Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 6

سورة الأحزاب

اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ ؕ وَ اُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلٰی بِبَعۡضٍ فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ تَفۡعَلُوۡۤا اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِکُمۡ مَّعۡرُوۡفًا ؕ کَانَ ذٰلِکَ فِی الۡکِتٰبِ مَسۡطُوۡرًا ﴿۶﴾

The Prophet is more worthy of the believers than themselves, and his wives are [in the position of] their mothers. And those of [blood] relationship are more entitled [to inheritance] in the decree of Allah than the [other] believers and the emigrants, except that you may do to your close associates a kindness [through bequest]. That was in the Book inscribed.

پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں اور رشتہ دار کتاب اللہ کی رو سے بہ نسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حقدار ہیں ( ہاں ) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو یہ حکم کتاب ( الٰہی ) میں لکھا ہوا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Loyalty to the Prophet ; and his wives are Mothers of the Believers Allah tells us how His Messenger is merciful and sincere towards his Ummah, and how he is closer to them than they are to themselves. His judgement or ruling takes precedence over their own choices for themselves, as Allah says: فَلَ وَرَبِّكَ لاَ يُوْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِى أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً But no, by your Lord, they can have no faith, until they make you judge in all disputes between them, and find in themselves no resistance against your decisions, and accept with full submission. (4:65) In the Sahih it says: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَا يُوْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِين By the One in Whose Hand is my soul, none of you truly believes until I am dearer to him than his own self, his wealth, his children and all the people. It was also reported in the Sahih that Umar, may Allah be pleased with him, said: "O Messenger of Allah, by Allah, you are dearer to me than everything except myself." He said, لاَا يَا عُمَرُ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِك No, O Umar, not until I am dearer to you than yourself. Umar said: "O Messenger of Allah, by Allah, now you are dearer to me than everything, even myself." He said, الاْنَ يَاعُمَر Now, O Umar (you have got it right). Allah says in this Ayah: النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُوْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ... The Prophet is closer to the believers than themselves, Concerning this Ayah, Al-Bukhari narrated from Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, that the Prophet said: مَا مِنْ مُوْمِنٍ إِلاَّ وَأَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالاْاخِرَةِ اقْرَوُوا إِنْ شِيْتُمْ There is no believer except I am the closest of all people to him in this world and in the Hereafter. Recite, if you wish: النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُوْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ (The Prophet is closer to the believers than themselves). فَأَيُّمَا مُوْمِنٍ تَرَكَ مَالاًأ فَلْيَرِثْهُ عُصْبَتُهُ مَنْ كَانُوا وَإِنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضِيَاعًا فَلْيَأْتِنِي فَأَنَا مَوْلاَأه If any believer leaves behind any wealth, let his own relatives inherit it, but if he leaves behind any debt or orphans, bring them to me and I will take care of them. This was recorded only by Al-Bukhari, and he also recorded it in the Book of Loans. ... وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ... and his wives are their mothers. means, they are unlawful for marriage. In terms of honor, respect and veneration, it is not permissible for them to be alone with them, and the prohibition of marriage to them does not extend to their daughters and sisters, according to scholarly consensus. ... وَأُوْلُو الاْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُوْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ ... And blood relations among each other have closer personal ties in the decree of Allah than the believers and the Muhajirin, This is an abrogation of the rule that existed previously, whereby they could inherit from one another by virtue of the oath of brotherhood among them. Ibn Abbas and others said: "A Muhajir would inherit from an Ansari even though they were not related by blood, because of the brotherhood established between them by the Messenger of Allah." This was also stated by Sa`id bin Jubayr and others among scholars of the earlier and later generations. ... إِلاَّ أَن تَفْعَلُوا إِلَى أَوْلِيَايِكُم مَّعْرُوفًا ... except that you do kindness to those brothers. means, the idea of inheriting from one another has gone, but there remains the duty to offer support and kindness, to uphold ties of brotherhood and to offer good advice. ... كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا This has been written in the Book. This ruling, which is that those who are blood relatives have closer personal ties to one another, is a ruling which Allah has decreed and which is written in the First Book which cannot be altered or changed. This is the view of Mujahid and others. (This is the case) even though Allah legislated something different at certain times, and there is wisdom behind this, for He knew that this would be abrogated and the original ruling that was instituted an eternity ago would prevail, and this is His universal and legislative decree. And Allah knows best.

تکمیل ایمان کی ضروری شرط چونکہ رب العزت وحدہ لاشریک کو علم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر خود ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ مہربان ہیں ۔ اس لئے آپ کو ان کی اپنی جان سے بھی انکا زیادہ اختیاردیا ۔ یہ خود اپنے لئے کوئی تجویز نہ کریں بلکہ ہر حکم رسول کو بدل وجان قبول کرتے جائیں جیسے فرمایا آیت ( فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65؀ ) 4- النسآء:65 ) ، تیرے رب کی قسم یہ مومن نہ ہونگے جب تک کہ اپنے آپس کے تمام اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں اور تیرے تمام تر احکام اور فیصلوں کو بدل وجان بکشادہ پیشانی قبول نہ کرلیں ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی باایمان نہیں ہوسکتا ۔ جب تک کہ میں اسے اس کے نفس سے اس کے مال سے اسکی اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔ ایک اور صحیح حدیث میں ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یارسول اللہ آپ مجھے تمام جہان سے زیادہ محبوب ہیں لیکن ہاں خود میرے اپنے نفس سے ۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں عمر جب تک کہ میں تجھے خود تیرے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں ۔ یہ سن کر جناب فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے قسم اللہ کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے ہر چیز سے یہاں تک کہ میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں آپ نے فرمایا اب ٹھیک ہے ۔ بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمام مومنوں کا زیادہ حقدار دنیا اور آخرت میں خود ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ میں ہوں ۔ اگر تم چاہو تو پڑھ لو آیت ( اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا Č۝ ) 33- الأحزاب:6 ) سنو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے اس کا مال تو اس کے وارثوں کا حصہ ہے ۔ اور اگر کوئی مرجائے اور اسکے ذمہ قرض ہو یا اس کے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہوں تو اس کے قرض کی ادائیگی کا میں ذمہ دار ہوں اور ان بچوں کی پرورش میرے ذمے ہے ۔ پھر فرماتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات حرمت اور احترام میں عزت اور اکرام میں بزرگی اور عظام میں تمام مسلمانوں میں ایسی ہیں جیسی خود کی اپنی مائیں ۔ ہاں ماں کے اور احکام مثلا خلوت یا ان کی لڑکیوں اور بہنوں سے نکاح کی حرمت یہاں ثابت نہیں گو بعض علماء نے ان کی بیٹیوں کو بھی مسلمانوں کی بہنیں لکھاہے جیسے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے مختصر میں نصاً فرمایا ہے لیکن یہ عبارت کا اطلاق ہے نہ حکم کا اثبات ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کو جو کسی نہ کسی ام المومنین کے بھائی تھے انہیں ماموں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تو کہا ہے کہہ سکتے ہیں ۔ رہی یہ بات کہ حضور صلي الله عليه وسلم کو ابو المومنین بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ خیال رہے کہ ابو المومنین کہنے میں مسلمان عورتیں بھی آجائیں گی جمع مذکر سالم میں باعتبار تغلیب کے مونث بھی شامل ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے کہ نہیں کہہ سکتے امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قولوں میں بھی زیادہ صحیح قول یہی ہے ۔ ابی بن کعب اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی قرأت میں امھاتھم کے بعد یہ لفظ ہیں وھو اب لھم یعنی آپ ان کے والد ہیں ۔ مذہب شافعی میں بھی ایک قول یہی ہے ۔ اور کچھ تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا میں تمہارے لے قائم مقام باپ کے ہوں میں تمہیں تعلیم دے رہا ہوں سنو تم میں سے جب کوئی پاخانے میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرکے نہ بیٹھے ۔ نہ اپنے داہنے ہاتھ سے ڈھیلے لے نہ داہنے ہاتھ سے استنجاکرے ۔ آپ تین ڈھیلے لینے کا حکم دیتے تھے اور گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے کی ممانعت فرماتے تھے ( نسائی وغیرہ ) میں دوسرا قول یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو باپ نہ کہا جائے کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت ( مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا 40؀ۧ ) 33- الأحزاب:40 ) حضور تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ بہ نسبت عام مومنوں مہاجرین اور انصار کے ورثے کے زیادہ مستحق قرابتدار ہیں ۔ اس سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار میں جو بھائی چارہ کرایا تھا اسی کے اعتبار سے یہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے اور قسمیں کھا کر ایک دوسروں کے جو حلیف بنے ہوئے تھے وہ بھی آپس میں ورثہ بانٹ لیا کرتے تھے ۔ اس کو اس آیت نے منسوخ کردیا ۔ پہلے اگر انصاری مرگیا تو اس کے وارث اس کی قرابت کے لوگ نہیں ہوتے تھے بلکہ مہاجر ہوتے تھے جن کے درمیان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی چارہ کرادیا تھا ۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ یہ حکم خاص ہم انصاری ومہاجرین کے بارے میں اترا ہم جب مکہ چھوڑ کر مدینے آئے تو ہمارے پاس مال کچھ نہ تھا یہاں آکر ہم نے انصاریوں سے بھائی چارہ کیا یہ بہترین بھائی ثابت ہوئے یہاں تک کہ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کے مال کے وارث بھی ہوتے تھے ۔ حضرت ابو بکر کا بھائی چارہ حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فلاں کے ساتھ ۔ حضرت عثمان کا ایک زرقی شخص کے ساتھ ۔ خود میرا حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ۔ یہ زخمی ہوئے اور زخم بھی کاری تھے اگر اس وقت ان کا انتقال ہوجاتا تو میں بھی ان کا وارث بنتا ۔ پھر یہ آیت اتری اور میراث کا عام حکم ہمارے لئے بھی ہوگیا ۔ پھر فرماتا ہے ورثہ تو ان کا نہیں لیکن ویسے اگر تم اپنے مخلص احباب کے ساتھ سلوک کرنا چاہو تو تمہیں اخیتار ہے ۔ وصیت کے طور پر کچھ دے دلا سکتے ہو ۔ پھر فرماتا ہے اللہ کا یہ حکم پہلے ہی سے اس کتاب میں لکھا ہوا تھا جس میں کوئی ترمیم وتبدیلی نہیں ہوئی ۔ بیچ میں جو بھائی چارے پر ورثہ بٹتا تھا یہ صرف ایک خاص مصلحت کی بنا پر خاص وقت تک کے لئے تھا اب یہ ہٹا دیا گیا اور اصلی حکم دے دیا گیا واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61نبی اپنی امت کے لئے جتنے شفیق اور خیر خواہ تھے، محتاج وضاحت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس شفقت اور خیر خواہی کو دیکھتے ہوئے اس آیت میں آپکو مومنوں کے اپنے نفس سے بھی زیادہ حق دار، آپ کی محبت کو دیگر تمام محبتوں سے فائق تر اور آپ کے حکم کو اپنی تمام خواہشات سے اہم قرار دیا ہے۔ اس لئے مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ آپ ان کے جن مالوں کا مطالبہ اللہ کے لئے کریں، وہ آپ پر نچھاور کردیں چاہے انھیں خود کتنی ہی ضرورت ہو۔ آپ سے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ محبت کریں (جیسے حضرت عمر کا واقعہ ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو سب پر مقدم اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو سب سے اہم سمجھیں۔ جب تک یہ خود سپردگی نہیں ہوگی (فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤمِنُوْنَ ) (النساء۔65 کے مطابق آدمی مومن نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب تک آپ کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی وہ صحیح مومن نہ ہوگا۔ 62یعنی احترام و تکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں 63یعنی اب مہاجرت، اخوت کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہوگی۔ 64ہاں غیر رشتہ داروں کے لئے احسان اور بر و صلہ کا معاملہ کرسکتے ہو، نیز ان کے لئے ایک تہائی مال میں وصیت بھی کرسکتے ہو۔ 65یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے، گو عارضی طور پر مصلحتًا دوسروں کو بھی وارث قرار دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کردیا جائے گا۔ چناچہ اسے منسوخ کر کے پہلا حکم بحال کردیا ہے۔ اسی طرح جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی تو لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ۔ کی رو سے مومن نہیں، ٹھیک اسی طرح اطاعت رسول میں کوتاہی بھی لا یومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ کا مصداق بنا دے گی۔ 62یعنی احترام و تکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں۔ 63یعنی اب مہاجرت، اخوت اور موالات کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہی ہوگی۔ 64ہان تم غیر رشتے داروں کے لیے احسان اور بر و صلہ کا معاملہ کرسکتے ہو، نیز انکے لیے ایک تہائی مال میں سے وصیت بھی کرسکتے ہو۔ 65یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے گو عارضی طور پر مصلحتا دوسروں کو بھی وارث قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کردیا جائے گا۔ چناچہ اسے منسوخ کر کے پہلا حکم بحال کردیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] آپ مومنوں کے ان کی ذات سے بھی زیادہ خیر خواہ ہیں :۔ اس آیت کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک مطلب یہ ہے کہ تم خود بھی اپنے اتنے خیر خواہ نہیں ہوسکتے جتنا کہ نبی تمہارا خیر خواہ ہے۔ پھر اس کے بھی دو پہلو ہیں ایک دینی دوسرا دنیوی۔ دینی لحاظ سے آپ کی تمام امت کو آپ ہی کی وساطت سے ہدایت کا راستہ ملا جس میں ہماری دنیوی اور اخروی فلاح ہے۔ آپ ہمارے معلم بھی ہیں اور مربی بھی، اس لحاظ سے آپ تمام امت کے روحانی باپ بھی ہوئے اور روحانی استاد بھی۔ اور دنیوی پہلو میں آپ کی سب سے زیادہ خیرخواہی درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : && جتنے بھی مومن ہیں میں ان سب کا دنیا اور آخرت کے کاموں میں سب لوگوں سے زیادہ حقدار (اور خیر خواہ) ہوں۔ جو مومن مرتے وقت مال و دولت چھوڑ جائے اس کے وارث اس کے عزیز و اقارب ہوں گے جو بھی ہوں اور اگر وہ کچھ قرضہ یا چھوٹے چھوٹے بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں میں ان کا کام چلانے والا ہوں && (بخاری۔ کتاب التفسیر) خ تمام لوگوں سے بڑھ کر آپ سے محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا :۔ اور آپ کی اس حد درجہ کی خیرخواہی کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلمان بھی آپ کا دوسرے سب لوگوں سے بڑھ کر احترام کریں اور ان کی اطاعت کریں تاکہ آپ کی تعلیم و تربیت سے پوری طرح فیض یاب ہوسکیں اور اس پہلو پر درج ذیل احادیث روشنی ڈالتی ہیں : ١۔ سیدنا انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : && تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو میری محبت، اولاد، والدین اور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو && (مسلم، کتاب الایمان۔ باب وجوب محبۃ رسول اللہ ) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ && کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہش نفس کو اس چیز کے تابع نہ کر دے جو میں لایا ہوں && (شرح السنتہ۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ۔ فصل ثانی) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن ہشام فرماتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ تھے اور آپ سیدنا عمر کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدنا عمر (رض) کہنے لگے : یارسول اللہ آپ میرے نزدیک اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے محبوب ہیں۔ آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں، تم مومن نہیں ہوسکتے && سیدنا عمر نے عرض کیا : اللہ کی قسم ! اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں && آپ نے فرمایا : && اب اے عمر !&& (یعنی اب تم صحیح مسلم ہو) (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کان یمین النبی ) [٩] جب نبی روحانی باپ ہوا تو اس کی بیویاں روحانی مائیں ہوئیں۔ یا جب نبی کی بیویاں امت کی مائیں ہیں تو نبی ان کا باپ ہوا۔ لیکن ازواج النبی صرف احترام کے پہلو میں امت کی مائیں ہیں اور ان سے کوئی شخص رسول اللہ کی وفات کے بعد نکاح بھی نہیں کرسکتا اور باقی احکام بدستور رہیں گے۔ مثلاً وہ مومنوں سے باقاعدہ پردہ کریں گی اور وہ انھیں اجنبی ہی سمجھیں گی نہ ہی وہ کسی امتی کی وراثت میں دعویدار بن سکتی ہیں۔ وغیرہ۔ [١٠] مؤاخات اور وراثت :۔ جب رسول اللہ اور دوسرے مسلمان ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو ایک نہایت اہم مسئلہ مہاجرین کی آبادکاری اور ان کے ذریعہ معاش کا بھی تھا۔ جو اس نوزائیدہ مسلم ریاست کے لئے فوری طور پر حل طلب تھا۔ آپ نے اس نازک مسئلہ کے حل میں نہایت دانشمندی سے کام لیا۔ اور ایک مہاجر کو ایک انصاری کے ساتھ ملا کر اس کی آبادی اور اس کے معاش کی ذمہ داری اس پر ڈال دی۔ اس ذمہ داری کو انصار نے بڑی فراخدلی سے قبول کیا۔ اس سلسلہ کو مؤاخات کہتے ہیں۔ آپ نے سیدنا انس بن مالک (رض) کے گھر میں مختلف اوقات کی تین مجالس میں تقریباً تنتالیس مہاجرین کو اتنے ہی انصار کا بھائی بنادیا۔ اس طرح عارضی طور پر مہاجرین کی آباد کاری اور معاش کا مسئلہ حل ہوگیا۔ پھر یہ بھائی چارہ اس حد تک بڑھا کہ وہ ایک دوسرے کے وارث اور ولی قرار پاگئے۔ مہاجر کی وراثت اس کے انصاری بھائی کو ملتی تھی اور انصاری کی اس کے مہاجر بھائی کو۔ پھر جب مسلمانوں کی معاشی حالت نسبتاً بہتر ہوگئی تو اس عارضی قانون کو ختم کردیا گیا اور اصل وارث قریبی رشتہ دار ہی قرار پائے۔ ہاں ان بھائیوں سے حق وراثت کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بہتر سلوک کی اجازت دی گئی۔ مثلاً کوئی شخص ان کے حق میں وصیت کرسکتا ہے۔ اپنی زندگی میں مالی امداد اور ہبہ کرسکتا ہے۔ تحفے تحائف دے سکتا ہے۔ [١١] یعنی مؤاخات کے بھائیوں کو ایک دوسرے کا وارث بنادینا ایک عارضی قانون تھا۔ مستقل قانون شریعت یہی ہے کہ وراثت کے حقدار قرابتدار ہی ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ : پچھلی آیات میں منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام کے ساتھ پکارنے کا حکم دیا، جس میں زید (رض) کو زید بن محمد کے بجائے زید بن حارثہ کہنا بھی شامل تھا، تو ضروری تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مسلمانوں سے تعلق واضح کیا جائے کہ باپ کی طرف نسبت کی تاکید کو دیکھ کر باپ کے تعلق کو نبی کے تعلق سے زیادہ اہم نہ سمجھ لینا، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تمہارا جو تعلق ہے وہ باپ ہی نہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ قرب کا ہے۔ اَلنَّبِيُّ ‘ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ” یہ نبی “ کیا گیا ہے۔ ” اَوْلٰى“ کا معنی ” أَقْرَبُ “ (زیادہ قریب) بھی ہے اور ” أَحَقُّ “ (زیادہ حق رکھنے والا) بھی۔ یہاں اگر معنی ” أَقْرَبُ “ کیا جائے تو مطلب یہ ہے کہ کسی قرابت دار کا قرب آدمی کے ساتھ اتنا نہیں جتنا قرب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایمان والوں کے ساتھ ہے۔ اس قرب سے مراد تعلق کا قرب ہے نہ کہ جسمانی قرب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر وقت ہر مومن کے ساتھ اس کی جان سے بھی زیادہ قریب رہتے ہوں۔ بلکہ جس طرح تمام قرابت دار جہاں بھی ہوں ان کا آپس میں نسبی قرب اور تعلق قائم رہتا ہے، اسی طرح مومن جہاں بھی ہو اس کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت تمام رشتہ داروں حتیٰ کہ اس کی اپنی جان کی قرابت سے بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ اس کے رشتہ دار، حتیٰ کہ اس کا نفس بھی بعض اوقات اسے نقصان پہنچا سکتا ہے، جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے لیے خیر ہی خیر کا باعث ہیں۔ مگر یہاں ” أَحَقُّ “ کا معنی زیادہ مناسب ہے، بلکہ ” أَقْرَبُ “ سے مراد بھی ” أَحَقُّ “ (زیادہ حق دار) ہی ہے، یعنی اس قرب کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ حق رکھنے والے ہیں، کیونکہ اس کے متصل بعد رشتہ داروں کے بارے میں یہی لفظ فرمایا : (وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ ) یعنی رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق اس کے تمام رشتہ داروں سے، حتیٰ کہ اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” نبی نائب ہے اللہ کا، اپنی جان مال میں اپنا تصرف (اتنا) نہیں چلتا جتنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا۔ اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنی روا نہیں اور نبی حکم کرے تو فرض ہے۔ “ (موضح) آگے اسی سورت میں فرمایا : (وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا ) [ الأحزاب : ٣٦ ] ” اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا، واضح گمراہ ہونا۔ “ اپنی جان سے بھی زیادہ حق رکھنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اپنی ذات سے بھی بڑھ کر آپ کا حکم مانا جائے۔ ایک طرف دنیا جہاں کے کسی بھی شخص، حتیٰ کہ اپنی ذات کا تقاضا ہو، دوسری طرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہو تو آپ کے فرمان کو ترجیح دی جائے، اور یہ بات بھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کی جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ ! لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَ وَلَدِہِ وَ النَّاسِ أَجْمَعِیْنَ ) [ بخاري، الإیمان، باب حب الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الإیمان : ١٤، ١٥، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اس کے لیے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ “ ایک دفعہ عمر (رض) نے کہا : ” یا رسول اللہ ! آپ مجھے میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لاَ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ ! حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْکَ مِنْ نَفْسِکَ ) ” نہیں (اے عمر ! ) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب تک میں تیرے لیے تیری جان سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ “ تو عمر (رض) نے کہا : ( فَإِنَّہُ الْآنَ ، وَاللّٰہِ ! لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِيْ ) ” اب اللہ کی قسم ! آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْآنَ یَا عُمَرُ ! ) ” اب، اے عمر ! “ [ بخاري، الأیمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ : ٦٦٣٢ ] امام بخاری (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث بیان فرمائی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلاَّ وَأَنَا أَوْلٰی بِہِ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ، اقْرَءُ وْا إِنْ شِءْتُمْ : (اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ) [ الأحزاب : ٦ ] فَأَیُّمَا مُؤْمِنٍ مَاتَ وَتَرَکَ مَالاً فَلْیَرِثْہُ عَصَبَتُہُ مَنْ کَانُوْا، وَمَنْ تَرَکَ دَیْنًا أَوْ ضَیَاعًا فَلْیَأْتِنِيْ فَأَنَا مَوْلاَہُ ) [ بخاري، الاستقراض، باب الصلاۃ علی من ترک دینا : ٢٣٩٩، عن أبي ہریرۃ (رض) ] ” جو بھی مومن ہے، میں دنیا اور آخرت میں اس پر زیادہ حق رکھنے والا، یا سب سے زیادہ اس سے قرب رکھنے والا ہوں، چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : (اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ) تو جو مومن کوئی مال چھوڑ جائے اس کے وارث اس کے عصبہ ہوں گے، جو بھی ہوں اور جو کوئی قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو (اس کا وارث) میرے پاس آئے، میں اس کا ولی ہوں۔ “ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس خصوصیت کی بنا پر جو اوپر ذکر ہوئی، ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی مائیں نہیں، مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ مائیں ہونے سے مراد ان کی تعظیم و تکریم ہے اور یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ان سے نکاح جائز نہیں۔ دوسرے احکام مثلاً ، خلوت، پردہ، ان کی اولاد سے شادی وغیرہ میں وہ ان کی ماں کی طرح نہیں۔ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ ۔۔ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین کی آبادکاری اور معاشی ضرورتوں کے لیے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنادیا، اسے مؤاخات کہتے ہیں۔ یہ بھائی چارہ اتنا بڑھا کہ وہ ایک دوسرے کے وارث اور ولی قرار پا گئے۔ فوت ہونے پر مہاجر کی میراث رشتہ داروں کے بجائے اس کے انصاری بھائی کو ملتی اور انصاری کی میراث مہاجر کو ملتی۔ سورة احزاب کی اس آیت میں اس کے منسوخ ہونے کا حوالہ دیا گیا۔ دیکھیے سورة انفال (٧٢ تا ٧٤) یہاں ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے کہ منہ کے ساتھ کہنے سے نہ کوئی ماں بنتی ہے، نہ بیٹا، نہ ہی بھائی، اس لیے اب وراثت کے زیادہ حق دار رشتے کے بھائی ہیں، نہ کہ حلیف ہونے یا عقد مؤاخات کی وجہ سے بننے والے بھائی۔ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا : یعنی اپنے مومن یا مہاجر بھائیوں کے ساتھ میراث کے سوا کوئی نیکی کرو تو درست ہے، مثلاً زندگی میں ان سے احسان والا سلوک کرو، انھیں ہدیہ وغیرہ دو ، مرنے کے بعد ان کے حق میں ثلث تک وصیت کر جاؤ، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا : یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے، گو لوگوں نے دوسروں کو وارث بنانے کا رواج بنا لیا تھا، مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ ہوگا، اس لیے اسے منسوخ کر کے اصل حکم بحال کردیا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم کتاب اللہ، یعنی قرآن مجید میں پہلے لکھا جا چکا ہے، کیونکہ یہ حکم سورة انفال (٧٢ تا ٧٤) میں نازل ہوا جو سورة احزاب سے پہلے نازل ہوئی۔ (ابن عاشور)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary As stated earlier, most of the subjects in Surah al-Ahzab relate to the reverence of the Holy Prophet t and to the unlawfulness of causing pain to him. After the mention of pains caused to him by disbelievers and hypocrites at the beginning of the Surah, some instructions were given to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) following which three customs of the Jahiliyyah were refuted. Out of these, the last custom related to such a pain inflicted on the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) because the disbelievers had - at the time of the marriage of Sayyidah Zainab (رض) the divorced wife of Sayyidna Zayd, and on the basis of their pagan custom of mutabanna - blamed the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) of having married the divorced wife of his &son.& Thus, from the beginning of the Surah up to this point, the subject concerned the pain caused to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . In the present verse (6), it has been stated that the reverence of and the obedience to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) more than the whole creation is wajib (necessary in the degree of obligation) The meaning of the expression: |"The Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is closer to the believers than their own selves|" mentioned by Maulana Thanavi is based on the saying of Ibn ` Atiyyah and others which has been opted for by al-Qurtubi and most commentators. According to it, every Muslim is duty-bound to obey and implement the command of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، more than the command of his parents. If one&s parents oppose any command of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، their obedience in that matter is not permissible. Similarly, the implementation of his command takes precedence even over the pulls of one&s own desiring self. In a hadith of Sayyidna Abu Hurairah (رض) appearing in the Sahih of al-Bukhari and others, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: مَا مِن مُّؤمِنٍ اِلَّا وَ انَا اَولَی النَّاسِ بِہٖ فِی الدُّنیَا وَ الاٰخِرَۃِ اِقرَءُوٓا اِن شِٔتُم اَلنَّبِیُّ اَولٰی بِالمُؤمِنِیںَ مِن اَنفُسِھِم There is no such believer for whom I am not the closest of all people in this world and in the world to come. Read if you wish (this verse of the Qur&an to confirm):... (The Prophet is ...). The sense of the statement is that his affection for every Muslim exceeds the affection of the whole world and, as such, the necessary outcome has to be no other but that every believer holds him dearer than anyone else - which is something also said in another hadith: لَا یُؤمِن اَحَدُکُم حَتَّی اَکُونَ اَحَبَّ اِلَیہِ مَن وَّالَدَہٖ وَ وَلَدَہٖ وَ النَّاس، اَجمَعِین None of you can become a believer until I become the dearest one to him, dearer than his father, and his son, and the whole world full of people/and the rest of the human beings, all of them. (Al-Bukhari and Muslim - Mazhari) Said in the following sentence of the verse was: وَ اَزوَاجُہُ اُمَّھَاتُھُم (and his wives are your mothers). Here, the reference to the blessed wives of the Holy Prophet as mothers of the Muslim community means being mothers in terms of their respect and honor. Injunctions relating to the mother and her children, and those of the forbiddance of marriage, and of the absence of hijab due to having the status of a mahram, and of holding a share in the inheritance are injunctions which have nothing to do with it - as made explicit towards the end of the verse. As for the forbiddance of the marriage of the blessed wives with anyone in the Muslim community, this has been declared in a separate verse. Therefore, it is not necessary that even this forbiddance of marriage may be for the reason of being mothers. Ruling The cited verse proves that the least breach of etiquette in the case of anyone of the blessed wives (رض) is forbidden for two reasons: (1) That they are the mothers of the Muslim community and (2) also because any pain caused to them would cause pain to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - which is forbidden in a far too extreme a degree. The literal sense of the expression: اُولُوا الاَرحاَم (ulu &l-arham) in the next sentence of the verse: اُولُوا الاَرحاَم بَعضُھُم اَولٰی بِبَعضٍ (And those having mutual kinship are closer to one another (for the purpose of inheritance) than (other) believers and emigrants) covers all relatives, whether they are those whom Muslim jurists call by the name of: عصبَات (` asbat: agnates) or those who are juxtaposed as اُولُوا الاَرحاَم |"ulu &l-arham|" against |"` asbat|" in the light of a particular terminology. This terminology used by Muslim jurists, a later day product, is not what is meant here in the Holy Qur&an. Thus, it means that the relationship of the revered rasul and his blessed wives with the believers of the community is, though of a degree which precedes even that of a mother and father but, on the injunctions relating to the distribution of inheritance, this has simply no bearing. This inheritance, in fact, will be distributed only on the basis of lineal and closer relationships. In the early stage of Islam, entitlement to shares in the inheritance was based on spiritual relationship. Later on, it was abrogated in favour of closeness of relationships which has been announced by the noble Qur&an itself. This entire detail of the abrogating and the abrogated verses has appeared in Surah al-Anfal (Ma’ ariful-Qur&an, Volume IV). And in that context, the mention of وَالمُھَاجِرِین (and the emigrants) after: مِنَ المُؤمِنِین (and the believers) is there to highlight their distinction. And some early commentators have said that, at this place, the Believers (&al-mu&minin& ) mean the Ansar and the Emigrants (Muhajirin) mean the Quraish. When placed in contrast with the Muhajirin, it becomes clear that the word: &al-mu&minin& (the believers) is for the Ansar. In that case, this verse will be an abrogator of the rule of inheritance on the basis of the Hijrah (تورات بالھجرۃ) because, during the early stage of Hijrah, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had, by establishing brotherly relations between the Muhajirin and the Ansar, ordered that they will also inherit from each other. This verse abrogated that rule of &inheritance by virtue of Hijrah& (Qurtubi) Soon thereafter, it was stated: إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُ‌وفًا (unless you do some good to your friends (by making a will in their favour - 6). In other words, this means that inheritance as such will be received only on the basis of relationship - anyone unrelated will not be an inheritor - but, there may be people with whom you relate as your brothers in faith. If you wish to give them something, you have the right to do so. You could do so within your lifetime and give it to them as a gift, and it is also possible to make a will in their favour so that they get it after your death.

خلاصہ تفسیر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنین کے ساتھ تو ان کے نفس (اور ذات) سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں (کیونکہ انسان کا نفس تو کبھی اس کو نفع پہنچاتا ہے کبھی نقصان، کیونکہ اگر نفس اچھا ہے اچھے کاموں کی طرف چلتا ہے تو نفع ہے اور برے کاموں کی طرف چلنے لگے تو خود اپنا نفس ہی اپنے لئے مصیبت بن جاتا ہے، بخلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہ آپ کی تعلیم نفع ہی نفع اور خیر ہی خیر ہے۔ اور اپنا نفس اگر اچھا بھی ہو اور نیکی ہی کی طرف چلتا ہو پھر بھی اس کا نفع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نفع کے برابر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اپنے نفس کو تو خیر و شر اور مصلحت و مضرت میں مغالطہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کو مصالح و مضار کا پورا علم بھی نہیں، بخلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہ آپ کی تعلیمات میں کسی مغالطہ کا خطرہ نہیں۔ اور جب نفع رسانی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری جان اور ہمارے نفس سے بھی زیادہ ہیں تو ان کا حق ہم پر ہماری جان سے زیادہ ہے اور وہ حق یہی ہے کہ آپ کے ہر کام میں اطاعت کریں اور آپ کی تعظیم و تکریم تمام مخلوق سے زیادہ کریں) اور آپ کی بیبیاں ان (مومنین) کی مائیں ہیں (یعنی مذکورہ تقریر سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنین کے لئے روحانی باپ ہیں جو ان کی اپنی ذات سے بھی زیادہ ان پر شفیق و مہربان ہیں، اسی مناسبت سے آپ کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہوگئیں یعنی تعظیم و تکریم میں ان کا حق ماؤں کی طرح ہے۔ اس آیت نے ازواج مطہرات کو صراحتہ امت کی مائیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اشارةً امت کے روحانی باپ قرار دے دیا، تو اس سے بھی اس طرح کا ایک التباس اور اشتباہ ہوسکتا تھا جس طرح کا اشتباہ متبنیٰ کو اس کے غیر حقیقی باپ کی طرف منسوب کرنے میں ہوتا تھا، جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا تھا کہ امت کے مسلمان سب آپس میں حقیقی بہن بھائی ہوجائیں تو ان کے آپس میں نکاح کا تعلق حرام ہوجائے، اور میراث کے احکام میں بھی ہر مسلمان دوسرے کا وارث قرار دیا جائے۔ اس التباس کو دور کرنے کے لئے آخر آیت میں فرمادیا (آیت) ، واولوا الا رحام بعضہم اولیٰ ببعض فی کتب اللہ الایة یعنی) رشتہ دار کتاب اللہ (یعنی حکم شرعی) میں ایک دوسرے سے (میراث کا) زیادہ تعلق رکھتے ہیں، بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے مگر یہ کہ تم اپنے (ان) دوستوں سے (بطور وصیت کے) کچھ سلوک کرنا چاہو تو وہ جائز ہے، یہ بات لوح محفوظ میں لکھی جا چکی ہے، (کہ ابتداء ہجرت میں ایمانی اخوت کی بنا پر مہاجرین کو انصار کی میراث کا حق دار بنادیا گیا تھا مگر بالآخر تقسیم میراث رشتہ داری اور ارحام کی بنیاد پر رہے گی) معارف مسائل جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے سورة احزاب میں بیشتر مضامین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور آپ کی ایذا رسانی کے حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ شروع سورة میں مشرکین و منافقین کی ایذاؤں کا ذکر کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایات دی گئی تھیں۔ اس کے بعد جاہلیت کی تین رسموں کا ابطال کیا گیا جن میں آخری رسم کا تعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء سے تھا کیونکہ کفار نے حضرت زید کی مطلقہ بی بی زینب سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح کے وقت اسی اپنی جاہلانہ رستم متبنیٰ کی بنا پر آپ پر یہ الزام لگایا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرلیا۔ اس طرح شروع سورة سے یہاں تک ایذاء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق مضمون تھا، اس آیت مذکورہ میں آپ کی تعظیم و اطاعت تمام مخلوق سے زیادہ واجب ہونا بیان کیا گیا ہے۔ (آیت) النبی اولیٰ بالمومنین، اولیٰ بالمومنین کا جو مطلب خلاصہ تفسیر میں بیان کیا گیا ہے وہ ابن عطیہ وغیرہ کا قول ہے جس کو قرطبی اور اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ آپ کا حکم ہر مسلمان کے لئے اپنے ماں باپ سے بھی زیادہ واجب التعمیل ہے۔ اگر ماں باپ آپ کے کسی حکم کے خلاف کہیں ان کا کہنا ماننا جائز نہیں، اسی طرح خود اپنے نفس کی تمام خواہشات پر بھی آپ کے حکم کی تعمیل مقدم ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یعنی کوئی مومن ایسا نہیں جس کے لئے میں دنیا و آخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اولیٰ اور اقرب نہ ہوں، اگر تمہارا دل چاہے تو اس کی تصدیق کے لئے قرآن کی یہ آیت پڑھ لو، (آیت) النبی اولیٰ بالمومنین۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ میں ہر مومن مسلمان پر ساری دنیا سے زیادہ شفیق و مہربان ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ اس کا لازمی اثر ہونا چاہئے کہ ہر مومن کو آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت سب سے زیادہ ہو۔ جیسا کہ حدیث میں یہ بھی ارشاد ہے : ” یعنی تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے دل میں میری محبت اپنے باپ، بیٹے اور سب انسانوں سے زیادہ نہ ہوجائے۔ “ وازواجہ امہاتہم، ازواج مطہرات کو امت کی مائیں فرمانے سے مراد تعظیم و تکریم کے اعتبار سے مائیں ہونا ہے۔ ماں اور اولاد کے دوسرے احکام حرمت نکاح اور محرم ہونے کی وجہ سے باہم پردہ نہ ہونا اور میراث میں حصہ دار ہونا وغیرہ یہ احکام اس سے متعلق نہیں، جیسا کہ آخر آیت میں اس کو کھول دیا گیا ہے۔ اور ازواج مطہرات سے کسی امتی کا نکاح حرام ہونا وہ ایک مستقل آیت میں علیحدہ فرمایا گیا ہے۔ اس لئے یہ ضروری نہیں کہ یہ حرمت نکاح بھی مائیں ہونے کی وجہ سے ہو۔ مسئلہ : آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ ازواج مطہرات میں سے کسی کی شان میں کوئی ادنیٰ سی بےادبی اس لئے بھی حرام ہے کہ وہ امت کی مائیں ہیں، اور اس لئے بھی کہ ان کی ایذاء سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچے گی جو اشد درجہ کا حرام ہے۔ (آیت) واولوالارحام بعضہم اولیٰ ببعض، اولوالارحام کے لفظی معنی سب رشتہ داروں اور قرابت داروں کو شامل ہیں، خواہ وہ لوگ ہوں جن کو فقہاء عصبات کے نام سے تعبیر کرتے ہیں، یا وہ جن کو خاص اصطلاح کے اعتبار سے عصبات کے بالمقابل اولو الارحام کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ فقہی اصطلاح جو بعد میں اختیار کی گئی ہے مراد نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ رسول اور ان کی ازواج کا تعلق مومنین امت سے اگرچہ اس درجہ ہے کہ ماں باپ سے بھی مقدم ہے، مگر میراث کے احکام میں اس کا کوئی دخل نہیں بلکہ میراث نسبی اور قرابتی رشتوں کی بنیاد پر ہی تقسیم کی جائے گی۔ میراث کی حصہ داری شروع اسلام میں ایمانی اور روحانی رشتہ کی بنیاد پر تھی، بعد میں اس کو منسوخ کر کے قرابتی رشتوں کی بنیاد پر کردی گئی۔ جس کی تفصیل قرآن کریم نے خود بتلا دی ہے۔ یہ پوری تفصیل ناسخ اور منسوخ آیتوں کی سورة انفال میں گزر چکی ہے۔ اور من المومنین کے بعد المہاجرین کا ذکر اس صورت میں ان کا اختصاص و امتیاز بتلانے کے لئے ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہاں مومنین سے مراد انصار اور مہاجرین سے مراد قریش ہیں۔ مہاجرین کے تقابل سے مومنین کا لفظ انصار کے لئے ہونا معلوم ہوگیا۔ اس صورت میں یہ آیت توارث بالہجرة کے لئے ناسخ ہوگی۔ کیونکہ ابتداء ہجرت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات کرا کر ان کے باہم وراثت جاری ہونے کا بھی حکم دیا تھا، اس آیت نے اس توارث بالہجرة کو بھی منسوخ کردیا۔ (قرطبی) (آیت) الا ان تفعلوا الی اولیاء کم معروفاً ، یعنی وراثت تو صرف رشتہ داری کے تعلق سے ملے گی، غیر رشتہ دار وارث نہیں ہوگا۔ مگر ایمانی اخوت کی بنا پر جن لوگوں سے تعلق ہو ان کو کچھ دینا چاہو تو اس کا بہرحال اختیار ہے۔ اپنی زندگی میں بھی بطور ہدیہ تحفہ ان کو دے سکتے ہو اور موت کے بعد ان کے لئے وصیت بھی کرسکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ۝ ٠ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللہِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُہٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا۝ ٠ ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا۝ ٦ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ أَوْلَى ويقال : فلان أَوْلَى بکذا . أي أحری، قال تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ [ الأحزاب/ 6] ، إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ [ آل عمران/ 68] ، فَاللَّهُ أَوْلى بِهِما [ النساء/ 135] ، وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ [ الأنفال/ 75] وقیل : أَوْلى لَكَ فَأَوْلى[ القیامة/ 34] من هذا، معناه : العقاب أَوْلَى لک وبك، وقیل : هذا فعل المتعدّي بمعنی القرب، وقیل : معناه انزجر . ويقال : وَلِيَ الشیءُ الشیءَ ، وأَوْلَيْتُ الشیءَ شيئا آخرَ أي : جعلته يَلِيهِ ، والوَلَاءُ في العتق : هو ما يورث به، و «نهي عن بيع الوَلَاءِ وعن هبته» »، والمُوَالاةُ بين الشيئين : المتابعة . ۔ فلان اولیٰ بکذا فلاں اس کا زیادہ حق دار ہے قرآن میں ہے : ۔ النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ [ الأحزاب/ 6] پیغمبروں مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْراهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ [ آل عمران/ 68] ابراہیم (علیہ السلام) سے قرب رکھنے والے تو وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں ۔ فَاللَّهُ أَوْلى بِهِما [ النساء/ 135] تو خدا انکا خیر خواہی وَأُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلى بِبَعْضٍ [ الأنفال/ 75] اور رشتہ دار آپس میں زیادہ حق دار ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ آیت : ۔ أَوْلى لَكَ فَأَوْلى[ القیامة/ 34] افسوس تم پر پھر افسوس ہے ۔ میں بھی اولٰی اسی محاورہ سے ماخوذ ہے اور اولیٰ لک وبک دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ اور معنی یہ ہیں کہ عذاب تیرے لئے اولی ہے یعنی تو عذاب کا زیادہ سزا وار ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے فعل متعدی بمعنی قرب کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اولیٰ بمعنی انزجر سے یعنی اب بھی باز آجا ۔ ولی الشئیء دوسری چیز کا پہلی چیز کے بعد بلا فصل ہونا ۔ اولیت الشئیء الشئیء دوسری چیز کو پہلی چیز کے ساتھ ملا نا ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ كتب) حكم) قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة/ 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد/ 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد/ 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد/ 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران/ 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔ هجر الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی: وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله : وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] ، وقوله تعالی: وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل : مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] ، وقوله : وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي : (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه . وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد، ( ھ ج ر ) الھجر والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے ایک اور حدیث میں ہے فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ معْرُوفُ : اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان/ 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] ، إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء/ 114] ، وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 241] ، أي : بالاقتصاد والإحسان، وقوله : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] ، وقوله : قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 263] ، أي : ردّ بالجمیل ودعاء خير من صدقة كذلك، والعُرْفُ : المَعْرُوفُ من الإحسان، وقال : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف/ 199] . وعُرْفُ الفرسِ والدّيك مَعْرُوفٌ ، وجاء القطا عُرْفاً. أي : متتابعة . قال تعالی: وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء/ 114] ہاں ( اس شخص کی مشاورت اچھی ہوسکتی ہے ) جو خیرات یا نیک بات ۔۔۔ کہے ۔ وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 241] اور مطلقہ کو بھی دستور کے مطابق نان ونفقہ دینا چاہیے ۔ یعنی اعتدال اور احسان کے ساتھ ۔ نیز فرمایا : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] تو یا تو ان کی اچھی طرح سے زوجیت میں رہنے دو اور اچھی طرح سے علیحدہ کردو ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 263] نرم بات اور درگذر کرنا صدقہ سے بہتر ہے ۔ یعنی نرم جواب دے کر لوٹا دینا اور فقیر کے لئے دعا کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس پر احسان جتلایا جائے ۔ العرف : وہ نیک بات جس کی اچھائی کو سب تسلیم کرتے ہوں قرآن پاک میں ہے : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف/ 199] اور نیک کام کرنے کا حکم دو ۔ عرف الفرس گھوڑے کی ایال عرف الدیک : مرغی کی کلغی جاء القطاعرفا : قطار جانور آگے پیچھے یکے بعد دیگرے آئے اسی سے قرآن پاک میں ہے : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] ہواؤں کی قسم جو متواتر چلتی ہیں ۔ سطر السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء/ 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر : 233- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطرا«6» وأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] ( س ط ر ) السطر والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نبی کی ذات اہل ایمان کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے قول باری ہے : (النبی اولی بالمومنین من انفسھم۔ نبی مومنین کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں) ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن، ابی الربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے عمر سے اور انہوں نے زہری سے اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں روایت کی کہ مجھے ابوسلمہ نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کا یہ ارشاد نقل کیا (انا اولیٰ بکل مومن من نفسہ فایمارجل مات وترک دینا فالی وان ترک مافھولورثتہ) میں ہر مومن کے ساتھ اس کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتا ہوں۔ اس لئے جس شخص کی وفات ہوجائے گی اور وہ قرض چھوڑ کر مرے گا تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہوگی اور اگر مال چھوڑ جائے گا تو اس کا مال اس کے ورثا کو مل جائے گا۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس بات کی دوسروں کو دعوت دیتے ہیں ان کے مقابلہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی بات اختیار کرلینے کا زیادہ حق ہے۔ ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حق حاصل ہے کہ دوسروں پر ایسا حکم عائد کردیں جسے خود اپنی ذات پر عائد نہ کریں کیونکہ آپ کی اطاعت واجب ہے اور آپ کی اطاعت اللہ کی اطاعت کے ساتھ پیوستہ ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سب سے پہلے جس روایت کا ذکر کیا ہے وہ بعد میں بیان ہونے والے معانی کی ضامن نہیں ہے اور نہ ہی اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آیت کے مفہوم کو صرف قرض کی ادائیگی کے دائرے تک محدود رکھا جائے۔ کیونکہ آیت میں گنجائش موجود ہے کہ ا س سے یہ مراد لی جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان کے ساتھ خودان کے نفس سے بھی اس لحاظ سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں کہ آپ انہیں جس بات کی دعوت دیں اسے وہ قبول کرلیں اور اس کے مقابلہ میں اس بات کو ترک کردیں جس کی دعوت یہ لوگ خود دیں۔ اسی طرح ان پر حکم عائد کرنے کا زیادہ حق حاصل ہے اور ان پر آپ کے حکم کی پیروی اور آپ کی اطاعت لازم ہے۔ اس ضمن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرنے والے ہر مقروض مومن کے قرض کی ذمہ داری اٹھانے کی بات بھی بتادی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں مسلمانوں کی روحانی مائیں ہیں قول باری ہے (وازواجہ امھاتھم۔ اور آپ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں) اس کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے اول یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات تعظیم وتکریم اور جلالت قدر کے وجوب میں مسلمانوں کی اپنی مائوں کی طرح ہیں۔ دوم یہ کہ نکاح کی تحریم میں یہ مائوں کی طرح ہیں۔ یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ ازواج مطہرات ہر لحاظ سے مائوں کی طرح ہیں کیونکہ اگر بات اس طرح ہوتی تو کسی مسلمان کے لئے ان کی بیٹیوں سے نکاح جائز نہ ہوتا کیونکہ اس صورت میں وہ اس کی حقیقی بہنیں ہوتیں جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے ساتھ اپنی بیٹیوں کا خود نکاح کرادیا تھا۔ اسی طرح اگر امہات المومنین حقیقی معنوں میں مائیں ہوتیں تو انہیں مسلمانوں کی وراثتوں میں حصہ بھی ضرور ملتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی قرات میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں۔ ” وھو اب لھم “ (اور آپ مسلمانوں کے باپ ہیں) اگر یہ درست تسلیم کرلیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ شفقت وتعلق نیز یہی خواہی وہمدردی کے لحاظ سے مسلمانوں کے لئے آپ کی ذات اقدس ایک شفیق باپ کی طرح تھی۔ جس طرح یہ قول باری ہے (لقد جآء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رئوف رحیم بیشک تمہارے پاس ایک پیغمبر آئے ہیں تمہاری ہی جنس میں سے جو چیز تمہیں مضرت پہنچاتی ہے وہ انہیں بہت گراں گزرتی ہے تمہاری بھلائی کے حریص ہیں، ایمان لانے والوں کے حق میں بڑے ہی شفیق ہیں، مہربان ہیں) ۔ جو مذہبی طور پر ولی نہ ہو وہ نسبی طور پر ولی ہوسکتا ہے قول باری ہے (الا ان تفعلوا الی اولیاء کم معروفا۔ مگر ہاں تم اپنے دوستوں سے کچھ (سلوک) کرنا چاہو تو وہ جائز ہے) محمد بن الحنفیہ سے مروی ہے کہ آیت کا نزول یہودی اور نصرانی کے لئے مسلمان کی وصیت کے جواز کے سلسلے میں ہوا ہے۔ حسن بصری نے اس کی تفسیر میں کہا ہے ” الا یہ کہ تم صلہ رحمی کرو۔ “ عطاء کا قول ہے ۔ اس سے مراد ایسے مسلمان اور کافر ہیں جن کے مابین قرابت داری ہو مسلمان کے لئے جائز ہے کہ وہ کافر کو اپنی زندگی بھر کچھ نہ کچھ دیتا رہے اور مرتے وقت اس کے لئے وصیت کرجائے۔ ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع جرجانی نے، انہیں عبدالرزاق نے۔ انہیں معمر نے قتادہ سے اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں نقل کیا۔ الا یہ کہ تمہارا کوئی قرابت دار ہو جو تمہارا ہم مذہب نہ ہو اور تم اسے کے لئے کچھ وصیت کرجائو۔ وہ نسب کے لحاظ سے تمہارا دوست اور ولی ہوگا دین کے لحاظ سے تمہارا ولی نہیں ہوگا۔ “

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

مسلمانوں کے انتقال کرجانے کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی اولاد سے خود ان کی ذات سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں کیونکہ آپ کا فرمان ہے کہ مسلمان انتقال کرجائے اور عیال چھوڑے تو میں اس کا متولی ہوں اور اگر قرض چھوڑے تو میں اس کا ذمہ دار ہوں یا مال چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے وارث لے لیں۔ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات حرمت اور وجوب تعظیم میں مسلمانوں کی ماؤں کی طرح ہیں۔ اور نسبی قرابت والے وراثت میں ایک دوسرے سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں بہ نسبت دوسرے مومنین اور مہاجرین کے مگر یہ کہ تم نے جن سے قرض لیا ہے یا اپنے دوستوں کے لیے تہائی مال میں وصیت کرنا چاہو تو وہ جائز ہے اور رشتہ داروں کو وراثت اور دوستوں وغیرہ کو وصیت میں سے حصہ لینا یہ بات لوح محفوظ میں لکھی جاچکی ہے یا یہ کہ توریت میں یہ چیز موجود ہے جس پر بنی اسرائیل عمل کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ { اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ } ” یقینا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق مومنوں پر خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ ہے “ تمام اہل ِایمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانوں سے زیادہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کی فکر کریں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے ماں باپ ‘ اپنی اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر محبوب رکھیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان صحیحین میں ذرا سے لفظی فرق کے ساتھ نقل ہوا ہے : (لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ) (١) ” تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے باپ ‘ اس کی اولاد اور سب انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائوں۔ “ { وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ } ” اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ “ یہاں پر اس فقرے سے پہلے ” وَھُوَ اَبٌ لَّھُمْ “ کے الفاظ کو محذوف سمجھا جانا چاہیے ‘ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے لیے بمنزلہ باپ کے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بھی ہے کہ : (اِنَّمَا اَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ ) (٢) یعنی تم سب کے لیے میری حیثیت والد کی سی ہے۔ قرآن مجید کے ان الفاظ کی رو سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں مسلمانوں کے لیے اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں قابل احترام ہیں۔ چناچہ ازواجِ مطہرات (رض) کے ناموں کے ساتھ ” اُمّ المومنین (رض) “ کے الفاظ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً اُمّ المومنین حضرت خدیجہ (رض) ‘ اُمّ المومنین حضرت عائشہ (رض) ‘ اُمّ المومنین حضرت صفیہ (رض) ‘ اُمّ المومنین حضرت زینب بنت جحش (رض) ! { وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ } ” اور رحمی رشتے رکھنے والے ‘ اللہ کی کتاب کے مطابق ‘ مومنین و مہاجرین کی نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں “ { اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِِکُمْ مَّعْرُوْفًا } ” سوائے اس کے کہ تم لوگ اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی ُ حسن ِسلوک کرنا چاہو۔ “ اس سے پہلے ” اُولُوا الْاَرْحَامِ “ کے بارے میں یہی الفاظ سورة الانفال کی آخری آیت میں بھی آچکے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کے قانون میں رحمی اور خونی رشتے دوسرے تمام رشتوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ یہاں پر مومنین و مہاجرین کا ذکر کر کے مدینہ کے مقامی معاشرے میں ایک مخصوص صورت حال کی بھی وضاحت کردی گئی کہ اگرچہ تمہارے مہاجرین اور انصار کے درمیان ” مواخات “ کے تحت بےمثال رشتے قائم ہوچکے ہیں اور تم لوگوں نے ان رشتوں کے حوالے سے ایثار کی نئی نئی مثالیں بھی قائم کر کے دکھائی ہیں ‘ لیکن اللہ کے قانونِ وراثت میں ایسے رشتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چناچہ قانونِ وراثت میں نہ تو انصار و مہاجرین جیسے کسی بھائی چارے کا لحاظ ہوگا اور نہ ہی ُ منہ بولے رشتوں کے لیے کوئی حصہ مخصوص کیا جائے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنے تعلقات کی بنا پر کسی دینی بھائی ‘ عزیز یا دوست کو کوئی چیز تحفۃً دینا چاہے یا کسی کے حق میں کوئی چیزہبہ کرنا چاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ { کَانَ ذٰلِکَ فِی الْْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا } ” یہ سب باتیں (پہلے سے) کتاب میں لکھی ہوئی ہیں۔ “ کتاب میں لکھے ہوئے سے مراد لوح محفوظ یا اس موضوع پر تورات کے احکام بھی ہوسکتے ہیں اور خود قرآنی احکام بھی ‘ جو اس سے پہلے سورة النساء اور سورة الانفال میں نازل ہوچکے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 That is, "The relationship of the Holy Prophet with the Muslims and of the Muslims with the Holy Prophet is of a superior nature, over and above alI human relationships. No other relationship is in any way comparable with the relationship that exists between the Holy Prophet and the believers. The Holy Prophet (may Allah's peace and blessings be upon him) is more compassionate and affectionate and a greater well-wisher of the Muslims than their own parents, even theft own selves. Their parents and their wives and children can harm them, can treat them in a selfish manner and mislead them, can make them commit errors and mistakes, can push them into Hell, but the Holy Prophet's cast is different: he will do for them only that which results in and leads to their eternal well-being and enduring happiness. They can commit follies resulting in their own ruin and disaster, but the Holy Prophet will wish for them only that which is beneficial and useful for them. And when it is so, the Holy Prophet also has a right on the Muslims that they should regard him dearer than their own parents, their own children, even their own selves. They should lout him more than anything and anybody else in the world; should prefer his judgement and opinion to their own and should submit to every command that he gives. The same thing has been said by the Holy Prophet in a Hadith, which Bukhari and Muslim and others have related with a little difference in wording: "No one of you can be a believer until I become dearer to him than his own father and his own children and all mankind. " 13 On the basis of the special relationship mentioned above, another characteristic of the Holy Prophet is that his wives are forbidden to the Muslims just like their own real mothers although their adopted mothers are in no sense their real mothers. This thing is peculiar only to the person of the Holy Prophet and of no other man in the world. In this connection, one should also know that the wives of the Holy Prophet are mothers of the believers only in the sense that the Muslims are under obligation to have reverence and respect for them, and no Muslim could marry them. As for other matters they are not like the mothers. For example, apart from their real relatives, all other Muslims were non-mahram for them from whom they had to observe Purdah; their daughters were not like real sisters for the Muslims, so that no Muslim could marry them; their brothers and sisters were not like the maternal uncles and aunts for the Muslims; they could not be inherited by a Muslim, unless a close relative, as a mother is inherited by her son. Another noteworthy point in this connection is that according to the Qur'an, this status accrues to all the wives of the Holy Prophet among whom Hadrat 'A'ishah is also included. But, when a section (of the Muslims) made Hadrat `AIi and Fatimah (may Allah be pleased with them) and their children the centre of their Faith and made the whole system of religion revolve around them, and made Hadrat `A'ishah also, along with many other Companions, the target of curse and abuse, this verse became a hindrance for them, for according to it every person who claims to be a believer has to acknowledge her as his mother. Consequently, to overcome this difficulty a strange claim was made to the effect: The Holy Prophet had given Hadrat 'Ali the authority that after his death he could allow any of his wives he liked to retain her position of the holy wife and divorce any other on his behalf. Abu Mansur Ahmad bin Abu Talib Tabrasi has written this in Kitab al-Ihtijaj and Suleman bin `Abdullah al-Bahrani has related that the Holy Prophet said to Hadrat `Ali "O Abul Hasan: this honour will last till the time that we remain steadfast on obedience to Allah. Therefore, you may divorce any of my wives, who after me disobeys Allah by revolting against you, and deprive her of the honour that belongs to the mothers of the faithful. " This is a false -tradition even according to the principles of reporting Hadith. But if one studies vv. 28-29 and 51-52 of this very Surah Al-Ahzab itself, one finds that this tradition goes against the Qur'an as well. For after the revelation of the "verse of the option" (v. 29), the Holy Prophet's right of divorce against those of his wives who chose to remain with him through every difficulty had been curtailed. For further explanation, see E.N.'s 42 and 93 below. Moreover, if an unbiased person only uses his common sense and considers this tradition carefully, he will find that it is utterly absurd and highly derogatory in respect to the Holy Prophet. The rank and position of the Messenger of Allah is very high and exalted. It cannot even be expected of an ordinary man that he would think of divorcing his wife after his death and on leaving the world would authorise his son-in-law to divorce her on his behalf if there arose a dispute between him and her in the future. This shows what regard these sectarians have for the honour and reverence of the Holy Prophet himself; and even for the Divine Law. 14 The verse means this: As for the' Holy Prophet the nature of the Muslims' relationship with him is unique. Hut as far as the common Muslims are concerned, their mutual relationship will be based on the principle that the rights of the relatives on one another are given priority over the rights of others. No charity is right if a person overlooks the needs and requirements of his own parents and children and brothers and sisters, and gives away charities to others: The Zakat money also will be used first of all to help one's own poor relatives and then the other needy people. The inheritance will necessarily be divided among those who are nearest in relation to the deceased. As for others, the dying person may give them a part of his wealth as a gift or by trust and will. But in no case is he allowed to deprive his rightful heirs and give away everything to others. After this Divine Command the system of "Brotherhood" that had been established between the Muhajirin and the Ansar after the Hijrah also became abolished, for according to it the Muhajirin and the Ansar became heirs to one another only on the basis of their relationship of being the brethren in faith. Allah enjoined the law that inheritance will be divided only on the basis of blood relationship; however, a person could help his brother-in-faith by making him a gift or through a will if he so liked.

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :12 یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلقات سے ایک بالا تر نوعیت رکھتا ہے ۔ کوئی رشتہ اس رشتے سے اور کوئی تعلق اس تعلق سے جو نبی اور اہل ایمان کے درمیان ہے ، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں ۔ ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ، ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں ، ان کو گمراہ کر سکتے ہیں ، ان سے غلطیوں کا ارتکاب کرا سکتے ہیں ، ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں ، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیں جس میں ان کی حقیقی فلاح ہو ۔ وہ خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار سکتے ہیں ، حماقتیں کر کے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر سکتے ہیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقعی ان کے حق میں نافع ہو ۔ اور جب معاملہ یہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں ، دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے محبت رکھیں ، اپنی رائے پر آپ کی رائے کو اور اپنے فیصلے پر آپ کے فیصلے کو مقدم رکھیں ، اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیں ۔ اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے کہ لا یؤمن احدُکم حتیٰ اکونَ احبَّ الیہ من والدہ و ولدہ والنّاس اجمعین ۔ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو اس کے باپ اور اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :13 اسی خصوصیت کی بنا پر جو اوپر مذکور ہوئی ، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی ماں نہیں ہیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اسی طرح ان کے لیے حرام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں حرام ہیں ۔ یہ مخصوص معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دنیا میں اور کسی انسان کے ساتھ نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف اس معنی میں اُمہاتِ مومنین ہیں کہ ان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح نہیں ہو سکتا تھا ۔ باقی دوسرے احکام میں وہ ماں کی طرح نہیں ہیں ۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتہ داروں کے سوا باقی سب مسلمان ان کے لیے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا ۔ ان کی صاحبزادیاں مسلمانوں کے لیے ماں جائی بہنیں نہ تھیں کہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہوتا ۔ ان کے بھائی بہن مسلمانوں کے لیے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے ۔ ان سے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے ۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رو سے یہ مرتبہ تمام ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جن میں لا محالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں ۔ لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما اور ان کی اولاد کو مرکز دین بنا کر سارا نظام دین انہی کے گرد گھما دیا ، اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی ہدف لعن و طعن بنایا ، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہو گئی جس کی رو سے ہر اس شخص کو انہیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو ۔ آخر کار اس شکل کو رفع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیت پر باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں ۔ ابو منصور احمد بن ابو طالب طَبْرَسِی نے کتاب الاحتجاج میں یہ بات لکھی ہے اور سلیمان بن عبد اللہ البحرانی نے اسے نقل کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : یا ابا الحَسَنَ انّ ھٰذا الشرف باقٍ ما دُمنا علیٰ طاعۃ اللہ تعالیٰ فایّتھن عصت اللہ تعالیٰ بعدی بالخروج علیک فطلّقھا من الازواج واسقطھا من شرف امّھات المؤمنین ، ( اے ابوالحسَن ! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں ۔ لہٰذا میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تو طلاق دے دیجیو اور اس کو اُمّہات المؤمنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو ) ۔ اصول روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سراسر بے اصل ہے ہی لیکن اگر آدمی اسی سُورۂ احزاب کی آیات ۲۸ ۔ ۲۹ اور ۵۱ ۔ ۵۲ پر غور کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے ۔ کیونکہ آیت تخییر کے بعد جن ازواج مطہرات نے ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی رفاقت کو اپنے لیے پسند کیا تھا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی نہ رہا تھا ۔ اس مضمون کی تشریح آگے حاشیہ نمبر٤۲ و ۹۳ میں ہم نے کر دی ہے ۔ علاوہ بریں ایک غیر متعصب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس رویت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو ، اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے ۔ رسول کا مقام تو بہت بالاتر و برتر ہے ، ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے تو اسے طلاق دے دیجیو ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل البیت کی محبت کے مدعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزت و ناموس کا پاس کتنا کچھ ہے ، اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :14 اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے ، ان کے ساتھ تو مسلمانوں کے تعلق کی نوعیت سب سے الگ ہے ۔ لیکن عام مسلمانوں کے درمیان آپس کے تعلقات اس اصول پر قائم ہوں گے کہ رشتہ داروں کے حقوق ایک دوسرے پر عام لوگوں کی بہ نسبت مقدم ہیں ۔ کوئی خیرات اس صورت میں صحیح نہیں ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ ، بال بچوں ، اور بھائی بہنوں کی ضروریات تو پوری نہ کرے اور باہر خیرات کرتا پھرے ۔ زکوٰۃ سے بھی آدمی کو پہلے اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کرنی ہو گی ، پھر وہ دوسرے مستحقین کو دے گا ۔ میراث لازماً ان لوگوں کو پہنچے گی جو رشتے میں آدمی سے قریب تر ہوں ۔ دوسرے لوگوں کو اگر وہ چاہے تو ہبہ یا وقف یا وصیت کے ذریعہ سے اپنا مال دے سکتا ہے ، مگر اس طرح نہیں کہ وارث محروم رہ جائیں اور سب کچھ دوسروں کو دے ڈالا جائے ۔ اس حکم الٰہی سے وہ طریقہ بھی موقوف ہو گیا جو ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنے سے شروع ہوا تھا ، جس کی رو سے محض دینی برادری کے تعلق کی بنا پر مہاجرین اور انصار ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ وراثت تو رشتہ داری کی بنا پر ہی تقسیم ہو گی ، البتہ ایک شخص ہدیے ، تحفے یا وصیت کے ذریعہ سے اپنے کسی دینی بھائی کی کوئی مدد کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: یہاں اﷲ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ اگرچہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں، اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ کو سب مسلمان اپنی ماں سمجھتے ہیں، لیکن اس وجہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ کو میراث کے معاملے میں کسی مسلمان کے اپنے رشتہ داروں پر فوقیت حاصل نہیں ہوئی، چنانچہ جب کسی کا اِنتقال ہوتا تو اُس کی میراث اُس کے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم ہوتی ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یا آپ کی ازواجِ مطہراتؓ کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جاتا، حالانکہ دینی اعتبار سے آپ اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ دوسرے رشتہ داروں سے زیادہ حق رکھتی ہیں۔ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ کو ان کے دینی رشتے کے باوجود میراث میں شریک نہیں کیا گیا تو منہ بولے بیٹے کو محض زبان سے بیٹا کہہ دینے کی بنا پر میراث میں کیسے شریک کیا جاسکتا ہے؟ البتہ اگر ان کے ساتھ نیکی کا ارادہ ہو تو ان کے لئے اپنے ترکے کے تہائی حصے کی حد تک کوئی وصیت کی جاسکتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦۔ صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے (٢ ؎ مشکوٰۃ ص ١٢ کتاب الایمان ‘) جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ کو اسی کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی ایمان والا نہیں بنے گا یہاں تکہ میں اس کی جان اور اس کے مال اور اولاد اور تمام لوگوں سے اس کے نزدیک زیادہ عزیز نہ ہوجاؤحضرت عمر (رض) نے عرض کیا ٣ ؎ اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول آپ مجھ کو ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں (٣ ؎ تفسیر ابن کثیرص ٤٦٧ ج ٣۔ ) یہاں تک کہ میری جان سے بھی آپ نے جواب دیا اے عمر (رض) ایمان اسی کو کہتے ہیں صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی اسی مضمون کی روایت ٤ ؎ ہے (٤ ؎ تفسیر فتح البیان ص ٥٩١ ج ٣۔ ) جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اوپر کی حدیثوں کا مضمون بیان فرما کر آیت کے ٹکڑے النبی اولی بالمؤمنین من کی راحت کے لیے آدمی کبھی ایسے کام کر بیٹھتا ہے جو آدمی کو دین ودنیا کے وبال میں پھنسا دیتے ہیں اور اللہ کے رسول ہمیشہ وبال کے بھی زیادہ عزیز رکھے وازواجہ امھاتھم اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بیویاں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح میں آچکیں امت میں کے کسی مسلمان کو ان سے نکاح کرنا اسی طرح جائز نہیں ہے جس طرح سگی ماں سے نکاح کرنا حرام ہے ہاں سوا نکاح کے اور باتوں میں سگی ماں کا حکم الگ ہے مثلا سگی ماں اور بیٹے میں پر وہ کا حکم نہیں ہے یہاں باوجود نکاح کے حرام ہونے کے امت میں کے اجنبی مسلمانوں سے اللہ کے رسول کی بیویوں کو پردہ کا حکم ہے سگی ماں کے بہن سے نکاح حرام ہے یہاں وہ حکم نہیں ہے صحیح بخاری ٥ ؎ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے (٥ ؎ ص ٩٩٩ ج ٢ باب ذوی الارحام۔ ) کہ فتح مکہ سے پہلے مہاجرین کہ رشتہ دار جب تک مدینہ کو نہیں آئے تھے تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین اور انصار میں دینی بھائی بندی کرادی تھی جس کے سبب سے مہاجرین وانصار میں وراثت بھی قائم ہوگئی تھی پھر جبمہاجرین کے رشتہ دار مدینہ میں آگئے تو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے صحیح قول کے موافق آیت کے آخری ٹکڑے کی تفسیر یہ ہے کہ رشتہ داروں کے حصے وراثت کے طور پر سورة النساء میں ٹھہر چکے ہیں اس لیے عام مسلمانوں اور مہاجرین کی نسبت رشتہ دار زیادہ مستحق ہیں وراثت تو ان ہی کی قائم کی جائے اور دنبی بھائی بندی کے خیال سے ثلث مال تک کی وصیت اگر کوئی کرے تو اس کی مناہی نہیں ہے اونوالارحام کے ایک ایک معنے تو عام رشتہ داروں کے ہیں اور دوسرے معنے خاص ان رشتہ داروں کے ہیں جن کے رشتہ میں عورت کا واسطہ ہے مثلا جیسے نانا یا نواسہ آخری معنے کے اولوالارحام کی وراثت میں سلف کا اختلاف ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:6) اولی۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے ای احق واقرب الیہم۔ زیادہ مستحق اور زیادہ قریب (نیز ملاحظہ ہو آیت سابقہ) جب اولی کا صلہ لام واقع ہو تو یہ ڈانٹ اور دھمکی کے لئے آتا ہے اس صورت میں خرابی اور برائی سے زیادہ نزدیک اور زیادہ مستحق ہونے کے معنی ہوں گے۔ جیسے کہ اولی لک فاولی (75:34) تیرے لئے خرابی ہی خرابی ہے۔ النبی اولی بالمؤمنین من انفسھم کا ترجمہ دو طرح ہوسکتا ہے :۔ (1) اہل ایمان کے لئے نبی کی ذات ان کی اپنی جانوں پر مقدم ہے۔ (2) نبی کی اہل ایمان کے ساتھ قربت اہل ایمان کی اپنی جانوں کی قربت سے بھی زیادہ ہے۔ یعنی اہل ایمان جتنا اپنی جانوں کی خیر خواہی کا خیال رکھتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے زیادہ ان کی خیر خواہی کا خیال رکھتے ہیں۔ اول : اس حدیث شریف کی ثبت تعبیر ہے جسے بکاری و مسلم وغیرہ نے روایت کیا ہے : لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین : (تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے باپ اور اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں) ۔ دوئم : کے مضمون میں حدیث شریف ہے :۔ ما من مومن الا وانا اولی بہ فی الدنیا والاخرۃ اقراء وا ان شئتم : النبی اولی بالمؤمنین من انفسھم : وانما مومن مات وترک مالا فلیرثہ عصبتہ من کانوا : ومن ترک دینا اوضیاعا فلیاتنی فانا مولاہ۔ (کوئی مومن ایسا نہیں جس کا دنیا و آخرت میں میں والی نہیں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو النبی اولیٰ بالمؤمنین من انفسھم الآیۃ : اور جو مومن فوت ہو اور اپنے پیچھے مال چھوڑ جائے تو اس کے قریبی رشتہ دار وارث ہوں گے اور جو مومن قرضہ وغیرہ چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئے میں اس کا والی ہوں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مومنوں کی خیر خواہی کا جس قدر خیال تھا اس بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم (9:128) جو چیز تمہیں مضرت پہنچاتی ہے انہیں (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو) بہت گراں گزرتی ہے (وہ) تمہاری بھلائی کے حریص ہیں اور اہل ایمان کے حق میں تو بہت ہی شفیق اور مہربان ہیں۔ اولوا الارحام۔ مضاف مجاف الیہ ۔ اولوا۔ والے۔ اس کی واحد نہیں آتی۔ الارحام رحم کی جمع ہے عورت کی بچہ دانی۔ اولوا الارحام رحم والے۔ ایک ہی رحم سے پیدا ہونے والے۔ قرابت والے۔ شکمی رشتہ دار۔ بعضھم ببعض آپس میں۔ ایک دوسرے کے ساتھ۔ فی کتب اللہ ای فی ما کتبہ فی اللوح بمطابق اس کے جو اس نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے یا اللہ کے احکام (وراثت) کے مطابق۔ من ۔ ابتدائیہ ہے۔ سے۔ واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتب اللہ من المؤمنین والمھاجرین ۔ اللہ کی شریعت کی رو سے شکمی رشتہ دار دوسرے مؤمنین و مہاجرین سے زیادہ آپس میں قرابت داری رکھتے ہیں (یعنی دینی بھائی چارہ سے کونی رشتہ داری نزدیک تر ہے۔ سیاق وسباق کے مطابق یہ میراث کے متعلق ہے۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں جو مومنین و مہاجرین کو میراث میں حق دار بنادیا گیا تھا وہ ایک عارضی انتظام تھا۔ حکم ہوتا ہے کہ دراصل میراث میں متوفی کے خونی رشتہ داروں ہی کا حق ہوتا ہے۔ ہاں مہاجرین و مومنین کے ساتھ اگر حسن سلوک مطلوب ہو تو اس بارے میں وصیت ہوسکتی ہے جو اگلے جملہ میں مذکور ہے۔ الا۔ حرف استثنائ۔ مگر۔ ان تفعلوا میں ان مصدریہ ہے۔ اولیئکم۔ مضاف مضاف الیہ۔ تمہارے دوست ، تمہارے رفیق۔ اولیاء ولی کی جمع ہے۔ معروفا۔ اسم مفعول واحد مذکر منصوب۔ دستور کے مطابق۔ اچھا سلوک۔ دستور کے مطابق بھلی بات۔ الا ان تفعلوا الی اولیئکم معروفا۔ مگر ہاں اپنے دوستوں کے ساتھ دستور کے مطابق بھلائی کرنا جائز ہے (یعنی شرع کے مطابق ان کے ھق میں وصیت کرسکتے ہو) فی الکتب : الکتب سے لوح محفوظ مراد ہے یا قرآن مجید۔ مسطورا۔ اسم مفعول واحد مذکر ۔ منصوب (بوجہ خبر کان) لکھا ہوا۔ شطر یسطر (باب نصر) سطر بمعنی لکھنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روحانی زندگی بخشتے ہیں۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں، اجنبی نائب ہے اللہ کا اپنی جان مال میں اپنا تصرف نہیں چلتا جتنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنی روا نہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم کرے تو فرض ہے “۔ اسی لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے دل میں میری محبت، اس کے باپ اور اطاد کی محبت سے حتیٰ کہ خود اس کی اپنی ذات کی محبت سے بڑھ کر نہ ہوجائے۔ (شوکانی)10 یعنی تعظیم و تکریم اور حرمت نکاح کے اعتبار سے باقی رہے۔ دوسرے احکام ( مثلاً پردہ، ان کی اولاد سے شادی) سو ان میں ماں کی طرح نہیں ہیں۔ (شوکانی) ۔ 1 ہجرت کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین (رض) اور انصار (رض) مدینہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کردیا تھا جس کی بناء پر وہ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوتے تھے۔ سورة احزاب کی اس آیت سے یہ وارثت منسوخ کردی اور رشتہ داروں کو وارث قرار دیا گیا۔ دیکھئے سورة انفال، 27، 48( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (6) ۔ اولی (خیر خواہ ۔ ہمدرد۔ تعلق رکھنے والے) ۔ انفس (نفس) (جانیں) ۔ ازواج (زوج) (جوڑے۔ بیویاں) ۔ امھت (ام) (مائیں) ۔ اولوالارحام (رشتہ دار) ۔ ان تفعلوا (یہ کہ تم کرو) ۔ اولیاء (ولی) (دوست۔ مخلص ساتھی) ۔ معروف (قاعدہ۔ دستور ) ۔ مسطور (لکھ دیا گیا) ۔ نشریح : آیت نمبر (6) ۔ ” ہر ایک نبی اور رسول اپنی امت کا سب سے زیادہ خیر خواہ اور ہمدرد ہوتا ہے۔ وہ بغیر کسی دنیاوی غرض اور لالچ کے ہو وقت ان کو اس بات کی نصیحت کرتا ہے کہ وہ جہنم کا راستہ چھوڑکر جنت کے راستے پر آجائیں۔ صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کریں اور دنیا کے تمام معاملات میں اللہ ہی کے احکامات کی پانبدی کریں۔ اس سچی بات کہنے کی وجہ سے وہ اپنوں میں غیر سے بن جاتے ہیں اور پورا معاشرہ ان کی دشمنی پر اتر آتا ہے۔ اس کے لئے نبی اور رسول کو طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ وہ ان اذیتوں اور تکلیفوں پر صبر کرتے ہیں اور ان کی خیر خواہی اور بھلائی کی دعائیں کرتے ہیں۔ جب بات حد سے گذر جاتی ہے تو کبھی کبھی انبیاء کرام (رض) اللہ کی بارگاہ میں بد دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیتے ہیں تو وہ قوم صفحہ ہستی سے مٹا دی جاتی ہے۔ تمام نبیوں اور رسولوں کے آخری نبی اور رسول سرور انبیاء سرور کونین حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر اپنی امت کا خیر خواہ، ہمدرد، شفیق و مہربان اور کون ہو سکتا ہے ؟ انسان کی جان اور اس کی قوتیں، محبت کرنے والے ماں اور باپ اور رشتہ دار انسان سے اتنی محبت نہیں کرتے جس قدر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے ایک ایک فرد کے لئے بےچین رہتے ہیں اور دعائیں فرماتے ہیں۔ آپ کی سیرت پاک اس بات کی گواہ ہے کہ آپ نے اللہ کے دین کی سر بلندی اور اس کے سچے اصولوں پر امت کو لانے کے لئے دن رات جدوجہد کی۔ اس راستے میں اپنی جان کو گھلاڈالا اور کرار و مشرکین اور منافقین کی طرف سے سخت اذیتیں دیئے جانے کے باوجود آپ نے کبھی بد دعا نہیں فرمائی بلکہ امت کی ہدایت کے لئے تیر کھانا گورا کئے۔ وطن سے بےوطن ہوگئے۔ فقروفاقہ کی پریشانیوں کو برداشت کیا، سر سے کفن باندھ کر میدان جہاد میں کودنا پڑا اور آخر کا روہ وقت آگیا کہ ساراجزیرۃ العرب کفر و شرک کی گندگیوں سے پاک ہوگیا۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ لوگو ! تمہارے اپنے نفس ، تمہاری جانیں تمہارے اپنے رشتہ دار اتنے خیر خواہ، ہمدرد اور مہربان نہ ہوں گے جتنے شفیق و مہربان حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری جان اور ہمارے نفس سے بھی زیادہ خیر خواہ ہیں تو آپ کا حق بھی سب سے زیادہ ہے۔ آپ کا سب سے بڑا حق آپ سے ایسی محبت کرنا ہے کہ پھر کائنات میں اللہ کے بعد کسی دوسرے سے ایسی محبت نہ کی جائے۔ اطاعت و فرماں برداری، عزت و احترام اور آپ کی شان پر مر مٹنے کا وہ عظیم جذبہ موجزن ہو جس کے سامنے تمام جذبے ماند پڑجائیں۔ حضرت ابوھریرہ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے۔ کوئی ایسا مومن نہیں ہے۔ جس کے لئے میں دنیا و آخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اولی واقرب نہ ہوں۔ اگر تم اس کی تصدیق کرنا چاہتے ہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو ۔ ” ( النبی اولی بلمومنین ) “ اور ظالموں سے ان کی گردنیں چھڑانے کو جہنم سے نجات اور عبادت کا درجہ عطا فرمایا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثاروں نے ہزاروں غلاموں کو خرید کر آزادی کی نعمت سے ہم کنار کیا ۔ روایات کے مطابق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصے میں مختلف اوقات میں سوادو سو غلام آئے مگر آپ نے ان کو اسی وقت آزاد کردیا اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا جس پر صحابہ کرام (رض) نے پوری طرح عمل کیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید (رض) ابن حارثہ کو آزاد کردیا تھا جس کو لے پالک کہتے ہیں تو اس کا درجہ حقیقی اور سگے بیٹوں کی طرح ہوتا تھا جس کو وراثت میں شریک کیا جاتا تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید کو اپنا بیٹا بنا رکھا تھا۔ آپ اپنے حسن عمل سے ساری دنیا کو بتا دینا چاہتے تھے کہ غلام بھی انسان ہی ہیں ان کے ساتھ انسانی سلوک کرنا ضروری ہے۔ اگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ ہوتے تو دنیا سے غلامی کا رواج کبھی ختم نہ ہوتا۔ آپ نے غلامی اور آقائی ہر طرح کے فرق کو مٹانے کے لئے ایک اور مثال قائم فرمائی اور وہ یہ تھی کہ آپ نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب (رض) کو حضرت زید (رض) سے نکاح پر رضا مند کرلیا۔ جب بنو اقریش جیسے معزز قبیلے کی ایک لڑکی کا نکح آزاد کردہ غلام سے کیا گیا تو سارے عرب قبائل میں ایک ہلچل مچ گئی کیونکہ اس سے پہلے کوئی ایک بھی مثال موجود نہ تھی کہ ایک شریف گھرانے کی آزاد لڑکی سے کسی غلام یا غلام زادے کا نکاح ہوجائے۔ مگر آپ نے کفار و مشرکین کی تنقید کے باوجود اس فرق کو مٹا کر چھوڑا۔ اس کے بعد حضرت زینب (رض) اور حضرت زید (رض) کے مزاجوں میں ہم آہنگی نہ ہوسکی اس وجہ سے شدید اختلافات ہوگئے اور آخر کار دونوں میں طلاق ہوگئی۔ ایک آزاد کردہ غلام سے ایک آزاد لڑکی کا نکاح تو پورے خاندان کے لئے صدمہ کا سبب تھا مگر طلاق کے اس واقعہ نے تو پورے بنو قریش کو ہلا کر رکھ دیا اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس صدمے اور رنج و غم سے کیسے باہر نکلیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ وہ حضرت زینب (رض) سے نکاح کرلیں تاکہ سارا خاندان جو رنج و غم میں ڈوبا ہوا ہے وہ خوش ہوجائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس معاملے میں ایک جھجک محسوس فرما رہے تھے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زید کی طلاق یافتہ بیوی سے نکاح کرلیا جو اس دور کے رواج کے مطابق آپ کی بہو تھی (یعنی بیٹے کی بیوی) لیکن اللہ تعالیٰ چاہتے تھے کہ دنیا سے اس رواج کو بھی ختم کردیا جائے کہ منہ بولا بیٹا سگے اور حقیقی بیٹیوں کی طرح ہوتا ہے۔ آپ نے اللہ کے حکم سے حضرت زینب کی عدت گذرنے کے بعد ان سے نکاح فرمالیا۔ اس واقعہ نے رسم و رواج میں بندھے ہوئے لوگوں کو شور مچانے کا ایک اور موقع دے دیا۔ انہوں نے ہنگامہ برپا کردیا کہ یہ کیسے نبی ہیں جنہوں نے اپنے منہ بولے بیٹے کو طلاق یافتہ بیوی سے نکاح کرلیا۔ اس موقع پر یہ زیر مطالعہ آیات نازل کی گئیں جن میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے منصب اور مقام کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے احکامات کے نفاذ میں کسی طرح کی جھجک محسوس نہ فرمائیں کیونکہ کفارو مشرکین اور منافقین تو اسی طرح شور مچاتے رہیں گے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ نے آپ سے پہلے گذرے ہوئے عزم و ہمت کے پیکر پیغمبروں حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت ابرہیم (علیہ السلام) ، حضرت موسٰی (علیہ السلام) اور حضرت عیسٰی ابن مریم سے یہ عہد لیا تھا کہ آپ کو اللہ نے جس نبوت کے عظیم مقام سے نوازا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ خود بھی اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کی باپندی فرمائیں اور دوسروں کو بھی اسی طرف لانے کی بھرپور جدوجہد اور کوشش فرمائیں۔ اور آپ کو جو احکامات دیئے گئے ہیں ان کو اپنی ذات اور پورے معاشرے پر نافذ کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں۔ کل قیامت کے دن اس عہد ومعاہدے کے متعلق سوال کیا جائے گا تاکہ وہ لوگ جو سچائی پر ثابت قدم رہے ان کو انعام و کرام سے نواز جائے اور وہ لوگ جو زندگی بھر اس سچائی سے منہ موڑ کر چلتے اور دین کی سچائیوں کا انکار کرتے رہے ہیں ان کو سخت سے سخت سزادی جاسکے ۔ اس عہد میثاق کے متعلق حضرت قتادہ (رض) سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس معاہدہ میں یہ بھی شامل تھا کہ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اس بات کا اعلان کرتے رہیں کہ ( 1) حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور ( 2) لا بنی بعدہ یعنی ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ ( ابن جریر ۔ ابن ابی حاتم)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی مسلمان پر اپنی جان سے بھی زیادہ آپ کا حق ہے اور آپ کی اطاعت مطلقا اور تعظیم بدرجہ کمال واجب ہے، اور اس میں احکام و معاملات آگئے۔ 5۔ ازواج کا امہات ہونا باعتبار تعظیم کے ہے، اور تعظیم کی ایک نوع تحریم بھی ہے، اس لئے تحریم بھی واقع ہوئی۔ 6۔ یعنی اخیر حکم شریعت کا توارث بالارحام ہوجاوے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو کسی کو اپنا بیٹا قرار دینے سے منع کیا گیا ہے اب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امت کے ساتھ رشتہ اور مسلمانوں کے آپس میں رشتے کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس فرمان میں یہ بتلایا ہے کہ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی امت کے ساتھ اور امت کا اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا رشتہ ہے یہ ایسا رشتہ ہے جو تمام رشتوں سے زیادہ مقدس اور مقدم ہے اور ہونا چاہیے۔ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کے لیے خود ان کی جانوں سے زیادہ خیرخواہ ہیں۔ لہٰذا مومنوں کے لیے بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ محبوب اور مقدم ہونے چاہیں۔ اس خصوصیت کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں اسی طرح ان کے لیے حرام ہیں جس طرح مسلمانوں کی مائیں ان پر حرام ہیں۔ یہ مخصوص معاملہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا دنیا میں اور کسی انسان کے ساتھ نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواج مطہرات صرف اسی معنٰی میں امّہات المومنین ہیں کہ ان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح نہیں ہوسکتا تھا۔ باقی دوسرے احکام میں وہ ماں کی طرح نہیں ہیں۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتہ داروں کے سوا باقی سب مسلمان ان کے لیے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا ان کی صاحبزادیاں مسلمانوں کے لیے بہنیں نہیں تھیں ورنہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح حرام ہوتا۔ ان کے بھائی بہن مسلمانوں کے لیے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے۔ ان سے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رو سے یہ مرتبہ تمام ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے جن میں لامحالہ حضرت عائشہ (رض) بھی شامل ہیں۔ لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی، حضرت فاطمہ (رض) اور ان کی اولاد کو مرکز دین بنا کر سارا نظام دین انہی کے گرد گھمادیا اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہ کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) کو بھی ہدف لعن وطعن بنایا، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہوگئی جس کی رو سے ہر اس شخص کو انہیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو۔ آخر کار اس مشکل کو رفع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیت میں باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں۔ ابو منصور احمد بن ابو طالب طبرسی نے کتاب الاحتجاج میں یہ بات لکھی ہے اور سلیمان بن عبداللہ البحرانی نے اسے نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا : ” یَااَبَا الْحَسَنِ اَنَّ ہٰذَا الشَّرْفَ بَانٍ مَادُمْنَا عَلٰی طَاعَۃِ اللّٰہِ تَعَالیٰ فَاَیَّتُہُنَّ عَصَتِ اللّٰہَ تَعَالیٰ بَعْدِیْ بالْخُرُوْجِ عَلَیْکَ فَطَلِّقْہَا مِنَ الْاَزْوَاجِ وَاسْتَقِطْہَا مِنْ شَرْفِ اُمَّہَاتِ الْمُوؤمِنِیْنَ “ ” اے ابو الحسن ! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں۔ لہٰذا میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تو طلاق دے دیجیو اور اس کو امہات المؤمنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو۔ “ اصول روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سراسر بےاصل ہے ہی لیکن اگر آدمی اسی سورة احزاب کی آیت ٢٨۔ ٢٩ اور ٥١۔ ٥٢ پر غور کرے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے کیونکہ آیت ” تخییر “ کے بعد جن ازواج مطہرات نے ہر حال میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی رفاقت کو اپنے لیے پسند کیا تھا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باقی نہ رہا تھا۔ علاوہ بریں ایک غیر متعصب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس روایت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو اور رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے۔ رسول کا مقام تو بہت بالا تروبرتر ہے ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے تو اسے طلاق دے دیجیو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل بیت کی محبت کے مدعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزت وناموس کا پاس کتنا کچھ ہے اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں۔ (تفہیم القرآن : جلد ٤) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امت کے ساتھ تعلق اور محبت : (لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ) [ التوبۃ : ١٢٨] ” بلاشبہ یقیناً تمہارے پاس تم میں سے ایک رسول آیا ہے جس پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت شاق گزرتا ہے، تمہاری بھلائی کے بارے میں بہت خواہش رکھتا ہے، ایمان والوں پر بہت شفقت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔ “ (لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان ] ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اپنے والدین ‘ اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔ “ مواخات صحابہ (رض) : ہجرت کے بعد مہاجروں کی آباد کاری کا مسئلہ بہت اہم تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مسئلہ کو یوں حل فرمایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انس (رض) کے گھر مہاجر اور انصار کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا یہ رشتہ اس قدر مضبوط اور محترم ہوا کہ مواخاتی بھائی ایک دوسرے کی وراثت میں حصہ دار بن گئے جب مسلمانوں کی حالت بہتر ہوگئی تو اس قانون کو ختم کردیا گیا اور حکم ہوا کہ کتاب اللہ میں جن وارثوں کی تفصیل دی گئی وہی رشتہ دار ہی ایک دوسرے کی وراثت میں حقدار ہوں گے البتہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہوسکتا ہے اور کسی کے حق میں اپنے مال سے تیسرے حصہ تک وصیت کی جاسکتی ہے۔ البتہ جو وراثت میں حصہ دار ہے اس کے لیے مال والا وصیت نہیں کرسکتا۔ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کے لیے ان کی ذات سے مقدم ہیں۔ ٢۔ ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں۔ ٣۔ مومن ایک دوسرے سے ان کے غیر مسلم رشتہ داروں سے زیادہ قریب ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

النبی اولیٰ بالمومنین ۔۔۔۔۔ فی الکتب مسطورا (6) ” “۔ مہاجرین نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ وہ سب کچھ چھوڑ کر مدینہ چلے آئے ، اللہ کی طرف بھاگ نکلے ، صرف دین لے کر بھاگ گئے۔ انہوں نے اپنے عقیدہ کو اپنی برادری کے تعلقات ، اپنے مال کے ذخائر ، اپنے اسباب حیات ، بچپن کی یادوں ، یاروں اور دوستوں کی محفلوں پر ترجیح دے دی۔ یہ لوگ صرف اپنا عقیدہ بچا کر نکل آئے اور اس کے سوا سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیا۔ اس انداز پر ہجرت کرکے انہوں نے وہ تمام چیزیں چھوڑ دیں جو ہر انسان کے لیے عزیز ہوتی ہیں۔ اہل و عیال ، بیٹے بیٹیاں اور دوسرے رشتہ دار۔ یہ ایک زندہ مثال تھی اور یہ اس کرہ ارض پر واقع ہوئی کہ لوگوں نے صرف عقائد کی خاطر سب کو چھوڑ دیا۔ ان کے دلوں پر عقیدہ چھایا ہوا تھا۔ چناچہ ان کے دل میں اس عقیدے اور نظریہ کے سوا کوئی چیز باقی ہی نہ رہی۔ ان کی شخصیت مجتمع ہوگئی۔ ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جو فہ (33: 4) ” اللہ نے کسی انسان کے دھڑ میں دو دل نہیں بنائے “۔ اسی طرح مدینہ میں بھی ایک نئی صورت حال پیدا ہوگئی۔ بعض خاندانوں کے افراد اسلام میں داخل ہوگئے اور دوسرے لوگ شرک کرتے رہے۔ دونوں کے درمیان تعلقات کٹ گئے۔ غرض خاندانی روابط کے اندر ایک بھونچال سا آگیا اور اجتماعی نظام بھی درہم برہم ہوگیا۔ یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ اسلامی معاشرہ نوزائیدہ تھا۔ اور اسلامی مملکت ابھی مستحکم نہ تھی۔ یہ دراصل ابھی تک ایک مجوزہ نظام ہی تھا جس کا زیادہ حصہ تصورات ہی میں تھا۔ ابھی تک اس کے مستحکم ادارے تشکیل نہ پائے تھے۔ غرض مدینہ میں ایک نظریاتی طوفان اٹھا۔ یہ اسلامی نظریہ حیات کا طوفان تھا۔ اس نے تمام جذبات ، تمام رسم و رواج اور تمام روابط اور تعلقات کو ختم کردیا اور اس نئی سوسائٹی کے اندر صرف اسلامی رابطہ باقی رہ گیا۔ تمام دل عقیدہ اسلامی پر جمع تھے ، خاندان ، نسب ، قبیلہ ، دوستی اور قومی تعلقات نظریاتی لہروں کے نیچے دب گئے اور یہ نئی اکائیاں جو اسلامی سوسائٹی میں جم وہو چکی تھیں باہم مل گئیں۔ ایک نئی سوسائٹی وجود میں آگئی اور اسلامی اخوت پر لوگ جمع ہوگئے۔ یہ لوگ اسلامی اخوت پر کسی قانون یا حکم کے ذریعہ جمو نہ ہوگئے تھے بلکہ اسلامی نظریہ حیات نے ان کے اندر ایک زبردست اتحادی شعور پیدا کردیا تھا۔ یہ شعور اس قدر پختہ تھا کہ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہ تھی۔ غرض اس طرح ایک بہت بڑا خاندان وجود میں آگیا۔ ایک جماعت وجود میں آگئی۔ اس قسم کا خاندان نہ حکومت کی اساس پر قائم ہو سکتا تھا ، نہ معاشرتی حالات اسے پیدا کرسکتے تھے۔ بہرحال یہ اخوت اسلامی تھی ، ایک اندرونی شعور تھا۔ مہاجرین انصار بھائیوں کے ہاں آکر اترے۔ جنہوں نے ان کے لیے مدینہ کو خوب سنبھالا۔ استقبال کیا۔ ان کو اپنے دلوں اور گھروں میں اتارا اور آنکھوں پر بٹھایا۔ انہوں نے ان کو اپنے مالوں میں شریک کیا اور ایک دوسرے سے بڑھ کر ان کو پناہ دی۔ اس قدر مقابلہ ہوا کہ کوئی مہاجر کسی انصاری کے ہاں صرف قرعہ اندازی کے ذریعے جاسکتا تھا۔ کیونکہ مہاجرین کم تھے اور انصار زیادہ تھے جو پناہ دینا چاہتے تھے۔ یہ پناہ نہایت اعتماد اور شوق سے دی گئی ۔ حقیقی خوشی اور دلی مسرت کے ساتھ دی گئی ۔ یہ پناہ ہر قسم کے فطری بخل اور تکبر اور نمائش سے پاک تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات قائم کی۔ یہ نظام نظریاتی سو سائٹیوں کی تاریخ میں ایک بےمثال نظا ، تھا۔ یہ برادری باقاعدہ خون کی برداری کے قائم مقام ہوگئی۔ چناچہ اس نظام کے تحت لوگ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوئے اور اجتماعی تکافل کے دوسرے فرائض و واجبات بھی ادا کرتے رہے۔ مثلاً دیت وغیرہ۔ یہ شعوری اتحاد نہایت بلند مقام تک جا پہنچا اور مسلمانوں نے بڑی سنجیدگی سے ان تعلقات کو مستحکم کیا۔ اسی طرح وہ بھائی بن گئے جس طرح اسلام کے دوسرے احکام انہوں نے قبول کیے۔ چناچہ یہ سوسائٹی ایک مستحکم حکومت کی شکل اختیار کرگئی ہے اور مواخات کے اصول باقاعدہ حکومتی ادارہ ، ایک قانونی نظام اور ایک مستقل صورت حال اختیار کر گئے۔ بلکہ اس کی جڑیں بہت گہری ہوگئیں۔ اس نئی جماعت اور سوسائٹی کو کسی دھچکے سے بچانا بھی ضروری تھا۔ یہ نظام جو مستقل شکل اختیار کر رہا تھا اللہ کے منشاء کے مطابق ایک عارضی انتظام تھا۔ جس جماعت کو بھی ایسے حالات کا سامنا ہو جیسا کہ مدینہ کی اسلامی جماعت کو تھا ، اس کے لیے اس قسم کا شعور پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس شعور کے تحت ایک مستقل سوسائٹی اور حکومت وجود میں آجائے۔ ایک قانونی نظام ہو ، اور مسلم ادارے ہوں تکہ غیر معمولی حالات میں ایسے جماعت کو درپیش مسائل حل کیے جاسکیں اور اس طرح جماعتی زندگی کو ترقی دی جاسکی۔ یہ کام اس وقت تک ہوتا رہے جب تک حالات معمول پر نہیں آجاتے۔ اسلام اگرچہ اس قسم کے شعور کو ہر وقت زندگی رکھنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس قسم کی اخوت اور ایثار کے فوارے اسلامی سوسائٹی کے اندر پھوٹتے ہی رہیں۔ ان سے حجت اور قوت کے چشمے جاری رہیں لیکن اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ سوسائٹی کا ارتقاء طبیعی حالات کے مطابق ہو اور اجتماعیت کا نظام محض وقتی جذبات اور وقتی طوفان پر نہ ہو ، جن سے غیر معمولی حالات میں کام لیا جاتا ہے بلکہ سوسائٹی کو طبیعی اور نارمل حالات پر استوار کیا جاتا رہے۔ اور معمول کے مطابق نظام چلتا رہے۔ حتی کہ غیر ضروری اور استثنائی حالات ختم ہوں۔ جب غزوہ بدر کے بعد مدینہ میں حالات قدرے معمول پر آگئے ، اسلامی حکومت مستحکم ہوگئی ، اجتماعی حالات معمول کے مطابق مستحکم ہوگئے اور لوگوں کے لیے روزگار کا انتظام ہوگیا۔ اسلامی لشکروں نے جو چھوٹی موٹی لشکر کشیاں شروع کردی تھیں ، بدر کی جنگ کے بعد ان کی وجہ سے لوگوں کے مالی حالات درست ہوگئے ، خصوصاً بنی قینقاع کی جلاوطنی کی وجہ سے مسلمانوں کے پاس کافی اموال جمع ہوگئے۔ جو نہی سوسائٹی کے اندر دوسرے ذرائع سے سوشل سیکورٹی کا انتظام ہوگیا قرآن کریم نے مواخات کے اس غیر معمولی نظام کو ازوائے قانون ختم کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگائی اور اجتماعی کفالیت کا نظام خاندانی اور نسب کے نظام کے ساتھ منسلک کردیا گیا ۔ البتہ اسلام نے اسلامی اخوت اور مواخات کے پیچھے جو شعوری جذبہ تھا ، اسے بہرحال بحال رکھا کہ اگر پھر اس قسم کے غیر معمولی حالات پیدا ہوجائیں تو دوبارہ یہ نظام قائم ہوسکے۔ اس طرح جماعت مسلمہ کے اندر اجتماعی کفالت کا نظام اپنی حقیقی حالت کی طرف لوٹا دیا گیا ، غرض وراثت ، دیات میں تکافل خون اور نسب کی طرف لوٹا دیا گیا۔ جیسا کہ اللہ کی کتاب میں پہلے ہی یہ درج تھا۔ واولوا الارحام بعضھم ۔۔۔۔۔ فی الکتب مسطورا (33: 6) ” مگر کتاب اللہ کی رو سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کرسکتے ہیں۔ یہ حکیم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے “۔ فیصلہ کردیا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ولی عام ہیں اور یہ وہ ولایت ہے جو رشتہ داری بلکہ اپنے نفوس پر بھی مقدم ہے۔ النبی اولی بالمومنین من انفسھم (33: 6) ” نبی مومنین کے لیے ان کے نفسوں سے بھی مقدم ہے “۔ اور یہ بھی فیصلہ کردیا گیا کہ ازواج مطہرات روحانی مائیں ہیں۔ وازواجہ امھتھم (33: 6) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں ان کی مائیں ہیں “۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولایت عام ولایت ہے ، آپ کو اختیارات حاصل تھے کہ آپ امت مسلمہ کو زندگی کا پورا نظام دے دیں۔ اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ رسول اللہ پر درود وسلام بھیجیں اور ان کے لیے کوئی راہ اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ ان امور کو اپنالیں جو ان کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اختیار کرلیے۔ لایومن احدکم ۔۔۔۔۔ جئت بہ ” تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہشات ان احکام کے تابع نہ ہوجائیں جو میں لے کر آیا ہوں “۔ اس میں مسلمانوں کا شعور بھی شامل ہے ، لہٰذا ان کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہونی چاہئے۔ اپنی جان سے بھی وہ بمقابلہ رسول زیادہ محبت نہیں کرسکتے۔ ان کے دلوں میں کوئی ذات یا کوئی چیز ذات رسول سے مقدم نہ ہونی چاہئے۔ حدیث صحیح میں ہے۔ والذی نفسی بیدہ ۔۔۔۔۔ والناس اجمعین ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا ، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے نفس اس کے مال ، اور اس کی اولاد بلکہ تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ صحیح حدیث میں ہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں ۔ میں نے کہا حضور ، آپ میرے نفس کے سوا مجھے دنیا کی تمام چیزوں سے عزیز ہیں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں اے عمر ، یہاں تک کہ میں آپ کے لئے تمہاری جان سے بھی محبوب نہ ہوجاؤں “۔ اس پر اس نے کہا رسول خدا ، خدا کی قسم بیشک آپ مجھے تمام چیزوں سے محبوب ہیں یہاں تک میرے نفس سے بھی۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اب اے عمر “۔ یہ صرف باتیں ہی نہ تھیں۔ یہ ایک بلند معیار تھا جس تک اسلامی سوسائٹی پہنچی ہوئی تھی اور اس تک کوئی دل تب ہی پہنچ سکتا ہے جب تک کسی دل کو عالم بالا کی جانب سے مساس حاصل نہ ہوجائے اور وہ اپنی نظریں افق بلند تک اونچی نہ کردے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ذات کی کشش اور اس کی گہری محبت بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہوجاتی ہے۔ انسان اپنی ذات اور اپنی ذات کے متعلقات سے ناقابل تصور محبت کرتا ہے۔ بعض اوقات اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنے جذبات اور احساسات پر قابو پالیا ہے۔ اپنے نفس کر رام کو لیا ہے اور حب ذات کی بلندیوں سے وہ اتر آیا ہے لیکن جب اس کی ذات اور اس کے مفادات پر زد پڑتی ہے تو وہ یوں اچھل پڑتا ہے جیسا کہ اسے سانپ نے ڈس لیا ہے۔ وہ اس چبھن کو اس طرح محسوس کرتا ہے کہ اسے برداشت ہی نہیں کرسکتا۔ اگر برداشت کر بھی لے تو یہ درد اس کے شعور میں بیٹھ جاتا ہے اور اس کی گہرائیوں میں گھر کرلیتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنی پوری زندگی بھی قربان کردینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے لیکن اپنی ذاتی توہین برداشت نہیں کرسکتا۔ نہ وہ کوئی ایسا عیب برداشت کرسکتا ہے جو اس کی ذات وصفات کی طرف منسوب کیا جائے اگرچہ کوئی بظاہر یہ ظاہر کرے کہ وہ ان باتوں پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ، یا ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ غرض اپنی ذات پر قابو پانا اور اپنی ذات سے بھی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنے نظریہ کو زیادہ اہمیت دینا ، محض زبانی بات نہیں ہے کہ کوئی آسانی سے کہہ دے۔ یہ ایک ایسا مقام بلند ہے جس تک عالم بالا کے مساس کے بغیر کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اس کے لیے طویل جدوجہد ، طویل مشق اور دائمی بیداری اور مخلصانہ خواہش کی ضرورت ہے جس کے ساتھ اللہ کی خاص مدد شامل حال رہے۔ یہ ہے عظیم جہاد۔ جیسا کہ اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جہاد اکبر کہا اور یہ وہ مقام ہے کہ حضرت عمر (رض) جیسی شخصیت کو بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے تنبیہ اور تصحیح کی ضرورت پڑگئی۔ یہ ان کے قلب صافی کی ایک چن کی تھی جس کے نتیجے میں حضرت عمر (رض) اس مقام بلند تک پہنچ گئے اور ایک سیکنڈ میں۔ ولایت عامہ میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے امت کے افراد پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔ حدیث صحیح میں ہے ” جو بھی مومن ہیں میں ان کے لئے تمام لوگوں سے محبوب ہوں ، دنیا اور آخرت دونوں میں ، اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔ النبی اولی بالمومنین من انفسھم (33: 6) ” نبی مومنین کے لیے ان کے نفسوں سے بھی مقدم ہے “۔ اس لیے جس مومن نے مال چھوڑا تو یہ اس کے عصبات کو ملے گا جو بھی ہوں اور اگر اس پر قرض ہو یا کوئی نادان ہو تو وہ میرے پاس آئے ، میں اس کا والی ہوں “۔ معنی یہ ہے کہ اگر مومن مر جائے اور اس کی میراث میں مال نہ ہو جس سے اس کا قرضہ ادا کردیا جائے تو میں اس کا قرض ادا کروں گا اور اگر اس کے عیال ہوں تو میں ان کی پرورش کروں گا ، اگر چھوٹے ہوں ۔ اس کے علاوہ عام حالات میں ، عام لوگوں کی زندگی طبعی حالات کے مطابق اپنی جدوجہد کے مطابق گزرے گی ، اس کے لیے اس قوم کے غیر معمولی جوش و خروش پیدا کرنے کی ضرورت نہیں جو غیر معمولی حالات میں ہوتا ہے۔ اگرچہ نظام مواخات قانونی اعتبار سے تو ختم کردیا گیا مگر اخلاقی دائرے میں موجود رہا۔ لہٰذا اگر کوئی دوست اپنے دوست کے لیے کوئی وصیت کرتا ہے تو اسے ثلث مال تک وصیت کی اجازت ہے۔ الا ان تفعلوا الی اولیئکم معروفا (33: 6) ” الا یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی احسان کرنا چاہو “۔ ان تمام اقدامات کو مضبوطی سے اس کے ساتھ مربوط کردیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا ارادہ اور مشیت ہے اور کان ذلک فی الکتب مسطورا (33: 6) ” یہ قانون کتاب میں لکھا ہوا تھا “۔ لہٰذا دل مطمئن رہیں اور اس اصل کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں جس کی طرف تمام قوانین لوٹتے ہیں۔ یوں اب لوگوں کی معاشی زندگی اپنے قدرتی اصولوں پر استوار ہوجاتی ہے اور نہایت ہی سنجیدگی اور اطمینان سے چلتی ہے۔ اور اس کو ایسے معیار پر نہیں رکھا گیا جو غیر معمولی حالات میں قائم کیے جاسکتے ہیں۔ محدود جماعتوں اور محدود افراد کے اندر۔ لیکن اسلام اس فیاض سرچشمے کو بند بھی نہیں کرتا تاکہ اگر مستقبل میں اسلامی جماعت کو کسی استثنائی حالت میں ضرورت پڑے تو وہ اس جذبہ کو کام میں لائے یعنی ہنگامی حالات میں۔ اس بات کی مناسبت سے کہ یہ سب کچھ پہلے ہی کتاب میں لکھا ہوا تھا اور اللہ کی مشیت نے طے کردیا تھا کہ وہ باقی رہنے والا دائمی قانون بن جائے اور مسلسل طریقہ کار ہو۔ اس حوالے سے نبیوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے۔ خصوصاً اولو العزم نبیوں سے کہ وہ اسلامی نظام کے قیام کی ذمہ داری قبول کریں اور اس تحریک پر جمے رہیں لوگوں کے اندر تبلیغ و تحریک کا کام جاری رکھیں اور ان اقوام میں اس دعوت کو جاری رکھیں جن کی طرف ان کو بھیجا گیا ہے تاکہ یہ بات لوگوں کے خلاف حجت ہو کہ ان تک پیغام پہنچا تھا اور وہ اپنی ضلالت و ہدایات کے ذمہ دار ہیں کفر اور ایمان کے ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ پیغمبروں کی تبلیغ کے بعد تو حجت تمام ہوجاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مومنین سے نبی کا تعلق اس سے زیادہ ہے جو ان کا اپنے نفسوں سے ہے اور آپ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اس آیت میں بظاہر چار باتیں بتائی ہیں، اول یہ کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مومنین سے جو تعلق ہے وہ اس تعلق سے بھی زیادہ ہے جو مومنین کو اپنی جانوں سے ہے، اس میں بہت سے مضامین آجاتے ہیں، اول یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایمان والوں کے ساتھ جو رحمت اور شفقت کا تعلق ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ مومنین کو بھی اپنی جانوں سے رحمت و شفقت کا اتنا تعلق نہیں ہے، اس کا کچھ بیان سورة توبہ کی آیت کریمہ (لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ) کے ذیل میں گزر چکا ہے وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت اور شفقت کے بارے میں بعض احادیث گزر چکی ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ گوارہ نہ تھا کہ کسی مومن کو کوئی بھی تکلیف پہنچ جائے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی کو دینی ضرورت سے غصہ میں کچھ فرما دیا تو اس کو بھی رحمت بنا دیا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بارگاہ خداوندی میں یوں دعا کی : (اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اتَّخَذْتُ عِنْدَکَ عَھْدًا لَنْ تُخْلِفَنِیْہِ فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ فَاَیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ اٰذَیْتُہٗ شَتَمْتُہٗ لَعَنْتُہٗ جَلَدْتُّہٗ فَاجْعَلْھَا لَہٗ صَلوٰۃً زَکٰوۃً تُقَرَّبَہٗ بِھَا اِلَیْکَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ) ” اے اللہ ! میں آپ سے ایک درخواست کرتا ہوں جو امید ہے کہ آپ ضرور ہی قبول فرمائیں گے وہ یہ کہ میں ایک انسان ہوں پس جس کسی مومن کو میں نے تکلیف دی، برا بھلا کہا، لعنت کی، کوڑا مارا تو میرے اس عمل کو آپ اس کے لیے رحمت اور پاکیزگی اور اپنی نزدیکی کا ذریعہ بنا دیں جس کے ذریعہ آپ قیامت کے دن اس کو اپنے قرب سے نواز دیں۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقت عامہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت شریفہ تھی کہ جب کسی ایسے شخص کا جنازہ پڑھنے کے لیے لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دریافت فرماتے تھے کہ اس نے ادائیگی کا انتظام چھوڑا ہے یا نہیں ؟ اگر جواب میں عرض کیا جاتا کہ اس نے ادائیگی کا انتظام چھوڑا ہے تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیتے تھے اور اگر یہ بتایا جاتا کہ اس نے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہیں چھوڑا تو فرماتے تھے کہ تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو (یہ طریقہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لیے اختیار فرمایا تھا کہ لوگوں پر قرضدار ہو کر مرنے کی شناعت و قباحت ظاہر ہوجائے کہ دیکھو حضور نے اس کی نماز جنازہ تک نہیں پڑھی) پھر جب اللہ نے آپ پر فتوحات کے دروازہ کھول دئیے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بطور خطیب کھڑے ہوئے اور فرمایا (اَنَا اَوْلیٰ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ ) (مجھے مومنین سے اس سے زیادہ تعلق ہے جتنا انہیں ان کی جانوں سے ہے) لہٰذا مومنین میں سے جس کسی شخص کی وفات ہوجائے اور وہ اپنے اوپر قرضہ چھوڑ جائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جو کوئی مال چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے تھے کہ کسی مسلمان کو کوئی بھی تکلیف نہ ہو نہ دنیا میں نہ آخرت میں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اور بتایا اور تعلیم دی اس میں مومنین کے لیے خیر ہی خیر ہے جبکہ خود مومن بندے کبھی اپنی رائے کی غلطی سے اور کبھی کسی خواہش سے متاثر ہو کر دنیا و آخرت میں اپنی جانوں کو تکلیف پہنچانے والے کام بھی کر گزرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی مثال دے کر سمجھایا اور فرمایا کہ میری مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی شخص نے آگ جلائی جب آگ نے اپنا آس پاس روشن کردیا تو پروانے اور یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے جو آگ میں گرا کرتے ہیں اس میں گرنے لگے، آگ جلانے والا انہیں روکتا ہے اور وہ اس پر غالب ہوجاتے ہیں اور اس میں داخل ہوجاتے ہیں، میری اور تمہاری مثال ایسی ہے میں دوزخ سے بچانے کے لیے تمہاری کمروں کو پکڑتا ہوں کہ آجاؤ آگ سے بچو آگ سے بچو پھر تم مجھ پر غلبہ پاجاتے ہو (یعنی ایسے کام کرتے ہو جو دوزخ میں جانے کا سبب ہوجاتے ہیں۔ ) (رواہ مسلم جلد ٢ ص ٢٤٨) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوشش تو یہی رہی کہ امت مسلمہ کا کوئی شخص بھی دوزخ میں نہ جائے لیکن دنیا داری کی وجہ سے اور نفس کی خواہشوں کے دباؤ سے لوگ گناہ کرکے عذاب کے مستحق ہوجاتے ہیں، یہاں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو خیر خواہی کے لیے محنت کی ہی تھی آخرت میں سفارش بھی کریں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقت میں نہ یہاں کمی رہی نہ وہاں ہوگی، البتہ امت کو بھی اپنی جانوں کو عذاب آخرت سے بچانے کے لیے فکر رکھنا چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو یہاں تک کیا کہ امت کی خیر خواہی کے لیے یقیناً مقبول ہونے والی دعا کو آخرت میں فائدہ پہنچانے کے لیے محفوظ فرمالیا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے لیے ایک دعائے مستجاب ہے (یوں تو حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) بہت سی دعائیں کرتے تھے جو مقبول ہوا کرتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اختیار دیا گیا تاکہ کوئی سی ایک دعاء کرلو جو ضرور ہی قبول ہوگی) لہٰذا ہر نبی نے اپنی اس دعا کو دنیا میں استعمال کرلیا اور میں نے یہ دعا اپنی امت کی شفاعت کے لیے قیامت کے دن تک چھپا کر رکھ لی ہے سو میری امت میں سے ہر اس شخص کو پہنچ جائے گی جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ کیا ہو۔ (رواہ مسلم) ازواج مطہرات (رض) کا اکرام و احترام دوسری بات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَاَزْوَاجُہٗ اُمَّھٰتُھُمْ ) (کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں ایمان والوں کی مائیں ہیں) یعنی ان کا اکرام و احترام واجب اور لازم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد امت کے کسی فرد کے لیے یہ حلال نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات میں سے کسی سے نکاح کرسکے، جیسا کہ اسی سورت کے رکوع نمبر ٧ میں (وَلاَ اَنْ تَنْکِحُوْا اَزْوَاجَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ اَبَدًا) فرمایا ہے لیکن پردہ کے اعتبار سے وہ حکم نہیں تھا جو اپنی ماؤں سے ہے، جیسا کہ اسی سورت میں فرمایا ہے (وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَسْءَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ) (اور جب تم ان سے کوئی سامان طلب کرو تو پردہ کے پیچھے سے مانگو۔ ) رشتہ داری کے اصول مقررہ کے مطابق میراث تقسیم کی جائے تیسرا حکم بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ ) (اور رشتہ دار اللہ کی کتاب میں بہ نسبت دوسرے مومنین مہاجرین کے زیادہ قریب تر ہیں) جب حضرات صحابہ (رض) مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات فرما دی تھی یعنی بعض کو بعض کا بھائی بنا دیا تھا، بھائی بن جانے کی وجہ سے ایک دوسرے کی خصوصی رعایت اور خدمت کے جذبات پیدا ہوگئے تھے اور یہ تعلق یہاں تک تھا کہ دونوں میں سے کسی ایک کے فوت ہوجانے پر آپس میں میراث بھی جاری ہوتی تھی، اس آیت میں اور سورة انفال کی آخری آیت میں اس اخوت والی میراث کو منسوخ فرما دیا اور یہ ارشاد فرمایا کہ آپس میں رشتہ داریاں ہیں اب انہیں ان کی بنیاد پر حسب قواعد شرعیہ میراث ملے گی۔ چوتھی بات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (اِلاَّ اَنْ تَفْعَلُوْآ اِلآی اَوْلِیٰٓءِکُمْ مَّعْرُوْفاً ) (مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرو) یعنی غیر رشتہ داروں میں میراث تو جاری نہ ہوگی (بلکہ سب رشتہ داروں میں بھی جاری نہیں ہوتی) البتہ جس کو بھی شرعی اصول سے میراث نہ پہنچتی ہو اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے، مالی امداد کردی جائے، اس کی حاجتیں پوری کرنے کی کوشش کی جائے، (مثلاً بطور ہبہ یا صدقہ یا میراث شرعی اصول کے مطابق دے دی جائے) تو یہ دوسری بات ہے، یہ چیز نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ مستحب و مستحسن اور باعث اجر وثواب ہے۔ (کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا) (یہ اللہ کی کتاب میں لکھا ہوا ہے) بعض حضرات نے یہاں کتاب سے لوح محفوظ مراد لی ہے اور مطلب یہ بتایا ہے کہ لوح محفوظ میں یہ لکھا ہے کہ ہجرت کی وجہ سے جو توارث مشروع ہوگا وہ منسوخ ہوجائے گا۔ اور آخری حکم توارث بالارحام یعنی رشتہ داریوں کے اصول پر میراث دینے کا حکم باقی رہے گا، اور بعض حضرات نے کتاب سے آیت المواریث اور بعض حضرات نے یہی آیت مراد لی ہے۔ صاحب روح المعانی نے ایک اور احتمال نکالا ہے وہ فرماتے ہیں : (او فیما کتبہ سبحانہ و تعالیٰ وفرضہ وقضاہُ ) یعنی اللہ تعالیٰ نے فرض فرما دیا اور فیصلہ فرما دیا کہ اب میراث رشتہ داری کے اصول ہی پر منحصر رہے گی، یہ کتاب اللہ ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ النبی اولی الخ، یہ مومنوں سے پہلا خطاب ہے۔ پیغمبر (علیہ السلام) کا ایمان والوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق ہے۔ اس لیے اے ایمان والو ! پیغمبر (علیہ السلام) نے رسم جاہلیت کو توڑا ہے اب کفار و منافقین آپ کی مخالفت کریں گے تم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دینا اور بوقت ضرورت اپنی جانیں بھی آپ پر قربان کردینا اور آپ کی ازواج مطہرات کو اپنی ماؤں کی طرح قابل حرمت سمجھنا اگر دشمن ان کی عزت پر حملہ کریں تو ان کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے کٹ مرنا۔ ازواج مطہرات عزت و احترام اور حرمت نکاح میں ماؤں کے حکم میں ہیں باقی حجاب اور وراثت کے احکام میں اجنبیات کے حکم میں ہیں۔ ای منزلات منزلۃ الامہات فی التحریم و استحقاق التعظیم واما فیما عدا ذلک فھن کالاجنبیات (ابو السعود ج 6 ص 766) ۔ 12:۔ واولوالارحام الِ ابتداء اسلام میں دینی اخوت کی بنا پر وراثت جاری تھی۔ دو مسلمان آپس میں دینی اخوت کی بنا پر معاہدہ کرلیتے اور ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے اسی طرح ہجرت بھی بناء توارث تھی۔ ایک غیر مہاجر مسلمان اور مہاجر مسلمان کے درمیان وراثت جاری نہ تھی اقرب غیر مہاجر کی موجودگی میں ابعد مہاجر وارث ہوتا تھا۔ اس آیت سے یہ دونوں احکام منسوخ ہوگئے ! اور صرف قرابت کو بناء وراثت قرار دے دیا گیا کان المسلمون یتوارثوں بالھجرۃ وقیل اخی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بین الناس فکان یواخی بین الرجلین فاذا مات احدھما ورثہ الاخر دون عصبۃ حتی نزلت واولوا الارحام الخ (خازن ج 5 ص 192) فی کتاب اللہ ای فیما فرض اللہ اور من المومنین الخ اولی کا صلہ ہے یعنی رشتہ دار اور اثت میں مومنین و مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ازواج مطہرات حرمت نکاح میں ماؤں کے حکم میں ہیں نہ کہ احکام وراثت میں کیونکہ وراثت کی بنا قرابت پر ہے۔ 13:۔ الا ان تفعلوا الخ، ان تفعلوا بتاویل مصدر مبتدا ہے اور اس کی خبر جائز محذوف ہے ای الافعلکم معروفا ای احسانا جائز الخ، معروف سے مراد وصیت ہے اور اولیاء سے مومنین اور مہاجرین مراد ہیں اس میں اجنبی مومنین اور مہاجرین کے لیے وصیت کرنے کی اجازت دی۔ اراد بالمعروف الوصیۃ و ذلک ان اللہ لما نسخ التوارث بالحلف والھجرۃ اباح ان یوصی الرجل لمن یتولاہ بما احب من ثلثہ (معالم ج 5 ص 192) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

6۔ نبی مسلمانوں کے ساتھ خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ تعلق اور لگائو رکھتا ہے اور نبی امور مسلمین میں تصرف کرنے کے بارے میں خود ان مسلمانوں کے نفسوں اور ان کی جانوں سے لائق تر ہے اور پیغمبر کی بیویاں ان مسلمانوں کی مائیں ہیں اور کتاب اللہ اور حکم شرعی کی رو سے رشتے دار آپس میں ایک دوسرے سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں با اعتبار دوسرے مؤمنین اور مہاجرین کے الا یہ کہ تم اپنے دوستوں میں سے کسی کے ساتھ کوئی سلوک اور بھلائی کرنا چاہو تو کرسکتے ہو یہ حکم لوح محفوظ ہیں لکھا جاچکا تھا۔ اولیٰ کا ترجمہ احری ، اجدر ، الیق سے کیا ہے یعنی سزا وار تر ، مسلمانوں کو بتایا کہ تمہارے نفوس کے مقابلے میں پیغمبر واجب الاطاعت اور واجب التعظیم ہے نفس تو انسان کو کبھی ہلاکت اور تباہی کی طرف لے جاتا ہے لیکن پیغمبر کی ہر بات انسان کی فوز و نجات کے لئے ہوتی ہے اس لئے پیغمبر کی اطاعت مطلقاً اور آپ کی تعظیم بدرجہ کمال واجب ہے نفس کی دعوت کے مقابلے میں پیغمبر کی دعوت کا قبول کرنا مقدم اور فرض ہے۔ حدیث میں ہے ما من مومن الاوانا اولی بہ فی الدنیا والاخرۃ من انفسھم ومن ابائھم یعنی کوئی مومن نہیں مگر یہ کہ اس کے لئے میں اس کی جان سے اور اس کے باپ سے ا س پر زیادہ شفقت کرنے والا ہوں ۔ کمال ایمان آپ کی محبت پر موقوف ہے جب تک کسی مومن کو آپ سے اپنی اولاد اور ماں باپ سے بلکہ سب لوگوں سے زیادہ محبت نہ ہو تب تک اس کے ایمان کے کامل ہونے کی شکل نہیں ۔ جیساکہ لا یومن احدکم روایت سے ظاہر ہے چونکہ آپ کو ابوۃ معنوی حاصل ہے اس لئے فرمایا کہ پیغمبر کی ازواج مسلمانوں کی مائیں ہیں اور یہ ابوۃ معنوی تمام انبیاء کو اپنی امم پر حال ہے۔ کما قال مجاھد مصحف ابی اور قرأۃ ابن مسعود میں یہ الفاظ وارد ہیں ۔ وھو اب لھم وازواجھ اماتھم۔ بہر حال ! بحث کو مختصر کرتے ہوئے گزارش ہے کہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہرا عتبار سے الویۃ حاصل ہے اور اس کی ازواج مطہرات مسلمانوں کی مائیں ہیں اور ان سے ان کی تعظیم کی بنا پر کوئی مسلمان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات یا طلاق کے بعد بھی نکاح نہیں کرسکتا ہے جیسا کہ اسی سورت میں اس کی تصریح موجود ہے اور چونکہ ان ازواج مطہرات کا مائیں ہونا ان کی تعظیم اور جلالت شان کے اعتبار سے ہے اس لئے نکاح میں تحریم فرمائی۔ باقی امور میں امویت ثابت نہیں ہے مثلاً ورثہ اور حجا ب وغیرہ تو اب ان کی بیٹیوں کو مسلمانوں کی بہنیں اور ازواج مطہرات کے بھائی بہنوں کو مسلمانوں کے ماموں یا خالائیں نہیں کہناہو گا ۔ بعض حضرات کا اس میں اختلاف ہے کہ ازواج مطہرات صرف مردوں کی مائیں ہیں یا مسلمان عورتوں کی بھی مائیں ہیں اس میں صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ جب مائیں کہنے سے اصل تحریم نکاح ہے اور دوسرے امور میں امومیت نہیں ہے اور عورتوں میں نکاح کی صلاحیت نہیں تو یہ امومیت صرف مردوں کے لئے ہے۔ جیساکہ حضرت عائشہ (رض) سے ایک قول بھی مروی ہے وہ فرماتی ہیں ، امام رجالکم لا ام نسائکم یعنی میں تمہارے مردوں کی ماں ہوں تمہاری عورتوں کی ماں نہیں ہوں ۔ بعض علماء مسلمان عورتوں اور مسلمان مردوں دونوں کی امومیت کے قائل ہیں ۔ ( واللہ اعلم) آپ کے آخری حصے میں مہاجرین اور انصار کے بھائی چارے اور مواخات کے سلسلے میں جو ورثہ جاری فرمایا تھا اس کو بتایا کہ وہ عرضی چیز تھی اور لوح محفوظ میں ایک وقت خاص اس کا مقرر تھا وہ وقت پورا ہوگیا۔ لہٰذا مرنے والے کے ورثے کے حق دار میت کے اہل قرابت ہیں اور آئندہ سے صرف مرنے والے کے اہل قرابت ہی کو ورثہ ملے گا اور جو حصوں کی مقدار سورة نساء میں گزر چکی ہے ۔ اس کے موافق حصہ رسدی ہر اہل قرابت کو دیاجائے گا ۔ البتہ اگر کوئی اہل قرابت کے علاوہ کسی دوسرے رفیق اور کسی دوست یا مہاجر کسی انصار کے ساتھ یا انصار کسی مہاجر کے ساتھ سلوک کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی زندگی میں دے سکتا ہے یا وصیت کرسکتا ہے اور وصیت کے ذریعہ دے سکتا ہے اور وصیت زیادہ سے زیادہ متروکہ مال کا تیسرا حصہ ہونا چاہئے پہلے لفظ کتاب کا ترجمہ ہم نے کتاب اللہ اور تیسیر میں احکام شرعیہ کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب قرابت دار اولیٰ ہیں تو آئندہ مہاجرین اور انصار کی مواخات کی بناء پر ترکہ تقسیم نہیں ہوگا بلکہ قرآن کی رو سے قرابت داروں میں تقسیم ہوگا اور کان ذلک فی الکتاب میں لوح محفوظ ترجمہ کیا ہے تا کہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ لوح محفوظ میں ہر حکم کا وقت مقرر ہے جب وہ وقت پورا ہوجاتا ہے وہ حکم ختم ہوجاتا ہے یہی مطلب ہے ناسخ منسوخ کا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں نبی نائب ہے اللہ کا اپنے جان مال میں اپنا تصرف نہیں چلتا جتنا نبی کا اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنی روا نہیں اور نبی حکم کرے تو فرض ہے اور اس کی عورتیں سب کی مائیں حرمت میں پردے میں نہیں اور حضرت کے ساتھ جنہوں نے وطن چھوڑا بھائی بندوں سے ٹوٹے ان کو حضرت نے آپ میں بھائی کردیا تھا دودو کو پیچھے ان کے ناتے والے مسلمان ہوئے فرمایا کہ اس بھائی چارے سے ناتا مقدم ہے میراث ناتے ہی پر ہے اور سب حکم مگر احسان اور سلوک اس کا بھی کئے جائو یہ کتاب میں لکھا ہے یعنی قرآن کریم میں ہمیشہ کو یہ حکم جاری رہا تو ریت میں بھی یہی حکم ہوگا ۔ 12 حضرت شاہ صاحب (رح) نے اولویت کی جو تقریر فرمائی ہے اس پر مجھے حضرت سہیل (رح) کا قول یاد آگیا وہ فرماتے ہیں ۔ من لم یر نفسہ فی ملک الرسول ولم یرولا یتہ علیہ فی جمیع اموالہ لم یذق حلاوۃ سنتہ۔ یعنی جس نے اپنی جان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملک نہیں سمجھا اور تمام احوال میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولایت اولویت اور برتری کو نہیں سمجھا اس نے رسول کی سنت کا مزہ اور سنن پیغمبر کی حلاوت کا مزہ نہیں چکھا یعنی سنت پر عمل کرنے کا مزہ ہی جب آتا ہے جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفعت شان اور علومرتبت سے واقف ہو ۔ ( اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد)