Surat Saba

Surah: 34

Verse: 14

سورة سبأ

فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ ﴿ؕ۱۴﴾

And when We decreed for Solomon death, nothing indicated to the jinn his death except a creature of the earth eating his staff. But when he fell, it became clear to the jinn that if they had known the unseen, they would not have remained in humiliating punishment.

پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی سوائے گھن کے کیڑے کے جو ان کی عصا کو کھا رہا تھا ۔ پس جب ( سلیمان ) گر پڑے اس وقت جنوں نے جان لیا کہ اگر وہ غیب دان ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Death of Suleiman Allah tells: فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ ... Then when We decreed death for him, Allah tells us how Suleiman, peace be upon him, died and how Allah concealed his death from the Jinn who were subjugated to him to do hard labor. He remained leaning on his stick, which was his staff, as Ibn Abbas may Allah be pleased with him, Mujahid, Al-Hasan, Qatadah and others said. He stayed like that for a long time, nearly a year. When a creature of the earth, which was a kind of worm, ate through the stick, it became weak and fell to the ground. Then it became apparent that he had died a long time before. It also became clear to Jinn and men alike that the Jinn do not know the Unseen as they (the Jinn) used to imagine and tried to deceive people. This is what Allah says: ... مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلاَّ دَابَّةُ الاْاَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ nothing informed them (Jinn) of his death except a little worm of the earth which kept (slowly) gnawing away at his stick. So when he fell down, the Jinn saw clearly that if they had known the Unseen, they would not have stayed in the humiliating torment. meaning, it became clear to the people that they (the Jinn) were lying.

حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کی کیفیت بیان ہو رہی ہے اور یہ بھی کہ جو جنات ان کے فرمان کے تحت کام کاج میں مصروف تھے ان پر ان کی موت کیسے نامعلوم رہی وہ انتقال کے بعد بھی لکڑی کے ٹیکے پر کھڑے ہی رہے اور یہ انہیں زندہ سمجھتے ہوئے سر جھکائے اپنے سخت سخت کاموں میں مشغول رہے ۔ مجاہد وغیرہ فرماتے ہی تقریباً سال بھر اسی طرح گزر گیا ۔ جس لکڑی کے سہارے آپ کھڑے تھے جب اسے دیمک چاٹ گئی اور وہ کھوکھلی ہوگئی تو آپ گرپڑے ۔ اب جنات اور انسانوں کو آپ کی موت کا پتہ چلا ۔ تب تو نہ صرف انسانوں بلکہ خود جنات کو بھی یقین ہوگیا کہ ان میں سے کوئی بھی غیب داں نہیں ۔ ایک مرفوع منکر اور غریب حدیث میں ہے کہ لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جب نماز پڑھتے تو ایک درخت اپنے سامنے دیکھتے اس سے پوچھتے کہ تو کیسا درخت ہے تیرا نام کیا ہے ۔ وہ بتا دیتا آپ اسے اسی استعمال میں لاتے ۔ ایک مرتبہ جب نماز کو کھڑے ہوئے اور اسی طرح ایک درخت دیکھا تو پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا ضروب ۔ پوچھا تو کس لئے ہے؟ کہا اس گھر کو اجاڑنے کیلئے تب آپ نے دعا مانگی کہ اللہ میری موت کی خبر جنات پر ظاہر نہ ہونے دے تاکہ انسان کو یقین ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتے ۔ اب آپ ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور جنات کو مشکل مشکل کام سونپ دیئے آپ کا انتقال ہوگیا لیکن لکڑی کے سہارے آپ ویسے ہی کھڑے رہے جنات دیکھتے رہے اور سمجھتے رہے کہ آپ زندہ ہیں اپنے اپنے کام میں مشغول رہے ایک سال کامل ہوگیا ۔ چونکہ دیمک آپ کی لکڑی کو چاٹ رہی تھی سال بھر گزرنے پر وہ اسے کھاگئی اور اب حضرت سلیمان گر پڑے اور انسانوں نے جان لیا کہ جنات غیب نہیں جانتے ورنہ سال بھر تک اس مصیبت میں نہ رہتے ۔ لیکن اس کے ایک راوی عطا بن مسلم خراسانی کی بعض احادیث میں نکارت ہوتی ہے ۔ بعض صحابہ سے مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی عادت تھی آپ سال سال دو دو سال یا کم و بیش مدت کیلئے مسجد قدس میں اعتکاف میں بیٹھ جاتے آخری مرتبہ انتقال کے وقت بھی آپ مسجد بیت المقدس میں تھے ہر صبح ایک درخت آپ کے سامنے نمودار ہوتا ۔ آپ اس سے نام پوچھتے فائدہ پوچھتے وہ بتاتا آپ اسی کام میں اسے لاتے بالآخر ایک درخت ظاہر ہوا جس نے اپنا نام ضروبہ بتایا کہا تو کس مطلب کا ہے کہا اس مسجد کے اجاڑنے کیلئے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے فرمانے لگے میری زندگی میں تو یہ مسجد ویران ہوگی نہیں البتہ تو میری موت اور اس شہر کی ویرانی کیلئے ہے ۔ چنانچہ آپ نے اسے اپنے باغ میں لگا دیا مسجد کی بیچ کی جگہ میں کھڑے ہو کر ایک لکڑی کے سہارے نماز شروع کردی ۔ وہیں انتقال ہوگیا لیکن کسی کو اس کا علم نہ ہوا ۔ شیاطین سب کے سب اپنی نوکری بجا لاتے رہے کہ ایسا نہ ہو ہم ڈھیل کریں اور اللہ کے رسول آ جائیں تو ہمیں سزا دیں ۔ یہ محراب کے آگے پیچھے آئے ان میں جو ایک بہت بڑا پاجی شیطان تھا اس نے کہا دیکھو جی اس میں آگے اور پیچھے سوراخ ہیں اگر میں یہاں سے جاکر وہاں سے نکل آؤں تو میری طاقت کو مانو گے یا نہیں؟ چنانچہ وہ گیا اور نکل آیا لیکن اسے حضرت سلیمان کی آواز نہ آئی ۔ دیکھ تو سکتے نہ تھے کیونکہ حضرت سلیمان کی طرف نگاہ بھر کر دیکھتے ہی وہ مرجاتے تھے لیکن اس کے دل میں کچھ خیال سا گزرا اس نے پھر اور جرأت کی اور مسجد میں چلا گیا دیکھتا کہ وہاں جانے کے بعد وہ نہ جلا تو اس کی ہمت اور بڑھ گئی اور اس نے نگاہ بھر کر آپ کو دیکھا تو دیکھا کہ وہ گرے پڑے ہیں اور انتقال فرما چکے ہیں اب آکر سب کو خبر کی لوگ آئے محراب کو کھولا تو واقعی اللہ کے رسول کو زندہ نہ پایا ۔ آپ کو مسجد سے نکال لائے ۔ مدت انتقال کا علم حاصل کرنے کیلئے انہوں نے لکڑی کو دیمک کے سامنے ڈال دیا ایک دن رات تک جس قدر دیمک نے اسے کھایا اسے دیکھ کر اندازہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کے انتقال کو پورا سال گزر چکا ۔ تمام لوگوں کو اس وقت کامل یقین ہوگیا کہ جنات جو بنتے تھے کہ ہم غیب کی خبریں جانتے ہیں یہ محض ان کی دھونس تھی ورنہ سال بھر تک کیوں مصیبت جھیلتے رہتے ۔ اس وقت سے جنات گھن کے کیڑے کو مٹی اور پانی لا دیا کرتے ہیں گویا اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ کہا یہ بھی تھا کہ اگر تو کچھ کھاتا پیتا ہوتا تو بہتر سے بہتر غذا ہم تجھے پہنچاتے لیکن یہ سب بنی اسرائیل کے علماء کی روایتیں ہیں ان میں جو مطابق حق ہوں قبول ۔ خلاف حق ہوں مردود دونوں سے الگ ہوں وہ نہ تصدیق کے قابل نہ تکذیب کے واللہ اعلم الغیب ۔ حضرت زید بن اسلم سے مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملک الموت سے کہہ رکھا تھا کہ میری موت کا وقت مجھے کچھ پہلے بتا دینا حضرت ملک الموت نے یہی کیا تو آپ نے جنات کو بغیر دروازے کے ایک شیشے کا مکان بنانے کا حکم دیا اور اس میں ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر نماز شروع کی یہ موت کے ڈر کی وجہ سے نہ تھا ۔ حضرت ملک الموت اپنے وقت پر آئے اور روح قبض کرکے گئے ۔ پھر لکڑی کے سہارے آپ سال بھر تک اسی طرح کھڑے رہے جنات ادھر ادھر سے دیکھ کر آپ کو زندہ سمجھ کر اپنے کاموں میں آپ کی ہیبت کی وجہ سے مشغول رہے لیکن جو کیڑا آپ کی لکڑی کو کھا رہا تھا جب وہ آدھی کھاچکا تو اب لکڑی بوجھ نہ اٹھا سکی اور آپ گر پڑے جنات کو آپ کی موت کا یقین ہوگیا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ اور بھی بہت سے اقوال سلف سے یہ مروی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں جنات کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا کہ یہ غائب کی باتیں جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کے ذریعے سے اس عقیدے کے فساد کو واضح کردیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٣] جس وقت حضرت سلیمان کی وفات کا وقت قریب آگیا اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ہوگیا کہ اب دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں۔ اس وقت آپ نے جنوں کو بیت المقدس کی تعمیر پر لگایا ہوا تھا جسے ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ اس وقت تعمیر کا ابھی خاصا کام باقی تھا۔ آپ نے باقی کام کا پورا نقشہ جنوں کے سربراہ کے حوالہ کردیا اور پوری طرح مکمل کام سمجھا دیا تھا۔ پھر اپنے عبادت خانے میں آکر عبادت میں کھڑے ہوگئے۔ اور اپنی لاٹھی سے ٹیک لگا لی۔ آپ کا یہ عبادت خانہ ایسا تھا جس میں شیشے کی کھڑکیاں تھیں اور باہر سے دیکھنے والا حضرت سلیمان کو عبادت میں مصروف دیکھ سکتا تھا۔ آپ عبادت میں کھڑے ہوئے تو اسی حالت میں فرشتے نے روح قبض کرلی اور آپ لاٹھی کے سہارے کھڑے کے کھڑے ہی رہے۔ جن اور بعض دوسرے لوگ آپ کو کبھی کبھار عبادت میں مصروف دیکھ جاتے تھے۔ اسی حالت میں تقریباً چار ماہ گزر گئے۔ چار ماہ بعد ادھر بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہوئی اور ادھر وہ لاٹھی ٹوٹ گئی جس کے سہارے آپ کی میت کھڑی تھی۔ لاٹھی کو اندر ہی اندر دیمک نے چاٹ کر ختم کردیا تھا۔ لاٹھی ٹوٹی تو آپ کی میت گر پڑی۔ تب لوگوں کو اور تعمیر پر متعین جنوں کو معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان تو بہت عرصہ پہلے کے فوت ہوچکے ہیں۔ اس وقت جنوں کو سخت افسوس ہوا کہ وہ اتنا عرصہ مفت میں محنت مشقت جھیلتے رہے۔ اس وقت جنوں کی یہ غلط فہمی دور ہوگئی کہ وہ غیب جانتے ہیں اور ان لوگوں کی بھی جو یہ سمجھتے تھے کہ جن غیب جانتے ہیں اور اپنے اسی اعتقاد کی بنا پر جنوں کی تسخیر کے لئے طرح طرح چلے کاٹتے اور پاپڑ بیلتے تھے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ جس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہے اس کے لئے کیسے کیسے اسباب مہیا کردیتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ ۔۔ : ” دَاۗبَّةُ الْاَرْضِ “ دیمک۔ ” تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ “ ” تَبَیَّنَ یَتَبَیَّنُ “ (تفعّل) کا معنی واضح طور پر جان لینا بھی ہے اور کسی چیز کا واضح ہوجانا اور کھل کر سامنے آجانا بھی ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ؂ إِذَا اشْتَبَکَتْ دُمُوْعٌ فِيْ خُدُوْدٍ تَبَیَّنَ مَنْ بَکٰی مِمَّنْ تَبَاکٰی ” جب رخساروں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تو وہ لوگ صاف ظاہر ہوگئے جو رو رہے تھے، ان لوگوں سے جو رونے کی نمائش کر رہے تھے۔ “ 3 اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کو عطا کردہ عظیم سلطنت، علمی کمالات اور ہوا اور جنوں کی تسخیر وغیرہ کے بیان کے بعد ان کی موت کا تذکرہ فرمایا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ موت سے کوئی نہیں بچ سکتا، اگر اس سے کوئی بچتا تو سلیمان (علیہ السلام) ضرور بچ جاتے، جن کے پاس اتنی عظیم قوتیں تھیں۔ 3 سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ جنّات غیب جانتے ہیں، جیسا کہ آج کل بھی اکثر لوگوں کا یہی حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کے علم غیب کی حقیقت واضح کرنے کے لیے ایک عجیب طریقہ اختیار فرمایا، وہ یہ کہ سلیمان (علیہ السلام) کی وفات اس حال میں ہوئی کہ وہ اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا کر کھڑے تھے۔ جنّات ان کاموں میں مصروف تھے جن کا حکم انھیں سلیمان (علیہ السلام) نے دے رکھا تھا، انھیں معلوم نہیں ہوسکا کہ سلیمان (علیہ السلام) فوت ہوچکے ہیں اور وہ بدستور کام میں جتے رہے۔ دیمک ان کی لاٹھی کو اندر سے کھاتی رہی، جب لاٹھی اندر سے کھوکھلی ہوگئی اور سلیمان (علیہ السلام) کا بوجھ برداشت نہ کرسکی تو وہ گرپڑے۔ تب جا کر لوگوں اور جنوں کو ان کی وفات کا پتا چلا۔ اس واقعہ سے تمام لوگوں کے سامنے جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔ 3 اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے تابع جنوں اور شیاطین سے سرکش انسانی قبائل مراد نہیں، کیونکہ ان کے متعلق کوئی بھی علم غیب کا قائل نہیں، نہ خود انھیں اس کا دعویٰ ہوسکتا ہے، بلکہ یہ حقیقی جنّ و شیاطین تھے۔ 3 اکثر تفاسیر میں لکھا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) وفات کے بعد لاٹھی کے سہارے ایک سال تک کھڑے رہے۔ بعض حضرات نے یہ بیان کیا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے جنوں کو حکم دے کر شیشے کا ایک مکان بنوایا اور اس میں لاٹھی کے سہارے کھڑے ہوگئے۔ اسی حالت میں ان کی وفات ہوگئی۔ جنّات ان کو ایک سال تک لاٹھی کے سہارے کھڑے دیکھتے رہے اور انھیں زندہ سمجھ کر ان کی ہیبت کی وجہ سے ان کی بتائی ہوئی تعمیرات اور دوسرے کام کرتے رہے۔ مگر ایک سال تک اس طرح کھڑے رہنے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے پورا سال نہ کچھ کھایا، نہ پیا، نہ لباس بدلا، نہ نماز پڑھی یا جماعت کروائی، نہ کسی خدمت گار کے دل میں کوئی فکر پیدا ہوئی، جو ہر روز ان کے لیے ان کاموں کا اہتمام کرتے تھے، نہ امور سلطنت کے متعلق کسی نے ان سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی۔ آیا یہ ممکن بھی ہے ؟ میں نے بہت سی تفسیروں کا مطالعہ کیا، مگر انھوں نے اس سوال کی طرف توجہ نہیں فرمائی۔ بعض مفسرین نے اسے استعارہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ لاٹھی کو دیمک کے کھانے کا مطلب ان کی سلطنت کا اندرونی طور پر آہستہ آہستہ کمزور ہونا ہے وغیرہ، مگر آیت کے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ علامہ مراغی نے اس کا اچھا حل بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں : ” وَالْکِتَابُ الْکَرِیْمُ لَمْ یُحَدِّدِ الْمُدَّۃَ الَّتِيْ قَضَاھَا سُلَیْمَانُ وَھُوَ مُتَوَکِّئٌ عَلٰی عَصَاہُ حَتّٰی عَلِمَ الْجِنُّ بِمَوْتِہِ ، وَقَدْ رَوَی الْقَصَّاصُوْنَ أَنَّھَا کَانَتْ سَنَۃً ، وَ مِثْلُ ھٰذَا لَا یَنْبَغِي الرُّکُوْنُ إِلَیْہِ ، فَلَیْسَ مِنَ الْجَاءِزِ أَنَّ خَدَمَ سُلَیْمَانَ لَا یَتَنَبَّھُوْنَ إِلَی الْقِیَامِ بِوَاجِبَاتِہِ الْمَعِیْشِیَّۃِ مِنْ مَأْکَلٍ وَ مَشْرَبٍ وَ مَلْبَسٍ وَ نَحْوِھَا یَوْمًا کَامِلًا دُوْنَ أَنْ یُّحَادِثُوْہُ فِيْ ذٰلِکَ وَ یَطَّلِبُوْا إِلَیْہِ الْقِیَامَ بِخِدْمَتِہِ ، فَالْمَعْقُوْلُ أَنَّ الْأَرْضَۃَ بَدَأَتِ الْعَصَا وَ سُلَیْمَانُ لَمْ یَتَنَبَّہْ لِذٰلِکَ ، وَ بَیْنَمَا ھُوَ مُتَوَکِّئٌ عَلَیْھَا حَانَتْ مَنِیَّتُہُ ، وَکَانَتِ الْأَرَضَۃُ قَدْ فَعَلَتْ فِعْلَھَا فِي الْعَصَا فَانْکَسَرَتْ فَخَرَّ عَلَی الْأَرْضِ فَعَلِمَتِ الْجِنُّ کِذْبَھَا، إِذْ کَانَتْ تَدَّعِيْ أَنَّھَا تَعْلَمُ الْغَیْبَ ، إِذْ لَوْ عَلِمَتْہُ مَا لَبِثَتْ تُرْھِقُ نَفْسَھَا فِيْ شَاقِّ الْأَعْمَالِ الَّتِيْ کُلِّفَتْ بِھَا “ ” قرآن کریم نے اس مدت کی تعیین نہیں فرمائی جو سلیمان (علیہ السلام) نے جنوّں کو ان کی موت کا علم ہونے تک لاٹھی پر ٹیک لگانے کی حالت میں گزاری۔ قصہ گو حضرات نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک سال تھی مگر ایسی بات قابل توجہ نہیں ہے، کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت کرنے والوں کا پورا ایک دن ان کی معاشی ضروریات یعنی کھانے پینے اور لباس وغیرہ کی طرف خیال ہی نہ جائے، نہ وہ ان سے اس کے بارے میں بات کریں، نہ ان کی خدمت سرانجام دینے کا تقاضا کریں (سال تو بہت دور کی بات ہے) ۔ اس لیے معقول بات یہ ہے کہ دیمک پہلے ہی لاٹھی میں لگ چکی تھی، سلیمان (علیہ السلام) کو اس کی خبر نہیں ہوئی۔ وہ اس پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ ان کی موت کا وقت آگیا، جب کہ دیمک لاٹھی کے اندر اپنا کام کرچکی تھی۔ چناچہ وہ ٹوٹ گئی اور سلیمان (علیہ السلام) زمین پر گرگئے تو جنوّں کو اپنا جھوٹ معلوم ہوگیا، کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ غیب جانتے ہیں، اس لیے کہ اگر وہ اسے جانتے ہوتے تو ان مشقت والے کاموں میں اپنی جان نہ مارتے رہتے جن کی انھیں تکلیف دی گئی تھی۔ “ مراغی کی رائے اس لیے بھی مضبوط ہے کہ ایک سال کی مدت کی کوئی روایت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں، محض اسرائیلی روایات ہیں، جن کا یہ درجہ بھی نہیں کہ انھیں ” لَا نُصَدِّقُ وَلَا نُکَذِّبُ “ کہا جاسکے، بلکہ سب صریح عقل کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ ابن کثیر (رض) نے ایک سال مدت بیان کرنے کے باوجود ان روایات کو اسرائیلیات قرار دیا ہے اور مرفوع روایت کو غریب اور ” فِيْ صِحَّتِہِ نَظْرٌ“ فرمایا ہے اور فی الواقع وہ روایت غیر ثابت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word: مِنسَأ (minsa&ah, translated in the text as &scepter& ) in verse 14 beginning with: فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ (So, when We decided (that) death (should come) upon him, - 14) appears in the sense of staff or pole (as of purpose or authority). Some early commentators have said that it is a word taken from the Ethiopian language and denotes staff. Others have said that it is an Arabic word from: نَسَاء (nasa) which means move back, drive away, postpone. Since a staff or stick is used to remove things undesirable or harmful, therefore, it was called: مِنسأۃ : &minsa&ah,& that is, the device to remove. By describing the circumstances of Sayyidna Sulayman&s (علیہ السلام) unusual death, the text has opened a gateway of many lessons and gems of guidance. The strange event of the death of Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) The elements of guidance embedded in this event are many. For example, Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) was a ruler having such an unmatched state at his command that ruled not simply over the world of his time, but over the Jinns and birds and the wind as well. Yet, despite all these assets at his command, he too had no escape from death, and that it had to come only when the time was appointed for it to come. The construction of Baytul-Maqdis started by Sayyidna Dawud (علیہ السلام) and completed by Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) had part of it still unfinished. This construction job was entrusted with the Jinns. They were contumacious by nature but kept working in fear of Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) . If they were to find out that he had died, they would have stopped working instantly and the structure would have been left incomplete. With the leave of Allah, Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) made appropriate arrangements to offset this situation. So, when came the time of his death, he got ready for it and entered the mihrab (seat of authority in the palace) which was made of sparking transparent glass. His presence could be clearly seen from outside. As was his routine, he stood there in a stance of worship slightly supported by his scepter, so that, once his soul departs (when he dies), the body remains poised at its place with the support of his staff. The soul of Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) was taken away at the appointed hour, but he kept firmly reclining on his staff and from the outside it appeared as if he was engrossed in worship. In that state, Jinns would not dare come close and peek at him. They kept working under the impression that Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) was alive. Thus passed a full year and when the remaining work on Baytul-Maqdis was complete, Allah Ta’ ala empowered the termite, (which is referred to by the Qur&an as دَابَّۃ الارض (dabbatul-ard: a creature of the earth), to occupy the staff of Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) . The termite ate out the wood and weakened the staff. When the staff was gone, Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) fell down. That was the time when the Jinns came to know about his death. Allah Ta’ ala has given the Jinns the capability of traversing very long distances within moments. They used to be aware of many circumstances and events not known by human beings. When they would communicate this information to human beings, they took it to be news from the unseen surmising that the Jinns too possess the knowledge of the unseen (&ilm-ul-ghaib). Moreover, the possibility that the Jinns themselves had a claim of possessing the knowledge of the unseen cannot be ruled out. But, this unusual incidence of death unfolded the reality of all that. The Jinns themselves found out - and human beings too - that the Jinns are no possessors of the knowledge of the unseen. Because, had that been the case and had they been aware of the workings of the unseen, they would have come to know about the death of Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) more than a year ago, and would have been spared of the hard labor they went on doing on the assumption that he was alive. This is what has been stated in the last sentence of the verse: فَلَمَّا خَرَّ‌ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ So, when he fell down, the Jinns came to know that if they had the knowledge of the Unseen, they would not have stayed (so long) in the humiliating punishment. (34:14). Here, the expression: الْعَذَابِ الْمُهِينِ (al-&adhabil-muhin: humiliating punishment) refers to the hard labor they had to do in completing the edifice of Baytul-Maqdis under the orders of Sayyidna Sulayman Part of this unusual event of the death of Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) has been mentioned in this very verse of the Qur&an while its details have been reported from several Tafsir authorities, including Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) ، and are there in Ibn Kathir and all other Tafsirs. From this unusual event, we also learn the essential lesson that there is no escape from death for anyone and also that Allah Ta’ ala can, when He decides to have someone do something, arrange to have it done the way He wills. This is exactly as it happened during the course of this event when Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) was kept, despite his death, standing at his place and the Jinns were made to complete the work assigned to them. This event also shows that all causes and instruments of the whole world keep fulfilling their function until such time as Allah would let them do so. When He would not let them do so, causes and instruments fail, like the support of the staff here that was terminated through the termite. Moreover, soon after the death of Sayyidna Sulayman ill there existed the danger that people, who notice the astonishing performance of the Jinns and come across their apparently unbelievable access to things unseen, might take them as their objects of worship. This danger was also eliminated by this event of death. Everyone came to know that the Jinns were really unaware and helpless in this matter. From this submission, it becomes clear that Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) had adopted this particular mode at the time of his death for two reasons: (1) That the remaining work on the construction of Baytul-Maqdis gets to be completed. (2) That people find out the truth about the Jinns, realize that they were really unaware and helpless, and thus there remains no danger of Jinns being taken by them as objects of veneration and worship. (Qurtubi) According to a narration of Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Amr reported by Imam Nasa&i with sound chains of authority, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"When Sulayman (علیہ السلام) accomplished the building of Baytul-Maqdis, he made some prayers that were answered. One of these was: 0 Allah, whoever enters this masjid with the sole intention of making Salah (and having no other worldly motive), purify him before he goes out of this masjid, from all his sins (making him) as pure as he was when born from the womb of his mother.|" And in the narration of Suddiyy, it also appears that soon after Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) was finished with the building of Baytul-Maqdis, he sacrificed twelve thousand cows and heifers and twenty thousand goats as a token of thanksgiving and declared the feast open to all. Celebrating the day as a day of rejoicing, he stood on the Sakhrah of Baytul-Maqdis praying: 0 Allah, it is You who bestowed this power, and all these resources, on me by virtue of which the edifice of Baytul-Maqdis reached its completion. Now, also give me the ability to thank you for this blessing; and give me death while adhering to the faith you chose for me; and once you have given me right guidance, let there come no crookedness or deviation in it.|" And he further supplicated, |"0 my Lord, for a person who enters this masjid, I ask you of five things: (1) Accept the repentance of a sinner who enters this masjid to confess and repent, and forgive his sins. (2) Guarantee peace for a person who enters this masjid to remain safe from fear and danger, and deliver him from all dangers. (3) Heal the sick person who enters this masjid. (4) Make the poor person who enters here need-free. (5) Let Your mercy be on the person who enters it as long as he remains here - except a person who is busy doing something unjust or faithless. (Qurtubi) This Hadith tells us that the work of building Baytul-Maqdis was already completed during the lifetime of Sayyidna Sulayman. But, the event mentioned above is really not contrary to the possibility that there remained some construction work left out even after the completion of the main building, as is usually done in the case of such huge projects. May be, Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) had devised the plan mentioned above for the completion of the remaining work. It has also been reported from Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) that Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) kept standing for a year supported by his staff, even after his death. (Qurtubi) And according to some narrations, when the Jinns found out that a long time had passed since the death of Sayyidna Sulayman علیہ لسلام while they had remained in the dark all along, they tried to determine the time of his death, and for that purpose, they went for an experiment. They released a termite on a piece of wood. Thus, from whatever of the wood was eaten by the termite in one day and night, they calculated that a year had passed over the staff of Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) in that state. Special Note Citing historians, al-Baghawi has said that Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) lived for fifty three years and ruled for forty years. He had succeeded to the throne at the age of thirteen years and had started building Baytul-Maqdis in the fourth year of his reign. (Mazhari, Qurtubi)

فلما قضینا علیہ الموت الآیة، آیت میں لفظ منساة عصاء اور لاٹھی کے معنی میں ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے، بمعنی عصاء اور بعض نے فرمایا کہ عربی لفظ ہے۔ نساء کے معنی ہٹانے اور موخر کرنے کے ہیں، لاٹھی کے ذریعے انسان مضر چیزوں کو ہٹاتا ہے، اس لئے اس کو منساة کہا گیا، یعنی ہٹانے کا آلہ۔ اس آیت میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا واقعہ عجیبہ بیان فرما کر بہت سی عبرتوں اور ہدایتوں کا دروازہ کھول دیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا عجیب واقعہ : اس واقعہ میں بہت سی ہدایات ہیں، مثلاً یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جن کو ایسی بےمثل حکومت و سلطنت حاصل تھی کہ صرف ساری دنیا پر ہی نہیں بلکہ جنات اور طیور اور ہوا پر بھی ان کی حکومت تھی، مگر ان سب سامانوں کے باوجود موت سے ان کو بھی نجات نہ تھی۔ اور یہ کہ موت تو مقررہ وقت پر آنی تھی، بیت المقدس کی تعمیر جو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے شروع کی، پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی تکمیل فرمائی، اس میں کچھ کام تعمیر کا باقی تھا، اور یہ تعمیر کا کام جنات کے سپرد تھا جن کی طبیعت میں سرکشی غالب تھی، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے خوف سے کام کرتے تھے، ان کی وفات کا جنات کو علم ہوجائے تو فوراً کام چھوڑ بیٹھیں، اور تعمیر رہ جائے۔ اس کا انتظام حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے باذن ربانی یہ کیا کہ جب موت کا وقت آیا تو موت کی تیاری کر کے اپنے محراب میں داخل ہوگئے، جو شفاف شیشے سے بنی ہوئی تھی، باہر سے اندر کی سب چیزیں نظر آتی تھیں، اور اپنے معمول کے مطابق عبادت کے لئے ایک سہارا لے کر کھڑے ہوگئے کہ روح پرواز کرنے کے بعد بھی جسم اس عصا کے سہارے اپنی جگہ جما رہے۔ سلیمان (علیہ السلام) کی روح وقت مقرر پر قبض کرلی گئی مگر وہ اپنے عصا کے سہارے اپنی جگہ جمے ہوئے باہر سے ایسے نظر آتے تھے کہ عبادت میں مشغول ہیں، جنات کی یہ مجال نہ تھی کہ پاس آ کر دیکھ سکتے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو زندہ سمجھ کر کام میں مشغول رہے، یہاں تک کہ سال بھر گزر گیا، اور تعمیر بیت المقدس کا بقیہ کام پورا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے گھن کے کیڑے کو جس کو فارسی میں دیوک اور اردو میں دیمک کہا جاتا ہے، اور قرآن کریم نے اس کو دابة الارض کے نام سے موسوم کیا ہے، عصائے سلیمانی پر مسلط کردیا۔ دیمک نے عصاء کی لکڑی کو اندر سے کھا کر کمزور کردیا، عصاء کا سہارا ختم ہوا تو سلیمان (علیہ السلام) گر گئے، اس وقت جناب کو ان کی موت کی خبر ہوئی۔ جنات کو اللہ تعالیٰ نے دور دراز کی مسافت چند لمحوں میں قطع کرلینے کی قوت عطا فرمائی ہے وہ بہت سے ایسے حالات و واقعات سے واقف ہوتے تھے، جن کو انسان نہیں جانتے، جب وہ انسانوں کو ان واقعات کی خبر دیتے تو انسان یہ سمجھتے تھے کہ یہ غیب کی خبر ہے اور جنات کو بھی علم غیب حاصل ہے، خود جنات کو بھی علم غیب کا دعویٰ ہو تو بعید نہیں، موت کے اس عجیب واقعہ نے اس کی بھی حقیقت کھول دی۔ خود جنات کو بھی پتہ چل گیا اور سب انسانوں کو بھی کہ جنات عالم الغیب نہیں ہیں، کیونکہ ان کو غیب کا علم ہوتا تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت سے ایک سال پہلے ہی باخبر ہوجاتے۔ اور یہ سال بھر کی محنت و مشقت جو ان کو زندہ سمجھ کر برداشت کرتے رہے اس سے بچ جاتے۔ آیت کے آخری جملے میں اسی کا بیان ہے (آیت) فلما خر تبینت الجن ان لو کانوا یعلمون الغیب مالبثوا فی العداب المھین، اس میں عذاب مہین سے مراد وہ محنت مشقت کا کام ہے جس پر تعمیر بیت المقدس کی تکمیل کے لئے ان کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے لگا دیا تھا۔ سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا یہ عجیب واقعہ کچھ تو خود قرآن کی اس آیت میں مذکور ہے، باقی تفصیل حضرت ابن عباس وغیرہ ائمہ تفسیر سے منقول ہے جو ابن کثیر وغیرہ سب تفاسیر میں نقل کی گئی ہے۔ اس عجیب واقعہ سے یہ عبرت بھی حاصل ہوئی کہ موت سے کسی کا چھٹکارا نہیں، اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کو جو کام لینا ہوتا ہے اس کا جس طرح چاہیں انتظام کرسکتے ہیں، جیسا اس واقعہ میں ہوا کہ موت کے باوجود سلیمان (علیہ السلام) کو سال بھر تک اپنی جگہ قائم رکھ کر جنات سے کام پورا کرا لیا۔ اور یہ بھی کہ دنیا کے سارے اسباب وآلات اسی وقت تک اپنا کام کرتے ہیں جب تک منظور حق ہوتا ہے، جب منظور نہیں ہوتا تو آلات و اسباب جواب دے دیتے ہیں، جیسے یہاں عصا کا سہارا دیمک کے ذریعہ ختم کردیا گیا۔ اور یہ بھی کہ سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے بعد خطرہ تھا کہ لوگ جنات کے حیرت انگیز عمل اور کارناموں اور بظاہر غیب کی چیزوں سے ان کے باخبر ہونے وغیرہ کے اعمال عجیبہ کو دیکھ کر کہیں انہی کو اپنا معبود نہ بنا بیٹھیں، اس خطرہ کو بھی اس واقعہ موت نے ختم کردیا، سب کو جنات کی بیخبر ی اور بےبسی معلوم ہوگئی۔ تقریر مذکور سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے موت کے وقت اس خاص طریقہ کو دو وجہ سے اختیار کیا تھا، اول یہ کہ تعمیر بیت المقدس کا باقی ماندہ کام پورا ہوجائے، دوسرے یہ کہ ان لوگوں پر جنات کی بیخبر ی اور بےبسی واضح ہوجائے تاکہ ان کی عبادت کا خطرہ نہ رہے۔ (قرطبی) امام نسائی نے باسناد صحیح حضرت عبداللہ بن عمرو سے یہ روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے چند دعائیں کیں، جو مقبول ہوئیں۔ ان میں ایک دعا یہ ہے کہ جو شخص اس مسجد میں صرف نماز کی نیت سے داخل ہو (اور کوئی دنیاوی غرض نہ ہو) اس مسجد سے نکلنے سے پہلے اس کو تمام گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسا کہ اس وقت پاک تھا جب ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ اور سدی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہونے پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بطور شکرانہ کے بارہ ہزار گائے بیل اور بیس ہزار بکریوں کی قربانی کر کے لوگوں کو دعوت عام دی اور اس دن کی خوشی منائی، اور صخرہ بیت المقدس پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں مانگیں کہ ” یا اللہ آپ نے ہی مجھے یہ قوت اور وسائل عطا فرمائے، جن سے تعمیر بیت المقدس مکمل ہوئی تو یا اللہ مجھے اس کی بھی توفیق دیجئے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں اور مجھے اپنے دین پر وفات دیجئے اور ہدایت کے بعد میرے قلب میں کوئی زیغ اور کجی نہ ڈالئے۔ اور عرض کیا کہ اے میرے پروردگار جو شخص اس مسجد میں داخل ہو میں اس کے لئے آپ سے پانچ چیزیں مانگتا ہوں۔ ایک یہ کہ جو گناہگار توبہ کرنے کے لئے اس مسجد میں داخل ہو تو آپ اس کی توبہ قبول فرما لیں اور اس کے گناہوں کو معاف فرما دیں۔ دوسرے یہ کہ جو آدمی کسی خوف و خطرہ سے بچنے کے لئے اس مسجد میں داخل ہو تو آپ اس کو امن دے دیں، اور خطرات سے نجات عطا فرما دیں۔ تیسرے یہ کہ جو بیمار آدمی اس میں داخل ہو اس کو شفا عطا فرما دیں۔ چوتھے یہ کہ جو فقیر آدمی اس میں داخل ہو اس کو غنی کردیں۔ پانچویں یہ کہ جو شخص اس میں داخل ہو جب تک وہ اس میں رہے آپ اپنی نظر عنایت و رحمت اس پر رکھیں۔ بجز اس شخص کے جو کسی ظلم یا بےدینی کے کام میں مشغول ہو۔ (قرطبی) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر کا کام حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حیات میں مکمل ہوچکا تھا، مگر جو واقعہ اوپر مذکور ہوا ہے وہ کچھ اس کے منافی نہیں کہ اصل تعمیر مکمل ہونے کے بعد بڑی تعمیرات میں کچھ کام رہا کرتے ہیں وہ باقی ہوں ان کے لئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مذکورہ تدبیر اختیار کی ہو۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی منقول ہے کہ موت کے بعد عصا کے سہارے حضرت سلیمان (علیہ السلام) ایک سال کھڑے رہے۔ (قرطبی) اور بعض روایات میں ہے کہ جب جنات کو یہ معلوم ہوا کہ سلیمان (علیہ السلام) کی موت کو عرصہ ہوگیا ہم بیخبر رہے تو مدت موت معلوم کرنے کے لئے یہ تدبیر کی کہ ایک لکڑی پر دیمک چھوڑ دی، ایک دن رات میں جتنی لکڑی دیمک نے کھائی اس سے حساب لگا لیا کہ عصائے سلیمانی پر ایک سال اس طرح گزرا ہے۔ فائدہ : بغوی نے علماء تاریخ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی عمر کل تریپن سال کی ہوئی، اور ان کی سلطنت و حکومت چالیس سال رہی، تیرہ سال کی عمر میں سلطنت کا کام سنبھال لیا تھا، اور بیت المقدس کی تعمیر اپنی سلطنت کے چوتھے سال میں شروع کی تھی۔ (مظہری، قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّہُمْ عَلٰي مَوْتِہٖٓ اِلَّا دَاۗبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَہٗ۝ ٠ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِي الْعَذَابِ الْمُہِيْنِ۝ ١٤ۭ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے دلَ الدّلالة : ما يتوصّل به إلى معرفة الشیء، کدلالة الألفاظ علی المعنی، ودلالة الإشارات، والرموز، والکتابة، والعقود في الحساب، وسواء کان ذلک بقصد ممن يجعله دلالة، أو لم يكن بقصد، كمن يرى حركة إنسان فيعلم أنه حيّ ، قال تعالی: ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ/ 14] . أصل الدّلالة مصدر کالکتابة والإمارة، والدّالّ : من حصل منه ذلك، والدلیل في المبالغة کعالم، وعلیم، و قادر، وقدیر، ثم يسمّى الدّالّ والدلیل دلالة، کتسمية الشیء بمصدره . ( د ل ل ) الدلا لۃ ۔ جس کے ذریعہ کسی چی کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرن اور اشارات در ہو ز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا اور حساب میں عقود کا عدد مخصوص پر دلالت کرنا وغیرہ اور پھر دلالت عام ہے کہ جاہل یعنی واضح کی وضع سے ہوا یا بغیر وضع اور قصد کے ہو مثلا ایک شخص کسی انسان میں حرکت دیکھ کر جھٹ جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ/ 14] تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑز سے ۔ اصل میں دلالۃ کا لفظ کنایہ وامارۃ کی طرح مصدر ہے اور اسی سے دال صیغہ صفت فاعل ہے یعنی وہ جس سے دلالت حاصل ہو اور دلیل صیغہ مبالغہ ہے جیسے ہے کبھی دال و دلیل بمعنی دلالۃ ( مصدر آجاتے ہیں اور یہ تسمیہ الشئ بمصدر کے قبیل سے ہے ۔ دب الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود/ 6] ( د ب ب ) دب الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود/ 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ منساتہ۔ منساۃ۔ اسم آلہ۔ نسی مصدر سے باب فتح۔ بروزن ( مفعلۃ) آواز دینا۔ ہنکانا۔ مضاف ہ ضمیر واحد مذکر غائب مضاف الیہ۔ اس کا ڈنڈا۔ اس کی لاٹھی اشارہ حضرت سلیمان کی طرف ہے) ۔ خر فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج/ 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ/ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل/ 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ. وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة/ 15] ( خ ر ر ) خر ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج/ 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل/ 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة/ 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔ بَيِّنَة والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . ( ب ی ن ) البَيِّنَة کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ جِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] . ۔ الجنتہ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ هين الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤۔ ١٥) اور جب ہم نے سلیمان کی روح قبض کی تو وہ سال بھر تک اپنے عصا کا سہارا لیے ہوئے اپنی محرام میں کھڑے رہے کسی بات سے ان کے مرنے کا پتہ نہ چلا مگر گھن کے کیڑے نے کہ وہ سلیمان کے عصا کو کھاتا تھا۔ سو جب گر پڑے تب انسان کو معلوم ہوا کہ جنات غیب نہیں جانتے کیونکہ اگر وہ غیب جانتے تو کاموں کی اس سختی میں نہ گرفتار رہتے اور اس واقعہ سے پہلے انسانوں کو یہ گمان تھا کہ جنات کو غیب کی خبر ہے مگر اب حقیقت واضح ہوگئی ہے اور ایسی تقریبا یمن کی طرف تیرہ بستیاں تھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے تیرہ انبیاء کرام کو بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ اپنے پروردگار کا دیا ہوا رزق یعنی پھل اور تمام قسم کی نعمتیں کھاؤ اور توحید کے ساتھ اس کا شکر ادا کرو یہ ایک عمدہ شہر ہے اور مومن و تائب کی مغفرت فرمانے والا پروردگار۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ { فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ } ” پھر جب ہم نے اس ( علیہ السلام) پر موت طاری کردی “ { مَا دَلَّہُمْ عَلٰی مَوْتِہٖٓ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ } ” تو کسی نے ان (جنات) کو اس کی موت سے آگاہ نہ کیا مگر زمین کے کیڑے نے “ { تَاْکُلُ مِنْسَاَتَہٗ } ” جو اس (علیہ السلام) کے عصا کو کھاتا تھا۔ “ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ِجنات ّکی نگرانی کے لیے اپنے عصا کے سہارے کھڑے تھے کہ آپ ( علیہ السلام) کی روح قبض ہوگئی مگر آپ ( علیہ السلام) کا جسد مبارک اسی طرح کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ دیمک نے آپ ( علیہ السلام) کی لاٹھی کو کھا کر کھوکھلا کردیا۔ اس دوران جنات آپ ( علیہ السلام) کی موت سے بیخبر کام میں مصروف رہے۔ وہ یہی سمجھتے رہے کہ آپ کھڑے ان کی نگرانی کر رہے ہیں۔ { فَلَمَّا خَرَّ تَـبَـیَّـنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّــوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْْعَذَابِ الْمُہِیْنِ } ” پھر جب وہ گرپڑا توجنوں پر واضح ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں نہ پڑے رہتے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 Another meaning of the sentence can be: "The true state and condition of the jinns became clear and exposed. " According to the first meaning, it will mean: "The jinns realized that their claim to havc the knowledge of the unseen was wrong. " According to the second, it will mean: "The people who thought that the jinns possessed the knowledge of the unseen, came to know that they had no such knowledge. " 24 Some modern commentators havc interpreted it as follows: As the Prophet Solomon's son, Rehoboam, was unworthy and given to luxurious living and surrounded by flatterers, he could not sustain the heavy burden of responsibility that fell on his shoulders after the death of his great father. A short time after his succession, the kingdom collapsed, and the frontier`tribes (i. e. , of the jinns) whom the Prophet Solomon had subdued by his mighty power, rebelled and broke away. But this interpretation does not at all conform to the words of the Qur'an. The scene depicted by the words of the Qur'an is somewhat like this: Death came to the Prophet Solomon in a state when he was standing or sitting with-the support of a staff. His body stood in place due to the staff, and the jinns continued to perform their duties and services, thinking that he was living. At last, when the wood-louse started eating away the staff and it became hollow from within, the Prophet Solomon's body fell down; then the jinns realized that he had died. After all, why should this clear and unambiguous description of the event be construed to mean that the wood-louse implied the unworthiness of the Prophet Solomon's son, and the staff implied his power and authority and the falling down of his body implied the disintegration of his kingdom? Had Allah meant to say all this, there was no dearth of the words in the vast Arabic language. The Qur'an, in fact, has nowhere used such enigmatic language. How could the common Arabs, who were its first addressees, have solved this riddle? Then, the most absurd part of this interpretation is that according to it the jinns imply the people of the frontier tribes whom the Prophet Solomon had subdued to perform certain services under him. The question is, which of these tribes had claimed to have the knowledge of the unseen, and whom did the mushriks regard as the knower of the unseen? A person who reads the last words of the verse with open eyes can himself see that jinn here necessarily implies a group of beings who either had themselves made a claim to have the knowledge of the unseen, or who, the people believed, had the knowledge of the unseen; and the secret of this group's being ignorant and unaware of the unseen became disclosed when they continued to serve the Prophet Solomon under the impression that he was living, whereas he had died. This statement of the Qur'an was enough to induce an honest person to revise his this opinion that the jinn imply the frontier tribes, but the people who feel shy of admitting the existence of the hidden creation called the jinn before the materialistic world stilt insist on this interpretation of theirs in spite of the plain meaning of the Qur'an. At several places in the Qur'an Allah tells that the mushriks of Arabia regarded the jinns as the associates of Allah, and as His children, and used to seek their refuge: "They set up the jinns as partners with AIlah. whereas He has created them. " (Al-An'am:100). "And they have invented a blood-relationship between Allah and the jinns." (As-Saffat: 1S8). "And that, some people from among the men used to seek refuge with some people from among the jinns." (AI-Jinn: 6). One of their beliefs was that they regarded the jinns as the knowers of the unseen and hidden. and used to turn to them to obtain knowledge of the hidden things. Allah has related this event here in order to repudiate this belief and to make the Arabs realize that they are following the false creeds of ignorance without any valid reason, whereas the fact is that chest beliefs are absolutely baseless. (For further explanation, see E.N. 63 below).

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :23 اصل لفظ ہیں تَبَیَّنَتِ الجِنُّ ۔ ۔ اس فقرے کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو ہم نے اوپر متن میں کیا ہے ۔ اور دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جنوں کا حال کھل گیا یا منکشف ہو گیا ۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ خود جنوں کو پتہ چل گیا کہ غیب دانی کے متعلق ان کا زعم غلط ہے ۔ دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ عام لوگ جو جنوں کو غیب داں سمجھتے تھے ان پر یہ راز فاش ہو گیا کہ وہ علم غیب نہیں رکھتے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :24 موجودہ زمانے کے بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ حضرت سلیمان کا بیٹا رَجُبعام چونکہ نالائق اور عیش پسند تھا اور خوشامدی مصاحبوں میں گھرا ہوا تھا ، اس لیے اپنے جلیل القدر والد کی وفات کے بعد وہ اس بار عظیم کو نہ سنبھال سکا جو اس پر آ پڑا تھا ۔ اس کی جانشینی کے تھوڑی مدت بعد ہی سلطنت کا قصر دھڑام سے زمین پر آ رہا اور گرد و پیش کے جن سرحدی قبائل ( یعنی جنوں ) کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی قوت قاہرہ سے خادم بنا رکھا تھا وہ سب قابو سے نکل گئے ۔ لیکن یہ تاویل کسی طرح بھی قرآن کے الفاظ سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ قرآن کے الفاظ جو نقشہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایسی حالت میں موت طاری ہوئی جبکہ وہ ایک عصا کے سہارے کھڑے یا بیٹھے تھے ۔ اس عصا کی وجہ سے ان کا بے جان جسم اپنی جگہ قائم رہا اور جن یہ سمجھتے ہوئے ان کی خدمت میں لگے رہے کہ وہ زندہ ہیں ۔ آخر کار جب عصا کو گھن لگ گیا اور وہ اندر سے کھوکھلا ہو گیا تو ان کا جسم زمین پر گر گیا اور اس وقت جنوں کو پتہ چلا کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے ۔ اس صاف اور صریح بیان واقعہ کو آخر یہ معنی پہنانے کی کیا معقول وجہ ہے کہ گھن سے مراد حضرت سلیمان کے بیٹے کی نالائقی ہے ، اور عصا سے مراد ان کا اقتدار ہے ، اور ان کے مردہ جسم کے گر جانے سے مراد ان کی سلطنت کا پارہ پارہ ہو جانا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو اگر یہی مضمون بیان کرنا ہوتا تو کیا اس کے لیے عربی مبین میں الفاظ موجود نہ تھے کہ اس ہیر پھیر کے ساتھ اسے بیان کیا جاتا ؟ یہ پہیلیوں کی زبان آخر قرآن مجید میں کہاں استعمال کی گئی ہے؟ اور اس زمانے کے عام عرب جو اس کلام کے اولین مخاطب تھے ، یہ پہیلی کیسے بوجھ سکتے تھے؟ پھر اس تاویل کا سب سے زیادہ عجیب حصہ یہ ہے کہ اس میں جنوں سے مراد وہ سرحدی قبائل لیے گیے ہیں جنہیں حضرت سلیمان نے اپنی خدمت میں لگا رکھا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان قبائل میں سے کون غیب دانی کا مدعی تھا اور کس کو مشرکین غیب داں سمجھتے تھے؟ آیت کے آخری الفاظ کو اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر پڑھے تو وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جن سے مراد یہاں لازماً کوئی ایسا گروہ ہے جو یا تو خود غیب دانی کا دعوی رکھتا تھا ، یا لوگ اس کو غیب داں سمجھتے تھے ، اور اس گروہ کے غیب سے ناواقف ہونے کا راز اس واقعہ نے فاش کر دیا کہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو زندہ سمجھتے ہوئے خدمت میں لگے رہے ، حالانکہ ان کا انتقال ہو چکا تھا ۔ قرآن مجید کا یہ بیان اس کے لیے کافی تھا کہ ایک ایسا ایماندار آدمی اس کو دیکھ کر اپنے اس خیال پر نظر ثانی کر لیتا کہ جن سے مراد سرحدی قبائل ہیں ۔ لیکن جو لوگ مادہ پرست دنیا کے سامنے جن نامی ایک پوشیدہ مخلوق کا وجود تسلیم کرتے ہوئے شرماتے ہیں وہ قرآن کی اس تصریح کے باوجود اپنی تاویل پر مصر ہیں ۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ مشرکین عرب جنوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے تھے ، انہیں اللہ کی اولاد سمجھتے تھے اور ان سے پناہ مانگا کرتے تھے : وَجَعَلُوا لِلہِ شُرَکآَءَ الجِنَّ وَخَلَقَھُم ۔ ( الانعام ، 100 ) اور انہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا لیا حالانکہ اس نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ وَجَعَلُوا بَینَہْ وَبَیْنَ الجِنّۃِ نَسَبَا ۔ ( الصّٰفّٰت ۔ 158 ) اور انہوں نے اللہ کے اور جنوں کے درمیان نسبی تعلق تجویز کر لیا ۔ وَاَنَّہْ کَانَ رِجَال مِّنَ ا لْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ ۔ ( الجن ۔ 6 ) اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے ۔ انہی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ وہ جنوں کو عالم الغیب سمجھتے تھے اور غیب کی باتیں جاننے کے لیے ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ یہاں اسی عقیدے کی تردید کے لیے یہ واقعہ سنا رہا ہے اور اس سے مقصود کفار عرب کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم لوگ خواہ مخواہ جاہلیت کے غلط عقائد پر اصرار کیے چلے جا رہے ہو حالانکہ تمہارے یہ عقائد بالکل بے بنیاد ہیں ( مزید توضیح کے لیے آگے حاشیہ نمبر 63 ملاحظہ ہو )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بیت المقدس کی تعمیر پر جنات کو مقرر کیا ہوا تھا یہ جنات طبعی طور پر سرکش تھے اور صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نگرانی میں کام کرتے تھے، اور اندیشہ تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے بعد وہ کام کرنا چھوڑ دیں گے، اس لئے جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے یہ تدبیر اختیار کی کہ جنات کی نگاہوں کے سامنے ایک عصا کے سہارے اپنی عبادت گاہ میں کھڑے ہوگئے، جو شفاف شیشے کی بنی ہوئی تھی، تاکہ جنات انہیں دیکھتے رہیں، اسی حالت میں ان کی وفات ہوگئی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے جسم کو عصا کے سہارے کھڑا رکھا، اور جنات یہ سمجھتے رہے کہ وہ زندہ ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے تعمیر کا کام مکمل کرلیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس عصا پر دیمک مسلط فرمادی جس نے عصا کو کھانا شروع کیا، عصا کمزور پڑگیا، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا جسم گرپڑا، اس وقت جنات کو احساس ہوا کہ وہ اپنے آپ کو جو عالم الغیب سمجھتے تھے وہ کتنی غلط بات تھی اگر انہیں غیب کا پتہ ہوتا تو وہ اتنے دن تک غلط فہمی میں مبتلا رہ کر تعمیر کے کام کی تکلیف نہ اٹھاتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤۔ اس آیت میں سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کا حاصل ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کے زمانہ میں جنات اور انسان ملے رہتے تھے اس ملنے جلنے میں جنات نے اکثر لوگوں کے دل میں یہ بات جمارکھی تھی کہ جنات کو غیب کی خبریں معلوم ہوتی رہتیں ہیں اس خیال کے غلط ٹھہرانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کے دنیا سے اٹھنے کی یہ صورت نکاح کہ ایک سال کے قریب وفات کے بعد بھی سلیمان (علیہ السلام) اپنے عبادت خانہ میں اپنا عصاٹیکے ہوئے کھڑے رہے اور جنات سلیمان (علیہ السلام) کو زندہ سمجھ کر اپنے کاموں میں لگے رہے پھر جب گھن کا کڑسا اس عصا کو کھا گیا تو وہ عصا اور سلیمان (علیہ السلام) دونوں زمین پر گر پڑے جس سے سب لوگوں کو معلوم ہوجایا کر تیں تو برس دن تک وہ سلیمان (علیہ السلام) کی وفات سے بیخبر رہ کر سخت سخت کاموں میں کیوں گمے رہتے یہ مضمون ایک حدیث نبوی میں بھی ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں ١ ؎ ہے (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٢٩ ج ٣‘) معتبر سند سے ترمذی نسائی مسند امام احمد وغیرہہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے (٢ ؎ تفسیر الدر المنثور سورة الجن ص ٢٧٣ ج ١) کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبی ہونے سے پہلے جنات آسمان پر کچھ خبریں چوری سے سن آیا کرتے تھے جب نزدل قرآن کا زمانہ آیا تو آسمان کی خبروں کے روکنے کا انتظام زیادہ ہوگیا جنات کا یہ جو خیال تھا کہ ان کو غیب کی خبریں کچھ معلوم ہوتی رہتی ہیں اس کا سبب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:14) قضینا علیہ۔ قضی علی کسی کے خلاف فیصلہ کرنا۔ قضینا علیہ الموت ہم نے اس کے خلاف موت کا فیصلہ کرلیا۔ یعنی (جب ) ہم نے اس پر موت کا حکم جاری کردیا۔ ما دلہم علی موتہ (کسی چیز نے ) ان کو پتہ نہ بتایا اس کی موت کا۔ دلالۃ مصدر نیز ملاحظہ ہو (34:7) ۔ مندرجہ بالا۔ دابۃ الارض۔ زمین پر چلنے والا۔ پائوں پر چلنے والا، یا رینگ کر چلنے والا جانور، مراد یہاں دیمک ہے۔ منساتہ۔ منساۃ۔ اسم آلہ۔ نسی مصدر سے باب فتح۔ بروزن (مفعلۃ) آواز دینا۔ ہنکانا۔ مضاف ہ ضمیر واحد مذکر غائب مضاف الیہ۔ اس کا ڈنڈا۔ اس کی لاٹھی اشارہ حضرت سلیمان کی طرف ہے) ۔ خر۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ وہ گرپڑا۔ خر مصدر۔ جس کے معنی کسی چیز کا آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں۔ یہاں ضمیر فاعل حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے) اور جگہ قرآن مجید میں ہے فخر علیہم السقف من فوقہم۔ (16:26) اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی۔ تبینت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ اس نے جانا۔ تبین (تفعل) مصدر سے یہاں واحد مؤنث کا صیغہ جنوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔ یعنی تب جنات نے جانا۔ تب جنات پر حقیقت ظاہر ہوئی۔ ما لبثوا۔ ماضی منفی جمع مذکر غائب۔ وہ نہ رہے۔ وہ نہ رہتے۔ العذاب المھین۔ موصوف وصفت۔ رسوا کن عذاب ۔ ذلت آمیز عذاب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یا ( لوگوں پر) جنوں کا حال کھل گیا۔ ممکن ہے یہ جن اپنے آپ کو غیب دان سمجھتے ہوں یا لوگوں کا ان کے بارے میں عقیدہ ہو کہ وہ غیب کا علم رکھتے ہیں۔ یہ دونوں احتمال صحت کے ساتھ ثابت ہیں۔ ( قرطبی) ۔13 کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) پر موت ایسی حالت میں طاری ہوئی جب وہ ایک لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے۔ ایک لمبی مدت گزرنے کے بعد اس لاٹھی کو گھن لگ گیا اور وہ اندر سے کھوکھلی ہو کر ٹوٹ گئی تو ان کا جسم زمین پر آرہا، اس وقت جنوں کو معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ آیت کا یہی مطلب حضرت ابن عباس (رض) اور دوسرے مفسرین (رح) نے بیان کیا ہے۔ اس بارے میں ایک مرفوع بھی آئی ہے مگر اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ سلیمان (علیہ السلام) موت کے قریب عصا کو دونوں ہاتھ سے پکڑ کر اس کو زیر زنخ لگا کر تخت پر بیٹھ گئے، اور اسی حالت میں روح قبض ہوگئی، اور اسی طرح سال بھر تک بیٹھے رہے، جنات آپ کو بیٹھا دیکھ کر زندہ سمجھتے رہے اور زندہ سمجھ کر بدستور کام کرتے رہے۔ 7۔ مراد اعمال شاقہ ہیں جن میں بوجہ محکومیت کے ذلت بھی اور مشقت کی وجہ سے مصیبت بھی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت۔ دنیا میں جو شخص آیا ہے اسے بالآخر یہاں سے جانا ہے۔ بیشک وہ بادشاہ ہو یا فقیر، نیک ہو یا بد یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر بھی دنیا سے کوچ کر گئے مفسرین نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی زندگی کے آخری دور میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر شروع کروائی جسے یہودی ہیکل سلیمانی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی تعمیرجاری تھی کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی بتلایا گیا کہ آپ کی موت کا وقت قریب آپہنچا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) حجرے میں جا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہوگئے۔ طویل قیام کے لیے لاٹھی کے سہارے پر کھڑے تھے کہ ان کی روح قبض کرلی گئی۔ جس کے متعلق بتلایا جارہا ہے کہ جب ہم نے ان کی موت کا فیصلہ کیا یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) فوت ہوگئے۔ فوت ہونے کے باوجود جنات کو انکی خبر نہ ہوپائی وہ اسی طرح ہی تعمیر اور مشکل کاموں میں لگے رہے۔ یہاں تک کہ جس لاٹھی کے سہارے پر کھڑے ہو کر عبادت کررہے تھے اسے دیمک نے چاٹ لیا اور حضرت کا جسداطہر زمین پر گرپڑا۔ اب جنوں کو پتہ چلا کہ ہمارا بادشاہ تو فوت ہوچکا ہے۔ جنات کی فطرت کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے۔ کہ اگر جنّات کو پہلے سے معلوم ہوجاتا تو وہ کبھی بھی مشکل کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ جنات بھی غیب نہیں جانتے۔ سلیمان (علیہ السلام) کا وجودِاطہرکتنا عرصہ جوں کا توں کھڑا رہا۔ اسکے بارے میں غیر مستند حوالوں سے لکھا گیا ہے کہ انکا وجود چار مہینے یا ایک سال تک کھڑا رہا۔ واللہ اعلم (عَنْ عَاءِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ أَنَّہَا قَالَتْ لَمَّا قَدِمَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمَدِینَۃَ وُعِکَ أَبُو بَکْرٍ وَبِلاَل (رض) قَالَت فَدَخَلْتُ عَلَیْہِمَا فَقُلْتُ یَا أَبَتِ کَیْفَ تَجِدُکَ وَیَا بلاَلُ کَیْفَ تَجِدُکَ قَالَتْ فَکَانَ أَبُو بَکْرٍ إِذَا أَخَذَتْہُ الْحُمَّی یَقُولُ کُلُّ امْرِءٍ مُصَبَّحٌ فِی أَہْلِہِ وَالْمَوْتُ أَدْنَی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی وَبَاءِ الْمَدِینَۃِ ] ” ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ آئے تو حضرت ابوبکر اور بلال (رض) کو شدید بخار ہوگیا حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں ان کے ہاں گئی اور ان کی تیماداری کی۔ ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ ہر انسان اپنے گھر میں صبح کرتا ہے اور موت جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ ، وَخَطَّ خُطُطًا صِغَارًا إِلَی ہَذَا الَّذِی فِی الْوَسَطِ ، مِنْ جَانِبِہِ الَّذِی فِی الْوَسَطِ وَقَالَ ہَذَا الإِنْسَانُ ، وَہَذَا أَجَلُہُ مُحِیطٌ بِہِ أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِہِ وَہَذَا الَّذِی ہُوَ خَارِجٌ أَمَلُہُ ، وَہَذِہِ الْخُطُطُ الصِّغَارُ الأَعْرَاضُ ، فَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا، وَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا )[ رواہ البخاری : باب فِی الأَمَلِ وَطُولِہِ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چوکور خط کھینچا اور ایک خط اس کے درمیان میں سے کھینچا جو چوکور خط سے باہر نکل رہا تھا اور اس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے اور خط کھینچے آپ نے فرمایا درمیان والا خط انسان ہے اور چاروں طرف سے اس کی اجل اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو خط باہر نکل رہا ہے یہ اس کی حرص ہے اور چھوٹے چھوٹے جو خطوط ہیں یہ اس کی خواہشات ہیں اگر ایک سے بچے تو دوسری خواہش دامن تھام لیتی ہے۔ “ مسائل ١۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کوئی بچ پایا اور نہ بچ پائے گا۔ ٢۔ جنات غیب نہیں جانتے۔ تفسیر بالقرآن موت ہر ذی روح کا مقدر ہے : ١۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ (الرحمن : ٢٦، القصص : ٨٨) ٢۔ قلعہ بند ہونے کے باوجود کسی کو موت نہیں چھوڑتی۔ (النساء : ٧٨) ٣۔ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے۔ (الاعراف : ٣٤) ٤۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ٥۔ پہلے انبیاء فوت ہوئے۔ (آل عمران : ١٤٤) ٦۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی موت سے ہمکنار ہوئے۔ (الزمر : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلما قضینا علیہ ۔۔۔۔۔ فی العذاب المھین (13) روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا وقت آگیا تو وہ عصا پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔ جن اپنی اپنی ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے تھے اور ان کے ذمہ بہت سے شدید فرائض تھے جو ان کو کرتے تھے۔ جنوں کو ایک عرصہ تک معلوم نہ ہوا کہ حضرت سلیمان فوت ہوگئے ہیں یہاں تک کہ گھن نے ان کے عصا کو چاٹ لیا۔ یہ کیڑا جہاں ہوتا ہے۔ چھت کے شہتیروں ، دروازوں ، ستونوں کو بری طرح کھا جاتا ہے۔ پورٹ سعید کے علاقے میں لوگ گھر بناتے ہیں اور اس گھن کے ڈر سے اس میں ایک لکڑی بھی نہیں لگاتے کہ یہ کیڑا ہر قسم کی لکڑی کو چاٹ جاتا ہے۔ جب اس نے عصا کو چاٹ لیا تو وہ حضرت سلیمان کو نہ سہار سکا اور آپ زمین پر گر پڑے۔ اس وقت جنوں کو معلوم ہوا کہ حضرت تو وفات پا چکے ہیں۔ یہاں آکر جنوں کو معلوم ہوا۔ تبینت الجن ۔۔۔۔۔۔ العذاب المھین (34: 14) ” یہ بات کھل گئی کہ اگر وہ غیب جاننے والے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے “۔ یہ ہیں وہ جن جن کو عرب پوجتے ہیں اور ان کو اللہ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے تابع بنا دیا اور ان کو اپنے قریب کے غیب کا بھی علم نہ تھا۔ لیکن بعض لوگ اس قدر کم فہم ہیں کہ ان سے دور کی باتیں پوچھتے ہیں۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے گھرانے کا قصہ تو ان اہل ایمان کا قصہ تھا جو اللہ کے فضل و کرم کا بےحد شکر ادا کرنے والے تھے۔ اس کے بالمقابل قوم سبا کا قصہ ہے۔ سورة نمل میں حضرت سلیمان اور ملکہ سبا کے حالات گزر گئے ہیں۔ اب ان کا قصہ بعد کے ادوار سے متعلق ہے کیونکہ جن واقعات کا یہاں ذکر ہے وہ زمانہ مابعد سے متعلق ہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ جب قوم سبا نے سرکشی اختیار کی تو اللہ نے ان سے اپنی نعمتیں چھین لیں اور اس کے بعد یہ لوگ اس علاقے سے منتشر ہوگئے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دور میں یہ لوگ ایک بہت بڑی ترقی یافتہ مملکت کے مالک تھے اور ان کے علاقے میں ہر طرف خوشحالی اور رفاہ عامہ کے کام تھے۔ کیونکہ ہدہد نے سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے یہ رپورٹ پیش کی۔ انی وجدت امرۃ ۔۔۔۔۔ من دون اللہ ” میں نے دیکھا کہ ایک عورت ان کی ملکہ ہے اور اسے ہر چیز دی گئی ہے اور اس کا ایک عظیم تخت ہے۔ میں نے پایا کہ وہ اور اس کی قوم سورج کے پجاری ہیں ، اللہ کے سوا “۔ اس کے بعد پھر ملکہ سبا سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے مسلمان ہو کر آجاتی ہے۔ لہٰذا یہاں کے جو واقعات ہیں وہ ملکہ سبا کے زمانہ کے بعد سے متعلق ہیں۔ یہ مصائب ان پر اس وقت آئے جب انہوں نے سرکشی اختیار کرلی ۔ اور اللہ کی ناشکری کی وجہ سے اللہ نے اپنے انعامات ان سے چھین لیے۔ قصے کا آغاز اس حالت کے بیان سے ہوتا ہے جس میں وہ تھے۔ اچھے دن ، فراوانی ، ترقی اور اللہ کی نعمتیں اور ہر طرح کی پیداوار جس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ان انعامات کے بدلے میں اللہ کا شکر ادا کرتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جنات غیب نہیں جانتے، وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات سے بیخبر رہے جیسا کہ پہلے معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جنات سے بڑے بڑے کام لیتے تھے، ان میں سخت کام بھی ہوتے تھے اور ان میں سے بعض شیاطین کو بیڑیوں میں جکڑ کر بھی ڈالتے تھے، کما ذکر اللّٰہ فی سورة ص (وَالشَّیٰطِیْنَ کُلَّ بَنَّآءٍ وَّغَوَّاصٍ وَّاٰخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِیْ الْاَصْفَادِ ) جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کا وقت قریب ہوا تو وہ ایک لاٹھی لے کر اپنی ٹھوڑی سے لگ کر تخت پر بیٹھ گئے، اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی موت آنے کا فیصلہ فرما دیا لہٰذا ان کو موت آگئی، جنات یہ سمجھ کر کہ آپ بیٹھے ہیں اور ہمیں دیکھ رہے ہیں برابر کاموں میں لگے رہے اور تکلیفیں اٹھاتے رہے ان میں سے چھوٹے درجے کے جنات کو ایسا خیال تھا کہ جو ہمارے بڑے ہیں وہ غیب کو جانتے ہیں۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان میں جو بڑے جنات تھے وہ خود بھی اپنے بارے میں غیب دانی کا دعویٰ کرتے ہوں، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو موت آگئی اور بدستور لاٹھی سے ٹیک لگائے بیٹھے رہے اور لاٹھی کو گھن کا کیڑا کھاتا رہا۔ جب ایک سال گزرا تو گھن کھانے کی وجہ سے لاٹھی ٹوٹ گئی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی لاش گر پڑی، اب جو لاش گری تو جنات کو پتہ چل گیا کہ ارے یہ تو مرے ہوئے تھے، ان کا بیٹھا رہنا اور ٹکا رہنا لاٹھی کی ٹیک کی وجہ سے تھا، پھر حساب لگایا کہ گھن کے کیڑے نے کتنے دن تک لاٹھی کو کھایا ہوگا تو اندازہ ہوا کہ ایک سال تک کیڑے نے لکڑی کو کھایا ہے جس کا ہمیں اب پتہ چلا ہے، اگر ہم پہلے ہی سے اس بات کو جان لیتے کہ ان کو موت آچکی ہے تو مشقت کے کاموں میں کیوں لگے رہتے جو ہمارے لیے باعث عذاب بنے ہوئے تھے اور ہماری ذلت کا باعث تھے، ان کا غیب دانی کا جو دعویٰ تھا وہ غلط نکلا اور پوری طرح واضح ہوگیا کہ جنات غیب کو نہیں جانتے، یہ غلط فہمی اس امت کے بعض لوگوں کو بھی ہے، حالانکہ علم الغیب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے لیے مخصوص ہے، کسی رسول یا فرشتے کو جو کچھ علم حاصل ہوا وہ اللہ تعالیٰ ہی کے عطا فرمانے سے ملا، سورة آل عمران میں فرمایا : (وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآءُ ) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے واقعہ سے پوری طرح عیاں ہوگیا کہ جنات غیب دان نہیں ہیں۔ (قولہ تعالیٰ مِنْسَاَتُہٗ قال صاحب الروح والمنسأۃ من نسأت البعیرا ذاطردتہ، لانھا یطردبھا أومن نسأتہ اذا اخرتہ ومنہ النسئَ ، یظھر من ھذا انھا العصا الکبیرۃ الّتی تکون مع الراعی واضرابہ)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ فلما قضینا الخ : ای اوقعنا علی سلیمان الموت حاکمین بہ علیہ (روح ج 22 ص 121) ۔ یعنی جب ہم نے اپنے فیصلے کے مطابق سلیمان (علیہ السلام) پر موت واقع کردی۔ ما دلہم : ضمیر مفعول جنوں کی طرف عائد ہے جیسا کہ مشہور ہے فاضمیر فی دلہم عائد علی الجن الذین یعملون لہ (بحر ج 7 ص 266) ۔ یا اس سے جن اور آل داود اور دوسرے لوگ بھی مراد ہیں (ما دلہم) ای الجن وال داود (مدارک) اور دابۃ الارض سے دیمک مراد ہے جو ایک قسم کا کیڑا ہے اور لکڑی کو کھاتا ہے۔ حضرت داود (علیہ السلام) نے مسجد بیت المقدس کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ لیکن اس کی تکمیل سے پہلے ہی ان کی وفات ہوگئی۔ اور وفات سے پہلے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس کی تکمیل کی وصیت فرما گئے۔ انہوں نے والد بزرگوار کی وصیت کے مطابق بیت المقدس کی تکمیل کے کام پر جنوں کو مامور فرمایا اور خود کام کی نگرانی فرماتے تھے ابھی تعمیر کا کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا کہ ان کی اجل قریب آپہنچی۔ چناچہ ایک روز وہ (حضرت سلیمان علیہ السلام) حسب دستور جنوں کو کام میں مصروف پا کر خود عبات خانے میں لاٹھی پر ٹیک لگا کر عبادت میں مصروف ہوگئے اور اسی حال میں روح مبارک قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ طویل مدت تک آپ اسی ہیئت میں رہے۔ جن اور دوسرے لوگ یہی سمجھتے رہے کہ آپ زندہ ہیں۔ اور عبادت میں مصروف ہیں۔ اور جن بھی باقاعدہ اپنے کام میں مصروف رہے۔ ادہر جنوں نے تعمیر کا کام مکمل کرلیا ادہر اللہ کے حکم سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی لاٹھی کو دیمک نے یہاں تک کھالیا کہ وہ ٹوٹ گئی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) گر پڑے۔ اب جنوں کو اور دوسرے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کی موت تو عرصہ سے واقع ہوچکی ہے اور اتنا عرصہ ان کا جسم لاٹھی کے سہارے اپنی وضع پر قائم رہا ہے اب جنوں پر یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ وہ غیب نہیں جانتے۔ ان کا غیب دانی کا دعوی غلط ہے۔ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اتنا طویل عرصہ اس ذلت آمیز محنت و مشقت میں کیوں مبتلا رہتے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کو اللہ تعالیٰ نے دو حکمتوں کے لیے پوشیدہ رکھا۔ اول اس لیے کہ بیت المقدس کی تعمیر کا کام مکمل ہوجائے۔ اگر جنوں کو ان کی وفات کا علم ہوجاتا تو وہ کام کو وہیں چھوڑ دیتے۔ دوم جنوں کو دعوی تھا کہ وہ غیب جانتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کو ان سے پوشیدہ رکھ کر ان کے اس جھوٹے دعوے کا پول ظاہر فرما دیا۔ قال قتادۃ وغیرہ کانت الجن تدعی علم الغیب، فلما مات سلیمان (علیہ السلام) و خفی موتہ علیہم (تبینت الجن ان لو کانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المھین) ۔ (قرطبی) ۔ یہ تیسرے شبہ کا جواب ہے۔ مشرکین جنوں کو عالم الغیب اور شفیع غالب مانتے ہیں حالانکہ یہ واقعہ ان کے دعوے کو رد کرتا ہے جن کو یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) فوت ہوچکے ہی اور وہ ان کو زندہ سمجھ کر ان کے ڈر سے سال بھر ذلت آمیز محنت و مشقت میں مبتلا رہے وہ کسی طرح بھی غیب دان اور شفیع غالب نہیں ہوسکتے۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں تبینت فعل لازم ہے اور ان لوکانوا الخ جملہ الجن سے بدل الاشتمال ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) گر پڑے تو جن ظاہر ہوگئے یعنی ان کے بارے میں یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اگر وہ غیب داں ہوتے تو اتنا عرصہ عذاب مہین میں گرفتار نہ رہتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) پھر جب ہم نے سلیمان پر موت کا حکم جاری کردیا تو سلیمان (علیہ السلام) کی موت پر جنات کو کسی نے بھی آگاہ نہ کیا اور کسی نے جنات کو سلیمان (علیہ السلام) کا مرنا نہ جتایا مگر ایک گھن کے کیڑے نے جو سلیمان کے سہارے کی لکڑی کو کھا رہا تھا پھر جب سلیمان (علیہ السلام) گرپڑے۔ تب جنات کو اپنے دعوے غیب دانی کی حقیقت معلوم ہوئی اور یہ بات ظاہر ہوئی کہ اگر وہ جنات غیب کی باتیں جانتے ہوتے تو وہ اس ذلت آمیز مصیبت اور تکلیف میں مبتلا نہ رہتے۔ یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ دعا کی تھی کہ بیت المقدس کی تعمیر پوری ہوجائے چناچہ تعمیر پوری ہونے سے پہلے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کا وقت قریب آگیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قاعدہ تھا کہ محراب میں اپنا عصا ٹیک کر کھڑے رہتے تھے اور عبادت میں مشغول ہوتے تھے چناچہ ایک دن حسب عادت وہ عصا کی ٹیک لگا کر محراب میں کھڑے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی روح کے قبض کا حکم دیا اور جب سلیمان (علیہ السلام) کی جان قبض کرلی گئی تو وہ لکڑی کے سہارے کھڑے رہ گئے اور اللہ تعالیٰ نے ایک سال تک ان کو اسی حالت میں رکھا۔ جناب یہ سمجھتے رہے کہ سلیمان (علیہ السلام) محراب عبادت میں کھڑے ہیں۔ سال بھر میں حضرت سلیمان کی لکڑی میں دیمک لگ گئی اور گھن لکڑی کو کھاتا رہا۔ جب لکڑی کا گودا ختم ہوگیا تو چھلکا ٹوٹا لکڑی کو ٹوٹتے ہی حضرت سلیمان (علیہ السلام) گرپڑے اس وقت آپ کی وفات کا حال سب کو معلوم ہوا اور جنات جو محنت مشقت میں لگے رہتے تھے اور بیت المقدس کی تعمیر میں لگے ہوئے تھے وہ منتشر ہوگئے اور یہ بات معلوم ہوتے ہی کہ سلیمان (علیہ السلام) کا انتقال ہوگیا تمام جنات بھاگنے شروع ہوگئے لیکن اس عرصہ میں بیت المقدس کی تعمیر مکمل ہوگئی۔ اسی واقعہ کا آیت مذکورہ میں اظہار فرمایا کہ جب سلیمان (علیہ السلام) کی موت واقع ہوگئی تو جنات کو کسی نے نہیں جتایا اور وہ اپنے کام می لگے رہے یہ بات ظاہر ہوئی بھی تو گھن کے کیڑے سے کھلی کیونکہ گھن لکڑی کو کھا گیا تھا۔ اس پر جنات کی حقیقت بھی ظاہر ہوگئی کہ اگر یہ جنات غیب کو جانتے ہوتے تو کیوں سال بھر تک مصیبت پیٹتے رہتے اور خود جنات کو بھی معلوم ہوگیا کہ اگر وہ اپنے دعوائے غیب میں سچے ہوتے تو تسخیر کے عذاب میں اور تکلیف میں کیوں مبتلا رہتے۔ بہرحال ! اس طرح بیت المقدس کی تعمیر پوری ہوگئی آگے سبا اور اس کے باشندوں کا حال مذکور ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت سلیمان (علیہ السلام) جنوں کے ہاتھ سے مسجد بیت المقدس بنواتے تھے جب معلوم کیا کہ میری موت پہنچی جنوں کو عمارت کا نقشہ بنا کر آپ شیشے کے مکان میں دربند کر کے بندگی میں مشغول ہوئے بعد وفات کے برس دن تک جن بناتے رہے کہ پوری بن چکی جس عصا پر ٹیک کر کھڑے تھے گھن کے کھانے سے گرا تب سب پر وفات معلوم ہوئی اور جن جو آدمیوں کے پاس دعویٰ کرتے تھے علم غیب کا قائل ہوئے۔