Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 19

سورة الأحزاب

اَشِحَّۃً عَلَیۡکُمۡ ۚ ۖ فَاِذَا جَآءَ الۡخَوۡفُ رَاَیۡتَہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ تَدُوۡرُ اَعۡیُنُہُمۡ کَالَّذِیۡ یُغۡشٰی عَلَیۡہِ مِنَ الۡمَوۡتِ ۚ فَاِذَا ذَہَبَ الۡخَوۡفُ سَلَقُوۡکُمۡ بِاَلۡسِنَۃٍ حِدَادٍ اَشِحَّۃً عَلَی الۡخَیۡرِ ؕ اُولٰٓئِکَ لَمۡ یُؤۡمِنُوۡا فَاَحۡبَطَ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا ﴿۱۹﴾

Indisposed toward you. And when fear comes, you see them looking at you, their eyes revolving like one being overcome by death. But when fear departs, they lash you with sharp tongues, indisposed toward [any] good. Those have not believed, so Allah has rendered their deeds worthless, and ever is that, for Allah , easy.

تمہاری مدد میں ( پورے ) بخیل ہیں پھر جب خوف و دہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی آنکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیں بناتے ہیں مال کے بڑے ہی حریص ہیں یہ ایمان لائے ہی نہیں ہیں اللہ تعالٰی نے ان کے تمام اعمال نابود کر دئیے ہیں اور اللہ تعالٰی پر یہ بہت ہی آسان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ... they come not to the battle except a little, being miserly towards you. i.e., `they are mean and have no love or mercy towards you.' As-Suddi said: أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ (Being miserly towards you). means, with the booty. ... فَإِذَا جَاء الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ... Then when fear comes, you will see them looking to you, their eyes revolving like one over whom hovers death; means, because of the intensity of their fear and terror; this is how afraid these cowards are of fighting. ... فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ ... but when the fear departs, they will smite you with sharp tongues, means, when security is restored, they will speak eloquently and nicely, claiming that they were the bravest and most chivalrous of men, but they are lying. Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said: سَلَقُوكُم (they will smite you) means, "they will start to talk about you." Qatadah said: "But when it comes to the booty, the most miserly of people and the worst to have to share the booty with are those who say, `Give us, give us, we were there with you,' but during battle they were the most cowardly and the most likely to fail to support the truth." ... أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ... are miserly towards good, meaning that there is no goodness in them, for they have combined cowardice with lies and little good. Allah says: ... أُوْلَيِكَ لَمْ يُوْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا Such have not believed. Therefore Allah makes their deeds fruitless and that is ever easy for Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

191یعنی تمہارے ساتھ خندق کھود کر تم سے تعاون کرنے میں یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں یا تمہارے ساتھ مل کر لڑنے میں بخیل ہیں۔ 192یہ ان کی بزدلی اور پست ہمتی کی کیفیت کا بیان ہے۔ 193یعنی اپنی شجاعت و مردانگی کی ڈینگیں مارتے ہیں، جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں، یا غنیمت کی تقسیم کے وقت اپنی زبان کی تیزی و طراری سے لوگوں کو مثاثر کرکے زیادہ سے زیادہ مال حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں، غنیمت کی تقسیم کے وقت یہ سب سے زیادہ بخیل اور سب سے زیادہ بڑا حصہ لینے والے اور لڑائی کے وقت سب سے زیادہ بزدل اور ساتھیوں کو بےیارو مددگار چھوڑنے والے ہیں۔ 193یا دوسرا مفہوم ہے کہ خیر کا جذبہ بھی ان کے اندر نہیں ہے۔ یعنی مذکورہ خرابیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ خیر اور بھلائی سے بھی وہ محروم ہیں۔ 194یعنی دل سے بلکہ یہ منافق ہیں، کیونکہ ان کے دل کفر وعناد سے بھرے ہوئے ہیں۔ 195ان کے اعمال کا برباد کردینا، یا ان کا نفاق۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٤] منافقوں کی بزدلی کا منظر :۔ ان کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ کوئی خطرے یا دشمن کے حملے کی بات بھی سن لیں تو ان پر پہلے سے موت کی غشی طاری ہونے لگتی ہے۔ یہ حال ہو تو وہ مسلمانوں کا ساتھ دے بھی کیسے سکتے ہیں ؟ [ ٢٥] أشحّۃ (مادہ ش ح ح) شحیح ایسے شخص کو کہتے ہیں جو مال سمیٹنے میں تو انتہا درجہ کا حریص ہو مگر خرچ کرنے میں سخت بخیل ہو۔ یعنی جب جنگ میں تمہارا ساتھ دینے کا معاملہ ہو تو اس معاملہ میں وہ انتہائی بخل سے کام لیتے ہیں۔ مگر جب جنگ ختم ہوجائے میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہے & اموال غنیمت کی تقسیم کا موقعہ ہو تو پھر یہ لوگ مال پر مرے جاتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ یہ سارا مال ہمارے ہی ہاتھ آجائے پھر وہ طرح طرح کی اپنی وفاداریاں اور ہمدردیاں جتلانے لگتے ہیں تاکہ اموال غنیمت میں اپنا استحقاق ثابت کرسکیں۔ [ ٢٦] یعنی ان کے دلوں میں کفر ہی کفر چھپا ہے اور اعمال کی اخروی جزا کے لئے ایمان شرط اول ہے جو ان میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ لہذا ان کے سب اعمال رائیگاں جائیں گے اور جو بداعمالیاں ہیں ان پر ضرور گرفت ہوگی اور ان کی سب سے بڑی بدعملی نفاق ہے۔ [ ٢٧] یعنی اپنے اعمال کی جزا ثابت کرنے کے لئے ان لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں کہ ان کے پاس کچھ زور اور قوت ہے کہ اللہ کے لئے ان کے اعمال کو برباد کرنا کچھ قابل التفات یا مشکل ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ښ فَاِذَا جَاۗءَ الْخَوْفُ ۔۔ : ”ۙاَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ښ فَاِذَا جَاۗءَ الْخَوْفُ “ ” شَحِیْحٌ“ کی جمع ہے، سخت حرص اور بخل کے مجموعے کو ” اَلشُّحُّ “ کہتے ہیں۔ ” حداد “ جمع ہے ” حَدِیْدٌ“ کی، تیز۔ ” سَلَقُوْكُمْ “ ” سَلَقَ یَسْلُقُ “ (ن) ” سَلَقَہُ بالسَّوْطِ “ یعنی اس نے اسے کوڑے سے اتنا مارا کہ کھال اتار دی۔ ” سَلَقَ اللَّحْمَ عَنِ الْعَظْمِ “ ہڈی سے گوشت اتار دیا۔ جب کوئی کسی کو بہت سخت بات کہے تو کہتے ہیں : ” سَلَقَہُ بالْکَلَامِ ۔ “ ” الْخَــيْرِ “ سے مراد مال غنیمت ہے۔ مولانا محمد جونا گڑھی (رض) نے اس مقام پر تفسیر ابن کثیر کا جو اردو ترجمہ کیا ہے وہ بہت پر لطف ہے، لکھتے ہیں : ” یہ بڑے بخیل ہیں، نہ ان سے تمہیں کوئی مدد پہنچے، نہ ان کے دل میں تمہاری کوئی ہمددری، نہ مال غنیمت میں تمہارے حصے پر یہ خوش۔ خوف کے وقت تو ان نامردوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں، آنکھیں چھاچھ پانی ہوجاتی ہیں، مایوسانہ نگاہوں سے تکنے لگتے ہیں، لیکن خوف دور ہوا کہ انھوں نے لمبی لمبی زبانیں نکال ڈالیں اور بڑھے چڑھے دعوے کرنے لگے اور شجاعت و مردمی کا دم بھرنے لگے اور مال غنیمت پر بےطرح گرنے لگے۔ ہمیں دو ، ہمیں دو کا غل مچا دیتے ہیں، ہم آپ کے ساتھی ہیں، ہم نے جنگی خدمات انجام دی ہیں، ہمارا حصہ ہے اور جنگ کے وقت صورتیں بھی نہیں دکھاتے، بھاگتوں کے آگے اور لڑتوں کے پیچھے رہا کرتے ہیں۔ دونوں عیب جس میں جمع ہوں اس جیسا بےخیر انسان کون ہوگا ؟ امن کے وقت عیاری، بد خلقی، بد زبانی اور لڑائی کے وقت نامردی، روباہ بازی اور زنانہ پن۔ لڑائی کے وقت حائضہ عورتوں کی طرح الگ اور یکسو اور مال لینے کے وقت گدھوں کی طرح ڈھینچو ڈھینچو۔ اللہ فرماتا ہے، بات یہ ہے کہ ان کے دل شروع ہی سے ایمان سے خالی ہیں، اس لیے ان کے اعمال بھی اکارت ہیں۔ اللہ پر یہ آسان ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَشِحَّۃً عَلَيْكُمْ۝ ٠ ۚۖ فَاِذَا جَاۗءَ الْخَوْفُ رَاَيْتَہُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ تَدُوْرُ اَعْيُنُہُمْ كَالَّذِيْ يُغْشٰى عَلَيْہِ مِنَ الْمَوْتِ۝ ٠ ۚ فَاِذَا ذَہَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِـنَۃٍ حِدَادٍ اَشِحَّۃً عَلَي الْخَــيْرِ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَمْ يُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللہُ اَعْمَالَہُمْ۝ ٠ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرًا۝ ١٩ شح الشُّحُّ : بخل مع حرص، وذلک فيما کان عادة . قال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، وقال سبحانه : وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ [ الحشر/ 9] . يقال : رجل شَحِيحٌ ، وقوم أَشِحَّةٌ ، قال تعالی: أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ [ الأحزاب/ 19] ، أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ [ الأحزاب/ 19] . وخطیب شَحْشَح : ماض في خطبته، من قولهم : شَحْشَحَ البعیر في هديره «2» . وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں ۔ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ [ الحشر/ 9] اور جو شخص حرص نفس سے بچالیا گیا ۔ رجل شحیح بخیل آدمی قوم اشحۃ بخیل لوگ قرآن میں ہے : أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ [ الأحزاب/ 19] مال میں بخل کریں ۔ ( یہ اس لئے کہ تمہارے بارے میں بخل کرتے ہیں ۔ خطیب شحیح خوش بیان ار بلیغ ۔ لیکچرار ۔ یہ شحشح البعیر فی ھدیرہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے مستی میں آواز کو پھرانے کے ہیں ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں دَّائرَةُ : عبارة عن الخطّ المحیط، يقال : دَارَ يدور دورانا، ثم عبّر بها عن المحادثة . والدّوّاريّ : الدّهر الدّائر بالإنسان من حيث إنه يُدَوِّرُ بالإنسان، ولذلک قال الشاعر : والدّهر بالإنسان دوّاريّ والدّورة والدّائرة في المکروه، كما يقال : دولة في المحبوب، وقوله تعالی: نَخْشى أَنْ تُصِيبَنا دائِرَةٌ [ المائدة/ 52] ، والدّوّار : صنم کانوا يطوفون حوله . والدّاريّ : المنسوب إلى الدّار، وخصّص بالعطّار تخصیص الهالكيّ بالقین قال صلّى اللہ عليه وسلم : «مثل الجلیس الصّالح کمثل الدّاريّ» ويقال للازم الدّار : داريّ. وقوله تعالی: وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوائِرَ عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ التوبة/ 98] ، أي : يحيط بهم السّوء إحاطة الدّائرة بمن فيها، فلا سبیل لهم إلى الانفکاک منه بوجه . وقوله تعالی: إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة/ 282] ، أي : تتداولونها وتتعاطونها من غير تأجيل . الدائرۃ ۔ خط محیط ( سرکل ) کو کہتے ہیں یہ دار یدور دورانا سے ہے جس کے منعی چکر لگاتا کے ہیں پھر مصیبت گردش زمانہ کو بھی دائرۃ کہہ دیا جاتا ہے اسی مناسبت سے زمانہ کو ۔۔۔ الدواوی کہتے کیونکہ اس کی کرو ستین بھی انسان پر گھومتی رہتی ہیں چناچہ شاعر نے کہا ہے کہ زمانہ انسان کو گھما رہا ہے ۔ اور الدورۃ والدائرہ کا لفظ مکروہ چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اس کے بالمقابل جو محبوب چیز گھوم کر آئے اسے دولۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ نَخْشى أَنْ تُصِيبَنا دائِرَةٌ [ المائدة/ 52] ہمیں خوف ہے کہ ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے ( دائرۃ کی جمع دو ئر آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوائِرَ عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ التوبة/ 98] کہ وہ تمہارے حق میں مصیبتوں کے منتظر ہیں انہی پر بری مصیبت واقع ہو یعنی تباہی اور بربادی انہیں ہر طرف سے اس طرح گھیرلے جیسا کہ کوئی شخص دائرہ کے اندر ہوتا ہے ۔ اور ان کے لئے اس بر بادی سے نکلنے کی کوئی صورت باقی نہ رہے الدوار ۔ ایک بت کا نام ہے جس کے گرد اگر د لوگ طواف کیا کرتے تھے ۔ الداری ۔ یہ الدار کی طرح منسوب ہے مگر عطار ( عطر فروش ) کے ساتھ مخصوص ہوچکا ہے جیسا کہ الھال کی کا لفظ قین یعنی لوہار پر خاص کر بولا جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ نیک صحبتیں کی مثال عطار کی سی ہے ۔ اور جو شخص گھر کے اندر ہی جم کر بیٹھا رہے ۔ باہر نہ نکلے اسے بھی داری کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة/ 282] ہاں اگر سودا دست بدست ہو جو تم آپس میں دیتے ہو ۔ یعنی نقدار اور ہاتھوں ہاتھ لین دین ہو اور اس میں کسی قسم کی تا خیر نہ ہو ۔ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا [ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ غشي غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ سلق السَّلْقُ : بسط بقهر، إمّا بالید أو باللسان، والتَّسَلُّقُ علی الحائط منه، قال : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] ، يقال : سَلَقَ امرأته : إذا بسطها فجامعها، قال مسیلمة : ( وإن شئت سلقناک ... وإن شئت علی أربع) والسَّلْقُ : أن تدخل إحدی عروتي الجوالق في الأخری، والسَّلِيقَةُ : خبز مرقّق، وجمعها سَلَائِقُ ، والسَّلِيقَةُ أيضا : الطّبيعة المتباینة، والسَّلْقُ : المطمئنّ من الأرض . ( س ل ق ) السلق قہر و غلبہ کے ساتھ دست یا زبان درازی کرنا کے ہیں اور اسی سے تسلق علی الحائط ہے جس کے معنی دیوار پھاندنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں زبان درازی کریں گے ۔ محاورہ ہے : سَلَقَ امرأته : اپنی عورت کو زبردستی لٹا کر اس کے ساتھ جماع کیا ۔ (235) ( وإن شئت سلقناک ... وإن شئت علی أربع ) چاہو تو چت لیٹ جاؤ اور چاہو تو پٹ لیٹو ۔ اور سلق کے معنی شلیتے کے ایک حلقے کو دوسرے میں داخل کرنے کے ہیں اور میدہ کی روٹی کو سلیقۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع سلائق آتی ہے اور سلیقۃ بمعنی طبیعت بھی آتا ہے اور سلق کے معنی ہموار اور عمدہ زمین کے ہیں ۔ لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔ حدَّ الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا : جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه : - إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض . - وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه «2» . - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه «3» . - وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . والحدید معروف، قال عزّ وجل : وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید/ 25] ، وحَدَّدْتُ السکّين : رقّقت حدّه، وأَحْدَدْتُهُ : جعلت له حدّا، ثم يقال لكلّ ما دقّ في نفسه من حيث الخلقة أو من حيث المعنی کالبصر والبصیرة حَدِيد، فيقال : هو حدید النظر، وحدید الفهم، قال عزّ وجل : فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ويقال : لسان حدید، نحو : لسان صارم، وماض، وذلک إذا کان يؤثّر تأثير الحدید، قال تعالی: سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] ، ولتصوّر المنع سمّي البوّاب حَدَّاداً ، وقیل : رجل محدود : ممنوع الرزق والحظّ. ( ح د د ) الحد جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے حدید لوہا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ [ الحدید/ 25] اور لوہا پیدا کیا اس میں ( اسلحہ جنگ کے لحاظ سے ) خطر بھی شدید ہے ۔ حددت السکین میں نے چھری کی دھار تیز کی ۔ اور احد دتہ اس کے لئے حد مقرر کردی پھر ہر وہ چیز جو بلحاظ خلقت یا بلحاظ معنی کے ایک ہو ۔ جیسے نگاہ اور بصیرۃ اس کی صفت میں الحدید کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ جیسے ھو حدید النظر ( وہ تیزنظر ہے ) ھو حدید الفھم ( وہ تیز فہم ہے) قرآن میں ہے :۔ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور جب زبان بلحاظ تیزی کے لوہے کی سی تاثیر رکھتی ہو تو صادم وماض کی طرح اس کی صفت حدید بھی آجاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے باری میں تیز زبانی کریں ۔ اور روکنے کے معنی کے پیش نظر دربان کو حداد کہا جاتا ہے اور بدنصیب اور حجردم آدمی کو رجل محدود کہہ دیتے ہیں ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، وقال في موضع آخر : أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ نُسارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْراتِ [ المؤمنون/ 55- 56] ، وقوله تعالی: إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، أي : مالا . وقال بعض العلماء : لا يقال للمال خير حتی يكون کثيرا، ومن مکان طيّب، كما روي أنّ عليّا رضي اللہ عنه دخل علی مولی له فقال : ألا أوصي يا أمير المؤمنین ؟ قال : لا، لأنّ اللہ تعالیٰ قال : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ولیس لک مال کثير «1» ، وعلی هذا قوله : وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات/ 8] ، أي : المال الکثير وقال بعض العلماء : إنما سمّي المال هاهنا خيرا تنبيها علی معنی لطیف، وهو أنّ الذي يحسن الوصية به ما کان مجموعا من المال من وجه محمود، وعلی هذا قوله : قُلْ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوالِدَيْنِ [ البقرة/ 215] ، وقال : وَما تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ [ البقرة/ 273] ، وقوله : فَكاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْراً [ النور/ 33] ، قيل : عنی به مالا من جهتهم «2» ، وقیل : إن علمتم أنّ عتقهم يعود عليكم وعليهم بنفع، أي : ثواب «3» . ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ نُسارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْراتِ [ المؤمنون/ 55- 56] کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم جود نیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ( تو اس سے ) ان کی بھلائی میں جلد کرتے ہیں ۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ مال پر خیر کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب وہ مال کثیر ہو اور حلال طریق سے جمع کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ حضرت علی اپنے ایک غلام کے پاس گئے تو اس نے دریافت کیا اے امیرالمومنین : میں کچھ وصیت نہ کر جاؤں تو حضرت علی نے فرمایا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وصیت کیلئے فرمایا ہے ۔ اور خیر مال کثیر کو کہا جاتا ہے ، ، چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات/ 8] وہ تو مال کی سخت محبت کرنے والا ہے ۔ میں بھی خیر کے معنی مال کثیر کے ہیں ۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ آیت کریمہ میں مال کو خیر کہنے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وصیت صرف اس مال میں بہتر ہے جو محمود طریق سے جمع کیا گیا ہو اس معنی میں فرمایا : ۔ قُلْ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوالِدَيْنِ [ البقرة/ 215] کہدو ( جو چاہو ہو خرچ کرو لیکن ) جو مال خرچ کرنا چاہو وہ دو درجہ بدرجہ اہل استحقاق میں ) مال باپ کو وما تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ [ البقرة/ 197] اور جو نیک کام کرو گے وہ خدا کو معلوم ہوجائیگا ۔ اور آیت کریمہ : فَكاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْراً [ النور/ 33] اگر تم ان میں ( صلاحیت اور ) نیکی پاؤ تو ان سے مکاتب کرلو ۔ میں بعض نے خیرا سے مال مراد لیا ہے یعنی اگر تمہیں معلوم ہو کہ ان کے پاس مال ہے أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ حبط وحَبْط العمل علی أضرب : أحدها : أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] والثاني : أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي : «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» . والثالث : أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان . وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات . ( ح ب ط ) الحبط حبط عمل کی تین صورتیں ہیں ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔ ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔ يسير واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے محمد ! جب دشمن کا خوف کا کوئی موقع آجاتا ہے جیسے خندق تو آپ ان کو دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں چکرائی جاتی ہیں جیسے کسی پر موت کی بےہوشی اور نزع کا عالم طاری ہورہا ہو۔ پھر جب دشمن کا خوف دور ہوجاتا ہے تو تمہیں طعنے دینے لگتے ہیں اللہ کی راہ میں مال صرف کرنے سے بخل کرنے کے لیے یہ لوگ پہلے ہی سے اپنے ایمان میں سچے نہیں ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی سب نیکیوں کو برائی سے تبدیل کر رکھا ہے اور ان کی نیکیوں کو اکارت کردینا اللہ کے نزدیک بالکل آسان ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩{ اَشِحَّۃً عَلَیْکُمْ } ” (اے مسلمانو ! ) تمہارا ساتھ دینے میں یہ سخت بخیل ہیں۔ “ { فَاِذَا جَآئَ الْخَوْفُ رَاَیْتَہُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ } ” تو جب خطرہ پیش آجاتا ہے تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ ان کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف اس طرح تاک رہے ہوتے ہیں “ { تَدُوْرُ اَعْیُنُہُمْ کَالَّذِیْ یُغْشٰی عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ } ” کہ ان کی آنکھیں گردش کرتی ہیں اس شخص کی (آنکھوں کی) طرح جس پر موت کی غشی طاری ہو۔ “ اللہ کے راستے میں جہاد کی خبر سنتے ہی انہیں اپنی جان کے لالے پڑجاتے ہیں اور خطرات کے اندیشوں کی وجہ سے ان پر نزع کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ { فَاِذَا ذَہَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْکُمْ بِاَلْسِنَۃٍ حِدَادٍ } ” پھر جب خطرہ جاتا رہتا ہے تو وہ تم لوگوں پر چڑھ دوڑتے ہیں اپنی تیز زبانوں سے “ سَلَقَ یَسْلُقُ سَلْقًا کے معنی ہیں کسی پر ہاتھ یا زبان سے حملہ آور ہونا۔ فقرے کا لغوی مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ آور ہوتے ہیں اپنی لوہے کی زبانوں سے۔ یہ گویا محاورہ کا اسلوب ہے ‘ جیسے اردو میں ” قینچی کی طرح زبان کا چلنا “ ایک محاورہ ہے۔ خطرہ گزر جانے کے بعد ان کی زبانیں آپ لوگوں کے سامنے قینچی کی طرح چلنے لگ جاتی ہیں اور یہ اپنے ایمان کا اظہار اور مسلمانوں پر تنقید کرنے لگ جاتے ہیں۔ { اَشِحَّۃً عَلَی الْخَیْرِ } ” لالچ کرتے ہوئے مال پر۔ “ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ سارا مال غنیمت انہیں ہی مل جائے۔ { اُولٰٓئِکَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اللّٰہُ اَعْمَالَہُمْ } ” یہ وہ لوگ ہیں جو حقیقت میں ایمان نہیں لائے تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کردیے ۔ “ { وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا } ” اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔ “ یہ لوگ زبان سے ایمان کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن دل سے ہرگز ایمان نہیں لائے۔ انہوں نے اس حالت میں جو بھی نیک اعمال کیے ہیں ان کی انہیں کوئی جزا نہیں ملے گی۔ ظاہر ہے یہ لوگ ایمان کے دعوے کے ساتھ نمازیں بھی پڑھتے تھے اور وہ بھی مسجد نبوی کے اندر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتدا میں۔ لیکن ان کے یہ سارے اعمال ضائع ہوچکے ہیں ‘ کیونکہ منافقت کی کیفیت میں کیا گیا نیکی اور بھلائی کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 "Who are ever reluctant...: "Who are not at all willing to spend their energies, their time, their wealth, etc. in any way in which the true believers are expending whatever they have. Not to speak of exerting themselves and braving the dangers, they do not want to cooperate with the believers in anything with an open heart. "

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :30 یعنی اپنی محنتیں ، اپنے اوقات ، اپنی فکر ، اپنے مال ، غرض کوئی چیز بھی وہ اس راہ میں صرف کرنے کے لیے بخوشی تیار نہیں ہیں جس میں مومنین صادقین اپنا سب کچھ جھونکے دے رہے ہیں ۔ جان کھپانا اور خطرے انگیز کرنا تو بڑی چیز ہے ، وہ کسی کام میں بھی کھلے دل سے اہل ایمان کا ساتھ نہیں دینا چاہتے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :31 لغت کے اعتبار سے اس آیت کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ لڑائی سے جب تم کامیاب پلٹے ہو تو وہ بڑے تپاک سے تمہارا استقبال کرتے ہیں اور چرب زبانی سے کام لے کر یہ دھونس جمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بھی بڑے مومن ہیں اور ہم نے بھی اس کام کو فروغ دینے میں حصہ لیا ہے ، لہٰذا ہم بھی مال غنیمت کے حق دار ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر فتح نصیب ہوتی ہے تو مال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر یہ لوگ زبان کی بڑی تیزی دکھاتے ہیں اور بڑھ بڑھ کر مطالبے کرتے ہیں کہ لاؤ ہمارا حصہ ، ہم نے بھی خدمات انجام دی ہیں ، سب کچھ تم ہی لوگ نہ لوٹ لے جاؤ ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :32 یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد جو نمازیں انہوں نے پڑھیں ، جو روزے رکھے ، جو زکوٰتیں دیں ، اور بظاہر جو نیک کام بھی کیے ان سب کو اللہ تعالیٰ کالعدم قرار دے دیگا اور ان کا کوئی اجر انہیں نہ دے گا ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں فیصلہ اعمال کی ظاہری شکل پر نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ اس ظاہر کی تہہ میں ایمان اور خلوص ہے یا نہیں ۔ جب یہ چیز سرے سے ان کے اندر موجود ہی نہیں ہے تو یہ دکھاوے کے اعمال سراسر بے معنی ہیں ۔ اس مقام پر یہ امر گہری توجہ کا طالب ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اقرار کرتے تھے ، نمازیں پڑھتے تھے ، روزے رکھتے تھے ، زکوٰۃ بھی دیتے تھے ، اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے دوسرے نیک کاموں میں بھی شریک ہوتے تھے ، ان کے بارے میں صاف صاف فیصلہ دے دیا گیا ہے کہ یہ سرے سے ایمان لائے ہی نہیں ۔ اور یہ فیصلہ صرف اس بنیاد پر دیا گیا ہے کہ کفر اور اسلام کی کشمکش میں جب کڑی آزمائش کا وقت آیا تو انہوں نے دوغلے پن کا ثبوت دیا ، دین کے مفاد یا اپنے مفاد کو ترجیح دی اور اسلام کی حفاظت کے لیے جان ، مال اور محنت صَرف کرنے میں دریغ کیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ فیصلے کا اصل مدار یہ ظاہری اعمال نہیں ہیں ، بلکہ یہ سوال ہے کہ آدمی کی وفاداریاں کس طرف ہیں ۔ جہاں خدا اور اس کے دین سے وفاداری نہیں ہے وہاں اقرار ایمان اور عبادات اور دوسری نیکیوں کی کوئی قیمت نہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :33 یعنی ان کے اعمال کوئی وزن اور قیمت نہیں رکھتے کہ ان کو ضائع کر دینا اللہ کو گراں گزرے ۔ اور یہ لوگ کوئی زور بھی نہیں رکھتے کہ ان کے اعمال کو ضائع کرنا اس کے لیے دشوار ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: یعنی اگر نام کرنے کو کچھ دیر کے لیے لڑائی میں حصہ لینے آتے بھی ہیں تو اس لالچ میں آتے ہیں کہ اگر لڑائی میں مسلمانوں کو مال غنیمت ملا تو وہ بھی اپنا حصہ لگائیں۔ 18: یعنی بڑی چرب زبانی سے مال غنیمت کا حصہ مسلمانوں سے مانگتے ہیں

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:19) اشحۃ۔ حریص لوگ ، کسی چیز پر توٹ پڑنے والے۔ شحیح کی جمع جس کے معنی حریص کے ہیں۔ الشح (اسم) کے معنی حرص کے ساتھ بخل کے بھی ہیں جو انسان کی عادت میں داخل ہوچکا ہے۔ ومن یوق شح نفسہ (59:9) اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا۔ اشحۃ علیکم تمہارے معاملہ میں پرلے درجے کے کنجوس اور بخیل ہیں اشحۃ یاتون کی ضمیر فاعل سے بوجہ حال ہونے کے یا المعوقین سے حال ہونے کے منصوب ہے۔ ینظرون مضارع جمع مذکر غائب۔ وہ دیکھتے ہیں۔ یہ رأیتھم سے حال ہے۔ یعنی تو دیکھے گا ان کو (اس حالت میں کہ) وہ دیکھ رہے ہونگے تمہاری طرف تدورا علینھم یہ حال ہے ضمیر فاعل ینظرون سے۔ اس حالت میں کہ ان کی آنکھیں چکرا رہی تھی۔ دار یدور یدور دور (نصر) گھومنا۔ پھرنا تدور وہ پھرتی ہے وہ چکر کھاتی ہے۔ مضارع واحد مؤنث حاضر۔ مطلب یہ کہ ان کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں اس حالت میں کہ ان کو آنکھیں چکرا رہی ہوں گی۔ کالذی۔ ک تشبیہ کے لئے الذی اسم موصول ۔ اسم شخص کی مانند۔ یغشی علیہ فعل مضارع مجہول واحد مذکر غائب غشی وغشیات (سمع) غشی علیہ بیہوش ہونا۔ غشی ولا ہونا ۔ (حالت مفعولی) یغشی علیہ من الموت۔ جس پر موت کی غشی طاری ہو۔ سلقوکم : سلقوا۔ ماضی جمع مذکرغائب سلق (باب نصر) مصدر۔ سلق البیض او البقل۔ انڈے یا سبزی کو آگ ہر پانی میں جوش دینا یا ابالنا۔ سلقہ بالکلامبات سے کسی کو ایذا پہنچانا۔ السنۃ حداد۔ موصوف و صفت السنۃ جمع لسان کی زبانیں۔ حداد حدید کی جمع۔ تیز۔ (صفت۔ حددت السکین میں نے چھری کی دھار تیز کی ، ہر وہ چیز جو بلحاظ غلقت یا بلحاظ معنی کے ایک ہو۔ جیسے نگاہ اور بصیرت اس کی صفت میں الحدید کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ کہتے ہیں ھو حدید النظر وہ تیز نظر ہے اور ھو حدید انفسہم وہ تیز فہم ہے اور قرآن مجید میں ہے فبصرک الیوم حدید۔ (50:22) تو آج تیری نگاہ تیز ہے اور جب زبان بلحاظ تیزی کے لوہے کی سی تاثیر رکھتی ہو تو اس کی صفت حدید بھی آجاتی ہے ۔ السنۃ حداد تیز زبان۔ پس سلقوکم بالسنۃ حداد کا ترجمہ ہوا :۔ تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں تیز زبانی کرتے ہیں۔ یعنی سوء کلام سے آپ کو ایذاء پہنچاتے ہیں۔ اشحۃ اوپر ملاحظہ ہو۔ اشحۃ علی الخیر مال غنیمت (یا محض مال) کے معاملہ میں سخت حریص و بخیل ۔ اشحۃ ضمیر فاعل سلوکم سے حال ہے اور بدیں وجہ منصوب الخیر بمعنی مال : ارشاد ہے وانہ لحب الخیر لشدید (100:8) اور وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے۔ فاحبط ف ترتیب کا ہے احبط ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ احباط (افعال) مصدر۔ اس نے ضائع کر دئیے۔ اس نے اکارت کر دئیے۔ بےکار کر دئیے۔ یسیرا۔ آسان ، سہل۔ کان کی خبر کی وجہ سے منصوب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی اپنی جانیں تو کیا پیش کریں گے تم سے اپنے مال، اوقات، محنتیں غرض ہر چیز بچا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ 1 یعنی خطرہ کا وقت گزر جاتا ہے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوتی ہے اور مال غنیمت ہاتھ آتا ہے۔2 یعنی بہادری کے بلند بانگ دعوے کرنے لگتے ہیں اور چوب زبانی سے تمہارا منہ بند کرنا چاہتے ہیں کہ تم ان کی اس روش پر اعتراض نہ کرسکو جو خطرہ کے وقت انہوں نے اختیار کی تھی۔ ( ابن کثیر وغیرہ) 3 یا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ نے ان کے اعمال کے باطل ( کالعدم) ہونے کو ظاہر کردیا کیونکہ ان کے اعمال نیک تھے ہی نہیں کہ انہیں باطل کیا جاتا ہے۔ ( شوکانی) 4 یا انکے اعمال کے باطل ہونے کو ظاہر کرنا آسان ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی آنے میں بری نیت یہ ہوتی ہے کہ سب غنیمت مسلمانوں کو نہ مل جاوے، برائے نام شریک ہونے سے استحقاق غنیمت کا دعوی تو کسی درجہ میں کرسکیں گے۔ 1۔ یعنی مال غنیمت کے لئے الخراش باتیں کرتے ہیں کہ کیوں ہم شریک نہ تھے ؟ ہماری ہی پشتی سے تم کو یہ فتح میسر نہیں ہوئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافق کی ایک اور بری عادت اور اس کے بزدل ہونے کی انتہاء۔ درحقیقت منافق ابن الوقت اور مفاد کا بندہ ہوتا ہے اس لیے کسی اچھے کام پر مال خرچ کرنے کا حوصلہ نہیں پاتا۔ نہ صرف خود بخیل ہوتا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی بخل پر آمادہ کرتا ہے۔ یہی حالت منافقین مدینہ کی تھی۔ وہ اپنے رشتہ دار مخلص مسلمانوں کو جہاد پر مال خرچ کرنے سے روکتے تھے۔ مال کی محبت کی وجہ سے انسان بخل کرتا ہے اور بخیل آدمی دوسروں کی نسبت موت سے زیادہ ڈرتا ہے یہی حال منافقین کا تھا۔ جن کے بارے میں صحابہ (رض) کو فرمایا گیا کہ ان کی طرف دیکھو اور غور کرو کہ جب تم انہیں جہاد کے لیے کہتے ہو تو ان کی آنکھیں پھٹ جاتی ہیں جیسے مرنے والا ایک ہی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب جہاد کا خوف جاتا رہتا ہے تو پھر ان کی زبانیں قینچی کی طرح چلتی ہیں اور یہ مال غنیمت لینے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر مطالبہ کرتے ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اشحۃ علیکم (33: 19) ” “۔ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بغض اور دشمنی بھری ہوئی ہے۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں بھی بخیل ہیں ، مالی امداد میں بھی بخیل ہیں اور اچھی نیت اور اچھی خواہشات میں بھی بخیل ہیں۔ فاذا جآء الخوف ۔۔۔۔۔ علیہ من لموت (33: 19) ” “۔ یہ ایک واضح تصویر ہے جس کے خدوخال واضح ہیں ، جس کے اعضاء متحرک ہیں ، لیکن ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ یہ تصویر مضحکہ انگیز ہے۔ اس سے ان کی بزدلی ٹپکتی پڑتی ہے۔ اس قدر بزدل کہ مارے خوف کے ان کے اعضاء کانپ رہے ہیں اور ان کے پورے جسم پر رعشہ طاری ہے۔ لیکن جب خوف چلا جاتا ہے تو ان کی تصویر زیادہ مضحکہ انگیز ہوجاتی ہے۔ فاذا ذھب الخوف سلقوکم بالسنۃ حداد (33: 19) ” “۔ یہ سوراخوں سے نکل آتے ہیں ، ان کے آوازیں بلند ہوجاتی ہیں حالانکہ پہلے ان پر رعشہ طاری تھا۔ ان کی گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں اور وہ اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں۔ پہلے تو سکڑ گئے تھے ، اب پھول گئے اور بغیر شرم و حیاء کے لمبے لمبے دعوے کرنے لگے کہ ہم نے یہ یہ مشقتیں برداشت کیں۔ یہ یہ جنگیں کیں اور یہ یہ فضائل اعمال کیے اور اس قدر شجاعت اور بہادری دکھائی۔ ۔۔ اور پھر یہ لوگ۔ اشحۃ علی الخیر (33: 19) ” “۔ یہ کسی بھلائی کے کام میں کچھ خرچ نہیں کرتے۔ نہ اپنی قوت ، نہ اپنا عمل ، نہ اپنی دولت اور نہ اپنی جان ۔۔۔ حالانکہ وہ بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں ۔ ان کی زبان تیز ہے اور اپنے آپ کو بہت ہی بڑا سمجھتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ کسی ایک قوم قبیلے تک محدود نہیں ہیں۔ یہ ہمیشہ ہر معاشرے میں رہتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ بڑے بہادر ، فصیح اللسان اور چیلنج کرنے والے ہوتے ہیں بشرطیکہ وہاں امن ہو۔ اور اگر خوف اور شدید خطرہ ہو تو یہ بخیل ، بزدل ، خاموش اور پیچھے پیچھے رہنے والے۔ یہ لوگ ہر بھلائی اور ہر خیر کے معاملے میں بہت ہی بخیل ہوتے ہیں بس زبانی کلامی یہ ہر کام میں حصہ لیتے ہیں۔ اولئک لم یومنوا فاحبط اللہ اعمالھم (33: 19) ” “۔ ان کی منافقت کا پہلا سبب یہ ہے کہ ایمان ان کے دلوں ہی میں نہیں اترا اور ایمان کی روشنی میں انہوں نے اپنا راستہ تلاش کیا۔ نہ یہ لوگ ایمان کے طریقوں پر چلنے والے ہیں ۔ اس لیے اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دئیے ہیں اور یہ کامیاب نہیں کیونکہ کامیابی کا اصلی مواد ہی ان کے پاس نہیں ہے۔ وکان ذلک علی اللہ یسیرا (33: 19) ” “۔ اللہ کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ، بس سمجھ لو کہ ان کے اعمال ضائع ہوگئے۔ رہا یہ کہ یوم الاحزاب میں ان کی حالت کیا تھی اور ان کی سوچ کیا تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اَشِحَّۃً عَلَیْکُمْ ) (یعنی ان کا ذرا سا نام کرنے کے لیے آنا بھی تمہارے بارے میں بخل اختیار کرنے کے لیے ہے) جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمان جیت گئے اور انہیں غنیمت کا مال مل گیا تو ہم بھی استحقاق غنیمت کا دعویٰ کرسکیں گے۔ (فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَیْتَھُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ تَدُوْرُ اَعْیُنُھُمْ کَالَّذِیْ یُغْشٰی عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ ) (سو جب کوئی خوف کا موقع پیش آجاتا ہے تو آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھنے لگتے ہیں کہ ان کی آنکھیں چکرائی جاتی ہیں جیسے کسی پر موت کی بےہوشی طاری ہو) (فَاِذَا ذَھَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْکُمْ بِاَلْسِنَۃٍ حِدَادٍ ) (پھر جب خوف دور ہوجاتا ہے تو تمہیں تیز زبانوں سے طعنے دیتے ہیں) (اَشِحَّۃً عَلَی الْخَیْرِ ) (ان طعنوں کا باعث یہ ہے کہ وہ مال کی حرص کے لیے آئے ہوتے ہیں) یعنی مال غنیمت لینے کے لیے دلخراش باتیں کرتے ہیں کہ ہمیں مال غنیمت میں کیوں نہیں شریک کرتے ہم بھی تو جنگ میں شریک تھے، ہماری وجہ ہی سے تو تمہیں یہ فتح میسر ہوئی ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بزدل بھی ہیں اور حریص بھی ہیں ان میں دونوں چیزیں انتہاء کو پہنچی ہوئی ہیں۔ صاحب معالم التنزیل فرماتے ہیں (فَھُمْ عِنْدَ الْغَنِیْمَۃِ اَشَحُّ قوم وَعِنْدَ الْبَعْثِ اجْبَنُ قَوْم) ۔ (اُولٰٓءِکَ لَمْ یُؤْمِنُوْا) (یہ لوگ ایمان نہیں لائے) (فَاَحْبَطَ اللّٰہُ اَعْمَالَھُمْ ) (سو اللہ نے ان کے اعمال اکارت کردئیے) جن کا آخرت میں کچھ بھی ثواب نہ ملے گا۔ (وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا) (اور یہ اللہ کے لیے بالکل آسان ہے) یعنی اس سے کوئی شخص مزاحمت کرکے اپنے اعمال کا بدلہ نہیں لے سکتا۔ نویں آیات میں منافقین کی بزدلی کو مزید آشکارا فرمایا کہ باوجودیکہ قریش مکہ اور بنی غطفان اور دیگر جماعتوں کے گروہ واپس چلے گئے لیکن یہ لوگ ڈر رہے ہیں اور یوں کہہ رہے ہیں کہ وہ لوگ ابھی نہیں گئے۔ مذکورہ گروہ جا تو چکے ہیں لیکن اگر واپس آجائیں تو منافقین خوف اور بزدلی کی وجہ سے یوں آرزو کرنے لگیں کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہم دیہات میں چلے جاتے اور وہیں سے مسلمانوں کی خبریں معلوم کرتے رہتے کہ جنگ کا کیا انجام ہوا۔ (وَلَوْ کَانُوْا فِیْکُمْ مَّا قٰتَلُوْٓا اِلَّا قَلِیْلًا) اے مسلمانو ! یہ منافق اگر تمہارے اندر رہ جائیں تب بھی تمہیں فائدہ نہیں پہنچاسکتے بس نام کے لیے ذرا سی جنگ کرلیں گے جس سے ریا کاری مقصود ہوگی، ایک دو پتھر پھینک کر کہیں گے کہ ہم نے بھی تو جنگ میں شرکت کی تھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

26:۔ فاذا جاء و الخ، پھر جب دشمن کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق ہو تو ایسے دہشت زدہ ہو کر آپ کی طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی پر سکرات الموت طاری ہو اور جب خوف زائل ہوجائے تو مال غنیمت کے لالچ میں تندی و تیزی کے ساتھ آپ لوگوں سے زبان درازی کرتے ہیں۔ اجی ہمیں بھی دو ناں، سارا مال خود ہی سمیٹ لیے جا رہے ہو۔ تم ہم سے زیادہ حقدار نہیں ہو، فتح تو ہماری ہی مدد سے نصیب ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ اس آیت میں منافقین کی انتہائی بزدلی اور دنیا کی حرص و آرزو کا ذکر کیا گیا ہے۔ الخیر سے یہاں مال غنیمت مراد ہے۔ اشحۃ، سلقوا کے فاعل سے ھال ہے۔ اوئلئک لم یومنا الخ، یہ لوگ سرے سے ایمان لائے ہی نہیں۔ محض زبانی اقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے ان کے تمام اعمال رائیگاں ہیں اور ان کا کوئی اجر وثواب نہیں۔ وکان ذالک الخ، حضرت شیخ فرماتے ہیں اشارہ عذاب کی طرف ہے جو ماقبل یعنی احبط اللہ اعمالہم سے مفہوم ہے یعنی اللہ نے ان کے تمام اعمال باطل کردئیے جس کا نتیجہ عذاب ہے اور عذاب دینا اللہ پر کوئی مشکل نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

19۔ کبھی تمہارے پاس آتے بھی ہیں تو اس حال میں آتے ہیں کہ تمہارے حق میں حرص آمیز بخل کا جذبہ لئے ہوئے تمہاری طرف سے دریغ رکھتے ہوئے پھر جب کوئی ڈر کی بات پیش آجائے اور خوف کی بات ہوجائے تو اے پیغمبر آپ ان کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف تکنے لگتے ہیں ان کی آنکھیں ڈگر ڈگر کرنے لگتی ہیں اور پتلیاں اس طرح پھرنے لگتی ہیں جس طرح کسی شخص پر موت کی بیہوشی طاری ہو رہی ہو پھر جب وہ ڈر کی بات اور وہ خوف دور ہوجاتا ہے تو یہ منافق اپنی زبان درازی اور تیز کلامی سے تم کو طعنے دینے لگتے ہیں اس حال میں کہ یہ مال غنیمت پر بڑے حریص ہوتے ہیں یہ لوگ حقیقت میں ایمان نہیں لائے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال برباد اور نیست و نابود کردیئے اور یہ اعمال کا برباد کردینا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے۔ یعنی تمہاری مدد کرنے میں بخیل بنے ہوئے ہیں یا مال غنیمت پر حریص بنے ہوئے ہیں جب کوئی خوف آجائے مثلاً دشمن کے حملے کی خبر مشہورہو جائے یا کوئی اور ایسی ہی افواہ اڑ جائے تو ان منافقوں کی یہ کی یہ حالت ہوتی ہے کہ آپ کی طرف متحیرہو کر تکنے لگتے ہیں اور ان کی آنکھیں اور پتلیاں اس طرح دائیں بائیں گھومنے لگتی ہیں جیسے انکادم نکل رہا ہو اور جیسے کسی کو موت کی بےہوشی طاری ہوجائے اور جب وہ ڈر چلا جائے یعنی وہ جملے کا خوف جاتا رہے پھر ان کی زبان درازی قابل دید ہے۔ بات بات پر تیز تیز زبان چلاتے ہیں مسلمانوں کو طعنے دیتے ہیں اور سب سے زیاد ہ مال غنیمت طلب کرتے ہیں مسلمانوں کو بزدل کہتے ہیں اور اپنی مردانگی جتاتے ہیں یہ لوگ پہلے ہی سے ایمان نہیں لائے اور اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال بیکار اور کارت کردیئے ہیں اور انکو قیامت میں کوئی اجر نہیں ملے گا اور کسی غیر مستحق کے اعمال کونا بود کردینا اللہ تعالیٰ پر کچھ مشکل نہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی برے وقت رفاقت سے جی چراتے ہیں اور ڈر کے مارے جان نکلتی ہے اور فتح کے بعد مردانگی جتاتے ہیں سب سے زیادہ اور غنیمت پر ڈھلکتے ہیں ۔ فائدہ ۔ جہاں حبط اعمال کا ذک رہے تو فرمایا یہ اللہ پر آسان ہے یعنی حکمت میں اللہ تعالیٰ کی کسی کی محنت ضائع کرنی تعجب لگتی ہے لیکن جب حبط کرنے پر آوے اس عمل ہی میں ایسا نقصان پکڑے جس سے وہ درست ہی نہیں ہوا جیسے عمل بےایمان کا کہ ایمان شرط ہے ہر عمل کی۔ 12