Surat Saba

Surah: 34

Verse: 42

سورة سبأ

فَالۡیَوۡمَ لَا یَمۡلِکُ بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ نَّفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا ؕ وَ نَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ذُوۡقُوۡا عَذَابَ النَّارِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ بِہَا تُکَذِّبُوۡنَ ﴿۴۲﴾

But today you do not hold for one another [the power of] benefit or harm, and We will say to those who wronged, "Taste the punishment of the Fire, which you used to deny."

پس آج تم میں سے کوئی ( بھی ) کسی کے لئے ( بھی کسی قسم کے ) نفع نقصان کا مالک نہ ہوگا اور ہم ظالموں سے کہہ د یں گے کہ اس آگ کا عذاب چکھو جسے تم جھٹلاتے رہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَالْيَوْمَ لاَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَلاَا ضَرًّا ... So Today, none of you can profit or harm one another. means, `none of those idols and rivals whom you hoped would benefit you, will be of any avail to you, those whom you worshipped in the hope that they would help you at times of stress and calamity. Today they will have no power either to benefit you or to harm you.' ... وَنَقُولُ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ... And We shall say to those who did wrong: -- meaning the idolators -- ... ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّتِي كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ "Taste the torment of the Fire which you used to deny." meaning, this will be said to them by way of rebuke.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 یعنی دنیا میں تم یہ سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے کہ یہ تمہیں فائدہ پہنچائیں گے، تمہاری سفارش کریں گے اور اللہ کے عذاب سے تمہیں نجات دلوائیں گے جیسے آج بھی پیر پرستوں اور قبر پرستوں کا حال ہے لیکن آج دیکھ لو کہ یہ لوگ کسی بات پر قادر نہیں۔ 42۔ 2 ظالموں سے مراد، غیر اللہ کے پجاری ہیں،۔ کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے اور مشرکین سب سے بڑے ظالم۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٦٥] اس وقت اللہ کے حضور فرشتے بھی موجود ہوں گے، مشرکین بھی اور شیاطین بھی۔ اور یہ سب کے اللہ کے سامنے محکوم اور بےبس ہوں گے۔ فرشتے بھی مشرکوں سے بیزار اور شیاطین بھی اور مشرک فرشتوں کے جواب کی وجہ سے ان سے بھی بیزار اور شیطانوں سے بھی جنہوں نے انہیں شرک کی راہ پر ڈالا تھا۔ گویا ہر ایک کو دوسرے سے بیزاری بھی ہوگی اور ہر ایک بےبس بھی ہوگا تو اس صورت میں دوسرے کو کیا فائدہ پہنچا سکے گا اور کیوں فائدہ پہنچائے گا ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَّلَا ضَرًّا : یہ فرشتوں اور ان کی عبادت کرنے والوں دونوں سے خطاب ہے۔ یعنی دنیا میں یہ لوگ یہ سمجھ کر تمہاری عبادت کرتے تھے کہ تم انھیں کوئی فائدہ پہنچاؤ گے، یا نقصان سے بچا لو گے اور اللہ کے عذاب سے محفوظ رکھو گے، جیسے آج کل پیر پرستوں اور قبر پرستوں کا حال ہے، مگر آج تم میں سے کوئی نہ کسی کو فائدہ پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے نہ نقصان سے بچانے کا۔ عابد و معبود دونوں عاجز ہیں، جیسا کہ فرمایا : (ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ ) [ الحج : ٧٣ ]” کمزور ہے مانگنے والا اور وہ بھی جس سے مانگا گیا۔ “ وَنَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَاب النَّارِ ۔۔ : ظالموں سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے اور مشرک سب سے بڑے ظالم ہیں۔ دیکھیے سورة انعام (٨٢) اور سورة لقمان (١٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَّلَا ضَرًّا۝ ٠ ۭ وَنَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّتِيْ كُنْتُمْ بِہَا تُكَذِّبُوْنَ۝ ٤٢ ملك ( مالک) فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وقال : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] وفي غيرها من الآیات ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف/ 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

غرض کہ قیامت کے دن فرشتوں اور جنات میں سے کوئی سفارش کر کے نہ ان کو نفع پہنچائے گا اور نہ ان سے عذاب ہی کو دور کرے گا اور اس روز ہم مشرکین سے کہیں گے کہ دنیا میں تم جس عذاب کو جھٹلایا کرتے تھے کہ وہ نہیں ہوگا اب اس کا مزہ چکھو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ { فَالْیَوْمَ لَا یَمْلِکُ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَّلَا ضَرًّا } ” تو آج کے دن تم میں سے کوئی کسی دوسرے کے لیے کچھ اختیار نہیں رکھتا ‘ نہ نفع کا اور نہ نقصان کا “ { وَنَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّتِیْ کُنْتُمْ بِہَا تُکَذِّبُوْنَ } ” اور ہم کہیں گے ان ظالموں سے کہ اب چکھو اس آگ کے عذاب کا مزا جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63 In this sentence, jinn implies the satans among the jinns. The answer means: "Apparently these people worshipped us, by mentioning our names and by making our images according to their imaginations. But, in fact, they did not worship us but worshipped the satans, for the satans only had shown them the way that they should regard others than Allah as fulfillers of their needs, and should make offerings before them. " This verse clearly brings out the error of the view of those people who take the word "jinn" to mean the dwellers of the mountains and deserts and rural areas. Can a sensible person imagine, on the basis of this verse, that the people used to worship the dwellers of the mountains and the deserts and the villages and believed in them? This verse also throws light on another meaning of 'ibadat. It shows that 'ibadat is not mere worship and service, but it also implies carrying out somebody's orders and obeying him without question. Even if one curses another (as one curses Satan) but at the time follows his way, one would be performing his 'ibadat. For other examples, see An-Nisa': 117-119; Al-Ma'idah: 60; At-Taubah: 31; Maryam: 42; AI-Qasas:63.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:42) فالیوم۔ میں ف ترتیب کے لئے ہے الیوم سے مراد یوم قیامت ہے۔ یوم بوجہ مفعول فیہ ہونے کے منصوب ہے۔ فالیوم سے قبل یقال لہم یا قال اللہ مصدر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی تم میں سے کوئی شخص نہ دوسرے کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، جیسا کہ یہ لوگ دنیا میں سمجھا کرتے تھے کہ ہم اپنے دیوتائوں یا بزرگوں یا پیروں کا دامن تھام لیں گے اور خدا کی پکڑ سے محفوظ رہیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

چونکہ مشرکین غیر اللہ کی عبادت اس عقیدہ سے بھی کرتے تھے کہ وہ آخرت میں سفارش کریں گے اور عذب سے بچالیں گے، اس لیے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : (فَالْیَوْمَ لَا یَمْلِکُ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَّ لَا ضَرًّا) (سو آج تم میں سے بعض بعض کے کسی نفع یا ضرر کا مالک نہیں) لہٰذا غیر اللہ کی عبادت کرکے جو امیدیں باندھ رکھی تھیں وہ سب جھوٹی نکلیں اور اپنے بنائے ہوئے خیال سب باطل نکلے۔ (وَ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَاب النَّارِ الَّتِیْ کُنْتُمْ بِھَا تُکَذِّبُوْنَ ) (اور ہم ظالموں سے کہیں گے کہ دوزخ کے عذاب کو چکھ لو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ فالیوم الخ : آج تمہارے یہ مزعومہ معبود اور سفارشی تمہیں کسی قسم کا نفع نہیں پہنچا سکیں اور نہ تمہیں عذاب ہی سے بچا سکیں گے۔ اس لیے آج جہنم کے اس ہولناک عذاب کا مزہ چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے ای لا یقع لکم نفع ممن کنتم ترجون نفعہ الیوم من الانداد والاوثان التی ادخرتم عبادتہا لشدائدکم و کر بکم الیوم لا یملکون لکم نفعا ولا ضرا (ابن کثیر ج 3 ص 542) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(42) بہرحال آج تم میں سے نہ کوئی کسی کو نفع پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے اور نہ کوئی کسی کو نقصان اور ضرر پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے اور ہم ان لوگوں سے جنہوں نے ظلم اور ناانصافی کا ارتکاب کیا تھا فرمائیں گے کہ جس آگ کے عذاب کی تم تکذیب کیا کرتے تھے اس آگ کے عذاب کا مزہ چکھو۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ان معبودان باطلہ کی عبادت پر نازاں تھے اور فرشتوں کی اور شیاطین کی سفارشوں اور شفاعت پر بھروسہ اور گھمنڈ رکھتے تھے اس کی حقیقت فالیوم لا یملک فرما کر آشکارا کردی گئی کہ نہ پوجا کرنیوالوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی کو ان معبودوں میں سے کوئی نفع یا ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان فرضی معبودوں ہی کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے پجاریوں کو کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکیں اور ظاہر ہے کہ جب معبودوں کو اختیار نہیں تو پوجا کرنیوالوں کو اختیار کہاں ؟ پھر یہ بھی ارشاد ہوگا کہ جس جہنم کے عذاب کو جھوٹا کہا کرتے تھے اس جہنم کے عذاب کا مزہ چکھو آگے ان منکرین دین حق کی بعض اور سوقیانہ اور احمقانہ باتوں کا ذکر فرمایا۔