Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 3

سورة فاطر

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ ؕ ہَلۡ مِنۡ خَالِقٍ غَیۡرُ اللّٰہِ یَرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۫ ۖفَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۳﴾

O mankind, remember the favor of Allah upon you. Is there any creator other than Allah who provides for you from the heaven and earth? There is no deity except Him, so how are you deluded?

لوگو! تم پر جو انعام اللہ تعا لٰی نے کئے ہیں انہیں یاد کرو ۔ کیا اللہ کے سوا اور کوئی بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی پہنچائے؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں الٹے جاتے ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Evidence of Tawhid Allah says, يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالاْاَرْضِ ... O mankind! Remember the grace of Allah upon you! Is there any creator other than Allah who provides for you from the sky (rain) and the earth! Allah shows His servants that they should worship Him Alone, for just as He is Independent in His power of creation and provision, so He should be worshipped Alone with no partners or associates such as idols and false gods. So Allah says: ... لاَا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ فَأَنَّى تُوْفَكُونَ La ilaha illa Huwa. How then are you turning away (from Him)! meaning, `how can you turn away from Him after this has been made clear and this proof has been made obvious, but you still worship idols and false gods.' And Allah knows best.

اس بات کی دلیل یہاں ہو رہی ہے کہ عبادتوں کے لائق صرف اللہ ہی کی ذات ہے کیونکہ خالق و رازق صرف وہی ہے ۔ پھر اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرنا فاش غلطی ہے ۔ دراصل اس کے سوا لائق عبادت اور کوئی نہیں ۔ پھر تم اس واضح دلیل اور ظاہر برہان کے بعد کیسے بہک رہے ہو؟ اور دوسروں کی عبادت کی طرف جھکے جاتے ہو؟ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یعنی اس بیان اور وضاحت کے بعد بھی تم غیر اللہ کی عبات کرتے ہو ؟۔ مطلب ہے کہ تمہارے اندر توحید اور آخرت کا انکار کہاں سے آگیا، جب کہ تم مانتے ہو کہ تمہارا خالق اور رازق اللہ ہے (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٦] بارش سب جانداروں کے رزق کا ذریعہ ہے :۔ آسمانوں سے جو بارش نازل ہوتی ہے۔ وہ زمین میں جذب ہو کر سب جانوروں کی روزی اور ان کی زندگی کی بقا کا ذریعہ بنتی ہے۔ اب اگر اس بارش برسنے کے نظام پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے عوامل و عناصر ہیں جنہیں اللہ نے اس خدمت پر مامور کر رکھا ہے۔ تب جاکر بارش برستی ہے اور یہ سب عناصر و عوامل خالصتاً اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ اور ان میں مشرکوں کے معبودوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ جس سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی ہستی عبادت کا استحقاق نہیں رکھتی۔ پھر یہ کس قدر ناقدر شناسی اور نمک حرامی کی بات ہے کہ روزی تو اللہ کی دی ہوئی کھائیں اور عبادت کریں اللہ کے سوا دوسروں کی۔ یا دوسروں کو بھی اس عبادت میں شریک بنالیں ؟ لہذا اے مشرکین مکہ ! کچھ بتاؤ تو سہی کہ تمہاری عقلوں کو یہ پھیر کہاں سے لگ جاتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ ۭ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں فراموش نہ کرو اور نمک حرام نہ بنو، بھلا بتاؤ اللہ کے سوا تمہارا کوئی خالق ہے جو تمہیں رزق دے رہا ہو ؟ ظاہر ہے کوئی نہیں۔ استفہام انکاری ہے۔ فَاَنّٰى تُـؤْفَكُوْنَ : یعنی پھر تمہیں یہ دھوکا کہاں سے لگ گیا کہ خالق و رازق تو اللہ تعالیٰ ہو، مگر بندگی اور فرماں برداری دوسروں کی کی جائے۔ مثل مشہور ہے ” جس کا کھائیے اسی کا گائیے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ۝ ٠ ۭ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللہِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝ ٠ ۡۖ فَاَنّٰى تُـؤْفَكُوْنَ۝ ٣ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين «4» ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ أفك الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة/ 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة/ 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات/ 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف/ 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور/ 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات/ 86] فيصح أن يجعل تقدیره : أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1» وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل . ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ } ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى } ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) { قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ } ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ { يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ } ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ { فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ } ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ { أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا } ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : { إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ } ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ { وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ } ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ { أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ } ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

مکہ والو اللہ تعالیٰ کے احسانات یعنی بارش روزی اور امن کو یاد کرو سو کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود ہے جو آسمان سے بارش برساتا اور زمین سے سبزیاں اگاتا ہو۔ اس کے علاوہ جو تمہیں رزق دیتا ہے اور کوئی معبود نہیں پھر کیوں جھٹلا رہے ہو کہ اس کے علاوہ اور معبود تمہیں روزی دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ { یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ } ” اے لوگو ! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر ہوئی ہے۔ “ اللہ کے جو احسانات تم پر ہوئے ہیں انہیں یاد کرو اور ان کی قدر کرو ! { ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ } ” کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں رزق بہم پہنچاتا ہو آسمان سے اور زمین سے ؟ “ { لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَز فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ } ” نہیں ہے کوئی معبود سوائے اس کے ‘ تو تم کہاں سے الٹے پھرائے جا رہے ہو ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 "Remember.... you": "Do not be ungrateful: do not forget that whatever you have has been given by Allah". In other words, this sentence is meant to warn that whoever worships another than Allah, or regards a blessing as a favour done by another than Allah, or thanks another than Allah for a favour received, or prays to another than Allah for the grant of a blessing, is ungrateful". 7 There is a subtle gap between the first and the second sentence, which is being filled by the context itself. To understand this, one may visualize the scene like this: The polytheists are being addressed. The speaker asks the audience: 'Is there another creator beside Allah, who might have created you, and might be arranging provisions for you from the earth and heavens ?" After this question the speaker waits for the answer. But there is no reply from anywhere. No one replies that there is another one beside Allah, who is their creator and sustainer. This by itself shows that the audience also believe that there is none beside Allah, who could be their creator and sustainer. Then the speaker says: "If so, then He alone can be the Deity also and no one else. How have you been so deceived ? Why have you taken these others as your deities, when Allah alone is your Creator and Sustainer?"

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :6 یعنی احسان فراموش نہ بنو ۔ نمک حرامی نہ اختیار کرو ۔ اس حقیقت کو نہ بھول جاؤ کہ تمہیں جو کچھ بھی حاصل ہے اللہ کا دیا ہوا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ فقرہ اس بات پر متنبہ کر رہا ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے سوا کسی کی بندگی و پرستش کرتا ہے ، یا کسی نعمت کو اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کی عطا بخشش سمجھتا ہے ، یا کسی نعمت کے ملنے پر اللہ کے سوا کسی اور کا شکر بجا لاتا ہے ، یا کوئی نعمت مانگنے کے لیے اللہ کے سوا کسی اور سے دعا کرتا ہے ، وہ بہت بڑا احسان فراموش ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :7 پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے کلام کا موقع و محل خود بھر رہا ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لیے یہ نقشہ چشم تصور کے سامنے لایئے کہ تقریر مشرکین کے سامنے ہو رہی ہے ۔ مقرر حاضرین سے پوچھتا ہے کہ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہو اور جو زمین و آسمان سے تمہاری رزق رسانی کا سامان کر رہا ہو؟ یہ سوال اٹھا کر مقرر چند لمحے جواب کا انتظار کرتا ہے ۔ مگر دیکھتا ہے کہ سارا مجمع خاموش ہے ۔ کوئی نہیں کہتا کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق و رازق ہے ۔ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حاضرین کو بھی اس امر کا اقرار ہے کہ خالق و رازق اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ تب مقرر کہتا ہے کہ معبود بھی پھر اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا ۔ آخر تمہیں یہ دھوکا کہاں سے لگ گیا کہ خالق و رازق تو ہو صرف اللہ ، مگر معبود بن جائیں اس کے سوا دوسرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣ تا ٧۔ ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ جس طرح پیدا کرنا اور روزی کا دینا فقط اسی کا کام ہے نہ کسی اور کا ایسے ہی سوائے اس کے اور کسی کو پوجنا نہیں چاہئے مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرایا جاوئے اور جب اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو پھر تم بعد اس کے ان کھلی ہوئی باتوں سے کہاں سے الٹے جاتے ہو او بتوں کو پوجتے ہو اور اگر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرک لوگ تم کو جھٹلادیں اور توحید کو نہ مانیں تو تمہیں پہلے رسولوں کی چال چلنی چاہئے کیوں کہ وہ بھی اپنی قوموں کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لائے تھے ‘ لیکن ان لوگوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور مخالفت کی مطلب یہ کہ یہ کچھ نئی بات نہیں ہے اس لیے ان کے جھٹلانے پر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر کرو جیسا کہ پہلے رسولوں نے صبر کیا پھر فرمایا کہ سب کام اللہ کی طرف رجوع ہوتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عنقریب ہر ایک کو موافق اس کے عمل کے پوری پوری سزا وجزادی جاوے گی پھر فرمایا اے لوگو وعدہ اللہ کا حق ہے وعدہ سے مراد آخرت ہے وہ ضرور ہوگی اور تم دوسری دفعہ جلائے جاؤگے اس واسطے تم کو یہ دنیا کا جینا دھوکا نہ دے مطلب یہ ہے کہ اس دنیائے فانی کے عیش میں جو بمقابلہ عیش آخرت کے کچھ حقیقت نہیں رکھتا مشغول ہو کر آخرت کے عیش کو نہ بھول جاؤ اور نہ دھو کے میں ڈالے تم کو خدا کی یاد سے وہ دھوکہ باز حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق لفظ غرور سے مراد یہاں شیطان ہے حاصل یہ ہے کہ شیطان کہیں تم کو سیدھے راستے سے نہ بہکادے کیوں کہ وہ بڑا دھو کے باز ہے پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان کی دشمنی اولاد آدم (علیہ السلام) سے بیان کی کہ وہ شیطان بیشک تمہارا کھلا دشمن ہے تم بھی اس کو دشمن سمجھو اور اس کا کہا نہ مانو وہ بلاتا ہے اپنی پیروی کرنے والوں کو اس لیے کہ وہ دوزخ والوں میں سے ہوجاویں مطلب یہ کہ ان کو بہکا کر اپنے سات دوزخ میں لے جاوے۔ اب آگے شیطان کے بہکاوے میں آنے والوں اور اسبہ کا وے سے بچنے والوں کا نتیجہ بیان فرمایا کہ شیطانی گروہ کا ٹھکا نادوزخ ہے اور قرآن کی نصیحت ماننے والے گروہ کا ٹھکانا جنت شاطان نے اللہ تعالیٰ کے بیان فرمایا کہ شیطانی گروہ کا ٹھکانا دوزخ ہے اور قرآن کی نصیحت ماننے والے گروہ کا ٹھکانا جنت شیطان نے اللہ تعالیٰ کے روبرو نبی آدم کے بہکانے کی قسم جو کھائی ہے اس کا اور اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر شیطان کو جو جواب دیا ہے اس کا ذکر سورة الاعراف میں گزر چکا ہے سورة الا عراف کی وہ آیتیں اور ان آیتوں کی تفسیر میں جو حدیثیں نقل کی گئی ہیں وہ شیطان کی دشمنی کی تفسیر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(35:3) ھل استفہام انکاری کے لئے ہے۔ مطلقاً نفی کے لئے بھی ہوسکتا ہے جیسے ھل جزاء الاحسان الا الاحسان (55:60) نیکی کا بدلہ بجز نیکی کے کچھ نہیں ہے۔ فانی۔ انی بمعنی کیف۔ کیسے۔ کیونکر۔ توفکون۔ مضارع مجہول جمع مذکر حاضر ۔ الافک ہر وہ چیز جو اپنے صحیح رخ سے پھیر دی گئی ہو۔ اسی بنا پر ان ہوائوں کو جو اپنا اصلی رک چھوڑ دیں۔ مؤتفکۃ کہا جاتا ہے اور قرآن مجید میں ہے والمؤتفکۃ اھوی۔ اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے ٹپکا۔ (مؤتفکات سے وہ بستیاں مراد ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا) ۔ فانی تؤفکون۔ پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ؟ یعنی اعتقاد حق سے باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی اس کے احسان فراموس اور نمک حرام نہ ہو کہ بندگی دوسروں کی بجالائو حالانکہ تمہیں جو بھی نعمت حاصل ہے وہ اسی کی دی گئی ہے۔10 آسمان سے بارش برسائے اور زمین سے غلے، سبزیاں اور دوسری چیزیں اگاتے۔11 یعنی تمہیں یہ دھوکا کہاں سے لگ گیا کہ خالق، رازق تو اللہ ہو مگہ بندگی اور تابعداری دوسروں کی کی جائے ؟ مثل مشہور ہے جس کا کھایئے اسی کا گائیے۔ ( ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی نہ کوئی صاحب تخلیق کہ نعمت ایجاد ہے اور نہ کوئی صاحب ترزیق کہ نعمت ابقاء ہے، پس جب وہ ہر طرح کامل ہے تو یقینا اس کے سوا کوئی لائق عبادت بھی نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو رحمت اور نعمتوں سے نوازنے والا ہے اس کے سوا کوئی کسی کو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز بھی عطا نہیں کرسکتا۔ وہی منعم حقیقی اور خالق کل ہے اس کا ارشاد ہے کہ لوگو ! میری نعمتوں کو یاد رکھا کرو۔ جب انسان کا یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ مجھے صرف اللہ ہی نوازنے والا ہے، وہی میرا رازق اور خالق ہے تو پھر اس کے حاشیہ خیال سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ مجھے کوئی اور بھی نوازسکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ لوگوں سے استفسار فرماتا ہے کہ بتاؤ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمہیں زمین و آسمان سے رزق فراہم کرتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں۔ جب اس کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں تو پھر کس بنیاد پر تم دوسروں کو داتاو دستگیر، حاجت روا، مشکل کشا کہتے اور سمجھتے ہو ؟ یاد رہے کہ یہاں الٰہ کا لفظ خالق اور رازق کے معنٰی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں تو پھر اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ دوسروں کو ملا کر کیوں گمراہی میں بھٹکتے ہو ؟ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا انسان کو کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ نعمت بھی عطا نہیں کرسکتا۔ ٢۔ اللہ ہی کائنات کا خالق اور رازق ہے۔ ٣۔ اس کے سوا زمین و آسمان میں کچھ بھی کوئی دینے والا نہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو داتا و دستگیر کہنے والا راہ ہدایت سے بھٹک جاتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یایھا الناس ۔۔۔۔۔ فانی تؤفکون (3) اللہ کی نعمتوں کی تو یاد دہانی کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ یہ نعمتیں بہت ہی واضح اور کھلی ہیں ، جو ان کو دیکھتے ہیں ، محسوس کرتے ہیں اور چھوتے ہیں ۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں ۔ ان کو یہ نعمتیں یاد نہیں رہتیں ۔ ذرا اس زمین و آسمان اور انسان کو گھیرے ہوئے اس کائنات پر نگاہ دوڑاۂ ، ہر وقت اللہ کے انعامات انسان پر برسارہی ہے ۔ رزق کے دروازے ان پر کھل گئے ہیں ۔ ہر قدم پر ایک نعمت ہے ۔ ہر خظہ میں ایک نیا فیض ہے ۔ آسمانوں اور زمین سے انسان کے لیے سہولیات چلی آرہی ہیں اور یہ اللہ کی طرف سے آرہی ہیں جو وحدہ خالق و رازق ہے ۔ اللہ کا فیض عام ہے اور یہ کس کی طرف سے ہے ؟ سخت سے سخت شرک بھی یہ نہیں کہہ سکتے ۔ کیا ان فیوض دبرکات اور رحمتوں کا نزدل خالق کائنات اللہ کے سوا کوئی اور کررہا ہے ۔ جب اللہ کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں ہے تو پھر کیوں وہ نصیحت حاصل کرکے شکر الہٰی بجا نہیں لاتے ؟ پھر کیوں وہ اللہ کی حمدوثنا نہیں کرتے اور صرف اسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور بندگی سے منہ موڑتے ہیں ؟ اس کے سوا تو کوئی حاکم نہیں ہے ۔ آخر وہ ایسے خدا پر ایمان لانے سے کیوں منہ موڑتے ہیں جس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ فانی توفکون (35: 3) یایھا الناس ” آخر تم کہاں دھوکہ کھا رہے ہو ؟ “ تعجب انگیز بات ہے کہ ایک ایسے واضح حق اور بین سچائی سے عقل مندلوگ منہ موڑیں جو رات اور دن انہیں رزق بھی دے رہا ہے اور پھر اس سے بڑا تعجب خیز امراد اور کیا ہوگا کہ لوگ رب ذوالجلال کا انکار بھی نہیں کرپاتے اور اس کا اعتراف بھی نہیں کرتے ؟ یہ تین ضربات تھیں ، نہایت ہی قوی اور تیز جو عقل وخرد کی تاروں پر لگائی گئیں اور سورة کا آغاز ہوا تاکہ پوری سورة کے زمزمے کو لوگ توجہ سے سنیں ۔ ہر آیت میں انسان کو جو تعلیم دی گئی ہے وہ انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے اور اس کے شعور میں ایک گہری حقیقت کے طور پر بیٹھ جاتی ہے ۔ یہ تینوں ضربات باہم مربوط اور متناسب ہیں اور مختلف سمتوں سے ایک ہی اثر ڈالتی ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا کہ اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تم پر جو انعام فرمایا ہے اور جو نعمتیں دی ہیں ان کو یاد کرو، نعمتوں کو یاد کرنے میں ان کا شکر ادا کرنا بھی شامل ہے، جب نعمتوں کو یاد کریں گے اور غور کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فلاں فلاں نعمتیں دی ہیں، جان بھی دی اولاد بھی عنایت فرمائی، مال بھی دیا اور حسن و جمال بھی، علمی و عملی کمال بھی، اور جاہ و اقتدار بھی، تو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کی طرف طبیعت چلے گی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف ذہن، دل اور دماغ متوجہ ہوگا۔ یہ بھی فرمایا کہ تم غور کرلو کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور پیدا کرنے والا ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہو، غور کرو گے تو سمجھ میں آجائے گا اور یقینی طور پر یہ بات دل میں بیٹھ جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی پیدا کرنے والا نہیں ہے اور اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو، اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش برساتا ہے۔ اور زمین میں اس نے غلے میوے اور کھانے پینے کی بہت سی چیزیں پیدا فرمائی ہیں، یہ سب چیزیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جب اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو کہاں الٹے پھرے جا رہے ہو کہ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود بنا رکھا ہے۔ اثبات توحید کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ آپ کے مخالفین آپ کو جھٹلاتے ہیں تو آپ رنجیدہ نہ ہوں، آپ نے اپنا کام پورا کرلیا حجت تمام کردی، آپ سے پہلے بھی انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا گیا انہوں نے صبر کیا آپ بھی صبر کیجیے سب امور اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہوں گے اور کافرین و منکرین کو عذاب دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ یا ایہا الناس الخ : یہ ترغیب الی التوحید ہے۔ تمام انسانوں کو اپنی نعمتیں یاد دلا کر ترغیب دی کہ اپنے خالق ومالک اور منعم حقیقی کو پہچانو، اس کی توحید پر ایمان لاؤ اسے ذات وصفات میں اور عبادت اور پکار میں وحدہٗ لاشریک مانو۔ 7:۔ ھل من خالق الخ : یہ تیسری عقلی دلیل ہے اور پہلی دونوں دلیلوں کا ثمرہ بھی ہے یہ پہلا اور مختصر ثمرہ ہے یعنی دونوں دلیلوں سے ثابت ہوگیا کہ ساری کائنات کا خالق اور رحمت کے دروازے کھولنے والا۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ اس کے سوا کوئی اور نہ خالق ہے نہ رازق۔ لہذا لا الہ الا ھو : اس کے سوا کوئی کارساز نہیں جسے حاجات میں دور و نزدیک سے پکارا جائے۔ فانی توفکون، جب خالق بھی وہی ہے اور رازق بھی تو پھر تمہیں کہاں سے دھکا لگ رہا ہے اور تم کدھر بہکے جا رہے ہو کہ اپنے خالق و رازق کے علاوہ اس کی عاجز مخلوق کو کارساز سمجھ کر پکار رہے ہو۔ فمن ای وجہ تصرفون من التوحید الی الاشراک مع اعترافکم بانہ الخالق والرازق لا غیر (مظہری ج 8 ص 43) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے جو تم پر احسانات کئے ہیں ان کو یاد کرتے رہا کرو کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی خالق اور بنانے والا ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے روزی پہنچاتا ہو اس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے پھر تم کہاں الٹے پھرے جا رہے ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے جو بیشمار احسانات بنی نوع انسان پر ہیں ان کو یاد کرتے رہو تاکہ شکر کا جذبہ پیدا ہو اور نافرمانی سے بچو اور یہ غور کرو کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو آسمان سے پانی برسا کر اور زمین سے نباتات اگا کر تمہارے رزق کا سامان مہیا کرے اور اس طرح آسمان و زمین سے تم کو روزی پہنچائے ۔ سوائے اس معبود حقیقی کے اور کوئی لائق عبادت نہیں۔ پھر تم توحید کو چھوڑ کر شرک کی طرف کیوں پھرے جا رہے ہو اور اس کی الوہیت میں کیوں کسی دوسرے کو شریک ٹھہراتے ہو۔ آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول برحق ہونے کا ذکر اور آپ کے لئے تسلی ہے۔