Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 34

سورة الأحزاب

وَ اذۡکُرۡنَ مَا یُتۡلٰی فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیۡفًا خَبِیۡرًا ﴿۳۴﴾٪  1

And remember what is recited in your houses of the verses of Allah and wisdom. Indeed, Allah is ever Subtle and Acquainted [with all things].

اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو یقیناً اللہ تعالٰی لطف کرنے والا خبردار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ ايَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ... And remember, that which is recited in your houses of the Ayat of Allah and Al-Hikmah. meaning, `act in accordance with that of the Qur'an and Sunnah which Allah revealed to His Messenger in your houses.' This was the view of Qatadah and others. `And remember this blessing with which you alone of all the people have been favored, that the revelation comes down in your houses and not those of other people.' A'ishah As-Siddiqah bint As-Siddiq, may Allah be pleased with them, was foremost among them with in this blessing and was the most fortunate, and the most favored with this mercy. For the revelation did not come to the Messenger of Allah in the bed of any of his wives except hers, as he stated. Some of the scholars, may Allah have mercy on them, said: "This was because he did not marry any other virgin besides her, and no man slept with her in her bed before him, may Allah be pleased with her." So it was befitting that she should be singled out for this blessing and high status. But if his wives are members of his household, then this title is even more fitting for his own relatives. Ibn Abi Hatim recorded that Abu Jamilah said: "Al-Hasan bin Ali, may Allah be pleased with them both, was appointed as Khalifah when Ali was killed." He said: "While he was praying, a man leapt on him and stabbed him with a dagger." Hussein claimed that he heard that the one who stabbed him was a man from Banu Asad, and Al-Hasan, may Allah be pleased with him, was prostrating at the time. He said, "They claimed that he received the wound in his hip. He was ill as a result for many months, then he recovered. He ascended the Minbar and said: `O people of Iraq! Have Taqwa of Allah concerning us, for we are your leaders and your guests, and we are members of the family (Ahl Al-Bayt) concerning whom Allah said: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (Allah wishes only to remove Ar-Rijs from you, O members of the family, and to purify you with a thorough purification).' He kept saying this until there was no one left in the Masjid who was not weeping and sobbing." Allah then says: ... إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا Verily, Allah is Ever Most Courteous, Well-Acquainted with all things. means, `by His kindness towards you, you have reached this status, and by His knowledge of you and that you are qualified for that status, He has given this to you and singled you out for it.' Ibn Jarir, may Allah have mercy on him, said: "And remember how Allah blessed you by causing the Ayat of Allah and Al-Hikmah to be recited in your houses, so give thanks to Allah for that and praise Him. إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا (Verily, Allah is Ever Most Courteous, Well-Acquainted with all things). means, `He is kind towards you, for He has caused the Ayat of Allah and Al-Hikmah to be recited in your houses,' and Al-Hikmah means the Sunnah. And He is Well-Acquainted with you means, `He chose you as wives for His Messenger.' Qatadah said: وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ ايَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ (And remember, that which is recited in your houses of the Ayat of Allah and Al-Hikmah), "He is reminding them of His favor." This was narrated by Ibn Jarir. Atiyah Al-`Awfi commented on the Ayah: إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا (Verily, Allah is Ever Most Courteous, Well-Acquainted with all things). "He knows when and where to reveal Al-Hikmah." This was recorded by Ibn Abi Hatim, then he said: "This was also narrated from Ar-Rabi` bin Anas from Qatadah."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

341یعنی ان پر عمل کرو حکمت سے مراد احادیث ہیں۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ حدیث بھی قرآن کی طرح ثواب کی نیت سے پڑھی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ آیت بھی ازواج مطہرات کے اہل بیت ہونے پر دلالت کرتی ہے، اس لئے کہ وحی کا نزول، جس کا ذکر اس آیت میں ہے، ازواج مطہرات کے گھروں میں ہی ہوتا تھا، بالخصوص حضرت عائشہ (رض) کے گھر میں۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٥٢] حکمت کیا چیز ہے :۔ حکمت کا معنی صرف دانائی یا دانائی کی باتیں ہیں۔ پھر اس کی دو قسمیں ہیں ایک حکمت علمی یعنی آیات قرآنی سے استنباطات اور اجتہادات دوسرے حکمت عملی۔ یعنی احکام الٰہی کو عملی طور پر نافذ کرنے کا طریقہ کار۔ قرآن میں بیشمار مقامات پر کتاب و حکمت کا لفظ اکٹھا آیا ہے۔ اور امام شافعی نے بیشمار دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ حکمت سے مراد سنت نبوی ہے۔ یعنی خواہ آپ زبانی کسی آیت کی تشریح و تفسیر امت کو سمجھا دیں یا کسی حکم پر عمل کرکے امت کو دکھا دیں۔ یہ سب کچھ حکمت کے مفہوم میں شامل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ساری حکمت صرف سنت نبوی میں ہی محصور ہے بلکہ قرآن میں بھی موجود ہے اسی لئے اسے القرآن الحکیم کہا گیا ہے۔ اب چونکہ منکرین حدیث، حدیث کی حجیت کے قائل نہیں تو ان کے ایک نمائندہ حافظ اسلم صاحب جیراجپوری نے اس آیت پر اعتراض جڑ دیا کہ کیا ازواج مطہرات کے گھروں میں اللہ کی آیات کے علاوہ رسول اللہ کی حدیثیں بھی پڑھی جاتی تھیں ؟ (مقام حدیث ص ١٢ مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام، لاہور) خمنکرین حدیث کا ایک اعتراض اور اس کا جواب :۔ حافظ صاحب نے اس اعتراض میں دھوکا دینے کی کوشش فرمائی ہے۔ امام شافعی نے حکمت سے مراد سنت نبوی بتایا ہے۔ حدیث نہیں بتایا۔ اور حدیث اور سنت میں کئی لحاظ سے فرق ہے۔ جس کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے آئینہ پرویزیت) لہذا صرف ایک آدھ اشارہ پر ہی اکتفا کروں گا۔ مثلاً قرآن میں تقریباً سات سو مقامات پر نماز کی ادائیگی کا حکم ہے۔ مگر اس کی مکمل ترکیب کسی ایک جگہ بھی مذکور نہیں۔ یہ ہمیں صرف آپ کے نماز ادا کرنے سے معلوم ہوئی۔ یہ حکمت ہے اور حکمت عملی لیکن یہ حکمت قرآن میں مذکور نہیں۔ اور عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت کے مطابق آپ صحابہ کو التشہد اسی طرح پڑھاتے اور یاد کراتے اور پھر سنتے تھے جیسے قرآنی آیات پڑھاتے تھے اور حکمت علمی اور عملی دونوں قرآن میں مذکور نہیں۔ یہی حال باقی سب احکام کا ہے۔ گویا قرآن کے حکیم ہونے کے باوجود حکمت کا کثیر حصہ سنت نبوی سے ہمیں معلوم ہوا ہے۔ [ ٥٣] تبلیغ دین میں ازواج کا کردار :۔ لفظ واذْ کُرْنَ کے دو معنی ہیں ایک معنی && یاد رکھو && اور دوسرا معنی && بیان کرو && پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ اے نبی کی بیویو ! تمہارا گھر وہ گھر ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیات الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ لہذا تم اس بات کو خوب یاد رکھو اور اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اس معاملہ میں تمہاری ذمہ داری بڑی سخت ہے۔ تمہیں اپنا ہر عمل اللہ اور اس کے رسول کی منشا کے مطابق کرنا ہوگا اور دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جو کچھ تم آیات الٰہی اور حکمت کی باتیں سنو اور دیکھو۔ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرو۔ کیونکہ زندگی کا ایک اہم پہلو یا گھریلو زندگی سے متعلق بہت سے امور ایسے ہیں جو تمہارے علاوہ کسی اور ذریعہ سے معلوم نہیں ہوسکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ ۔۔ : پچھلی آیات میں امہات المومنین کو عمل کا حکم دیا تھا، جس میں کچھ چیزوں سے اجتناب اور کچھ چیزوں کے ادا کرنے کا حکم تھا، اب انھیں علم حاصل کرنے اور اسے آگے پہنچانے کا حکم دیا۔ ” اذْكُرْنَ “ ” ذِکْرٌ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی دل میں یاد کرنا اور یاد رکھنا بھی ہے اور کسی کلام کو زبان پر لانا بھی۔ یعنی تمہارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت کی جو تلاوت کی جاتی ہے، اسے یاد کرو اور یاد رکھو، کبھی اس سے غفلت نہ کرو اور اسے دوسرے لوگوں کے سامنے بھی ذکر کرو اور ان تک پہنچاؤ۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری یہ تھی کہ اللہ کے احکام امت تک پہنچا دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک مرد یا ایک عورت تک کوئی حکم پہنچا دینے سے آپ کا فریضہ ادا ہوجاتا تھا، پھر اس مرد یا عورت کا فرض ہوتا کہ اسے آگے پہنچائے، جیسا کہ عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( بَلِّغُوْا عَنِّيْ وَلَوْ آیَۃً ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بني إسرائیل : ٣٤٦١ ] ” میری طرف سے آگے پہنچا دو ، خواہ ایک آیت ہو۔ “ امت کے ہر فرد کو ہر حکم بہ نفس نفیس پہنچانا نہ آپ کے ذمے تھا، نہ آپ کے لیے ممکن تھا۔ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے اقوال و افعال اور احوال ایسے تھے جن کا تعلق گھریلو زندگی سے تھا اور جن کا علم صرف ازواج مطہرات کو ہوتا تھا، اس لیے انھیں آیات و حکمت کو یاد کرنے، انھیں یاد رکھنے اور لوگوں کے سامنے ذکر کرنے کا حکم دیا اور امہات المومنین نے یہ فریضہ نہایت خوش اسلوبی اور پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا۔ چناچہ دینی مسائل کا بہت بڑا حصہ انھی کے ذریعے سے امت تک پہنچا ہے۔ صحابہ کرام (رض) کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی وہ ان سے پوچھتے اور انھیں ان کے پاس سے، خصوصاً عائشہ (رض) کے پاس سے اس کا تسلی بخش حل مل جاتا۔ 3 یہ آیت عورتوں کو دین کی تعلیم دلانے کی واضح دلیل ہے، مردوں کی طرح ان پر بھی لازم ہے کہ قرآن و حدیث کا علم حاصل کریں اور اسے آگے پہنچائیں۔ ” اٰيٰتِ اللّٰهِ “ سے مراد قرآن کریم کی آیات ہیں۔ ” وَالْحِكْمَةِ “ کا لفظی معنی دانائی اور عقل کی بات ہے، مراد اس سے قرآن مجید کے علوم اور معانی ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان فرماتے تھے۔ اسی طرح اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جملہ اقوال و افعال اور احوال بھی شامل ہیں، کیونکہ وہ بھی قرآن کی عملی تفسیر تھے، جیسا کہ عائشہ (رض) نے فرمایا : ( کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ ) [ مسند أحمد : ٦؍٩١، ح : ٢٤٦٥٥ ] ” قرآن آپ کا خلق تھا۔ “ یعنی قرآن آپ کی طبعی عادت بن چکا تھا کہ آپ کا ہر کام خود بخود قرآن مجید کے مطابق ہوتا تھا۔ اس لیے امام شافعی اور دوسرے ائمہ نے بہت سے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ” وَالْحِكْمَةِ “ سے مراد سنت ہے۔ بعض لوگ اس پر یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی طرح سنت کی بھی تلاوت ہوتی تھی، مگر یہ شبہ بےکار ہے، کیونکہ تلاوت کے لفظ کو صرف قرآن کی تلاوت کے لیے خاص کرنا بعد کی اصطلاح ہے۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ سورة بقرہ میں یہی لفظ جادو کے ان الفاظ کے متعلق استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو سناتے تھے، فرمایا : (وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ ) [ البقرۃ : ١٠٢ ] ” اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین سلیمان کے عہد حکومت میں پڑھتے تھے۔ “ ظاہر ہے وہاں تلاوت سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو سناتے تھے۔ ویسے یاد کرنے کرانے کے لیے حدیث رسول پڑھنا بھی کار ثواب ہے اور حدیث حفظ کرنے والے کو اسے بار بار پڑھنا پڑتا ہے۔ ہاں، پڑھنے پڑھنے میں فرق ضرور ہے۔ 3 یہ آیت ازواج مطہرات کے اہل بیت ہونے کی بھی واضح دلیل ہے، کیونکہ ” فی بیوتکن “ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں کو ان کے گھر کہا گیا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرً : ” لَطِيْفًا “ کے لفظ میں بیحد مہربانی کے ساتھ باریک بینی اور خفیہ طریقے سے کسی کام کے ادا کرنے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ یہاں یہ دونوں صفات ذکر کرنے میں کئی باتوں کی طرف اشارہ ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کا تمام عورتوں میں سے ازواج مطہرات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کے لیے چننا، ان کی طہارت کا اہتمام کرنا، انھیں علم و عمل کا کمال حاصل کرنے کا موقع عطا کرنا، اس کے مخفی سے مخفی امور سے واقف ہونے، اس کے نہایت مہربان ہونے اور ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہونے کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے اس نے انھیں اس کا اہل سمجھ کر اس مرتبے کے لیے منتخب فرمایا۔ ایک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ چونکہ یہ آیات ازواج مطہرات کے خرچے میں اضافے کے مطالبے پر نازل ہوئیں، لہٰذا مطلب یہ ہے کہ حالات بظاہر تمہارے لیے مشکل ہیں، لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کو ترجیح دو گی تو آخرت کی نعمتوں کے ساتھ دنیا کی خوش حالی بھی کچھ دور نہیں، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ایسے باریک طریقوں سے وجود میں لے آتا ہے جو کسی کی سوچ میں بھی نہیں آسکتے۔ وہ لطیف بھی ہے اور پوری طرح باخبر بھی، اس نے ان لوگوں کو جو دنیا کی زیب و زینت سے بےنیاز تھے، زمین کے مشرق و مغرب کا مالک بنادیا اور جو دنیا کے طلب گار تھے اور جن کی ساری تگ و دو ہی دنیا کے لیے تھی انھیں غلام بنادیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

What does أَهْلَ الْبَيْتِ : Ahl al-Bayt: People of the House|" signify in this verse? In verses appearing earlier in the present sequence, the address was to the blessed wives of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، therefore, the form used was in the feminine gender. Here, the expression: أَهْلَ الْبَيْتِ ahl al-bayt) includes, along with the blessed wives, their children and fathers as well, therefore, the form used was in the masculine gender, that is: عَنکُم (from you) and: وَيُطَهِّرَ‌كُمْ (purifies you). And some Tafsir authorities take &ahl al-bayt& to mean the blessed wives only. ` Ikrimah and Muqatil have said exactly this. And Sayyidna Said Ibn Jubayr (رض) has reported the same narration from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) saying that he has declared &ahl al-bayt& in this verse to mean the blessed wives and then cited the next verse: وَاذْكُرْ‌نَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ (and remember what is recited in your homes-34) as proof (because the address here is to the blessed wives only, as is evident from the feminine gender used in the verse and from the & reference to their homes.) [ reported by IbnAbi Hatim and lbn Jarir). And the words of the address: نِسَاءَ النَّبِيِّ. (0 women [ wives ] of the prophet) in the immediately previous verses are also its contextual evidence. Early commentator ` Ikrimah ... used to go about proclaiming in the bazaars that &ahl al-bayt& in the verse means the blessed wives, because this verse has been revealed to highlight their dignified status and he used to say that he was ready to enter into a mubahalah* (imprecation) on it. * A form of resolving religious disputes through bi-partite invocation. For details, please see Ma&ariful-Qur&n, Volume II, pp. 90, 91. But, several narrations of Hadith reported by Ibn Katar at this place bear witness that Sayyidah Fatimah, Sayyidna ` Ali and Sayyidna Hasan and Husain (رض) are also included in &ahl al-bayt& - as in a Hadith of Sahih Muslim where Sayyidah ` A&ishah (رض) narrates: Once the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) went out of the house with a black sheet from Byzantine wrapped around his blessed body. When Hasan Ibn ` Ali (رض) came out, he took him inside the sheet. Then Sayyidna Husain (رض) came. He took him too inside the sheet in the same manner. After that, came Sayyidah Fatimah (رض) and then Sayyidna ` Ali al-Murtada (رض) . He also made them come inside the sheet. Thereafter, he recited the verse: يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّ‌جْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَ‌كُمْ تَطْهِيرً‌ا (Allah only intends to keep (all sorts of) filth away from you, 0 members of the family (of the prophet-33). And it also appears in some narrations that, after having recited the verse, he said: اللَّھُمَّ ھٰٓؤلٓآِء اَھلُ بَیتِی (0 Allah, these are members of my family) (reported by Ibn Jarir) After having reported several reliable ahadith on this subject, Ibn Kathir has said: In reality, there is no contradiction in the two sayings reported from Tafsir authorities. Those who said that this verse was revealed in relation to the high station of the blessed wives and &ahl al-bayt& means them does not go contrary to the possible inclusion of other people too under the purview of &ahl al-bayt.& Therefore, the sound position is that under the words: &ahl al-bayt&, the blessed wives are included in any case, because they themselves are the cause of the revelation of this verse. And the inclusion of the direct addressees of the revelation cannot be subjected to any doubt. And Sayyidah Fatimah and Ali and Hasan and Husain (رض) too - in accordance with the saying of the noble Prophet - are included in &ahl al-bayt.& And at both places in this verse, before and after it, the address is to the wives of the prophet using the form of feminine gender. In previous verses, beginning from: فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ (So, do not be soft with your address - 32) up to the end all forms employed are feminine. Then, later on in: وَاذْكُرْ‌نَ مَا يُتْلَىٰ (and remember what is recited - 34) the form used in the address is in the feminine gender once again. Now, when the text departs from the context in this verse (33) in between and elects to employ the form of masculine gender as in: عَنکُم (antrum) and: يُطَهِّرَ‌كُمْ (yutahhirakum), it also becomes a strong evidence of the fact that included here are not only the wives, but some men as well. As for what has been said in the verse under study: لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّ‌جْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَ‌كُمْ تَطْهِيرً‌ا (Allah only intends to keep (all sorts of) filth away from you, 0 members of the family (of the prophet-33), it obviously means that, through these instructions, Allah Ta’ ala will keep the &ahl al-bayt& protected against satanic instigations, sins and evils and cleanse them pure. In short, what is meant here is legal تَشرِعِی (tashri&i) purification - not the creational تَکوِنِی (takwini) purification which is the hallmark of prophets. It does not become necessary thereby that they all be مَعصُوم &ma` sum& (infallible) and the commission of any sin by them should not be possible as is the case with the noble prophets, may peace be upon them all - which is the distinctive feature of creational purification. The people of Shiite persuasion have, by differing from the majority of the Muslim community, first of all claimed that the expression: &ahl al-bayt& is restricted to the progeny and male relatives of the Messenger and that his blessed wives are excluded from it. Then, they went on to declare the word: تطْهِير (tathir: purification) in the cited-verse (34) as standing for their عِصمَہ (&ismah: the state of being protected, infallible) and thus made the &ahl al-bayt& أَهْلَ الْبَيْتِ (ma` sum: infallible) like prophets. This humble writer has given an answer to this approach and has taken up the subject in full details in his Ahkam ul-Qur&an under Surah Al-Ahzab. This work defines عِصمَہ ` ismah, and proves that it is restricted to prophets and angels and that no one is مَعصُوم (ma` sum) other than them---all this on the basis of Islamic legal arguments and proofs. People of knowledge may see it at their discretion. Others just do not need it. The word: اللہ آیَات (ayatillah) in verse 34: وَاذْكُرْ‌نَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ وَالْحِكْمَةِ (And be mindful of Allah&s verses and the wisdom that is recited in your homes) means the Qur&an and: حِکمَہ (hikmah) means the teachings and the sunnah of the noble Messenger of Allah - as the commentators at large have explained -- : hikmah at this place to mean sunnah. And the word: اذْكُرْ‌نَ (udhkurna) could have two meanings: (1) To personally remember and be mindful of these verses and the points of wisdom, which should result in acting according to them. (2) To mention and pass on to other members of the Muslim community whatever of the Qur&an was revealed in their homes before them as well as the teachings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) of which they were the recipients. Special Note In his Ahkam ul-Qur&an, Ibn al-Arabi has said: From this verse it stands proved that a person who hears a verse of the Qur&an, or a statement of Hadith, is duty-bound to convey it to the Muslim ummah, so much so that even the blessed wives were bound with the duty of conveying to members of the Muslim community whatever verses of the Qur&an are revealed in their homes or the teachings that they receive from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Both were a matter of trust placed by Allah in their hands which they had to pass on to others. The Protection of Qur&an and Hadith The way the spreading of the message of the verses of the Qur&an and the making of arrangements to teach it have been made necessary for the Muslim community, it is in the same way that, by calling it hikmah, the spreading and teaching of the ahadith of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) have also been made necessary (in the degree of incumbency). Therefore, the noble Sahabah, may Allah be pleased with them all, have obeyed and implemented this injunction under all circumstances. There is this incident related to the Sayyidna Mu’ adh in the Sahih of al-Bukhari. He heard a Hadith from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، but he did not narrate it publicly for the reason that he feared that people may not give it the status it deserved or may succumb to some misunderstanding. However, when came the time of his death, he assembled people around him and narrated the Hadith before them and said, &Up to this time, I had not mentioned it before anyone because of religious expediency. But, now the time of death is near, therefore, I consider it necessary to deliver this thing held in trust back to the Muslim ummah, its real owner.& The words of the statement in the Sahih al-Bukhari are: فَاَخبَرَ بِہٖ مَعَاذُ عِندَ مَوتہٖ تا ثماً that is, &Sayyidna Mu` adh (رض) made people hear this Hadith at the time of his death lest he becomes a sinner by not having conveyed the Hadith of the Rasul of Allah to the Muslim ummah.& This incident too is an apt testimony to the fact that all Sahabah considered the implementation of this injunction of the Qur&an to be obligatory, and necessary. And since the noble Sahabah had demonstrated the highest care and concern in conveying Hadith to people with utmost precaution, the protection of Hadith too came, in a certain degree, fairly close to that of the Qur&an. Picking doubts in this matter really amounts to picking doubts in the Qur&an. Allah knows best.

آیت میں اہل بیت سے کیا مراد ہے ؟ اوپر کی آیات میں نساء النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب تھا، اس لئے بصیغہ تانیث خطاب کیا گیا۔ یہاں اہل البیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ ان کی اولاد وآباء بھی داخل ہیں، اس لئے بصیغہ مذکر فرمایا عنکم، ویطہرکم اور بعض آئمہ تفسیر نے اہل بیت سے مراد صرف ازواج مطہرات کو قرار دیا ہے۔ حضرت عکرمہ و مقاتل نے یہی فرمایا ہے اور سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے بھی یہی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے آیت میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات کو قرار دیا۔ اور استدلال میں اگلی آیت پیش فرمائی، (آیت) واذاکرن مایتلی فی بیوتکن (رواہ ابن ابی حاتم وابن جریر) اور سابقہ آیات میں نساء النبی کے الفاظ سے خطاب بھی اس کا قرینہ ہے۔ حضرت عکرمہ تو بازار میں منادی کرتے تھے، کہ آیت میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہیں، کیونکہ یہ آیت انہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن حدیث کی متعدد روایات جن کو ابن کثیر نے اس جگہ نقل کیا ہے اس پر شاید ہیں کہ اہل بیت میں حضرت فاطمہ اور علی اور حضرت حسن و حسین بھی شامل ہیں۔ جیسے صحیح مسلم کی حدیث حضرت عائشہ کی روایت سے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لے گئے اور اس وقت آپ ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حسن بن علی آگئے تو ان کو اس چادر میں لے لیا، پھر حسین آگئے، ان کو بھی اسی چادر کے اندر داخل فرما لیا، اس کے بعد حضرت فاطمہ پھر حضرت علی مرتضیٰ آگئے، ان کو بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیراً ، اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آیت پڑھنے کے بعد فرمایا اللہم ھولاء اھل بیتی (رواہ ابن جریر) ابن کثیر نے اس مضمون کی متعدد احادیث معتبرہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ درحقیقت ان دونوں اقوال میں جو آئمہ تفسیر سے منقول ہیں کوئی تضاد نہیں۔ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ازواج مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اور اہل بیت سے وہی مراد ہیں یہ اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہل بیت میں شامل ہوں۔ اس لئے صحیح یہی ہے کہ لفظ اہل بیت میں ازواج مطہرات بھی داخل ہیں، کیونکہ شان نزول اس آیت کا وہی ہیں، اور شان نزول کا مصداق آیت میں داخل ہونا کسی شبہ کا متحمل نہیں۔ اور حضرت فاطمہ و علی و حسن و حسین (رض) بھی ارشاد نبوی (علیہ السلام) کے مطابق اہل بیت میں شامل ہیں۔ اور اس آیت سے پہلے اور بعد میں دونوں جگہ نساء النبی کے عنوان سے خطاب اور ان کے لئے صیغے مونث کے استعمال فرمائے گئے ہیں۔ سابقہ آیات میں (آیت) فلا تخصضعن بالقول سے آخر تک سب صیغے مونث کے استعمال ہوئے ہیں اور آگے پھر واذکرن مایتلیٰ میں بصیغہ تانیث خطاب ہوا ہے۔ اس درمیانی آیت کو سیاق وسباق سے کاٹ کر بصیغہ مذکر عنکم اور یطہرکم فرمانا بھی اس پر شاہد قوی ہے کہ اس میں صرف ازواج ہی داخل نہیں کچھ رجال بھی ہیں۔ آیت مذکورہ میں جو یہ فرمایا ہے کہ (آیت) لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطہرکم تطہیراً ، ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان ہدایات کے ذریعہ اغواء شیطانی اور معاصی اور قبائح سے حق تعالیٰ اہل بیت کو محفوظ رکھے گا، اور پاک کر دے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ تطہیر تشریعی مراد ہے، تکوینی تطہیر جو خاصہ انبیاء ہے وہ مراد نہیں۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ سب معصوم ہوں اور ان سے انبیاء (علیہم السلام) کی طرح کوئی گناہ سرزد ہونا ممکن نہ ہو، جو تکوینی تطہیر کا خاصہ ہے۔ اہل تشیع نے اس آیت میں جمہور امت سے اختلاف کر کے اول تو لفظ اہل بیت کا صرف اولاد و عصبات رسول کے ساتھ مخصوص ہونے اور ازواج مطہرات کے ان سے خارج ہونے کا دعویٰ کیا۔ دوسری آیت مذکورہ میں تطہیر سے مرادان کی عصمت قرار دے کر اہل بیت کو انبیاء کی طرح معصوم کیا۔ اس کا جواب اور مسئلہ کی مفصل بحث احقر نے احکام القرآن سورة احزاب میں لکھی ہے، اس میں عصمت کی تعریف اور اس کا انبیاء اور ملائکہ کے ساتھ مخصوص ہونا اور ان کے علاوہ کسی کا معصوم نہ ہونا دلائل شرعیہ سے واضح کردیا ہے، اہل علم اس کو دیکھ سکتے ہیں، عوام کو اس کی ضرورت نہیں۔ (آیت) واذ کرن مایتلیٰ فی بیوتکن من آیت اللہ والحکمة، آیات اللہ سے مراد قرآن اور حکمت سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات اور سنت رسول ہے، جیسا کہ عامہ مفسرین نے حکمت کی تفسیر اس جگہ سنت کی ہے۔ اور لفظ اذکرن کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں : ایک یہ کہ ان چیزوں کو خود یاد رکھنا جس کا نتیجہ ان پر عمل کرنا ہے، دوسرے یہ کہ جو کچھ قرآن ان کے گھروں میں ان کے سامنے نازل ہوا یا جو تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دیں اس کا ذکر امت کے دوسرے لوگوں سے کریں اور ان کو پہنچائیں۔ فائدہ : ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی آیت قرآن یا حدیث سنے اس پر لازم ہے کہ وہ امت کو پہنچائے، یہاں تک کہ ازواج مطہرات پر بھی لازم کیا گیا کہ جو آیات قرآن ان کے گھروں میں نازل ہوں یا جو تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کو حاصل ہوں اس کا ذکر امت کے دوسرے افراد سے کریں اور یہ اللہ کی امانت ان کو پہنچائیں۔ قرآن کی طرح حدیث کی حفاظت : اس آیت میں جس طرح آیات قرآن کی تبلیغ وتعلیم امت پر لازم کی گئی ہے اسی طرح لفظ حکمت فرما کر احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغ وتعلیم کو بھی لازم کیا گیا ہے۔ اس لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس حکم کی تعمیل ہر حال میں کی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت معاذ کا یہ واقعہ کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث سنی، لیکن اس کو عام لوگوں کے سامنے اس لئے بیان نہیں کیا کہ خطرہ تھا کہ لوگ اس کو اس کے درجہ میں نہ رکھیں اور کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں، لیکن جب ان کی وفات کا وقت آیا تو لوگوں کو جمع کر کے وہ حدیث سنا دی اور فرمایا کہ میں نے اس وقت تک دینی مصلحت سے اس کا ذکر کسی سے نہیں کیا تھا، مگر اب موت کا وقت قریب ہے اس لئے امت کی یہ امانت ان کو پہچانا ضروری سمجھتا ہوں۔ صحیح بخاری میں ان کے الفاظ یہ ہیں فاخبربہ معاذ عند مرتہ تائماً ” یعنی حضرت معاذ نے یہ حدیث لوگوں کو وفات کے وقت اس لئے سنا دی کہ وہ گناہگار نہ ہوں کہ حدیث رسول امت کو نہیں پہنچائی “ یہ واقعہ بھی اسی پر شاہد ہے کہ اس حکم قرآنی کی تعمیل سب صحابہ کرام واجب و ضروری سمجھتے تھے اور صحابہ کرام نے حدیث کو احتیاط کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام فرمایا تھا تو حدیث کی حفاظت بھی ایک درجہ میں قرآن کی حفاظت کے قریب قریب ہوگئی، اس معاملہ میں شبہات کا نکالنا درحقیقت قرآن میں شبہات کا نکالنا ہے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ وَالْحِكْمَۃِ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا۝ ٣٤ۧ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ لطف اللَّطِيفُ إذا وصف به الجسم فضدّ الجثل، وهو الثّقيل، يقال : شعر جثل «1» ، أي : كثير، ويعبّر باللَّطَافَةِ واللُّطْفِ عن الحرکة الخفیفة، وعن تعاطي الأمور الدّقيقة، وقد يعبّر باللَّطَائِفِ عمّا لا تدرکه الحاسة، ويصحّ أن يكون وصف اللہ تعالیٰ به علی هذا الوجه، وأن يكون لمعرفته بدقائق الأمور، وأن يكون لرفقه بالعباد في هدایتهم . قال تعالی: اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری/ 19] ، إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف/ 100] أي : يحسن الاستخراج . تنبيها علی ما أوصل إليه يوسف حيث ألقاه إخوته في الجبّ ، ( ل ط ف ) اللطیف ۔ جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہو تو یہ جبل کی ضد ہوتا ہے جس کے معنی بھاری اور ثقیل کے ہیں کہتے ہیں شعر جبل ) یعنی زیادہ اور بھاری بال اور کبھی لطافۃ یا لطف سے خرکت حفیفہ اور دقیق امور کا سر انجام دینا مراد ہوتا ہے اور لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسای حواس نہ کرسکتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے اور اک سے مافوق اور بالا تر ہے اور یا سے اس لئے لطیف کہا جا تا ہے کہ وہ دقیق امور تک سے واقف ہے اور یا یہ کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری/ 19] خدا اپنے بندوں پر مہر بان ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف/ 100] بیشک میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے حسن تدبیر سے کرتا ہے میں لطیف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کو حسن تدبیر سے سر انجام دینا ہے ۔ چناچہ دیکھے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف اکرم سے انہیں اس مرتبہ تک پہنچا دیا خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور تم آیات قرآنیہ اور اوامرو نواہی حلال و حرام کے احکام کو یاد رکھو جس کا تمہارے گھروں میں چرچا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی باتوں کو جاننے والا اور تمہارے اعمال سے پورا باخبر ہے یا یہ کہ نبی اکرم نے جس وقت تمہیں طلاق دینے کا ارادہ فرمایا اللہ تعالیٰ اس سے اور تمہاری نیکیوں سے واقف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ { وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ } ” اور یاد کیا کرو جو تمہارے گھروں میں اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں (سنائی جاتی ہیں) ۔ “ آپ لوگوں کے گھروں میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوتی ہے اور یہاں سے دنیا بھر کو آیات الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے ‘ اس لیے آپ لوگ سب سے بڑھ کر آیات ِالٰہی کو سننے اور ان پر عمل کرنے کی مکلف ہو۔ اس لحاظ سے بھی ازواج مطہرات (رض) کے درمیان حضرت عائشہ (رض) کو امتیازی شرف حاصل ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بار حضرت اُمّ سلمہ (رض) سے حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں فرمایا تھا : (فَاِنَّـہٗ وَاللّٰہِ مَا نَزَلَ عَلَیَّ الْوَحْیُ وَاَنَا فِیْ لِحَافِ امْرَأَۃٍ مِنْکُنَّ غَیْرَھَا) (١) ” اللہ کی قسم ‘ مجھ پر اس حال میں کبھی وحی نازل نہیں ہوئی کہ میں تم میں سے کسی عورت کے لحاف میں ہوں سوائے عائشہ (رض) کے۔ “ ظاہر ہے وحی کا نزول تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر ہوتا تھا۔ اس کے لیے ظاہری طور پر تو کوئی خاص اہتمام کرنے اور جبرائیل (علیہ السلام) کو استیذان کی ضرورت نہیں تھی۔ جب اور جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا وحی کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر نازل ہوگئے۔ آیت میں ” حکمت “ سے وحی خفی یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمودات مراد ہیں۔ گویا حکمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات سے بھی سب سے بڑھ کر ازواجِ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی مستفیض ہو رہی تھیں۔ { اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا } ” یقینا اللہ بہت باریک بین ‘ ہرچیز سے باخبر ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51 The word wadhkurna in the original has two meanings: Remember and mention. According to the first meaning the verse would mean: "O wives of the Prophet, you should never forget that yours is the house from where the would is being instructed in Divine Revelations and Wisdom; therefore, your responsibility is very great. Let it not happen that the people might see specimens of ignorance in this very house." According to the second meaning, it would mean: "O wives of the Prophet, you should mention and relate before the people whatever you hear and see, for by virtue of your close and constant social association and attachment with the Prophet you will know and experience many such things which the other people. will not be able to know by any other means than you. " Two things have been mentioned in this verse: (1) The Revelations of Allah; and (2) the wise sayings. The revelations of Allah are the verses of Allah's Book, but hikmat (wisdom) is a comprehensive word which includes all those wise things which the Holy Prophet taught the people. This word may also imply the teachings of the Book of Allah, but there is no reason why it should be made exclusively applicable to them. It inevitably includes the wisdom that the Holy Prophet taught by his pure character and by his sayings besides reciting the verses of the Qur'an. Some people, only on the basis that the word ma yutla (that which is recited) has been used in the verse, make the assertion that the "Revelations of Allah" and "Wisdom" imply only the Qur'an, for the word "recitation" as a term is specifically used for the recitation of the Qur'an. But this reasoning is absolutely wrong. The use of the word "recitation" specifically as a term for the recitation of the Qur'an or the Book of Allah is the work of the people of the later ages. The Qur'an has not used this word as a term. In Surah AI-Baqarah: 102, this same word has been used for the incantation of the magical formulas which the satans falsely attributed to the Prophet Solomon and taught the people. ("They followed that which the satans recited attributing it to the kingdom of Solomon. ") This shows that the Qur'an uses this word in its lexical meaning, and dces not specify it for reciting the verses of the Book of Allah. 52 "Knower of everything" : Knower of even the most secret and hidden things.

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :51 اصل میں لفظ وَاذْکُرْنَ استعمال ہوا ہے ، جس کے دو معنی ہیں : یاد رکھو اور بیان کرو ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اے نبی کی بیویو ، تم کبھی اس بات کو فراموش نہ کرنا کہ تمہارا گھر وہ ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیات الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے ، اس لیے تمہاری ذمہ داری بڑی سخت ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی گھر میں لوگ جاہلیت کے نمونے دیکھنے لگیں ۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ نبی کی بیویو ، جو کچھ تم سنو اور دیکھو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتی رہو ، کیونکہ رسول کے ساتھ ہر وقت کی معاشرت سے بہت سی ہدایات تمہارے علم میں ایسی آئیں گی جو تمہارے سوا کسی اور ذریعہ سے لوگوں کو معلوم نہ ہو سکیں گی ۔ اس آیت میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک آیات اللہ ۔ دوسرے حکمت ۔ آیات اللہ سے مراد تو کتاب اللہ کی آیات ہی ہیں ۔ مگر حکمت کا لفظ وسیع ہے جس میں وہ تمام دانائی کی باتیں آجاتی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سکھاتے تھے ۔ اس لفظ کا اطلاق کتاب اللہ کی تعلیمات پر بھی ہو سکتا ہے ، مگر صرف انہی کے ساتھ اس کو خاص کر دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ قرآن کی آیات سنانے کے علاوہ جس حکمت کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سیرت پاک سے اور اپنے ارشادات سے دیتے تھی وہ بھی لا محالہ اس میں شامل ہے ۔ بعض لوگ محض اس بنیاد پر کہ آیت میں مَا یُتْلیٰ ( جو تلاوت کی جاتی ہیں ) کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آیات اللہ اور حکمت سے مراد صرف قرآن ہے ، کیونکہ تلاوت کا لفظ اصطلاحاً قرآن کی تلاوت کے لیے مخصوص ہے ۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے ۔ تلاوت کے لفظ کو اصطلاح کے طور پر قرآن یا کتاب اللہ کی تلاوت کے لیے مخصوص کر دینا بعد کے لوگوں کا فعل ہے ۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔ سُورۂ بقرہ آیت ۱۰۲ میں یہی لفظ جادو کے ان منتروں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو سناتے تھے ۔ وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلیٰ مُلْکِ سُلَیْمٰنَ ۔ انہوں نے پیروی کی اس چیز کی جس کی تلاوت کرتے تھے ( یعنی جسے سناتے تھے ) شیاطین سلیمان کی بادشاہی کی طرف منسوب کر کے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن اس لفظ کو اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتا ہے ۔ کتاب اللہ کی آیات سنانے کے لیے اصطلاحاً مخصوص نہیں کرتا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :52 اللہ لطیف ہے ۔ یعنی مخفی باتوں تک اس کا علم پہنچ جاتا ہے ۔ اس سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:34) اذکرن۔ ذکر سے امر کا صیغہ جمع مؤنث حاضر (باب نصر) تم یاد کرو ما اسم موصول ہے اور اذکرن کا مفعول۔ یتلی مضارع مجہول واحد مذکر غائب اس کا مفعول مالم یسم فاعلہ ما ہے من ایت اللہ میں منتبعیض کا ہے من ایت اللہ سے مراد القرآن ہے والحکمۃ ای ومن الحکمۃ حکمت کی باتیں۔ ترجمہ یوں ہوگا :۔ اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتیں تم کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو (اور مت بھولو) ۔ اذکرن سے مراد اذکرن للناس بھی ہوسکتا ہے یعنی خود بھی عمل کرو اور دوسروں تک بھی اسے پہنچائو۔ لطیفا (بہت باریک بین، صفت مشبہ کا صیغہ ہے) ۔ خبیرا۔ (بہت خبر والا۔ صفت مشبہ کا صیغہ) دونوں بوجہ کان خی خبر کے منصوب ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ آیات الہیہ یعنی قرآن۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کا ماحول۔ آیت ٢٨ سے لے کر مختلف انداز میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں کو خطاب کیا ہے اس موقعہ پر آخری حکم ہوا کہ پاک صاف ماحول میں رہتے ہوئے ” اللہ “ کی آیات اور حکمت کی باتیں جو تمہارے گھروں میں وحی کی صورت میں پڑھی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو اور ان کی تلاوت کیا کرو۔ ہمیشہ عقیدہ اپناؤ کہ اللہ تعالیٰ نہایت مہربان اور ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے۔ اس فرمان میں یہ بات کھل گئی ہے کہ اہل بیت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج بدرجہ اولیٰ شامل ہیں کیونکہ وحی حضرت علی (رض) کے گھر میں نازل نہیں ہوتی تھی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں ہوتے تو وحی امّہات المؤمنین کے حجروں میں ہی نازل ہوا کرتی تھی۔ اکثر اہل علم اور مفسرین نے حکمت کے معانی فہم و فراست، علم وحلم، عدل و انصاف، حقیقت اور سچائی تک پہنچنا اور دین کی سمجھ حاصل کرنا بیان کیے ہیں اس کی تائید حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ ضَمَّنِی النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی صَدْرِہِ وَقَال اللَّہُمَّ عَلِّمْہُ الْحِکْمَۃَ )[ رواہ البخاری : باب ذِکْرُ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنے گلے لگایا اور میرے لیے دعا کی کہ اے اللہ ! اسے قرآن کا فہم عطا فرما۔ “ (عَنْ اأمِّ سَلْمَۃَ أَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تُؤْذِیْنِیْ فِیْ عَاءِشَۃَ ، فَوَاللّٰہِ مَا مِنْکُنَّ اِمْرَأَۃً یَنْزِلُ عَلَّیَّ الْوَحْیُ وَأَنَا فِیْ لِحَافِہَا لَیْسَ عَاءِشَۃَ قُلْتُ لَا جَرَمَ ، وَاللّٰہِ لَا أُؤْذِیْکَ فِیْہَا اأبَدًا) [ مسند ابی یعلیٰ الموصلی ] ” ام سلمہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے عائشہ کے بارے میں پریشان نہ کرنا۔ اللہ کی قسم ! عائشہ کے علاوہ تم میں سے کوئی بیوی نہیں کہ جس کے لحاف میں مجھ پر وحی نازل ہوتی ہو۔ میں نے کہا کوئی شک نہیں ! اللہ کی قسم میں عائشہ کے بارے میں آپ کو کبھی پریشان نہیں کروں گی۔ “ گھر میں نماز اور تلاوت کرنے کا حکم : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْفِرُ مِنَ الْبَیْتِ الَّذِی تُقْرَأُ فیہِ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ )[ رواہ : باب اسْتِحْبَابِ صَلاَۃِ النَّافِلَۃِ فِی بَیْتِہِ وَجَوَازِہَا فِی الْمَسْجِدِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، جس گھر میں سورة البقرۃ پڑھی جاتی ہے اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ “ (عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَتَی مَسْجِدَ بَنِی عَبْدِ الأَشْہَلِ فَصَلَّی فیہِ الْمَغْرِبَ فَلَمَّا قَضَوْا صَلاَتَہُمْ رَآہُمْ یُسَبِّحُونَ بَعْدَہَا فَقَالَ ہَذِہِ صَلاَۃُ الْبُیُوتِ ) [ رواہ ابوداؤد : باب رَکْعَتَیِ الْمَغْرِبِ أَیْنَ تُصَلَّیَانِ ] ” سعد بن اسحاق بن کعب بن عجرہ اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو عبدالاشہل کی مسجد میں تشریف لائے۔ آپ نے وہاں مغرب کی نماز پڑھی۔ جب انہوں نے فرض نماز مکمل کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں نفل پڑھتے ہوئے دیکھا۔ تو آپ نے فرمایا یہ گھروں میں پڑھی جانے والی نماز ہے، یعنی نفلی نماز گھر میں پڑھنی زیادہ افضل ہے۔ “ مسائل ١۔ گھر میں قرآن مجید کی تلاوت اور حدیث شریف کا تذکرہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نہایت مہربان اور ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن تلاوت قرآن اور اس کی حکمت : ١۔ قرآن کی تلاوت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ (البقرۃ : ١٢١) ٢۔ قرآن کی تلاوت کے وقت تدبر کرنا چاہیے۔ (النساء : ٨٢) ٣۔ سحری کے وقت تلاوت کرنا افضل ہے۔ (الاسراء : ٧٨) ٤۔ اللہ کے بندے رات کو اٹھ اٹھ کر قران مجید کی تلاوت کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١١٣) ٥۔ ایمانداروں کے دل اللہ کے ذکر سے سہم جاتے ہیں جب ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے وہ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (الانفال : ٢) ٦۔ جن کو کتاب دی گئی وہ اس کی تلاوت اسی طرح کرتے ہیں جس طرح تلاوت کرنے کا حق ہے۔ (البقرۃ : ١٢١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا : (وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ ) آیات اللہ سے قرآن حکیم اور حکمت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات اور سنتیں مراد ہیں، جیسا کہ مفسرین نے تفسیر کی ہے، اور واذکرن کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ ان چیزوں کو خود یاد رکھنا جن پر عمل کرنا ہے، دوسرے یہ کہ جو کچھ قرآن ان کے گھروں میں ان کے سامنے نازل ہو یا جو تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دیں اس کا ذکر امت کے دوسرے لوگوں سے کریں اور ان کو پہنچائیں۔ جس طرح قرآن حکیم کی تعلیم اور تدریس لازم ہے اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال کی تحدیث اور تبلیغ بھی ضروری ہے کیونکہ قرآن مجید کے مجمل احکام کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث سے تشریح اور توضیح ہوتی ہے۔ اگر احادیث شریفہ کو سامنے نہ رکھا جائے تو پانچوں نمازوں کے اوقات اور زکوٰتوں کی مقادیر اور نصاب معلوم نہیں ہوسکتے اور حدیث نبوی پر عمل کیے بغیر قرآن کریم پر عمل نہیں ہوسکتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کی کثرت میں جہاں دوسری حکمتیں ہیں وہاں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ حضرت ازواج مطہرات (رض) وارضاھن کے ذریعہ ان احکام شرعیہ کی تبلیغ ہوئی جو گھر میں رہتے ہوئے صادر ہوتے تھے اور خاص کر وہ احکام جن کا تعلق ازدواجی امور سے تھا۔ (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا) یعنی اللہ تعالیٰ مہربان ہے تمہیں یہ مرتبہ عطا فرمایا کہ اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کا شرف اور ان گھروں میں تمہیں قیام نصیب فرمایا جن میں اللہ کی کتاب پڑھی جاتی ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر بھی ہے تم جو خیر کے کام کرو گی اللہ تعالیٰ کو ان سب کا علم ہے اور وہ اجر وثواب سے نوازے گا۔ ١ ؂ ذکرہ صاحب الروح عن ابن عباس (رض) وعن قتادۃ قال وفسرت بنصائحہٖ (ج ٢٢ ص ٢٠) یہ روایت المعانی کے مصنف (رح) نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے اور حضرت قتادہ (رح) سے نقل کی ہے حضرت قتادہ نے فرمایا میں نے اہل بیت کی یہ تفسیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کی روشنی میں کی ہے۔ ٢ ؂ یعنی جن کا مدلول آیت ہونا خفی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

34۔ اور جو آیات الٰہی تمہارے گھروں میں پڑھتی جاتی ہیں اور جن حکمت کی باتوں کا تذکرہ اور چرچا تمہارے گھروں میں ہوتا رہتا ہے انکو یاد رکھو بلا شبہ اللہ تعالیٰ واقف اسرار ہے خبردار ! یعنی جو اللہ تعالیٰ کے احکام اور نادائی کی باتیں تمہارے ہوتی ہیں ان کو خود بھی سیکھو اور دوسروں کو بھی سیکھائو یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے تم کو ایسے گھرانے میں رکھا جو آسمانی علم و حکمت کا خزانہ ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ بڑا رازوں اور جلہ اسرار سے وقف اور با خبر ہے اس لئے اس نے تم کو اسے گھرانے میں رکھا جو آسمانی علم و حکمت کا خزانہ ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ بڑا رازوں اور جملہ اسرار سے واقف اور با خبر ہے اس لئے اس نے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری شریعت کیلئے منتخب فرمایا اور دین متین کی اشاعت اور اس کے پھیلانے کیلئے تم کو اس کی ازواج میں داخل کیا تا کہ تمام امت کیلئے نمونہ ہو ۔