Surat Saba

Surah: 34

Verse: 35

سورة سبأ

وَ قَالُوۡا نَحۡنُ اَکۡثَرُ اَمۡوَالًا وَّ اَوۡلَادًا ۙ وَّ مَا نَحۡنُ بِمُعَذَّبِیۡنَ ﴿۳۵﴾

And they said, "We are more [than the believers] in wealth and children, and we are not to be punished."

اور کہا ہم مال واولاد میں بہت بڑھے ہوئے ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم عذاب دیئے جائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And they say: "We are more in wealth and in children, and we are not going to be punished." meaning, they were proud of their great wealth and great numbers of children, and they believed that this was a sign that Allah loved them and cared for them, and that if He gave them this in this world, He would not punish them in the Hereafter. This was too far-fetched. Allah says: أَي... َحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِى الْخَيْرَتِ بَل لاَّ يَشْعُرُونَ Do they think that in wealth and children with which We enlarge them We hasten unto them with good things. Nay, but they perceive not. (23:55-56) فَلَ تُعْجِبْكَ أَمْوَلُهُمْ وَلاَ أَوْلَـدُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَـفِرُونَ So, let not their wealth nor their children amaze you; in reality Allah's plan is to punish them with these things in the life of this world, and that their souls shall depart while they are disbelievers. (9:55) and, ذَرْنِى وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيداً وَجَعَلْتُ لَهُ مَالاً مَّمْدُوداً وَبَنِينَ شُهُوداً وَمَهَّدتُّ لَهُ تَمْهِيداً ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ كَلَّ إِنَّهُ كان لاٌّيَـتِنَا عَنِيداً سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً Leave Me Alone (to deal) with whom I created lonely. And then granted him resources in abundance. And children to be by his side. And made life smooth and comfortable for him. After all that he desires that I should give more. Nay! Verily, he has been opposing Our Ayat. I shall oblige him to face a severe torment! (74:11-17) And Allah has told us about the story of the owner of those two gardens, that he had wealth and crops and children, but that could not help him at all when all of that was taken from him in this world, before he reached the Hereafter. Allah says here:   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 یعنی جب اللہ نے ہمیں دنیا میں مال و اولاد کی کثرت سے نوازا ہے، تو قیامت بھی اگر برپا ہوئی تو ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔ گویا انہوں نے دار الآخرت کو بھی دنیا پر قیاس کیا کہ جس طرح دنیا میں کافر و مومن سب کو اللہ کی نعمتیں مل رہی ہیں، آخرت میں بھی اسی طرح ہوگا، حالانکہ آخرت تو دار الجزا ہے، وہاں تو د... نیا میں کئے گئے عملوں کی جزا ملنی ہے اچھے عملوں کی جزا اچھی اور برے عملوں کی بری۔ جب کہ دنیا دارالامتحان ہے، یہاں اللہ تعالیٰ بطور آزمائش سب کو دنیاوی نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے انہوں نے دنیاوی مال و اسباب کی فروانی کو رضائے الٰہی کا مظہر سمجھا، حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے فرماں بردار بندوں کو سب سے زیادہ مال و اولاد سے نوازتا۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٥٣] یہ خوشحال طبقہ اپنے انکار کی اصل وجوہ تو بیان نہیں کرتا اور اس کے بجائے ایک ایسی بات کو خوبصورت بنا کر اپنے انکار کی وجہ کے طور پر پیش کردیتا ہے۔ جو عام دنیا دار لوگوں کو بھی معقول معلوم ہوتی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہوتی ہے جیسے وہ پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ کہ اللہ تو...  ہم پر مہربانی ہے تم پر نہیں۔ اللہ نے ہمیں کوٹھیاں دی ہیں۔ کاریں دی ہیں، مال و دولت ڈھیروں دیا ہے۔ اولاد عطا کی ہے۔ وہ ہم سے خوش تھے تبھی تو اس نے ہمیں ان نعمتوں سے نوازا ہے۔ اور جس آخرت سے تم ہمیں ڈرا رہے ہو۔ اور وہ ہوئی بھی تو آخر کیا وجہ ہے کہ جو اللہ آج ہم پر مہربان ہے کل ہم پر مہربانی نہ ہو۔ اور ہمیں خواہ مخواہ عذاب دے دے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْا نَحْنُ اَكْثَرُ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا ۔۔ : یعنی انھوں نے ایک تو اپنے اموال و اولاد کی کثرت پر فخر کیا اور انبیاء اور ان کے متبعین کی تحقیر کی، جیسا کہ فرعون نے اپنے آپ کو مصر کا بادشاہ ہونے کی وجہ سے بہتر اور موسیٰ (علیہ السلام) کو مہین (حقیر) کہا تھا۔ دیکھیے سورة زخرف (٥١ تا ٥٤) ”ۙ وَ... ّمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ “ دوسرے انھوں نے اپنی خوش حالی کو اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی دلیل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم پر ناراض ہوتا تو ہمیں تم سے زیادہ مال و اولاد کیوں دیتا، یہ دلیل ہے کہ ہم پر عذاب ہرگز نہیں آئے گا۔ (بِمُعَذَّبِيْنَ میں باء نفی کی تاکید کے لیے ہے) بلکہ اگر قیامت قائم ہوئی تو وہاں بھی ہم ہی کو یہ نعمتیں ملیں گی۔ دیکھیے سورة مریم (٧٧ تا ٨٠) اور سورة مدثر (١١) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Quoted in the next verse (35) is their saying: نَحْنُ أَكْثَرُ‌ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ which, in effect, means: |"We are superior in riches and children, and we are not going to be punished - 35|". (Obviously, by it, they meant: If we had been deserving of punishment in the sight of Allah Ta’ ala, why would He give us all this wealth and recognition)? The noble Qur&... ;an gives an answer in the next two verses by saying:... نَحْنُ أَكْثَرُ‌ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ (|"I: fact, my Lord extends provision to whom He wills, and straitens (it for whom He wills), but most of the people do not know|". 34:36] And neither your riches nor your children are the things that bring you near Us closely; however, the one who believes and acts righteously (is close to Us) وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم 34:37). The gist of the answer is that having more wealth and recognition in this world, or not having any, is no proof of someone being acceptable or unacceptable in the sight of Allah. In fact, it is in view of creational considerations that Allah Ta’ ala would give, at least in this world, property and wealth in abundance to whomever He wills, and gives less to whomever He wills. He alone knows the creational consideration behind it. But, taking the abundance of wealth and children to be a proof of being acceptable in the sight of Allah is sheer ignorance because, with Him, the criterion of acceptability, approval, support and pleasure is no other but &Iman (faith) and good deed. One who does not carry these two assets - no matter how much wealth and how many children one has - these cannot make him or her acceptable in the sight of Allah.  Show more

دوسری آیت میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ (آیت) نحن اکثر اموالاً واولاداً وما نحن بمعذبین، ” یعنی ہم تم سے مال و دولت میں بھی زیادہ اولاد میں بھی زیادہ، اس لئے ہم عذاب میں مبتلا نہیں ہو سکتے “ (بظاہر ان کے قول کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہم قابل عذاب ہوتے تو ہمیں اتنی دولت و عزت کیوں دیتا... )   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا نَحْنُ اَكْثَرُ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًا۝ ٠ ۙ وَّمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ۝ ٣٥ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيد... َنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور انہوں نے انبیاء کرام (علیہم السلام) سے یہ بھی کہا کہ ہم مال و اولاد تم سے زیادہ رکھتے ہیں اور ہمیں اپنے اس طریقے پر اس قدر مال و اولاد کی کثرت کی وجہ سے عذاب نہیں ہوگا اور یہی چیز کفار مکہ نے رسول اکرم سے کہی تھی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ { وَقَالُوْا نَحْنُ اَکْثَرُ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًالا وَّمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ } ” اور انہوں نے کہا کہ ہم اموال اور اولاد میں بڑھ کر ہیں اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا۔ “ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں دولت اور اولاد جیسی نعمتوں سے نوازا گیا ہے تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہم سے خوش ہ... ے اور ہم اس کے منظورِ نظر ہیں۔ چناچہ جس طرح ہمیں دنیا میں خوشحالی حاصل ہے اسی طرح ہمیں آخرت میں بھی عیش کی زندگی ملے گی اور عذاب تو ہمیں بالکل بھی نہیں دیا جائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55 Their reasoning was: "We are greater favourites of Allah than you. That is why He has favoured us with the blessings of which you are deprived, or have received them in lesser measure. Why should Allah have given us all these provisions and wealth and power had He not been pleased with us? Now, how can we believe that Allah Who is showering us with all kinds of His blessings here will punish us...  in the Hereafter? He will punish only those who are deprived of His favours here," This misunderstanding of the world-worshippers also has been mentioned at several places in the Qur'an and refuted. For instance, see AI-Baqarah: 126, 212; At-Taubah: 55, 69; Hud: 3, 27; Ar-Ra'd: 26; Al-Kahf: 34 to 43; Maryam: 73 to 77; Ta Ha: 131; Al-Mu'minun: 55 to 61; Ash-Shu`ara': 111; Al-Qasas: 76 to 83; Ar-Rum: 9; Al-Muddaththir: 11-26: Al-Fajr: 15 to 20.  Show more

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :55 ان کا استدلال یہ تھا کہ ہم تم سے زیادہ اللہ کے پیارے اور پسندیدہ لوگ ہیں ، جبھی تو اس نے ہم کو ان نعمتوں سے نوازا ہے جن سے تم محروم ہو ، یا کم از کم ہم سے فروتر ہو ۔ اگر اللہ ہم سے راضی نہ ہوتا تو یہ سر و سامان اور یہ دولت و حشمت ہمیں کیوں دیتا ۔ اب یہ بات ہم کیسے با... ور کرلیں کہ اللہ یہاں تو ہم پر نعمتوں کی بارش کر رہا ہے اور آخرت میں جا کر ہمیں عذاب دے گا ۔ عذاب ہونا ہے تو ان پر ہونا ہے جو یہاں اس کی نوازشوں سے محروم ہیں ۔ قرآن مجید میں دنیا پرستوں کی اس غلط فہمی کا بھی جگہ جگہ ذکر کر کے اس کی تردید کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: البقرہ ، 126 ۔ 212 ۔ التوبہ ، 55 ۔ 69 ۔ ہود ، 3 ۔ 27 ۔ ۔ الرعد ، 26 ۔ الکہف ، 34 تا 43 ۔ مریم ، 73 تا 77 ۔ طٰہ ، 131 ۔ المومنون ، 55 ۔ 61 ۔ الشعراء ، 111 ۔ القصص ، 76تا83 ۔ الوم ، 9 ۔ المدثر ، 11 تا 26 ۔ الفجر 15تا 20 ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:35) اکثر۔ اسم تفضیل کا صیغہ۔ مفضل علیہ محذوف ہے ای نحن اکثر منکم اموالا واولادا۔ ہم تم سے زیادہ کثیر المال اور کثیر الاولاد ہیں۔ مالا واولادا۔ بوجہ تمیز منصوب ہیں۔ معذبین اسم مفعول جمع مذکر۔ عذاب دئیے گئے۔ عذاب یافتہ۔ ( ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے پیارے اور پسندیدہ ہیں تبھی تو اس نے میں دنیا میں دولت و عزت سے نوازا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آخرت میں بھی، اگر وہ آئی جیسا کہ تم کہتے ہو، ہمیں اپنی نعمتوں سے یونہی نوازیگا اور کوئی سزا نہ دے گا۔ ( ھیھات لم ذالک) یا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہم پر عذاب نہیں آئے گا جی... سا کہ تم دھمکی دے رہے ہو۔ قرآن نے متعدد مقامات پر اس نظریہ کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ دنیا میں مال و اولاد سے بہرہ ور ہونا اللہ تعالیٰ کے قرب کی علامت نہیں ہے اور سورة کہف میں دو باغوں والے کا قصہ اس حقیقت کی وضاحت کر رہا ہے۔ ( ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقالوا نحن ۔۔۔۔۔ نحن بمعذبین (25) ” “۔ لیکن قرآن کریم جواب دہی کے لیے وہ معیار اور وہ قدریں وضع کرتا ہے جو اللہ کے ہاں معمول بہا ہیں۔ اللہ کے ہاں رائج ہیں۔ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ رزق کی کشادگی اور تنگی پر مدار فیصلہ نہیں ہے۔ فیصلہ اللہ کی رضا و غضب پر ہوگا۔ رزق نہ کسی کو سزا دیتا ہے اور نہ بچاتا ہے۔...  حساب و کتاب اور جزاء و سزا کا معاملہ دولت مندی اور تنگدستی سے جدا ہے۔ اللہ کی رضا مندی اور ناراضگی کا تعلق رزق سے نہیں ہے اس کے لئے دوسرا معیار ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(35) اور یہ خوش حال لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم مال اور اولاد میں تم سے زیادہ ہیں اور ہم کبھی عذاب دیئے جانیوالے نہیں۔ یعنی ہم مال میں بھی تم سے زیادہ اور اولاد میں بھی تم سے زیادہ اور ہم کو کبھی عذاب نہ ہوگا۔ یہ الفاظ شاید مسلمانوں سے کہا کرتے ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ پیغمبروں سے کہتے ہوں۔