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الْمُعَوِّقِينَ [ الأحزاب/ 18] خدا تم میں سے ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو لوگوں کو منع کرتے ہیں ۔ یعنی جو لوگوں کو بھلے کاموں سے روکتے اور منع کرتے ہیں رجل عوق وعوقۃ جو لوگوں کو بھلے کاموں سے روکے ۔ ويَعُوقُ قبیلہ بنی کنانہ اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے ( ایک بت کا نام ( تھا ) قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ هلم هَلُمَّ دعاء إلى الشیء، وفيه قولان : أحدهما : أنّ أصله هَا لُمَّ «1» . من : قولهم : لممت الشیء . أي : أصلحته، فحذف ألفها فقیل : هلمّ. وقیل أصله هل أمّ «2» ، كأنه قيل : هل لک في كذا أمّه . أي : قصده، فركّبا . قال عزّ وجلّ : وَالْقائِلِينَ لِإِخْوانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنا [ الأحزاب/ 18] ، فمنهم من تركه علی حالته في التّثنية والجمع، وبه ورد القرآن، ومنهم من قال : هَلُمَّا، وهَلُمُّوا، وهَلُمِّي، وهَلْمُمْنَ «3» . ( ھ ل م ) ھلم ( اسم فعل ) کے معنی کسی چیز کی طرف بلانے کے ہیں بعض کے نزدیک اس کی اصل ھا لم ہے ۔ اور یہ لممت الشئیء سے مشتق ہے جس کے معنی اصلاح کرنے کے ہیں ھا کا الفحزف ہونے کے بعد ھلم بن گیا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اس کی اصل ھل الم ہے گویا یہ اصل میں ھل لک فی کذا امہ بمعنی قصد کا مخفف ہے قرآن پاک میں ہے : وَالْقائِلِينَ لِإِخْوانِهِمْ هَلُمَّ إِلَيْنا [ الأحزاب/ 18] اور بھائیو سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ ۔ بعض اسے فعل غیرمتصرف مانتے ہیں اور تثنیہ جمع ( نیز تذکیر وتانیث میں اسے ایک ہی حالت پر رہنے دیتے ہیں اور قرآن پاک بھی اسی کے مطابق نازل ہوا ہے اور بعض فعل متصرف مانتے ہیں اور آخر میں ضما ئر کا الحاق کرتے ہیں جیسے علما ھلمو ا ھلمی ھلمن أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ ان منافقین میں سے ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو دوسروں کو لڑائی میں جانے سے منع کرتے ہیں اور جو منافقین اپنے ساتھیوں سے کہتے ہیں کہ تم مدینہ میں ہمارے پاس آجاؤ اور یہ عبداللہ بن ابی بن سلول، جد بن قیس معتب بن قشیر تھے اور ان کی تو یہ حالت ہے کہ لڑائی میں دکھاوے کے لیے آتے ہیں اور اگر آتے بھی ہیں تو تمہارے حق میں بخیلی لیے ہوئے بری نیت کے ساتھ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ { قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْکُمْ } ” اللہ خوب جانتا ہے تم میں سے ان لوگوں کو جو روکنے والے ہیں “ جیسا کہ قبل ازیں وضاحت کی جا چکی ہے کہ مدینہ کی دو اطراف تو قدرتی رکاوٹوں کی وجہ سے محفوظ تھیں ‘ جبکہ عقب میں بنو قریظہ کی گڑھیاں تھیں اور جب تک انہوں نے معاہدے کی اعلانیہ خلاف ورزی نہیں کی تھی تب تک ان کی طرف سے بھی بظاہر کوئی خطرہ نہیں تھا۔ چناچہ مسلمانوں کی اکثریت حملہ آور لشکر کے سامنے خندق کی اندرونی جانب مورچہ بند تھی اور جنگ کا اصل محاذ وہی مقام تھا۔ منافقین نہ صرف خود اس محاذ کی طرف جانے سے کتراتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی روکتے تھے کہ اس طرف مت جائو۔ { وَالْقَآئِلِیْنَ لِاِخْوَانِہِمْ ہَلُمَّ اِلَیْنَاج } ” اور اپنے بھائیوں سے یہ کہنے والے ہیں کہ ہماری طرف آ جائو ! “ وہ اپنے دوسرے بھائی بندوں کو بھی ناصحانہ انداز میں سمجھاتے تھے کہ ہمارے پاس آ جائو اور ہماری طرح تم بھی اپنے گھروں میں چھپے رہو اور محاذ کی طرف مت جائو۔ { وَلَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًا } ” اور وہ نہیں آتے جنگ کی طرف مگر بہت تھوڑی دیر کے لیے۔ “ اگر وہ دکھاوے کے لیے محاذ جنگ پر آتے بھی تھے تو حیلے بہانوں سے واپس جانے کی فکر میں رہتے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29 That is, "Abandon this Prophet and do not become involved in dangers and afflictions only for the sake of the Faith and Truth. Live a life of ease and comfort as we do."

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :29 یعنی چھوڑو اس پیغمبر کا ساتھ ۔ کہاں دین و ایمان اور حق و صداقت کے چکر میں پڑے ہو؟ اپنے آپ کو خطرے اور مصائب میں مبتلا کرنے کے بجائے وہی عافیت کوشی کی پالیسی اختیار کرو جو ہم نے اختیار کر رکھی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: یہ ایک منافق کی طرف اشارہ ہے جو اپنے گھر میں کھانے پینے میں مشغول تھا اور اس کا مخلص مسلمان بھائی جو جنگ میں جانے کے لئے تیار تھا، اس سے کہہ رہا تھا کہ اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کیوں جارہے ہو؟ یہاں میرے پاس آؤ اور اطمینان سے میرے ساتھ کھانے میں شریک ہو۔ (ابن جریر طبری)۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٨ تا ٢٢۔ اوپر ذکر تھا کہ جنگ اجزاب کے قوت جب مسلمانوں کا مقام مدینہ منورہ کے باہر تھا مسلمان اس وقت بڑی تکلیف میں تھے جاڑے کا موسم ٹھنڈی ہوا میں میدان کا رہنا خندق کا کھودنا بھوک کی جدا تکلیف ایسی حالت میں یہودنے تو بڑے خیر خواہ بن کر عبداللہ بن ابی اور اسکے ساتھی ان منافقوں نے جو ظاہر میں مسلمان اور آنحضرت کے لشکر میں تھے ورپردہ یہ پیغام کہلا بھیجا کہ تم آنحضرت کے ساتھ ہو کر ہرگز نہ لڑوان تھوڑے سے مسلمانوں کی کسی طرح یہ قدرت نہیں ہے کہ ابوسفیان قریش کے سردار کا مقابلہ کرسکیں اور منافقوں نے بڑے خیر خواہ بن کر اس طرح بہکانے کی باتیں مسلمانوں سے خفیہ کہنی شروع کردیں کہ لشکر میں رہنے کا اب موقع نہیں چلو اپنے اپنے گھروں کو پلٹ چلیں ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کا حال اپنے رسول اور مسلمانوں کو ظاہر کردیا اور فرمایا کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے اپنی جان اپنا مال بچانے کے لیے یہ لوگ تھوڑی سی دیر کے لیے لڑائی میں شریک ہوئے ہیں اس لیے یہ خود بھی لشکر اسلام کے ساتھ دینے میں دریغ کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی طرح طرح سے بہکار ہے ہیں اور رسول کا ساتھ دینے سے ان کی ہمت پست کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اس کو یہ سب حال معلوم ہے پھر مسلمانوں کی منافقوں کی نشانی بتلادی کہ جو لڑائی کے وقت ایسی نامردی کی باتیں کریں کہ ان کے چہروں پر مرونی چاگئی ہے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی پتھر اکررہ گئیں اور پھر تکلیف کے جانے کے بعد لوٹ کا ما تقسیم ہونے کے وقت بہت بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے اور اپنی بہادری جتلاتے ہیں وہی منافق ہیں کیوں کہ جو لوگ خالص مسلمان ہیں اور محض آخرت کے اجر کی غرض سے لڑتے ہیں نہ وہ دشمن کے غلبہ کے وقت گھبرا کر اس طرح نامردی کی باتیں کرتے ہیں نہ ان کو لوٹ کے مال کی کچھ پر واہ ہے نہ وہ دنیا میں کسی کو اپنی بہادری جتلانا چاہتے ہیں ان کا تو جو معاملہ ہے خالص اللہ کے ساتھ ہے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں اجردے گا یہ اوپری دل سے جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ ہیں ان کو اللہ کی درگاہ سے اجر کی توقع نہیں رکھنا چاہیے ایسے اوپرے دل کے سب کام اللہ تعالیٰ کے ہاں اکارت ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو لوگوں کے دلوں کا حال معلوم ہے اس لیے اوپرے دل کے عملوں کا حال جان لینا اور ان کو بلا اجر ٹھہا دینا اس کے نزدیک کچھ مشکل نہیں البتہ انسان کے نزدیک یہ بات مشکل اور اس کے اختیار سے خارج ہے پھر آجائیں گی پھر فرمایا کہ اگر وہ فوجیں پھر کر آجائیں تو یہ لوگ آرزو کرتے کہ ہم اس وقت مسلمانوں کے لشکر میں نہ ہوتے بلکہ کہیں اور پر پرے گاؤں میں ہوتے اور دور سے ہی اس لڑائی کی خبر سن لیتے تو اچھا ہوتا پھر فرمایا اگر فوجیں پھر کر آجاویں اور لڑائی کا موقع پیش آجائے تو لشکر اسلام کو ایسے لوگوں کے موجود ہونے کے کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا کیوں کہ ان لوگوں کے دل میں عقبی کے اجر کا یقین نہیں ہے اس واسطے یہ لوگ برائے نام لشکر اسلام کا کچھ ساتھ دے کر لڑائی میں زیادہ دیر تک ہرگز نہ ٹھہر سکتے جو لوگ اس لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے بلکہ مدینہ میں رو گئے تھے اب آگے ان کو نصیحت فرمائی کہ جن لوگوں کو عقبیٰ کے اجر کی توقع ہے انہیں ہر حال میں اللہ کے رسول کا ساتھ دنیا اور اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا چاہیے آگے کی آیت میں مسلمانوں کی ثابت قدمی اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا جاننے کا جو ذکر ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق یہ وعدہ وہی ہے جو سورة بقرہ کی آیت ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولمایاتکم مثل الذین خلو من قبلکم میں گزرا کہ کس قدر آزمائش کے بعد ثابت قدم مسلمانوں کا انجام دونوں جہان میں اچھا ہوگا دنیا میں ان کو مدد الٰہی سے فتح مندی حاصل ہوگی اور آزمائش کے وقت صبر کرنے کے اجرم میں انہیں عقبیٰ میں جنت ملے گی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے اس قول کے موافق اس آیت کی تفسیر کا حال یہ ہے کہ ایماندار لوگ نوجوں کو دیکھ کر کچھ گھبرائے نہیں بلکہ انہیں نے یہی کہا کہ اللہ کے وعدہ میں جس آزمائش کا ذکر تھا یہ وہی آزمائش ہے یہ کہہ کر انہوں نے اپنے انجام کو اللہ پر سونپ دیا اور آخر کار فتح اسلام کے وعدہ پر ان کا یقین اور بڑھ گیا اور وہ سمجھ گئے کہ وعدہ کے ایک ٹکڑے کا جب ظہور ہوگیا تو اب دوسرے ٹکڑے کا ظہور بھی ہوگا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے اس آیت کے تین برس کہ بعد مکہ فتح ہوگا اور وہ قریش جو مکہ سے مدینہ پر چڑھ کر آئے ہے خود مکہ میں بھی اسلام کے فرمانبرداربن گئے وہ ابوسفیان جو جنگ اجزاب میں مشرکوں کے لشکر کا سردار تھا فتح مکہ پر اسلام لاتے ہی پھر ان کا گھر وارالامن ٹھہر گیا کہ عام امن سے پہلے جو کوئی ان کے گھر میں چلا گیا اس کو امن مل گیا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل کام کری گے اور کتنے جب میں داخل ہونے کے قا ابل اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں بد ٹھہر چکے تھے اس لڑائی میں ان سے مرضی الٰہی کے مخالف کام ظہر میں آئے اور جو لوگ علم الٰہی میں نیک قرار پاچکے تھے ان سے مرضی الٰہی کے موافق کام ظہر میں آئے اشحۃ علیکم اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ لشکر اسلام کی مدد میں خود بھی تنگدل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی سکھاتے ہیں اشحۃ علی الخیر اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے مستحق کو لوٹ کے مال میں سے حصہ دیا جاوے تو اپنی تنگ دل دلی سے یہ لوگ چاہتے ہیں کہ سارا مال یہی سمیٹ لیویں اور کسی کو کچھ نہ دیا جاوے ‘ شاہ صاحب نے ” ہے پڑتے ہیں مال پر “ جو ترجمہ کیا ہے اس کا یہی مطلب ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:18) المعوقین۔ اسم فاعل۔ جمع مذکر۔ منصوب المعوق واحد۔ روکنے والے۔ منع کرنے والے۔ العائق وہ جو لوگوں کو خیر اور بھلائی سے روکنے والا ہو لوگوں کو ان کے مقاصد سے روک کر اپنی طرف متوجہ کرنے والا۔ عاق یعوق (باب نصر) عوق وعیق مصدر۔ عاق کردینا ۔ کسی کو جائداد سے محروم کردینا۔ یعوق ایک بت کا نام ہے جو حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا معبود تھا۔ وقالوا لا تذرون الہتکم ولا تذرن وداولا سواعا ولا یغوث ویعوق ونسرا (71:23) اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا۔ ہلم الینا۔ ہماری طرف آجاؤ۔ ہلم اسم فعل بمعنی امر ہے۔ واحد۔ تثنیہ جمع سب کے لئے آتا ہے۔ یہاں بطور فعل لازم آیا ہے لیکن بطور متعدی بھی استعمال ہوا ہے مثلاً قل ہلم شھداء کم الذین یشھدون ان اللہ حرم ھذا۔ (6:15) کہو اپنے گواہوں کو لاؤ جو بتائیں کہ خدا نے یہ چیزیں حرام کی ہیں۔ لا یاتون الباس (یہ لوگ) لڑائی میں نہیں جاتے۔ ضمیر فاعل جمع مذکر غائب المعوقین والقائلین کے لئے ہے۔ قلیلا : ای لزمان قلیل۔ تھوڑے وقت کے لئے۔ بہت کم۔ برائے نام ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ان سے مرد یہود ہیں جو مدینہ کے منافقین سے کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ چھوڑ کر ہمارے ہاں چلے آئو، محفوظ ہو گے، یا ان سے مراد بھی کچھ دوسری قسم کے منافقین ہیں جو مسلمانوں کے حوصلے پست کرتے اور ان سے کہتے تھے کہ کس چکر میں پڑے ہو بھلا ابو سفیان اور غطفان کے لشکر سے بچ سکو گے ؟ آئو ہمارے ساتھ مل جائو اور ہماری عافیت کوشی کی پالیسی اختیار کرلو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 18 تا 20 المعوقین : روکنے والے القائلین : کہنے ولے ھلم : آؤ ہماری طرف الباس : سختی۔ تنگی اشحۃ : کنجوسی کرنا تدور : گھماتی ہیں یغشی : وہ چھا جاتا ہے احبط : اس نے ضائع کردیا یودوا : وہ پسند کرتے ہیں تشریح : آیت نمبر 18 تا 20 غزوہ خندق کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جنہوں نے دل کی گہرائیوں اور پختہ یقین کے ساتھ ایما قبول نہ کیا تھا بلکہ ان کے دل منافقت اور کفر سے بھرے ہوئے تھے اور انہوں نے بعض دنیاوی مصلحتوں کی وجہ سے مسلمانوں جیسا انداز اختیار کرکے ان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی ان بری حرکتوں سے خبردار رہنے کے لئے اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے اندر کچھ ایسے لوگ گھس آئے ہیں جو ایسی باتیں کر رہے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے بالکل خلاف ہیں ۔ وہ مسلمانوں کو جہاد سے روکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم بھی اہل ایمان کا ساتھ چھوڑ کر ان کے ساتھ آجائو ۔ ان کا یہ حال ہے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اور ایثار قربانی کے موقع پر وہ انتہائی کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ان کی مفاد پرستی کا یہ حال ہے کہ اول تو مشکلات، پریشانیوں اور جنگ میں شرکت سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر ان کو یہ معلوم ہوجائے کہ جنگ میں بہت سا مال غنیمت ہاتھ لگ گیا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے چرب زبانی اور لالچ کا مظاہرہ کرنے چلے آئیں گے۔ فرمایا کہ اگر کسی طرف سے دشمن کا حملہ ہوجائے گا اور دشمنوں سے مقابلہ کا واسطہ پڑجائے گا تو خوف اور دہشت کے مارے وہ اس طرح آنکھیں پھرا پھرا کر باتیں کرینگے جیسے ان پر موت کی غشی طاری ہوگئی ہے۔ اور اگر فتح و کامیابی حاصل ہوجائے تو وہ اپنی قینچی جیسی زبانوں کو چلا کر بلندو بانگ دعوے کریں گے کہ اگر ہم ساتھ نہ ہوتے تو یہ فتح و کامیابی حاصل نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کے دلوں میں ایمان نام کی کوئی چیز نہیں ہے اس لئے ان کے کسی عمل کی کوئی قیمت اور زبان نہیں ہے۔ اللہ نے ایسے لوگوں کے کئے ہوئے تمام اچھے اعمال غارت کردیئے ہیں اور ان کی دکھاوے کی نمازیں اور روزے قیامت میں کسی کام نہ آئیں گے اور نہ ان کو نجات دی جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کی بزدلی اور بےوقوفی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر چہ کفارومشرکین کی اتحادی فوجیں میدان جنگ سے بھاگ چکی ہیں لیکن ان کا اس کا یقین ہی نہیں آتا۔ فرمایا کہ ان کی بزدلی کا یہ حال ہے کہا گروہ فوجیں پلٹ کر حملہ کردیں تو ان کی تمنایہ ہوگی کہ وہ شہر میں ٹھہرنے کی بجائے دور کے کسی گاؤں دیہات میں چلے جائیں اور آنے جانے والوں سے پوچھتے رہیں کہ حالات کس رخ پر جارہے ہیں ؟ مقصد یہ ہے کہ وہ کسی طرح جنگ میں شریک نہ ہوں اور گھر بیٹھے ان کو ہر طرح کے فائدے پہنچ جائیں۔ اور فتح و نصرت کی حالت میں اپنی لمبی لمبی زبانوں کے لے کر آجائیں گے اور مال غنیمت زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی کوشش کریں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قد یعلم اللہ المعوقین ۔۔۔۔۔۔ ما قتلوا الا قلیلا (18 – 20) ” “۔ جو لڑائی میں حصہ لیتے بھی ہیں تو بس نام گنا نے کو ، جو تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں۔ خطرے کا وقت آجائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہے ، مگر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے تمہارے استقبال کو آجاتے ہیں۔ یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائے ، اس لیے اللہ نے ان کے سارے اعمال ضائع کر دئیے۔ اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔ یہ سمجھ رہے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں ہیں۔ اور اگر وہ پھر حملہ آور ہوجائیں تو ان کا جی چاہتا ہے کہ اس موقع پر کہیں صحرا میں بدوؤں کے درمیان جا بیٹھیں اور وہیں سے تمہارے حالات پوچھتے رہیں۔ تاہم اگر یہ تمہارے درمیان رہے بھی تو لڑائی میں کم ہی حصہ لیں گے “۔ آغاز یوں ہوتا ہے کہ اللہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو لوگوں کو جنگ سے روکتے ہیں اور اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ جو اپنے بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ جنگ میں شرکت نہ کریں ، گھروں میں بیٹھے رہیں۔ ولا یاتون الباس الا قلیلا (33: 18) ” “۔ یہ جہاد میں محض دکھا دے اور نام داخل کرنے کے لیے شریک ہوتے ہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ معلوم لوگ ہیں اور ان کی مکاریاں بھی معلوم ہیں۔ اب اللہ اپنے معجزانہ قلم ان کے اور ان جیسے لوگوں کے خدوخال سے بڑی خوبصورتی سے رقم فرماتے ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ قد یعلم اللہ الخ، یہ ان منافقین پر زجر ہے جو لوگوں کو جہاد سے روکتے اور ان کی ہمت شکنی کرتے تھے۔ اے منافقین ! اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں سے جہاد میں جانے والوں کو جہاد سے روکتے ہیں۔ اور اپنے بھائی بند منافقوں سے کہتے ہیں، ہمارے پاس آجاؤ، اور اپنے گھروں میں، باغوں میں اور درختوں کے سایوں میں آرام سے بیٹھو۔ اس شدت کی گرمی میں جنگ کر کے اپنا آرام کیوں غارت کرتے ہو۔ اور وہ خود بھی بہت شاذ و نادر انتہائی مجبوری کی صورت میں شریک جہاد ہوتے ہیں۔ اشحۃ علیکم اور جب بامر مجبور جہاد میں شریک ہوتے تو اپنے جسم و جاں اور مال کا انتہائی بخل کرتے ہیں۔ کیا مجال کہ دشمن سے مقابل ہو کر لڑیں اور اپنے جسم پر آنچ آنے دیں اور کوڑی ہی جہاد میں خرچ کر ڈالیں۔ اشحۃ علیکم ای بانفسہم و ابدانہم (کبیر ج 6 ص 778) ۔ ای بخلاء علیکم بالنفقۃ والنصرۃ (روح ج 21 ص 164) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

18۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ تم میں سے ان مانعین کو خوب جانتا ہے جو لوگوں کو جہاد کی شرکت سے روکتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے یوں کہتے ہیں کہ ہمارے پاس آ جائو اور یہ لوگ جنگ میں نہیں آتے مگر بہت ہی کم اور کبھی کبھی یعنی کچھ لوگ تم میں سے وہ بھی ہیں جو دوسروں کو جنگ کی شرکت سے روکتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو خوب جانتا ہے وہ اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں ، بھائی فرمایا نسب کے اعتبار سے وطن کے اعتبار سے اور ان کی بزدلی اور بخل کا یہ عالم ہے کہ لڑائی میں نہیں آتے مگر بہت ہی تھوڑا ، یعنی تھوڑی دیر کیلئے آجاتے ہیں کہ لوگ دیکھ لیں اور ان کو بھی غنیمت کا مستحق سمجھیں اور یہ تھوڑی دیر کو بھی کبھی آ نکلتے ہیں ۔ کہتے ہیں یہود نے منافقین کو کہا تھا کہ تم کیوں ابو سفیان کے ہاتھوں قتل ہونا چاہتے ہو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ چھوڑ کر ہمارے پاس چلے آئو اگر ابوسفیان قابو پا گیا تو اب کے سب کو ختم کردے گا ۔ صاحب زاد المسیر فرماتے ہیں کہ ایک شخص اہل اسلام کے لشکر میں سے اپنے گھر گیا اس نے دیکھا کہ اس کے بھائی کے آگے شراب رکھی ہے اس نے کہا بھائی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو جنگ میں گھرے ہوئے ہیں اور تو شراب و کباب کے شغل میں ہے۔ اس نے کہا بھائی تو بھی میرے پاس آ جا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ چھوڑ دے اس مسلمان کی واپسی سے پہلے یہ آیتیں نازل ہوئیں آگے اس قسم کے بزدلوں اور مریضوں کی تفصیل ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔