Surat Saba

Surah: 34

Verse: 4

سورة سبأ

لِّیَجۡزِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۴﴾

That He may reward those who believe and do righteous deeds. Those will have forgiveness and noble provision.

تاکہ وہ ایمان والوں اور نیکو کاروں کو بھلا بدلہ عطا فرمائے یہی لوگ ہیں جن کے لئے مغفرت اور عزت کی روزی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یہ وقوع قیامت کی علت ہے یعنی اس لیے برپا ہوگی اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ اس لیے دوبارہ زندہ فرمائے گا کہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا عطا فرمائے کیونکہ جزا کے لیے ہی اس نے یہ دن رکھا ہے اگر یہ یوم جزا نہ ہو تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیک و بد دونوں یکساں ہیں اور یہ بات عدل وانصاف کے ... قطعا منافی اور بندوں بالخصوص نیکوں پر ظلم ہوگا ( وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ ) 41 ۔ فصلت :46)   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧] یہ قیامت یا اخروی زندگی پر عقلی دلیل ہے۔ اس دنیا میں بیشمار ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے ایمان لاکر راہ حق میں بیشمار جانی اور مالی قربانیاں دیں اور تمام عمر فقر و فاقہ پریشانیوں اور کفار کے ہاتھوں ظلم وستم سہنے میں گزارا۔ کیا یہ انصاف کا تقاضا نہیں کہ انھیں ان کے اعمال کی جزا دی جائے ؟ اور د... کھوں کے بدلے انھیں انعامات سے نوازا جائے ؟ لہذا ضروری ہے کہ اللہ انسانوں کو ایک دوسری زندگی عطا فرمائے۔ جس میں ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِّيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۔۔ : ان آیات میں قیامت کا مقصد اور اس کی حکمت بیان کی گئی ہے، یعنی قیامت اس لیے برپا ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ایمان اور عمل صالح والوں کو ان کی جزا دے، کیونکہ دنیا کی محدود مدت میں نہ نیکوں کو ان کی پوری جزا ملتی ہے، نہ بدوں کو ان کی پوری سزا۔ اب اگ... ر جزا و سزا کا کوئی دن ہی نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیک و بد یکساں ہیں، جب کہ یہ بات عقل کے خلاف ہے۔ دیکھیے سورة ص (٢٨) ، سجدہ (١٨ تا ٢٠) اور حشر (٢٠) اور اللہ تعالیٰ کے عدل کے بھی خلاف ہے۔ (دیکھیے انبیاء : ٤٧) بلکہ یہ ان لوگوں پر ظلم ہوگا جن پر دنیا میں ظلم ہوتا رہا، جب کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ذرہ برابر ظلم کا روا دار نہیں، جیسا کہ فرمایا : (وما ربک بظلام للعبید) [ حٰآ السجدۃ : ٤٦ ] ” اور تیرا رب اپنے بندوں پر ہرگز کوئی ظلم کرنے والا نہیں۔ “ بھلا وہ کون سا مالک ہے جس کے غلاموں میں سے کوئی اس کا حکم مانے، کوئی نہ مانے اور وہ سب سے یکساں سلوک کرے، اور اس کے غلاموں میں سے بعض بعض پر ظلم کرتا رہے اور وہ ظالم سے باز پرس ہی نہ کرے، پھر جب انسان اپنے غلاموں میں یہ برداشت نہیں کرتا تو اس بادشاہوں کے بادشاہ، ملک الملوک کے متعلق یہ گمان کیسے کیا جاسکتا ہے ؟ ” مغفرۃ “ پر تنوین تعظیم کی ہے اور ” رزق “ سے مراد جنت کی نعمتیں ہیں۔ دیکھیے سورة سجدہ (١٧) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لِّيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا (So that He rewards those who believed - 4) This sentence is connected with the earlier one: لَتَأْتِيَنَّكُمْ that is, al-Qiyamah or the Doomsday is bound to come and its purpose will be to reward believers and to provide for them the best sustenance from Jannah (Paradise).

لیجزی الذین امنوا، اس جملہ کا تعلق اس سے پہلے جملے لتاتینکم سے ہے، یعنی قیامت ضرور آئے گی، اور قیامت آنے کا مقصد یہ ہوگا کہ ایمان والوں کو جزاء اور بہترین رزق جنت کا دیا جائے

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِّيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۝ ٤ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا...  فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تاکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو صلہ دے جو ایمان لائے تھے اور انہوں نے نیک کام کیے تھے۔ ایسے لوگوں سے دنیا میں جو گناہ سرزد ہوئے ہیں جنت میں ان کی مغفرت اور عزت کا رزق ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ { لِّیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ } ” تاکہ وہ جزا دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے۔ “ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ ملے۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے دنیوی لذائذ کو چھوڑا ‘ اپنی آسائشوں کو قربان کیا ‘ حق کا َعلم ... بلند کرنے کے لیے اپنا دنیوی مستقبل دائو پر لگا دیا ‘ اپنی جان جوکھوں میں ڈالی اور اللہ کے راستے میں جہاد و قتال کیا ‘ اگر انہیں ان کی کوششوں کا بھر پور صلہ نہیں دیا جاتا اور انہیں انعام و اکرام سے نہیں نوازا جاتا تو ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی اور ناانصافی ہوگی۔ چناچہ تمام انسانوں کو ان کے اعمال کے مطابق بھر پور صلہ دینے کے لیے ایک دوسری دنیا کا قیام نا گزیر ہے۔ { اُولٰٓئِکَ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ} ” یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے (آخرت میں) مغفرت بھی ہوگی اور بہت با عزت روزی بھی۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:4) لیجزی لام تعلیل کا ہے ۔ (یہ لام عاقبت کا بھی ہوسکتا ہے) اس کا تعلق لتا تینکم سے ہے کہ یہی علت ہے لیجزی الذین امنوا وعملوا الصلحت کی۔ یجزی مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب ۔ جزاء سے (باب ضرب) تاکہ وہ بدلہ دے تاکہ وہ جزا دے۔ کریم۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ عزت والا۔ عمدہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یہ قیامت کے وقوع پر دلیل ہے یعنی اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ اس کے علم سے کوئی ذرہ بھر چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے اس لئے وہ تمہارے منتشر اجزاء کو جمع کر کے دوبارہ زندہ کرسکتا ہے اور الصادق الامین نے اس کی خبر دی ہے۔ لہٰذا اس کے وقوع میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ ( کبیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر قیامت قائم فرمانے کی غایت بتائی (لِّیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) (تاکہ اللہ ان لوگوں کو صلہ دے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے) (اُولٰٓءِکَ لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ) (یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے مغفرت ہے اور عزت والا رزق ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ لیجزی الذین الخ : یہ بشارت اخروی ہے اور لام لتاتینکم کے متعلق ہے اور یہ اس کی علت ہے یعنی قیامت ضرور آئے گی۔ تاکہ مومنوں کو ان کے اعمال کی جزا دی جائے ایمان والوں کی جزاء یہ ہوگی کہ ان کی کوتاہیوں سے در گذر کیا جائیگا اور جنت میں انہیں باعزت زندگی نصیب ہوگی۔ والذین سعو الخ : یہ تخویف اخروی ہے جو...  لوگ نہایت بیباکی سے ہماری آیتوں میں الحادو زندقہ سے کام لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ خداوند تعالیٰ کے ہاتھ نہیں آسکیں گے ان کو شدیدی ترین عذاب میں مبتلا کیا جائیگا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) یہ قیامت کا وقوع اس لئے ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کے پابند رہے ان کو جزا اور صلہ عطا فرمائے یہی دین حق پر ایمان لانے والے اور اعمال صالحہ کے پابند رہنے والے وہ لوگ ہیں جن کے لئے بڑی مغفرت اور باعزت روزی ہے۔