Surat Saba

Surah: 34

Verse: 1

سورة سبأ

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ لَہُ الۡحَمۡدُ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۱﴾

[All] praise is [due] to Allah , to whom belongs whatever is in the heavens and whatever is in the earth, and to Him belongs [all] praise in the Hereafter. And He is the Wise, the Acquainted.

تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس کی ملکیت میں وہ سب کچھ ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے آخرت میں بھی تعریف اسی کے لئے ہے وہ ( بڑی ) حکمتوں والا اور ( پورا ) خبردار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

All Praise and the Knowledge of the Unseen belong to Allah Alone Allah tells us that all praise belongs to Him alone in this world and in the Hereafter, because He is the Giver and Bestower who gives to the people of this world and the Hereafter, the Sovereign and Controller of all. Allah says: وَهُوَ اللَّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِى الاٍّولَى وَالاٌّخِرَةِ وَلَه... ُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ And He is Allah; none has the right to be worshipped but He, all praise is due to Him (both) in the first (i.e., in this world) and in the last (the Hereafter). And for Him is the decision, and to Him shall you (all) be returned. (28:70) Allah says: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الاَْرْضِ ... All praise is due to Allah, to Whom belongs all that is in the heavens and all that is in the earth. meaning, all of it is His dominion and is enslaved by Him and subject to His control, as Allah says: وَإِنَّ لَنَا لَلٌّخِرَةَ وَالاٍّولَى And truly, unto Us (belong) the last (Hereafter) and the first (this world). (92:13) Then Allah says: .... وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الاْخِرَةِ ... His is all praise in the Hereafter, for He is the One Who will be worshipped forever and praised for eternity. ... وَهُوَ الْحَكِيمُ ... and He is the All-Wise, means, in all that He says and does, legislates and decrees. ... الْخَبِيرُ the All-Aware. from Whom nothing at all is hidden or concealed. Malik narrated that Az-Zuhri said, He is All-Aware of His creation, All-Wise in His commands. Allah says:   Show more

اوصاف الٰہی ۔ چونکہ دنیا اور آخرت کی سب نعمتیں رحمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں ۔ ساری حکومتوں کا حاکم وہی ایک ہے ۔ اس لئے ہر قسم کی تعریف و ثناء کا مستحق بھی وہی ہے ۔ وہی معبود ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ۔ اسی کیلئے دنیا اور آخرت کی حمد و ثناء سزاوار ہے ۔ اسی کی حکومت ہے اور اسی کی طرف ... سب کے سب لوٹائے جاتے ہیں ۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اس کے ماتحت ہے ۔ جتنے بھی ہیں سب اس کے غلام ہیں ۔ اس کے قبضے میں ہیں سب پر تصرف اسی کا ہے ۔ آخرت میں اسی کی تعریفیں ہوں گی ۔ وہ اپنے اقوال ، افعال ، تقدیر ، شریعت سب میں حکومت والا ہے اور ایسا خبردار ہے جس پر کوئی چیز مخفی نہیں ، جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں ، جو اپنے احکام میں حکیم ، جو اپنی مخلوق سے باخبر ، جتنے قطرے بارش کے زمین میں جاتے ہیں ، جتنے دانے اس میں بوئے جاتے ہیں ، اس کے علم سے باہر نہیں ۔ جو زمین سے نکلتا ہے ، اگتا ہے ، اسے بھی وہ جانتا ہے ۔ اس کے محیط ، وسیع اور بےپایاں علم سے کوئی چیز دور نہیں ۔ ہر چیز کی گنتی ، کیفیت اور صفت اسے معلوم ہے ۔ آسمان سے جو بارش برستی ہے ، اس کے قطروں کی گنتی بھی اس کے علم میں محفوظ ہے جو رزق وہاں سے اترتا ہے وہ بھی اس کے علم میں ہے اس کے علم سے نیک اعمال وغیرہ جو آسمان پر چڑھتے ہیں وہ بھی اس کے علم میں ہیں ۔ وہ اپنے بندوں پر خود ان سے بھی زیادہ مہربان ہے ۔ اسی وجہ سے انکے گناہوں پر اطلاع رکھتے ہوئے انہیں جلدی سے سزا نہیں دیتا بلکہ مہلت دیتا ہے کہ وہ توبہ کرلیں ۔ برائیاں چھوڑ دیں رب کی طرف رجوع کریں ۔ پھر غفور ہے ۔ ادھر بندہ جھکا رویا پیٹا ادھر اس نے بخش دیا یا معاف فرما دیا درگزر کرلیا ۔ توبہ کرنے والا دھتکارا نہیں جاتا توکل کرنے والا نقصان نہیں اٹھاتا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یعنی اسی کی ملکیت اور تصرف میں ہے اسی کا ارادہ اور فیصلہ اس میں نافذ ہوتا ہے انسان کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسی کی پیدا کردہ ہے اور اسی کا احسان ہے اسی لیے آسمان و زمین کی ہر چیز کی تعریف دراصل ان نعمتوں پر اللہ ہی کی حمد و تعریف ہے جن سے اس نے اپنی مخلوق کو نوازا ہے۔ 1۔ 2 یہ تعریف قیامت والے...  دن اہل ایمان کریں گے مثلا (الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ) (الحمدللہ الذی ھدٰنا لھذا) (الحمدللہ الذی اذھب عنا الحزن) تاہم دنیا میں اللہ کی حمد و تعریف عبادت ہے جس کا مکلف انسان کو بنایا گیا ہے اور آخرت میں یہ اہل ایمان کی روحانی خوراک ہوگی جس سے انھیں لذت و فرحت محسوس ہوا کرے گی۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١] فی الآخرۃ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اس دنیا میں اگر کسی انسان کے کارناموں کی تعریف کی جائے۔ تو وہ بالآخر اللہ کی ہی تعریف ہوگی۔ کیونکہ انسان کو ہر طرح کی قوت، صلاحیت اور استعداد عطا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ یعنی فی الاخرۃ کا لفظ یہاں بالآخر کا معنی دے رہا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں ت... و کچھ اسباب ظاہر ہیں جو سب کو دکھائی دینے یا محسوس ہوتے ہیں لیکن اچھ اسباب ایسے بھی ہیں جن پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ آخرت میں ایسے سب پردے اور جماعت اٹھ جائیں گے اور ہر ایک کو یہ نظر آئے گا کہ قابل تعریف ذات تو صرف اللہ ہی کی ہے۔ [٢] اور حکم اس لحاظ سے ہے کہ اس نے کائنات میں جو چیز بھی بنائی ہے وہ ایک نہیں متعدد مقاصد پورے کر رہی ہے پھر کائنات کے نظام کا مربوط اور منظم ہونا بھی اس کی حکمت کی بہت بڑا دلیل ہے اور باخبر اس لحاظ سے ہے وہ کائنات کے ایک ایک کل پرزے کی براہ راست نگرانی کر رہا ہے اور مدت ہائے دراز گزرنے پر بھی کائنات کے کسی کل پرزے کی کبھی کوئی کمی، کوتاہی یا گڑ بڑا واقع نہیں ہوتی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۔۔ : حمد کا معنی کسی کی خوبی کی وجہ سے تعریف ہے۔ یہ سورت ان پانچ سورتوں میں سے ایک ہے جن کی ابتدا ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ سے ہوتی ہے اور وہ ہیں سورة فاتحہ، انعام، کہف، سبا اور فاطر۔ پانچوں میں سب تعریف اللہ کے لیے ہونے کی الگ ال... گ دلیل بیان کی گئی ہے، اگرچہ ان سب کا ایک دوسری کے ساتھ بھی تعلق ہے۔ ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ کہنے میں صرف یہی بات نہیں آتی کہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، بلکہ یہ بات بھی آتی ہے کہ تمام خوبیوں کا مالک بھی وہی ہے، کیونکہ خوبی نہ ہو تو تعریف کیسی ؟ اور سب تعریف اور تمام خوبیاں اللہ کے لیے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آسمانوں میں جو کچھ ہے، یا زمین میں جو کچھ ہے، مراد پوری کائنات میں جو بھی چیز ہے اس کا مالک وہی ہے۔ اسی نے سب کچھ پیدا کیا، وہی انھیں قائم رکھے ہوئے ہے اور وہی ان کی تدبیر فرما رہا ہے۔ کسی بھی چیز میں اگر کوئی خوبی ہے تو اس کی عطا کردہ، پھر ہر خوبی اور ہر تعریف کا مالک اس کے سوا کون ہوسکتا ہے ؟ 3 اس آیت کی تفسیر دو طرح ہے، ایک یہ کہ پہلے جملے ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ “ سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں سب تعریف اللہ کے لیے ہے، کیونکہ دوسرے جملے ” وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْاٰخِرَةِ “ میں آخرت میں سب تعریف اس کے لیے ہونے کا ذکر ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ پہلے جملے ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ “ سے مراد یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں میں حمد اللہ کے لیے ہے۔ پھر آخرت میں حمد کا اللہ ہی کے لیے ہونا خاص طور پر دوبارہ ذکر فرمایا، کیونکہ دنیا میں تو بظاہر کسی اور کی بھی تعریف ہوجاتی ہے، مگر آخرت میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی حمد ہوگی اور ہر ایک کی زبان پر ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ کا کلمہ جاری ہوگا۔ دیکھیے سورة زمر (٧٤) ، اعراف (٤٣) اور فاطر (٣٤، ٣٥) یہ ایسے ہی جیسے سورة بقرہ کی آیت (٩٨) : (مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَرُسُلِهٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ ) میں لفظ ” وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ “ میں سب فرشتے شامل ہونے کے باوجود جبریل و میکال کا الگ ذکر بھی فرمایا۔ ” الحمد للہ “ کے مزید فوائد کے لیے سورة فاتحہ کے فوائد ملاحظہ فرمائیں۔ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ : یعنی صرف وہ ایک ہے جس کا ہر کام محکم و مضبوط ہے اور جسے کائنات کے ذرّے ذرّے کی پوری خبر ہے، اس لیے اس کے کسی کام میں کوئی نقص ہے نہ عیب، جبکہ کوئی اور نہ پوری خبر رکھتا ہے نہ حکمت، اس لیے اس کے پاس عجز و فقر کے سوا کچھ نہیں، پھر حمد کس بات پر ؟  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر تمام تر حمد (وثنا) اسی اللہ کو سزاوار ہے، جس کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور کچھ زمین میں ہے (جس طرح وہ فی الحال مستحق حمد ہے اسی طرح) اسی کو حمد (وثناء) آخرت میں (بھی) سزاوار ہے (اس کا ظہور اس طرح ہوگا کہ اہل جنت، جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد ان الفاظ میں کریں گے، (... آیت) الحمد للہ الذی ھدانا لہٰذا، الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن، الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ، وغیرہ) اور وہ حکمت والا ہے (کہ آسمان و زمین کی تمام مخلوقات کو بیشمار مصالح اور منافع پر مشتمل بنایا ہے، اور وہ) خبردار (بھی) ہے (کہ ان مصالح اور منافع کو پیدا کرنے سے پہلے سے جانتا ہے، ہر چیز میں مصالح اور منافع بڑی حکمت کے ساتھ رکھ دیئے اور وہ ایسا خبیر ہے کہ) وہ سب کچھ جانتا ہے جو چیز زمین کے اندر داخل ہوتی ہے (مثلاً بارش کا پانی) اور جو چیز اس میں سے نکلتی ہے (مثلاً درخت اور عام نباتات) اور جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور جو چیز اس میں چڑھتی ہے (مثلاً فرشتے جو آسمان سے اترتے ہیں اور چڑھتے رہتے ہیں، اور مثلاً احکام شرعیہ جو آسمان سے اتارے جاتے ہیں اور اعمال صالحہ جو آسمان میں لے جائے جاتے ہیں) اور (چونکہ ان سب چیزوں میں جسمانی یا روحانی منافع ہیں جن کا مقتضا یہ ہے کہ سب لوگ پورا شکر ادا کریں اور جو کوتاہی کرے وہ مستحق سزا ہو، لیکن وہ (اللہ) رحیم (اور) غفور (بھی) ہے، (اور اپنی رحمت سے صغیرہ گناہ کو نیک اعمال سے اور کبیرہ کو توبہ سے، اور کبھی دونوں قسم کے گناہوں کو محض اپنے اپنے فضل سے معاف فرما دیتا ہے۔ اور جو گناہ کفر و شرک کی حد تک پہنچ جائے اس کو ایمان لانے سے معاف کردیتا ہے) ۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

سورة السباء بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝ اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَلَہُ الْحَمْدُ فِي الْاٰخِرَۃِ۝ ٠ ۭ وَہُوَالْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ۝ ١ حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون ... من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث . - وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع . وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔ حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تمام تر حمد وثناء اسی اللہ کے لیے ہے جس کی ملکیت میں آسمان و زمین کی تمام مخلوقات ہیں اس کی حمد وثناء اہل جنت پر جنت میں بھی واجب ہے۔ وہی اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے کہ اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کی جائے اور وہ مخلوق اور اس کے اعمال سے باخبر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِی السَّمٰٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ } ” کل حمد اور کل شکر اس اللہ کے لیے ہے جس کی ملکیت ہے ہر وہ شے جو آسمانوں اور زمین میں ہے “ { وَلَہُ الْحَمْدُ فِی الْاٰخِرَۃِط وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ } ” اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہوگی ‘ اور وہ کمال ح... کمت والا ‘ ہرچیز سے باخبر ہے۔ “ آخرت کی حمد کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (لِوَائُ الحَمْدِ یَوْمَئِذٍ بِیَدِیْ ) (١) ” اس دن (یعنی میدانِ حشر میں) حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس روز میں جو حمد کروں گا وہ آج نہیں کرسکتا ۔ - ۔ - آخرت کی اس حمد کا اس آخری امت کے ساتھ خاص تعلق ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسمائے مبارک محمد ‘ احمد اور حامد کا تعلق بھی لغوی طور پر لفظ ” حمد “ کے ساتھ ہے اور اسی لیے اس امت کو بھی ” حَمَّادُون “ (بہت زیادہ حمد کرنے والے) کہا گیا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 The Arabic word hamd is used both for praise and for gratitude and both the meanings are implied here. When Allah alone is the Owner of the whole universe and of everything in it, then inevitably He alone deserves to be praised for every beauty, perfection, wisdom, power and excellent skill and design shown and manifested by it. Therefore, every inhabitant of the world must thank AIlah alone for...  any benefit and pleasure that he draws from anything here. For when no one else is a partner in the ownership of these things, no one else deserves to be praised or thanked. 2 That is, "Just as every blessing in this world is granted by Allah alone, so in the Hereafter also whatever a person will get, he will get from His treasures and by His grace. Therefore, in the Hereafter too, Allah alone deserves to be praised as well as thanked. " 3 That is, "All His works are based on perfect wisdom and knowledge. Whatever He dces, He does right. He has full knowledge about every creation of His as to where it is, in what state it is, what are its requirements, what precisely needs to be done for its well-being, what it has done so far and what it will do in the future. He is not unaware of the world created by Himself, but is fully aware of the condition and state of every particle in it. "  Show more

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :1 حمد کا لفظ عربی زبان میں تعریف اور شکر دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہاں دونوں معنی مراد ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا مالک ہے تو لامحالہ اس کائنات میں جمال و کمال اور حکمت و قدرت اور صناعی و کاری گری کی جو شان بھی نظر آتی ہے اس کی تعریف کا مست... حق وہی ہے ۔ اور اس کائنات میں رہنے والا جس چیز سے بھی کوئی فائدہ یا لطف و لذت حاصل کر رہا ہے اس پر خدا ہی کا شکر اسے ادا کرنا چاہئے ۔ کوئی دوسرا جب ان اشیاء کی ملکیت میں شریک نہیں ہے تو اسے نہ حمد کا استحقاق پہنچتا ہے نہ شکر کا ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :2 یعنی اس طرح اس دنیا کی ساری نعمتیں اسی کی بخشش ہیں اسی طرح آخرت میں بھی جو کچھ کسی کو ملے گا اسی کے خزانوں سے اور اسی کی عطا سے ملے گا ، اس لیے وہاں بھی وہی تعریف کا مستحق بھی ہے اور شکر کا مستحق بھی ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :3 یعنی جس کے سارے کام کمال درجہ حکمت و دانائی پر مبنی ہیں ، جو کچھ کرتا ہے بالکل ٹھیک کرتا ہے ۔ اور اسے اپنی ہر مخلوق کے متعلق پورا علم ہے کہ وہ کہاں ہے ، کس حال میں ہے ، کیا اس کی ضروریات ہیں ، کیا کچھ اس کی مصلحت کے لیے مناسب ہے ، کیا اس نے اب تک کیا ہے اور آگے کیا اس سے صادر ہونے والا ہے ۔ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا سے بے خبر نہیں ہے بلکہ اسے ذرے ذرے کی حالت پوری طرح معلوم ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١‘ ٢۔ ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ دنیا اور آخرت میں سب تعریف اللہ ہی کو زیبا ہے کیوں کہ انعام کرنے والا دنیا اور آخرت کے لوگوں پر وہی ہے اور وہی سب کا مالک ہے اور سب کے اوپر اسی کا حکم جاری ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد کیا وھواللہ لا الہ الاھو الحمد فی الاولیٰ والآخرۃ ولہ الحکم والیہ ترجعون جس کا حاصل یہ...  ہے کہ سوائے اللہ کے اور کوئی معبود نہیں اس لیے اسی کے لیے تعریف ہے دنیا اور آخرت میں اور اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم پھیرے جاؤگے ‘ پھر فرمایا وہی اپنے ہر کام میں بڑی حکمت والا ہے اور بڑا خبردار ہے جس پر کوئی چیز چھپی نہیں رہتی ہے پھر فرمایا پانی کی بوندیں جس قدر زمنر میں جانے والی ہیں اور جس قدر دانے زمین کے اندر بوئے ہوئے اور چھپے ہوئے ہیں ان سب کی گنتی وہ جانتا ہے اور جو کچھ زمین سے نکلتا ہے اس کی کیفیت اور شمار کو بھی جانتا ہے اور اسی طرح جس قدر قطرے اور روزی آسمان سے اترتی ہے اور جو نیک عمل اور روحین آسمان پر چڑھتے ہیں ان سب کو بھی خوب جانتا ہے اور وہی اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے جو ان کی نافرمانیوں کے سبب سے ان پر جلدی عذاب نہیں بھیجتا اور جو اس کے بندے اس کی طرف رجوع ہوتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں ان کی خطاؤں سے بڑا درگزر کرنے والا اور بخشنے والا ہے ان آیتوں میں مشرکوں کو یوں قائل کیا گیا ہے کہ جب انسان اور آسمان و زمین میں سب انسان کی ضرورت کی چیزیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اور اس کے اختیار اور علم میں ہیں نہ ان مشرکوں کو بتوں نے ان میں سے کوئی چیز پیدا کی نہ کسی چیز پر ان کا کچھ اختیار چلتا ہے نہ ان بتوں کو کسی ضرورت کی چیز کا کچھ حال معلوم ہے کہ کون سی چیز کی اس وقت ضرورت ہے تو پھر ان بتوں کو اللہ کی تعظیم میں شریک ٹھہرانے کا کیا حق ہے اب تو دنیا میں شیطان کے بہکانے سے یہ مشرک لوگ اپنے بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں مگر مرنے کے بعد ان کو معلوم ہوجاوے گا کہ دنیا میں یہ لوگ غلطی پر تھے دونوں جہان کی تعظیم اور تعریف اللہ کو ہی زیبا ہے شرک سے توبہ کرکے اللہ کی وحدانیت کا جو شخص قائل ہوجائے تو اس کے زمانہ شرک کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ عمر وبن العاض (رض) کی روایت ١ ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے (١ ؎ بحوالہ مشکوۃ کتاب الایمان فصل اول۔ ) کہ شرک سے توبہ کرتے ہی زمانہ شرک کے سب گناہوں کی جڑ بنیاد بالکل ڈھے جاتی ہے اسی مطلب کے ادا کرنے کے لیے ان آیتوں کو وھوالرحیم الغفور پر ختم فرمایا تاکہ مشرکوں کے دل میں شرک سے توبہ کرنے کی ایک طرح کی رغبت پیدا ہوجاوے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر ١ ؎ چکی ہے (١ ؎ بحوالہ مشکوۃ باب الایمان بالقدر فصل اول) کہ لوگوں کے رات کے عمل دن سے پہلے اور دن کے عمل رات سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ میں پہنچ جاتے ہیں ‘ مسند امام احمد اور ابوداؤد کے حوالہ سے براء بن عازب (رض) صحیح حدیث بھی کئی ایک جگہ گزر چکی ہے کہ قبض روح کے بعد نیک لوگوں کی روحوں کو فرشتے اللہ تعالیٰ کے روبرولے جاتے ہیں ان حدیثوں سے عملوں کا اور نیک روحوں کا آسمان پر چڑھنا معلوم ہوتا ہے اس لیے ان حدیثوں کو وما یعرج فیہا کی تفسیر میں بڑا دخل ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:1) الحمد۔ میں الف لام استغراق کا ہے۔ یعنی ہمہ نوع حمدوثنائ۔ صاحب تفسیر حقانی رقمطراز ہیں کہ :۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ سورة سبا مکہ میں نازل ہوئی۔ اس قسم کی سورتیں کہ جن کے اول میں الحمد للہ ہے پانچ ہیں۔ ان میں سے دو نصف اول میں ہیں۔ الانعام الکہف اور دو اخیر قرآن میں ہے ایک یہ دوسری ملائکہ...  پانچویں الحمد جس کو چاہو نصف اول میں شمار کرو۔ خواہ نصف آخر میں اور سر (راز) اس میں یہ ہے کہ خدا کی بیشمار نعمتیں دو قسم کی ہیں :۔ (1) ایک نعمت ایجاد ہے کہ اس نے معدوم سے ہم کو موجود کردیا۔ (2) دوسری نعمت بقا ہے کہ ہم کو باقی رکھا۔ اور زندہ رہنے کے سامان عطا کئے۔ اور بندہ کی بھی دو حالتیں ہیں :۔ (1) ایک ابتداء جو اس عالم سے علاقہ رکھتی ہے۔ (2) دوم اعادہ کہ بار دیگر ہم کو زندہ کر کے وہاں کے سامان عطا کرے گا۔ پس ان پانچوں سورتوں میں کہیں ایجاد کی نعمتیں یاد دلائی ہیں اور کہیں بقا کی ۔ پھر کہیں اس عالم کی کہیں اس عالم کی۔ اس سورة میں ما فی الارض تک تو نعمت بقا کا ذکر ہے کہ جو اس عالم میں آسمانوں اور زمین کی چیزوں کو پیدا کرنے میں ہے کیونکہ اگر آسمان و زمین کے اندر کی چیزیں بارش ، ہوا۔ رزق وغیرہ نہ ہوں تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ ولہ الحمد فی الاخرۃ میں آخرت کی جمیع نعمتوں کی طرف اشارہ ہے اسی رعایت سے پہلے الحمد سے مراد الحمد فی الدنیا ہے۔ للہ۔ لہ۔ (ما فی السموت) اور لہ (الحمد) میں لام اختصاص کا ہے اور تملیک کے لئے آیا ہے یعنی خاص اسی کے لئے ہے اور وہی مالک مطلق ہے۔ الذی۔ اللہ کی صفت ہے ای الحمد للہ ھو الذی لہ ما فی السموات۔۔ الخ وہ ہی مالک ہے ہر اس چیز کا جو آسمانوں میں ہے۔۔ الخ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی البتہ اس کی آیت ( ویری الذین اوتو العلم) کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض اسے مکی قرار دیتے ہیں اور بعض مدنی۔ ( شوکانی) ۔5 یعنی جس طرح دنیا کی ہر نعمت اسی کی عطا کردہ ہے اسی طرح آخرت میں نیک بندوں کو بھی نعمت حاصل ہوگی وہ اسی کی عطا کردہ ہوگی۔ یہاں بھی ہ... ر تعریف و ستائش کا مستحق وہی ہے اور وہاں بھی وہی ہوگا چناچہ نیک بندے جب جنت میں داخل ہونگے تو کہیں گے ( الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ) شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ ( زمر : 74) نیز دیکھئے۔ ( اعراف : 43، فاطر : 35)6 یعنی اس کا ہر غایت درجہ حکمت پر مبنی ہے اور اسے اپنی ہر مخلوق کے متعلق پوری خبر ہے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة السبا رکوع نمبر 1: آیات 1 تا 9: اسرار و معارف : تمام خوبیاں اور سب کمالات اللہ کو سزا وار ہیں کہ جو آسمانوں اور زمینوں کا اور ان میں موجود ہر ذرے کا خالق اور اکیلا مالک ہے اور وہ بہت ہی حکمت والا ہے اور ہر ذرے سے خوب واقف ہے اس جہان میں اور آخرت میں ہر ذرہ اس کی تاثیرات اور نتائج سب کا مالک وہ... ی ہے۔ اللہ کو خوب علم ہے کہ زمین کے ذرات میں کس طرح بارش کا پانی سورج اور چاند کی کرنیں یا مختلف گیسیں داخل ہو کر کیا عمل کرتی ہیں اور پھر وہ ذرات کس طرح پھلوں پھولوں یا غذا میں تبدیل ہو کر نکلتے ہیں اور کون سا ذرہ کس جسم کی تعمیر کے لیے تیار کرکے کس کس طویل راستے سے اس بدن تک پہنچے گا نیز اللہ خوب واقف ہے کہ آسمان سے کیا نازل فرماتا ہے اور انسان کے لیے اس پر عمل کس حد تک ممکن ہے نیز جو اعمال انسان اختیار کرتے ہیں اور ان احکام کا جو جواب بندوں کی طرف سے جاتا ہے اس کا علم بھی اللہ کو ہے یہ اس کی رحمت ہے کہ مہتل دیتا ہے اور اگر کوئی توبہ کرلے تو وہ بہت بڑا بخشنے والا ہے۔ رب کی قسم : کفار کہتے ہیں کہ انہیں قیامت کا حادثہ پیش نہ آئے گا۔ ان سے کہیے میرے رب کی قسم یعنی اللہ کی صفت ربوبیت اس بات پر گواہ ہے اور اس کا تقاضا ہے لہذا تم پر قیامت ضرور واقع ہوگی۔ کب ہوگی یہ حقیقت ان غائب امور میں سے ہے جن سے صرف اللہ واقف ہے۔ یہاں رب کی قسم سے ربوبیت کو گواہ بنایا گیا ہے کہ جس کی قسم دی جائے اس سے مراد اس واقعہ پر اس کی شہادت ہوتی ہے اسی وجہ سے اللہ کے علاوہ کسی کی قسم دینا جائز نہیں ہے۔ اللہ کے علوم اس قدر وسیع ہیں کہ انسانی عقل اندازہ تک کرنے سے معذور و قاصر ہے کہ ارض و سما کا ہر ذرہ یا اس سے بھی چھوٹا وجود یا کوئی بڑے سے بڑی شے سب کچھ تو لوح محفوظ میں ہے جو ایک کتاب ہے پھر اللہ کے علوم کی وسعت کا انداز کیسے ممکن ہے اور یہ سارا نظام اس نے اس لیے ترتیب دیا ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں اور اطاعت کی راہ اختیار کریں ان پر اس کی بخشش اور کرم و احسان ہو اور وہ ایک خوبصورت زندگی اور بہت شاندار طریق زندگی حاصل کریں اور جو لوگ اللہ کے احکام کو نافذ ہونے سے روکیں ان پر عمل کرنے کی بجائے دوسروں کو بھی منع کریں ان کے لیے اس کے نتیجے میں دردناک عذاب ہو یہ سب کچھ اس علیم وخبیر کے اس نظام کے فطری نتائج ہیں۔ جن لوگوں کو پہلی کتابوں کا علم عطا ہوا ہے وہ اچھی طرح پرکھ سکتے ہیں کہ جو کچھ آپ پر نازل ہوا ہے یہ حق ہے اور اللہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے وہ اللہ جو زبردست طاقت کا مالک اور تمام کمالات کا مالک ہے۔ اس خوبصورت نظام تخلیق کے ہوتے ہوئے کفار اخروی زندگی کا انکار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دوبارہ ذرات کو جوڑ کر انسان بنانا یا زندہ کرنا ممکن نہیں اس لیے لوگوں سے کہتے ہیں آؤ تمہیں ایک ایسے بندے کی بات سنائیں جو یہ کہتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی میں مل جاؤگے اور تمہارے ذرات منتشر ہوچکے ہوں گے تو تمہیں پھر نئے سرے سے زندہ کیا جائے گا یوں لگتا ہے کہ ایسا کہنے والا بندہ اللہ پر بھی جھوٹ بول رہا ہے یا پھر اسے کسی جن نے پکڑا ہے اور جو منہ میں آتا ہے کہے جا رہا ہے بھلا ایسے ممکن ہے حالانکہ اپنی جہالت کی وجہ سے وہ خود آخرت کا انکار کرکے گمراہی میں مبتلا ہیں جس کے سبب سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے اور حق سے بہت دور ہوچکے ہیں۔ دعوت فکر یعنی سائنس کی تحقیقات : ایسے جاہل ہیں کہ خود ان کے گردا گرد زمین و آسمان میں ہر لمحہ اور ہر گھڑی تخلیق ، حیات اور موت کا نظام اس بات پہ گواہ ہے کہ اللہ جو چاہے کرسکتا ہے اور یہی سائنس ہے کہ اشیاء کے وجود اور خواص کا تجزیہ کیا جائے اور اس سے عظمت باری پہ دلیل حاصل ہو۔ بلکہ انہیں تو سمجھ آجانی چاہیے کہ ہر شے اللہ کی قدرت سے قائم ہے اللہ چاہے تو زمین کفار کا بوجھ اٹھانے کی بجائے ان سمیت دھنس جائے یا آسمان پھٹ کر گر پڑے اور یہ اسی کفر کی حالت میں تباہ و برباد ہوجائیں کہ ان سائنسی تجزیوں میں بھی ہر اس بندے کے لیے جو اللہ کی طرف متوجہ ہو بیشمار دلائل موجود ہیں۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 1 تا 2 یلج : داخل ہونا ہے یخرج : نکلتا ہے ینزل : اترتا ہے یعرج : چڑھتا ہے تشریح :ـ آیت نمبر 1 تا 2 اللہ جو کامل ہستی ہے اس نے اپنی قدرت کا مل سے اس کائنات کے ذرے ذرے کو پیدا کر کرے ہر چیز میں ایک ایسا حسن و خوبی ، کمال و جلال اور ان کے درمیان حسین تو ازن پیدا کیا ہے کہ اگ... ر اس میں ذرا بھی غور و فکر کیا جائے تو انسان بےساختہ کہہ اٹھتا ہے فتبرک اللہ احسن الخالقین : وہ اللہ کتنی برکتوں والا ہے جو سارے پیدا کرنے والوں میں سب سے بہتر ین خالق ہے ۔ اللہ ہر چیز کی حکمت کو جانتا ہے اور وہ اپنی بنائی ہوئی کائنات سے بیخبر نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہر چیز کی کیفیات اور حالات سے پوری طرح باخبر ہے ۔ اسے اپنی مخلوق کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ کہاں اور کس حالت میں ہے۔ اس کی ضروریات کیا ہیں اور کیسے مہیا کی جاتی ہیں ۔ زمین میں بارش کے پانی کی طرح کیا چیز داخل ہورہی ہے ، درختوں ، کھیتوں ، پودوں ، مع دنیات اور سبزہ وغیرہ کیا کچھ چیزیں زمین کے اندر سے نکل رہی ہیں ۔ اسے معلوم ہے کہ جو فرشتے لوگوں کی دعائیں اور اعمال آسمانوں کی طرف بلند کررہے ہیں اور شریعت ، وحی اور دوسری چیزوں کی طرح کون کون سے احکامات نازل ہورہے ہیں۔ اللہ کو معلوم ہے کہ انسان کے لئے آخرت میں کون سی چیزیں اس کو فائدہ اور کون سی نقصان دینے والی ہیں۔ غرضیکہ کائنات اور آخرت کی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو اس سے پوشیدہ ہو۔ کائنات میں جو بھی حسن و جمال ہے وہ اسی اللہ کی فرف سے ہے۔ وہی ہر طرح کی تعریفوں اور حمد و ثنا کا مستحق ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جس کو اس کے برابر لا کھڑا کردیا جائے۔ وہی اللہ ہر طرح کی عبادتوں کا حقدار ہے۔ اللہ وہ ہے جو اپنے بندوں کے قصوروں ، گناہوں اور خطاؤں سے اچھی طرح واقف ہے وہ جانتا ہے کہ کون حسن عمل کا پیکر ہے اور کون نافرمانی کی زندگی گذار رہا ہے ۔ اللہ کے فیصلے انسانوں کے فیصلوں کی طرح نہیں ہوتے کیونکہ ہر صفت اور حکمت پر اس کی رحمت غالب ہے اس لئے وہ گناہ کاروں کو ایک دم سے نہیں پکڑتا بلکہ ان کو سنبھلنے ، سمجھنے اور اصلاح کے ہزاروں مواقعے عطا فرماتا ہے ۔ اگر کوئی شخص اپنے گناہوں اور خطاؤں پر نادم و شرمندہ ہو کر توبہ کرلیتا ہے تو اس سے زیادہ معاف کرنے والا اور درگزر کے والا کوئی نہیں ہے اور اگر وہ کسی کو پکڑلیتا ہے تو اس سے چھڑانے والا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ غرضیکہ جو شخص بی اس کائنات اور اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق میں غور فکرکرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ ا کے جذبات سے سرشار ہوجائے گا اور اس کو یقین کرنا پڑے گا کہ کائنات کی ابتداء سے انتہاتک تمام تعریفوں اور عظمتوں کا صرف وہی مستحق ہے ۔ وہی دنیا اور آخرت میں ہر شخص کا مشکل کشا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کہ موجودات ارضیہ و سماویہ کو منافع و مصالح پر متضمن بنایا ہے۔ 2۔ کہ ان مصالح و منافع کو پیدا کرنے کے قبل سے جانتا تھا، پھر ان کو پیدا کر کے ارضیات و سماویات میں رکھ دیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن الاحزاب کے آخر میں فرمایا کہ منافقین اور مشرکین کو ان کے کیے کی ٹھیک ٹھیک سزا دینا اور ایمانداروں کی کمزوریوں کو معاف کرتے ہوئے ان پر اپنا کرم فرمانا یہ اللہ تعالیٰ کی بخشش اور مہربانی کا نتیجہ ہے۔ سورة سبا کا آغاز اس ارشاد سے ہو رہا ہے کہ اس پر مومنوں کو اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ... عربی زبان میں ” ال “ کا لفظ کئی معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جن میں استغراق بھی شامل ہے۔ استغراق کا معنٰی ہے جس میں ہر چیز کا احاطہ کرلیا جائے۔ گویا کہ ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ سے مراد ہے کہ ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ تعریف با لواسطہ ہو یا بلا واسطہ۔ مفہوم یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص پھول کے حسن و جمال کی تعریف کرتا ہے تو دراصل یہ اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے کیونکہ پھول کو حسن و جمال دینے والا صرف ” اللہ “ ہے۔ اس طرح جو خوبی اور صفت مخلوق میں پائی جاتی ہے در حقیقت وہ اللہ کی ہی عطا کردہ ہے۔ اس لیے اللہ کی ذات کو کوئی مانے یا نہ مانے، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر نہ صرف اللہ تعالیٰ کو تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کی تعریف بھی کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ شعوری طور پر اپنے رب کو مان کر اس کی تعریف کرنے والا اجر پائے گا۔ اور جو اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اس کی محض عادتاً تعریف کرتا ہے وہ اجر سے محروم ہوگا۔ حمد کے لفظ میں شکر اور تعریف دونوں کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہاں الحمد کا معنٰی ہے کہ تمام تعریفات اس ” اللہ “ کے لیے ہیں جو زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے۔ دنیا میں بھی تعریف اس کے لیے ہے اور آخرت میں بھی اسی کی تعریف کی جائے گی۔ اس نے جو چیز بھی پیدا فرمائی اور جو بھی حکم دیا اس میں لا تعداد حکمتیں ہیں۔ وہ انسان کے ایک ایک لمحے سے واقف اور اپنی مخلوق کے تمام حالات سے ہر وقت با خبررہتا ہے۔ حمد کی فضیلت : (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر ] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے۔ اگر اسے تکلیف آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔ “ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِِ ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں، زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بھاری ہیں۔ ” حضرت ابومالک اشعری (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے، ” الحمدللہ “ کے الفاظ میزان کو بھر دیتے ہیں۔ “ [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ الْوُضُوءِ ] مسائل ١۔ ہر قسم کی حمدو ستائش اللہ کے لیے ہے جو زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے۔ ٢۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمت مضمر ہوتی ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتی ہے : ١۔ تمام تعریفیں جہانوں کو پالنے والے ” رب “ کے لیے ہیں۔ (الانعام : ٤٥) ٢۔ اللہ کی حمدوثنا بیان کرنا مومنوں کی صفت ہے۔ ( التوبۃ : ١١٢) ٣۔ بجلی کی کڑک اور فرشتے بھی اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ ( الرعد : ١٣) ٤۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الحدید : ١) ٥۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) ٦۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ ( الشوریٰ : ٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الحمدللہ الذی لہ ۔۔۔۔۔ وھو الرحیم الغفور (1 – 2) ” ۔ “۔ یہ اس سورة کا آغاز ہے جس میں مشرکین کے شرک ، ان کی جانب سے رسول اللہ کی تکذیب ، آخرت میں تشکیک ، اور ان کی طرف سے بعث بعد الموت کو مستبد سمجھنے کے موضوعات پر کلام کیا گیا ہے۔ آغاز ان کلمات کے ساتھ ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہے۔ جو بذات خود...  محمود ہے اگرچہ مخلوقات میں سے کوئی بھی اس کی تعریف نہ کرے۔ وہ اس پوری کائنات میں محمود ہے اور اس کائنات کی پوری قوتیں اور مخلوقات اللہ کی حمد کرتی ہیں اگرچہ یہ انسان اس کی حمد نہ کرے۔ حمد کے ساتھ اللہ کی اس صفت کا ذکر ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ اللہ کے ساتھ کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔ نہ زمین اور آسمانوں میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے اور یہ اسلامی نطریہ حیات کا پہلا اور اساسی نکتہ ہے۔ اس طویل و عریض کائنات کا مالک اللہ ہے اور اس کے سوا کوئی شریک نہیں ہے۔ ولہ الحمد فی الاخرۃ (34: 1) ” اور آخرت میں بھی اسی کے لیے حمد ہے “۔ یعنی اللہ اپنی ذات میں محمود ہے اور بندوں کی طرف سے کی جانے والی حمد بھی اسی کے لئے ہے۔ غرض وہ لوگ جو اللہ کا انکار کرتے ہیں یا اس کے ساتھ کسی کو شریک کرتے ہیں ان کی طرف سے بھی حمد اللہ ہی کے لیے ہے اور وہی اس کا مستحق ہے اور ان پر یہ بات آخرت میں منکشف ہوگی۔ وھو الحکیم الخبیر (34: 1) ” وہ دانا اور باخبر ہے “۔ وہ ایسا حکیم ہے کہ اسکا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔ وہ زمین اور آسمان کو بھی حکمت سے چلاتا ہے ۔ اس کائنات کی تدبیر نہایت حکمت سے کرتا ہے۔ وہ ہر چیز سے خبردار ہے ، ہر معاملے کا اسے علم ہے اور اس کا علم بہت گہرا ، شامل اور محیط ہے۔ اللہ کے علم کو اگر دیکھنا ہے تو اس کی مثال کیلئے اس کی کتاب علم کا ایک صفحہ ملاحظہ ہو۔ یعلم ما یلج ۔۔۔۔۔ یعرج فیھا (34: 2) ” جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے ، ہر چیز کو وہ جانتا ہے “۔ یہ چند الفاظ ہیں ذرا ان پر غور کرو ، کس قدر تعداد زمین کے اندر جاتی ہے ، کس قدر اس سے نکلتی ہے ، کس قدر تعداد کا آسمانوں سے نزول ہوتا ہے اور کسی قدر اشیاء کا عروج ہوتا ہے مختلف حرکات ، مختلف شکلوں ، مختلف صورتوں ، مختلف تصورات اور مختلف بینات میں۔ اس قدر کثیر کہ خیال ان کو اپنے دائرے میں نہیں لے سکتا۔ اگر تمام اہل زمین ایک سیکنڈ میں ہونے والے مذکورہ اعمال کا احاطہ کرنا چاہیں تو شمار نہ کرسکیں۔ اگرچہ پوری زندگی اس کام میں لگا دیں۔ یقیناً وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ کیونکہ لاتعداد اشیا اس ایک لحظہ میں زمین میں داخل ہوتی اور نکلتی ہیں اور آسمان سے لاتعداد اشیاء کا نزول و عروج ہوتا ہے ۔ کس قدر بیج زمین میں گرتے ہیں اور کس قدر کونپلیں نکلتی ہیں ، کتنے ہی حشرات داخل ہوتے اور نکلتے ہیں۔ کس قدر اجرام اور حیوانات ، کس قدر پانی کے قطرے اور کس قدر گیس کے ذرات اور کس قدر کہرابائی ذرات زمین کے اطراف میں داخل ہوتے ہیں اور کس قدر دوسری اشیاء داخل و خارج ہوتی ہیں۔ اللہ کی آنکھ ان کو دیکھ رہی ہے اور شمار کر رہی ہے۔ ذرا نباتات ہی کو دیکھئے ! ذرا چشموں کو دیکھئے ، ذرا آتش فشاں پہاڑوں کو دیکھئے ، ذرا دوسری گیسوں کو دیکھئے اور یہ دیکھئے کہ کس قدر مستور خزانے ہیں اور ذرا حشرات الارض کو دیکھئے جو نظر آتے ہیں اور جو خوردبینوں سے بھی نظر نہیں آتے۔ بعض کے بارے میں انسان نے علم حاصل کرلیا ہے اور لاتعداد ابھی تک نامعلوم ہیں۔ آسمانوں سے نازل ہونے والے بارش کے قطروں کا شمار کرسکتے ہو ! شہاب ثاقب تو قطرے نہیں ان کی تعداد معلوم ہے۔ سورج سے کسی بھی لمحے شعارعیں نکلتی ہیں۔ کس قدر جلانے والی ، کس قدر روشنی کرنے والی ، کس قدر فیصلے نافذ ہو رہے ہیں اور کس قدر ابھی تک چھپے ہوئے ہیں۔ کس قدر رحمتیں ہیں جو عوام الناس پر ہیں اور کس قدر ہیں جو بعض بندوں پر نافذ ہونے والی ہیں۔ کس قدر رزق ہے جو تقسیم ہوتا ہے اور کس قدر رزق ہے جو روک لیا جاتا ہے اور کیا کچھ ہے جو صرف اللہ کے علم میں ہے۔ کتنے نفوس اور کتنے سانس ہیں جو آسمانوں کی طرف بلند ہوتے ہیں ، نباتات کے ، حیوانات کے جراثیم کے اور دوسری مخلوقات کے اور کتنی ہی دعوتیں ہیں جو اللہ کی طرف سے دی جا رہی ہیں ، اعلانیہ ہیں یا چھپی ہوئی ہیں اور کوئی ان کو نہیں سنتا مگر اللہ ! کس قدر روحین ہیں جن کو ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ یہ اللہ کی طرف اٹھتی ہیں اور کتنے ہی فرشتے ہیں جو ہر روز اللہ کے ہاں واپس ہوتے ہیں اور کتنی روحیں اس کائنات میں ہیں جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ سمندر سے بخارات کے کس قدر ذرے اور گیس کے دوسرے ذرات اٹھتے ہیں ، جن کا علم صرف اللہ کو ہے۔ یہ تمام اشیاء صرف ایک ہی لمحہ میں یہ عمل کرتی ہیں۔ یہ ایک لمحے کی بات ہے جس کا شمار سب انسان پوری زندگی لگا کر بھی نہیں کرسکتے۔ اگرچہ وہ عمریں صرف کردیں جبکہ اللہ کا علم شامل اور محیط ہے۔ ہر لمحے اور ہر زمانے اور ہر جگہ کے ان واقعات کا اس کے ہاں حساب و کتاب ہے بلکہ وہ انسان کی حرکات و سکنات اور خیالات و وساوس کا بھی حساب کرتا ہے لیکن وہ ستار ہے اور انسان کی کمزرویوں کا چھپاتا ہے۔ وھو الرحیم الغفور (34: 2) وہ رحیم و غفور ہے “۔ قرآن کریم کی آیات میں سے ایسی ایک ایک آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ قرآن انسانی کلام نہیں ہے۔ انسانی عقل کا مزاج یہ ہے کہ وہ اس قدر گہرا تصور پیش ہی نہیں کرسکتی جس کی انتہاؤں تک وہ کود نہ جاسکے۔ انسانی تخیل میں ایسے عمومی اور جامع خیالات آہی نہیں سکتے۔ اور اس قسم کے جوامع العلم جس کے اندر اس قدر مفہومات و مداولات آجائیں جن کا احاط ممکن نہ ہو۔ انسانی کلام میں نہیں ہوتے کیونکہ انسانی کلام انسانی عقل کا نتیجہ ہوتا ہے اور انسانی عقل کے مزاج کے یہ بات خلاف ہے۔ اس قسم کی آیات بندوں کے کلام سے مختلف ہیں۔ اللہ کے علم کی اس جامعیت اور اللہ کے شامریات کے محیط ہونے کے ثبوت اور معجزانہ بیان کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اہل کفر قیامت کا انکار کرتے ہیں جبکہ خود ان کا علم اس قدر محدود ہے کہ وہ کل کے بارے میں نہیں جانتے کہ کیا ہوگا۔ جبکہ اللہ علیم وبصیر ہے۔ زمین اور آسمانوں میں کوئی شے بھی اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور قیامت اس لیے ضروری ہے کہ نیک اور بد دونوں کو اپنے کیے کا انجام ملے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ الحمد للہ الخ : یہ اصل مدعا پر پہلی عقلی دلیل ہے۔ اس دلیل کے دو حصے ہیں۔ اول، ساری کائنات میں متصرف و مختار اور سارے جہان کا مالک اللہ ہی ہے۔ دوم، وہ عالم الغیب ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں پہلی آیت میں دلیل کا پہلا حصہ مذکور ہے یعنی تمام صفات کارسازی کا مالک اللہ ہے۔ ساری کائنات اسی...  کے ملک اور تصرف میں ہے۔ اس عالم کون و فساد میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اسی کے اختیار و تصرف سے ہو رہا ہے اس میں غیر خدا کا سرِ مو دخل نہیں۔ ای لہ عز و جل خلقا وملکا و تصرفا بالایجاد والاعدام والاحیاء و الاماتۃ جمیع ما وجد فیھما واخلافی حقیقتہما او خارجا عنہما متمکنا فیہما فکانہ قیل لہ ھذا العالم بالاسر (روح ج 22 ص 103) ۔ 3:۔ ولہ الحمد الخ : جس طرح دنیا میں سب کچھ دینے والا اور سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اسی طرح آخرت میں بھی وہی متصرف و مختار ہوگا اور آخرت کی تمام نعمتیں بھی وہی عطا فرمائے گا۔ اس لیے دنیا و آخرت ہر دوسرا میں وہی صفات کارسازی کا مالک ہے چناچہ الحمد للہ۔ تا۔ فی الارض میں دنیا کی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کے لائق حمد (صفات کارسازی) ہونا ذکر کیا گیا ہے جس طرح دنیا میں وہ متصرف و مختار اور لائق حمد (صفات کارسازی) ہے فھو المحمود فی الاخرۃ کما انہ المحمود فی الدنیا وھو المالک للاخرۃ کما انہ المالک للاولی (قرطبی ج 14 ص 259) ۔ وھو الحکیم الخبیر یہ ماقبل کی دوسری علت ہے وہ حکمت و تدبیر کا مالک اور ہر چیز سے باخبر ہے اس کا کوئی کام حکمت اور دانائی سے خالی نہیں ہوتا اور وہ ہر محتاج اور مصیبت زدہ سے باخبر ہے اور سب کی کارسازی فرماتا ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) تمام تعریفیں اسی اللہ تعالیٰ کو سزاوار ہی اور اسی کے لائق ہیں جو ایسا ہے اور جس کی شان یہ ہے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کی ملک ہے اور آخرت میں بھی تمام تعریفیں اسی کو سزا وار اور لائق ہیں اور وہی کمال حکمت کا مالک اور جملہ امور سے باخبر ہے۔ یعنی تمام حمدوثناء اور مدح ... و شکر اسی کو سزاوار اور لائق ہے جو ہر اس چیز کا مالک ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے یعنی تمام ارضیہ و سماویہ اشیاء اسی کی ملک اور مملوک ہیں اور جس طرح اس عالم میں وہی حمدوثناء کا مستحق اور سزاوار ہے۔ اسی طرح آخرت میں بھی وہی لائق حمدوثناء ہے جیسا کہ اہل آخرت کو حمد قرآن کریم میں کئی جگہ مذکور ہے۔ واخر دعوھم ان الحمد للہ رب العلمین۔ سورۂ یونس میں اس آیت کی تفسیر گزر چکی ہے وہی کمال حکمت کا مالک ہے ہر چیز کے پیدا کرنے کی حکمت اور مصلحت کو وہ حکیم مطلق ہی جانتا ہے اور وہ تمام مخلوق کے حال سے باخبر ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں دنیا میں ظاہر اور کسی کی تعریف بھی ہوتی ہے کہ وہ پردہ ہے اللہ کے فعل کا آخرت میں پردہ نہیں جو ہے اسی کی طرف۔ خلاصہ : یہ کہ دنیا میں مجازاً اوروں کی بھی مدح وثناء کی جاتی ہے وہ بھی حقیقتاً اسی کی تعریف ہے لیکن آخرت میں تو یہ حقیقت و مجاز کا پردہ نہیں حقیقت ہی حقیقت ہے آگے مزید اس کی صفت خبیر کی توضیح اور اس کے علم محیط کا اظہار ہے۔  Show more