Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 61

سورة الأحزاب

مَّلۡعُوۡنِیۡنَ ۚ ۛ اَیۡنَمَا ثُقِفُوۡۤا اُخِذُوۡا وَ قُتِّلُوۡا تَقۡتِیۡلًا ﴿۶۱﴾

Accursed wherever they are found, [being] seized and massacred completely.

ان پر پھٹکار برسائی گئی ، جہاں بھی مل جائیں پکڑے جائیں اور خوب ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَلْعُونِينَ ... but a little while. Accursed... `this describes their state while they are in Al-Madinah for this short time before they are expelled and sent far away.' ... أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا ... they shall be seized wherever found, means, `they will be attacked, because they are so weak and so few,' ... وَقُتِّلُوا تَقْتِيلً and killed with a (terrible) slaughter. Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61۔ 1 یہ حکم نہیں ہے کہ ان کو پکڑ کر مار ڈالا جائے، بلکہ بددعا ہے کہ اگر وہ اپنے نفاق اور حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کا نہایت عبرت ناک حشر ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حکم ہے۔ لیکن یہ منافقین نزول آیت کے بعد اپنی حرکتوں سے باز آگئے تھے، اس لئے ان کے خلاف یہ کاروائی نہیں کی گئی جس کا حکم اس آیت میں دیا گیا تھا (فتح القدیر

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٢] اس سے مراد بنو قریظہ کا انجام ہے۔ بنونضیر کا سردار حیی بن اخطب بھی ان کے ساتھ ہی قتل ہوا تھا جس نے بنوقریظہ کو عہد شکنی پر مجبور کیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَّلْعُوْنِيْنَ ڔ اَيْنَـمَا ثُــقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَــقْتِيْلًا : یعنی ایسے لوگ ملعون ہیں، جہاں پائے جائیں گے انھیں گرفتار کر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ان آیات میں مذکورہ احکام وقتی اور عارضی نہیں، بلکہ قرآن مجید کے دوسرے احکام کی طرح قیامت تک کے لیے ہیں۔ اب بھی حکومت پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں کا یہی علاج کرے، جو لوگ بھرے بازار سے لڑکیاں اٹھا لیں، لڑکے اٹھا کر ان سے قوم لوط کا عمل کریں، پورے معاشرے کے سامنے نکاح کے بغیر بدکار مرد عورت اکٹھے رہ کر اللہ کی حدود کو للکارتے رہیں۔ ان کا علاج یہی ہے کہ انھیں گرفتار کر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے، تاکہ دوبارہ کسی کو ایسا کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اغوا اور ایسے دوسرے معاملات سادہ زنا کے کیس نہیں ہیں، بلکہ زنا کے علاوہ یہ فساد فی الارض کے تحت بھی آتے ہیں، جن کی سزا ایسے لوگوں کا صفایا ہے۔ براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں : ( لَقِیْتُ عَمِّيْ وَ مَعَہُ رَایَۃٌ فَقُلْتُ لَہُ أَیْنَ تُرِیْدُ ؟ قَالَ بَعَثَنِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی رَجُلٍ نَکَحَ امْرَأَۃَ أَبِیْہِ فَأَمَرَنِيْ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَہُ وَآخُذَ مَالَہُ ) [ أبو داوٗد، الحدود، باب في الرجل یزني بحریمہ : ٤٤٥٧، قال الألباني صحیح ] ” میں اپنے چچا سے ملا، اس کے پاس جھنڈا تھا، میں نے اس سے کہا : ” کہاں جانے کا ارادہ ہے ؟ “ اس نے کہا : ” مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا ہے کہ میں اس کی گردن اتاردوں اور اس کا مال لے لوں۔ “ مزید دیکھیے سورة مائدہ (٣٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

A person who turns an apostate (murtadd) after having embraced Islam is killed in punishment Two mischiefs made by the hypocrites have been mentioned in the cited verse and it has been said that should they fail to abstain from indulging in these any further, the punishment they shall face will be: مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا (Wherever they are found, they shall be seized, and shall be killed thoroughly - 61). This punishment is not meant for disbelievers at large. Numerous textual authorities from the Qur&an and Sunnah bear it out that this is not the law of the Shari’ ah of Islam for disbelievers. In fact, the law is that they should first be invited to embrace Islam along with sincere efforts to remove any doubts they may have. If, even then, they elect not to enter the fold of Islam, they should be asked to live as Dhimmi subjects of the Muslim state. If they accept that, the protection of their life, property and honor becomes obligatory on Muslims very much like that of Muslims themselves. Yes, if there are those who do not accept this too, and choose the option of fighting, then, the command is to fight back against them. The reason why this punishment to seize and kill them has been awarded in an absolute sense in the present verse is because this matter related to the hypocrites who used to call themselves Muslims - and when a Muslim starts demonstrating open hostility to and denial of Islam, such a person is called: Murtadd: apostate) in the terminology of the Shari` ah. With such a man, there is no compromise in the Shari’ ah of Islam - except that he repents and reverts to Islam and accepts the injunctions of Islam in word and deed. Otherwise, this person will be killed as it stands proved from clear statements of the Holy Prophet A and the collective practice of the noble Sahabah. The Jihad waged against the Liar Musaylimah and his cohorts with the collective approval of the Sahabah and the consequent killing of Musaylimah is sufficient as its proof. Then, in the last verse as well (62), this has been cited as the customary law and practice of Allah Ta’ ala which tells us that the punishment of an apostate (murtadd) in the religious laws of past prophets was no other but killing. Some Rulings: This verse proves that: (1) When women have to go out of the house to take care of some need, they should go with their whole body covered with a long sheet and walk face-hidden with this sheet brought from over the head to hang on, or in front of, the face. The common &burqa& also serves the same purpose. (2) Spreading rumors among Muslims that subject them to anxiety or worry or cause harm is haram (forbidden, unlawful).

جو شخص مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوجائے اس کی سزا قتل ہے : آیت مذکورہ میں منافقین کی دو شرارتوں کا ذکر کے ان سے باز نہ آنے کی صورت میں جس سزا کا ذکر کیا گیا ہے کہ (آیت) ملعونین اینما اخذوا وقتلوا تقتیلا، ” یعنی یہ لوگ جہاں رہیں گے لعنت اور پھٹکار ان کے ساتھ ہوگی، اور جہاں ملیں گے گرفتار کئے جائیں گے اور قتل کردیئے جائیں گے۔ “ یہ سزا عام کفار کی نہیں، بیشمار نصوص قرآن و سنت اس پر شاہد ہیں کہ عام کفار کے لئے شریعت اسلام میں یہ قانون نہیں ہے، بلکہ قانون یہ ہے کہ اول ان کو دعوت اسلام دی جائے، ان کے شبہات دور کرنے کی کوشش کی جائے اس پر بھی وہ اسلام نہ لائیں تو مسلمانوں کے تابع ذمی بن کر رہنے کا حکم دیا جائے، اگر وہ اس کو قبول کرلیں تو ان کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت مسلمانوں پر مسلمانوں ہی کی طرح فرض ہوجاتی ہے، ہاں جو اس کو بھی قبول نہ کریں اور جنگ پر آمادہ ہوجائیں تو ان کے مقابلہ میں جنگ کرنے کا حکم ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کو مطلقاً قید و قتل کی سزا سنائی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معاملہ منافقین کا تھا جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔ اور جب کوئی مسلمان احکام اسلام کی کھلی مخالفت اور انکار کرنے لگے تو وہ اصطلاح شرع میں مرتد کہلاتا ہے، اس کے ساتھ شریعت اسلام میں کوئی مصالحت نہیں، بجز اس کے کہ وہ تائب ہو کر پھر مسلمان ہوجائے، اور احکام اسلام کو قولاً وعملاً تسلیم کرلے ورنہ پھر اس کو قتل کیا جائے گا جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واضح ارشادات اور صحابہ کرام کے اجماعی تعامل سے ثابت ہے۔ مسیلمہ کذاب اور اس کی جماعت کے خلاف باجماع صحابہ جنگ و جہاد اور مسیلمہ کا قتل اس کی کافی شہادت ہے، اور آخر آیت میں اس کو اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت و دستور قرار دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ انبیاء سابقین کی شرائع میں بھی مرتد کی سزا قتل ہی تھی۔ مذکور الصدر خلاصہ تفسیر میں ان سزاؤں کو عام کفار کے ضابطہ میں لانے کے لئے جو توجیہ کی گئی ہے اس تقریر سے اس کی ضرورت نہیں رہتی۔ چند مسائل : اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ : (١) عورتوں کو جب کسی ضرورت کی بنا پر گھر سے نکلنا پڑے تو لمبی چادر سے تمام بدن چھپا کر نکلیں، اور اس چادر کو سر کے اوپر سے لٹکا کر چہرہ بھی چھپا کر چلیں، مروجہ برقع بھی اس کے قائم مقام ہے۔ (٢) مسلمانوں میں ایسی افواہیں پھیلانا حرام ہے جن سے ان کو تشویش اور پریشانی ہو اور نقصان پہنچے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَّلْعُوْنِيْنَ۝ ٠ ۚ ۛ اَيْنَـمَا ثُــقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَــقْتِيْلًا۝ ٦١ لعن اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] ( ل ع ن ) اللعن ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ ثقف الثَّقْفُ : الحذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه قيل : رجل ثَقِفٌ ، أي : حاذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه استعیر : المُثَاقَفَة «3» ، ورمح مُثَقَّف، أي : مقوّم، وما يُثَقَّفُ به : الثِّقَاف، ويقال : ثَقِفْتُ كذا : إذا أدركته ببصرک لحذق في النظر، ثم يتجوّز به فيستعمل في الإدراک وإن لم تکن معه ثِقَافَة . قال اللہ تعالی: وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة/ 191] ، وقال عزّ وجل : فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال/ 57] ، وقال عزّ وجل : مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب/ 61] . ( ث ق ف ) الثقف ( س ک ) کے معنی ہیں کسی چیز کے پالینے یا کسی کام کے کرنے میں حذا وقت اور مہارت سی کام لینا ۔ اسی سے المثاقفۃ کا لفظ مستعار ہے ( جس کے معنی ہتھیاروں کے ساتھ باہم کھیلنے کے ہیں اور سیدھے نیزے کو رمح مثقف کہا جاتا ہو ۔ اور الثقاف اس آلہ کو کہتے ہیں جس سے نیزوں کو سیدھا کیا جاتا ہے ثقفت کذا کے اصل معنی مہارت نظر سے کسی چیز کا نگاہ سے اور اک کرلینا کے ہیں ۔ پھر مجاذا محض کسی چیز کے پالینے پر بولا جاتا ہے خواہ اسکے ساتھ نگاہ کی مہارت شامل ہو یا نہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة/ 191] اور ان کو جہان پاؤ قتل کردو ۔ فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال/ 57] اگر تم ان کو لڑائی میں پاؤ ۔ مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب/ 61] . پھٹکارے ہوئے جہاں پائے گئے پکڑے گئے ۔ اور جان سے مار ڈالے گئے ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦١۔ ٦٢) اور ہر طرف سے مارے پٹے رہیں گے جہاں بھی ملیں گے پکڑ دھکڑ اور مار دھاڑ کی جائے گی اسی طرح دنیا میں عذاب الہی ان لوگوں پر نازل ہوتا چلا آرہا ہے جو ان منافقین سے پہلے گزرے ہیں۔ کہ جب انہوں نے انبیائے کرام اور مومنین سے مقابلہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان کے قتل کرنے کا حکم دے دیا اور آپ عذاب الہی کے دستور میں کوئی رد و بدل نہ پائیں گے۔ چناچہ ان منافقین کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی تو وہ اپنی باتوں سے رک گئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ { مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا } ” یہ پھٹکارے ہوئے لوگ ہیں ‘ جہاں بھی پائے جائیں گے پکڑ لیے جائیں گے اور ُ بری طرح قتل کردیے جائیں گے۔ “ یہ الفاظ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی شدید بیزاری اور ناراضی کا مظہر ہیں مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت سے منافقین کے خلاف ایسا کوئی اقدام ثابت نہیں ہے۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا کوئی حکم باقاعدہ طور پر نہیں دیا گیا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

49: یہاں منافقین کو خبر دار کیا گیا ہے کہ اس وقت ان کی منافقت چھپی ہوئی ہے، لیکن اگر انہوں نے اپنی نازیبا حرکتیں نہ چھوڑیں جن میں عورتوں کو چھیڑنے اور بے بنیاد افواہیں پھیلانے کا خاص طور پر حوالہ دیا گیا ہے تو ان کی منافقت صاف واضح ہوجائے گی، اور اس صورت میں ان کے ساتھ غیر مسلم دشمنوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:61) ملعونین۔ اسم مفعول جمع مذکر بحالت نصب ملعون واحد۔ لعنت کئے ہوئے۔ پھٹکارے ہوئے۔ اس کی دو صورتیں ہیں :۔ (1) اگر ملعونین پر وقف کیا جائے تو یہ جملہ سابقہ کے ساتھ ہوگا۔ اس صورت میں یہ ضمیر فاعل لا یجاورونک کا حال ہے یعنی وہ جو وقت یا مدت بھی آپ کے پڑوس میں رہیں گے ملعونین کی حالت میں رہیں گے ہر طرف سے ہر وقت ان پر پھٹکار ہوگی ! (2) اگر قلیلا پر وقف کیا جائے تو یہ جملہ سابقہ کے ساتھ ہوگا۔ اس صورت میں یہ این ما ثقفوا کی ضمیر ہم سے حال ہوگا۔ جہاں بھی پائے جائیں گے وہ مورد لعن و پھٹکار ہوں گے۔ اینما۔ این شرطیہ ہے اور ما موصولہ ہے جہاں کہیں۔ ثقفوا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب ثقف پالینا۔ وہ پائے گئے (جہاں کہیں) وہ ملیں یہاں مستقبل کے معنی میں ہے جہاں کہیں بھی وہ پائے جائیں گے۔ اخذوا۔ وہ پکڑے جائیں گے۔ وقتلوا اور مار ڈالے جائیں گے۔ تقتیلا۔ مصدر منصوب برائے تاکید لایا گیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(مَلْعُوْنِیْنَ ) جب مدینہ منورہ سے جلا وطن کیے جائیں تو حالت لعنت میں پھرتے رہیں گے ان پر اللہ کی پھٹکار ہوگی۔ (اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْاتَقْتِیْلًا) پھر جہاں کہیں بھی ہوں گے پکڑے جائیں گے اور خوب قتل کیے جائیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

61۔ اور وہ تھوڑے دنوں بھی اس حالت سے کہ ہر طرف سے پھٹکارے ہوئے جہاں پائے جائیں گرفتار کئے جائیں اور شدت کے ساتھ قتل کئے جائیں۔ یعنی منافق لوگ اپنی مفسد انہ شرارتوں سے بازنہ آئے اور شہوت پرست منافق عورتوں کی چھیڑ چھاڑ سے باز نہ آئے اور افواہیں اڑانے والے جو جنگ کے زمانہ میں مسلمانوں کی شکست اور کفار کی فتح کا پروپیگنڈہ کیا کرتے ہیں جن کا ذکر سورة نساء میں گزر چکا ہے ، یہ لوگ اپنی افواہوں سے با ز نہ آئے تو ہم آپ کو حکم دیں گے کہ ان کو جلا وطنی پر مجبور کردیں اور آپ کو ان پر مسلط کردیں گے کہ آپ ان کو جلا وطنی کی سزا دیں اور اس حکم کی وجہ سے یہ مدینے میں آپ کے ساتھ نہ رہ سکیں گے آپ کے ساتھ کا یہ مطلب کہ وطن کی معیت باقی نہیں رہے گی مگر تھوڑے دن یعنی جب تک اپنا سامان اور اسباب تیار کریں لیکن حالت یہ ہوگی کہ پھٹکارے ہوئے ہوں گے اور ان پر ہر طرف سے لعنت برستی ہوگی اور ان کو قتل اور گرفتار کی سزا بھی دی جائیگی یعنی اگر شرارت بڑھے گی تو سزا میں اضافہ کیا جائے گا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جو لوگ بدنیت تھے مدینے میں عورتوں کو چھیڑتے ٹوکتے اور جھوٹی خبریں اڑاتے مخالفوں کے زور کی اور مسلمانوں کی شکست کی ان کو یہ فرمایا اور تورات میں تقید ہے کہ مفسدوں کو اپنے بیچ سے باہرکر ۔ 12 خلاصہ۔ یہ کہ ان شرارت پسندوں کو نفاق کے پردے میں پناہ ملی ہوئی ہے اور جب ان کی جارحانہ کارروائیوں سے وہ پردہ چاک ہوگیا تو جو اہل حرب اور کھلے دشمنوں کے ساتھ سلوک ہوتا ہے وہ ان کے ساتھ بھی ہوگا اور یہ کوئی نیا قانون اور دستور نہیں ہے بلکہ انبیائے سابقین کے عہد میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔