Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 40

سورة يس

لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۴۰﴾

It is not allowable for the sun to reach the moon, nor does the night overtake the day, but each, in an orbit, is swimming.

نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے ، اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لاَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ ... It is not for the sun to overtake the moon, Mujahid said, "Each of them has a limit which it does not transgress or fall short of. When the time of one comes, the other goes away, and when the time for one to prevail comes, the time of the other ceases." Ikrimah said concerning the Ayah, لاَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ (It is not for the sun to overtake the moon), this means that each of them has its time when it prevails. So it is not appropriate for the sun to rise at night. ... وَلاَ اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ... nor does the night outstrip the day. means, after night has passed, it is not right for another night to come until it has been day. The authority of the sun is during the day and the authority of the moon is at night. Ad-Dahhak said, "The night does not depart from here until the day comes from here -- and he pointed to the east." Mujahid said: وَلاَ اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ (nor does the night outstrip the day), "They seek one another rapidly." The meaning is that there is no gap between night and day; each of them follows the other with no interval, because they have been subjugated and are both constantly pursuing one another. ... وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ They all float, each in an orbit. means, night and day, the sun and the moon, all of them are floating, i.e., revolving, in their orbits in the heaven. This was the view of Ibn Abbas, Ikrimah, Ad-Dahhak, Al-Hasan, Qatadah and `Ata' Al-Khurasani. Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, and others among the Salaf said, "In an orbit like the arc of a spinning wheel."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 یعنی سورج کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے جس سے اس کی روشنی ختم ہوجائے بلکہ دونوں کا اپنا اپنا راستہ اور الگ الگ حد ہے۔ سورج دن ہی کو اور چاند رات ہی کو طلوع ہوتا ہے اس کے برعکس کبھی نہیں ہوا، جو ایک مدبر کائنات کے وجود پر ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ 40۔ 2 بلکہ یہ بھی ایک نظام میں بندھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں۔ 40۔ 3 کُل سے سورج، چاند یا اس کے ساتھ دوسرے کواکب مراد ہیں، سب اپنے اپنے مدار پر گھومتے ہیں، ان کا باہمی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٨] اس جملے کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ سورج چاند کی نسبت بڑا سیارہ ہے۔ اس کی کشش ثقل بھی چاند کی نسبت بہت زیادہ ہے تاہم یہ ممکن نہیں کہ سورج چاند کو اپنی طرف کھینچ لے نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اس کے مدار میں جا داخل ہو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ بھی ممکن نہیں کہ رات کو چاند چمک رہا ہو اور اسی وقت سورج طلوع ہوجائے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ دن کی مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی رات آجائے۔ اور جتنا وقت دن کی روشنی کے لئے مقرر ہے ان میں رات یکایک اپنی تاریکیوں سمیت آموجود ہو۔ [ ٣٩] سورج اور چاند کی گردش اور فلک کا مفہوم :۔ سَبَّحَ کے معنی پانی یا ہوا میں نہایت تیز رفتاری سے گزر جانا یا تیرنا۔ اور فلک کے معنی سیاروں کے مدارات یا ان کی گزر گاہیں (Orbits) ہیں۔ اس آیت میں پہلے صرف سورج اور چاند کا ذکر فرمایا پھر کل کا لفظ استعمال فرمایا جو جمع کے لئے آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج اور چاند کے علاوہ باقی تمام سیارے بھی فضا میں تیزی سے گردش کر رہے ہیں۔ اور چونکہ ہماری زمین بھی ایک سیارہ ہے لہذا یہ اب محو گردش ہے۔ البتہ زمین کی گردش کے متعلق چند مخصوص وجوہ کی بنا پر استثناء ممکن ہے اور زمین کی گردش کے متعلق آج تک چار نظریے بدل چکے ہیں (تفصیل کے لئے دیکھئے میری تصنیف الشمس والقمر بحسبان)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ : یہ چوتھی دلیل ہے، یعنی چاند کی روشنی کے ظہور کا وقت رات ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ رات کو جب چاند چمک رہا ہو تو اچانک سورج طلوع ہوجائے۔ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ : اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ ابھی دن کا وقت باقی ہو اور یکایک رات چھا جائے۔ وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ : ” سَبَحَ یَسْبَحُ “ (ف) کا معنی تیرنا ہے۔ یعنی کیا سورج، کیا چاند اور کیا ستارے (جن میں زمین بھی شامل ہے) ہر ایک کا اپنا اپنا فلک (مدار) ہے، جس میں وہ تیر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اربوں ستاروں میں سے ہر ایک کا مدار دوسرے سے الگ بنایا ہے اور ایسا نظام قائم کیا ہے کہ کوئی ستارہ دوسرے کے مدار میں آکر اس سے ٹکراتا نہیں، بلکہ باقاعدگی سے اپنے مدار میں گھوم رہا ہے اور یہ نظام قیامت تک چلتا رہے گا۔ یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانی ہے۔ ان آیات کا اصل مقصد علم ہیئت کے حقائق بیان کرنا نہیں، بلکہ انسان کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھے اور عقل سے کام لے تو زمین سے لے کر آسمان تک جدھر بھی وہ نگاہ ڈالے گا اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی یکتائی کے بیحد و حساب دلائل آئیں گے اور کہیں کوئی ایک دلیل بھی دہریت اور شرک کے ثبوت میں نہ ملے گی۔ ہماری یہ زمین جس میں نظام شمسی بھی شامل ہے، اس کی عظمت کا یہ حال ہے کہ اس کا مرکز سورج زمین سے تین لاکھ گنا بڑا ہے اور اس کے بعید ترین سیارے نیپچون کا فاصلہ سورج سے کم از کم ٢ ارب ٧٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل ہے۔ بلکہ اگر پلوٹو کو بعید ترین سیارہ مانا جائے تو وہ سورج سے ٤ ارب ٦٠ کروڑ میل دور تک پہنچ جاتا ہے۔ اس عظمت کے باوجود یہ نظام شمسی ایک بہت بڑے کہکشاں کا محض ایک چھوٹا سے حصہ ہے۔ جس کہکشاں میں ہمارا یہ نظام شمسی شامل ہے اس میں تقریباً تین ہزار ملین (٣ ارب) آفتاب پائے جاتے ہیں اور اس کا قریب ترین آفتاب ہماری زمین سے اس قدر دور ہے کہ اس کی روشنی یہاں تک پہنچنے میں ٤ سال صرف ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہکشاں بھی پوری کائنات نہیں ہے، بلکہ اب تک کے مشاہدات کی بنا پر اندازہ کیا گیا ہے کہ یہ تقریباً بیس لاکھ لولبی سحابیوں میں سے ایک ہے اور ان میں سے قریب ترین سحابیے کا فاصلہ ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی روشنی دس لاکھ سال میں ہماری زمین تک پہنچتی ہے۔ رہے بعید ترین اجرام فلکی، جو ہمارے موجودہ آلات سے نظر آتے ہیں، ان کی روشنی تو زمین تک پہنچنے میں دس کروڑ سال لگ جاتے ہیں۔ اس پر بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انسان نے ساری کائنات دیکھ لی ہے۔ (تفہیم القرآن) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سلطنت ہیئت دانوں کے ان اندازوں بلکہ انسان کے خیال سے بےحدو حساب وسیع ہے۔ یہ ایک معمولی جھلک ہے جو انھیں دکھائی دی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 40, it was said: وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (And each one is floating in an orbit - 40). Literally, the word: فَلَک (falak) does not mean the sky. Instead, it means the orbit in which some star moves. This verse has also appeared earlier in Surah Al-Anbiya& (21:33). It tells us that the moon is not contained within some sky as presumed by the astronomical theory of Ptolemy. Instead, it moves in a particular orbit in the space lower than it. Then, there are recent investigations as well as the human access to the moon that have made it certain.

(آیت) وکل فی فلک یسبحون، یعنی آفتاب و ماہتاب دونوں اپنے اپنے مدار میں تیرتے رہتے ہیں۔ فلک کے لفظی معنی آسمان کے نہیں بلکہ اس دائرہ کے ہیں جس میں کوئی سیاہ حرکت کرتا ہے۔ یہ آیت سورة انبیاء میں بھی گزر چکی ہے، جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ چاند کسی آسمان کے اندر مرکوز نہیں، جیسا کہ بطلیموسی نظریہ ہیئت میں ہے، بلکہ وہ آسمان کے نیچے ایک خاص مدار میں حرکت کرتا ہے، اور آج کل کی نئی تحقیقات اور چاند تک انسان کی رسائی کے واقعات نے اس کو بالکل یقینی بنادیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَہَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّہَارِ۝ ٠ ۭ وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ۝ ٤٠ شمس الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] ، وقال : الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها . ( ش م س ) الشمس کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ ابتغاء (ينبغي) البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟ فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] . ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو ) درك الدَّرْكُ کالدّرج، لکن الدّرج يقال اعتبارا بالصّعود، والدّرک اعتبارا بالحدور، ولهذا قيل : درجات الجنّة، ودَرَكَات النار، ولتصوّر الحدور في النار سمّيت هاوية، وقال تعالی: إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ، والدّرك «3» أقصی قعر البحر . ويقال للحبل الذي يوصل به حبل آخر ليدرک الماء دَرَكٌ ، ولما يلحق الإنسان من تبعة دَرَكٌ «1» کالدّرک في البیع «2» . قال تعالی: لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] ، أي : تبعة . وأَدْرَكَ : بلغ أقصی الشیء، وأَدْرَكَ الصّبيّ : بلغ غاية الصّبا، وذلک حين البلوغ، قال : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، وقوله : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، فمنهم من حمل ذلک علی البصر الذي هو الجارحة، ومنهم من حمله علی البصیرة، وذکر أنه قد نبّه به علی ما روي عن أبي بکر رضي اللہ عنه في قوله : (يا من غاية معرفته القصور عن معرفته) إذ کان غاية معرفته تعالیٰ أن تعرف الأشياء فتعلم أنه ليس بشیء منها، ولا بمثلها بل هو موجد کلّ ما أدركته . والتَّدَارُكُ في الإغاثة والنّعمة أكثر، نحو قوله تعالی: لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] ، وقوله : حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] ، أي : لحق کلّ بالآخر . وقال : بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] ، أي : تدارک، فأدغمت التاء في الدال، وتوصّل إلى السکون بألف الوصل، وعلی ذلک قوله تعالی: حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها [ الأعراف/ 38] ، ونحوه : اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] ، واطَّيَّرْنا بِكَ [ النمل/ 47] ، وقرئ : بل أدرک علمهم في الآخرة وقال الحسن : معناه جهلوا أمر الآخرة وحقیقته انتهى علمهم في لحوق الآخرة فجهلوها . وقیل معناه : بل يدرک علمهم ذلک في الآخرة، أي : إذا حصلوا في الآخرة، لأنّ ما يكون ظنونا في الدّنيا، فهو في الآخرة يقين . ( درک ) الدرک اور درج کا لفظ اوپر چڑھنے کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اور الدرک کا لفظ نیچے اترنے کے لحاظ سے اس لئے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پستی کے اعتبار سے دوذخ کو ھاویۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے ۔ اور سمندر کی گہرائی کی تہہ اور اس رسی کو جس کے ساتھ پانی تک پہنچنے کے لئے دوسری رسی ملائی جاتی ہے بھی درک کہا جاتا ہے اور درک بمعنی تاوان بھی آتا ہے مثلا خرید وفروخت میں بیضانہ کو درک کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] پھر تم کو نہ تو ( فرعون کے ) آپکڑے نے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ( ڈر ۔ ادرک ۔ کسی چیز کی غایت کو پہچنا ، پالنا جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا یعنی بالغ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ اس کو غرق ( کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] وہ ایسا ہے کہ ( نگا ہیں اس کا اور اک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔ کو بعض نے ادارک بصری کی نفی پر حمل کیا ہے اور بعض نے ادارک کی نفی ملحاظ بصیرت مراد دلی ہے اور کہا ہے کہ اس آیت سے اس معنی پر تنبیہ کی ہے جو کہ حضرت ابوبکر کے قول اے وہ ذات جس کی غایت معرفت بھی اس کی معرفت سے کوتاہی کا نام ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی غایت یہ ہے کہ انسان کو تمام اشیاء کا کماحقہ علم حاصل ہونے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ ذات باری تعالیٰ نہ کسی کی جنس ہے اور نہ ہی کسی چیز کی مثل ہے بلکہ وہ ان تمام چیزو ن کی موجد ہی ۔ التدارک ۔ ( پالینا ) یہ زیادہ تر نعمت اور رسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] اگر تمہارے پروردگار کی مہر بانی ان کی یاوری نہ کرتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گے کے معنی یہ ہیں کہ جب سب کے سب اس میں ایک دوسرے کو آملیں گے ۔ پس اصل میں تدارکوا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] بلکہ آخرت کے بارے میں انکا علم منتہی ہوچکا ہے ۔ میں ادراک اصل میں تدارک ہے تاء کو دال میں ادغام کرنے کے بعد ابتدائے سکون کی وجہ سے ہمزہ وصلی لایا گیا ہے جس طرح کہ آیات : ۔ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] میں ہے ایک قراءت میں ہے ۔ حسن (رح) نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ امور آخرت سے سراسر فاعل ہیں مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ آخرت کو پالینے سے انکا علم بنتی ہوچکا ہے اس بنا پر وہ اس سے جاہل اور بیخبر ہیں ۔ بعض نے اس کے یہ معنی کئے کہ انہیں آخرت میں ان چیزوں کی حقیقت معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزوں معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزیں محض ظنون نظر آتی ہیں آخرت میں ان کے متعلق یقین حاصل ہوجائے گا ۔ قمر القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ( ق م ر ) القمر ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] ، ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ فلك الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر . قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع . ( ف ل ک ) الفلک کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سورج اور چاند اپنے مدار میں گردش کرتے ہیں قول باری ہے (لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر۔ نہ آفتاب کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے) ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت کی ہے، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے حسن سے اس قول باری کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ ” یہ بات شب ہلال میں ہوتی ہے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ۔ واللہ اعلم۔ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ سورج چاند کو اس طرح نہیں پکڑتا کہ اسے اپنی شعاعوں سے ڈھانپ لے اور پھر وہ نظرنہ آئے کیونکہ سورج اور چاند دونوں مسخر یعنی تابع فرمان ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جو ترتیب مقرر کردی ہے اس پر چلنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے کسی کو اس ترتیب سے ہٹنے کی مجال نہیں ہے۔ ابوصالح کا قول ہے کہ ان میں سے کوئی دوسرے کی روشنی کو پکڑ نہیں سکتا۔ ایک قول کے مطابق آفتاب کی مجال نہیں کہ وہ چاند کو جاپکڑے یہاں تک کہ سورج کی روشنی کی کمی چاند کی روشنی کی کمی کی طرح ہوجائے۔ ایک اور قول ہے کہ سورج اپنی رفتار کی سرعت کی بنا پر چاند کو نہیں پکڑ سکتا۔ ہمیں عبداللہ بن محمدنے روایت بیان کی ہے، انہیں حسن بن ابی ربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، معمر نے کہا ہے کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ عکرمہ کا قول ہے۔” ان دونوں میں سے ہر ایک کی الگ حکمرانی ہے ۔ چاند کے لئے رات کے وقت حکمرانی ہوتی ہے اور سورج کے لئے دن کے وقت، سورج رات کے وقت طلوع نہیں ہوسکتا اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے ۔ یعنی جب رات ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ دن آنے سے پہلے دوسری رات آجائے۔ مہینوں کی ابتدا دن سے نہیں رات سے ہوتی ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ مہینے کی ابتدادن سے ہوتی ہے رات سے نہیں ہوتی کیونکہ قول باری ہے (ولا الیل سابق النھار۔ اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے) جب رات دن سے پہلے نہیں آسکتی اور ان دونوں کا اجتماع بھی محال ہے تو اس سے یہ امر واجب ہوگیا کہ دن رات سے پہلے آئے اور اس طرح مہینے کی ابتداء دن سے ہو رات سے نہ ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آیت کی تاویل وہ نہیں ہے جو معترض نے اختیار کیا ہے بلکہ سلف سے جن اقوال کا پہلے ذکر گزر چکا ہے آیت کی تاویل ان میں سے ایک پر محمول ہوگئی۔ سلف میں سے کسی کا یہ قول نہیں ہے کہ مہینے کی ابتدا دن سے ہوتی ہے۔ اس لئے اجماع کی بنیاد پر معترض کی یہ تاویل ساقط ہے۔ نیز قمری مہینوں کے ساتھ احکام شرع کا تعلق ہے اور بلال کا ظہور سب سے پہلے رات کے وقت ہوتا ہے۔ دن کی ابتدا کے ساتھ اس کا ظہور نہیں ہوتا۔ اس بنا پر ضروری ہے کہ مہینوں کی ابتدا بھی رات سے تسلیم کی جائے۔ اہل علم کے نزدیک اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ ماہ رمضان کی پہلی رات رمضان کا ہی حصہ ہوتی ہے اور ماہ شوال کی پہلی رات شوال کا حصہ ہوتی ہے ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مہینوں کی ابتدا رات سے ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ تراویح کی ابتداء رمضان کی پہلی رات سے ہوجاتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (اذا کان اول لیلۃ من رمضان صفدت الشیاطین فیہ۔ جب رمضان کی پہلی رات آجاتی ہے تو اسی رات شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے) یہ تمام باتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ مہینوں کی ابتدا رات سے ہوتی ہے۔ ہمارے اصحاب کا یہ قول ہے کہ جو شخص یہ کہتا ہے۔ ” اللہ کے لئے مجھ پر ایک مہینے کا اعتکاف لازم ہے۔ “ وہ اعتکاف کی ابتدا رات سے کرے گا کیونکہ مہینوں کی ابتداء رات سے ہوتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

نہ آفتاب کی مجال ہے کہ وہ چاند کے طلوع ہونے کے وقت طلوع کرے کہ جس سے چاند کی روشنی کو محو کردے اور اسی طرح نہ رات دن کے مقررہ وقت ختم ہونے سے پہلے آسکتی ہے کہ آکر اس کی روشنی ختم کردے۔ چاند و سورج اور ستارے ہر ایک اپنے اپنے دائرہ میں تیر رہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ { لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَہَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ } ” نہ تو سورج کے لیے ممکن ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ ہی رات دن سے آگے نکل سکتی ہے۔ “ جب تک یہ دنیا قائم ہے یہ دونوں ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہی چلتے رہیں گے۔ { وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ } ” ‘ اور یہ سب اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں۔ “ یہ تمام اجرامِ سماویہ بہت منظم انداز میں اپنے اپنے مدار کے اندر محو ِگردش ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35 This sentence can have two meanings and both are correct: (1) The sun does not have the power that it should draw the moon into itself, or enter its orbit and collide with it; and (2) the sun cannot appear in the times which have been appointed for the rising and appearing of the moon. It is not possible that the sun should suddenly appear on the horizon when the moon is shining at night. 36 Nor does this happen either that the night should approach before the appointed period of the day comes to an end, and should start spreading its darkness suddenly during the time when the day is meant to spread its light. 37 The word falak in Arabic is used for the orbit of the planets, and it gives a different meaning from the word sama' (sky). The sentence, "Each is gliding in its own orbit," points to four realities: (1) That not only the sun and the moon but all the stars and planets and celestial bodies are moving; (2) the falak, or orbit, of each one of them is separate; (3) that the orbits are not moving with the stars in them, but the stars are moving in the orbits; and (4) that the movement of the stars in their orbits is similar to the floating of something in a fluid. These verses are not intended to describe the realities of astronomy, but are meant to make man understand that if he looks around himself, with open eyes, and uses his common sense, he will find countless and limitless proofs of the existence of God and His Unity, and he will not come across a single proof of atheism and shirk. The vastness of the solar system in which our earth is included is such that its parent body, the sun, is 300,000 times bigger than the earth, and its farthest planet Neptune is at least 2,793 million miles distant from the sun. However, if Pluto is taken as the farthest planet, it revolves 4,600 million miles away round it. Notwithstanding this vastness, the solar system occupies a very insignificant part of a huge galaxy. The galaxy which includes our solar system has about 3,000 million suns in it, and its nearest sun is so distant from our earth that its light takes about four years to reach us. Then this galaxy also is not the whole universe. According to the investigations made so far, it has been estimated that it is one of about 2,000,000 spiral nebulae, and the nearest nebula is about a million light years away from the earth. As for the farthest celestial bodies which arc visible through the modern instruments, their light reaches the earth in about 100 million years. Even now it cannot be claimed that man has seen the whole universe. It is a small part of the Kingdom of God which man has yet been able to observe. It cannot be predicted how far and deep man will yet be able to see with greater and more efficient means of observation at his disposal. All the information that has been gathered so far about the universe proves that this whole world is trade up of the same substance of which our tiny earthly world is made, and the same law is working in the universe which is working in the world of our earth; otherwise it was not at All possible. that man should have made observations of the very distant worlds from the earth, measured their distances and estimated their movements. Is it not a clear proof of the fact that this whole universe is the creation of One God and the Kingdom of One Ruler? Then from the order and the wisdom and the excellence of workmanship and the deep relationships which are found in the hundreds of thousands of the galaxies and in the millions and billions of the stars and planets revolving in them no sensible person can imagine that all this has come about automatically. Is it possible that there should be no administrator behind this order and system, no sage behind this wisdom, no designer behind this design and work of art, and no planner behind this planning?

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :35 اس فقرے کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں اور دونوں صحیح ہیں ۔ ایک یہ کہ سورج میں یہ طاقت نہیں ہے کہ چاند کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لے ، یا خود اس کے مدار میں داخل ہو کر اس سے جا ٹکرائے ۔ دوسرا یہ کہ جو اوقات چاند کے طلوع و ظہور کے لیے مقرر کر دئیے گئے ہیں ان میں سورج کبھی نہیں آ سکتا ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ رات کو چاند چمک رہا ہو اور یکایک سورج افق پر آ جائے ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :36 یعنی ایسا بھی کبھی نہیں ہوتا کہ دن کی مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے رات آ جائے اور جو اوقات دن کی روشنی کے لیے مقرر ہیں ان میں وہ اپنی تاریکیاں لیے ہوئے یکایک آ موجود ہو ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :37 فلک کا لفظ عربی زبان میں سیاروں کے مدار ( Orbit ) کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا مفہوم سماء ( آسمان ) کے مفہوم سے مختلف ہے ۔ یہ ارشاد کہ سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں ۔ چار حقیقتوں کی نشان دہی کرتا ہے ۔ ایک یہ کہ نہ صرف سورج اور چاند ، بلکہ تمام تارے اور سیارے اور اجرام فلکی متحرک ہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر ایک کا فلک ، یعنی ہر ایک کی حرکت کا راستہ یا مدار الگ ہے ۔ تیسرے یہ کہ افلاک تاروں کو لیے ہوئے گردش نہیں کر رہے ہیں بلکہ تارے افلاک میں گردش کر رہے ہیں ۔ اور چوتھے یہ کہ افلاک میں تاروں کی حرکت اس طرح ہو رہی ہے کہ جیسے کسی سیال چیز میں کوئی شے تیر رہی ہو ۔ ان آیات کا اصل مقصد علم ہئیت کے حقائق بیان کرنا نہیں ہے بلکہ انسان کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھے اور عقل سے کام لے تو زمین سے لے کر آسمان تک جدھر بھی وہ نگاہ ڈالے گا اس کے سامنے خدا کی ہستی اور اس کی یکتائی کے بے حد و حساب دلائل آئیں گے اور کہیں کوئی ایک دلیل بھی دہریت اور شرک کے ثبوت میں نہ ملے گی ۔ ہماری یہ زمین جس نظام شمسی میں شامل ہے اس کی عظمت کا یہ حال ہے کہ اس کا مرکز ، سورج زمین سے 3 لاکھ گنا بڑا ہے ، اور اس کے بعید ترین سیارے نیپچون کا فاصلہ سورج سے کم از کم 2 ارب 79 کروڑ 30 لاکھ میل ہے ۔ بلکہ اگر پلوٹو کو بعید ترین سیارہ مانا جائے تو وہ سورج سے 4 ارب 60 کروڑ میل دور تک پہنچ جاتا ہے ۔ اس عظمت کے باوجود یہ نظام شمسی ایک بہت بڑے کہکشاں کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے ۔ جس کہکشاں ( Galaxy ) میں ہمارا یہ نظام شمسی شامل ہے اس میں تقریباً 3 ہزار ملین ( 3 ارب ) آفتاب پائے جاتے ہیں ، اور اس کا قریب ترین آفتاب ہماری زمین سے اس قدر دور ہے کہ اس کی روشنی یہاں تک پہنچنے میں 4 سال صرف ہوتے ہیں ۔ پھر یہ کہکشاں بھی پوری کائنات نہیں ہے ، بلکہ اب تک کے مشاہدات کی بنا پر اندازہ کیا گیا ہے کہ یہ تقریباً 20 لاکھ لولبی سحابیوں ( Spiral nebulae ) میں سے ایک ہے ، اور ان میں سے قریب ترین سحابیے کا فاصلہ ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی روشنی 10 لاکھ سال میں ہماری زمین تک پہنچتی ہے ۔ رہے بعید ترین اجرام فلکی جو ہمارے موجودہ آلات سے نظر آتے ہیں ، ان کی روشنی تو زمین تک پہنچنے میں 10 کروڑ سال لگ جاتے ہیں ۔ اس پر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسان نے ساری کائنات دیکھ لی ہے ۔ یہ خدا کی خدائی کا بہت تھوڑا سا حصہ ہے جو اب تک انسانی مشاہدے میں آیا ہے ۔ آگے نہیں کہا جا سکتا کہ مزید ذرائع مشاہدہ فراہم ہونے پر اور کتنی وسعتیں انسان پر منکشف ہوں گی ۔ تمام معلومات جو اس وقت تک کائنات کے متعلق بہم پہنچی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پورا عالم اسی مادے سے بنا ہوا ہے جس سے ہماری یہ چھوٹی سی ارضی دنیا بنی ہے اور اس کے اندر وہی ایک قانون کام کر رہا ہے جو ہماری زمین کی دنیا میں کار فرما ہے ، ورنہ یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ ہم اس زمین پر بیٹھے ہوئے اتنی دور دراز دنیاؤں کے مشاہدے کرتے اور ان کے فاصلے ناپتے اور ان کی حرکات کے حساب لگاتے ۔ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ ساری کائنات ایک ہی خدا کی تخلیق اور ایک ہی فرمانروا کی سلطنت ہے ؟ پھر جو نظم ، جو حکمت ، جو صناعی اور جو مناسبت ان لاکھوں کہکشانوں اور ان کے اندر گھومنے والے اربوں تاروں میں پائی جاتی ہے اس کو دیکھ کر کیا کوئی صاحب عقل انسان یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ ہو گیا ہے ؟ اس نظام کے پیچھے کوئی حکیم ، اس صنعت کے پیچھے کوئی صانع ، اور اس مناسبت کے پیچھے کوئی منصوبہ ساز نہیں ہے ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ چاند اور سورج دونوں اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں، سورج کی مجال نہیں ہے کہ وہ چاند کے مدار میں داخل ہوجائے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سورج کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ رات کے وقت جب چاند افق پر موجود ہو، اس وقت نکل آئے، اور رات کو دن بنا دے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:40) لا ینبغی مضارع واحد مذکر غائب انبغاء مصدر (انفعال) ینبغی ان یکون کذا کا محاورہ دو طرح استعمال ہوتا ہے۔ (1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو۔ جیسے النار ینبغی لھا ان تحرق الثوب یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے۔ انہی معنی پر محمول یہ آیۃ شریفہ ہے۔ وما علمنہ الشعر وما ینبغی لہ۔ (36:69) اور ہم نے ان کو شعر گوئی نہیں سکھائی اور نہ ہی ان کی فطرت میں یہ خاصہ ہے۔ اور انہی معنی میں آیۃ ہذا ہے لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر۔ سورج کی مجال نہیں کہ چاند کو جا پکڑے (یہ خاصیت اس میں ودیعت ہی نہیں کی گئی) ۔ (2) یہ کہ وہ اس شے کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے فلان ینبغی ان یعطی لکرمہ۔ فلاں کے لئے اپنے کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے۔ اس معنی میں یہ آیہ شریفہ ہے وھب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی (38:35) اور مجھ کو ایسی بادشاہی عطا کر کہ میرے بعد وہ کسی کو میسر نہ ہو۔ سابق۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ سبق (باب ضرب ونصر) مصدر۔ آگے بڑھنے والا مضاف النھار (دن) مضاف الیہ۔ سابق النھار ، دن سے آگے بڑھ جانے والا۔ یعنی نہ رات دن سے آگے نکل جانے والی ہے۔ مراد یہ ہے کہ دن اور رات ایک دوسرے کے آگے پیچھے مقررہ نظام کے تحت چل رہے ہیں کسی کی مجال نہیں کہ اس نظام سے انحراف کرے۔ کل۔ ای کل واحد من الشمس والقمر یعنی سورج اور چاند میں سے ہر ایک۔ تنوین مضاف الیہ کے عوض میں لائی گئی ہے فلک۔ ستاروں کا مدار۔ وہ بیضوی، صوری راہ جس پر اجرام فلکی گردش کرتے ہیں الفضاء یدور فیہ النجم والکواکب۔ الفلک کے معنی کشتی کے ہیں ستاروں کا مدار کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہلاتا ہے فلک کی جمع فلائک ہے اور فلک کی جمع افلاک ہے۔ اس سے فلکی علم نجوم کے ماہر کو کہیں گے اور علم الافلاک علم نجوم کو۔ فلک یفلک فلکا وافلاکا۔ (لڑکی کا) گول پستان والی ہونا۔ اسی سے الفلک بمعنی التل المستدیر من الرمل ریت کا گول ٹیلہ ہے پھر اسی رعایت سے اجرام فلکی کا مدار گول نما ہونے کی وجہ سے الفلک ہوا۔ یسبحون۔ مضارع جمع مذکر غائب سبح (باب فتح) مصدر۔ وہ تیرتے ہیں۔ وہ تیز اور ہموار رفتار سے چلتے ہیں۔ السبح کے اصل معنی پانی یا ہوا میں تیز رفتاری سے گذر جانے کے ہیں۔ استعارۃ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے۔ کل فی فلک یسبحون (سب (سورج، چاند و دیگر اجرام فلکی) اپنے اپنے مدار میں تیزی کے ساتھ چل رہے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی کیا سورج، کیا چاند اور کیا ستارے ( جن میں زمین بھی شامل ہے) ہر ایک کا اپنا ایک فلک ( مدار) ہے جس میں وہ تیر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے کروڑوں ستاروں میں سے ہر ایک مدار دوسرے سے الگ بنایا ہے اور ایسا نظام قائم کیا ہے کہ کوئی ستارہ دوسرے کے مدار میں آ کر اس سے ٹکراتا نہیں اور باقاعدگی سے اپنے مدار میں گھوم رہا ہے اور یہ نظام قیامت تک چلتا رہے گا۔ یقینا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اللہ ذرا اس عظیم کائنات اور ان عظیم اجرام فلکی کی لطیف تنظیم کی طرف اشارہ فرماتا ہے اور اس تنظیم اور ترتیب کی وجہ سے کیا کیا مظاہر پیدا ہوتے ہیں ؟ غور کیجئے ! لا الشمس ینبغی ۔۔۔۔۔ فلک یسبحون (36: 40) ” نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں “۔ ہر ستارے اور سیارے کے لیے ایک فلک ہے یا اس کا اپنا مدار ہے۔ اپنی رفتار اور گردش میں وہ اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ ستاروں اور سیاروں کے درمیان عظیم فاصلے ہیں۔ زمین سورج کے درمیان 73 ملین میل کا فاصلہ ہے اور چاند زمین سے 240 ملین میل دور ہے۔ لیکن یہ فاصلے بھی اپنی اس دوری کے باوجود شمسی کہکشاں اور اس کے قریب ترین دوسری کہکشاں کے قریب تارے سے چار نوری سال دور ہے۔ اور نوری سال میں ٹائم کا تعین یوں کیا گیا ہے کہ جس میں روشنی کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سکینڈ ہو گویا سورج کی کہکشاں سے قریب ترین ستارہ ایک سو چار ملین میل دور ہے۔ اللہ جو اس کائنات کا خالق ہے ، اس نے ستاروں اور سیاروں کو درمیان اس قدر عظیم فاصلے پیدا کیے ہیں اور جس نے اس عظیم کائنات کا یہ عجیب نقشہ تیار فرمایا ہے تاکہ اسے باہم تصادم اور ٹکراؤ سے بچایا جائے اور یہ نظام یونہی جاری رہے الایہ کہ اللہ تعالیٰ قیامت برپا کر دے اس لیے سورج کے اندر یہ قوت نہیں ہے کہ وہ چاند کو جالے۔ اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے نہ اس کے مقابلے میں کھڑی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جس گردش کی وجہ سے روزوشب پیدا ہوتے ہیں وہ جاری ہے۔ لہٰذا ان دونوں میں سے کوئی دوسرے سے آگے نہیں ہوسکتا اور نہ دوسرے کی راہ روک سکتا ہے۔ وکل فی فلک یسبحون (36: 40) ” اور سب ایک فلک میں تیر رہے ہیں “۔ فضائے کائنات میں ان سیاروں اور اجرام فلکی کی حرکت یوں ہے جس طرح سفینہ سمندر میں تیر رہا ہوتا ہے۔ یہ بحری جہاز اپنی عظمت کے باوجود اس عظیم سمندر میں ایک سیاہ نکتہ ہی ہوتا ہے۔ انسان حیران اور ششدر رہ جاتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ لاکھوں سیارے اور جرم فلکی اس وسیع فضائے کائنات میں بکھرے پڑے ہیں اور تیر رہے ہیں۔ ہر سیارے اور اجرام فلکی کے اردگرد ایک وسیع فضا ہے اور وہ دوسرے سے بہت دور ہے اور ان سیاروں اور اجرام کا حجم بہت بڑا ہونے کے باوجود اس وسیع فضا میں وہ ایک نکتہ ہیں ۔ بہت ہی معمولی نکتہ ! !

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سورج چاند کو نہیں پکڑ سکتا اس کے بعد چاند اور سورج کی رفتار اور رات دن کی آمد کے نظام بےمثال کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : (لا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَہَا اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ ) (کہ نہ سورج کی یہ مجال ہے کہ چاند کو جا کر پکڑ لے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے) مطلب یہ ہے کہ آفتاب رات کو محو نہیں کرسکتا، جو چاند کے منور ہونے کا وقت ہے۔ اور دن کا جتنا وقت مقرر ہے اس وقت کے ختم ہونے سے پہلے رات نہیں آسکتی، رات آگے بڑھ کر دن کا کچھ حصہ اپنے اندر لے لے اور مقررہ نظام کے خلاف دن گھٹ جائے اور رات بڑھ جائے ایسا کوئی اختیار نہ رات کو ہے نہ دن کو ہے، (وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ ) (اور سب ایک ایک دائرہ میں تیر رہے ہیں) فلک گول چیز کو کہتے ہیں جس کا ترجمہ دائرہ سے کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ چاند اور سورج کی حرکت مستدیر ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(40) نہ آفتاب کی یہ مجال کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے آگے بڑھ سکتی ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں چکر لگایا کرتے ہیں اور تیرتے رہتے ہیں۔ یعنی نہ آفتاب کو یہ طاقت کہ وہ چاند کو رات میں آپکڑے نہ رات کی یہ مجال کہ وہ قبل از وقت دن سے آگے آجائے۔ ان میں سے ہر ایک یعنی چاند سورج اور سیارے غرض تمام اجرام علویہ اپنے اپنے دائرے پر اس طرح چلتے رہتے ہیں جیسے وہ تیر رہے ہیں۔ شاید فلک کہنے سے افلاک سبعہ کی طرف اشارہ ہو کیونکہ اجرام علویہ کے دوائر مختلف افلاک میں بتاتے ہیں۔ (واللہ اعلم) غرض ! جملہ اجرام علویہ اور اجسام فلکیہ اس کے حکم کے ماتحت اور اس کے تابع ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ جملہ ذرات زمین وآسمان مظہر سرحیاتست اے جواں کے تو اندیا فتن آں راخرد ہست او سرے خرد کے پے بردۃ