Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 44

سورة الأحزاب

تَحِیَّتُہُمۡ یَوۡمَ یَلۡقَوۡنَہٗ سَلٰمٌ ۖ ۚ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَرِیۡمًا ﴿۴۴﴾

Their greeting the Day they meet Him will be, "Peace." And He has prepared for them a noble reward.

جس دن یہ ( اللہ سے ) ملاقات کریں گے ان کا تحفہ سلام ہوگا ان کے لئے اللہ تعالٰی نے با عزت اجر تیار کر رکھا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَمٌ ... Their greeting on the Day they shall meet Him will be "Salam!" The apparent meaning -- and Allah knows best -- is that their greeting, from Allah on the Day that they meet Him, will be Salam, i.e., He will greet them with Salam, as He says elsewhere: سَلَمٌ قَوْلاً مِّن رَّبٍّ رَّحِيمٍ (It will be said to them): Salam -- a Word from the Lord, Most Merciful. (36:58) Qatadah claimed that the meaning was that they would greet one another with Salam on the Day when they meet Allah in the Hereafter. This is like the Ayah: دَعْوَهُمْ فِيهَا سُبْحَـنَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَمٌ وَءَاخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ للَّهِ رَبِّ الْعَـلَمِينَ Their way of request therein will be `Glory to You, O Allah,' and `Salam' will be their greetings therein! and the close of their request will be `All praise is due to Allah, the Lord of all that exits.' (10:10) ... وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا And He has prepared for them a generous reward. means Paradise and everything in it of food, drink, clothing, dwellings, physical pleasure, luxuries and delightful scenes, such as no eye has seen, no ear has heard and has never entered the mind of man.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یعنی جنت میں فرشتے اہل ایمان کو یا مومن آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧١] اس سلام کی بھی تین صورتیں ہیں اور تینوں ہی قرآن کی بعض دوسری آیات سے ثابت ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ خود انھیں سلام کہے گا، دوسرے یہ کہ فرشتے انھیں سلام کہیں گے اور تیسرے یہ کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو سلام کہیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهٗ : یعنی جس دن اللہ تعالیٰ سے ان کی ملاقات ہوگی اللہ تعالیٰ انھیں سلام کہے گا، جیسا کہ فرمایا : (سَلٰمٌ ۣ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ ) [ یٰسٓ : ٥٨ ] ” سلام ہو، اس رب کی طرف سے کہا جائے گا جو بیحد مہربان ہے۔ “ فرشتے انھیں سلام کہیں گے، جیسا کہ فرمایا : (وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ يَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ) [ الرعد : ٢٣، ٢٤ ] ” اور فرشتے ہر دروازے میں سے ان پر داخل ہوں گے۔ سلام ہو تم پر اس کے بدلے جو تم نے صبر کیا۔ سو اچھا ہے اس گھر کا انجام۔ “ اور ایک دوسرے کے لیے ان کی دعا بھی سلام ہوگی، جیسا کہ فرمایا : (دَعْوٰىھُمْ فِيْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَتَحِيَّتُھُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ ۚ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) [ یونس : ١٠ ] ” ان کی دعا ان میں یہ ہوگی ” پاک ہے تو اے اللہ ! “ اور ان کی آپس کی دعا ان (باغات) میں سلام ہوگی اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہوگا کہ سب تعریف اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ “ بلکہ جنت میں ہر طرف سے سنائی دینے والی آواز بھی یہ مبارک کلمہ ہی ہوگا، فرمایا : (لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِيْمًا اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا) [ الواقعۃ : ٢٥، ٢٦ ] ” وہ اس میں نہ بےہودہ گفتگو سنیں گے اور نہ گناہ میں ڈالنے والی بات۔ مگر یہ کہنا کہ سلام ہے، سلام ہے۔ “ وَاَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِيْمًا : یعنی جنت کی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کسی کان نے سنیں اور نہ کسی آدمی کے دل میں ان کا خیال تک آیا۔ مزید دیکھیے سورة سجدہ (١٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has stated that Salah from Allah is blessing, from angels it is prayer for forgiveness and from humans it is supplication. The word Salah carries all the three meanings. تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ (Their greeting, the Day they will meet Him, will be, |"Salam|" - 33:44). This is the explanation of the Salah that is sent to believers from-Allah. It means that the day they would meet Allah, they will be respectfully addressed by Him with the word, &Salami i.e. (Assalamu ` alaykum) . The day of meeting Allah according to Imam Raghib, would be the Doomsday; some other leading exegetes say that it would be when they enter Paradise and they would receive Salam from Allah Ta’ ala as well as from the angels; and yet other scholars consider it to be the day of death when they would leave the whole world to be present before Allah as stated by Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) that when the Angel of Death goes to a believer to extract the spirit of life out of him, he gives him a message that his Lord has sent to him Salam. The word &meeting& is true in all the three cases. Therefore there can be no objection or contradiction in the traditions, because Salam from Allah Ta’ ala is sent on all the three occasions. Note This verse has proved that when Muslims meet each other, their greeting should be assalamu ` alaykum whether from the older to the younger or from the younger to the older.

(آیت) تحیتہم یوم یلقونہ سلام، یہ اسی صلوٰة کی توضیح و تفسیر ہے جو اللہ کی طرف سے مومن بندوں پر ہوتی ہے، یعنی جس روز یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ملیں گے تو اس کی طرف سے ان کا اعزازی خطاب سلام سے کیا جائے گا یعنی السلام علیکم کہا جائے گا۔ اللہ سے ملنے کا دن کون سا ہوگا ؟ امام راغب وغیرہ نے فرمایا کہ مراد اس سے روز قیامت ہے، اور بعض آئمہ تفسیر نے فرمایا کہ جنت میں داخلہ کا وقت مراد ہے، جہاں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی سلام پہنچے گا اور سب فرشتے بھی سلام کریں گے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے اللہ سے ملنے کا دن موت کا دن قرار دیا ہے کہ وہ دن سارے عالم سے چھوٹ کر صرف ایک اللہ کے سامنے حاضری کا دن ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ملک الموت جب کسی مومن کی روح قبض کرنے کے لئے آتا ہے تو اول اس کو یہ پیام پہنچاتا ہے کہ تیرے رب نے تجھے سلام کہا ہے۔ اور لفظ بقاء ان تینوں حالات پر صادق ہے اس لئے ان اقوال میں کوئی تضاد و تعارض نہیں ہو سکتا، کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سلام تینوں حالات میں ہوتا ہے۔ (روح المعانی) مسئلہ : اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ مسلمانوں کے باہم ایک دوسرے کا تحیر لفظ السلام علیکم ہونا چاہئے خواہ بڑے کی طرف سے چھوٹے کے لئے ہو یا چھوٹے کی طرف سے بڑے کے لئے ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تَحِيَّتُہُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ۝ ٠ۖۚ وَاَعَدَّ لَہُمْ اَجْرًا كَرِيْمًا۝ ٤٤ تحیۃ وقوله عزّ وجلّ : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها [ النساء/ 86] ، وقوله تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النور/ 61] ، فَالتَّحِيَّة أن يقال : حيّاک الله، أي : جعل لک حياة، وذلک إخبار، ثم يجعل دعاء . ويقال : حَيَّا فلان فلانا تَحِيَّة إذا قال له ذلك، وأصل التّحيّة من الحیاة، ثمّ جعل ذلک دعاء تحيّة، لکون جمیعه غير خارج عن حصول الحیاة، أو سبب حياة إمّا في الدّنيا، وأمّا في الآخرة، ومنه «التّحيّات لله» «1» وقوله عزّ وجلّ : وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49] ، أي : يستبقونهنّ ، والحَياءُ : انقباض النّفس عن القبائح وترکه اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها[ النساء/ 86] اور جب تم کو کوئی دعا دے تو ( جواب ) میں تم اس سے بہتر ( کلمے ) سے ( اسے ) دعا دیا کرو یا انہی لفظوں سے دعا دو ۔ نیز : ۔ فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھروں والوں کو ) سلام کیا کرو ( یہ خدا کی طرف سے ۔۔۔ تحفہ ہے ۔ میں تحیۃ کے معنی کسی کو حیاک اللہ کہنے کے ہیں یعنی اللہ تجھے زندہ رکھے ۔ یہ اصل میں جلہ خبر یہ ہے لیکن دعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے حیا فلان فلانا تحیۃ فلاں نے اسے کہا ۔ اصل میں تحیۃ حیات سے مشتق ہے ۔ پھر دعائے حیات کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ کیونکہ جملہ اقسام تحۃ حصول حیاۃ یا سبب حیا ۃ سے خارج نہیں ہیں خواہ یہ دنیا میں حاصل ہو یا عقبی میں اسی سے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49] اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ کے معنی عورتوں کو زندہ چھوڑ دینے کے ہیں لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ سلام السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها [ البقرة/ 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی __________ عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض . ( س ل م ) السلم والسلامۃ کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة/ 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔ عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

جنت میں سلامتی کی دعائیں قول باری ہے (تحیتھم یوم یلقونہ سلام۔ جس روز وہ اس سے ملیں گے انہیں لفظ سلام سے دعا دی جائے گی) قتادہ کا قول ہے کہ اہل جنت کی تحیت اسلام ہے ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کی مثال یہ قول باری ہے (دعواھم فیھا سبحانک اللھم وتحیتھم فیھا سلام۔ ان (باغات) میں ان کا قول ہوگا پاک ہے تو اے اللہ ! اور ان میں ان کی باہمی دعا ” سلام “ ہوگی)

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور مومنین جس روز اللہ تعالیٰ سے ملیں گے تو ان کو جو اسلام ہوگا وہ یہ ہوگا السلام علیکم اور فرشتے ان کو جنت کے دروازوں پر سلام کریں گے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جنت میں عمدہ صلہ تیار کر رکھا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ { تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌج وَاَعَدَّ لَہُمْ اَجْرًا کَرِیْمًا } ” جس دن وہ اس سے ملیں گے تو ان کی دعا ” سلام “ ہوگی ‘ اور اس نے تیار کر رکھا ہے ان کے لیے بہت با عزت اجر۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

80 This can have three meanings: (1) That Allah will Himself receive them with: Peace be upon you," as has been stated in Surah Ya Sin :58: "...they have been greeted with 'peace' from the Merciful Lord." (2) That the angels will greet them, as stated in Surah An-Nahl: 32: "This is the reward for those pious people whose souls are received in a pure state, by the angels, who welcome them, saying: 'Peace be upon you: enter into Paradise as the reward of your good deeds." (3) That they will greet one another among themselves, as stated in Surah Yunus:10 thus: `Therein their prayer will be `Glory to Thee, O Lord,' and their greeting: 'Peace be to you,' and the burden of their hymn: `Praise is for AIlah alone, Lord of the universe."

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :80 اصل الفاظ ہیں تَحِیَّتُھُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہ سَلٰمٗ ان کا تحیہ اس سے ملاقات کے روز سلام ہو گا ۔ اس کے تین مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ خود السلام علیکم کے ساتھ ان کا استقبال فرمائے گا ، جیسا کہ سُورۂ یٰسین میں فرمایا : کہ سَلاَمٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ ( آیت۵۸ ) ۔ دوسرے یہ کہ ملائکہ ان کو سلام کریں گے ، جیسے سورۂ نحل میں ارشاد ہوا اَلَّذِیْنَ تَتْوَفّٰھُمُ الْمَلٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلاَمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ، جن لوگوں کی روحیں ملائکہ اس حالت میں قبض کریں گے کہ وہ پاکیزہ لوگ تھے ، ان سے وہ کہی گے کہ سلامتی ہو تم پر ، داخل ہو جاؤ جنت میں ان نیک اعمال کی بدولت جو تم دنیا میں کرتے تھے ( آیت ۳۲ ) تیسرے یہ کہ وہ خود آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے ، جیسے سورۂ یونس میں فرمایا: دَعْوٰھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلاَمٌ وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ وہاں ان کی صدا یہ ہو گی کہ خدایا ، پاک ہے تیری ذات ، ان کا تحیہ ہو گا سلام اور ان کی تان ٹوٹے گی اس بات پر کہ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے ۔ ( آیت ۱۰ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:44) تجیتہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کا سلام ، ان کی دعائے خیر، ان کی دعائے زندگی۔ یہ حیاۃ سے ماخوذ ہے حی یحی تحیۃ (باب تفعیل) مصدر۔ سلام کہنا، دعائے حیات کرنا۔ قرآن مجید میں ہے واذا جاؤک حیوک بما لم یحیک بہ اللہ (58 :8) اور وہ جب آپ کے پاس آتے ہیں آپ کو ایسے الفاظ میں سلام کرتے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام نہیں کیا۔ تحیۃ کے معنی کسی حیاک اللہ کہنے کے ہیں یعنی اللہ تجھے زندہ رکھے۔ حیاک اللہ اصل میں جملہ خبریہ ہے لیکن دعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے لہٰذا تحیۃ کے معنی دعائے حیات کے ہوئے پھر ہر دعا کے لئے آنے لگا اور سلام کے معنی دینے لگا۔ اس کی جمع تحیات وتحایا (سلام و تعظیم) ہے۔ یوم۔ مفعول فیہ۔ (ظرف زمان) ۔ یلقونہ وہ اس سے ملیں گے (یعنی اللہ رب العزت سے قیامت کے روز ملاقی ہوں گے) سلام خبر۔ یوم یلقونہ متعلق خبر۔ جس دن وہ اپنے اللہ سے ملاقی ہوں گے تو السلام علیکم کہہ کر ان کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ اعد۔ راضی واحدمذکر غائب اس نے تیار کر رکھا ہے۔ اجرا کریما۔ موصوف وصفت (معزز صلہ۔ باعزت اجر) مل کر اعد کا مفعول۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 مراد ہے موت کا دن یا قبروں سے اٹھنے کا دن یا جنت میں داخل ہونے کا دن (قرطبی)5 یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر سلام بھیجا جائے گا۔ ( دیکھئے یٰسین آیت 58) یا فرشتے ان کو سلام کریں گے۔ ( سورة نحل آیت 32) یا جنتی ایک دوسرے کو سلام کرینگے (یونس آیت : 10)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

چوتھی آیت میں فرمایا (تَحِیَّتُھُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ) (جس دن اللہ سے ملاقات کریں گے ان کا تحیہ سلام ہوگا) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر سلام بھیجا جائے گا۔ کما قال فی یٰسین (سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ ) اور فرشتے بھی ان پر داخل ہوں گے اور ان پر سلام پیش کریں گے۔ کما فی سورة الرعد (وَالْمَلآءِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ) اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے روح قبض ہونے کے وقت کا تحیہ مراد ہے کیونکہ جب فرشتہ مومن بندہ کی روح قبض کرنے کے لیے آتا ہے تو (سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ) کہہ کر خطاب کرتا ہے۔ (ذکر فی الروح عن ابن مسعود (رض) (وَاَعَدَّلَھُمْ اَجْرًا کَرِیْمًا) (اور اللہ نے ان کے لیے اجر کریم تیار فرمایا ہے) یعنی ان کے لیے عزت والا ثواب تیار فرمایا ہے۔ مفسر ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں کہ اجر کریم سے جنت اور وہاں کی نعمتیں اور ہر طرح کی لذتیں مراد ہیں۔ اول تو جنت کا داخلہ ہی بڑا اعزازو اکرام ہے پھر اس میں جو کچھ پیش کیا جائے گا وہ بھی اعزاز کے ساتھ پیش ہوگا وہاں ہمیشہ مکرم اور معزز ہی رہیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45:۔ تحیتہم الخ، جس طرح اللہ تعالیٰ دنیا میں مومنوں پر مہربان ہے اسی طرح آخرت میں بھی مومنوں پر مہربان ہوگا اور قیامت کے دن اللہ کے حکم سے فرشتے اسکا استقبال کریں گے اور عذاب جہنم سے ان کو امن و سلامتی کی خوشخبری سنائی گے اور وہ اللہ کی طرف سے بہت عمدہ صلہ پائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

44۔ جس دن مسلمان اللہ تعالیٰ سے ملاقات کریں گے تو اس کی طرف سے السلام علیکم کا تحفہ اور دعا عطا کی جائے گی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے با عزت صلہ اور اجر تیار کر رکھا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اللہ ان پر سلام بھیجے گا اور آپس میں بھی یہی دعا ہے اور ہوگی ۔ 12 یعنی قیامت میں جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات کریں گے یا مرتے وقت جب ملک الموت کے ہمراہ فرشتے سلام کرتے ہیں یا قبر سے اٹھتے وقت فرشتے سلامتی کا پیام اور بشارت دیں گے یا آپس میں دخول جنت کے بعد السلام علیکم کہتے ہوں گے۔ مفسرین کے کئی قول ہیں راجح وہی ہے جو ہم نے اختیار کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی جانب سے مؤمنین کیلئے سلام کا تحفہ عطا ہوگا ۔ ابن عطا نے فرمایا یہ تحفہ بلا واسطہ ہوگا ۔ ؎ سلامت من دل خستہ در سلام تو باشد رہے سعادت اگر دولت سلام تو یا بم