Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 10

سورة يس

وَ سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۰﴾

And it is all the same for them whether you warn them or do not warn them - they will not believe.

اور آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں دونوں برابر ہیں یہ ایمان نہیں لائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

It is the same to them whether you warn them or you warn them not, they will not believe. means, Allah has decreed that they will be misguided, so warning them will not help them and will not have any effect on them. Something similar has already been seen at the beginning of Surah Al-Baqarah, and Allah also says: إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُوْمِنُونَ وَلَوْ جَأءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ Truly, those, against whom the Word (wrath) of your Lord has been justified, will not believe, Even if every sign should come to them, until they see the painful torment. (10:96-97)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یعنی جو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے گمراہی کے اس مقام تک پہنچ جائیں، ان کے لئے اندازہ بےفائدہ رہتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٠] یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شخص اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ کوئی معقول سے معقول دلیل سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور && میں نہ مانوں && کی خصلت اس میں پختہ ہوجاتی ہے لیکن وہ دل میں حقیقت کو تسلیم کرلینے کے باوجود زبان سے انکار کردیتا ہے۔ یہی کیفیت ہوتی ہے جب اس پر کوئی نصیحت اور ہدایت کی بات کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اور اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر دلوں پر مہر لگا دینے سے تعبیر فرمایا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَسَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ : اس کا مطلب یہ نہیں کہ انھیں سمجھانا اور تبلیغ کرنا چھوڑ دیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب آپ لوگوں کو سمجھائیں گے اور عام تبلیغ کریں گے تو آپ کو دو قسم کے لوگوں سے سابقہ پیش آئے گا، ایک وہ لوگ جن پر آپ کی تبلیغ کوئی اثر نہیں کرے گی اور وہ اپنے کفر و شرک پر بضد رہیں گے۔ اس آیت میں انھی لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَسَوَاۗءٌ عَلَيْہِمْ ءَ اَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ١٠ سواء ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال : فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] ، ( س و ی ) المسا واۃ مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو بنی مخزوم یعنی ابوجہل وغیرہ کے حق میں آپ کا ڈرانا یا نہ ڈرانا دونوں کام برابر ہیں یہ کسی بھی صورت میں ایمان لانے کا ارادہ نہیں کریں گے۔ چناچہ یہ بدر کے دن کفر ہی کی حالت میں مارے گئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ { وَسَوَآئٌ عَلَیْہِمْ ئَ اَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ } ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ان کے حق میں برابر ہے ‘ خواہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کریں ‘ یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ “ سورة البقرۃ کی آیت ٦ میں بھی ہو بہو یہی الفاظ آئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 This dces not mean that it is fertile to preach, but it means: "Your preaching reaches every kind of people. Some of them are the ones mentioned above, and some others those who are being mentioned in the next verse. When you come across the people of the first kind and you see that they continue to persist in their denial, pride and antagonism, you should leave them alone, but at the same time you should not feel disheartened so as to give up your mission, for you do not know exactly where among the multitudes of the people are those sincere servants of God, who would heed your admonition and fear God and turn to the right path. The real object of your preaching, therefore, should be to search out and collect this second kind of the people. You should ignore the stubborn people and gather this precious element of the society about you. "

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :8 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس حالت میں تبلیغ کرنا بےکار ہے ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری تبلیغ عام ہر طرح کے انسانوں تک پہنچتی ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ۔ اور کچھ دوسرے لوگ وہ ہیں جن کا ذکر آگے کی آیت میں آ رہا ہے ۔ پہلی قسم کے لوگوں سے جب سابقہ پیش آئے اور تم دیکھ لو کہ وہ انکار و استکبار اور عناد و مخالفت پر جمے ہوئے ہیں تو ان کے پیچھے نہ پڑو ۔ مگر ان کی روش سے دل شکستہ و مایوس ہو کر کام چھوڑ بھی نہ بیٹھو ، کیونکہ تمہیں نہیں معلوم کہ اسی ہجوم خلق کے درمیان وہ خدا کے بندے کہاں ہیں جو نصیحت قبول کرنے والے اور خدا سے ڈر کر راہ راست پر آجانے والے ہیں ۔ تمہاری تبلیغ کا اصل مقصود اسی دوسری قسم کے انسانوں کو تلاش کرنا اور انہیں چھانٹ کر نکال لینا ہے ۔ ہٹ دھرموں کو چھوڑتے جاؤ ، اور اس قیمتی متاع کو سمیٹتے چلے جاؤ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 اسکے یہ معنی نہیں ہیں کہ انہیں سمجھانا اور تبلیغ کرنا چھوڑ دیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام لوگوں کو سمجھائیں گے اور عام تبلیغ کرینگے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو قسم کے لوگوں سے سابقہ پیش آئیگا۔ ایک وہ لوگ جن پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغ کوئی اثر نہ کریگی اور وہ اپنے کفر و شرک پر بضد رہیں گے۔ اس آیت میں انہیں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ( بقرہ : 6)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وسوآء علیھم ۔۔۔۔۔ لا یومنون (36: 10) ” ان کے لیے یکساں ہے تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو ، یہ نہ مانیں گے “۔ اس لیے کہ ان کے معاملے میں اللہ نے فیصلہ کردیا کیونکہ اللہ کو علم تھا کہ ان کے دلوں میں ایمان کے راہ پانے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اور ایسے دلوں پر خبردار کرنے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جو ایمان کے لیے تیار ہی نہ ہوں۔ وہ دل جو بندھے ہوئے ہیں جن کے اور سچائی کے درمیان دیواریں حائل ہوں۔ انذار اور تبلیغ کی وجہ سے مردہ دلوں کو زندہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ غافل اور سوئے ہوؤں کو جگایا جاسکتا ہے۔ خصوصا ایسے سوئے ہوئے دلوں کو جو ہدایت لینا چاہیں اور اس کے لیے تیار ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ وسواء الخ : یہ ماقبل ہی کی توضیح و تنویر ہے۔ جب ان کے دلوں پر مہر جباریت و ثبت ہوچکی ہے تو ان کے لیے آپ کا وعظ و انداز بےسود ہے آپ کا ان کو ڈرانا، اور نہ ڈرانا برابر ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) اور اے پیغمبر ان کے حق میں آپ کا ڈرانا یا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ یعنی یہ لوگ جو کفر کے خوگر ہوچکے ہیں ان کے حق میں ڈرانا اور نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اگرچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ کا اجروثواب ملے گا لیکن ان کے ایمان لانے کی کوئی توقع نہیں ہے۔ تفصیل کیلئے سورة بقر کی تسہیل ملاحظہ کرنے کی ضرورت ہے۔